• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میراث الانبیاء

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
(میراث الانبیاء)

الحمد للہ و الصلوٰۃ و السلام علیٰ رسول الله

یقیناً اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد اور میثاق کر رکھا ہے کہ
وہ لوگوں کے لئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں
جو انکی خاطر نازل کی گئی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَهُ ۔۔۔۔۔}

"اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی
اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے
اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اس کی بات کو نہ چھپانا"
(آل عمران : 187)
اور
وہ لوگ اللہ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپا لیں
فرمایا

{اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللهُ وَيَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُونَ}

"بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں
(کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں،
جبکہ ہم نے انہیں لوگوں (کو سمجھانے) کیلئے
اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے،
سو ایسوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں"
(البقرۃ : 159)

فرمانِ نبوی صلی الله عليه وسلم :

((أَلَا ! لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا ھَیْبَةُ النَّاسِ أَنْ یَّقُوْلَ بِحَقٍّ اِذَا عَلِمَهُ))
"خبردار !
کسی آدمی کو لوگوں کی ہیبت حق کہنے سے ہرگز نہ روکے
جب کہ
اسے حق کا علم ہو"
(سنن ابن ماجه، حدیث : 4007)

<|۔۔۔۔۔انبیاء علیھم السّلام کی بعثت کا بڑا مقصد۔۔۔۔۔|>

فرمان باری تعالیٰ ہے:

{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت}

"اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ
اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو"
(النحل : 36)

اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں (جن و انس) پر طاغوت کا کفر و انکار اور
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔

فرمانِ الٰہی :

{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِاسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَھَا ۔۔۔۔}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا
تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو کبھی ٹوٹتا نہیں"
(البقرۃ : 256)

((عن ابی ھریرۃ قال قال
رسول الله
یجمع اللہ الناس یوم القیامة، فیقول :
من کان یعبد شیئًا فلیتبعه،
فیتبع من کان یعبد الشمس الشمس،
ویتبع من کان یعبد القمر القمر، ویتبع من کان یعبد الطواغیت الطواغیت))

ابو ہریرہ رضی اللہ عنه روایت کرتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ
جو کوئی جس کی بندگی کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے
پس
سورج کی عبادت کرنے والے سورج کے ساتھ جائیں گے
اور
چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے ساتھ جائیں گے
اور
طواغیت کی بندگی کرنے والے طواغیت کے ساتھ جائیں گے۔"
(صحیح بخاری : 7437)

اور فرمایا:

"جو شخص ہمیشه مال کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے
وہ طاغوت کے راستے میں ہے اور وہ شیطان کے راستے میں ہیں"
(سلسلة الاحادیث الصحیحة: 2232)

نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

((لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِی وَلاَ بآبائِکُم))
"طواغیت کی قسمیں نہ کھاؤ اور نہ ہی اپنے باپ دادا کی۔"
(مسلم : 1648)

<|۔۔۔۔طاغوت کیا ہے؟ ۔۔۔۔|>

۔۔۔صحابه کرام رضی الله عنہم کے نزدیک طاغوت کا مفہوم۔۔۔

عمر بن خطاب رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد شیطان ہے"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)

عکرمه رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد کاہن ہیں"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)

جابر بن عبداللہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت وہ ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لے کر جاتے ہیں
جہنیه قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اسلم قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اور
اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا ہے
یہ کاہن ہوتے ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں"
(بخاری کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)

انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد اپنی امت کو طاغوت سے بچانا تھا
اب جو انسان طاغوت سے نہیں بچتا،
وہ تمام انبیاء علیھم السّلام کی مخالفت کرتا ہے۔


طاغوت ہر وہ چیز ہے
جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور
وہ اپنی عبادت کیے جانے یا کروائے جانے پر راضی ہو
طاغوت خدائی کے جھوٹے دعویدار کو کہتے ہیں

انبیاء علیھم السّلام اور اولیاء
اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے تھے
اور
وہ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن تھے
اس لئے وہ طاغوت نہیں ہیں
چاہے لوگ ان کی بندگی کریں۔

امام مالک رحمة الله فرماتے ہیں:
"ہر وہ چیز جس کی
اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے
"طاغوت" کہلاتی ہے"
(ھدایة المستفید : 1222)

امام ابن قیم رحمة الله
طاغوت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
"ہر وہ ہستی یا شخصیت طاغوت ہے
جس کی وجہ سے بندہ اپنی حدِ بندگی سے تجاوز کر جاتا ہے
چاہے وہ معبود ہو،
یا پیشوا،
یا واجب اطاعت،
چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ شخص ہوتا ہے
جس سے وہ
الله تعالىٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کو چھوڑ کر فیصلہ کراتے ہوں،
یا
اللہ کو چھوڑ کے اس کی عبادت کرتے ہوں،
یا
الٰہی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں،
یا
ایسے امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں
جن کے بارے میں انہیں علم ہے کہ
یہ اللہ کی اطاعت نہیں"
(ھدایة المستفید : 1219)

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمة الله فرماتے ہیں:
اللہ کے علاوہ جتنے معبود اور طاغوت ہیں
جب تک ان سے اجتناب نہ کیا جائے
اور
ان کا جب تک انکار نہ کیا جائے
اس وقت تک کسی شخص کا اسلام صحیح نہیں ہوسکتا
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور
اللہ پر ایمان لے آیا
اس نے مضبوط کڑا تھام لیا"
(البقرۃ : 256)

سلمان بن عبداللہ رحمة اللہ کہتے ہیں:
مجاہد کا قول ہے کہ

"طاغوت انسان کی صورت میں شیطان ہوتا ہے
جس کے پاس لوگ تنازعات کے فیصلے لیجاتے ہیں"
(تیسیر العزیز الحمید : 49)

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمة الله فرماتے ہیں:

کفر بالطاغوت کا مطلب یہ ہے کہ
غیر اللہ کی عبادت کو باطل سمجھا جائے
اسے چھوڑ دیا جائے
اس سے نفرت کی جائے
اس کے ماننے والوں کو کافر سمجھا جائے
ان سے دشمنی کی جائے

اللہ پر ایمان کا معنی ہے کہ
اکیلے
اللہ کو معبود ماننا عبادت کی تمام اقسام اس کے لیے خاص کرنا
ہر اس معبود سے ان صفات کی نفی کرنا
جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو

اللہ تعالیٰ کے
خاص بندوں سے محبت اور دوستی کی جائے
مشرکوں اور کافروں سے نفرت کی جائے
یہی
وہ ملتِ ابراہیم ہے جس سے اعراض کرنے والے کو
اللہ تعالیٰ نے بیوقوف قرار دیا ہے

{قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ
وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ
اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہُ...}

"تمہارے لئے بہترین نمونه ابراہیم علیه السّلام
اور ان کے ساتھیوں میں
جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ
ہم بیزار ہیں تم سے اور جن کی تم
اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو
ہم تمہارے اس عمل کا انکار کرتے ہیں
ہمارے اور تمہارے درمیان
دشمنی اور نفرت ظاہر ہوچکی ہمیشہ کے لئے
جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لے آؤ"
(الممتحنة : 4)
(الدرر السنة : 161/10)

ہر وہ شخص جس کی
اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو،
اور
وہ اپنی عبادت پر راضی ہو،
چاہے وہ معبود بن کے ہو،
پیشوا بن کے،
یا
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی
اطاعت سے بے نیاز،
واجب اطاعت بن کے ہو،
طاغوت ہوتا ہے"
(الجامع الفرید : 265)

طاغوت تو بے شمار ہیں
مگر
ان کے سَرکردہ و سَربَر آوردہ پانچ ہیں:

(1) ابلیس لعین۔

(2) ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور
وہ اس فعل پر رضا مند ہو۔

(3) جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہو
اگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو۔

(4) جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔

(5) جو شخص
اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے۔

اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں۔

پہلا درجہ یہ ہے۔۔
کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے
مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے
تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا۔

دوسرا درجہ یہ ہے۔۔
کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے منحرف ہو کر
یا تو خود مختار بن جائے
یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے
یہ شرک و کفر ہے۔

تیسرا درجہ یہ ہے۔۔
کہ
وہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے۔
جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے
وہ طاغوت ہے
اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا
جب تک وہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا...}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور
اللہ پر ایمان لے آیا
اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں"
(البقرۃ : 256)

شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے
جو غیر اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے

{اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُ وا الشَّیْطٰنَ اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ}
"اے اولاد آدم'
کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ
شیطان کی عبادت نہ کرنا'
وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے"
(یٰسین : 60)

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
شیطان کی اطاعت شیطان کی عبادت ہے

رسول اللہ صلی الله عليه وسلم
نے فرمایا:
جو شخص "لا اله الا اللہ" کا اقرار کرے اور
الله کے سوا جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرے
اُس کا مال و خون مسلمانوں پر حرام ہوگیا اور
اس کے دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
(مسلم کتاب الایمان ج ا : ص 73)

غور فرمائیے!
کہ
صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے مال و جان حرام اور محفوظ نہیں ہوسکتی
بلکہ
مسلمانوں کی تلوار سے جان و مال
اس وقت حرام ہوگی
جب ان معبودوں کا انکار کر دیا جائے
جن کی
اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے۔

مگر آج
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن جن کی عبادت ہو رہی ہے
اکثر لوگ اُن کی تردید نہیں کرتے
جبکہ
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرو

وہ مشرک و کافر اور جابر و ظالم حکمران
جو فیصلے کے لیے الله کے احکامات کا پابند نہ ہو
بلکہ
انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے
وہ طاغوت (شیطان) ہے

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ....
ھُمُ الظّٰالِمُونَ....ھُمُ الفَاسِقُونَ}
"اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے
تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں.... وہ ظالم ہیں.... وہ فاسق ہیں"
(المائدۃ : 44 ، 47)

دوسرے مقام پر
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے
جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں:

{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِه وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا}
"کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا
جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ
جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے
اُس پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ
(اپنا مقدمہ) طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں
حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور
شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے"
(النساء : 60)

اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ذیشان ہے:

{لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِهِ اَحَدًا}
"اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا"
(سورۃ الکھف : 26)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ}
"خبردار رہو! سب مخلوق اسی کی ہے اور (لہذا سب) حکم بھی اُسی کا ہے"
(الاعراف : 54)

{اِنِ الحُکْمُ اِلَّا ِللہِ }
"حکم و قانون (چلانا) صرف اللہ کا حق ہے"
(یوسف : 40)

آپ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

{اِنَّ اللہَ ھُوَ الحُکْمُ وَاِلَیْهِ الحُکْمُ}
"اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور فیصلہ بھی اسی کا ہے"
(ابی داؤد)

طاغوت سے دشمنی و بغاوت کوئی نفلی عبادت نہیں ہے
جس کا کر لینا صرف بلندی درجات کا سبب ہو
بلکہ
طاغوت اللہ کے دین کا سب سے بڑا دشمن ہے
اس دشمن سے بغض و حقارت کا اظہار ایمان کا حصہ،
نجات کا سبب اور
انبیاء علیہما السّلام کا بنیادی مشن ہے۔

{اَفَحُکْمَ الجَاھِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوقِنُوْنَ}
"(اگر یہ اللہ کے قانون سے منہ موڑتے ہیں)
تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں؟
اور
جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک
اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔!!
(المائدۃ : 50)

ایک اللہ کی عبادت کرنے
اور
اس عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کا نام توحید ہے
یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے،
جس کی تعلیم دے کر
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا
سب سے پہلے
رسول نوح علیه السّلام ہیں
اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا
جنہوں نے وَدْ ، سُوَاع ، یَغُوْث ، یَعُوْق اور نَسْر
جیسے صالحین کے بارے میں غلو کرنا شروع کیا۔

سب سے آخری
رسول محمد صلی الله عليه وسلم ہیں'
آپ نے مذکورہ بزرگوں کے مجسّموں کا خاتمہ فرمایا
آپ جس قوم کی طرف بھیجے گئے
وہ اللہ کی عبادت کرتے،
حج (و عمرہ) کرتے، صدقہ و خیرات کرتے
اور
اس کا ذکر بھی کیا کرتے تھے
لیکن اس کے ساتھ ہی
وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بعض مخلوق
مثلاً
ملائکه، عیسیٰ علیه السّلام، مریم یا دوسرے نیک لوگوں کو واسطہ و وسیلہ بناتے تھے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ
ان کے ذریعے سے
اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور
اس کے ہاں ان کی شفاعت کے امیدوار ہیں۔
ایسے حالات میں
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی الله عليه وسلم کو بھیجا،
تاکہ
آپ اپنے باپ ابراہیم علیه السّلام کے دین کی تجدید فرمائیں اور
لوگوں پر یہ واضح کر دیں کہ
یہ تقرب اور ہر قسم کا توکل اللہ تعالیٰ کا حق ہے
کسی اور کا تو ذکر ہی کیا
کسی
مقرب فرشتے یا رسول کے بارے میں بھی یہ عقیدہ نہیں رکھا جاسکتا
کہ
ان کا تقرب حاصل کیا جائے.

۔۔۔۔۔توحید ربوبیت اور مشرکین کا عقیدہ۔۔۔۔۔

مشرکین مکہ اس بات کا اقرار کرتے اور گواہی دیتے تھے کہ
اللہ تعالیٰ ہی خالق و رازق ہے۔
صرف وہی مارتا اور جلاتا ہے۔
وہی اکیلا کائنات کا مالک و متصرف ہے۔
آسمان و زمین اور ان میں بسنے والے سب اس کے غلام اور ماتحت ہیں
جیسا کہ

اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:

{قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ اْلسَّمَآءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْأَمْرَ
فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُوْنَ}
"پوچھو تو سہی،
تم کو آسمان اور زمین سے روزی کون دیتا ہے
کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور
مُردہ سے زندہ اور زندہ سے مُردہ کون نکالتا ہے اور
تمام کاموں کو کون چلاتا ہے
اس کے جواب میں یہ (مشرک) ضرور کہیں گے کہ
اللہ
پھر تم پوچھو کہ پھر شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو؟"
(یونس : 31/10)

دوسری جگہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (84)
سَیَقُولُوْنَ ِلِلہ قَلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ (85)
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86)
سَیَقُوْلُوْنَ ِللہِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (87)
قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (88)
سَیَقُوْلُوْنَ ِللہِ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ (89)

"ان سے پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے، کس کا ہے،
اگر تم جانتے ہو

وہ فوراً کہیں گے کہ
اللہ کا ہے
کہو پھر تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے

ان سے پوچھو کہ
ساتوں آسمانوں اور بڑے تخت (عرش عظیم) کا مالک کون ہے
وہ ضرور یہی کہیں گے کہ
اللہ
کہو پھر تم اس سے کیوں نہیں ڈرتے

ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ
ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے
اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا

وہ ضرور کہیں گے کہ
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں،
کہو پھر تم کدھر سے جادو کر دئیے جاتے ہو"
(المؤمنون : 89-84)

مشرکین ان تمام چیزوں کا اقرار کرتے تھے
اور
دن رات اللہ تعالیٰ کو پکارتے بھی تھے
لیکن
اس کے باوجود اس دائرہ توحید میں داخل نہیں ہو سکے
جس کی رسول صلی الله عليه وسلم انہیں دعوت دیتے تھے
یعنی توحید عبادت
پھر
بعض مشرکین ایسے بھی تھے
جو فرشتوں کو پکارتے تھے
تاکہ یہ فرشتے
اللہ کے مقرب ہونے کے ناطے ان کی شفاعت کر دیں اور بعض کسی نیک انسان
مثلاََ
"لات" یا
کسی نبی مثلاََ عیسیٰ علیه السّلام کو پکارتے تھے۔
اور
آپ کو یہ معلوم ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیه وسلم نے
اس شرک پر ان مشرکین سے قتال کیا
اور انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا،
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ ِللہِ فَلَا تَدْعُواْ مَعَ اللہِ اَحَدًا}
" مسجدیں اللہ ہی کی عبادت کے لئے ہیں، تو
اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"
(الجن : 18/82)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

{لَهُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِن دُونِهِ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْءٍ}
"اسی (اللہ) کو پکارنا حق ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں
وہ ان کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے"
(الرعد : 14/13)

رسول الله صلی الله علیه وسلم نے
ان مشرکین سے اس لئے قتال کیا تاکہ ہر قسم کی دعا،
تمام
نذرونیاز اور ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو
اور
ہر قسم کی مدد اللہ تعالیٰ سے طلب کی جائے،
صرف
توحید ربوبیت کا اقرار انہیں شرک سے نکال کر اسلام میں داخل نہیں کر سکا
بلکہ
ملائکہ، انبیاء اور اولیاء کو پکارنے اور انہیں
اللہ تعالیٰ کے ہاں شفارشی سمجھنے کی وجہ سے
ان کے جان و مال کی حفاظت اسلام نے اپنے ذمہ نہ لی۔

<|۔۔۔کلمہ توحید کا مفہوم۔۔۔|>

مذکورہ تفصیل کے بعد اس توحید کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے،
جس کی دعوت انبیاء و رسل نے دی
اور
کلمہ "لا اله الا اللہ " کا مطلب بھی یہی ہے،
جس کا انکار مشرکین نے کیا
مشرکین "اله" سے خالق و رازق اور مدبر مراد نہیں لیتے تھے
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
خالق و رازق اور مدبر صرف اللہ ہے
بلکہ "اله" ان کے نزدیک وہ ذات ہوتی تھی
جسے
وہ اللہ کا قریبی یا اللہ کے ہاں شفارشی یا
اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ و وسیلہ سمجھ کر
اس کی طرف رجوع کرتے،
خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، ولی ہو یا درخت، قبر ہو یا کوئی جن۔

اللہ کے رسول صلی الله عليه وسلم نے
انہیں کلمہ توحید ((لا اله الا اللہ)) کی دعوت دی
اس کلمہ کا مطلب صرف الفاظ کا اقرار نہیں
بلکہ اس کا معنی و مطلب مراد تھا۔

جاہل کافر جانتے تھے کہ
اس کلمہ سے
رسول صلی الله عليه وسلم کی مراد یہ ہے کہ
صرف اللہ کی ذات سے تعلق رکھا جائے،
اس کے علاوہ عبادت یا پوجا کی جانے والی تمام چیزوں کا انکار اور
ان سے براءت کا اعلان کر دیا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیه وآله وسلم نے
جب ان سے
((لا اله الا الله ))" کہنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا:

{أَجَعَلَ الْاٰلِھَةَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ}
"کیا اس نے سب معبودوں کو ایک معبود کر دیا، یہ تو بڑی انوکھی بات ہے"
(ص : 5/38)

یہ جاننے کے بعد کہ
اَن پڑھ کافر بھی اس کلمہ کا مطلب جانتے تھے،
ان لوگوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے
جو اسلام کے دعویدار ہیں اور
کلمہ طیبہ کا اتنا مطلب بھی نہیں جانتے
جتنا جاہل کفار جانتے تھے
بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ
معنی و مفہوم کا دل میں عقیدہ رکھے بغیر
صرف الفاظ کا ادا کر لینا ہی کافی ہے۔

ان میں جو زیادہ سمجھ دار اور عقل مند سمجھے جاتے ہیں
وہ اس کلمہ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ
خالق و رازق اور کائنات کا انتظام کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
ظاہر بات ہے کہ
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہوسکتی ہے،
جس سے زیادہ جاہل کفار
((لا اله الا اللہ)) کا مطلب جانتے تھے۔

جب آپ نے مذکورہ بالا تفصیلات سمجھ لیں اور اس شرک کو جان لیا
جس کے بارے میں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ...}
"یقیناََ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا
اور اس کے سوا
جسے چاہے بخش دیتا ہے"
(النساء : 48/4)

<|۔۔۔توحید کے فوائد۔۔۔|>

یہ جان لینے کے بعد کہ تمام انبیاء کرام کا دین کون سا ہے،
جس کے علاوہ کوئی بھی دین
اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور یہ کہ
آج لوگوں کی اکثریت اس دین سے کس قدر غافل اور جاہل ہے،
اس سے آپ کو
دو اہم فائدے حاصل ہوں گے۔

(1) اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر خوشی:

جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ}
"اے پیغمبر!
کہہ دو کہ
اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ان کو خوش ہونا چاہیئے،
یہ اس سے بہتر ہے جو وہ سمیٹتے ہیں"
(یونس : 58/10)

(2)اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر:

اللہ تعالیٰ کا خوف اس وقت اور زیادہ ہو گا
نیز راہ نجات کی جستجو مذید بڑھ جائے گی
جب آپ یہ جان لیں کہ بسا اوقات
انسان کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ اسے کفر تک پہنچا دیتا ہے
کبھی تو
اس کے منہ سے نادانی و جہالت میں یہ لفظ نکل جاتا ہے
اور
جہالت کی وجہ سے وہ معذور نہیں سمجھا جائے گا
اور یہ سمجھ کر وہ ایسی بات بول جاتا ہے کہ
یہ چیز اسے اللہ سے قریب کر دے گی، جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔

اس سلسلہ میں خاص طور پر
موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کا واقعہ سامنے رکھیں کہ
انہوں نے
علم و فضل اور صلاح و تقویٰ کے باوجود موسیٰ علیہ السّلام سے مطالبہ کیا۔

{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَةٌ}
"جیسے ان لوگوں کے پاس معبود ہیں
ایسا ہی ایک معبود ہمارے لئے بھی بنا دو"
(الأعراف : 138/7)

<|۔۔۔انبیاء کے دشمن۔۔۔|>

یہ بات بھی مدِنظر رکھیں کہ
اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت رہی ہے کہ
اس نے اس توحید کی دعوت دے کر جتنے بھی نبی و رسول بھیجے،
ان انبیاء و رسل کے دشمن بھی پیدا فرمائے،
جیسا کہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا}
"ہم نے اسی طرح شریر آدمیوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنایا،
وہ ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے"
(الانعام : 112/6)

بعض اوقات
دشمنان توحید علوم و معارف اور دلائل و کتب سے بھی مسلح ہو سکتے ہیں،
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَلَمَّا جَآءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِندَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ...}
"پس جب کبھی ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو
وہ اپنے علم پر اترانے لگے"
(المؤمن : 83/40)

<|۔۔۔۔دین اسلام جاننا ضروری ہے۔۔۔۔|>

جب آپ نے یہ جان لیا کہ
اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کے دشمن
(کبھی کافر و مشرکین کی شکل میں،
کبھی اسلام کے لبادے پہن کر منافقین اور مرتدین کی شکل میں)
بیٹھے ہوئے ہیں
جو
علم و فصاحت اور دلیل سے مسلح بھی ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ
دین کا اتنا علم تو ضرور حاصل کریں
جو ان دشمنان دین سے مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہو سکے،

جن کے امام اور پیش رو ابلیس نے

اللہ عزوجل سے کہا تھا:

{لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُم مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ
وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ}
"میں بھی تیری سیدھی راہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا،
پھر ان کے پاس ان کے آگے سے، ان کے پیچھے سے
ان کی داہنی طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا
اور تو
اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا"
(الاعراف : 17-16/7)

لیکن اگر آپ
اللہ تعالیٰ سے لَو لگائیں
اور
اس کی آیات و بینات و برھان پر کان دھریں تو
آپ کو کوئی خوف و غم نہیں ہونا چاہیئے
کیونکہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا}
"بے شک شیطان کا مکرو فریب بودا ہے"
(النساء : 76/4)

ایک عام موحد ان مشرکوں و کافروں کے ہزار علماء پر بھاری ہوتا ہے ۔

ارشاد الہی ہے:
{وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ}
"بےشک ہمارا ہی لشکر غالب ہوگا"
(الصافات : 173/37)

پس دلیل و برہان کے میدان میں بھی اللہ کا لشکر ہی غالب ہوگا
جس طرح کہ تیر و تلوار کے ذریعے وہ غالب آتے ہیں
البتہ خطرہ اس موحد کو ہے جو ہتھیار کے بغیر راہ حق میں نکل پڑا ہو
اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسی کتاب عطا فرمائی ہے،
جس کے بارے میں

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ}
"جو ہر چیز کو بیان کرنے والی نیز مومنوں کے لئے سراپا ہدایت و رحمت اور خوشخبری ہے"
(النحل : 89/16)

اہل باطل جو بھی دلیل لے کر آتے ہیں،
یہ کتاب اس دلیل کا جواب دیتی اور
اس کا بطلان واضح کر دیتی ہے،
جیسا کہ

قرآن کریم کا اعلان ہے:

{وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا}
"یہ جب کوئی نیا اعتراض تیرے پاس لائیں گے
تو ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفسیر آپ کو بتا دیں گے"
(الفرقان : 33/25)

بعض مفسرین کا قول ہے کہ
یہ آیت اہل باطل کی ہر اس بات کے مقابلے میں دلیل ہے
جسے وہ قیامت تک پیش کرتے رہیں گے۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
كلمه توحید "لا اله الا الله" کی شرائط

شرط کا معنی یہ ہے کہ
جب وہ نہ پائی جائے تو مشروط بھی موجود نہ ہو
مگر یہ ضروری نہیں کہ
جب بھی شرط پائی جائے تو مشروط بھی پایا جائے۔
شرط مشروط سے مقدم ہوتی ہے
یعنی مشروط سے پہلے شرط کا ہونا لازم ہے
شرط کی اس اہمیت کی بنا پر ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ
وہ توحید کی شرائط معلوم کرے اور ان کو اپنے اندر پیدا کرے
اس لئے کہ
ان شروط کہ نہ ہونے سے توحید بھی معدوم ہو جاتی ہے اور
توحید ایمان کی بنیاد ہے گویا ایمان ہی ناپید ہوجاتا ہے
جس طرح کہ نماز کی شرائط میں سے اگر کوئی شرط
یعنی قبلہ رخ ہونا، ستر ڈھانپنا وغیرہ فوت ہو جائے تو
نماز ہی باطل ہو جاتی ہے
اس لئے کہ
نماز کی صحیح ادائیگی اور قبولیت کے لئے یہ شرائط ہیں
ان کی عدم موجودگی میں نماز نہیں ہوتی
اسی طرح توحید کی شرائط اگر نہ ہوں تو توحید بھی نہیں ہوگی۔

شرط کا لغوی معنی علامت ہے اور یہاں اس سے مقصود وہ چیز ہے
جس کا پہچاننا اور اس پر عمل کرنا ہر مکلّف پر لازم ہے
تاکہ وہ ظاہری و باطنی طور پر موحد ہو۔

خوب جان لو:

کلمہ توحید لا اله الا اللہ کی 9 شرائط ہیں

علم:
پہلی شرط تو یہ ہے کہ
کلمہ لا اله الا اللہ کہتے وقت
انسان نے اس کا معنیٰ اور مطلب جان لیا ہو اور یہ خوب ذہن نشین کر لیا ہو
کہ
اس کلمہ سے کن کن باتوں کی نفی ہوتی ہے اور کن کن باتوں کا اِثبات۔

یقین:
دوسری شرط یہ ہے کہ
اس کلمہ میں جو بات آئی انسان کو اُس پر پورا یقین اور وثوق ہوگیا ہو،
جو کہ اس کلمہ کو (دل و دماغ) سے جاننے کا ہی اعلیٰ درجہ ہے
یہ ایک ایسا یقین ہو کہ
جس کے ہوتے ہوئے کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔

قبول کرنا یا انقیاد:
("انقیاد" عملی اور ظاہری طور پر تابع فرمان ہو جانا ہے)
تیسری شرط یہ ہے کہ
انسان خلوصِ دل کے ساتھ، اللہ کی خوشنودی طلب کرتے ہوئے،
اس کلمہ کے حقوق یعنی فرائض و واجبات ادا کرنے پر کار بند ہونا قبول کر چکا ہو۔

تسلیم یا تابعداری:
("تسلیم" قلبی و باطنی طور پر تابع ہونا)
چوتھی شرط یہ ہے کہ
انسان نے اس کلمہ کے حقوق کو (ظاہر میں ہی نہیں) دل سے مان لینا بھی قبول کر لیا ہو،
یوں کہ
اس کی کوئی بات رد کر دینے کا اس کے ہاں تصور تک باقی نہ رہ گیا ہو۔

صدق اور وفاء:
پانچویں شرط ہے
(اس کلمہ کے ساتھ) صدق اور وفاء،
یہاں تک کہ
(اس کلمہ کے معاملے میں) دروغ اور منافقت کا وتیرہ خارج از امکان ہو گیا ہو۔

اخلاص:
چھٹی شرط
اخلاصِ (نیت) ہے، یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہ گیا ہو۔

محبت و وارفتگی:
ساتویں شرط یہ ہے کہ
انسان کو اس کلمہ اور اس کے معنی اور مفہوم سے ایک محبت و وارفتگی ہو گئی ہو اور اس کلمہ سے اس کو ایک سرور ملنے لگا ہو۔

طاغوت کا انکار :
آٹھویں شرط
توحید کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے کفر بالطاغوت
یعنی طاغوت کا انکار بھی ایک شرط ہے۔

اس کلمے پر موت آنا:
نویں شرط یہ ہے کہ
ان تمام شرائط کے ساتھ اسی کلمے پر اس کی موت واقع ہو؛
تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرسکے۔

انشاء الله ہر شرط کی الگ الگ وضاحت کی جائے گی۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کلمه توحید "لا اله الا اللہ" کی شرائط

شرط 1:- - - - - علم - - -

انسان کا لا اله الا اللہ کہنا معتبر کب ہو گا؟

انسان نے خوب اچھی یہ جان لیا ہو کہ
لا اله الا اللہ اس سے کہتا کیا ہے

لا اله الا اللہ
اس سے کن کن باتوں کا بطلان و انکار کراتا ہے اور
کس کس بات کا اِثبات

یعنی اتنا کافی نہیں کہ انسان کلمہ کا 'اُردو ترجمہ' جانتا ہو
بلکہ یہ بھی مطلوب ہے کہ
کلمہ میں جو نفی اور جو اِثبات ایک باقاعدہ انداز میں بیان ہوتا ہے
آدمی یا عورت اس کی حقیت کو جانے۔
یعنی اس بات کو سمجھے کہ
یہ کلمہ اس سے کس بات کی نفی کراتا ہے اور کس بات کا اِثبات۔

نفی اور انکار واضح طور پر اس بات کا کہ
غیر اللہ (جنوں و انسانوں اور دوسری کوئی مخلوق) کی کبھی ذرہ بھر عبادت اور پوجا و پرستش ہو۔
انکار صاف صاف اس بات کا کہ
غیر اللہ کو کبھی بھی پکارا جائے یا انسان کی زندگی میں اپنی مرضی چلانے کا غیر اللہ کو ذرہ بھر کوئی اختیار ہو

اقرار اور اِثبات واضح انداز میں اس بات کا کہ
بندگی، گرویدگی، نیاز، پرستش، اطاعت، فرمانبرداری، وفاداری اور دعا و التجا کو
اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کر دیا جائے اور پورے اخلاص کے ساتھ بندگی کے ان سب امور کو انسان
صرف اور صرف اللہ وحدہ لا شریک کیلئے ہی سزاوار جانے

جب تک "کلمہ" کے اندر پائی جانے والی "نفی" اور "اِثبات"
ہر دو کا علم حاصل نہ کیا گیا اور عین اُسی ترتیب سے حاصل نہ کیا گیا
جس ترتیب سے یہ "نفی" اور "اِثبات" کے اندر وارد ہوئے ہیں۔۔۔۔
تب تک "کلمہ" کا مفہوم نا مکمل رہے گا

یعنی
1... ایک تو اِس کلمہ میں وارد نفی اور اِثبات کی دلالت،
اور
2... دوسرا، اس نفی اور اِثبات کی ترتیب

یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ضروری ہے، اِثبات ہے۔
مگر لا اله الا اللہ کی شہادت کے حوالہ سے یہ اِثبات بے معنی ہے،
جب تک کہ اِس "اثبات" سے پہلے ایک "نفی" نہیں آتی اور
وہ یہ کہ غیر اللہ کی عبادت اور پرستش سراسر 'باطل' ہے

"کلمه" کی عین یہی ترتیب؛ "انکار" پہلے اور "اقرار" بعد میں۔

"نفی" پہلے اور "اِثبات" بعد میں

"باطل" کو مسترد کرنا پہلے اور "حق" کو تسلیم کرانا بعد میں۔

غیر اللہ کی عبادت و پرستش کا بطلان پہلے اور
الله کی عبادت و بندگی و فرماں برداری کا بیان بعد میں

الله کے ماسوا پوجی جانے والے ہستیوں کی دہلیز سے برگشتہ و بیزار ہونے کی بات پہلے اور
اللہ کے در پر آبیٹھنے کی بات بعد میں

"طاغوت" کے ساتھ "کفر" پہلے اور "اللہ" پر "ایمان" اس کے بعد

یہی کلمه لا اله الا اللہ کی تفسیر ہے،
یہی اس کا معنیٰ اور یہی اس کا مفہوم:

فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدْ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی
یعنی جس نے کفر (انکار) کیا طاغوت کے ساتھ اور
وہ ایمان لایا الله کے ساتھ وہی ہے جس نے 'عروۃ الوثقیٰ' کو تھام لیا۔
(البقرۃ:256)
جبکہ سورۃالبقرۃ کی اس آیت میں مذکور
"عروة وثقیٰ" (مضبوط ترین سہارا) کی تفسیر میں کوئی مفسر کہتا ہے
اس سے مراد ہے لا اله الا اللہ،
اور کوئی مفسر کہتا ہے اس سے مراد ہے اسلام
(جو کہ دو الگ الگ چیزیں نہیں؛
"لا اله الا اللہ" ہی "اسلام" ہے اور "اسلام" ہی "لا اله الا اللہ" ہے)
مراد یہ ہے کہ
جس نے کفر کیا
طاغوت (الله کے ماسوا عبادت کی جانے والی ہستیوں) کے ساتھ اور
وہ ایمان لایا الله کے ساتھ وہی ہے
جو لا اله الا اللہ کو تھام لینے میں در حقیقت کامیاب ہوا اور
وہی ہے جو اسلام کے سہارے کو تھام لینے میں بالفعل کامیاب ہوا

بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا
ایک ایسا مضبوط ترین سہارا جو کبھی شکستہ ہونے والا نہیں۔
جسے انسان تھام لے تو وہ دنیا اور آخرت میں ہر جگہ کام دے اور
کبھی اللہ کے ہاں اس کو بے سہارا نہ رہنے دے

جب لا اله الا اللہ ہی اسلام کا اصل مدعا ہے تو
اسی کو سب سے پہلے اور خوب سمجھ کر جاننا چاہیے۔
یہ بات محض کوئی فضائل اور نوافل میں شمار ہونے والی چیز نہیں
بلکہ مسلمان ہونے کیلئے ایک بنیادی شرط ہے

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فاعلم انه لا اله الا اللہ
"اس بات کو جان لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے"
(محمد:19)

اللہ کے بارے میں یہ علم اس لئے ضروری ہے کہ
اللہ کے ایک ہونے اور
اکیلے ہی مستحق عبادت ہونے سے لاعلمی بندے کے قبول اسلام میں رکاوٹ ہے
اس لئے
کسی بھی انسان پر اسلام قبول کرنے کیلئے اللہ کی وحدانیت اور مستحق عبادت ہونے کا علم لازم ہے

نبی کریم صلی الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:

[من مات وھو یعلم انه لا اله الا اللہ دخل الجنة]
جو اس حال میں مرگیا کہ وہ اس بات کا علم رکھتا تھا کہ
اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے تو یہ آدمی جنت میں داخل ہوگا
(صحیح مسلم)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمه الله فرماتے ہیں کہ
اہل سنت والجماعت کے علماء نے لا اله الا اللہ کے معنی
اس کے منافی اور اس کو ثابت کرنے والے امور ذکر کئے ہیں
جن کا جاننا ضروری ہے کہ انکا جاننا اللہ نے ضروری قرار دیا ہے

ابوالمظفر وزیر کہتے ہیں کہ
لا اله الا اللہ ایک گواہی ہے اور
جو شخص کسی بات کی گواہی دے رہا ہو تو اس پر لازم ہوتا ہے کہ
وہ اس بات سے واقف ہو جس بات کی گواہی دے رہا ہے
لہذا جو مسلمان لا اله الا اللہ کا اقرار کر رہا ہے
اسے اس شہادت اور گواہی کے بارے میں علم ہونا چاہئیے
اس لئے کہ اس کا حکم الله نے دیا ہے کہ:
فَاعْلَمْ اَنَّهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا الله
اس بات کو جان رکھو کہ اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے

یعنی الوہیت صرف اسی کے لئے واجب ہے کوئی اس کا حق نہیں رکھتا
اس طرح اس کلمه سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
طاغوت کا انکار لازم ہے اللہ پر ایمان ضروری ہے
جب کوئی انسان تمام مخلوق سے الوہیت کی نفی کر کے
صرف الله کے لئے اسے ثابت کرتا ہے تو
یہ کفر بالطاغوت اور ایمان باللہ ہے
(الدررالسنیة 2/ 216)

شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن ابابطین کہتے ہیں
اللہ کا فرمان ہے۔
ھٰذَا بَلٰغُ لِّلنّاسِ وَلِیُنْذَرُوْا بِه وَلِیَعْلَمُوْا اَنَّمَا ھُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ
"یہ لوگوں تک پہنچانا ہے اور تاکہ اس کے ذریعہ سے (یہ انبیاء) لوگوں کو متنبہ کریں اور یہ لوگ جان لیں کہ
وہ اکیلا معبود ہے اور تاکہ عقلمند نصیحت حاصل کریں"
(ابراهيم :52)

اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے لیعلموا انما ھو اله فرمایا ہے جس کا معنی ہے تاکہ
وہ اللہ کی وحدانیت کا علم حاصل کریں یہ نہیں فرمایا کہ
لیقولوا انما ھو اله وہ کہیں کہ وہ الله ہی اکیلا معبود ہے یعنی
صرف کہنا نہیں بلکہ جاننا ضروری ہے

دوسری آیت میں فرمایا
اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ
"جس نے حق کی گواہی دی اور وہ اس کا علم بھی رکھتے ہوں"
(زخرف 86)

اس آیت میں "حق" جس کی شہادت دینا مقصود ہے،
سے مراد لا اله الا اللہ ہے۔
کیونکہ اسی کی شہادت انسان کو نجات اور شفاعت کا مستحق بناتی ہے۔
مگر اس پر شرط یہ لگائی کہ :
وَھُمْ یَعْلَمُوْن "اس حال میں کہ وہ جانیں"۔
یعنی انہیں معلوم ہو کہ وہ "حق" کیا ہے
جس کی وہ شہادت دے رہے ہیں

سوچ سمجھ کر اور علم و شعور رکھتے ہوئے
لا اله الا اللہ کی شہادت دینا ہی باعثِ نجات ہے نہ کہ بے سوچے سمجھے اور بغیر اس کا معنی و مراد جانے محض اس کے الفاظ بول دینا

یعنی جس بات کا زبان سے اقرار کر رہے ہیں اس کے بارے میں علم بھی ہو علماء نے اس آیت اور اس طرح کی دوسری آیات سے استدلال کیا ہے کہ
انسان پر سب سے پہلے الله کے بارے میں معلومات حاصل کرنا واجب ہے
لا اله الا اللہ کے بارے میں علم بھی سب سے اہم فرائض میں سے ہے اور اس کلمه کے معنی سے لاعلمی سب سے بڑی جہالت ہے
مگر آج کل کچھ لوگ ایسے بھی ہیں
جب ان کے سامنے لا اله الا اللہ کا معنی و مفہوم بیان کیا جاتا ہے اور
انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی و مطلب کو سیکھیں یاد رکھیں
تو وہ کہتے ہیں کہ
اسلام نے ہم پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی کہ
ہم لا اله الا اللہ کا معنی بھی سمجھیں
تو ان سے یہ عرض ہے کہ آپ پر توحید کو سمجھنا فرض اور لازم ہے
وہ توحید جس کے لئے
الله نے جن اور انسانوں کو پیدا کیا ہے اور
تمام رسولوں کو توحید سمجھانے اور
اس کی طرف دعوت دینے کے لئے ہی مبعوث فرمایا ہے
اور یہ بھی انسان پر لازم ہے کہ
وہ توحید کے مخالف اور متضاد عمل سے بھی واقفیت حاصل کرے یعنی شرک سے جس کی مغفرت کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔
اگر کوئی لاعلمی کی بنا پر بھی شرک کر
بیٹھے تو یہ بھی ناقابل معافی ہے اس بارے میں عدم واقفیت کا عذر قبول نہیں ہوگا
اس طرح شرک میں کسی کی تقلید و پیروی بھی جائز نہیں
جس طرح توحید اسلام کی بنیاد ہے
اس طرح شرک اس بنیاد کو ختم کر دینے والا ہے
لہذا اس میں کسی قسم کی معذرت قابل قبول نہیں ہوتی
اس لئے کہ جو شخص معروف کو جانتا ہے اس پر لازم ہے کہ
وہ منکر کو بھی معلوم کرے تاکہ اس سے اجتناب کرسکے
خاص کر سب سے اہم معروف یعنی توحید اور اہم منکر یعنی شرک۔
(الدررالسنیة 12/ 58)

شیخ عبدالطیف بن عبدالرحمن فرماتے ہیں
شیخ محمد بن عبدالوھاب کا قول ہے کہ
صرف لفظی طور پر
لا اله الا اللہ کی شہادت بغیر معنی و مطلب کے سمجھے کافی نہیں ہے
اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کئے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا
اللہ تعالیٰ نے منافقین کو زبانی اقرار کے باوجود جھوٹا قرار دیا
جیسا کہ ارشاد ہے

{اِذَا جَآءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْ نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللہِ وَاللہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہُ وَاللہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ}
جب آپ صلی الله عليه وسلم کے پاس منافقین آکر یہ کہیں کہ
ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ
آپ الله کے رسول ہیں
اللہ جانتا ہے کہ آپ الله کے رسول ہیں
اللہ یہ گواہی دیتا ہے کہ منافقیں جھوٹے ہیں۔
(المنافقوں:1)

حالانکہ انہوں نے
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار کے لئے
جو الفاظ استعمال کئے تھے وہ تاکید کا فائدہ دیتے ہیں
یعنی اپنے قول کو اچھی طرح ثابت کرنے کی کوشش کی
مگر اللہ نے بھی ویسے ہی الفاظ سے انکی تردید و تکذیب کر دی
اس سے معلوم ہوتا ہے که
ایمان کے لئے صدق و عمل دونوں لازمی ہیں تب ایمان کہلائے گا
اب اگر کوئی شخص لا اله الا اللہ کی گواہی زبان سے دیتا ہے
مگر غیر الله کی عبادت بھی کرتا ہے تو
اس کا یہ لفظی و زبانی دعوی کوئی حیثیت نہیں رکھتا
اگرچہ وہ نماز پڑھتا رہے
قربانیاں دے، روزے رکھے، حج كرے، جہاد کرے
دیگر اسلامی رسوم ادا کرتا رہے

اللہ کا ارشاد ہے
{اَفَتُوْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ}
تم کتاب کے کچھ حصہ پر ایمان لاتے ہو کچھ حصے کا انکار کرتے ہو؟
(بقرۃ:85۔ الدررالسنة 12/ 535)

لہذا
مسلمان پر جس طرح توحید کو سمجھنا اور اس کو اپنانا لازم ہے
اسی طرح تمام قسم کے شرکیہ افعال و اقوال سے اجتناب بھی ضروری ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنه کہتے ہیں کہ
ایک شخص رسول اکرم صلی الله عليه وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
دو واجب کرنے والی چیزیں کونسی ہیں؟
تو
آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا

[مَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللہِ دَخَلَ النَّارَ]
"جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ
وه کسی کو اللہ کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا
اور
جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ
وہ الله کے ساتھ شرک کرتا تھا وہ جہنم میں داخل ہوگا
(مسلم۔93)
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
كلمه توحید "لا اله الا الله" کی شرائط

شرط 2:- - - - - یقین - - -

یعنی
توحید اور لا اله الا اللہ کے معنی و مطلب کو سمجھنے کے بعد
اس پر یقین رکھنا اس میں کسی قسم کا شک نہ کرنا
اس بات پر دل سے یقین کرنا کہ
اللہ ہی تمام قسم کی عبادات کا اکیلا مستحق ہے
اس میں ذرا سا بھی شک یا تردد نہ کرے

اللہ تعالی نے مؤمنین کی یہی تعریف کی ہے اور
انہیں اپنے دعوی ایمان میں سچا قرار دیا ہے

{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللہِ وَ رَسُوْلِهِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ}

"مومن وہ لوگ ہیں
جو اللہ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم پر ایمان لائے اور
پھر شک نہیں کیا اور
اپنے اموال اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا
یہی لوگ سچے ہیں"
(الحجرات : 15)

اسی طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے

نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
"جس نے یہ گواہی دی کہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور
محمد میں اللہ کا رسول ہوں اور
پھر اس گواہی میں شک نہیں کیا تو وہ شخص جنت میں داخل ہو گا
(صحیح مسلم)

یقین اور وثوق دراصل ایمان کی جان ہے

لا اله الا اللہ کی دعوت کو
انسان نے پورے اعتماد اور دل کے اطمینان کے ساتھ قبول کر لیا ہو
یہ انسان کا ایک باقاعدہ فیصلہ ہو
لا اله الا اللہ کی حقیقت کو دل کی گہرائی میں اُترنا ہے
یہ حقیقت دل میں گہری نہ اترے گی تو
یہ انسان کی شخصیت کے ذریعے
دنیا میں اور عالم واقع میں بھی رونما نہ ہو سکے گی
یہی وجہ ہے کہ
علماء اسلام نے یقین اور وثوق کو
لا اله الا اللہ کی شہادت کیلئے ایک باقاعدہ شرط کے طور پر بیان کیا ہے

اس معاملہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ
اگر لا اله الا اللہ کی پہلی شرط۔۔۔۔۔۔۔علم۔۔۔۔۔۔۔پر محنت کر لی جائے تو
دوسری شرط کو پورا کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے
یعنی
اگر لا اله الا اللہ کی حقیقت کو سمجھنے اور جاننے پر صحيح محنت اور وقت صرف کیا گیا ہو تو
اس پر یقین اور وثوق اور اعتماد نفس میں پیدا کرنا نسبتاً آسان رہتا ہے
بلکہ اس عمل کی ترتیب ہے ہی یہ کہ
پہلے اس کی حقیقت کو سمجھا جائے اور پھر اس پر یقین محکم پیدا کیا جائے

یقین
دراصل ایک حقیقت کو دل و دماغ میں گہرائی سے جاننے کا اعلیٰ درجہ ہے

یہ بات خصوصاً اس لئے بھی اہم ہے کہ
اسلامی عقیدہ کوئی 'آبائی عقیدہ' نہیں
نہ ہی یہ کوئی ڈھکوسلہ ہے کہ
اس پر محض 'یقین' کر لینے کی دعوت دی جائے
حتی کہ
'شک' سے جو مراد دُنیا کے دھرموں اور مذہبوں میں لی جاتی ہے
اسلام میں 'شک' کا وہ تصور نہیں
کیونکہ
'یقین' سے جو ان مذاہب کے ہاں مراد ہے
اسلام میں یقین سے وہ مراد نہیں
لہذا
اسلام میں جو یقین مطلوب ہے
وہ علم، فہم اور شعور پر قائم ہوتا ہے اور اسی کا نتیجہ

پس عجب نہیں جو وحی کا پہلا لفظ ہی علم کی دعوت ہو!

رہا یہ کہ
اس یقین میں اضافہ کیونکر کیا جائے
تو سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ
اللہ سے مانگنے کی چیز ہے سو اُسی سے اِس کا بکثرت سوال کیا جائے
پھر
قرآن پڑھنے اور سمجھنے سے بڑھ کر اس کا عملاً کوئی اور نسخہ نہیں
پھر
اس کے بعد رسولوں کی دعوت اور
رسولوں کے مجاہدہ میں بار بار نگاہ دوڑانا اور غور و فکر کرنا ہے
پھر
کائنات کے واقعہ پر غور ہے
اس کے علاوہ ایمان والوں اور صالحین کی صحبت ہے
وہ لوگ جو
اس لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ کی حقیقت کو اپنے عمل اور مجاہدہ کی بنیاد بناتے ہیں

لا اله الا اللہ میں جو حقائق بیان ہوتے ہیں
وہ ہیں ہی کچھ ایسے کہ
یقین پیدا کئے بغیر وہ بے معنیٰ رہتے ہیں

اس کلمہ کو محض 'جان لینا' فائدہ مند ہے اور نہ کسی مسئلہ کا حل

بندگی بنیادی طور پر ایک دِل کا عمل ہے

الٰه وہ ہے
جس کو انسان ٹوٹ کر چاہیے اور
اس کی چاہت اور طلب اس کے روئیں روئیں میں اتری ہو

الٰه وہ ہے
جس کی عظمت اور سطوت کا انسان خوف کھائے

الٰه وہ ہے
جس کی خشیت انسان کے دل میں بیٹھی ہو

الٰه وہ ہے
جس سے انسان اُمید رکھے اور تب بھی اُمید رکھے
جب ہر کسی سے نا اُمید ہوجائے

الٰه وہ ہے
جس پر انسان سہارا کرے اور اسی کے سہارے جئے اور
اسی کو اپنے لئے نہایت کافی جانے

الٰه وہ ہے
جس سے انسان مانگ کر کھائے اور مانگ کر پئے
جس سے زندگی اور رزق اور ہر خوشی کا سوال کرے اور
مصیبت اور آفت سے جس کی پناہ چاہے

الٰه وہ ہے
جس کا کہا ٹالا نہ جائے اور
جس کی بات انسان کے لئے حرف آخر ہو اور اٹل قانون

الٰه وہ ہے
جس کے آگے انسان گھٹنے ٹیک دے اور
اپنی جبین نیاز کو سجدوں میں جھکائے

ان سب افعال کو غیر اللہ سے پھیر کر
ان کا رخ ایک اللہ واحد اَحد کی جانب پھیر دینا
جس بات کا متقاضی ہے وہ یقین ہے نہ کہ محض 'معلومات'
یہاں
ایک ایسا یقین درکار ہے جو شک کا امکان باقی نہ رہنے دے

لا اله الا اللہ اس ہدایت کا عنوان ہے
جس کو لے کر نبی صلی الله علیه وسلم مبعوث ہوئے ہیں
رسول صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
ہدایت پر یقین ہو تو ہی انسان کا کلمہ پڑھنا معتبر ہے

شک باقی رہے تو انسان حالتِ کفر سے باہر نہیں آتا

علمائے اسلام نے "کفر" کی چار قسمیں بیان کی ہیں
کفر کی اِن چار اَقسام میں سے ایک قسم "کفرِ شک" ہے
یعنی
انسان چاہے
نبی صلی الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین کو صاف جٹھلاتا نہ ہو اور
اگرچہ
وہ نبی صلی الله عليه وسلم کے لائے ہوئے حق کو سراہتا بھی ہو،
مگر
وہ آپ صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
ہدایت کی بابت دل میں اگر کچھ شک رکھتا ہو تو
وہ حالتِ کفر سے باہر نہیں

کلمه میں بتلائی گئی
ایک ایک بات اس کو حتمی حق نظر نہ آتی ہو اور
اس کے دل میں یہ خیال بیٹھا ہو کہ
ہو سکتا ہے یہی حق ہو اور ہو سکتا ہے اس کے معارض بات بھی حق ہو

مسجد انسان کو اللہ تک پہنچا سکتی ہے
تو کیا معلوم
مندر اور گرجا اور گوردوارہ بھی اس کو اللہ تک پہنچا دے

محمد صلی الله عليه وسلم کے طریقے پر الله کی عبادت صحیح ہے
تو کیا معلوم
پوپ اور برہمن اور گیانی کے طریقے پر عبادت کرنا بھی کچھ ایسا باطل نہ ہو

ایسا انسان خواہ جتنا مرضی کلمه پڑھتا ہو
اس کا کلمه پڑھنا معتبر ہرگز نہیں،
کیونکہ
ایسے انسان کے حق میں کلمه کی دوسری شرط پوری ہونے سے رہ گئی ہے؛
یعنی
اس بات میں کوئی شک وشبہہ نہ رکھنا کہ
صرف نبی صلی الله عليه وسلم کی بات ہی برحق ہے اور
اس کے راستے کے سوا ہر راستہ باطل ہے اور
یہ کہ
الٰه واحد کے سوا کسی کی عبادت اور پکارنا قطعی ہلاکت کا باعث ہے

اس میں جو شخص کوئی شک رکھتا ہے یا
جو شخص باطل ادیان و عقائد کے حاملین کے ساتھ رواداری کے مذہب کو فروغ دینے کیلئے اس حقیقت کو مشکوک اور محل نظر ٹھہراتا ہے
خواہ وہ کتنا ہی بڑا نمازی ہو اور
خواہ وہ کتنے ہی اسلام کے اعمال کرتا ہو مسمان بہرحال نہیں
کیونکہ
اس کا کلمه پڑھنا ہی علمائے عقیدہ کی نظر میں ابھی معتبر نہیں

لا اله الا اللہ کی صداقت پر قطعی یقین رکھنا اور
اس بابت ادنیٰ ترین شک نہ رکھنا کہ
لا اله الا اللہ سے متصادم راستے نرے جہنم کے راستے ہیں اور
اس بابت ذرہ بھر تامل نہ رکھنا کہ
اللہ کے ماسوا عبادت کی جانے والی ہستیاں نرے بت ہیں
جو پاش پاش ہونے کے قابل ہیں،
کلمه کی باقاعدہ شرط ہے
اس کے بغیر انسان مسلمان کیسا؟

حقیقت میں تو مومن وہ ہیں
جو اللہ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم پر ایمان لائے
پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے
اللہ کی راہ میں جہاد کرنے لگے وہی سچے لوگ ہیں

چنانچہ یہاں
اللہ تعالیٰ نے ان کے اللہ اور رسول پر ایمان کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ
وہ اس میں کسی شک یا شبہے کا شکار نہ ہوں
رہا وہ انسان جو اس ميں شک و شبہ رکھے تو وہ منافق ہوگا

ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا
پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا۔۔۔۔۔
گو یہاں
ثم لم یرتابوا وجاھدوا باموالھم وانفسھم فی سبیل اللہ کے الفاظ معطوف ہیں،
مگر دیگر شرعی دلائل اور قرائن سے واضح ہے کہ
جہاد فی سبیل اللہ تو ایمان کا تقاضا ہے نہ کہ ایمان کی شرط
البتہ ایمان کے حقائق پر شک نہ کرنا اور اسی پر دلجمعی اختیار کرنا
ایمان معتبر ہونے کی شرط ہے
پس
جس دل میں لا اله الا اللہ کی حقیقت پر وثوق کا ہی فقدان ہو اور
اس میں شک کا مادہ ہی کہیں موجود پڑا ہو اس کی کلمه گوئی بے فائدہ ہے
شک یقین کا نقیض ہے
شک باقی نہ رہنے کا مطلب یقین کا حصول ہے،
جو کہ لا اله الا اللہ کی دوسری شرط ہے اور
سورة حجرات میں اسی کی طرف اشارہ ہوا ہے
رہا یہ کہ
انسان شرک کے باطل ہونے میں کوئی شبہہ رکھے،
غیر اللہ کی بندگی کی رائج شکلوں کو مسترد کرنے میں
ابھی اس کو تعامل ہو یا
اللہ وحدہ لا شریک کے تنہا معبود ہونے کی بابت وہ کوئی شک رکھتا ہو
تو زبان سے بے شک
اس نے صحیح تلفظ کے ساتھ لا اله الا اللہ کہہ دیا ہو،
یہ اس کیلئے کافی ہے اور نہ فائدہ مند

یقین شک کی ضد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ
لا اله الا اللہ کا پڑھنے والا یہ اعتقاد رکھے کہ
صفاتِ الوہیت کا حق دار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور
اسے اس کی الوہیت پر ایسا یقینِ جازم ہو کہ
جس میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہو

[لَا یَلْقَیی اللہَ بِھِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فِیْھِمَا فَیُحْجَبُ عَنِ الْجَنَّةِ]
"جو بندہ بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ
اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ اسے ان میں کوئی شک نہیں تھا تو اسے جنت میں داخل ہونے سے کوئی چیز روک نہیں سکے گی"
(صحیح مسلم)

اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ
جنت سے دو قسم کے لوگوں کو روکا جائے گا
ایک کفار و منافقین جنہیں ہمیشہ کیلئے جنت سے محروم رکھا جائے گا
اور
دوسرے وہ موحدین جو بعض کبائر کے مرتکب تھے اور
انھوں نے مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تھی
انھیں ہو سکتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ عارضی طور پر جنت سے دور رکھے اور پھر شفاعت کے ذریعے انھیں جنت میں داخل کر دے

حدیث میں شہادتین کا اقرار کرنے والے اور
ان میں شک و شبہ نہ کرنے والے کو جنت کی بشارت دی گئی ہے
یہ اس بات سے مشروط ہے کہ
اقرار کرنے والا انسان ان کے معنی و مفہوم سے واقف ہو اور
ان کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو

اور جو آیت کریمه ہم نے اوپر ذکر کی ہے
اس میں (انما) حصر کا فائدہ دیتا ہے اور اس سے مقصود یہ ہےکہ
سچے مومن بس وہی لوگ ہیں
جن کا قول و فعل اور اعتقاد ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہوتا ہے

اس لئے اس کے آخر میں فرمایا

اُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ
یہی لوگ سچے ہیں

نیز اس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ
عمل ایمان میں شامل ہے
کیونکہ
اللہ تعالی نے ایمان کی خصلتوں میں جہاد فی سبیل اللہ بھی ذکر کیا ہے
اور
اس کی ایک اور دلیل صحیحین کی ایک حدیث ہے
جس میں
حضرت ابو حمزہ رضی اللہ عنه
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ
عبدالقیس کا ایک وفد
رسول صلی الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا
جسے رسول الله صلی الله عليه وسلم نے خوش آمدید کہا اور
اسے چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سےمنع کیا
جن چار باتوں کا
آپ صلی الله عليه وسلم نے انھیں حکم دیا ان میں سب سے پہلی بات تھی ایک اللہ پر ایمان لانا
رسول صلی الله عليه وسلم نے ان سے پوچھا:
کیا تم جانتے ہو کہ
ایمان باللہ کیا ہے؟
انھوں نے کہا
اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے
تو
آپ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :
یہ گواہی دینا کہ
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور
بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور
یہ کہ تم غنیمت کے مال سے پانچواں حصہ ادا کرو
(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

اس حدیث میں
رسول صلی الله عليه وسلم نے ایمان باللہ کی جو تفسیر فرمائی
اس میں اسلام کے اعمالِ ظاہرہ نماز، روزہ، اور زکاۃ کا ذکر بھی فرمایا
جو اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال ایمان ہی میں شامل ہیں۔
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کلمه توحید "لا اله الا اللہ" کی شرائط

شرط 3 :- - - - -قبول کرنا یا انقیاد- - -
("انقیاد" عملی اور ظاہری طور پر تابع فرمان ہو جانا ہے)

انسان خلوصِ دل کے ساتھ، اللہ کی خوشنودی طلب کرتے ہوئے،
اس کلمہ کے
حقوق یعنی فرائض و واجبات ادا کرنے پر کار بند ہونا قبول کر چکا ہو
اس کو "انقیاد" کہتے ہیں
"انقیاد" عملی طور اور ظاہری طور پر تابع فرمان ہوجانا ہے
ا"نقیاد" کا مطلب ہے حکم کی تعمیل
"انقیاد" رویے میں تابع فرمان ہو جانا ہے
یہ بات لا اله الا اللہ کی شہادت معتبر ہونے کیلئے شرط ہے
چنانچہ ظاہر میں اس حقیقت کے تابع ہوجانا
جو لا اله الا اللہ میں بیان ہوئی
کلمہ گو ہونے کیلئے باقاعدہ طور پر مطلوب ہے

عربی میں انقیاد کا لفظ قَادَ یَقُوْدُ کے مادہ سے انْقَادَ یَنْقَادُ باب انْفِعَال ہے "انقیاد" یعنی کوئی جیسے چلائے ویسے چلتے جانا،
بالکل ویسے ہی جیسے نکیل سے کھینچا جانے والا اونٹ جدھر کو چلایا جائے
اُدھر کو چلتا جاتا ہے
"انقیاد" کی یہی حقیقت ہے
پس لا اله الا اللہ کہتے وقت باقاعدہ طور پر یہ مطلوب ہے کہ
انسان کا بیرون اللہ کا تابع فرمان ہونے پر آمادہ ہو اور
اس پہلو سے
وہ "اسلام" يعنی اللہ کے آگے surrender ہونے کا باقاعدہ ایک عہد کرے
کلمہ پڑھتے وقت
انسان اللہ کا فرماں بردار رہنے کا گویا ایک باقاعدہ حلف اٹھاتا ہے

اب یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے:
"انقیاد" یہاں لا اله الا اللہ کی شرط کے طور پر بیان ہوا ہے
اس سے ظاہر ہے یہ مراد نہیں کہ
انسان پہلے ظاہر میں دین کے تمام احکام پر عمل پیرا ہو تو
پھر جا کر
لا اله الا اللہ کی یہ شرط (انقیاد) اس کے حق میں پوری ہو اور
تب تک انسان کی کلمہ گوئی کا اعتبار ہی معلق رہے
یعنی انسان اس وقت تک مسلمان ہی شمار نہ ہو

لا اله الا اللہ کہتے وقت جو "انقیاد" مطلوب ہے
وہ بس یہی ہے کہ
انسان اپنے آپ کو ظاہر میں لا اله الا اللہ کے حقوق کا پابند جانے اور
وہ ابتدائی آمادگی اس کے ہاں پوری طرح پائی جائے
جس کو اللہ کی فرماں برداری کا ایک عہد کہا جا سکتا ہو
اسلام میں داخل ہوتے وقت
(یعنی کلمہ زبان سے ادا کرتے وقت) ایسی ہی ایک آمادگی درکار ہوتی ہے
اللہ کا فرماں بردار رہنے کی یہ واضح دوٹوک آمادگی
ابتداءً اگر اس کے ہاں پائی جاتی ہے تو
اس کو "داخل اسلام" ماننے کی شروط میں سے
یہ شرط اس کے حق میں پوری ہوئی اور اس کا اسلام میں داخلہ معتبر ہوا
رہ گیا زندگی میں پل پل پر "انقیاد" کا عملاً ثبوت دیتے چلے جانا تو
وہ لا اله الا اللہ کے تقاضوں میں آتا ہے نہ کہ لا اله الا اللہ کی شروط میں

"شروط" وہ چیز ہیں جن کے پورا ہونے سے پہلے
ایک انسان کا مسلمان ہونا ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچے
البتہ
"تقاضے" وہ چیز ہیں
جس کی نوبت انسان کا "قبول اسلام" معتبر مانا جانے کے بعد آتی ہے

"شروطِ لا اله الا اللہ" کو عین ابتداء میں ہی
یعنی لا اله الا اللہ کہتے وقت ہی پورا، کرنا ہوتا ہے،
اس کے بغیر انسان کا کلمہ پڑھنا ہی معتبر نہیں
البتہ
جس چیز کو ہم "لا اله الا اللہ کے تقاضے" کہتے ہیں تو
اس کا معاملہ ساری عمر چلتا ہے
یعنی
'اعمال' کرنا تو دراصل لا اله الا اللہ کے اقرار کا تقاضا ہی ہے
نہ کہ اس کی شرط
البتہ
شریعت کے بتائے ہوئے 'اعمال' کرنے کیلئے ظاہراً ایک آمادگی اور استعداد کا
انسان کے یہاں پایا جانا لا اله الا اللہ کے اقرار کی بہرحال ایک شرط ہے

چنانچہ
کلمہ پڑھتے ہوئے اگر انسان کے ذہن میں یہ ہے کہ
کلمہ میں جو حقیقت بیان ہوئی،
ظاہراً اس کا تابع ہونے کے لئے اسے کچھ کرنا کرانا نہیں ۔۔
تو اس کا کلمہ پڑھنا غیر معتبر ہے

یہاں ایک اور مبحث واضح ہو جانا بھی ضروری ہے:
اللہ اور رسول صلی الله عليه وسلم کے آگے
کسی کی بات کو مقدم نہ ٹھہرانا اسلام کی ایک اساسی شرط ہے اور
عقیدہ کا ایک نہایت بنیادی مسئلہ

"انقیاد"
یعنی اپنی مہار اللہ اور اس کے رسول کو تھما دینا درحقیقت یہی ہے

رسول صلی الله عليه وسلم کی آواز کے آگے اپنی آواز اونچی ہو جانے دینا تک قرآن کے اندر ایمان کے منافی ٹھہرایا گیا ہے اور
اس پر سب اعمال برباد ہو جانے کی وعید سنائی گئی ہے

"اے ایمان والو!
مت بڑھاؤ اللہ اور رسول صلی الله عليه وسلم کے آگے کسی کو، اور ڈرتے رہو اللہ سے
بے شک اللہ سننے والا ہے جاننے والا
اے ایمان والو مت اونچی ہونے دو اپنی آوازیں
نبی صلی الله عليه وسلم کی آواز کے اوپر اور
نہ اس کے آگے یوں کھل کر بولا کرو
جیسے ایک دوسرے کے آگے کھل کر بول لیتے ہو
یہ نہ ہو کہ
تمہارے سب اعمال برباد ہو جائیں اس حال میں کہ تمہیں خبر بھی نہ ہو
(الحجرات 1-2)

امام ابن قیم رحمه الله
سورہ حجرات کی اِن آیات کے حوالے سے کہتے ہیں:

"نبی صلی الله عليه وسلم کی آواز کے آگے ان کا اپنی آواز اونچی کرلینا
اگر ان کے سب اعمال برباد ہوجانے کا باعث ٹھہرا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
تو پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ
نبی صلی الله عليه وسلم جو چیز لے کر اللہ کے یہاں سے آئے
یہ اس پر اپنی آراء کو مقدم ٹھہرائیں؟
یہ اپنے ذوق کو اس پر مقدم جانیں؟
اپنی سیاست کو اس پر مقدم رکھیں؟
اور اپنے فلسفہ و فکر کو اس پر مقدم کریں؟
یہ اپنی اِن (خانہ سازیوں) کو
نبی صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی بات کے اوپر کردیں؟
کیا یہ تو کہیں اولیٰ تر نہیں کہ
ان کے اس روئے اور وتیرے سے ان کے اعمال برباد ہو جائیں؟؟؟
(اِعلام الموقعین 51:1)

امام ابن قیم رحمه الله کے زمانے میں
معاملہ کی سنگینی شاید یہیں تک تھی اور وہ اسی پر تعجب کرتے ہیں کہ
کوئی شخص لا اله الا اللہ کا دعویٰ بھی کرتا ہو اور
پھر
نبی صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی ہدایت کے بالمقابل
اپنی رائے یا اپنے ذوق یا اپنی سیاست کو ہی مقدم جانتا ہو

امام ابن قیم رحمہ الله کے
زمانے میں مسلم معاشروں کے اندر ظاہر ہے
نبی صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
شریعت کے سوا کوئی قانون تھا اور نہ آئین
لیکن
اب آج اس بارے میں کیا خیال ہے کہ
نبی صلی الله عليه وسلم کے لائے ہوئے
قانون کے آگے کوئی اپنا قانون لے کر آئے؟
کوئی
نبی صلی الله عليه وسلم کے قانون سے متصادم قانوں کو 'مقدس' کہے؟
اس بارے میں کیا خیال ہے
نبی صلی الله عليه وسلم کی بات سے متصادم چیز کو
کوئی شخص باقاعدہ قانون جانے اور اس کا چلن کرنے اور کروانے کو
اپنی زندگی کا آئین اور معاشرے کا دستور مانے؟
کوئی
الله و رسول کی بات سے متصادم
قانون کی پابندی کرنے اور کروانے کا داعی ہو اور
اس بات کو وہ
ایک اچھے انسان اور اچھے شہری کی تعریف کا لازمی حصہ قرار دیتا ہو؟
کیا شک ہے کہ
ایسے شخص کے
حق میں شہادت لا اله الا اللہ کی وہ بنیادی ترین شرط ہی پوری نہیں ہوئی
جس کو علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں "انقیاد" کہا جاتا ہے

قرآنی استعمال میں بعض مقامات پر انقیاد کیلئے
'اسلام' کا لفظ بھی وارد ہوا ہے
خصوصاً دیکھئے سورۃ الحجرات کی آیت 14۔
اس سیاق میں 'اسلام' (انقیاد) سے مراد ہے اپنی نکیل دین کو تھما دینا

"انقیاد" کی
اس کیفیت کا انسان کے ظاہر میں کم از کم حد تک وجود پانا
ہر شخص کے حق میں لازم ہے
کیونکه
یہ شہادت کے اعتبار کے لئے باقاعدہ شرط ہے

"انقیاد" خضوع، تابعداری اور سر تسلیم خم کر دینے کو کہتے ہیں
اور یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ
لا اله الا اللہ اور اس کے تقاضوں کا ظاہری و باطنی طور پر تابع ہو جائے اور یہ اس وقت ہو گا
جب انسان
اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض پر عمل پیرا ہو اور
اسکی حرام کردہ چیزوں کو ترک کردے

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهُ مِن قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ}
"اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے مطیع بن جاؤ
اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے"
(الزمر: 54)

امام بغوی رحمہ الله
اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ کا معنی ہے
الله تعالیٰ کی طرف اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ لوٹنا اور
وَاَسْلِمُوْا لَهُ کا معنی ہے
اللہ تعالیٰ کیلئے توحید کو خالص کرنا
(تفسیر البغوی : 85/4)
اور

الشیخ ابن سعدی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جلدی رجوع کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا
وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ یعنی تم اپنے دلوں کے ساتھ اور
اسی طرح وَاَسْلِمُوْا لَهُ
یعنی اپنے اعضاء کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرو

اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ
جب صرف انابت کا حکم دیا جائے تو
اس میں دل اور اعضاء کے تمام اعمال شامل ہوتے ہیں
اور
جب انابت کے ساتھ اسلام وَاَسْلِمُوْا لَهُ کا حکم بھی ہو تو
انابت سے مراد دل کے ساتھ اور
اسلام سے مراد اعضاء کے ساتھ
الله کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے

اس آیتِ کریم میں اس بات کی دلیل ہے کہ
اخلاص ایک اہم شرط ہے
اگر اخلاص نہیں ہوگا
تو ظاہری و باطنی تمام اعمال کچھ بھی فائدہ مند نہیں ہونگے

اس کے بعد گویا یہ سوال کیا گیا کہ
انابت اور اسلام کیا ہے اور ان کی جزئیات اور ان کے اعمال کیا ہیں تو

اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

{وَاتَّبِعُوْا اَحسَنَ مَا اُنْزِلَ اِلَیکُمْ مِنْ رَّبِّکُمْ}
"اور تم سب اس بہترین کلام کی پیروی کرو
جو تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا"
(الزمر :55)
(تفسیر ابن السعدی : 332/4)

ان دونوں اماموں نے مذکورہ آیت کی جو تفسیر کی ہے
وہ دراصل اس سے پہلی آیتِ کریمہ سے ماخوذ ہے

جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{قُلْ یَا عِبَادِ یَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّهُ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ}
"آپ کہہ دیجئے:
اے میرے وہ بندو
جنہوں نے (گناہوں کا ارتکاب کر کے) اپنے آپ پر زیادتی کی ہے!
تم الله کی رحمت سے نا امید نہ ہو،
بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے،
وہ یقیناً بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے"
(الزمر : 53)

سو
الله تعالیٰ نے پہلے اپنی رحمت اور مغفرت کا ذکر کیا،
پھر یہ حکم دیا کہ تم سب اس کی طرف جلدی رجوع کرو اور
اپنے اعمال کے ساتھ اس کی فرمانبرداری ظاہر کرو
تاکہ تم اس کی رحمت اور مغفرت کو پاسکو
اور
نبی کریم صلی الله عليه وسلم کا یہ ارشاد بھی اس کی تائید کرتا ہے:

{بَادِرُوْا بِالْاعْمَالِ سِتًّا :
طُلُْوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِھَا، اَوِ الدُّخَانُ، اَوِ الدَّجَّالُ، اَوِ الدَّابَّةُ، اَوْ خَاصَّةُ اَحَدِکُمْ، اَوْ اَمْرُ الْعَامَّةٍ}
"تم چھ چیزوں کے آنے سے پہلے جلدی عمل کر لو:
سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، یا دھواں، یا دجال، یاجانور، یا تمھاری موت، یا قیامت۔"
(مسلم الفتن، باب فی بقیة من احادیث الدجال)

مذکورہ آیتِ کریمہ اور اس حدیث شریف میں ایک ہی حکم دیا گیا ہے اور
وہ ہے جلدی کرنا اور یہ انابت الی اللہ کا ایک حصہ ہے

نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَمَنْ أَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْھَهُ ِللہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وّلاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرَھِیْمَ حَنِیْفًا}
"باعتبار دین کے اس آدمی سے زیادہ اچھا کون ہوگا
جو اپنے آپ کو الله کے سامنے جھکا دے اور اس کا عمل بھی اچھا ہو اور ساتھ ہی موحد ابراہیم (علیه السّلام) کے دین کی پیروی کررہا ہو؟"
(النساء : 125)

یعنی اس آدمی سے بہتر کوئی نہیں
جس نے اپنے تمام اقوال و اعمال میں اسلام اور احسان دونوں کو جمع کیا
اور اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے ان میں
اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص اور رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کے لئے متابعت ظاہر کی

حافظ ابن کثیر رحمه الله کہتے ہیں
(اَسْلَمَ وَجْھَهُ ِللہِ) کا معنی ہے:
الله عذوجل کیلئے عمل کو خالص کرنا اور صرف اسی کی رضا کے حصول اور اجروثواب کو پانے کیلئے عمل بجالانا
اور
(وَھُوَ مُحْسِنٌ) کا معنی ہے:
اپنے عمل میں اللہ کی شریعت کی پابندی کرنا اور
اس نے اپنے رسول صلی الله عليه وسلم کو
جو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا اسی کے مطابق عمل کرنا
یہ دونوں شرطیں ایسی ہیں کہ
کسی عمل کرنے والے کا عمل ان کے بغیر قبول نہیں ہوتا
یعنی ایک تو یہ ہے کہ
اس کا عمل خالصتاً الله کی رضا کیلئے ہو
اور دوسری یہ ہے کہ
وہ نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی شریعت کے مطابق ہو
گویا
اس کے باطن میں اخلاص ہو اور ظاہر میں متابعت ہو
اور
جب کسی عمل میں
ان دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک شرط مفقود ہو تو وہ فاسد ہوتا ہے
چنانچہ
اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے عمل کرنے والا منافق ہو جاتا ہے
کیونکہ
منافق ہی ہیں جو محض لوگوں کو دکھانے کیلئے عمل کرتے ہیں
اور
متابعت کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ گمراہ اور جاہل ہو جاتا ہے
جب یہ
دونوں شرطیں کسی عمل میں موجود ہوں تو وہ مومنوں کا عمل بن جاتا ہے
اور انہی کے متعلق

فرمان الہی ہے:

{اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْھُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّئَاتِھِمْ فِیْ اَصْحَابِ الْجَنَّةِ}
"یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال ہم قبول کر لیتے ہیں اور
ان کے برے اعمال سے در گذر کرتے ہیں
یہ جنتی لوگوں میں سے ہیں۔"
(الاحقاف : 16)

اس کے بعد الله تعالیٰ نے
حضرت ابراہیم علیه السّلام کی ملت کی اتباع کرنے کا حکم دیا
جو کہ شرک سے منہ موڑنے والے اور پکے موحد تھے کہ
کوئی طاقت انھیں توحید سے ہٹا نہ سکی
اور یہ حکم الله تعالیٰ نے متعدد آیات میں دیا ہے
(تفسیر ابن کثیر. 573/1)

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں دو امر ہیں:

1--- کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں
جب تک کہ اس میں
اخلاص اور رسول الله صلى اللہ علیہ وسلم کی متابعت نہ ہو اور
یہی انقیاد اور اس کی غرض و غایت ہے

2--- وہ دینِ حنیف جس کے ساتھ
ہمارے نبی محمد صلی الله عليه وسلم اور
ان سے پہلے تمام انبیاء و رسل علیھم السّلام کو مبعوث کیا گیا
وہی ملتِ ابراہیمی ہے

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

{وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْھَهُ اِلَی اللہِ وَھُوَ مُحْسِن فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی}
"اور جو شخص اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے اور نیکو کار بھی ہو تو اس نے مضبوط سہارا تھام لیا۔"
(لقمان: 22)

یاد رہے کہ
بعض سلف صالحین رحمہم الله نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ
(العروۃ الوثقی) سے مراد کلمه طیبه لا اله الا اللہ ہے
جیسا کہ
حافظ ابن کثیر رحمه الله سورۃ البقرۃ کی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
{فَمَنْ یّلکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُوْمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَانْفِصَامَ لَھَا وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}
"پس جس شخص نے طاغوت کا انکار کیا اور الله پر ایمان لایا
اس نے در حقیقت ایک ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹے گا اور اللہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے"
(البقرۃ : 256)

"یعنی جس شخص نے بتوں کو،
اللہ کے دیگر شریکوں کو اور ہر اس چیز کی عبادت کو چھوڑ دیا
جس کی عبادت کی طرف شیطان دعوت دیتا ہے اور
اس نے اکیلے
الله تعالیٰ کی ہی عبادت کی اور اس نے دل سے گواہی دی کہ
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جس پر وہ ثابت قدم اور صراط مستقیم پر گامزن رہے گا۔۔۔
اور
طاغوت سے مراد ہر وہ شر ہے
جس پر جاہلیت کے دور میں لوگ قائم تھے
مثلاً
بتوں کی پوجا کرنا، ان کو حَکَم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم کرنا اور
ان سے مدد طلب کرنا

(العروۃ الوثقی) کے بارے میں مجاہد رحمه الله کہتے ہیں کہ
اس سے مراد ایمان ہے

السعدی کہتے ہیں اس سے مقصود اسلام ہے

سعید بن جبیر رحمه الله اور الضحاک رحمه الله کہتے ہیں
اس سے مراد کلمه طیبه لا اله الا اللہ ہے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے نزدیک
اس سے مقصود قرآن کریم ہے
جبکہ
سالم بن ابی الجعد رحمه الله کہ کہنا ہے کہ
اس سے مراد
اللہ کی رضا کے لئے محبت کرنا اور اسی کی رضا کی خاطر بغض رکھنا ہے۔۔۔

یہ تمام اقوال درست ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں
(تفسیر ابن کثیر : 319/1)
اور
الله رب العزت کا فرمان ہے
{فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُوْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}
"(اے محمد صلی الله عليه وسلم! )
آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے
جب تک کہ
اپنے تنازعات میں آپ کو حَکَم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم نہ کر لیں
پھر
آپ جو فیصلہ کریں
اس کے متعلق یہ اپنے دلوں میں گھٹن بھی محسوس نہ کریں اور
اس فیصلہ پر پوری طرح سر تسلیم خم کر دیں۔"
(النساء : 65)

اس آیتِ کریمه میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ
ظاہری و باطنی ایمان تین امور کے ساتھ حاصل ہوتا ہے

1- - نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو حَکَم (فیصلہ کرنے والا) تسلیم کرنا یعنی آپ کی حیات میں آپ کی ذات کو اور
آپ کے انتقال کے بعد آپ کی شریعت کو فیصلہ کرنے والا ماننا

2- - نبی کریم صلی الله عليه وسلم کے فیصلوں اور
آپ کی شریعت کے بارے میں دل میں کوئی گھٹن محسوس نہ کرنا اور
اسے کھلے دل سے قبول کرنا

3- - اپنے آپ کو آپ صلی الله عليه وسلم کے فیصلوں کے سامنے جھکا دینا

اس آیت مبارکہ کی مذید تفسیر درج ذیل حدیث سے واضح ہوتی ہے

حضرت عروہ بن زبیر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ان کے باپ
حضرت زبیر رضی الله عنه اور ایک انصاری صحابی کے درمیان حرہ میں واقع
پانی کی ایک نالی پر جھگڑا ہو گیا
جس کے ذریعے وہ کھجوروں کو پانی پلایا کرتے تھے
چنانچہ انصاری نے کہا
پانی چھوڑ دو اور اسے آگے جانے دو
لیکن
حضرت زبیر رضی الله عنہ نے انکار کر دیا
اب وہ دونوں اپنا معاملہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم کے پاس لے کر آئے۔
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
(اِسْقِ یَْا زُبَیْرُ، ثُمَّ اَرْسِلِ الْمَاءَ اِلٰی جَارِکَ)
اے زبیر تم اپنے درختوں کو پانی پلا لو اور
پھر اسے اپنے پڑوسی کے باغ میں چھوڑ دو
تو
انصاری صحابی کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا:
اے اللہ کے رسول کیوں نہیں آخر وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا جو ہوا
اس پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
(اِسْقِ یَا زُبَیْرُ ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَی الْجُدُرِ)
زبیر اپنے کھیت کو پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اسے اس کیلئے مت چھوڑو
حضرت زبیر رضی الله عنه کہتے ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت
(فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ۔۔۔۔)
(النساء : 65)
اسی مسئلہ میں نازل ہوئی
(بخاری : 2359 ،2360 - مسلم : 2357)

اسی طرح درج ذیل آیت کریمه بھی اسی معنی کی تائید کر رہی ہے :

{فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَئْیٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَومِ الْآخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا}
"پھر اگر کسی معاملہ میں تمہارے درمیان اختلاف ہو جائے تو
اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو
اگر تم الله اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو اسی میں بھلائی ہے اور
انجام کے لحاظ سے یہی بہتر ہے۔"
(النساء : 59)

الشیخ ابن السعدی رحمه الله
اس آیت کریمه کی تفسیر میں کہتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے ہر متنازعہ مسئلے کو خواہ
اس کا تعلق اصولِ دین سے ہو یا فروعِ دین سے
اللہ تعالیٰ اور رسول صلی الله عليه وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے
یعنی
کتاب الله اور سنتِ رسول صلی الله عليه وسلم کی طرف
کیونکہ
انہی دو چیزوں میں تمام اختلافی مسائل کے بارے میں فیصلے موجود ہیں خواہ صراحتاً یا اشارۃً، یا اپنے عموم کے اعتبار سے یا مفہوم کے اعتبار سے،
یا ایسے معنی کے لحاظ سے کہ
جس پر اس سے ملتے جلتے مسائل کو قیاس کیا جا سکتا ہے
اور
کتاب اللہ اور اور سنتِ رسول صلی الله عليه وسلم ہی ہیں کہ
جن پر دین کی بنیاد ہے
اور کس شخص کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا
جب تک کہ وہ ان دونوں کے فیصلے کو تسلیم نہ فرض
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی شرط قرار دیتے ہوئے فرمایا
(اِنْ کُنْتُْمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ)
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ
جو شخص نزاعی مسائل کو
کتاب الله اور سنتِ رسول صلی الله عليه وسلم کی طرف نہ لوٹائے
وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ درحقیقت طاغوت پر ایمان رکھنے والا ہے جیسا کہ اس کے بعد والی آیت سے ثابت ہوتا ہے
کتاب الله اور سنت نبویه سے فیصلہ کروانا ہی بہتر اور
انجام کے اعتبار سے اچھا ہے
کیونکہ
الله تعالیٰ اور رسول الله صلی الله عليه وسلم کے
فیصلے ہی سب سے اچھے،
سب سے زیادہ منصفانہ اور لوگوں کے دینی معاملات،
دنیاوی امور اور ان کے انجام کیلئے سب سے زیادہ مناسب ہیں
(تفسیر ابن السعدی :362/1)

ان تمام آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ
صرف اللہ تعالیٰ کے لئے تمام عبادات کو خالص کرنا اور
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی اتباع کرنا واجب ہے اور
انہی دو چیزوں کے ساتھ ہی ایک مضبوط سہارا مل سکتا ہے
نیز یہ بھی کہ
الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم کے
احکامات اور ان کی شریعت کے سامنے ظاہری و باطنی طور پر سرِ تسلیمِ خم کرنا لازم ہے۔

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةِ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُوْلُهُ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضلَالًا مُّبِیْنًا}
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو
اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
(یاد رکھو)
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو نافرمانی کرے گا
وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
(الاحزاب : 36)
اور
الله تعالیٰ نے اس شخص کی مذمت کی ہے
جو اس کی محبوب چیز کو ناپسند کرے اور
اس کی ناپسندیدہ چیز سے محبت کرے۔
فرمایا۔
{ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَرِھُوْا مَا اَنْزَلَ اللہُ فَاَحبَطَ اَعْمَالَھُمْ}
"یہ اس لئے کہ
وہ اللہ کی نازل کردہ چیز سی ناخوش ہوئے تو
اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے اعمال ضائع کر دئیے۔"
(محمد : 9)

لہذا ہر مومن پر واجب ہے کہ
وہ الله کی محبوب چیزوں سے اتنی محبت کرے کہ
جو اسے کم از کم اس کے واجبات پر عمل کرنے پر مجبور کر دے
اور اگر یہ محبت اس قدر زیادہ ہو کہ
وہ اس کے مستحاب پر بھی عمل کرنا شروع کردے تو یہ اور بہتر ہو گا
اور
اس پر یہ بھی واجب ہے کہ
وہ اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدہ چیزوں کو اس قدر نا پسند کرے کہ
جو اسے اس کی حرام کردہ چیزوں سے بچنے پر مجبور کر دے
اور
اگر یہ ناپسندگی اتنی زیادہ ہو کہ
وہ اس کی مکروہات کو بھی چھوڑ دے تو یہ اور بہتر ہوگا

صحیحین میں ثابت ہے کہ
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
(لَا یُوْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْ وَّلَدِہ وَوَالِدِہ وَالنَّاسِ اَجمَعِیْنَ)
تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا
یہاں تک کہ
وہ اپنی اولاد، اپنے والد اور دیگر تمام لوگوں کی نسبت مجھ سے زیادہ محبت کرے۔"
(بخاری : 15 ، مسلم : 44)

لہذا مومن اس وقت تک سچا مومن نہیں ہو سکتا
جب تک
وہ نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی
محبت کو
باقی پور مخلوق کی محبت پر فوقیت نہ دے اور
آپ صلی الله عليه وسلم کی محبت آپ کو بھیجنے والے
اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے
اور سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ
تمام محبوبات سے محبت اور تمام مکروہات سے بغض ر کھنے میں
محبوب کی پیروی کی جائے"
[جامع العلوم والحکم لابن رجب ص : 364]
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کلمه توحید "لا اله الا الله" کی شرائط

شرط 4:- - - - - - تسلیم - - -

یعنی توحید کو سمجھنے اس پر یقین کرنے اسے قبول کرنے کے بعد
اس کے تقاضا کے مطابق عمل کرنا ہے
اور
وہ اس طرح کہ
ہر طاغوت کا انکار اور بیزاری صرف ایک الله پر ایمان
اس کے لئے خود کو مختص کر دینا

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}

"تیرے رب کی قسم (اے محمد)
یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے
جب تک اپنے اختلافی امور میں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم نہ مان لیں اور
پھر
آپ صلی الله عليه وسلم کے کیئے ہوئے فیصلے سے
اپنے دل میں کوئی خلش محسوس نہ کریں
اس فیصلہ کو مکمل طور پر تسلیم کر لیں"
(نساء 65)

علامہ عبدالرحمن بن حسن کہتے ہیں:

اسلام صرف دعوے کا نام نہیں ہے بلکہ
اسلام کا مطلب ہے
اللہ کی توحید کو اپنانا اور اس کی اطاعت کرنا
اس کے سامنے جھکنا
اس کی ربوبیت کو تسلیم کرنا اور
الله کی صفات کو تمام مخلوق سے نفی کرنا

جیسا کہ

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی…}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور الله پر ایمان لے آیا تو
اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا۔"
(بقرۃ 256)

دوسری جگہ ارشاد ہے:

{اِنِالْحُکْمُ اِلَّا ِللہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْ اِلَّا اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ
وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ}
"حکم صرف اللہ کا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ
صرف اس کی عبادت کرو یہی سیدھا اور قائم رہنے والا دین ہے
مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔"
(یوسف 40 ، الدارالسنیة کتاب التوحید 264/2)

تسلیم کا مطلب ہی کسی چیز کو دل کی خوشی سے لے لینا
اور یہاں اس سے مراد ہے
کلمه توحید اور اس کے تقاضوں کو بسر و چشم قبول کر لینا،
ان میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرنا اور
اس کے مقصود و مراد پر عمل پیرا ہونے کو خود پر
جبر یا زبردستی نہ سمجھنا بلکہ بتسلیم ورضا قبول کرنا

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

"اور اسی طرح
ہم نے آپ سے پہلے
جب بھی کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا (نبی) بھیجا تو
اس میں عیش پرست لوگوں نے کہا کہ
ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر چلتے دیکھا ہے اور
ہم بھی یقیناً انہی کے نقشِ قدم پر چلتے رہیں گے
پیغمبر نے کہا
اگر میں تمہارے پاس ایسا دین لے آؤں
جو تمہارے باپ دادا کے طریقے سے زیادہ صحیح ہو
(تو تم تب بھی اس طریقے سے چمٹے رہو گے؟)
انھوں نے کہا: ہم اس دین کا قطعی انکار کرتے ہیں
جس کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے
پس ہم نے ان سے انتقام لے لیا تو آپ دیکھ لیجئے کہ
(اللہ اور رسول کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا"
(الزخرف : 23-25)

ان آیات مبارکہ میں
الله تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ
قریش اور ان کے ہمنواؤں نے جو طرزِ عمل اختیار کیا ہے کہ
انھوں نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور
اس دینِ حق سے اعراض کر لیا
جو آپ لے کر آئے ہیں تو
یہ دراصل سابقہ امتوں کے طرز عمل سے ملتا جلتا ہے
جو انھوں نے اپنے انبیاء علیھم السلام کے ساتھ اختیار کیا تھا اور
اس طرزِ عمل پر
جس چیز نے ان تمام لوگوں کو آمادہ کیا
وہ تھی اپنے آباء و اجداد کی تقلید

الشیخ ابن السعدی رحمه الله کہتے ہیں:

الله تعالیٰ نے
جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو
اس کے بادشاہ اور عیش پرستی کرنے والے لوگوں نے
جنہیں دنیا اور مال و دولت نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا اور
جنھوں نے حق قبول کرنے سے تکبر کیا اور
جب مشرکین کو دعوت دی جاتی کہ تم کلمہ طیبہ کا اقرار کرو اور
اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب معبودان باطلہ کی الوہیت کا انکار کردو تو
وہ کلمہ توحید پر اور اس کے لانے والے نبی پر اپنی بڑائی کا اظہار کرتے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے کہ
کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے ان معبودوں کو چھوڑ دیں
جن کی
ہمارے آباء و اجداد اور ہم پوجا و عبادت کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں؟
دیوانے شاعر سے ان کی مراد
حضرت محمد صلی الله عليه وسلم ہوتے
الله تعالیٰ ان ظالموں سے برا سلوک کرے کہ
انھوں نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی دعوت سے منہ موڑنے پر اور انھیں جھٹلانے پر ہی اکتفا نہ کیا
بلکہ ظالمانہ طور پر انھیں دیوانہ شاعر بھی قرار دے دیا
حالانکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ
آپ صلی الله عليه وسلم شعر اور شعراء کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور
آپ صلی الله عليه وسلم
پوری مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور
سب سے زیادہ درست بات کرنے والے انسان ہیں
تو انھوں نے اسے تسلیم و قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا
جو اس بات کی دلیل ہے کہ
وہ حق کی اتباع کرنا ہی نہیں چاہتے تھے
اسی لئے
اللہ تعالیٰ نے ان سے انتقام لیا اور اس نے متنبہ کیا کہ
اگر قریش بھی اپنی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لائیں گے تو
ان کا انجام بھی یقیناََ پہلے لوگوں جیسا ہوگا
(تفسیر ابن سعدی 442/4 ، 256/4)

ان آیات سے جو فوائد اخذ کئے جاسکتے ہیں:

(1) ان میں نبی کریم صلی الله عليه وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ
قریش کا رد عمل کوئی نئی بات نہیں
بلکہ
ان سے پہلے لوگ بھی اسی طرح کرتے تھے
لہذا
آپ کو اس پر پریشان نہیں ہونا چاہئے

(2) ان میں نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی مخالفت کرنے سے ڈرایا گیا ہے

(3) ان میں تقلید کے خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے اور
یہ بتایا گیا ہے کہ
جو چیز سب سے زیادہ حق اور ہدایت کو قبول کرنے سے روکتی ہے
وہ تقلید ہے

اسلاف و اکابر کی تعظیم و تقلید کس قدر تباہ کن ثابت ہوتی ہے کہ
ابو طالب اپنے آباء واجداد کے دین پر قائم رہے اور
اپنے دوستوں اور اپنے اکابر کو ترجیح دیتے ہوئے
کلمہ طیبہ کی گواہی دینے سے انکار کردیا

ارشاد باری تعالی ہے

{اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَهُ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ}
"بے شک اس میں اس شخص کے لئے عبرت و نصیحت ہے
جس کے پاس دل ہے یا جو کان لگا کر سنتا ہے اور اس کا دل حاضر رہتا ہے "
(ق : 37)
اسی طرح

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

{اِنَّھُمْ کَانُوْ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا اِلٰهَ الَّا اللهُ یَسْتَکْبِرُوْنَ
وَیَقُوْلُوْنَ اَ اِنَّنَا لَتَارِکُوْا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ
بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ}
"بلاشبہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ
اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ تکبر کیا کرتے تھے
اور کہا کرتے تھے کہ
ہم اس شاعر اور دیوانے کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں؟
حالانکہ (ہمارا نبی) حق لیکر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی"
(الصافّات : 37-35)

مشرکین کا یہ طرزِ عمل
اللہ کے دین سے روکنے کا سب سے برا راستہ تھا جو انھوں نے اختیار کیا
اسی لئے
اللہ تعالیٰ نے بعد والی آیت میں ان کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور
انھیں جھٹلاتے ہوئے فرمایا:

بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ
یعنی "ہمارا نبی حق لیکر آیا ہے اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی ہے"

حافظ ابن کثیر رحمه الله کہتے ہیں کہ
"اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم پوری شریعت الٰہیه میں حق لے کر آئے ہیں اور
پہلے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ
انھوں نے آپ صلی الله عليه وسلم کی
جن صفاتِ حمیدہ اور درست منہج کے بارے میں خبر دی تھی
وہ بالکل سچی خبر تھی
آپ صلی الله عليه وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں اور
اس کی شریعت اور اس کے احکامات کے بارے میں بالکل وہی خبر دی ہے
جو کہ
پہلے انبیاء و رسل علیھم السلام نے دی تھی

فرمان الہی ہے:

{مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ}
"اور آپ کو وہی کچھ کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں کو کہا گیا"
(فصلت : 43)
(تفسیر ابن کثیر 7/4)

انسان نے اس کلمہ کے حقوق کو (ظاہر میں ہی نہیں) دل سے مان لینا بھی تسلیم و قبول کر لیا ہو،
یوں کہ اس کی کوئی بات رد کر دینے کا اس کے ہاں تصور تک باقی نہ رہ گیا ہو
اس کو "تسلیم" کہتے ہیں

"تسلیم" قلبی و باطنی طور پر تابع ہونا
تسلیم کا مطلب ہے
دل سے اس پر راضی بہ رضا ہو جانا اور عین اسی کو برحق ماننا
تسلیم قلبی کیفیات میں رام ہو جانا
یہ بات لا اله الا اللہ کی شہادت معتبر ہونے کے لئے شرط ہے
چنانچہ باطن میں اس حقیقت کے تابع ہو جانا
جو لا اله الا اللہ میں بیان ہوئی
کلمہ گو ہونے کے لئے باقاعدہ طور پر مطلوب ہے
"تسلیم" کا مطلب ہے
اپنا من کسی کے سپرد کر دینا اور اپنی مرضی سے دستبردار ہو کر
اس کی مرضی کو ہی دل سے اختیار کر لینا
پس لا اله الا اللہ کہتے وقت باقاعدہ طور پر یہ مطلوب ہے کہ
انسان کا اندرون اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہونے پر آمادہ ہو
کلمہ پڑھتے وقت
انسان الله کا فرماں بردار رہنے کا گویا ایک باقاعدہ حلف اٹھاتا ہے

اب یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے

'تسلیم' یہاں لا اله الا اللہ کی شرط کے طور پر بیان ہوا ہے
اس سے ظاہر ہے یہ مراد نہیں کہ
انسان پہلے باطن میں دین کے تمام احکام پر عمل پیرا ہو تو پھر جا کر
لا اله الا اللہ کی یہ شرط (تسلیم) اس کے حق میں پوری ہو اور
تب تک انسان کی کلمہ گوئی کا اعتبار ہی معلق رہے
یعنی
انسان اس وقت تک مسلمان ہی شمار نہ ہو!

لا اله الا اللہ کہتے وقت جو "تسلیم" مطلوب ہے
وہ بس یہی ہے کہ
انسان اپنے آپ کو باطن میں لا اله الا اللہ کے حقوق کا پابند جانے اور
وہ ابتدائی آمادگی اس کے ہاں پوری طرح پائی جائے
جس کو اللہ کی فرماں برداری کا ایک عہد کہا جا سکتا ہو
اسلام میں داخل ہوتے وقت
(یعنی کلمہ زبان سے ادا کرتے وقت) ایسی ہی ایک آمادگی درکار ہوتی ہے
اللہ کا فرماں بردار رہنے کی
یہ واضح دوٹوک آمادگی ابتداءً اگر اس کے ہاں پائی جاتی ہے تو
اس کو "داخل اسلام" ماننے کی شروط میں سے
یہ شرط اس کے حق میں پوری ہوئی اور اس کا اسلام میں داخلہ معتبر ہوا
رہ گیا زندگی میں پل پل پر "تسلیم" کا عملاً ثبوت دیتے چلے جانا تو
وہ لا اله الا اللہ کے تقاضوں میں آتا ہے
نہ کہ لا اله الا اللہ کی شروط میں
"شروط" وہ چیز ہیں
جن کے پورا ہونے سے
پہلے ایک شخص کا مسلمان ہونا ہی پایہ ثبوت کو نہ پہنچے
البتہ
"تقاضے" وہ چیز ہیں
جس کی نوبت انسان کا "قبول اسلام" معتبر مانا جانے کے بعد آتی ہے
"شروطِ لا اله الا اللہ" کو عین ابتدا میں ہی
یعنی
لا اله الا اللہ کہتے وقت ہی پورا کرنا ہوتا ہے،
اس کے بغیر انسان کا کلمہ پڑھنا ہی معتبر نہیں
البتہ
جس چیز کو ہم "لا اله الا اللہ کے تقاضے" کہتے ہیں تو
اس کا معاملہ ساری عمر چلتا ہے

یعنی 'اعمال' کرنا تو دراصل لا اله الا اللہ کے اقرار کا تقاضا ہی ہے
نہ کہ اس کی شرط
البتہ
شریعت کے بتائے ہوئے 'اعمال' کرنے کیلئے باطناً ایک آمادگی اور استعداد کا انسان کے یہاں پایا جانا لا اله الا اللہ کے اقرار کی بہرحال ایک شرط ہے

چنانچہ
کلمہ پڑھتے ہوئے اگر انسان کے ذہن میں یہ ہے
کہ
کلمہ میں جو حقیقت بیان ہوئی،
باطناً اس کا تابع ہونے کے لئے اسے کچھ کرنا کرانا نہیں ۔۔
تو اس کا کلمہ پڑھنا غیر معتبر ہے

یہاں
ایک اور مبحث واضح ہو جانا بھی ضروری ہے:

اللہ اور رسول صلی الله عليه وسلم کے آگے کسی کی بات کو مقدم نہ ٹھہرانا اسلام کی ایک اساسی شرط ہے اور عقیدہ کا ایک نہایت بنیادی مسئلہ
رسول صلی الله عليه وسلم کی آواز کے آگے اپنی آواز اونچی ہو جانے دینا تک قرآن کے اندر ایمان کے منافی ٹھہرایا گیا ہے اور
اس پر سب کے سب اعمال برباد ہو جانے کی وعید سنائی گئی ہے:

"اے ایمان والو!
مت بڑھاؤ اللہ اور رسول صلی الله عليه وسلم کے آگے کسی کو،
اور ڈرتے رہو اللہ سے بے شک اللہ سننے والا ہے جاننے والا
اے ایمان والو!
مت اونچی ہونے دو اپنی آوازیں
نبی صلی الله عليه وسلم کی آواز کے اوپر
اور نہ اس کے آگے یوں کھل کر بولا کرو
جیسے ایک دوسرے کے آگے کھل کر بول لیتے ہو
یہ نہ ہو کہ
تمہارے سب اعمال برباد ہو جائیں
اس حال میں کہ تمہیں خبر بھی نہ ہو۔"
(الحجرات : 1-2)

مسلم فرد اور مسلم معاشرے کا یہ وہ باقاعدہ دستور اور آئین ہے
جو سورۃ حجرات کی ان دو آیتوں کے اندر بیان ہوا
اس کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو "انقیاد" کہیں گے
یہ "انقیاد" اگر دل میں گھر کر لے تو اس کو تسلیم کہیں گے
دونوں شہادتِ لا اله الا اللہ کے معتبر ٹھہرنے کے معاملہ میں شرط ہیں

امام ابن قیم رحمه الله
سورہ حجرات کی اِن آیات کے حوالے سے کہتے ہیں
"نبی صلی الله عليه وسلم کی آواز کے آگے ان کا اپنی آواز اونچی کرلینا
اگر ان کے سب اعمال برباد ہوجانے کا باعث ٹھہرا دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
تو پھر اس بارے میں کیا خیال ہے کہ
نبی صلی الله عليه وسلم جو چیز لے کر اللہ کے یہاں سے آئے
یہ اس پر اپنی آراء کو مقدم ٹھہرائیں؟
یہ اپنے ذوق کو اس پر مقدم جانیں؟
اپنی سیاست کو اس پر مقدم رکھیں؟
اور اپنے فلسفہ و فکر کو اس پر مقدم کریں؟
یہ اپنی اِن (خانہ سازیوں) کو
نبی صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی بات کے اوپر کر دیں؟
کیا یہ تو کہیں اولیٰ تر نہیں کہ
ان کے اس رویے اور وتیرے سے ان کے اعمال برباد ہو جائیں؟؟؟
(اِعلام الموقعین : 51:1)

امام ابن قیم رحمه الله کے
زمانے میں معاملہ کی سنگینی شاید یہیں تک تھی اور
وہ اسی پر تعجب کرتے ہیں کہ
کوئی شخص لا اله الا اللہ کا دعویٰ بھی کرتا ہو اور
پھر
نبی صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
ہدایت کے بالمقابل
اپنی رائے
یا
اپنے ذوق
یا
اپنی سیاست
کو ہی مقدم جانتا اور تسلیم کرتا ہو

امام ابن قیم رحمه الله کے زمانے میں مسلم معاشروں کے اندر ظاہر ہے
نبی صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
شریعت کے سوا کوئی قانون تھا اور نہ آئین
لیکن اب
آج اس بارے میں کیا خیال ہے کہ
نبی صلی الله عليه وسلم کے لائے ہوئے
قانون کے آگے کوئی اپنا قانون لے کر آئے؟
کوئی
نبی صلی الله عليه وسلم کے
قانون سے متصادم قانوں کو 'مقدس' کہے یا تسلیم کرے؟
اس بارے میں کیا خیال ہے
نبی صلی الله عليه وسلم کی بات سے متصادم چیز کو
کوئی شخص باقاعدہ قانون جانے
اور
اس کا چلن کرنے اور کروانے کو اپنی زندگی کا آئین اور
معاشرے کا دستور تسلیم کرے اور مانے؟
کوئی
الله و رسول کی بات سے متصادم قانون کی پابندی کو تسلیم کرے اور
اس بات کو وہ ایک اچھے انسان اور
اچھے شہری کی تعریف کا لازمی حصہ تسلیم کرتا ہو؟
کیا شک ہے کہ
ایسے شخص کے
حق میں شہادت لا اله الا اللہ کی وہ بنیادی ترین شرط ہی پوری نہیں ہوئی جس کو علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں "تسلیم" کہا جاتا ہے

قرآنی استعمال میں بعض مقامات پر
انقیاد کے لئے 'اسلام'
اور
تسلیم کیلئے 'ایمان'
کا لفظ بھی وارد ہوا ہے

اس سیاق میں
'اسلام' (انقیاد) سے مراد ہے اپنی نکیل دین کو تھما دینا
اور
'ایمان' (تسلیم) سے مراد نکیل تھما دینے کے اس واقعہ کو
دل و جان سے قبول کر لینا اور اس پر دل کے خلجان سے آزادی پانا

بسا اوقات 'انقیاد' اور 'تسلیم'
ایک دوسرے کے ہم معنی بھی استعمال ہوتے ہیں
بعینہ
جس طرح 'اسلام' اور 'ایمان'
کسی وقت ایک دوسرے کے ہم معنیٰ استعمال ہوتے ہیں

"انقیاد" اور "تسلیم" کی
اس کیفیت کا انسان کے ظاہر و باطن میں کم از کم حد تک وجود پانا ہر انسان کے حق میں لازم ہے
کیونکہ
یہ شہادت کے اعتبار کیلئے باقاعدہ شرط ہے

{اِنَّھُمْ کَانُوا اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللهُ یَسْتَکْبِرُونَ وَیَقُولُونَ اَئِنَّا لَتَارِ کُوا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُون}
"یہ (جہنمی) لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا
الله کے سوا بندگی کسی کو سزاوار نہیں،
تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے
کیا ہم ایک شاعرِ مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں"
(الصافّات : 36-35)

مراد یہ کہ
نبی جو چیز لے کر آیا، یہ اس کو مان کر دینے کے نہ ہوئے
اپنے آباءوجداد سے وابستگی کا پندار ان کے آڑے آتا رہا اور
نبی کو ان کی جانب سے ایک صاف جواب مل جاتا رہا کہ
وہ اس کے تابع فرمان ہو جانے کیلئے تیار نہیں
اور یہ کہ
ان کے اپنے دستور،
ان کے اپنے آئین،
ان کے اپنے بڑے اور ان کے اپنے طریقے
جو ان کے یہاں ہمیشہ سے چلتے آئے ہیں
ان کو بس انہی سے وابستگی عزیز ہے
اللہ واحد کی بندگی و پرستش کی اسِ پکار پر اور
اس کے نازل کئے ہوئے اسِ دستور کے آگے ان کی گردن نے نیچی ہو کر نہ دیا

نبی صلی الله عليه وسلم کا مطالبہ یقیناً ایک کڑا مطالبہ ہوتا ہے اور
وہ یہ کہ
سب دستور اور قاعدے جو آج تک 'چلتے' آئے
ایک قوم کی زندگی میں اب معطل ٹھہریں گے
سوائے
اس حق کے جس پر آسمان سے ہی حق کی باقاعدہ مہر لگ کر آئی ہو
اور یہ کہ
کسی کی پیروی،
کسی کی بندگی،
کسی کی پرستش زمین پر نہیں ہوگی
سوائے اس ذاتِ کبریاء کے جو اُن کی جانوں کا مالک ہے اور
جو کہ اُن کا معبودِ حقیقی ہے
باقی
ہر معبود،
ہر دستور اور
ہر طرزِ حیات سے ان کو برگشتہ ہو جانا ہوگا
اللہ کی چوکھٹ پر جھکنا در حقیقت یہی ہے
نبی صلی الله عليه وسلم کا یہ مطالبہ
جو نہایت واضح انداز میں ایک فرد یا ایک قوم کے سامنے رکھ دیا جاتا رہا اور اس کے بیان کا پورا حق ادا کر دیا جاتا رہا،
بہرحال ایک کڑا مطالبہ ہے
اس کے آگے سر تسلیم خم ہو جانا آسان بہرحال نہیں

یہ بہرحال
ایک قوم کی زندگی میں 180 کے زاویے پر مڑ جانے کا مطالبہ ہے اور
زندگی کے دھارے کو
ایک رخ سے ہٹا کر بالکل ہی ایک زاویے پر مڑ جانے کا مطالبہ ہے اور
زندگی کے دھارے کو ایک رخ پر ڈالنے دینے کا واضح واضح تقاضا

یہی وجہ ہے جو اوپر مزکور آیات میں اس رویے کا ذکر ہے

جو نبی صلی الله عليه وسلم کی
دعوتِ توحید و اتباع کے بالمقابل قومیں
اپنی جہالت کے باعث ہمیشہ ظاہر کر لیتی رہیں اور
بالآخر آسمان سے ماتھا لگا لیتی رہیں
جس کے نتیجے میں
حق اور باطل کے مابین باقاعدہ ایک میدان سج جاتا رہا،
یہاں تک کہ
باطل کو سورج کی روشنی تلے لاکر اور نہایت برہنہ و بدنما کر کے
اور
حق پر ہونے کے معاملے میں
اس کے سب زعم دور کر دینے کے بعد
اس کو برباد کروا دیا جاتا اور
زمین پر ازسر نو حق کا دور دورہ کروا دیا جاتا

البتہ اس مبارک کہانی کا آغاز ہمیشہ
اِس 'کٹھن' مطالبے کو ان کے سامنے رکھ کر کیا جاتا کہ
ہر معبود،
ہر رِیت
اور
ہر دستور سے منہ موڑ کر،
خواہ وہ کتنا ہی ان کے قومی و آبائی فخر کی بنیاد رہے ہوں،
ان کو اپنا رخ
الله واحد قہار کی جانب پھیر دینا ہو گا اور
ایک اس کی بندگی اختیار کر لیتے ہوئے
اسی کے
فرستادہ رسولوں سے اپنی زندگی کا ایک ایک مسئلہ دریافت کرنا ہوگا
اور
جو وہ کہہ دیں
اسی کو اپنے لئے حتمی دستور ماننا ہو گا
یہاں تک کہ
رسولوں کی بات کے آگے
چوں و چرا کرلینے کو بھیِ اپنے حق مین کفر ماننا ہوگا

البتہ
جب ان کے سامنے لا اله الا اللہ کے یہ مضامین رکھے جاتے،
جس کا مطلب ان کے آئینِ زندگی میں ایک بنیادی ترین تبدیلی تھی،
خصوصاً جب ان کے کھاتے پیتے اور
قوم کو لے کر چلنے والے آسودہ حال طبقوں کے سامنے
نہایت واضح لفظوں میں آسمان سے اترنے والا یہ مطالبہ رکھا جاتا تو
ان کا پندار انہیں گردن خم کرنے سے روک دیتا اور
وہ کہتے کہ
محض ایک جنون زدہ شاعر کے کہنے پر کیا ہم اتنا بڑا کام کر ڈالیں،
یعنی
اپنے ان خداؤں کو خیر باد کہہ کر
اپنے آبائی و قومی دستوروں کو دفن کر کے بس اسی کے پیچھے چل دیں؟

اس کی یہ حیثیت؟؟؟؟؟

جی ہاں

رسول کی اور اس کی لائی ہوئی شریعت کی یہی حیثیت!!!!!!!!

کم از کم اُنہوں نے یہ سمجھ خوب لیا تھا کہ
رسولوں کا مطالبہ اُن سے عین ہے کیا اور
یہ جھگڑا آخر کس بات کا جھگڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ کہ
آسمان اور زمین میں کسی بات پر ٹھن سکتی ہے
تو وہ کونسی بات ہے
یعنی
آسمان سے اترنے والے عزابات کی بات
یا
پھر فریقِ حق کو فریقِ باطل کے خلاف
ہتھیار اٹھالینے کے اِذن پر مبنی آسمانی احکام و شرائع ۔۔۔

کسی نزاع کے باعث زمین پر نازل ہوسکتے ہیں تو وہ کونسا نزاع ہے

ورنہ تو آسمان سے زمین کے لئے رحمتیں ہی اترتی ہیں

نہ کہ
پے در پے عذابات یا قتال و خون ریزی کو مشروع ٹھہرانے کے احکامات

{اِنَّھُمْ کَانُوا اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا اِلَهَ اِلَّا اللہُ یَسْتَکْبِرُونَ وَیَقُولُونَ اَئِنَّا لَتَارِکُوا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُون}
"یہ لوگ تھے کہ
جب ان سے کہا جاتا
اللہ کے سوا بندگی کسی کو سزاوار نہیں،
تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے
کیا ہم ایک شاعرِ مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں"
(الصافات 35-36)

پس اصل نزاع کسی فرد یا قوم کی زندگی میں
اِس کلمہ
اور
اِس نبی صلی الله عليه وسلم کی یہ 'حیثیت' طے کرانا ہے،
نہ کہ
محض اس کی نعمتیں کہلوا لینا
یا
اس کے نام کی سیرت کانفرنسیں منعقد کرا لینا
یا
محض اس کی 'تصدیق' کروا لینا

اس کلمہ اور اس نبی صلی الله عليه وسلم کو قبول کرنے کے حوالے سے
جو واضح ترین سوال ایک فرد یا ایک قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے
وہ "انقیاد" ہے
کہ آیا
وہ یہ "انقیاد"
(یعنی اپنی مہار تھما دینا ہی)
قبول کرتا ہے یا نہیں

لا اله الا اللہ کی یہ شرط کہتی ہے کہ
اِس "انقیاد" کے بغیر کسی کا
لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ کہنا سرے سے معتبر نہیں

یہ چیز جس کو انقیاد کہا گیا ہے
انسان کے مسلم مانا جانے کی شرط ہے
حق یہ ہے کہ
"اسلام" ہی یہ ہے
اور
"اسلام لانے" سے مراد بھی "انقیاد" اختیار کرنا ہے
مسلم مانا جانے کے لئے منافقین تک کو
ہر شریعت
ہر قانون
ہر دستور
اور
ہر آئین
کا قلادہ اپنی گردن سے اتار کر
لا اله الا اللہ کے دستور کا قلادہ پہننا ہوتا ہے
اس کے بغیر
"اسلام" کا کوئی تصور ہی نہیں
اور
"کلمہ گوئی" کا کوئی معنیٰ ہی نہیں
البتہ یہ چیز یعنی
غیر الله کے دستور کا قلادہ اتار کر
اللہ کی شریعت کا قلادہ پہن رکھنا۔۔۔
یہ رویہ ظاہری اعمال میں ہی نہیں
بلکہ
انسان کے اندرون میں بھی مطلوب ہے

کیونکہ
ظاہری اعمال میں منافقین کو بھی ہر دستور کا پٹہ گردن سے اتار کر
اللہ کی شریعت کے قلادہ ہی کو گردن میں پہن کر رہنا ہوتا ہے
جس کا فائدہ ان کو انسانوں ہی کے یہاں ہو سکتا ہے
نہ کہ الله کے یہاں
پس لازم ہے کہ
ظاہر کے ساتھ ساتھ انسان کا باطن بھی یہ قلادہ پہنے،
تاکہ
یہ الله کے ہاں جا کر کام دے نہ کہ
انسانوں سے جان بخشی کروانے تک محدود رہے

اصل جان بخشی وہ ہے جو الله کے ہاں جاکر ہو جائے
اور
اصل جان کندن بھی وہی جو اللہ کے ہاں ہونے والی ہے

پس وہ چیز جس کے، ظاہر میں پائے جانے کو ہم نے "انقیاد" کا نام دیا ہے
عین
اسی چیز کا انسان کے اندرون میں پایا جانا "تسلیم" کہلاتا ہے
اور
جیسا کہ ہم نے دیکھا
یہ "تسلیم" بھی کلمہ کی ایک باقاعدہ شرط ہے
پس
ہر باطل آئین سے دستبردار ہو کر
صرف ایک رب العالمین کی شریعت کا قلادہ ہی
اپنے ظاہر میں ڈال لینا "انقیاد" کہلاتا ہے
اور
اپنے باطن میں ڈال لینا "تسلیم"

ہر دو کلمہ معتبر ہونے کے لئے شرط ہیں
یعنی ہر دو کے بغیر کلمہ پڑھا ہونا معتبر نہیں

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں
"انقیاد" اور "تسلیم" ایک ہی خوبصورت حقیقت کے دو رخ ہیں
یہی وجہ ہے کہ
کسی وقت
ان میں سے ایک ہی لفظ بول کر دوسرا ساتھ مراد لے لیا جاتا ہے

کتبِ عقیدہ کے اندر بھی
اِن دونوں کے مباحث زیادہ تر جڑے ہوئے ملتے ہیں
یہاں تک کہ
بعض علمائے عقیدہ
ان دونوں کو کسی وقت ایک ہی شرط کے طور پر بیان کر دیتے ہیں
کیونکہ
اسلام میں:
ظاہر، باطن کے بغیر بے معنیٰ ہے اور باطن، ظاہر کے بغیر
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
كلمه توحید "لا اله الا الله" کی شرائط

شرط 5:- - - - - - -صدق اور وفاء، منافئ کذب- - - -
(اس کلمہ کے ساتھ) صدق اور وفاء، یہاں تک کہ (اس کلمہ کے معاملے میں) دروغ اور منافقت کا وتیرہ خارج از امکان ہو گیا ہو

توحید اور کلمہ کے مطلب کو
سمجھنے، یقین کرنے، قبول کرنے، تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ
ان امور میں انسان سچائی سے کام لے

نبی کریم صلی الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:

[ما من احد یشھد ان لا اله الا اللہ و ان محمدا عبدہ و رسوله
صدقا من قلبه الا حرمه الله علی النار]
"جس شخص نے الله کی وحدانیت و محمد (صلی الله عليه وسلم) کی رسالت و عبدیت کا اقرار دل کی سچائی سے کرلیا تو
الله نے اسکو جہنم پر حرام کر دیا ہے"
(بخاری و مسلم)

ایک اور مقام پر فرمایا ہے:

[من قال لا اله الا اللہ صادقا من قلبه دخل الجنة]
"جس نے سچے دل سے لا اله الا اللہ کہدیا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا"
(مسند احمد)

مگر
جو شخص زبان سے اقرار کرتا ہے
مگر دل سے کلمہ کے مطالب سے انکاری ہے تو
زبانی اقرار کوئی نتیجہ مرتب نہیں کرتا
جیسا کہ
الله تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے کہ
وہ کہتے ہیں

نشھد انک لرسول الله
ہم گواہی دیتے ہیں
کہ آپ الله کے رسول ہیں

الله نے فرمایا:

{وَاللہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُهُ وَاللہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ}
"اللہ بھی گواہی دیتا ہے کہ
آپ اس کے رسول ہیں اور
اللہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں"
(منافقون : 1)

اسی طرح ایک اور آیت میں بھی

الله نے ایسے لوگوں کی تکذیب کی ہے

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤمِنِیْنَ}
"کچھ
لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ
ہم ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں"
(بقرۃ : 08)

صدق، کذب یعنی جھوٹ کی ضد ہے
یعنی
کلمہ گو صرف زبانی اقرار پر اکتفا نہ کرے
بلکہ صدقِ دل سے اس کا اقرار کرے

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

{اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا اَنْ یَّقُوْلُوْا آمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَاذِبِیْن}
"کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ان کا صرف اتنا کہہ دینے سے کہ
ہم ایمان لے آئے انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور
وہ آزمائش میں نہیں ڈالے جائیں گے؟
اور ہم نے ان لوگوں کو بھی آزمائش میں ڈالا تھا
جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں
یقینًا
الله تعالیٰ انھیں بھی جان لے گا جو سچے ایمان والے ہیں
اور انھیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں"
(العنکبوت : 3-2)

امام بغوی رحمہ الله ان آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:

کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ جب وہ اتنا کہہ دیں گے
کہ
ہم ایمان لے آئے تو انھیں ان کی جانوں اور ان کے مالوں میں
بغیر کسی امتحان اور بغیر کسی آزمائش کے چھوڑ دیا جائے گا؟
ہرگز نہیں، ہم ضرور ان کا امتحان لیں گے
تاکہ
مخلص اور منافق میں اور سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوجائے
اللہ تعالیٰ نے اپنے اوامر اور نواہی کے ذریعے ان کا امتحان لیا
چنانچہ
سب سے پہلے اس نے انھیں صرف ایمان لانے کا حکم دیا،
پھر ان پر نماز اور زکاۃ فرض کر دی اور
پھر دیگر کئی احکامات صادر فرمائے
جو کہ
ان میں سے بعض پر بھاری ثابت ہوئے

تب
الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

پھر
اللہ تعالیٰ نے انھیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ
ہم نے ان سے پہلے لوگوں یعنی
انبیاء علیھم السلام اور مومنوں کا بھی امتحان لیا
ان میں سے بعض کو آرے سے چیر دیا گیا اور بعض کو قتل کر دیا گیا
اور
بنو اسرائیل کو
الله تعالیٰ نے فرعون کے ذریعے آزمائش میں ڈالا
جو انھیں برا عذاب چکھاتا تھا۔۔۔۔۔
امتحان لینے کے بعد یہ بات کھل کر واضح ہو جائے گی
کہ
کون سچا اور کون جھوٹا ہے"
(تفسیر البغوی : 460/3)

الله تعالیٰ نے منافقین کا تذکرہ کیا ہے کہ
وہ زبان سے تو کلمہ پڑھتے تھے
لیکن انکے دل اسکی تصدیق نہیں کرتے تھے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ آمَنَّا بِاللہِ وَ بِالْیَوْمِ الْآخِر وَمَا ھُمْ بِمُوْمِنِیْنَ
یُخَادِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَ یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَھُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزَادَھُمُ اللهُ مَرَضًا وَّلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ}
"بعض لوگ کہتے تو ہیں کہ
ہم
الله تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان لائے
حالانکہ در حقیقت وہ مؤمن نہیں ہیں
یہ لوگ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں
حالانکہ
یہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے ہیں
ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے
تو اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا
اور ان کے لئے (قیامت کے دن) دردناک عذاب ہوگا
اس سبب سے کہ
جھوٹے ایمان کا اظہار کرتے تھے"
(البقرۃ : 10-8)

بنو اسرائیل کے متعلق الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

{فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللهُ قُلُوْبَھُمْ وَاللہُ لَا یَھْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ}
"پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو
الله تعالیٰ نے ان کے دلوں کو (اور) ٹیڑھا کر دیا
اور
اللہ تعالیٰ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا"
(الصف : 5)

یہ تو تھی دنیا میں ان کی سزا
رہی
آخرت میں ان کی سزا تو اس کے بارے میں

الله تعالیٰ نے فرمایا:
"اور
ان کے لئے (قیامت کے دن) دردناک عذاب ہوگا
بسبب اس کے کہ
وہ جھوٹے ایمان کا اظہار کرتے تھے"

مذکورہ آیت سے ملتی جلتی آیات سورۃ النساء میں بھی ہیں

فرمان الہی ہے:
"بے شک منافقین الله سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور
وہ انھیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور
وہ جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،
صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور ذکرِ الہی تو بس برائے نام ہی کرتے ہیں
وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں،
نہ پورے اُن کی طرف اور نہ صحیح طور پر اِن کی طرف اور
جسے
الله تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے تو آپ اس کیلئے کوئی راہ نہیں پائیں گے"
(النساء : 143-142)

الشیخ ابن السعدی رحمه الله
مذکورہ آیاتِ کریمه کی تفسیر میں کہتے ہیں:
الله تعالیٰ
منافقوں کی بعض قبیح گندی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
ان کا طریقہ یہ ہے کہ
وہ اپنے دلوں میں کفر کو چھپاتے ہوئے ایمان کا اظہار کر کے
الله تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور
وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ کو ان کی حقیقت کا علم نہیں ہے اور
وہ اپنے بندوں کو ان کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکتا ہے!
حالانکہ
الله تعالیٰ ان کے دلوں کی حالت کو بخوبی جانتا ہے
وہ درحقیقت
اللہ تعالیٰ کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں
اس سے بڑا دھوکہ کیا ہو سکتا ہے کہ
وہ جو کوشش کرتے ہیں
اس کا نتیجہ یقیناً ان کی ذلت و رسوائی ہی ہے!
اور ان کی کوشش دراصل ان کی کم عقلی کی دلیل ہے
کیونکہ وہ کرتے تو
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ
وہ نیکی کا کام کر رہے ہیں اور اسے وہ عقلمندی اور ہوشیاری تصور کرتے ہیں
کتنی بڑی بد نصیبی ہوگی
جب اللہ تعالیٰ قیامت کے روز
انھیں ان کی چالبازیوں کا جواب اس طرح دے گا:

"جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ
ذرا ہمارا انتظار کر لو تاکہ
ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں
تو ان سے کہا جائے گا کہ
تم پیچھے واپس جاؤ، کوئی اور نور تلاش کرو
پھر دونوں جماعتوں کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی
جس کا ایک ہی دروازہ ہوگا
اس کے اندرونی حصہ میں تو رحمت ہو گی اور
اس کے باہر کی طرف عذاب ہوگا
یہ چلا چلا کر ان سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟
وہ کہیں گے کہ ہاں تھے تو سہی
لیکن تم نے اپنے آپ کو فتنہ میں مبتلا کر رکھا تھا اور
(مومنوں کے سلسلے میں کسی آفت کے) انتظار میں ہی رہے
اور شک وشبہ کرتے رہے
اور جھوٹی امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈالے رکھا
یہاں تک کہ
اللہ کا حکم آ پہنچا اور
تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ دینے والے نے دھوکے میں ہی رکھا
الغرض آج نہ تم سے فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ کافروں سے
تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے،
وہی تمہاری رفیق ہے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے"
(الحدید : 15-13)

منافقوں کی ایک صفت یہ ہے کہ
وہ نماز کی طرف انتہائی کاہلی اور سستی سے کھڑے ہوتے ہیں
حالانکہ
نماز عملی فرمانبرداریوں میں سب سے بڑی فرمانبرداری ہے
اور
یہ سستی دراصل ان کے دلوں میں
الله تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کی طرف رغبت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہے، اگر ان میں سچی رغبت ہوتی تو وہ سستی کا شکار نہ ہوتے
پھر ان کی ایک اور صفت یہ ہے کہ
وہ ریا کاری کرتے ہیں
یعنی
ان کا مقصد لوگوں کو دکھانا اور اپنی تعظیم کروانا ہوتا ہے
نہ کہ
اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور چونکہ ان کے مد نظر لوگ ہوتے ہیں اور
ان کے دل الله تعالیٰ کی محبت اور اس کی عظمت سے خالی ہوتے ہیں
اسی لئے وہ
الله تعالیٰ کا ذکر بھی برائے نام ہی کرتے ہیں
وہ ہمیشہ مومنوں اور کافروں کی جماعتوں کے درمیان بین بین رہتے ہیں،
نہ ظاہری و باطنی طور پر مومنوں کے ساتھ
اور
نہ مکمل طور پر کافروں کے ساتھ،
بلکہ
وہ اپنا باطن تو کافروں کے لئے رکھتے ہیں اور اپنا ظاہر مومنوں کے لئے
اور
یہ سب سے بڑی گمراہی ہے
اسی لئے
الله تعالیٰ فرماتا ہے:
"جسے
الله تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے تو آپ اس کے لئے کوئی راہ نہیں پائیں گے"
یعنی
آپ اس کے لئے
کوئی راہ ہدایت اور گمراہی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے
کیونکہ
رحمت کے دروازے اسکے سامنے بند ہوچکے اور عذاب کے دروازے کھل چکے۔۔۔۔
تو
اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی
یہ مذموم صفات ذکر کر کے مومنوں کو تنبیہ کی ہے کہ
وہ ان سے اپنا دامن پاک رکھیں اور
سچائی اور اخلاص جیسی عظیم صفات کو اپنائیں"
(تفسیر ابن السعدی : 429/1)
اور
حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ
وہ رسول الله صلی الله عليه وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

اے معاذ بن جبل!

انھوں نے کہا:
اے الله کے رسول صلی الله عليه وسلم! میں حاضر ہوں

پھر
آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
اے معاذ!

انھوں نے کہا:
اے الله کے رسول صلی الله عليه وسلم!
میں حاضر ہوں

(پھر تیسری بار بھی انھیں مخاطب کیا)

اور پھر فرمایا:

[مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ
صِدْقًا مِّنْ قَلْبِه اِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَی النَّارِ]
"جو شخص سچے دل سے یہ گواہی دے کہ
اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد صلی الله عليه وسلم
الله کے رسول ہیں تو
الله تعالیٰ اس کو جہنم کی آگ پر حرام کر دے گا"

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا:

اے الله کے رسول صلی الله عليه وسلم!
کیا میں اس کی لوگوں کو خبر نہ دوں تاکہ وہ بھی خوش ہو جائیں؟

آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

"تب تو وہ اسی پر بھروسہ کر لیں گے"

اس کے بعد
حضرت معاذ رضی الله عنه نے اپنی موت کے وقت یہ حدیث بیان کی
تاکہ وہ گناہ سے بچ جائیں
(صحیح بخاری: کتاب العلم ۔
باب من خص بالعلم قوما دون قوم کراھیة ان لا یفھموا)

حافظ ابن حجر رحمہ الله کہتے ہیں:
"اس حدیث میں
[صدقا من قلبه]
"سچے دل سے"
کی جو شرط لگائی گئی ہے
وہ اس بات کی دلیل ہے کہ
منافق کا شہادتین کی گواہی دینا قابلِ قبول نہیں ہے"
(فتح الباری: 226/1)

اس حدیث سے پہلے جو آیاتِ قرآنیہ ذکر کی گئی ہیں
وہ بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں کہ
اگر شہادتین کا اقرار صرف زبانی ہو اور
پوری سچائی کے ساتھ دل کا اعتقاد شامل نہ ہو تو یہ کافی نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے منافقوں کو جھوٹا قرار دیا
جب انھوں نے یہ کہا کہ
ہم محمد صلی الله عليه وسلم کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں

فرمان الہی ہے:

{اِذَا جَاءَکَ الْمُنَافِقُوْنَ
قَالُوْا نَشْھَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللهِ
وَاللهُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُهُ وَاللهُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ لَکَاذِبُوْنَ}
"جب آپ کے پاس منافق آتے ہیں
تو کہتے ہیں کہ
ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ الله کے رسول ہیں
اور
اللہ کو معلوم هے کہ
آپ یقیناً الله کے رسول ہیں اور
الله گواہی دیتا ہے کہ بشک منافق جھوٹے ہیں"
(المنافقون :1)

دیانتدارانہ اقرار اس کلمہ کی شرط ہے
ایک ایسی سچائی
اس کلمہ کے ادا کرتے وقت قلب و ذہن میں پائی جانا ضروری ہے
جو اس کلمہ کی بابت
انسان کے یہاں
منافقت اور دروغ گوئی کا رویہ اپنایا جانے کی راہ مسدود کر دے

"نفق" عربی زبان میں سرنگ لگانے کو کہتے ہیں
منافقت دراصل دل کا کھوٹ ہے
ضروری نہیں کہ
منافقت کا باعث محض کوئی 'بے وجہ کی بدنیتی' ہو
شخصی منافع،
خاندانی روابط،
معاشرتی مجبوریاں،
سیاسی مفادات،
'مستقبل' سے متعلق خدشات۔۔۔۔۔ بہت کچھ ایسا ہے
جو ایک ایک کر کے اس
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کی حقیقت کے آڑے آنے کی کوشش کرتا ہے

بسا اوقات جس چیز کو دین میں نفاق کہا گیا ہے
انسان اُس کو
'حقیقت پسندی' اور 'دانش مندی' سمجھ کر اپناتا ہے
اور
جس چیز کو 'ایمان کا تقاضا' کہا گیا ہے
وہ انسان کو 'خواہ مخواہ کی بے وقوفی' اور 'دیوانہ پن' نظر آتا ہے

اہل ایمان پر اہل نفاق کی یہ محض کوئی پھبتی نہیں تھی

جو قرآن میں یوں نقل ہوئی ہے:

{وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ آمِنُوْا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوْا اَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَھَاء}
"اور جب انہیں کہا جاتا ہے
ایمان لاؤ اس طرح جس طرح (یہ) لوگ ایمان لائے تو کہتے ہیں
کیا ہم ایمان لائیں اس طرح جس طرح (یہ) نادان ایمان لے کر آئے ہیں؟"
چنانچہ
بہت سی شخصی یا خاندانی یا ملکی یا معاشرتی مجبوریاں
ایسی ہوتی ہیں
جو اس لا اله الا اللہ کی حقیقت پر ڈٹ جانے میں مانع ہونے لگیں
تب
لا اله الا اللہ کی حقیقت پر عمل پیرا رہنا
انسان کو ایک بڑا نقصان کرانے کے مترادف لگتا ہے
اور
ایسا 'خواہ مخواہ کا' نقصان کرانے کو انسان محض بے وقوفی سمجھتا ہے
صدق یہ ہے کہ
انسان جس بات کو ایک بار تسلیم کر لے اسی پر جم رہنے پر آمادہ ہو
اور
جو کہے اس کو کر دکھانے پر پوری طرح سنجیدہ ہو

'صدق' کی جو قرآنی اصطلاح ہے
وہ عام زندگی میں محض 'سچ بولنے' سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع ہے
یہ دراصل ایک بات پر ڈٹ رہنے کی استعداد ہے
صدق کی قرآنی اصطلاح کا مقصود یہ ہے کہ
انسان جو بات کر دے پھر اس سے بدل جانے کو خارج از امکان کر دے

{مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوا اللهَ عَلَیْهِ
فَمِنْھُم مَّنْ قَضٰی نَحْبَهُ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا}
"مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں
جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا،
بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض موقعہ کے منتظر ہیں اور
انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی"
(الاحزاب : 23)

صدق دراصل ایمان اور لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کی حقیقت پر جم جانا ہے
اور
اس کی راہ میں حائل ہر مفاد اور ہر خدشے کو نظر انداز کر دینا

یوں ایک طرح سے یہ ایک حلف وفاداری ہے

یہ انسان کا محض ایک حقیقت کو دل سے قبول کرنا ہی نہیں
بلکہ باقی ماندہ زندگی اس پر ڈٹ جانے کا بھی اعلان ہے

چونکہ لا اله الا اللہ کے اقرار کی یہ بھی ایک اہم جہت ہے
لہذا
اس کو بھی ایک باقاعدہ شرط کے طور پر
اَلصِّدْقُ الْمُنَافِیْ لِلنِّفَاقِ کے الفاظ کے تحت بیان کر دیا گیا

ایک کلمہ گو کے لئے چونکہ آگے چل کر
لا اله الا اللہ کے تقاضوں میں
دوستی اور دشمنی کا مسئلہ تقریباً سر فہرست رہنا ہے
اس لئے
لا اله الا اللہ کی اس شرط میں اس بات کا انتظام کر دیا گیا

سو
اگر یہ شرط سمجھ کر پوری کر لی جائے تو آگے چل کر
لا اله الا اللہ کا ایک اہم ترین تقاضا
(ولاء اور براء) پورا کیا جانا ممکن ہوتا ہے
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
كلمه توحید "لا اله الا الله " کی شرائط

شرط 6:- - - - - - - اخلاص، منافئ شرک- - - -
اخلاصِ (نیت) ہے، یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہ گیا ہو

اخلاصِ نیت دراصل دین میں ہر عمل کی ایک لازمی شرط ہے
ازراہِ اختصار کسی وقت
اس کو محض نیت کے لفظ سے بھی ذکر کر دیا جاتا ہے
دین کا کوئی عمل بھی اس شرط کے بغیر معتبر نہیں

لا اله الا اللہ کا اقرار اب چونکہ اسلام کا سب سے پہلا عمل ہے
لہذا
اخلاص نیت لا اله الا اللہ کے اقرار کیلئے بھی ایک بنیادی شرط ہو گی
ویسے
یہ شرط نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج
ہر چیز کے لئے فقہائے اسلام کے نزدیک ایک باقاعدہ شرط ہے
یہی وجہ ہے کہ
محدثین کا طریق کار یہ رہا ہے کہ
وہ کتب احادیث کا آغاز نیت کی حدیث سے کرتے ہیں
یعنی
"اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ، وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیًٔ مَّانَویٰ"

چنانچہ
نيت كا حضور اور دل کا اخلاص ویسے تو ہر عمل میں مطلوب ہے
مگر
جس عمل میں سب سے بڑھ کر مطلوب ہے وہ شہادت کی ادائیگی ہے
کیونکہ
شہادت ادا کرنا دراصل اپنی پوری زندگی کو ایک رخ دینا ہے

کارخانہ ہستی کو زمانہ جس نگاہ سے دیکھتا ہے
لا اله الا اللہ
بالکل اس سے مختلف نگاہ رکھنے کا اعلان ہے

یہ اپنے وجود سے لے کر کائنات کے وجود تک کو
اپنے ذہن و فکر کے اندر ایک طرح سے نئی ترتیب اور نئی پہچان دیتا ہے
لہذا
اس عمل میں دل کی شرکت نہایت ضروری ہے
پھر کیا تعجب کہ
اخلاصِ دل کلمہ اخلاص کی شرط ہو

لا اله الا اللہ
کی اس شرط سے جو بات سمجھی جانا مقصود ہے
وہ یہ کہ
لا اله الا اللہ
کوئی معاشرتی رواج ہے
اور
نہ کوئی آبائی رسم
اور
نہ قومی روایت
بلکہ اس کے لئے تو شرط یہ ہے کہ
یہ اقرار کہ
نہیں کوئی پرستش کے لائق مگر مالکِ کائنات
انسان کے اپنے ہی اندر سے اٹھنے والی صدا ہو
کسی بات کو
دل کی صدا بننے تک نفس کے جتنے مرحلوں سے گزرنا لازم ہوتا ہے
ان سب مرحلوں کا طے ہونا اور
ان کیفیات کا ۔۔۔۔۔۔ کم از کم حد تک ۔۔۔۔۔۔ نفس کے اندر جنم پانا
اس
لا اله الا اللہ کے اقرار کی ایک باقاعدہ شرط ہے
اور
اسی کو اخلاص کہا گیا ہے

اس شرط کا خلاصہ یہ ہوا کہ
لا اله الا اللہ
اقرار کسی بے توجہی یا لا ابالی پن کے ساتھ ہرگز نہ کیا گیا ہو
لوگ کلمہ پڑھتے ہیں تو میں بھی پڑھتا ہوں
یہ طرز فکر شرطِ اخلاص کے منافی ہے

لا اله الا اللہ
کو میں نے حق سمجھ کر مانا ہے اور
اس سے میرا مقصود بس اللہ کو راضی کرنا ہے
یہ احساس دل میں پیدا کرنا کلمہ کے معتبر ہونے کیلئے شرط ہے اور
اسلام میں یہ باقاعدہ طور پر درکار ہے

اخلاصِ نیت۔۔۔۔۔۔یہاں تک کے شرک باقی نہ رہے۔۔۔۔۔

دین کے کسی عمل میں
اگر صرف اور صرف اللہ مطلوب نہ ہو تو ایک بے معنی عمل ہوتا ہے
نہ صرف یہ بلکہ
اس میں پھر اللہ کے ساتھ کئی سارے حصہ دار بھی کھڑے ہو جاتے ہیں
ایک عمل اللہ کے لئے ہوا ہے تو
اس میں اللہ کے حصہ دار کیونکر کھڑے ہو جاتے ہیں؟

دیکھا یہ جانا ہے کہ
لا اله الا اللہ
کو ۔۔۔۔۔۔ ایک حقیقت سمجھ کر اور پورے شعور اور وثوق کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ آیا اس لئے قبول کیا گیا کہ اس ذات کو خوش کر دیا جائے
جس کا مرتبہ الوہیت اور وحدانیت قائم کرانے کے لئے
یہ لا اله الا اللہ نازل ہوا،
یا پھر
کلمہ گو ہونے سے مقصد کسی اور کو خوش کرنا
یا متاثر کرنا یا کوئی اور فائدہ حاصل کرنا تھا؟
کیا
یہ کلمہ قوم یا معاشرے یا ماحول کی دیکھا دیکھی ادا کر دیا گیا تھا
یا
یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ براہ راست معاملہ تھا
جس میں کسی دوسرے کا کچھ لینا دینا باقی نہیں رہتا
اور
جس کے پیچھے محض یہ مقصد ہے کہ
انسان اللہ کا چہرہ پالے اور
اس کے عذاب سے بچ کر اس کی رحمت کی پناہ میں آجائے؟

دین کا ایک عام عمل بھی کیا جائے تو
اس میں اخلاصِ نیت کا فقدان ایک نہایت بڑی آفت ہے
اللہ کی رضا مندی کے لئے کئے گے ایک عمل میں
جب مقصد کسی اور کو متاثر کرنا یا
کسی اور کی نظر میں جچنا بھی ہو جائے،
یعنی مخلوق کا دکھاوا، تو وہ شرکِ اصغر کہلاتا ہے
کتنا بڑا ظلم ہے کہ
انسان کوئی بھی نیک عمل کرے تو پسندیدگی اور ستائش پانے کے لئے
اس کی نگاہ
الله ذوالجلال سے کم لمحہ بھر کے لئے بھی کسی پر ٹھہر جائے
البتہ
لا اله الا اللہ کا اقرار تو 'کوئی سا نیک عمل' نہیں
بلکہ دین کا سب سے اساسی اور اولین عمل ہے
نیکیوں کے سبھی کھاتے
اس کے نامہ اعمال میں اس "اساسی اور اولین عمل" کے بعد کھلتے ہیں
اسلام کا
یہ "اساسی اور اولین عمل" تو اگر محض اللہ کا چہرہ پانے کے لئے نہیں؛
یعنی انسان کا لا اله الا اللہ پڑھنا
محض معاشرے سے 'اسلام' کا سرٹیفکیٹ پا رکھنے کے لئے ہے،
تب تو معاملہ شرکِ اصغر سے بھی کہیں سنگین تر ہے

پس عام اعمال میں تو معاملہ اتنا ہی ہے کہ
ان کو ادا کرتے وقت
الله کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ اگر مقصود یہ ہوگیا کہ
مخلوق سے بھی وہ اس پر ستائش پائے
تو
انسان شرکِ اصغر کا مرتکب ٹھہرتا ہے،
اور گو یہ بھی کوئی کم پریشانی کی بات نہیں
تاہم جب معاملہ
لا اله الا اللہ کی شہادت دینے
یعنی اپنی زندگی کا منشور طے کرنے کا ہو تو
اس وقت "اخلاصِ نیت" کا فرض چھوٹ جانا
البتہ
شرکِ اصغر سے بھی کہیں سنگین تر ہے
کسی اور عمل کے
اللہ کے ہاں قبول و معتبر ٹھہرنے کی بہرحال وہ اہمیت نہیں
جو "شہادتِ لا اله الا اللہ" کے قبول و معتبر ہونے کی ہے
عین اِسی مرحلے پر ہی
اگر مخلوق کا دکھاوا ہو گیا اور
مقصد تنہا رب العالمين کی خوشنودی نہ رہا تو
اسلام میں داخلہ ہی معتبر نہ ہوا

انسان کا
ملتِ شرک سے نکل کر ملتِ توحید میں شامل ہو جانا ہی معتبر نہ ہوا

کفر سے خلاصی پا کر
اسلام قبول کر لینا ہی اس کے حق میں پایہ ثبوت کو نہ پہنچا

سمجھو وہ اولین واقعہ ہی اس کی زندگی میں رونما نہ ہوا
جس کے بعد اس کے نامہ اعمال میں نیکیوں کے کھاتے کھلتے ہیں
اور
اعمالِ صالحہ کی گنتی ہونے لگتی ہے

"اخلاص" کی شرط پوری نہ ہونے کے باعث
دین کا کوئی اور عمل قبول ہونے سے رہ گیا تو
بس اسی عمل کا نقصان ہوا
کیونکہ اس پر باقی سارے دین کا انحصار تو نہیں
البتہ
"اخلاص" کی شرط رہ جانے سے اگر کلمہ معتبر نہیں ہوا تو
یہ ہر نقصان سے سوا ہے
کیونکہ
باقی سب اعمال کا قبول ہونا اسی ایک بات پر منحصر ہے کہ
پہلے یہ کلمہ معتبر ہو

شیخ سفر الحوالی لکھتے ہیں:

دین کی اساس کو اختیار کرتے وقت ہی
اگر انسان کے ہاں اخلاصِ نیت مفقود پایا گیا،
شہادتِ لا اله الا اللہ کی جڑ میں ہی اخلاص نا پید ہوا،
تو
ایسا انسان شرک سے نکلا ہی نہیں اور ملتِ اسلام میں پایا ہی نہیں گیا
(یہ ہے اساسِ ایمان کو اختیار کرتے وقت اخلاص کا معاملہ)
ہاں
ایمان کے شعبوں میں سے کسی شعبہ کے اندر
اگر انسان کے ہاں اخلاص پایا جانے سے رہ گیا
اور
ایمان کے اعمال میں سے
کسی عمل میں اس کے ہاں اخلاص نہ پایا جاسکا،
تو صرف وہ خاص شعبہ ہی ضائع ہو گا
اور
صرف وہ خاص عمل ہی برباد ہوگا،
سارے کا سارا دین تو برباد نہیں ہوگا
مثلاََ
ایک انسان نے انفاق کیا اور الله کی راہ میں ہزار درہم دے ڈالے
لیکن
وہ اس عمل میں ریا کر بیٹھا تاہم نماز میں اس نے ریا نہیں کیا
اب اسِ انسان کا انفاق تو چلئے اکارت ہوا
مگر اس کو نماز بمع توحید کا اجر تو کم از کم ملا
نماز کا اجر تو کم از کم کہیں نہیں گیا
یہ بھی بے حد بڑا نقصان ہے کہ
اس کا ہزار درہم برباد ہوا
بلکہ یہ گناہ (ریا کاری کی سزا) کی وعید میں بھی آگیا ہے،
لیکن یہ ہے تو ایک شعبہ ہی کا نقصان
اس کے باقی اعمال و شعبہ ہائے دین تو کم از کم برباد نہ ہوئے

لیکن
شہادتِ لا اله الا اللہ ہی اگر اس کی برباد ٹھہرتی ہے
کیونکہ
وہ محض اللہ کو خوش کرنے کے لئے ادا نہ ہوئی تھی،
پھر تو اس کا سب کچھ ہی گیا

(ماخوذ از محاضرہ:
من اعمال القلوب الاخلاص، سؤال حول اثر الاخلاص فی اصول الدین)

لا اله الا اللہ کا پڑھنے والا
جس طرح الله تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار کرتا ہے
اسی طرح غیر الله سے براءت کا اظہار بھی کرے
اسی لئے
اس کلمہ طیبہ کو کلمہ اخلاص بھی کہا جاتا ہے
عربی زبان میں اخلاص کا معنی ہے
پاک صاف کرنا
اور
شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد ہے
عبادت کو الله تعالیٰ کے لئے خالص کرنا اور
شرک و کفر اور ریاکاری سے پاک صاف کرنا

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
{اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعبُدِ اللہَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَ
اَلَا ِلِلہ الدِّیْنُ الْخَالِصُ}
(الزمر 2۔3)
"ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے
لہذا آپ دین کو اس کیلئے خالص کرتے ہوئے اسی کی عبادت کریں
یاد رکھئے!
بندگی خالصتا الله ہی کے لئے ہے"

حافظ ابن کثیر رحمه الله
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی
تم الله تعالیٰ ہی کی عبادت کرو جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں
اور لوگوں کو بھی اسی بات کی طرف دعوت دو اور انھیں آگاہ کر دو
کہ
عبادت کا مستحق الله تعالیٰ ہی ہے اور
اس کا کوئی شریک ہے نہ کوئی ہمسر
اور
اس کے ہاں صرف وہ عبادت قابلِ قبول ہے
جس میں اس کا کرنے والا مخلص ہو"
(تفسیر ابن کثیر 49/4)
اور
الشیخ ابن السعدی رحمه الله کہتے ہیں:
"اس آیت میں اخلاص کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ
جس طرح ہر قسم کا کمال الله تعالیٰ کے لئے ہی ہے،
وہی اپنے بندوں پر مہربانی فرماتا ہے اور
انھیں ہر قسم کی نعمتوں سے نوازتا ہے
اسی طرح دینِ خالص بھی اسی کے لئے ہے
جو ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک ہے اور
جسے اس نے اپنے لئے اور
اپنے سب سے محبوب بندوں کے لئے پسند فرمایا ہے اور
انھیں اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے
کیونکہ
یہ دین خالص اس بات کو شامل ہے کہ بندہ اپنی محبت میں،
خوف اور امید میں اور اپنی تمام مصلحتوں کو حاصل کرنے میں
الله تعالیٰ کی طرف ہی رجوع کرے اور
اپنی بندگی اسی کے سامنے ظاہر کرے
یہی وہ دین ہے
جس سے دلوں کی اصلاح ہوتی ہے اور
وہ انھیں شرک کی میل کچیل سے پاک کرتا ہے
کیونکہ
اللہ تعالیٰ شرک سے بری ہے اور اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں"
(تفسیر السعدی ۔ سورۃ البینة)

اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

الله تعالیٰ فرماتا ہے:
[اَنَا اَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ ،
مَنْ عَمِلَ عَمَلًا اَشْرَکَ فِیْهِ مَعِیَ غَیْرِیْ تَرَکْتُهُ وَ شِرْکَهُ]
"میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں
اور
جو شخص ایسا عمل کرے کہ
اس میں میرے ساتھ میرے علاوہ کسی اور کو بھی شریک کرے
تو میں اسے اور اس کے شرک کو چھوڑ دیتا ہوں"
(مسلم : 2985)

اسی طرح فرمان الہی ہے:

{وَمَآ اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ
وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْا الزَّکَاۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَةِ}
"انہیں محض اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ
وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور شرک سے منہ موڑتے ہوئے
اس کے لئے دین کو خالص رکھیں
اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں
اور یہی ہے دین سیدھی ملت کا"
(البیّنة : 5)

الشیخ ابن السعدی رحمه الله
اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"یعنی تمام شریعتوں میں انھیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ
وہ اپنی تمام عبادات کے ذریعے، ظاہری ہوں یا باطنی،
الله تعالیٰ ہی کی رضا اور اس کے تقرب کا قصد کریں
اور
ان تمام ادیان سے منہ موڑ لیں جو دینِ توحید کے مخالف ہوں
پھر
اللہ تعالیٰ نے نماز اور زکاۃ کا خاص طور پر ذکر کیا
حالانکہ
وہ عبادت میں شامل تھیں کیونکہ ان کی فضیلت زیادہ ہے
اور
جو شخص ان دونوں کو کماحقہ قائم کرے
وہ گویا پورے دین کو قائم کرتا ہے
اور
توحید اور اخلاصِ دین ہی وہ سیدھا راستہ ہے
جو نعمتوں والی جنات میں پہنچاتا ہے
اس کے علاوہ جتنے راستے ہیں وہ سب جہنم میں پہنچانے والے ہیں"
(تفسیر ابن السعدی : 442/5)

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه کا بیان ہے کہ
میں نے رسول اکرم صلی الله عليه وسلم سے پوچھا:
قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا خوش نصیب کون ہوگا
جس کے حق میں آپ شفاعت کریں گے؟
تو
آپ صلی اللہ علیه وسلم نے جواب دیا:
اے ابو ہریرہ! مجھے یقین تھا کہ
اس بارے میں تم ہی سوال کرو گے
کیونکہ تمہیں احادیث سننے کا زیادہ شوق رہتا ہے
(تو سنو)
قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت اس شخص کو نصیب ہو گی
جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا"
(بخاری : 99، 6570)
مذکورہ حدیث میں شفاعت سے مراد وہ شفاعت ہے
جو
نبی کریم صلی الله عليه وسلم کبیرہ گناہوں کے مرتکب
موحدین کے حق میں کریں گے
اور
جس کااہل السنة و الجماعة اثبات اور
اہل بدعت میں سے خوارج اور معتزله وغیرہ انکار کرتے ہیں
(فتح الباری : 443/11)

جبکہ
حضرت عتبان بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ
وہ اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتے تھے، پھر ان کی نظر کمزور پڑ گئی اور اچانک بارشیں آئیں اور
ان کے اور ان کی قوم کے درمیان ایک وادی حائل ہو گئی
جسے عبور کرنا ان کے لئے مشکل ہوگیا
چنانچہ انھوں نے نبی کریم صلی الله عليه وسلم سے مطالبہ کیا کہ
وہ ان کے گھر تشریف لائیں اور ان کے گھر کے کسی کونے میں نماز پڑھیں
تاکہ وہ اس جگہ کو اپنی مستقل جائے نماز بنا لیں
تو
آپ صلی الله عليه وسلم
حضرت ابو بکر رضی الله عنه کے ساتھ تشریف لے گئے اور
ابھی گھر میں بیٹھے ہی تھے کہ
آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا
(اَیْنَ تُحِبُّ اَنْ اُصَلِّیَ مِنْ بَیْتِکَ؟)
"تم اپنے گھر میں کہاں چاہتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں؟ "
انھوں نے اپنی پسندیدہ جگہ کی طرف اشارہ کی تو
آپ صلی الله عليه وسلم کھڑے ہوگئے اور
ہم نے آپ صلی الله عليه وسلم کے پیچھے صف بنا لی
آپ صلی الله عليه وسلم نے تکبیر کہی،
پھر دو رکعات پڑھیں، پھر سلام پھیرا
ہم نے بھی آپ کے ساتھ ہی سلام پھیرا۔۔۔۔۔۔
اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ
(فَاِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی النَّارِ
مَنْ قَالَ:
لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ ، یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْهَ اللهِ)
"الله تعالیٰ نے اس شخص کو جہنم کی آگ پر حرام کر دیا ہے
جس نے خالصتاً الله کی رضا کے لئے
لاَ اِلٰهَ ِالاَّ اللہُ کہا۔"
(بخاری : 1186، مسلم : 33)

جہنم پر حرام ہونا دو قسم کا ہے:
ایک جہنم میں داخل ہونا
اور
یہ اس شخص کے حق میں ہے
جس کی موت توحید کی حالت میں آئے
اور
وہ نہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور صغیرہ گناہوں کا اصرار
ایسے شخص کا جہنم میں داخل ہونا حرام ہے
اور
دوسرا ہے جہنم میں ہمیشہ رہنا
اور
یہ نافرمان موحدین کے حق میں ہے کہ
جنہیں ہو سکتا ہے
الله تعالیٰ جہنم میں داخل کرے لیکن وہ ہمیشہ اس میں نہیں رہیں گے
بلکہ
اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد اس سے نکال لئے جائیں گے
جیسا کہ شفاعت کے بارے میں متواتر احادیث سے ثابت ہے یہ

(مَنْ قَالَ: لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ) سے مراد
زبان سے اس کا اقرار کرنا،
دل سے اس کی تصدیق کرنا
اور
اپنے عمل کے ذریعے اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے

الشیخ سلیمان بن عبد اللہ
اس حدیث کی شرح میں
شیخ الاسلام ابن تیمیه رحمه الله کا
طویل کلام نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

خلاصہ یہ ہے کہ
لا اله الا اللہ جنت میں داخل ہونے اور جہنم سے نجات پانے کا ذریعہ ہے
لیکن اس کے کچھ لازمی تقاضے اور شرائط ہیں
اسی لئے جب حضرت حسن رحمہ الله سے کہا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ
جس نے لا اله الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
تو انھوں نے کہا
جس نے لا اله الا اللہ کہا،
اس کا حق ادا کیا اور
اس کے فرائض کو پورا کیا وہ جنت میں داخل ہوگیا
اور
جب وہب بن منبه رحمه الله سے پوچھا گیا کہ
لا اله الا اللہ جنت کی چابی نہیں؟
تو انھوں نے کہا:
کیوں نہیں لیکن ہر چابی کے دندانے ہوتے ہیں
لہذا
اگر آپ دندانوں والی چابی لائیں گے تو وہ تالا کھول دے گی
اور
اگر اس کے دندانے نہیں ہونگے تو وہ تالا نہیں کھولے گی

اس بات پر زیادہ واضح دلیل کہ
اللہ تعالیٰ نے ایمان اور اعمال صالحہ پر جنت کا وعدہ کیا ہے
نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی ایک اور حدیث ہے
جس میں حضرت ابو ایوب رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ
ایک شخص نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ
مجھے ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے
تو
آپ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

[تَعْبُدُ اللہَ وَلاَ تُشْرِکُ بِهٰ شَیْئًا، وَتُقِیْمُ الصَّلاَۃَ، وَتُؤْتِیْ الزَّکَاۃَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ]
"تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ،
نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو"
(متفق علیه)

اور
حضرت بشر بن الخصاصیة رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں کہ
میں
نبی کریم صلی الله عليه وسلم کی بیعت کرنے کے لئے
آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو
آپ صلی الله عليه وسلم نے شرط لگائی کہ میں شہادتین کا اقرار کروں،
نماز قائم کروں،
زکاۃ ادا کروں،
حج بیت اللہ کروں،
رمضان کے روزے رکھوں
اور
اللہ کے راستے میں جہاد کروں

میں نے کہا:
اے الله کے رسول!
میں باقی سارے کام کر سکتا ہوں،
صرف زکاۃ اور جہاد کی طاقت نہیں رکھتا
تو
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور
اس حرکت دیتے ہوئے فرمایا:
اگر تم جہاد نہیں کرو گے اور زکاۃ ادا نہیں کرو گے
تو جنت میں داخل کیسے ہوگے؟
میں نے کہا:
اے الله کے رسول!
تب میں ان تمام کاموں پر آپ کی بیعت کرتا ہوں
(مسند احمد)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ
توحید، نماز، روزہ اور حج کے علاوہ جہاد اور زکاۃ بھی دخولِ جنت کے لئے شرط ہے
(تیسیر العزیز الحمید : 91)

دین یعنی بندگی کو الله کے لئے خالص اور
نشاطِ زندگی کا رخ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی جانب کر دینا.....
یہ قرآن کی ایک باقاعدہ اصطلاح ہے
"اخلاصِ دین" کا اطلاق
قرآن کے اندر دراصل بہت وسیع معنیٰ میں ہوا ہے

اختصار سے، اس کے دو پہلو ہیں:

"اخلاصِ دین" کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ
بندگی کے سب افعال کو
انسان صرف اور صرف الله رب العالمين کے لئے مختص کر دے اور
ان پر کس اور کا ذرہ بھر حق نہ جانے
اس معنیٰ میں "اخلاصِ دین" کا نقیض شرکِ اکبر ہے

"اخلاصِ دین" کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ
بندگی کا عمل انسان دل کے خلوص کے ساتھ اور
صرف ایک اللہ کو ہی خوش کرنے کے لئے کرے
اس معنیٰ میں "اخلاص" کا نقیض عموماً شرکِ اصغر ہے،
جو کہ بے انتہا مہلک ہے اگرچہ انسان کو دین سے خارج نہیں کرتا
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کلمه توحید "لا اله الا اللہ " کی شرائط

شرط 7: - - - - - محبت و وارفتگی، منافئ بغض- - -

انسان کو
اس کلمہ اور اس کے معنی اور مفہوم سے ایک محبت و وارفتگی ہو گئی ہو اور
اس کلمہ سے اس کو ایک سرور ملنے لگا ہو

محبت سے مراد یہ ہے کہ
انسان کو کلمہ توحید اور اس کے تقاضوں سے محبت اور الفت ہو
یعنی
انسان کو اس کلمہ اور اس کے معنی و مفہوم سے
ایسی محبت و گرویدگی ہو
جس سے ہر قسم کے بغض اور کراہت کی نفی ہو جائے اور
اس کے دل میں
اللہ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم کی محبت ہر چیز سے
حتی کہ
اپنی جان سے بھی زیادہ ہو اور
اگر اس کے سوا وہ کسی سے محبت کرے تو
صرف اللہ کے لیے کرے
اسی طرح اسے
ان مؤمنوں سے محبت ہو
جو لا اله الا اللہ پر کار بند اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں
اور
ان لوگوں سے دل میں نفرت ہو جو اسکے تقاضوں کو پورا نہ کرتے ہوں
نیز
الله کے سوا
عبادت کی جانے اور پوجی جانے والی تمام ہستیوں کا انکار کر کے
اور
صرف ایک الله کی عبادت و بندگی کا اعلان کر کے
انسان کو ایک لطف اور دلی سکون ملتا ہو
اس کے مقابلے میں باطل معبودوں
اور
ہر قسم کے کفر و شرک اور جاہلیت کی قدیم و جدید تمام شکلوں
(قومیت، لسانیت، وطنیت) سے شدید نفرت رکھے

انسان کو
یہ کلمہ دِل و جان سے عزیز ہو
کلمہ میں جو حقیقت بیان ہوئی ہے
اُس حقیقت سے انسان کو باقاعدہ ایک پیار ہو
یہ کلمہ اس کو اپنی سب سے زیادہ قیمتی متاع لگتی ہو
بے شک یہ کلمہ اس کی راحت جان میں خلل انداز ہوتا ہو،
بے شک یہ کلمہ اس سے مفادات کی قربانی مانگتا ہو،
بے شک یہ کلمہ اس کو فرائض کا پابند کرتا ہے،
بے شک یہ کلمہ اس پر بہت سے مرغوب حرام ٹھہرا دیتا ہے،
بے شک یہ کلمہ کبھی اس کی جان بھی لے لے..........
پھر بھی یہ کلمہ اس کو بے انتہا عزیز ہو
اور
اس کے ا قرار سے ہی اس کو اصل راحت ملتی ہو
پس
ایک تو اس کلمہ کا مفہوم ہے اور
دوسرا اس مفہوم کے ساتھ عقیدت اور وارفتگی

یہ کلمہ کیا ہے؟
غیر الله کی بندگی کا قطعی اور دو ٹوک انکار
اور
الله کی بندگی اور فرمانبرداری کا پر جزم اقرار

غیر الله کی پرستش و بندگی کے اس انکار سے آدمی کو لطف ملتا ہو
اور
الله کے ماسوا ہستیوں کی خدائی کا انکار کر کے
اس کو راحتِ جان نصیب ہوتی ہو
اور
یہ کہ
تنہا رب العالمين کے الہیٰ کے اعلان سے
اور
ایک اُسی کی بندگی کے اقرار سے وہ دل میں گہرا سکون پاتا ہو

یوں
لا الٰه والا یہ انکار
اور
الا اللہ والا یہ اقرار
اس کے لئے ایک ایسی چیز بن گیا ہو کہ
اسی بات میں وہ اپنے لئے روح کا چین اور دل کا اطمینان پاتا ہو

اللہ کے سوا عبادت کی جانے اور پوجی جانے والی
ہستیوں کی پرستش کو غلط اور باطل کہنے میں انسان کو لطف آنا
خواہ اس سے اللہ کے دشمنوں کو کتنی ہی تکلیف ہو
اور
بندگی و نیاز کی سب اداؤں کو
اللہ کے لئے خاص کر دینے میں ایک مزہ پانا......
یہ کلمہ کی ایک باقاعدہ شرط ہے

کچھ اسی بات کا اظہار
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کے مسنون ذکر میں ہوتا ہے
جو فرض نماز کا سلام پھیرنے کے بعد
آپ صلی الله عليه وسلم کا معمول تھا

(لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ لَهُ الْمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِیَّاہُ ، لَهُ النِّعْمَةُ وَ لَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ)

"نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر ایک اللہ وحدہ لا شریک
بادشاہی اس کی
حمد اس کی
ہر چیز پر قدرت کاملہ وہی رکھنے والا ہے
نہ کوئی زور نہ کوئی طاقت سوائے ایک الله کے سہارے
کوئی نہیں بندگی کے لائق سوائے اللہ کے
اس ایک کے سوا ہم نہیں کسی کی عبادت کرنے والے
نعمت اس کی فضل اس کا
خوب سے خوب ستائش بس اس کی
کوئی نہیں بندگی کے لائق سوائے الله کے
یوں کہ
دین (اطاعت و بندگی) کو ہم بس ایک اسی کے لئے خالص کیے رہیں
چاہے کافر لوگ اس سے کتنا ہی آزردہ ہوں"
(مسلم : 410/1)

کلمہ کی اس شرط کا مطلب یہ ہے کہ
انسان
لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ کا نہ صرف اقرار کرے
بلکہ اس کو اپنے اوپر
الله کی سب سے بڑی نعمت جانے اور
دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت انسان کو اس کے سامنے ہیچ نظر آئے
اس کے بغیر انسان اپنے آپ کو کہیں کا نہ سمجھے
اس کے جانے کی صورت میں انسان کو دنیا اندھیر ہوتی ہوئی نظر آئے
اس کے بغیر جینے کا انسان تصور تک نہ کرے
اس کے بغیر جینے پر انسان موت کو
بلکہ آگ میں کود پڑنے کو اپنے دل میں ترجیح دے

لا اله الا اللہ کو
زندگی کی متاعِ عزیز ترین جاننا
اس کلمہ کا اقرار کرنے کی ایک بنیادی شرط ہے

مزید برآں....... یہ بھی ایک حقیقت ہے اور عموماً دیکھنے میں آیا ہے
کہ
جس بات کے کرنے اور سننے میں انسان کو سب سے زیادہ سرور ملتا ہو
وہ ضرور اس کا موضوعِ سخن بھی بن جاتی ہے
بلکہ
وہ اس کی گفتگو اور اس کی دعوت کا اصل محور ہی بن جاتا ہے
ہو نہیں سکتا کہ
ایک چیز کو انسان اپنی سب سے بڑی دولت جانے
اور گردوپیش میں
وہ اُس کے موضوعات کے اندر نہایت مرکزی حیثیت نہ رکھے
اگرچہ یہ بات ایک نتیجے کے طور پر آتی ہے
نہ کہ ایک شرط کے طور پر،
لیکن یہ شرط
(یعنی
کلمہ سے شدید محبت و وارفتگی ہو جانا اور اس سے انسان کو سرور ملنا)
اگر پوری ہونے لگتی ہو تو اس کا ایک لازمی نتیجہ ہوتا ہے
کہ
لا اله الا اللہ کے موضوعات اب انسان کی دعوت پر چھا جائیں
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو
لا اله الا اللہ کی شروط واضح ہو جانے سے
لا اله الا اللہ کے تقاضوں کا بھی
خود بخود ایک نہایت خوب تعین ہو جاتا ہے

اس کلمہ سے سچی محبت دو امور سے ثابت ہوتی ہے:

(1) تمام عبادات کو
اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرنے سے
جو اکیلا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں

(2) شرک سے اپنا دامن پاک رکھنے سے
یہی
دو امور دین کی بنیاد ہیں:
(الجامع الفرید۔ رسالة الاولی فی التوحید للشیخ عبدالرحمن بن حسن)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللہِ
وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا ِلِلہ}
"بعض لوگ ایسے بھی ہیں
جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو
الله تعالیٰ کا شریک بنا کر ان سے بھی ویسی ہی محبت رکھتے ہیں
جیسی کہ
الله تعالیٰ سے
اور
ایمان والے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں"
(البقرۃ : 165)

اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ
اپنی قدرت کی نشانیوں اور اپنی نعمتوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ذکر کی ہے
اس سے مقصود یہ ہے کہ
جس الله تعالیٰ نے انھیں اتنی نعمتوں سے نوازا ہے
ان کے دلوں میں اسی
اللہ تعالیٰ کی محبت سب سے زیادہ ہونی چاہئے تھی،
لیکن اس کے برعکس انھوں نے
اللہ تعالیٰ کے شریک بنا لئے اور ان سے ایسی محبت کی
جو کہ
الله تعالیٰ سے ہونی چاہئے تھی
جبکہ ایمان والوں کی شان یہ ہے کہ
وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں

اس کی تفسیر میں اہلِ علم کے دو اقوال ہیں

ایک یہ کہ
جتنی محبت مشرک اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں
اس سے کہیں زیادہ محبت مومن اس سے کرتے ہیں
کیونکہ
مومنوں کی اللہ سے محبت خالص ہوتی ہے
اور مشرکوں کی اس سے محبت مشترکہ ہوتی ہے

دوسرا یہ کہ
جتنی محبت مومن اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں
وہ مشرکوں کی اس محبت سے کہیں زیادہ ہے
جو وہ اپنے معبودوں سے کرتے ہیں

پہلا معنی زیادہ مناسب اور راجح ہے
واللہ اعلم

اس آیتِ کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ
شرکِ محبت حرام ہے اور وہ شرک اکبر کی اقسام میں سے ایک قسم ہے
شرکِ محبت سے مراد ہے
مشرکوں کا اپنے شریکوں سے اس طرح محبت کرنا
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونی چاہئے تھی

نیز

الله تعالیٰ کا فرمان ہے:

{یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِه فَسَوْفَ یَأْتِیْ اللہُ بِقُوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَهُ أَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَائِمٍ}

"اے ایمان والو! تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو
اللہ عنقریب ایسے لوگوں کو لائے گا
جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے
جو مومنوں کے لئے نرم اور کافروں کے لئے سخت ہونگے،
وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے
اور
کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے"
(المائدۃ :54)

اس آیتِ کریمہ میں
الله تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ
اگر (بالفرض) مومن مرتد ہو جائیں
تو
وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے انھیں ختم کر کے
ان کی جگہ پر ایسے لوگوں کو لاسکتا ہے
جو اس کے دین کی حفاظت کریں گے
اور
ان میں پانچ صفات پائی جاتی ہونگی:

(1)۔۔۔ دینِ الٰہی کو مضبوطی سے تھامنے کی بناء پر
الله تعالیٰ ان سے محبت کرے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے اور
اس کے اوامرونواہی پر مکمل طور پر عملدرآمد کریں گے

(2)۔۔۔ وہ اہلِ ایمان کے لئے نرم خو ہونگے

(3)۔۔۔ اہلِ کفر کے لئے سخت ہونگے
یاد رہے کہ
الله تعالیٰ نے یہ دونوں صفات
صحابہ کرام رضی الله عنہم کے بارے میں یوں ذکر فرمائی ہیں:

{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ}
"محمد (صلی الله عليه وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور
جو لوگ ان کے ساتھ ہیں
وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں"
(الفتح : 29)

(4)--- وہ اللہ کے راستے میں کافروں کے خلاف جہاد کریں گے
تاکہ
اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اس کا دین غالب ہو

(5)۔۔۔وہ جہاں کہیں بھی ہونگے
شریعت کے مطابق حق بات کہتے رہیں گے
اور
کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خائف نہیں ہونگے

اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ اس وقت پورا کر دیا
جب رسول الله صلی الله عليه وسلم کی وفات کے بعد
حضرت ابوبکر رضی الله عنه کے دور خلافت میں
اہلِ جزیرہ میں سے چند لوگ مرتد ہوگئے تھے
اور ان سے
حضرت ابوبکر رضی الله عنه اور ان کی فوج نے قتال کیا تھا

مذکورہ آیتِ کریمہ سے درج ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں:

1-- عبادات کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرنے کا وجوب

2-- اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور بندے کی جانب سے محبت کا اثبات

3-- ان اہلِ ایمان کی
اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف جو اس سے گہری محبت رکھتے ہیں

4-- اچھا انجام صرف اہل ایمان کے لئے ہی ہے

حضرت انس رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم
نے ارشاد فرمایا:
(ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْهِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْاِیْمَانِ:
أَنْ يَّكُونَ اللهُ وَ رَسُوْلُهُ أَحَبَّ اِلَيْهِ مِمِّا سِوَاهَُما ، وَأَنْ يُّحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ اِلاَّ ِللهِ ، وَأَنْ يَّكْرَهَ أَنْ يَّعُـوْدَ فِيْ الْكُفْـرِ بَعْدَ اِذْ أَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ ، كَمَايَكْرَهُ أَنْ يُّلْقٰي فِيْ النَّارِ)

"تین خصلتیں ایسی ہیں کہ
جو کسی شخص میں موجود ہوں تو
وہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کی مٹھاس کو پالیتا ہے:
پہلی یہ کہ
اسے
الله اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم کے ساتھ
سب سے زیادہ محبت ہو
دوسری یہ کہ
اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو
اور
تیسری یہ کہ
اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح ناپسند ہو
جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے ناپسند ہے"
(بخاری : 16، مسلم : 43)

امام نووی رحمه الله کہتے ہیں کہ
یہ حدیث انتہائی عظیم ہے اور
اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول کی حیثیت رکھتی ہے:
اس حدیث سے کئی فوائد اخذ کئے جاسکتے ہیں

جن میں سے چند فوائد یہ ہیں:

1--- مومن الله تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں
اور
الله تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے

2--- اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ
جس شخص کی پیدائش اسلام کی حالت میں ہوئی ہو
وہ اس شخص سے افضل ہے
جس کی پیدائش کفر کی حالت میں ہوئی ہو اور
اس نے بعد میں اسلام قبول کی ہو
ان کا نظریہ سراسر غلط ہے
کیونکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ
جس شخص میں یہ تینوں صفات پائی جاتی ہوں
وہ سب سے افضل ہے
چاہیے اس کی پیدائش
اسلام کی حالت میں ہوئی ہو یا کفر کی حالت میں
یہی وجہ ہے کہ
اسلام قبول کرنے والے اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل تھے
جن کی پیدائش اسلام کی حالت میں ہوئی
حالانکہ وہ (سبقت لے جانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )
پہلے بتوں کی پوجا کرتے تھے
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ
گمراہی سے ہدایت کی طرف آنے والے
اور
بُرائیوں کو چھوڑ کر نیکیوں کی طرف آنے والے
شخص کے لئے اجر و ثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے
[یہ بات شیخ الاسلام رحمہ الله نے کہی ہے]

3--- اس حدیث میں ان لوگوں پر بھی رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ
بندے سے گناہ کا سر زد ہونا اس کے حق میں عیب اور نقص ہے
جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ
وہ عیب اور نقص تب ہے جب وہ اس سے توبہ نہ کرے اور
اگر وہ توبہ کرلے تو ایسا نہیں ہے

4--- اس حدیث میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ
مشرکوں سے دشمنی اور بغض ہونا چاہئے
کیونکہ
جس شخص کو کفر و شرک سے بغض ہوگا
اسے کفر و شرک کرنے والوں سے بھی بغض ہوگا

(تیسیر العزیز الحمید : 477)

اہلِ علم رحمه الله کا کہنا ہے کہ
ایمان کی مٹھاس سے مراد عبادات کی لذت کو محسوس کرنا اور
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم کی
رضا کی خاطر مشقتیں برداشت کرنا اور
انھیں
دنیا کے سازوسامان پر فوقیت دینا ہے

اللہ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم سے
بندے کی محبت کا اظہار
اطاعت کرنے اور نافرمانی کو چھوڑنے سے ہوتا ہے

القاضی رحمه الله کہتے ہیں کہ
کسی شخص کی
اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی الله عليه وسلم سے محبت
اس وقت تک حقیقت میں درست نہیں ہو سکتی اور
وہ اس وقت تک ایمان کی مٹھاس محسوس نہیں کر سکتا
بلکہ حدیث میں مذکور
تینوں خصلتیں تب تک حقیقتاً ثابت نہیں ہو سکتیں
جب تک کہ
اس کا ایمان مضبوط نہ ہو، اس کا دل اس پر مطمئن نہ ہو
اور
وہ اس کی رگ رگ اور اس کے خون میں اچھی طرح رچ بس نہ چکا ہو
اور
شیخ سلیمان شیخ الاسلام رحمه الله سے نقل کرتے ہیں کہ
اس حدیث میں نبی صلی الله عليه وسلم نے آگاہ فرمایا ہے کہ
یہ تین خصلتیں
جس شخص کے اندر پائی جاتی ہوں
وہ ایمان کی مٹھاس کو محسوس کرتا ہے
کیونکہ
کسی چیز کی مٹھاس اس کی محبت کے تابع ہوتی ہے
لہذا
جو شخص کسی چیز سے محبت کرتا ہے اور
اس سے اس کی مراد پوری ہو جاتی ہے تو
وہ مٹھاس ،لذت اور خوشی کو محسوس کرتا ہے
اور
یہ لذت
اس کی محبوب تمنا کے پورے ہونے کے بعد ہی محسوس ہوتی ہے
چنانچہ
ایمان کی لذت بھی بندے کی
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله عليه وسلم سے
محبت کے مکمل ہونے پر ہی محسوس ہو سکتی ہے

یہ محبت کیسے مکمل ہوتی ہے؟

تین امور کے ساتھ:

1-- الله تعالیٰ اور رسول اکرم صلی الله عليه وسلم
اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں
یعنی ان سے صرف محبت ہی نہ ہو بلکہ سب سے زیادہ محبت ہو
اور
یہ تب ہو سکتی ہے
جب وہ ان کی پسندیدہ اشیاء کو پسند کرے
اور
ناپسندیدہ اشیاء کو ناپسند کرے

2-- اسے الله کے محبوب ایمان والے بندوں سے محبت ہو
بلکہ
وہ جس سے محبت کرے صرف اللہ کی رضا کی خاطر ہی کرے
اور
جب وہ ایسا کرے گا تو
یہ اس کی الله تعالیٰ سے کامل محبت کی نشانی ہوگی
کیونکہ
محبوب کے محبوب کے ساتھ محبت کرنا بھی
محبوب کے ساتھ محبت کرنا ہے
لہذا
اسے انبیاء و رسل علیھم السلام، اولیاءاللہ، صالحین اور نیکو کار
لوگوں سے محبت کرنی چاہئے اور
ان سے محبت صرف اس لئے ہو کہ
یہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہیں

3--- اسے ایمان کی ضد یعنی کفر اور اہلِ کفر سے اتنی نفرت ہو
جتنی نفرت اسے جہنم میں گرائے جانے سے ہے
کیونکہ جب
وہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرے گا
تو
اس کا دین اسلام بھی اسے سب سے زیادہ محبوب ہوگا
اور
جب اسلام دیگر ادیان کی نسبت اسے سب سے زیادہ محبوب ہوگا
تو
محاسن اسلام کا نور
اسے جہالت اور شرک و کفر کی تاریکیوں سے دور رکھے گا
اور یوں وہ
اسلام پر عمل ہی کو اپنی نجات کا سب سے بڑا سبب تصور کرے گا
اور
اس پر عمل کرتے ہوئے
اسی کو وہ اپنے آخری دم تک اپنے گلے کا ہار بنائے رکھے گا

اس شرط کا تقاضا یہ ہے کہ
ایک مومن کی دوستی اور دشمنی
کلمہ توحید "لا اله الا اللہ" کی بنیاد پر ہو،
یعنی
اہلِ ایمان سے دوستی
اور
اس کے بالمقابل کفار و مشرکین اور منافقین سے دشمنی ہو،
اور
مؤمنوں کے خلاف کافروں اور مشرکوں کی
کسی بھی طرح مدد و نصرت اور پشت پناہی سے باز رہے
 
شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
کلمه توحید "لا اله الا اللہ" کی شرائط

شرط 8: - - - - - - - طاغوت کا انکار - - - -
توحید کے صحیح اور معتبر ہونے کے لیے
کفر بالطاغوت یعنی طاغوت کا انکار بھی ایک شرط ہے

علمائے عقیدہ کے ہاں
"شروط لا اله الا اللہ" کو بیان کرنے کے متعدد اسلوب پائے جاتے ہیں،
باوجود اس کے کہ
معانی اور مفاہیم کے حواله سے ان علماء میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ
بعض علماء لا اله الا اللہ کی ایک آٹھویں شرط بیان کرتے ہیں،
جسے وہ "کُفران" یا "کفر بالطاغوت" کا عنوان دیتے ہیں
کسی وقت اسِی شرط کو
"اللہ کے ماسوا
عبادت کرنے اور پوجی جانے والی ہستیوں کے ساتھ کفر کرنے"
کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں

علماء کے اِس فریق کی ذکر کردہ اِس شرط کا مقصد یہ ہے کہ
جب تک انسان نے باطل معبودوں کا صاف صاف انکار نہیں کیا
تب تک اُسکا "کلمہ" ادا نہیں ہوا
جن جن زندہ یا مردہ ہستیوں کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے،
جن جن ہستیوں کے آگے مراسم بندگی بجا لائے جاتے ہیں
خواہ
وہ طواف کی صورت میں ہو یا
نذر ونیاز کی صورت میں ہو یا
سجدہ و کورنش کی صورت میں،
جن جن ہستیوں کو اللہ کے ماسوا مطاع اور پیشوا مانا جاتا ہے
یعنی
اللہ کی بات کو چھوڑ کر ان کے قول کی طرف تحاکم کی جاتا ہے،
جب تک انسان نے ان سب کے ساتھ کفر نہیں کیا،
تب تلک اُس کا لا الٰه الا اللہ کہنا معتبر نہیں

جہاں تک
اِس "شرط" کے تحت بیان ہونے والی مذکورہ بالا حقیقت کا تعلق ہے
تو
اِس میں علمائے عقیدہ کے مابین ہرگز دورائے نہیں
بلاشبہ جب تک انسان
اللہ کے ماسوا عبادت کی جانے اور
پوجی جانے والی ہستیوں کے ساتھ کفر نہیں کرتا،
خواہ
وہ عبادت و پوجا کی جو بھی شکل ہو،
تب تک اُس کا لا اله الا اللہ کہنا غیر معتبر ہے
تاہم بیشتر
اہل علم
اِس بات کو لَآ اِلٰہَ کے معنیٰ و مفہوم ہی کے اندر بیان کر جاتے ہیں
نہ کہ شرط کے طور پر
یعنی
لا اله الا اللہ کا معنیٰ اور مفہوم ہی یہ ہے،
جس کا علم لینا اور اس پر
یقین، اخلاص، صدق و وفاء، تسلیم اور انقیاد، طاغوت کا انکار،
اس کلمہ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اُس پر موت آنا وغیرہ
ایسے رویے اختیار کرنا
ایک شرط کے طور پر انسان سے مطلوب ہوتے ہیں
چنانچہ کسی
اہل علم نے اگر اِس کو ایک علیحدہ "شرط" کے طور پر بیان نہیں کیا
تو
اُس نے اِسے "شرط" سے بھی زیادہ اہم چیز کے طور پر بیان کیا ہے
یعنی
لا اله الا اللہ کا وہ بنیادی ترین مفہوم جس پر انسان کو ایمان لانا ہے

بنابریں،
اِس بات کو ہرگز محل نزاع نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ
جب تک انسان اُن ہستیوں کے ساتھ کفر نہیں کر لیتا
جن کی اللہ کو چھوڑ کر عبادت ہوتی ہے
تب تک اُس کے
لا اله الا اللہ کہنے کا کوئی معنیٰ اور مفہوم ہی نہیں
بات ہو سکتی ہے تو صرف اِس پر کہ آیا
اس بات کو لا اله الا اللہ کے مفہوم کے طور پر بیان کیا جائے
یا
شرط کے طور پر؟

علمائے عقیدہ کی زیادہ بڑی تعداد نے اول الذکر طریقے کو اختیار کیا ہے
جبکہ
علماء کی ایک تعداد ایسی ہے جس نے ثانی الذکر طریقہ اختیار کیا ہے

مثال کے طور پر
شیخ حمود بن العقلا
اپنے رساله "شرح شروط لا اله الا اللہ" میں
کلمہ کی آٹھویں شرط کا عنوان دیتے ہیں:

"الکفر بالطاغوت"
اور
اس کی دلیل میں دو آیتیں لے کر آتے ہیں:
{فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ
لَا انفِصَامَ لَھَا وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}
"تو پھر
جس نے کفر کیا طاغوت کے ساتھ، اور ایمان لایا اللہ کے ساتھ،
تو یقیناً تھام لیا اُس نے وہ مضبوط ترین سہارا جس کو ہرگز ٹوٹنا نہیں
اور
اللہ سننے والا ہے جاننے والا"
(البقرۃ : 256)

{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُواْ اللہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت}
"اور بے شک ہم نے بھیجا ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول،
کہ:
عبادت کرو اللہ کی اور دامن کش ہو کر رہو طاغوت سے"
(النحل:36)

اِس کے بعد،
رسول الله صلی الله عليه وسلم کی حدیث لے کر آتے ہیں:
مَنْ قَالَ لَآ اِلٰهُ اِلَّا اللہ،
وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہِ حَرُمَ مَالُهُ وَ دَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَی اللہِ
"جس شخص نے کہہ دیا "نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ" ،
اور وہ کفر کرنے لگا ہر اُس ہستی کے ساتھ
جو اللہ کو چھوڑ کر عبادت کی اور پوجی جاتی ہے،
اُس کا مال اور جان حرام ہو جاتا ہے،
باقی اُس کا حساب کرنا اللہ کا کام"

(صحیح مسلم: کتاب الایمان،
باب: الأمر بقتال الناس حتیٰ یقولوا أن لا الٰه الا اللہ محمد رسول اللہ)

اِسی طرح

شیخ عبدالعزیز الراجحی
ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

سوال:
بعض اہل علم بیان کرتے ہیں کہ
شروطِ لا اله الا اللہ آٹھ ہیں
یہ آٹھویں شرط کونسی ہے؟

جواب:
کفران کرنا (طاغوت کا)
جیسا کہ ان کے بیان میں آیا ہے
یعنی
اللہ کے ماسوا
عبادت کی و پوجی جانے والی ہستیوں کے ساتھ کفر کرنا
اور یہ معروف ہے
اور دیگر شروط سے ماخوذ ہے۔
(شرح عقیدہ طحاویه از عبدالعزیز الراجحی حصه اول 1، ص 26)

ایک مومن اپنے گردوپیش میں الجھے بغیر نہیں رہ سکتا،
یہ بت طواغیت ہوں تو تب،
دستور و قوانین ہوں تو تب،
معاشرتی قدریں ہوں تو تب

ہر مومن نے
لا اله الا اللہ کی گواہی کے بعد اس مشن پر چلنا ہوتا ہے
اگر کسی معاشرے میں
کبھی طاغوتوں
(اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرنے والے انسان و جن)
کے پائے جانے کا امکان نہ ہوتا تو
لا اله (معاذ اللہ) بے معنی ہو جاتا
وہ کون کون سے الهٰ ہیں جن کا پہلے انکار کرایا جاتا ہے؟
کیا کسی شخص کے کلمہ شہادت کے یہ الفاظ معتبر ہوسکتے ہیں کہ
اللہ میرا معبود ہے
ہرگز نہیں، اپنے گرد و پیش کے طاغوتوں کا انکار کر کے ہی
پھر اللہ کی بندگی کا اقرار معتبر ہوا کرتا ہے
یہی وہ کلمہ ہے
جو انبیاء اپنے معاشروں میں لے کر کھڑے ہوتے ہیں
تو کیا کوئی مومن یہ گمان کر سکتا ہے کہ
اللہ کے نبی صلی الله عليه وسلم
اپنے بعثت کے مقصد کو پورا نہ کر کے گئے ہوں

البتہ
ایمان باللہ اور کفر بالطاغوت وہ بنیادی مسئلہ ہے
جس کو
اللہ رب العزت نے تفصیلاً ذکر فرمایا ہے:

{وَاِلَھُکُمْ اِلَهٌ وَاحِدٌ لَّا اِلَهَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْم}
"اور تمہارا الهٰ ایک ہی الهٰ ہے،
اس کے سوا کوئی الهٰ نہیں وہ نہایت مہربان بڑا رحم کرنے والا ہے"
(البقرۃ : 163)

{اللہُ لٰا اِلَهَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ}
"اللہ کے سوا کوئی الهٰ نہیں
وہ ہمیشہ سے زندہ، ہر چیز کو قائم کرنے والا ہے"
(اٰل عمران : 2)

{وَاِذْ قَالَ اِبْرَاھِيْمُ لِأَبِیْهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَاماً آلِھَةً
اِنِّیْ أَرَاکَ وَقَوْمَکَ فِیْ ضَلاَلٍ مُّبِیْنَ}
"اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا
کیا تم نے بتوں کو الهٰ بنا لیا ہے؟
میں تو تمہیں اور تمہاری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں"
(الانعام : 74)

قرآن پاک کی آیات سن کر ہی مشرکین مکہ کہتے تھے:

{أَجَعَلَ الْآلِھَةَ اِلَھًا وَاحِداً اِنَّ ھَذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ}
"اس نے سب خداؤں کو ایک ہی الہٰ بنا ڈالا یہ کیسی عجیب بات ہے"
(ص : 5)
اور
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی
اللہ تعالیٰ کی عظمت اور طواغیت کے انکار کے سلسلے میں
جو تربیت کی ہے

اس کی تفصیل احادیث میں بھی موجود ہے

((عن ابی ھریرۃ قال قال
رسول الله
یجمع اللہ الناس یوم القیامة، فیقول :
من کان یعبد شیئًا فلیتبعه،
فیتبع من کان یعبد الشمس الشمس،
ویتبع من کان یعبد القمر القمر،
ویتبع من کان یعبد الطواغیت الطواغیت))

ابو ہریرہ رضی اللہ عنه روایت کرتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ
جو کوئی جس کی بندگی کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے
پس
سورج کی عبادت کرنے والے سورج کے ساتھ جائیں گے
اور
چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے ساتھ جائیں گے
اور
طواغیت کی بندگی کرنے والے طواغیت کے ساتھ جائیں گے"
(صحیح بخاری : 7437)

اور فرمایا:

"جو شخص ہمیشہ مال کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے
وہ طاغوت کے راستے میں ہے اور وہ شیطان کے راستے میں ہیں"
(سلسلة الاحادیث الصحیحة: 2232)

نبی کریم صلی الله عليه وسلم
نے فرمایا:

((لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِی وَلاَ بآبائِکُم))
"طواغیت کی قسمیں نہ کھاؤ اور نہ ہی اپنے باپ دادا کی"
(مسلم : 1648)

مال کی بندگی کرنے والے کو
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے
عبدالدینار اور عبدالدرہم قرار دیا
گویا
اس کا معبود درہم و دینار ہیں:

رسول الله صلی الله عليه وسلم
نے فرمایا:
"درہم کا بندہ تباہ ہو گیا"
(صحیح بخاری : 2887)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

"جو شخص کسی نجومی یا کاہن کے پاس آیا
پھر جو کچھ اس نے کہا اسے سچ مان لیا
یا
حائضہ عورت سے صحبت کی یا عورت کے دبر میں جنسی فعل کیا
تو
بلاشبہ اس نے اس دین کا ہی انکار کر دیا جو محمد پر نازل ہوا"
(ابو داؤد 3904)

رسول الله صلی الله عليه وسلم نے
عملاً اپنے دور میں پائے جانے والے طواغیت کا قلع قمع کیا

سیدنا علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
"ایک دفعہ میں اور
رسول صلی الله عليه وسلم بیت اللہ کے پاس پہنچے
آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
علی بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا،
آپ صلی الله عليه وسلم میرے کندھوں پر سوار ہوگئے
لیکن میں جب
آپ صلی الله عليه وسلم کا بوجھ نہ سہار سکا تو
آپ صلی الله عليه وسلم بیٹھ گئے
اور میں
آپ صلی الله عليه وسلم کے کندھوں پر سوار ہوا
جب
آپ صلی الله عليه وسلم مجھے اٹھائے ہوئے کھڑے ہوئے
تو
مجھے ایسے لگا
گویا میں آسمان تک پہنچ گیا ہوں،
اس کے بعد میں کعبہ کی چھت پر چڑھ گیا
وہاں پیتل یا تانبے کی مورتیاں تھیں
جنہیں میں نے اٹھا کر چاروں طرف پھینک دیا
آپ صلی الله عليه وسلم نے مجھے حکم دیا کہ توڑ دو،
میں نے انہیں گرا کر شیشے کی طرح کرچی کرچی کر دیا
اس کاروائی کے بعد ہم دونوں
وہاں سے چل دئیے اور سیدھے گھر آکر دم لیا،
ہمیں خطرہ تھا کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے"
(مسند احمد 151. صححه احمد شاکر)

صحابه کرام رضی الله عنہم کے نزدیک طاغوت کا مفہوم:

عمر بن خطاب رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد شیطان ہے"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)

عکرمه رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد کاہن ہیں"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)

جابر بن عبداللہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت وہ ہوتے ہیں
جن کی طرف لوگ فیصلے لے کر جاتے ہیں
جہنیه قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اسلم قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اور
اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا ہے
یہ کاہن ہوتے ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں"
(بخاری کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)

کوئی بھی شخص
اس وقت تک موحد نہیں کہلا سکتا
جب تک وہ طاغوت کا انکار نہ کرے
اور
طاغوت کا انکار تبھی ممکن ہے
جب انسان طاغوت کو پہچان لے کہ طاغوت ہے کیا چیز؟

لغت میں طاغوت طغیان سے مشتق ہے
جس کا معنی ہے حد سے گذرنا
حق سے باطل اور ایمان سے کفر کی طرف تجاوز کرنا
جیسا کہ
قرآن میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے

{اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَةِ}
"جب پانی حد سے گزر گیا تو ہم نے تمہیں چلتی کشتی میں سوار کرایا"
(الحاقه : 11)

شریعت میں طاغوت ہر اس شخص کو کہتے ہیں
جو سر کشی کرے
حدود فراموش بنے
اللہ کے حقوق میں سے
کسی حق کو اپنے لئے ثابت مانے یا اپنی طرف اس کی نسبت کرے
اور خود کو الله کے برابر قرار دے
(یا کسی چیز یا شخص کے لئے
الله کے حقوق ثابت مانے یا اسے الله کے برابر و شریک قرار دے)

مزید وضاحت ہم اس طرح کریں گے کہ
کوئی مخلوق تین امور میں سے
کسی ایک کو اپنے لئے ثابت مانے وہ طاغوت ہے

1--- کوئی مخلوق
اپنے لئے کوئی ایسا فعل ثابت مانے یا اپنی طرف منسوب کرے
جو الله کے افعال ہیں
جیسے پیدا کرنا، رزق دینا، شریعت بنانا وغیرہ
جو ان میں سے کسی کام کا دعوی کرے یا عملاََ کرے
وہ طاغوت ہے

2 --- اللہ کی صفات میں سے کوئی صفت اپنے اندر موجود مانے
جیسے علم غیب وغیرہ

3 --- کسی مخلوق کے لئے عبادت میں کوئی عبادت
جیسے
دعا، نذر، ذبح، قربانی، جہاد، فیصلے، وغیرہ
میں سے کوئی ایک قسم مانے تو
یہ بھی طاغوت ہے
یا
ایسے کسی عمل پر خاموشی اختیار کرے
اس سے بیزاری و براءت کا اظہار نہ کرے

ان تینوں امور میں سے
اگر کسی شخص نے
ایک کو یا تینوں کو اپنی طرف منسوب کر لیا تو
وہ طاغوت ہے

امام مالک رحمه الله نے طاغوت کی تعریف اس طرح کی ہے

[والطاغوت ھو کل ما یعبد من دون الله عزوجل]
طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی عبادت کی جائے اللہ کے علاوہ
(ابن کثیر)
یہ تعریف
جو امام مالک رحمه الله نے کی ہے
سب سے عمدہ تعریف ہے کہ

اس میں ماسویٰ
اللہ جس چیز کی بھی عبادت کی جائے وہ شامل ہے
ہر باطل معبود طاغوت ہے
جیسے
بت، قبر، پوجے جانے والے پتھر، درخت، مزار، اور
وہ احکام جو اللہ کے حکم کے مقابلہ پر بنائے جائیں اور
ان کے مطابق لوگ اپنے فیصلے کریں

اس طرح
وہ قاضی و حاکم بھی طاغوت ہیں
جو الله کے احکام کے مخالف احکام کے مطابق فیصلے کرتے ہیں

شیطان اور جادوگر، کاہن و نجومی جو غیب کا دعوی کرتے ہیں
سب طاغوت ہیں

اسی طرح جو لوگ خود کو شریعت ساز سمجھتے ہیں
حرام و حلال قرار دینے کا خود کو مجاز سمجھتے ہیں
سب طاغوت ہیں

ان کا انکار اور ان سے بیزاری و براءت کا اعلان ضروری ہے
یہی کفر بالطاغوت ہے

علامه عبداللہ بن عبدالرحمن ابابطین کہتے ہیں:
علماء کے اقوال سے یہ خلاصه سامنے آتا ہے کہ

لفظ طاغوت سے مراد اللہ کے علاوہ ہر معبود ہے
اور
ہر وہ شخص یا عمل بھی جو باطل کی طرف دعوت دے
یا
باطل کو مزین کر کے لوگوں کو دکھائے
اسی طرح
ہر وہ حاکم و قاضی جسے لوگوں نے احکام جاہلیت
(یعنی الله و رسول صلی الله عليه وسلم کے احکام کے علاوہ)
کے احکام کے مطابق فیصلہ کرنے کے لئے مقرر کیا ہو
اسی طرح
کاہن،
جادوگر،
بتوں کے محافظ و نگران
جو لوگوں کو بت پرستی کی دعوت دیتے ہیں
اور
وہ مجاور جو مزارات کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں
(مجموعة التوحید : 183/1)

امام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله فرماتے ہیں

طواغیت بہت سارے ہیں
مگر ان کے سرغنه پانچ ہیں

1 -- شیطان جو غیر الله کی عبادت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے

{اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ}
اے اولادِ آدم کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ
شیطان کی عبادت مت کرو یہ تمہارا کھلا دشمن ہے
(یٰس : 60)

2 -- ظالم حکمران
جو اللہ کے احکام کو بدلتا ہے
فیصلے اپنی مرضی اور اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کرتا ہے

{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ آمَنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِهِ}
"کیا
آپ (صلی الله عليه وسلم) نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا
جو بزعم خویش
آپ پر نازل کردہ (شریعت) اور
آپ سے پہلے نازل ہونے والی (شریعتوں) پر ایمان لائے ہیں
(مگر ان کا حال یہ ہے کہ)
وہ چاہتے ہیں کہ
اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ
ان کو حکم کیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں"
(النساء : 60)

3 -- جو الله کے نازل کردہ احکام کو چھوڑ کر
مخلوق کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں

{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ}
جس نے اللہ کے نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کئے تو
وہ لوگ کافر ہیں
(المائدہ : 44)
شیخ کی مراد
اس سے وہ قاضی و جج یا حاکم ہیں
جو اللہ کے احکام کو بدل کر اپنے احکام نافذ کرنے والوں کی مرضی کے فیصلے کرتا ہے

4 -- جو علم غیب کا دعوی کرتا ہے
یا
اللہ کے علاوہ کسی اور کے لئے علم غیب کا قائل ہو

{عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِهِ اَحَداً}
"اللہ عالم الغیب ہے کسی کو اپنے غیب پر غالب نہیں کرتا"
(الجن : 26)

5 -- اللہ کے علاوہ جس کی پرستش کی جائے اور وہ اس پر راضی ہو

{وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ اِنِّیْ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِه فَذٰلِکَ نَجْزَیْه جَہَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ}
ان میں سے جس نے کہا کہ
میں الله کے علاوہ معبود ہوں
تو ایسے شخص کو ہم جہنم کی سزاء دیں گے
ہم ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں
(انبیاء : 29 ، مجموعة التوحید 15/1)

محمد بن عبدالوہاب رحمه الله
آیت ولا یشرک بعبادۃ ربه احداً
(اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے)
کے بارے میں فرماتے ہیں
اس آیت کا مطلب اس طرح سمجھنا کہ اس سے مکمل فائدہ حاصل ہو
یہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے
جو
توحید ربوبیت اور توحید الوہیت میں مکمل تمیز کر سکتا ہو
اور
اس بارے میں لوگوں کے ان عقائد سے بھی واقف ہو
جو
وہ طواغیت کے بارے میں رکھتے ہیں
اسی طرح
وہ ان طواغیت سے بھی باخبر ہو
جو
اللہ کی توحید ربوبیت میں خود کو شریک سمجھتے ہیں
حالانکہ یہ شرک ایسا ہے
جس تک مشرکین عرب بھی نہیں پہنچ سکے تھے
اور
ایسے شخص سے بھی واقف ہو
جو خود تو طاغوت نہیں ہے مگر طاغوت کا تابع ہے
اور
ایسے شخص سے بھی واقفیت رکھتا ہو
جو اپنے دین کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہو
اور
محمد صلی الله عليه وسلم کی
شریعت اور نصاری کے دین میں فرق نہیں کر سکتا
جو شخص
ان تمام باتوں کی معلومات رکھتا ہے
وہی دراصل
توحید کی
حمایت اور شرک کی مذمت والی آیات کا مفہوم و مطلب
اچھی طرح سمجھ سکتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی سمجھا سکتا ہے
(تاریخ نجد ص 506)

طاغوت
(شیاطین جن و انس میں سے) کے انکار کی پانچ صورتیں ہیں

1 -- یہ عقیدہ رکھنا کہ طاغوت کی عبادت باطل ہے

{ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ھُوَ الحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِه ھُوَ الْبَاطِلُ
وَاِنَّ اللہَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ}
"اس لئے کہ
اللہ ہی حق ہے اور یہ لوگ جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں
وہ باطل ہے
اللہ ہی سب سے بلند اور بڑا ہے"
(حج : 62)

2 -- طاغوت کی عبادت چھوڑ دینا اور اس سے اجتناب کرنا

{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ}
ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (وہ ان سے کہے)
اللہ کی عبادت کرو اور طاغو ت سے اجتناب کرو
(النحل : 36)

{فاجتنبوا الرجس من الاوثان واجتنبوا قول الزور}
"بتوں کی ناپاکی سے اجتناب کرو اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو"
(الحج : 62)

طاغوت کی عبادت اور بتوں کی پرستش یہی ہے کہ
انہیں طاقت کا مالک مانا جائے اور ان سے مدد مانگی جائے
ان کے لئے نذر و نیاز دئیے جائیں

ابن کثیر نے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 256 کی تفسیر میں کہا ہے کہ
اہل جاہلیت کا شرک یہی تھا

طاغوت کو چھوڑ دینے کی تین اقسام ہیں

1-اعتقادی.
2-قولی.
3-فعلی.
جب تک کوئی مسلمان ان تینوں طریقوں سے طاغوت کو نہیں چھوڑے گا
تو
وہ طاغوت کے چھوڑنے والوں میں شمار نہیں ہوگا
اس لئے کہ منافقین کا وطیرہ یہ تھا کہ
قولی اور فعلی طور پر طاغوت کو چھوڑ دیا تھا
مگر اعتقادی طور پر نہیں چھوڑا تھا

اسی طرح کچھ لوگ اعتقادی طور پر چھوڑ دیتے ہیں مگر قولی نہیں
جس طرح کہ وہ لوگ جو غیر اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں

بعض لوگ اعتقاداً چھوڑ دیتے ہیں مگر فعلاً نہیں
جیسے طاغوت کے سامنے سجدہ کرنے والے
ان کے نام کی نذر و نیاز دینے والے یا ان سے فیصلے کرانے والے
یا
ایسے لوگوں کے عقائد کو صحیح تسلیم کرنے والے بھی
عملاً
طاغوت کو چھوڑنے والوں میں شمار نہیں ہوں گے
لہذا جب تک
ترک طاغوت کی مذکورہ تینوں صورتیں کسی میں موجود نہ ہوں
اس وقت تک اسے تارک طاغوت نہیں سمجھا جائے گا

شیخ سلیمان بن عبداللہ نے
(الم تر الی الذین یزعمون...... ) آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
مسلمان پر فرض ہے کہ
وہ کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور قانون کے مطابق کئے گئے
فیصلوں کو چھوڑ دے اور خود بھی کبھی
قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور قانون کے پاس اپنے مقدمات نہ لے جائے
اگر کوئی شخص
اللہ و رسول کے
قوانین چھوڑ کر دوسرے قوانین کی طرف اپنے معاملات لیجاتا ہے تو
وہ مؤمن تو کیا مسلمان بھی نہیں ہے

یہاں ایک بات بھی قابل توجہ ہے
اور
وہ یہ کہ
جہاں اللہ نے ہمیں طاغوت کے انکار کا حکم دیا ہے اور
اس سے اجتناب کی تاکید کی ہے
وہاں ہمیں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ
ہم طاغوت کی طواغیت سے بھی خود کو بچائیں اور
اللہ کے حقوق میں سے کوئی اور حق اسے نہ دیں
مثلاً
اگر کوئی شے یا شخص اس وجہ سے طاغوت کہلاتا ہے کہ
لوگ اس سے مرادیں مانگتے ہیں مصائب میں
اس کے سامنے فریاد کرتے ہیں تو
ہمیں چاہئیے کہ ہم اس سے مرادیں نہ مانگیں
تکالیف میں اسے نہ پکاریں
اور
اگر کوئی اس وجہ سے طاغوت کہلاتا ہے کہ
اس کے مقربین و متوسلین اس کے نام پر ذبیحہ و قربانی کرتے ہیں
تو ہم پر لازم ہے کہ
ہم اس کے نام پر ذبیحہ نہ کریں
اسی طرح کہ
اگر کوئی اسی بنا پر طاغوت ہے کہ
لوگ اس کے پاس اپنے مقدمات اور فیصلے لیجاتے ہیں
تو
ہمارا فرض ہے کہ
ہم اس سے فیصلے نہ کرائیں

امام ابن تیمیه رحمه الله فرماتے ہیں:
یہی وجہ ہے کہ
کتاب الله کے بغیر اگر کوئی حکمران یا قاضی فیصلہ کرتا ہے تو
اسے طاغوت کہا جاتا ہے
(مجموعة الفتاوی 201/28)

امام ابن القیم رحمه الله فرماتے ہیں:
ہر قوم کا طاغوت وہ ہے جس کے پاس وہ اپنے فیصلے لیجاتے ہیں
(اور
وہ الله و رسول کے احکام کے بغیر
کسی دوسرے قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو)
(اعلام الموقعین 40/1)

3 -- طاغوت سے دشمنی

الله تعالیٰ نے
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا
قول بطور حکایت کے بیان کر کے فرمایا ہے:

{قَالَ اَفَرَاَیْتُمْ مَّاکُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَ اَنْتُمْ وَ اٰبَاؤُکُمُ الْاَقْدَمُوْ نَفَاِنَّھُمْ عَدُوٌّلِّیْ
اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ}
"(ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے) کہا کہ
مجھے بتاؤ (انکی حقیقت) جنکی تم عبادت کرتے ہو
تم بھی اور تمہارے باپ دادا بھی
یہ (تمہارے معبود) میرے دشمن ہیں سوائے رب العالمین کے"
(الشعراء : 75 تا 77)

4 -- طاغوت سے نفرت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ
وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ
اِنَّا بُرَءٰ ؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَيْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَاءُ
اَبَداً حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاللهِ وَحْدَہْ}
"تمہارے لئے
ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کی سیرت بہترین نمونہ ہے
جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ
ہم تم اور تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہیں
جنہیں
تم الله کے علاوہ پکارتے ہو ہم تمہارے ان عقائد کا انکار کرتے ہیں
اور
ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت اور نفرت ظاہر ہو چکی
جب تک کہ تم ایک الله پر ایمان نہ لے آؤ"
(الممتحنه : 4)

{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کَلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ}
"ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا جو ان سے کہتا تھا کہ
الله کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو"
(النحل ۔ 36)

اس آیت کی تفسیر میں الدررالسنیة میں لکھا ہے کہ
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ
اگر ایک شخص اللہ کی عبادت کرتا ہے اس سے محبت کرتا ہے
اللہ کے پسندیدہ اُمور کو پسند کرتا ہے
مگر مشرکین کے عقائد کی وجہ سے ان سے نفرت نہیں کرتا
ان سے دشمنی نہیں رکھتا تو
یہ شخص خود کو طاغوت سے اجتناب کرنے والا نہ سمجھے اور
جب کوئی شخص طاغوت سے نہیں بچتا
وہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا
اگرچہ سب سے زیادہ عبادت گذار ہو،
رات کو تہجد پڑھتا ہو،
دن کو روزے رکھتا ہو،
اس کی مثال ایسی ہے
جیسا غسل جنابت کئے بغیر نماز پڑھ لی ہو
یا
سخت گرمی میں روزہ رکھ کر روزے کے دوران بدکاری کی ہو

5 -- کافر سمجھنا

یعنی
طاغوت اور طاغوت کی عبادت کرنے والے کو اور ہر اس شخص کو کافر سمجھنا
جو کفریہ طریقے خود اختیار کرے
یا دوسروں کو اسکی طرف دعوت دے۔

امام محمد بن عبدالوہاب رحمه الله فرماتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر سب سے پہلا کام جو فرض کیا ہے وہ ہے
طاغوت کا انکار اور الله پر ایمان لانا

جیسا کہ ارشاد ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوْا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ}
"ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا (جو ان سے کہتا تھا)
الله کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو"
(النحل : 36)

طاغوت کے انکار کا مقصد یہ ہے کہ
انسان غیر الله کی عبادت کو بالکل باطل سمجھے اسے چھوڑ دے
اس سے نفرت کرے اور
طاغوت کی عبادت کرنے والوں کو کافر سمجھے اور
ان سے عداوت رکھے
اسی طرح یہ بھی فرماتے ہیں کہ
انسان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتا
جب تک کہ طاغوت کا انکار نہ کرے

اس لئے کہ اللہ کا ارشاد ہے:
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا
تو اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا"
(البقرہ ۔ 256)
(مجموعة التوحید ص 14 ۔ 5)

نیز دوسری جگہ فرماتے ہیں
میرے بھائیو
تمہیں اللہ کا واسطہ اپنے دین کی بنیاد کو تھام لو
شروع سے آخر تک اور یہ بنیاد ہے
لا اله الا اللہ
اس کا معنی و مطلب سمجھو
اس سے محبت رکھو
اس کے ماننے والوں سے محبت رکھو
انہیں اپنا بھائی بناؤ
اگرچہ وہ تم سے دور ہی کیوں نہ ہوں
طاغوت کا انکار کرو
اس سے نفرت کرو
طاغوت کے ماننے والوں سے نفرت کرو
ان سے محبت کرنے والوں سے بھی نفرت کرو
ان سے بھی نفرت کرو جو ان کی حمایت کرتے ہیں یا یہ کہتے ہیں
کہ ہمارا ان کے کرتوتوں سے کیا واسطہ؟
یا یہ کہے کہ
یہ میری ذمہ داری نہیں کہ میں طاغوت کے پیروکاروں سے دشمنی کروں
اگر کوئی ایسی بات کرتا ہے تو وہ الله کی بات کو جھٹلاتا ہے
بلکہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے
اس لئے کہ
اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے
اس پر فرض کر دیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کرے اور
اس سے اور
اس کے ماننے والوں سے نفرت اور بیزاری و براءت کا اعلان کرے
اگرچہ وہ اس کے بھائی یا اولاد ہی کیوں نہ ہو
لہذا ان باتوں کو مضبوطی سے تھام لو
تاکہ
تم اللہ کے پاس جاؤ تو مشرک بن کے نہ جاؤ

اللہ سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں اسلام پر موت دے اور ہمیں صالحین کے ساتھ یکجا کر دے
(مجموعة التوحید ۔ ص 144/1)

{لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡن ۟ ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ
فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭
لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ}
"دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے
سیدھی راہ ٹیڑھی راہ سے ممتاز اور روشن ہوچکی ہے،
اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے
اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا،
جو کبھی نہ ٹوٹے گا
اور
اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے"
(البقرۃ : 256)

{اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ۬ ؕ
وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ
اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ}
ایمان لانے والوں کا کارساز (حامی و مددگار) اللہ تعالیٰ خود ہے
وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے
اور
کافروں کے اولیاء (دوست) طاغوت (شیاطین) ہیں
وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں
یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے
(البقرۃ : 257)

{لَقَدۡ بَعَثۡنَا فِیۡ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ ۚ
فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَیۡهِ الضَّلٰلَةٌ ؕ
فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَةُ الۡمُکَذِّبِیْنَ}
"ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا
اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ
اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو
اس کے بعد ان میں سے
کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہو گئی
پھر ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ
جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہو چکا ہے"
(النحل : 36)

{اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ
وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا}
"کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا
جنہیں کتاب کے عِلم میں سے کچھ حصّہ دیا گیا ہے
اور
ان کا حال یہ ہے کہ جِبْت اور طاغوت کو مانتے ہیں
اور
کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ
ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں"
( النسآء : 51)

{اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یَزۡعُمُوۡنَ اَنَّہُمۡ اٰمَنُوۡا بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَحَاکَمُوۡۤا اِلَی الطَّاغُوۡتِ وَ قَدۡ اُمِرُوۡۤا اَنۡ یَّکۡفُرُوۡا بِہٖ ؕ
وَ یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّضِلَّہُمۡ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا}
"اے نبی !
تم نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جو دعوٰی تو کرتے ہیں کہ
ہم ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے اور
ان کتابوں پر جو تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں
مگر چاہتے یہ ہیں کہ
اپنے معاملات کا فیصلہ کرانے کے لیے طاغوت کی طرف رجوع کریں ،
حالانکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا تھا
شیطان انہیں بھٹکا کر راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے"
(النسآء : 60)

{الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ
وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيل الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ
إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا}
"جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں
اور
جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں
پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو
اور
یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں"
(النسآء ۔ 76)

{قُلۡ ھَلۡ اُنَبِّئُکُمۡ بِشَرٍّ مِّنۡ ذٰلِکَ مَثُوۡبَةً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ
مَنۡ لَّعَنَهُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ عَلَیۡهِ وَ جَعَلَ مِنۡہُمُ الۡقِرَدَۃَ وَ الۡخَنَازِیۡرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوۡتَ
اُولٰٓئِکَ شَرٌّ مَّکَانًا وَّ اَضَلُّ عَنۡ سَوَآءِ السَّبِیۡلِ }
"پھر کہو “ کیا میں ان لوگوں کی نشاندہی کروں
جن کا انجام اللہ کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟
وہ جن پر اللہ نے لعنت کی ، جن پر اس کا غضب ٹوٹا ،
جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے ، جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی
ان کا درجہ اور بھی زیادہ بُرا ہے اور
وہ سَوَاء السّبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں"
(المائدۃ : 60)
 
Top