اسرار حسین الوھابی
بین یوزر
- شمولیت
- اگست 16، 2017
- پیغامات
- 112
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 55
(میراث الانبیاء)
الحمد للہ و الصلوٰۃ و السلام علیٰ رسول الله
یقیناً اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد اور میثاق کر رکھا ہے کہ
وہ لوگوں کے لئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں
جو انکی خاطر نازل کی گئی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَهُ ۔۔۔۔۔}
"اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی
اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے
اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اس کی بات کو نہ چھپانا"
(آل عمران : 187)
اور
وہ لوگ اللہ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپا لیں
فرمایا
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللهُ وَيَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُونَ}
"بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں
(کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں،
جبکہ ہم نے انہیں لوگوں (کو سمجھانے) کیلئے
اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے،
سو ایسوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں"
(البقرۃ : 159)
فرمانِ نبوی صلی الله عليه وسلم :
((أَلَا ! لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا ھَیْبَةُ النَّاسِ أَنْ یَّقُوْلَ بِحَقٍّ اِذَا عَلِمَهُ))
"خبردار !
کسی آدمی کو لوگوں کی ہیبت حق کہنے سے ہرگز نہ روکے
جب کہ
اسے حق کا علم ہو"
(سنن ابن ماجه، حدیث : 4007)
<|۔۔۔۔۔انبیاء علیھم السّلام کی بعثت کا بڑا مقصد۔۔۔۔۔|>
فرمان باری تعالیٰ ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت}
"اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ
اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو"
(النحل : 36)
اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں (جن و انس) پر طاغوت کا کفر و انکار اور
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔
فرمانِ الٰہی :
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِاسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَھَا ۔۔۔۔}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا
تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو کبھی ٹوٹتا نہیں"
(البقرۃ : 256)
((عن ابی ھریرۃ قال قال
رسول الله
یجمع اللہ الناس یوم القیامة، فیقول :
من کان یعبد شیئًا فلیتبعه،
فیتبع من کان یعبد الشمس الشمس،
ویتبع من کان یعبد القمر القمر، ویتبع من کان یعبد الطواغیت الطواغیت))
ابو ہریرہ رضی اللہ عنه روایت کرتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ
جو کوئی جس کی بندگی کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے
پس
سورج کی عبادت کرنے والے سورج کے ساتھ جائیں گے
اور
چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے ساتھ جائیں گے
اور
طواغیت کی بندگی کرنے والے طواغیت کے ساتھ جائیں گے۔"
(صحیح بخاری : 7437)
اور فرمایا:
"جو شخص ہمیشه مال کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے
وہ طاغوت کے راستے میں ہے اور وہ شیطان کے راستے میں ہیں"
(سلسلة الاحادیث الصحیحة: 2232)
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
((لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِی وَلاَ بآبائِکُم))
"طواغیت کی قسمیں نہ کھاؤ اور نہ ہی اپنے باپ دادا کی۔"
(مسلم : 1648)
<|۔۔۔۔طاغوت کیا ہے؟ ۔۔۔۔|>
۔۔۔صحابه کرام رضی الله عنہم کے نزدیک طاغوت کا مفہوم۔۔۔
عمر بن خطاب رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد شیطان ہے"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)
عکرمه رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد کاہن ہیں"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)
جابر بن عبداللہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت وہ ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لے کر جاتے ہیں
جہنیه قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اسلم قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اور
اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا ہے
یہ کاہن ہوتے ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں"
(بخاری کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)
انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد اپنی امت کو طاغوت سے بچانا تھا
اب جو انسان طاغوت سے نہیں بچتا،
وہ تمام انبیاء علیھم السّلام کی مخالفت کرتا ہے۔
طاغوت ہر وہ چیز ہے
جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور
وہ اپنی عبادت کیے جانے یا کروائے جانے پر راضی ہو
طاغوت خدائی کے جھوٹے دعویدار کو کہتے ہیں
انبیاء علیھم السّلام اور اولیاء
اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے تھے
اور
وہ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن تھے
اس لئے وہ طاغوت نہیں ہیں
چاہے لوگ ان کی بندگی کریں۔
امام مالک رحمة الله فرماتے ہیں:
"ہر وہ چیز جس کی
اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے
"طاغوت" کہلاتی ہے"
(ھدایة المستفید : 1222)
امام ابن قیم رحمة الله
طاغوت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
"ہر وہ ہستی یا شخصیت طاغوت ہے
جس کی وجہ سے بندہ اپنی حدِ بندگی سے تجاوز کر جاتا ہے
چاہے وہ معبود ہو،
یا پیشوا،
یا واجب اطاعت،
چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ شخص ہوتا ہے
جس سے وہ
الله تعالىٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کو چھوڑ کر فیصلہ کراتے ہوں،
یا
اللہ کو چھوڑ کے اس کی عبادت کرتے ہوں،
یا
الٰہی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں،
یا
ایسے امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں
جن کے بارے میں انہیں علم ہے کہ
یہ اللہ کی اطاعت نہیں"
(ھدایة المستفید : 1219)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمة الله فرماتے ہیں:
اللہ کے علاوہ جتنے معبود اور طاغوت ہیں
جب تک ان سے اجتناب نہ کیا جائے
اور
ان کا جب تک انکار نہ کیا جائے
اس وقت تک کسی شخص کا اسلام صحیح نہیں ہوسکتا
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور
اللہ پر ایمان لے آیا
اس نے مضبوط کڑا تھام لیا"
(البقرۃ : 256)
سلمان بن عبداللہ رحمة اللہ کہتے ہیں:
مجاہد کا قول ہے کہ
"طاغوت انسان کی صورت میں شیطان ہوتا ہے
جس کے پاس لوگ تنازعات کے فیصلے لیجاتے ہیں"
(تیسیر العزیز الحمید : 49)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمة الله فرماتے ہیں:
کفر بالطاغوت کا مطلب یہ ہے کہ
غیر اللہ کی عبادت کو باطل سمجھا جائے
اسے چھوڑ دیا جائے
اس سے نفرت کی جائے
اس کے ماننے والوں کو کافر سمجھا جائے
ان سے دشمنی کی جائے
اللہ پر ایمان کا معنی ہے کہ
اکیلے
اللہ کو معبود ماننا عبادت کی تمام اقسام اس کے لیے خاص کرنا
ہر اس معبود سے ان صفات کی نفی کرنا
جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو
اللہ تعالیٰ کے
خاص بندوں سے محبت اور دوستی کی جائے
مشرکوں اور کافروں سے نفرت کی جائے
یہی
وہ ملتِ ابراہیم ہے جس سے اعراض کرنے والے کو
اللہ تعالیٰ نے بیوقوف قرار دیا ہے
{قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ
وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ
اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہُ...}
"تمہارے لئے بہترین نمونه ابراہیم علیه السّلام
اور ان کے ساتھیوں میں
جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ
ہم بیزار ہیں تم سے اور جن کی تم
اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو
ہم تمہارے اس عمل کا انکار کرتے ہیں
ہمارے اور تمہارے درمیان
دشمنی اور نفرت ظاہر ہوچکی ہمیشہ کے لئے
جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لے آؤ"
(الممتحنة : 4)
(الدرر السنة : 161/10)
ہر وہ شخص جس کی
اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو،
اور
وہ اپنی عبادت پر راضی ہو،
چاہے وہ معبود بن کے ہو،
پیشوا بن کے،
یا
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی
اطاعت سے بے نیاز،
واجب اطاعت بن کے ہو،
طاغوت ہوتا ہے"
(الجامع الفرید : 265)
طاغوت تو بے شمار ہیں
مگر
ان کے سَرکردہ و سَربَر آوردہ پانچ ہیں:
(1) ابلیس لعین۔
(2) ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور
وہ اس فعل پر رضا مند ہو۔
(3) جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہو
اگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو۔
(4) جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔
(5) جو شخص
اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں۔
پہلا درجہ یہ ہے۔۔
کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے
مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے
تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا۔
دوسرا درجہ یہ ہے۔۔
کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے منحرف ہو کر
یا تو خود مختار بن جائے
یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے
یہ شرک و کفر ہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے۔۔
کہ
وہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے۔
جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے
وہ طاغوت ہے
اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا
جب تک وہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا...}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور
اللہ پر ایمان لے آیا
اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں"
(البقرۃ : 256)
شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے
جو غیر اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے
{اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُ وا الشَّیْطٰنَ اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ}
"اے اولاد آدم'
کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ
شیطان کی عبادت نہ کرنا'
وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے"
(یٰسین : 60)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
شیطان کی اطاعت شیطان کی عبادت ہے
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم
نے فرمایا:
جو شخص "لا اله الا اللہ" کا اقرار کرے اور
الله کے سوا جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرے
اُس کا مال و خون مسلمانوں پر حرام ہوگیا اور
اس کے دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
(مسلم کتاب الایمان ج ا : ص 73)
غور فرمائیے!
کہ
صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے مال و جان حرام اور محفوظ نہیں ہوسکتی
بلکہ
مسلمانوں کی تلوار سے جان و مال
اس وقت حرام ہوگی
جب ان معبودوں کا انکار کر دیا جائے
جن کی
اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے۔
مگر آج
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن جن کی عبادت ہو رہی ہے
اکثر لوگ اُن کی تردید نہیں کرتے
جبکہ
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرو
وہ مشرک و کافر اور جابر و ظالم حکمران
جو فیصلے کے لیے الله کے احکامات کا پابند نہ ہو
بلکہ
انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے
وہ طاغوت (شیطان) ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ....
ھُمُ الظّٰالِمُونَ....ھُمُ الفَاسِقُونَ}
"اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے
تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں.... وہ ظالم ہیں.... وہ فاسق ہیں"
(المائدۃ : 44 ، 47)
دوسرے مقام پر
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے
جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں:
{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِه وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا}
"کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا
جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ
جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے
اُس پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ
(اپنا مقدمہ) طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں
حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور
شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے"
(النساء : 60)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ذیشان ہے:
{لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِهِ اَحَدًا}
"اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا"
(سورۃ الکھف : 26)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ}
"خبردار رہو! سب مخلوق اسی کی ہے اور (لہذا سب) حکم بھی اُسی کا ہے"
(الاعراف : 54)
{اِنِ الحُکْمُ اِلَّا ِللہِ }
"حکم و قانون (چلانا) صرف اللہ کا حق ہے"
(یوسف : 40)
آپ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
{اِنَّ اللہَ ھُوَ الحُکْمُ وَاِلَیْهِ الحُکْمُ}
"اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور فیصلہ بھی اسی کا ہے"
(ابی داؤد)
طاغوت سے دشمنی و بغاوت کوئی نفلی عبادت نہیں ہے
جس کا کر لینا صرف بلندی درجات کا سبب ہو
بلکہ
طاغوت اللہ کے دین کا سب سے بڑا دشمن ہے
اس دشمن سے بغض و حقارت کا اظہار ایمان کا حصہ،
نجات کا سبب اور
انبیاء علیہما السّلام کا بنیادی مشن ہے۔
{اَفَحُکْمَ الجَاھِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوقِنُوْنَ}
"(اگر یہ اللہ کے قانون سے منہ موڑتے ہیں)
تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں؟
اور
جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک
اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔!!
(المائدۃ : 50)
ایک اللہ کی عبادت کرنے
اور
اس عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کا نام توحید ہے
یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے،
جس کی تعلیم دے کر
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا
سب سے پہلے
رسول نوح علیه السّلام ہیں
اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا
جنہوں نے وَدْ ، سُوَاع ، یَغُوْث ، یَعُوْق اور نَسْر
جیسے صالحین کے بارے میں غلو کرنا شروع کیا۔
سب سے آخری
رسول محمد صلی الله عليه وسلم ہیں'
آپ نے مذکورہ بزرگوں کے مجسّموں کا خاتمہ فرمایا
آپ جس قوم کی طرف بھیجے گئے
وہ اللہ کی عبادت کرتے،
حج (و عمرہ) کرتے، صدقہ و خیرات کرتے
اور
اس کا ذکر بھی کیا کرتے تھے
لیکن اس کے ساتھ ہی
وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بعض مخلوق
مثلاً
ملائکه، عیسیٰ علیه السّلام، مریم یا دوسرے نیک لوگوں کو واسطہ و وسیلہ بناتے تھے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ
ان کے ذریعے سے
اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور
اس کے ہاں ان کی شفاعت کے امیدوار ہیں۔
ایسے حالات میں
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی الله عليه وسلم کو بھیجا،
تاکہ
آپ اپنے باپ ابراہیم علیه السّلام کے دین کی تجدید فرمائیں اور
لوگوں پر یہ واضح کر دیں کہ
یہ تقرب اور ہر قسم کا توکل اللہ تعالیٰ کا حق ہے
کسی اور کا تو ذکر ہی کیا
کسی
مقرب فرشتے یا رسول کے بارے میں بھی یہ عقیدہ نہیں رکھا جاسکتا
کہ
ان کا تقرب حاصل کیا جائے.
۔۔۔۔۔توحید ربوبیت اور مشرکین کا عقیدہ۔۔۔۔۔
مشرکین مکہ اس بات کا اقرار کرتے اور گواہی دیتے تھے کہ
اللہ تعالیٰ ہی خالق و رازق ہے۔
صرف وہی مارتا اور جلاتا ہے۔
وہی اکیلا کائنات کا مالک و متصرف ہے۔
آسمان و زمین اور ان میں بسنے والے سب اس کے غلام اور ماتحت ہیں
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:
{قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ اْلسَّمَآءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْأَمْرَ
فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُوْنَ}
"پوچھو تو سہی،
تم کو آسمان اور زمین سے روزی کون دیتا ہے
کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور
مُردہ سے زندہ اور زندہ سے مُردہ کون نکالتا ہے اور
تمام کاموں کو کون چلاتا ہے
اس کے جواب میں یہ (مشرک) ضرور کہیں گے کہ
اللہ
پھر تم پوچھو کہ پھر شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو؟"
(یونس : 31/10)
دوسری جگہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (84)
سَیَقُولُوْنَ ِلِلہ قَلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ (85)
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86)
سَیَقُوْلُوْنَ ِللہِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (87)
قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (88)
سَیَقُوْلُوْنَ ِللہِ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ (89)
"ان سے پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے، کس کا ہے،
اگر تم جانتے ہو
وہ فوراً کہیں گے کہ
اللہ کا ہے
کہو پھر تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے
ان سے پوچھو کہ
ساتوں آسمانوں اور بڑے تخت (عرش عظیم) کا مالک کون ہے
وہ ضرور یہی کہیں گے کہ
اللہ
کہو پھر تم اس سے کیوں نہیں ڈرتے
ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ
ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے
اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا
وہ ضرور کہیں گے کہ
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں،
کہو پھر تم کدھر سے جادو کر دئیے جاتے ہو"
(المؤمنون : 89-84)
مشرکین ان تمام چیزوں کا اقرار کرتے تھے
اور
دن رات اللہ تعالیٰ کو پکارتے بھی تھے
لیکن
اس کے باوجود اس دائرہ توحید میں داخل نہیں ہو سکے
جس کی رسول صلی الله عليه وسلم انہیں دعوت دیتے تھے
یعنی توحید عبادت
پھر
بعض مشرکین ایسے بھی تھے
جو فرشتوں کو پکارتے تھے
تاکہ یہ فرشتے
اللہ کے مقرب ہونے کے ناطے ان کی شفاعت کر دیں اور بعض کسی نیک انسان
مثلاََ
"لات" یا
کسی نبی مثلاََ عیسیٰ علیه السّلام کو پکارتے تھے۔
اور
آپ کو یہ معلوم ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیه وسلم نے
اس شرک پر ان مشرکین سے قتال کیا
اور انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا،
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ ِللہِ فَلَا تَدْعُواْ مَعَ اللہِ اَحَدًا}
" مسجدیں اللہ ہی کی عبادت کے لئے ہیں، تو
اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"
(الجن : 18/82)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{لَهُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِن دُونِهِ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْءٍ}
"اسی (اللہ) کو پکارنا حق ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں
وہ ان کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے"
(الرعد : 14/13)
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے
ان مشرکین سے اس لئے قتال کیا تاکہ ہر قسم کی دعا،
تمام
نذرونیاز اور ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو
اور
ہر قسم کی مدد اللہ تعالیٰ سے طلب کی جائے،
صرف
توحید ربوبیت کا اقرار انہیں شرک سے نکال کر اسلام میں داخل نہیں کر سکا
بلکہ
ملائکہ، انبیاء اور اولیاء کو پکارنے اور انہیں
اللہ تعالیٰ کے ہاں شفارشی سمجھنے کی وجہ سے
ان کے جان و مال کی حفاظت اسلام نے اپنے ذمہ نہ لی۔
<|۔۔۔کلمہ توحید کا مفہوم۔۔۔|>
مذکورہ تفصیل کے بعد اس توحید کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے،
جس کی دعوت انبیاء و رسل نے دی
اور
کلمہ "لا اله الا اللہ " کا مطلب بھی یہی ہے،
جس کا انکار مشرکین نے کیا
مشرکین "اله" سے خالق و رازق اور مدبر مراد نہیں لیتے تھے
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
خالق و رازق اور مدبر صرف اللہ ہے
بلکہ "اله" ان کے نزدیک وہ ذات ہوتی تھی
جسے
وہ اللہ کا قریبی یا اللہ کے ہاں شفارشی یا
اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ و وسیلہ سمجھ کر
اس کی طرف رجوع کرتے،
خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، ولی ہو یا درخت، قبر ہو یا کوئی جن۔
اللہ کے رسول صلی الله عليه وسلم نے
انہیں کلمہ توحید ((لا اله الا اللہ)) کی دعوت دی
اس کلمہ کا مطلب صرف الفاظ کا اقرار نہیں
بلکہ اس کا معنی و مطلب مراد تھا۔
جاہل کافر جانتے تھے کہ
اس کلمہ سے
رسول صلی الله عليه وسلم کی مراد یہ ہے کہ
صرف اللہ کی ذات سے تعلق رکھا جائے،
اس کے علاوہ عبادت یا پوجا کی جانے والی تمام چیزوں کا انکار اور
ان سے براءت کا اعلان کر دیا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیه وآله وسلم نے
جب ان سے
((لا اله الا الله ))" کہنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا:
{أَجَعَلَ الْاٰلِھَةَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ}
"کیا اس نے سب معبودوں کو ایک معبود کر دیا، یہ تو بڑی انوکھی بات ہے"
(ص : 5/38)
یہ جاننے کے بعد کہ
اَن پڑھ کافر بھی اس کلمہ کا مطلب جانتے تھے،
ان لوگوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے
جو اسلام کے دعویدار ہیں اور
کلمہ طیبہ کا اتنا مطلب بھی نہیں جانتے
جتنا جاہل کفار جانتے تھے
بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ
معنی و مفہوم کا دل میں عقیدہ رکھے بغیر
صرف الفاظ کا ادا کر لینا ہی کافی ہے۔
ان میں جو زیادہ سمجھ دار اور عقل مند سمجھے جاتے ہیں
وہ اس کلمہ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ
خالق و رازق اور کائنات کا انتظام کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
ظاہر بات ہے کہ
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہوسکتی ہے،
جس سے زیادہ جاہل کفار
((لا اله الا اللہ)) کا مطلب جانتے تھے۔
جب آپ نے مذکورہ بالا تفصیلات سمجھ لیں اور اس شرک کو جان لیا
جس کے بارے میں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ...}
"یقیناََ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا
اور اس کے سوا
جسے چاہے بخش دیتا ہے"
(النساء : 48/4)
<|۔۔۔توحید کے فوائد۔۔۔|>
یہ جان لینے کے بعد کہ تمام انبیاء کرام کا دین کون سا ہے،
جس کے علاوہ کوئی بھی دین
اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور یہ کہ
آج لوگوں کی اکثریت اس دین سے کس قدر غافل اور جاہل ہے،
اس سے آپ کو
دو اہم فائدے حاصل ہوں گے۔
(1) اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر خوشی:
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ}
"اے پیغمبر!
کہہ دو کہ
اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ان کو خوش ہونا چاہیئے،
یہ اس سے بہتر ہے جو وہ سمیٹتے ہیں"
(یونس : 58/10)
(2)اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر:
اللہ تعالیٰ کا خوف اس وقت اور زیادہ ہو گا
نیز راہ نجات کی جستجو مذید بڑھ جائے گی
جب آپ یہ جان لیں کہ بسا اوقات
انسان کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ اسے کفر تک پہنچا دیتا ہے
کبھی تو
اس کے منہ سے نادانی و جہالت میں یہ لفظ نکل جاتا ہے
اور
جہالت کی وجہ سے وہ معذور نہیں سمجھا جائے گا
اور یہ سمجھ کر وہ ایسی بات بول جاتا ہے کہ
یہ چیز اسے اللہ سے قریب کر دے گی، جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔
اس سلسلہ میں خاص طور پر
موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کا واقعہ سامنے رکھیں کہ
انہوں نے
علم و فضل اور صلاح و تقویٰ کے باوجود موسیٰ علیہ السّلام سے مطالبہ کیا۔
{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَةٌ}
"جیسے ان لوگوں کے پاس معبود ہیں
ایسا ہی ایک معبود ہمارے لئے بھی بنا دو"
(الأعراف : 138/7)
<|۔۔۔انبیاء کے دشمن۔۔۔|>
یہ بات بھی مدِنظر رکھیں کہ
اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت رہی ہے کہ
اس نے اس توحید کی دعوت دے کر جتنے بھی نبی و رسول بھیجے،
ان انبیاء و رسل کے دشمن بھی پیدا فرمائے،
جیسا کہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا}
"ہم نے اسی طرح شریر آدمیوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنایا،
وہ ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے"
(الانعام : 112/6)
بعض اوقات
دشمنان توحید علوم و معارف اور دلائل و کتب سے بھی مسلح ہو سکتے ہیں،
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَلَمَّا جَآءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِندَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ...}
"پس جب کبھی ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو
وہ اپنے علم پر اترانے لگے"
(المؤمن : 83/40)
<|۔۔۔۔دین اسلام جاننا ضروری ہے۔۔۔۔|>
جب آپ نے یہ جان لیا کہ
اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کے دشمن
(کبھی کافر و مشرکین کی شکل میں،
کبھی اسلام کے لبادے پہن کر منافقین اور مرتدین کی شکل میں)
بیٹھے ہوئے ہیں
جو
علم و فصاحت اور دلیل سے مسلح بھی ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ
دین کا اتنا علم تو ضرور حاصل کریں
جو ان دشمنان دین سے مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہو سکے،
جن کے امام اور پیش رو ابلیس نے
اللہ عزوجل سے کہا تھا:
{لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُم مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ
وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ}
"میں بھی تیری سیدھی راہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا،
پھر ان کے پاس ان کے آگے سے، ان کے پیچھے سے
ان کی داہنی طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا
اور تو
اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا"
(الاعراف : 17-16/7)
لیکن اگر آپ
اللہ تعالیٰ سے لَو لگائیں
اور
اس کی آیات و بینات و برھان پر کان دھریں تو
آپ کو کوئی خوف و غم نہیں ہونا چاہیئے
کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا}
"بے شک شیطان کا مکرو فریب بودا ہے"
(النساء : 76/4)
ایک عام موحد ان مشرکوں و کافروں کے ہزار علماء پر بھاری ہوتا ہے ۔
ارشاد الہی ہے:
{وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ}
"بےشک ہمارا ہی لشکر غالب ہوگا"
(الصافات : 173/37)
پس دلیل و برہان کے میدان میں بھی اللہ کا لشکر ہی غالب ہوگا
جس طرح کہ تیر و تلوار کے ذریعے وہ غالب آتے ہیں
البتہ خطرہ اس موحد کو ہے جو ہتھیار کے بغیر راہ حق میں نکل پڑا ہو
اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسی کتاب عطا فرمائی ہے،
جس کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ}
"جو ہر چیز کو بیان کرنے والی نیز مومنوں کے لئے سراپا ہدایت و رحمت اور خوشخبری ہے"
(النحل : 89/16)
اہل باطل جو بھی دلیل لے کر آتے ہیں،
یہ کتاب اس دلیل کا جواب دیتی اور
اس کا بطلان واضح کر دیتی ہے،
جیسا کہ
قرآن کریم کا اعلان ہے:
{وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا}
"یہ جب کوئی نیا اعتراض تیرے پاس لائیں گے
تو ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفسیر آپ کو بتا دیں گے"
(الفرقان : 33/25)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ
یہ آیت اہل باطل کی ہر اس بات کے مقابلے میں دلیل ہے
جسے وہ قیامت تک پیش کرتے رہیں گے۔
الحمد للہ و الصلوٰۃ و السلام علیٰ رسول الله
یقیناً اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد اور میثاق کر رکھا ہے کہ
وہ لوگوں کے لئے اس دین اور شریعت کو واضح کرتے رہیں
جو انکی خاطر نازل کی گئی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَهُ ۔۔۔۔۔}
"اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جن کو کتاب عنایت کی گئی تھی
اقرار لیا کہ اس میں جو کچھ لکھا ہے
اسے صاف صاف بیان کرتے رہنا اور اس کی بات کو نہ چھپانا"
(آل عمران : 187)
اور
وہ لوگ اللہ نے ملعون ٹھہرائے ہیں جو حق کو چھپا لیں
فرمایا
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللهُ وَيَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُونَ}
"بے شک جو لوگ ہمارے حکموں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کی ہیں
(کسی غرض فاسد سے) چھپاتے ہیں،
جبکہ ہم نے انہیں لوگوں (کو سمجھانے) کیلئے
اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے،
سو ایسوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں"
(البقرۃ : 159)
فرمانِ نبوی صلی الله عليه وسلم :
((أَلَا ! لَا یَمْنَعَنَّ رَجُلًا ھَیْبَةُ النَّاسِ أَنْ یَّقُوْلَ بِحَقٍّ اِذَا عَلِمَهُ))
"خبردار !
کسی آدمی کو لوگوں کی ہیبت حق کہنے سے ہرگز نہ روکے
جب کہ
اسے حق کا علم ہو"
(سنن ابن ماجه، حدیث : 4007)
<|۔۔۔۔۔انبیاء علیھم السّلام کی بعثت کا بڑا مقصد۔۔۔۔۔|>
فرمان باری تعالیٰ ہے:
{وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوت}
"اور بے شک ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ
اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو"
(النحل : 36)
اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں (جن و انس) پر طاغوت کا کفر و انکار اور
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا فرض قرار دیا ہے۔
فرمانِ الٰہی :
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللہِ فَقَدِاسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَاانْفِصَامَ لَھَا ۔۔۔۔}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا
تو اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو کبھی ٹوٹتا نہیں"
(البقرۃ : 256)
((عن ابی ھریرۃ قال قال
رسول الله
یجمع اللہ الناس یوم القیامة، فیقول :
من کان یعبد شیئًا فلیتبعه،
فیتبع من کان یعبد الشمس الشمس،
ویتبع من کان یعبد القمر القمر، ویتبع من کان یعبد الطواغیت الطواغیت))
ابو ہریرہ رضی اللہ عنه روایت کرتے ہیں کہ
رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اور کہے گا کہ
جو کوئی جس کی بندگی کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے
پس
سورج کی عبادت کرنے والے سورج کے ساتھ جائیں گے
اور
چاند کی عبادت کرنے والے چاند کے ساتھ جائیں گے
اور
طواغیت کی بندگی کرنے والے طواغیت کے ساتھ جائیں گے۔"
(صحیح بخاری : 7437)
اور فرمایا:
"جو شخص ہمیشه مال کو بڑھانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے
وہ طاغوت کے راستے میں ہے اور وہ شیطان کے راستے میں ہیں"
(سلسلة الاحادیث الصحیحة: 2232)
نبی کریم صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
((لَا تَحْلِفُوا بِالطَّوَاغِی وَلاَ بآبائِکُم))
"طواغیت کی قسمیں نہ کھاؤ اور نہ ہی اپنے باپ دادا کی۔"
(مسلم : 1648)
<|۔۔۔۔طاغوت کیا ہے؟ ۔۔۔۔|>
۔۔۔صحابه کرام رضی الله عنہم کے نزدیک طاغوت کا مفہوم۔۔۔
عمر بن خطاب رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد شیطان ہے"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)
عکرمه رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت سے مراد کاہن ہیں"
(بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)
جابر بن عبداللہ رضی الله عنه فرماتے ہیں:
"طاغوت وہ ہوتے ہیں جن کی طرف لوگ فیصلے لے کر جاتے ہیں
جہنیه قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اسلم قبیلے میں ایک طاغوت تھا
اور
اسی طرح ہر قبیلے میں ایک طاغوت ہوتا ہے
یہ کاہن ہوتے ہیں جن پر شیاطین اترتے ہیں"
(بخاری کتاب التفسیر، سورۃ النساء 43)
انبیاء علیھم السلام کی بعثت کا مقصد اپنی امت کو طاغوت سے بچانا تھا
اب جو انسان طاغوت سے نہیں بچتا،
وہ تمام انبیاء علیھم السّلام کی مخالفت کرتا ہے۔
طاغوت ہر وہ چیز ہے
جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور
وہ اپنی عبادت کیے جانے یا کروائے جانے پر راضی ہو
طاغوت خدائی کے جھوٹے دعویدار کو کہتے ہیں
انبیاء علیھم السّلام اور اولیاء
اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے تھے
اور
وہ غیر اللہ کی عبادت کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن تھے
اس لئے وہ طاغوت نہیں ہیں
چاہے لوگ ان کی بندگی کریں۔
امام مالک رحمة الله فرماتے ہیں:
"ہر وہ چیز جس کی
اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے
"طاغوت" کہلاتی ہے"
(ھدایة المستفید : 1222)
امام ابن قیم رحمة الله
طاغوت کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں:
"ہر وہ ہستی یا شخصیت طاغوت ہے
جس کی وجہ سے بندہ اپنی حدِ بندگی سے تجاوز کر جاتا ہے
چاہے وہ معبود ہو،
یا پیشوا،
یا واجب اطاعت،
چنانچہ ہر قوم کا طاغوت وہ شخص ہوتا ہے
جس سے وہ
الله تعالىٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کو چھوڑ کر فیصلہ کراتے ہوں،
یا
اللہ کو چھوڑ کے اس کی عبادت کرتے ہوں،
یا
الٰہی بصیرت کے بغیر اس کے پیچھے چلتے ہوں،
یا
ایسے امور میں اس کی اطاعت کرتے ہوں
جن کے بارے میں انہیں علم ہے کہ
یہ اللہ کی اطاعت نہیں"
(ھدایة المستفید : 1219)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمة الله فرماتے ہیں:
اللہ کے علاوہ جتنے معبود اور طاغوت ہیں
جب تک ان سے اجتناب نہ کیا جائے
اور
ان کا جب تک انکار نہ کیا جائے
اس وقت تک کسی شخص کا اسلام صحیح نہیں ہوسکتا
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور
اللہ پر ایمان لے آیا
اس نے مضبوط کڑا تھام لیا"
(البقرۃ : 256)
سلمان بن عبداللہ رحمة اللہ کہتے ہیں:
مجاہد کا قول ہے کہ
"طاغوت انسان کی صورت میں شیطان ہوتا ہے
جس کے پاس لوگ تنازعات کے فیصلے لیجاتے ہیں"
(تیسیر العزیز الحمید : 49)
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمة الله فرماتے ہیں:
کفر بالطاغوت کا مطلب یہ ہے کہ
غیر اللہ کی عبادت کو باطل سمجھا جائے
اسے چھوڑ دیا جائے
اس سے نفرت کی جائے
اس کے ماننے والوں کو کافر سمجھا جائے
ان سے دشمنی کی جائے
اللہ پر ایمان کا معنی ہے کہ
اکیلے
اللہ کو معبود ماننا عبادت کی تمام اقسام اس کے لیے خاص کرنا
ہر اس معبود سے ان صفات کی نفی کرنا
جس کی عبادت اللہ کے سوا کی جاتی ہو
اللہ تعالیٰ کے
خاص بندوں سے محبت اور دوستی کی جائے
مشرکوں اور کافروں سے نفرت کی جائے
یہی
وہ ملتِ ابراہیم ہے جس سے اعراض کرنے والے کو
اللہ تعالیٰ نے بیوقوف قرار دیا ہے
{قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ
وَالَّذِیْنَ مَعَهُ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ
اِنَّا بُرَءٰؤُا مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ
کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَحْدَہُ...}
"تمہارے لئے بہترین نمونه ابراہیم علیه السّلام
اور ان کے ساتھیوں میں
جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ
ہم بیزار ہیں تم سے اور جن کی تم
اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو
ہم تمہارے اس عمل کا انکار کرتے ہیں
ہمارے اور تمہارے درمیان
دشمنی اور نفرت ظاہر ہوچکی ہمیشہ کے لئے
جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لے آؤ"
(الممتحنة : 4)
(الدرر السنة : 161/10)
ہر وہ شخص جس کی
اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہو،
اور
وہ اپنی عبادت پر راضی ہو،
چاہے وہ معبود بن کے ہو،
پیشوا بن کے،
یا
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی
اطاعت سے بے نیاز،
واجب اطاعت بن کے ہو،
طاغوت ہوتا ہے"
(الجامع الفرید : 265)
طاغوت تو بے شمار ہیں
مگر
ان کے سَرکردہ و سَربَر آوردہ پانچ ہیں:
(1) ابلیس لعین۔
(2) ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور
وہ اس فعل پر رضا مند ہو۔
(3) جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہو
اگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو۔
(4) جو شخص علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہو۔
(5) جو شخص
اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے۔
اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں۔
پہلا درجہ یہ ہے۔۔
کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے
مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے
تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا۔
دوسرا درجہ یہ ہے۔۔
کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے منحرف ہو کر
یا تو خود مختار بن جائے
یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے
یہ شرک و کفر ہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے۔۔
کہ
وہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے۔
جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے
وہ طاغوت ہے
اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا
جب تک وہ طاغوت کا منکر نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤمِنْ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَھَا...}
"جس نے طاغوت کا انکار کیا اور
اللہ پر ایمان لے آیا
اس نے مضبوط کڑا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں"
(البقرۃ : 256)
شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے
جو غیر اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے
{اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُ وا الشَّیْطٰنَ اِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّمُّبِیْنٌ}
"اے اولاد آدم'
کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ
شیطان کی عبادت نہ کرنا'
وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے"
(یٰسین : 60)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
شیطان کی اطاعت شیطان کی عبادت ہے
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم
نے فرمایا:
جو شخص "لا اله الا اللہ" کا اقرار کرے اور
الله کے سوا جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرے
اُس کا مال و خون مسلمانوں پر حرام ہوگیا اور
اس کے دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
(مسلم کتاب الایمان ج ا : ص 73)
غور فرمائیے!
کہ
صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے مال و جان حرام اور محفوظ نہیں ہوسکتی
بلکہ
مسلمانوں کی تلوار سے جان و مال
اس وقت حرام ہوگی
جب ان معبودوں کا انکار کر دیا جائے
جن کی
اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے۔
مگر آج
اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جن جن کی عبادت ہو رہی ہے
اکثر لوگ اُن کی تردید نہیں کرتے
جبکہ
رسول اللہ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرو
وہ مشرک و کافر اور جابر و ظالم حکمران
جو فیصلے کے لیے الله کے احکامات کا پابند نہ ہو
بلکہ
انسانوں پر انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرے
وہ طاغوت (شیطان) ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الکَافِرُونَ....
ھُمُ الظّٰالِمُونَ....ھُمُ الفَاسِقُونَ}
"اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کئے ہوئے احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرے
تو ایسے لوگ ہی کافر ہیں.... وہ ظالم ہیں.... وہ فاسق ہیں"
(المائدۃ : 44 ، 47)
دوسرے مقام پر
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ایمان کی نفی کی ہے
جو اپنے فیصلے طاغوت کی عدالتوں میں لے جاتے ہیں:
{اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْآ اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْآ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِه وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا}
"کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا
جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ
جو کچھ آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا ہے
اُس پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ
(اپنا مقدمہ) طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں
حالانکہ ان کو اس سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور
شیطان ان کو دور کی گمراہی میں ڈالنا چاہتا ہے"
(النساء : 60)
اللہ تعالیٰ کا فرمانِ ذیشان ہے:
{لَا یُشْرِکُ فِیْ حُکْمِهِ اَحَدًا}
"اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا"
(سورۃ الکھف : 26)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ}
"خبردار رہو! سب مخلوق اسی کی ہے اور (لہذا سب) حکم بھی اُسی کا ہے"
(الاعراف : 54)
{اِنِ الحُکْمُ اِلَّا ِللہِ }
"حکم و قانون (چلانا) صرف اللہ کا حق ہے"
(یوسف : 40)
آپ صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
{اِنَّ اللہَ ھُوَ الحُکْمُ وَاِلَیْهِ الحُکْمُ}
"اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور فیصلہ بھی اسی کا ہے"
(ابی داؤد)
طاغوت سے دشمنی و بغاوت کوئی نفلی عبادت نہیں ہے
جس کا کر لینا صرف بلندی درجات کا سبب ہو
بلکہ
طاغوت اللہ کے دین کا سب سے بڑا دشمن ہے
اس دشمن سے بغض و حقارت کا اظہار ایمان کا حصہ،
نجات کا سبب اور
انبیاء علیہما السّلام کا بنیادی مشن ہے۔
{اَفَحُکْمَ الجَاھِلِیَّةِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوقِنُوْنَ}
"(اگر یہ اللہ کے قانون سے منہ موڑتے ہیں)
تو کیا پھر یہ جہالت کے حکم اور فیصلے کے خواہش مند ہیں؟
اور
جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک
اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے۔!!
(المائدۃ : 50)
ایک اللہ کی عبادت کرنے
اور
اس عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کا نام توحید ہے
یہی تمام انبیاء کا دین رہا ہے،
جس کی تعلیم دے کر
اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو اپنے بندوں کے پاس بھیجا
سب سے پہلے
رسول نوح علیه السّلام ہیں
اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا
جنہوں نے وَدْ ، سُوَاع ، یَغُوْث ، یَعُوْق اور نَسْر
جیسے صالحین کے بارے میں غلو کرنا شروع کیا۔
سب سے آخری
رسول محمد صلی الله عليه وسلم ہیں'
آپ نے مذکورہ بزرگوں کے مجسّموں کا خاتمہ فرمایا
آپ جس قوم کی طرف بھیجے گئے
وہ اللہ کی عبادت کرتے،
حج (و عمرہ) کرتے، صدقہ و خیرات کرتے
اور
اس کا ذکر بھی کیا کرتے تھے
لیکن اس کے ساتھ ہی
وہ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بعض مخلوق
مثلاً
ملائکه، عیسیٰ علیه السّلام، مریم یا دوسرے نیک لوگوں کو واسطہ و وسیلہ بناتے تھے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ
ان کے ذریعے سے
اللہ کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور
اس کے ہاں ان کی شفاعت کے امیدوار ہیں۔
ایسے حالات میں
اللہ تعالیٰ نے محمد صلی الله عليه وسلم کو بھیجا،
تاکہ
آپ اپنے باپ ابراہیم علیه السّلام کے دین کی تجدید فرمائیں اور
لوگوں پر یہ واضح کر دیں کہ
یہ تقرب اور ہر قسم کا توکل اللہ تعالیٰ کا حق ہے
کسی اور کا تو ذکر ہی کیا
کسی
مقرب فرشتے یا رسول کے بارے میں بھی یہ عقیدہ نہیں رکھا جاسکتا
کہ
ان کا تقرب حاصل کیا جائے.
۔۔۔۔۔توحید ربوبیت اور مشرکین کا عقیدہ۔۔۔۔۔
مشرکین مکہ اس بات کا اقرار کرتے اور گواہی دیتے تھے کہ
اللہ تعالیٰ ہی خالق و رازق ہے۔
صرف وہی مارتا اور جلاتا ہے۔
وہی اکیلا کائنات کا مالک و متصرف ہے۔
آسمان و زمین اور ان میں بسنے والے سب اس کے غلام اور ماتحت ہیں
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں فرماتا ہے:
{قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ اْلسَّمَآءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْأَمْرَ
فَسَیَقُوْلُوْنَ اللہُ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُوْنَ}
"پوچھو تو سہی،
تم کو آسمان اور زمین سے روزی کون دیتا ہے
کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور
مُردہ سے زندہ اور زندہ سے مُردہ کون نکالتا ہے اور
تمام کاموں کو کون چلاتا ہے
اس کے جواب میں یہ (مشرک) ضرور کہیں گے کہ
اللہ
پھر تم پوچھو کہ پھر شرک سے کیوں نہیں بچتے ہو؟"
(یونس : 31/10)
دوسری جگہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیھَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (84)
سَیَقُولُوْنَ ِلِلہ قَلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ (85)
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ (86)
سَیَقُوْلُوْنَ ِللہِ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ (87)
قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْهِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (88)
سَیَقُوْلُوْنَ ِللہِ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ (89)
"ان سے پوچھو زمین اور جو کچھ اس میں ہے، کس کا ہے،
اگر تم جانتے ہو
وہ فوراً کہیں گے کہ
اللہ کا ہے
کہو پھر تم نصیحت حاصل کیوں نہیں کرتے
ان سے پوچھو کہ
ساتوں آسمانوں اور بڑے تخت (عرش عظیم) کا مالک کون ہے
وہ ضرور یہی کہیں گے کہ
اللہ
کہو پھر تم اس سے کیوں نہیں ڈرتے
ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ
ہر چیز کی حکومت کس کے ہاتھ میں ہے
اور وہ پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا
وہ ضرور کہیں گے کہ
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں،
کہو پھر تم کدھر سے جادو کر دئیے جاتے ہو"
(المؤمنون : 89-84)
مشرکین ان تمام چیزوں کا اقرار کرتے تھے
اور
دن رات اللہ تعالیٰ کو پکارتے بھی تھے
لیکن
اس کے باوجود اس دائرہ توحید میں داخل نہیں ہو سکے
جس کی رسول صلی الله عليه وسلم انہیں دعوت دیتے تھے
یعنی توحید عبادت
پھر
بعض مشرکین ایسے بھی تھے
جو فرشتوں کو پکارتے تھے
تاکہ یہ فرشتے
اللہ کے مقرب ہونے کے ناطے ان کی شفاعت کر دیں اور بعض کسی نیک انسان
مثلاََ
"لات" یا
کسی نبی مثلاََ عیسیٰ علیه السّلام کو پکارتے تھے۔
اور
آپ کو یہ معلوم ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیه وسلم نے
اس شرک پر ان مشرکین سے قتال کیا
اور انہیں ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا،
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ ِللہِ فَلَا تَدْعُواْ مَعَ اللہِ اَحَدًا}
" مسجدیں اللہ ہی کی عبادت کے لئے ہیں، تو
اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"
(الجن : 18/82)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{لَهُ دَعْوَۃُ الْحَقِّ وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِن دُونِهِ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَھُمْ بِشَیْءٍ}
"اسی (اللہ) کو پکارنا حق ہے اور جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو پکارتے ہیں
وہ ان کا کچھ بھی جواب نہیں دیتے"
(الرعد : 14/13)
رسول الله صلی الله علیه وسلم نے
ان مشرکین سے اس لئے قتال کیا تاکہ ہر قسم کی دعا،
تمام
نذرونیاز اور ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو
اور
ہر قسم کی مدد اللہ تعالیٰ سے طلب کی جائے،
صرف
توحید ربوبیت کا اقرار انہیں شرک سے نکال کر اسلام میں داخل نہیں کر سکا
بلکہ
ملائکہ، انبیاء اور اولیاء کو پکارنے اور انہیں
اللہ تعالیٰ کے ہاں شفارشی سمجھنے کی وجہ سے
ان کے جان و مال کی حفاظت اسلام نے اپنے ذمہ نہ لی۔
<|۔۔۔کلمہ توحید کا مفہوم۔۔۔|>
مذکورہ تفصیل کے بعد اس توحید کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے،
جس کی دعوت انبیاء و رسل نے دی
اور
کلمہ "لا اله الا اللہ " کا مطلب بھی یہی ہے،
جس کا انکار مشرکین نے کیا
مشرکین "اله" سے خالق و رازق اور مدبر مراد نہیں لیتے تھے
کیونکہ وہ جانتے تھے کہ
خالق و رازق اور مدبر صرف اللہ ہے
بلکہ "اله" ان کے نزدیک وہ ذات ہوتی تھی
جسے
وہ اللہ کا قریبی یا اللہ کے ہاں شفارشی یا
اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ و وسیلہ سمجھ کر
اس کی طرف رجوع کرتے،
خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، ولی ہو یا درخت، قبر ہو یا کوئی جن۔
اللہ کے رسول صلی الله عليه وسلم نے
انہیں کلمہ توحید ((لا اله الا اللہ)) کی دعوت دی
اس کلمہ کا مطلب صرف الفاظ کا اقرار نہیں
بلکہ اس کا معنی و مطلب مراد تھا۔
جاہل کافر جانتے تھے کہ
اس کلمہ سے
رسول صلی الله عليه وسلم کی مراد یہ ہے کہ
صرف اللہ کی ذات سے تعلق رکھا جائے،
اس کے علاوہ عبادت یا پوجا کی جانے والی تمام چیزوں کا انکار اور
ان سے براءت کا اعلان کر دیا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیه وآله وسلم نے
جب ان سے
((لا اله الا الله ))" کہنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا:
{أَجَعَلَ الْاٰلِھَةَ اِلٰھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْءٌ عُجَابٌ}
"کیا اس نے سب معبودوں کو ایک معبود کر دیا، یہ تو بڑی انوکھی بات ہے"
(ص : 5/38)
یہ جاننے کے بعد کہ
اَن پڑھ کافر بھی اس کلمہ کا مطلب جانتے تھے،
ان لوگوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے
جو اسلام کے دعویدار ہیں اور
کلمہ طیبہ کا اتنا مطلب بھی نہیں جانتے
جتنا جاہل کفار جانتے تھے
بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ
معنی و مفہوم کا دل میں عقیدہ رکھے بغیر
صرف الفاظ کا ادا کر لینا ہی کافی ہے۔
ان میں جو زیادہ سمجھ دار اور عقل مند سمجھے جاتے ہیں
وہ اس کلمہ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ
خالق و رازق اور کائنات کا انتظام کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
ظاہر بات ہے کہ
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہوسکتی ہے،
جس سے زیادہ جاہل کفار
((لا اله الا اللہ)) کا مطلب جانتے تھے۔
جب آپ نے مذکورہ بالا تفصیلات سمجھ لیں اور اس شرک کو جان لیا
جس کے بارے میں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِهِ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ...}
"یقیناََ اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا
اور اس کے سوا
جسے چاہے بخش دیتا ہے"
(النساء : 48/4)
<|۔۔۔توحید کے فوائد۔۔۔|>
یہ جان لینے کے بعد کہ تمام انبیاء کرام کا دین کون سا ہے،
جس کے علاوہ کوئی بھی دین
اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہیں اور یہ کہ
آج لوگوں کی اکثریت اس دین سے کس قدر غافل اور جاہل ہے،
اس سے آپ کو
دو اہم فائدے حاصل ہوں گے۔
(1) اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر خوشی:
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ}
"اے پیغمبر!
کہہ دو کہ
اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ان کو خوش ہونا چاہیئے،
یہ اس سے بہتر ہے جو وہ سمیٹتے ہیں"
(یونس : 58/10)
(2)اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر:
اللہ تعالیٰ کا خوف اس وقت اور زیادہ ہو گا
نیز راہ نجات کی جستجو مذید بڑھ جائے گی
جب آپ یہ جان لیں کہ بسا اوقات
انسان کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ اسے کفر تک پہنچا دیتا ہے
کبھی تو
اس کے منہ سے نادانی و جہالت میں یہ لفظ نکل جاتا ہے
اور
جہالت کی وجہ سے وہ معذور نہیں سمجھا جائے گا
اور یہ سمجھ کر وہ ایسی بات بول جاتا ہے کہ
یہ چیز اسے اللہ سے قریب کر دے گی، جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔
اس سلسلہ میں خاص طور پر
موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کا واقعہ سامنے رکھیں کہ
انہوں نے
علم و فضل اور صلاح و تقویٰ کے باوجود موسیٰ علیہ السّلام سے مطالبہ کیا۔
{اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَةٌ}
"جیسے ان لوگوں کے پاس معبود ہیں
ایسا ہی ایک معبود ہمارے لئے بھی بنا دو"
(الأعراف : 138/7)
<|۔۔۔انبیاء کے دشمن۔۔۔|>
یہ بات بھی مدِنظر رکھیں کہ
اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت رہی ہے کہ
اس نے اس توحید کی دعوت دے کر جتنے بھی نبی و رسول بھیجے،
ان انبیاء و رسل کے دشمن بھی پیدا فرمائے،
جیسا کہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا}
"ہم نے اسی طرح شریر آدمیوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنایا،
وہ ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے"
(الانعام : 112/6)
بعض اوقات
دشمنان توحید علوم و معارف اور دلائل و کتب سے بھی مسلح ہو سکتے ہیں،
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَلَمَّا جَآءَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِندَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ...}
"پس جب کبھی ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو
وہ اپنے علم پر اترانے لگے"
(المؤمن : 83/40)
<|۔۔۔۔دین اسلام جاننا ضروری ہے۔۔۔۔|>
جب آپ نے یہ جان لیا کہ
اللہ تعالیٰ کی راہ میں دین کے دشمن
(کبھی کافر و مشرکین کی شکل میں،
کبھی اسلام کے لبادے پہن کر منافقین اور مرتدین کی شکل میں)
بیٹھے ہوئے ہیں
جو
علم و فصاحت اور دلیل سے مسلح بھی ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ
دین کا اتنا علم تو ضرور حاصل کریں
جو ان دشمنان دین سے مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہو سکے،
جن کے امام اور پیش رو ابلیس نے
اللہ عزوجل سے کہا تھا:
{لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ
ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُم مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَآئِلِھِمْ
وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ}
"میں بھی تیری سیدھی راہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا،
پھر ان کے پاس ان کے آگے سے، ان کے پیچھے سے
ان کی داہنی طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا
اور تو
اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا"
(الاعراف : 17-16/7)
لیکن اگر آپ
اللہ تعالیٰ سے لَو لگائیں
اور
اس کی آیات و بینات و برھان پر کان دھریں تو
آپ کو کوئی خوف و غم نہیں ہونا چاہیئے
کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا}
"بے شک شیطان کا مکرو فریب بودا ہے"
(النساء : 76/4)
ایک عام موحد ان مشرکوں و کافروں کے ہزار علماء پر بھاری ہوتا ہے ۔
ارشاد الہی ہے:
{وَاِنَّ جُنْدَنَا لَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ}
"بےشک ہمارا ہی لشکر غالب ہوگا"
(الصافات : 173/37)
پس دلیل و برہان کے میدان میں بھی اللہ کا لشکر ہی غالب ہوگا
جس طرح کہ تیر و تلوار کے ذریعے وہ غالب آتے ہیں
البتہ خطرہ اس موحد کو ہے جو ہتھیار کے بغیر راہ حق میں نکل پڑا ہو
اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسی کتاب عطا فرمائی ہے،
جس کے بارے میں
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَةً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ}
"جو ہر چیز کو بیان کرنے والی نیز مومنوں کے لئے سراپا ہدایت و رحمت اور خوشخبری ہے"
(النحل : 89/16)
اہل باطل جو بھی دلیل لے کر آتے ہیں،
یہ کتاب اس دلیل کا جواب دیتی اور
اس کا بطلان واضح کر دیتی ہے،
جیسا کہ
قرآن کریم کا اعلان ہے:
{وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا}
"یہ جب کوئی نیا اعتراض تیرے پاس لائیں گے
تو ہم اس کا سچا جواب اور عمدہ تفسیر آپ کو بتا دیں گے"
(الفرقان : 33/25)
بعض مفسرین کا قول ہے کہ
یہ آیت اہل باطل کی ہر اس بات کے مقابلے میں دلیل ہے
جسے وہ قیامت تک پیش کرتے رہیں گے۔