• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میت کے چھوٹے روزے اور حج کی قضا

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ سوالات ہیں جو میرے ذہن میں کھٹک رہے ہیں آپ کو جب فرصت ملے تو ان کے جوابات ضرور بهیجیں میں آپ کا ممنون و مشکور ہوں گا۔
1 - ایک ایسا شخص جس نے بغیر کسی عذر کے رمضان المبارک کے پانچ روزے چھوڑ دیئے اور کچھ ہی دنوں بعد اس کا انتقال ہوگیا تو کیا اسکے چھوڑے ہوئے روزے ایصال ثواب کیلئے رکھے جائیں گے؟
2 - ایک ایسا شخص جس کے پانچ فرض روزے بیماری کی وجہ سے یا سفر کی وجہ سے چھوٹ گئے اور پهر اس کا انتقال ہوگیا تو کیا اسکی طرف سے وہ 5 روزے ایصال ثواب کیلئے رکھے جائیں گے؟
3 - ایک ایسا شخص جس کے اوپر حج فرض ہو چکا تھا مگر اس کے باوجود اس نے حج کی ادائیگی نہیں کی اور اس دنیا سے چلا گیا تو کیا اسکی طرف سے ایصال ثواب کیلئے حج کیا جائے گا
اور اگر ہاں تو یہ سارے اعمال کون کرے گا اسکی اپنی اولاد یا پهر کوئی بھی کرسکتا ہے ؟۔
سوالات بذریعہ واٹس ایپ بواسطہ شیخ عبدالغفار سلفی مہراج گنج

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب (1): جس نے سستی یا غفلت میں جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے پانچ روزہ چھوڑا اس حال میں کہ وہ روزہ کی فرضیت کا منکر نہیں ہے تو علماء کے صحیح قول کی روشنی میں اس کے ذمہ ان پانچ روزوں کی قضا لازم ہے ، ساتھ ہی بغیر عذر کے روزہ ترک کرنے سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے اس وجہ سے سچی توبہ کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس مسئلہ کو سامنے رکھتے ہوئے میت کے چھوٹے ہوئے پانچ روزے رکھے جائیں گے ۔ اور یہ روزہ میت کا ولی یعنی سرپرست وذمہ دار یا اس کی اولاد میں سے کوئی ایک یا سبھی اولاد مل کر رکھیں گے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
کچھ علماء نے کہا ہے کہ عمدا روزہ چھوڑنے کی قضا نہیں مگر معاملہ میت کا ہے رکھنا بہتر معلوم ہوتا ہےتاکہ اللہ کے فضل سے اسے کچھ فائدہ ہوجائےاور کچھ لوگ میت کی طرف سے صرف نذر کے روزے رکھنا جائز قرار دیتے ہیں رمضان کے چھوٹے روزے نہیں ۔ ان کا کہنا ہےکہ رمضان کے چھوٹے ہرروزہ کے بدلے مسکین کو نصف صاع اناج صدقہ کرے مگر احادیث کے عموم سے رمضان کے روزوں کی قضا ہی بہتر ہے گوکہ صدقہ دینے سے بھی کفایت کرجائے گا۔
جواب (2): ایسا میت جس نے بیماری یا سفر کی وجہ سے پانچ روزے چھوڑ دئے اور اسی بیماری میں وفات ہوگئی یعنی قضا کی مہلت نہیں ملی تو نہ میت کے ذمہ کچھ ہے اور نہ ہی اس کے وارثین کے ذمہ ۔ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کا فضل بہت وسیع ہے ۔ لیکن وہ میت جس سے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے اور انہیں قضا کی مہلت ملی مگر کسی عذر سے قضا نہ کرسکا تو پھر ان روزوں کی قضا وارثین کے ذمہ ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ(البقرۃ:184)
ترجمہ : اورجوکوئی مریض ہو یا پھر مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من مات وعليه صيامٌ, صام عنه وليُّه.( صحيح البخاري:1952، صحيح مسلم:1147)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا۔
مسند احمد کی روایت میں صاف لفظ رمضان کے روزوں کی قضا کا ذکر ہے ۔
أتتهُ امرأةٌ فقالت : إنَّ أمي ماتت وعليها صومُ شهرِ رمضانَ أَفَأَقْضِيهِ عنها قال : أرأيتُكِ لو كان عليها دَيْنٌ كنتِ تقضيهِ قالت : نعم قال : فَدَيْنُ اللهِ عزَّ وجلَّ أَحَقُّ أن يُقْضَى( مسند أحمد)
ترجمہ: ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی، میری امی فوت ہوگئی ہیں ، ان پررمضان کے ایک مہینے کے روزے ہیں ، کیا میں ان کی طرف سے قضاکروں ؟ آپﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر اس پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتی؟ تو انہوں نے کہا ۔ہاں ۔ آپ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔
بعض محدثین نے رمضان کا لفظ نقل کرنے والوں کی خطا قرار دیا ہے مگر علامہ احمد شاکرنے مسند احمد کی تحقیق میں اس لفظ کو ثابت مانا ہے اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔ دیکھیں :( المسند ،تحقیق احمد شاکر: 5/141)
یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی وارد میں ہے مگر رمضان کا لفظ نہیں ہے اس سے ظاہر ا معلوم ہوتا ہے کہ دو الگ الگ واقعہ ہوگا ایک مرتبہ عورت نے سوال ہو اور دوسری مرتبہ مرد نے سوال کیا ہو۔ نیز اس روایت اور دیگر روایت کے عموم کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جائے گا کہ میت کے چھوٹے روزوں کی قضا ہے ۔
جواب (3): مسلمان کو جب حج کرنے کی مالی استطاعت ہوجائے اسے فورا حج کرنا چاہئے کیونکہ غفلت وسستی سے تاخیر کرنے پر گنہگار ہوگااور اس حال میں وفات ہوجائے تو ایک فریضہ کی ادائیگی کا تارک مانا جائے گا مگر جس کے پاس عذر ہو تو اس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں اور ایسا میت جس پر حج فرض تھا مگر سستی یا عذر کی وجہ سے حج نہیں کرسکا تو بعد میں اس کے ولی کو چاہئے کہ وہ خود میت کے پیسےسے حج کرے یا کسی دیانتدار مسلمان سے حج بدل کرائے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
أنَّ النَّبيَّ صلى الله عليه وسلم سمعَ رجلاً يقولُ: لبَّيْكَ عن شبرمة. قالَ: من شبرمةَ؟ قالَ: أخٌ لي أو قريبٌ لي. قالَ: حججتَ عن نفسِكَ؟ قالَ: لا. قالَ: حجَّ عن نفسِكَ ثمَّ حجَّ عن شبرمةَ.(صحيح أبي داود:1811)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا لبيك عن شبرمة( میں شبرمہ کی طرف سے حاضر ہوں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:شبرمہ کون ہے ؟ تواس نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا قریبی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا تم نے اپنی طرف سے حج کر لیا ہے ؟ اس نے کہا ، نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے اپنی طرف سے حج کرو ، پھر شبرمہ کی طرف سے کرنا ۔
اسی طرح میت کی طرف سے بخاری شریف کی یہ روایت بھی دلیل ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
أنَّ امرأةً من جُهينةَ، جاءت إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقالت : إن أمي نذرت أن تحجَّ، فلم تحج حتى ماتت، أفأحجُّ عنها ؟ قال : نعم، حجي عنها، أرأيتِ لو كان على أمكِ دينٌ أكنتِ قاضيتِة ؟ . اقضوا اللهَ، فاللهُ أحقُّ بالوفاءِ .(صحيح البخاري:1852)
ترجمہ: قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کرسکیں اور ان کا انتقال ہو گیا تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ان کی طرف سے تو حج کر۔ کیا تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا قرضہ تو اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ کا قرض ادا کرنا بہت ضروری ہے۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اگر میت کے اوپر حج فرض تھا مگر اس نے ادا نہیں کیاتو اس کے وارثین میں سے کوئی جس نے پہلے اپنا حج کرلیا ہو وہ میت کے مال سے میت کی طرف سے حج ادا کرے گا خواہ میت نے حج کی وصیت کی ہو یا نہ کی ہو ۔ اگر وارثین میں سے کسی نے پہلے اپنا حج نہیں کیا ہو تو کسی دوسرے ایسے دیانتدار مسلمان سے حج بدل کرایا جائے گا جو پہلے اپنا حج کر چکا ہو۔
واللہ اعلم
کتبہ
مقبول احمدسلفی
 
Top