اسرار حسین الوھابی
بین یوزر
- شمولیت
- اگست 16، 2017
- پیغامات
- 112
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 55
كلمہ کے اقرار کے صحیح ہونے کی شرائط:
اہلِ سنت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ
شہادتین
(لا اله الا اللہ محمد رسول الله)
کے اقرار کے سوا کوئی چیز انسان کو
اسلام میں داخل کرنے کا موجب نہیں بنتی
لہذا
جس کسی نے
اس کلمہ کا اقرار نہ کیا ہو
اس کو مسلمان کہنے کا حق کسی کو حاصل نہیں
اسی طرح یہ بھی
کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ
اس کلمہ کے اقرار کرنے والے کو کافر کہے یا سمجھے
جب تک کہ
کلمہ پڑھنے والا
اس کلمہ کے تقاضوں یا
اس کے کسی ایک جز کے منافی عمل نہ کر لے
اس لئے کہ
اس کلمہ کے ایک جز کا اقرار
اسلام میں داخل ہونے کے لئے کافی نہیں ہے
بلکہ
توحید و رسالت دونوں کا اقرار ضروری ہے
اگرچہ
ایک حدیث میں صرف
شہادۃ ان لا اله الا اللہ کا ذکر ہے
مگر
اس کا مطلب بھی پورا کلمہ ہی ہے
جس طرح کہ
دیگر احادیث سے اس کی صراحت ہو جاتی ہے
(شرح نووی، صحیح مسلم، ج ا صفحہ 149 تا 219 ملاحظہ کریں)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
شہادتین کا اقرار اور دل سے
اس کے مفہوم کی تصدیق اس وقت فائدہ نہیں دے گی
جب ان دونوں یا ایک شہادت کے منافی کام کئے جائیں
نہ ہی ایسا اقرار اسلام میں داخل کرے گا
اور
نہ جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچا سکے گا
ایسے شخص کو مؤمن نہیں کہا جاسکتا
جو
لا اله الا اللہ محمد رسول الله کا اقرار کرے
مگر زکوٰۃ یا حج کے وجوب کا انکار کرے،
یا زنا، سود، قتل وغیرہ کی حرمت، یا دیگر ایسے احکام کا انکاری ہو
جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں
اور
ہر مسلمان ان کو جانتا پہچانتا ہے
اس طرح
اگر کوئی شخص
محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم کی رسالت کا اقرار کرے اور
پھر کہے کہ
یہ رسالت صرف
آپ صلی الله عليه وسلم کے دور تک یا
کسی خاص قوم تک محدود و مخصوص تھی تو
ایسا شخص بھی مؤمن اور مسلمان نہیں کہلائے گا
یا
اگر کوئی شخص شہادتین کا اقرار کرے
مگر ان کی ایسی تفسیر کرے
جس سے
الله کی صفاتی توحید کا انکار پیدا ہوتا ہو تو
ایسا شخص بھی مؤمن نہیں کہلا سکتا
اگر کوئی شخص شہادتین کا اقرار کرتا ہو
مگر
قرآن کے کسی حصہ،
آیت یا ایک حرف تک کا انکار کرتا ہو تو
ایسے شخص کو شہادتین کا اقرار کوئی فائدہ نہیں دے گا
اس لئے کہ
ایک طرف تو
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليه وسلم کا اقرار کرتا ہے
مگر ساتھ ہی
ان دونوں کی شریعت کا انکار کرتا ہے
اگر کوئی شخص کسی ایسے مذہب سے تعلق رکھتا ہے
جس کی بنیاد شہادتین کے مفہوم کے منافی ہے
تو
جب تک وہ اُس مذہب کو چھوڑ نہ دے
اس وقت تک شہادتین کا اقرار کوئی فائدہ نہیں دے گا
اسی طرح
اگر کوئی شخص توحید کا اقرار کرتا ہو اور
محمد صلی الله عليه وسلم کو رسول بھی مانتا ہو
مگر
کسی ایک زمانے یا قوم کے لئے مانتا ہو تو
جب تک یہ شخص
آپ صلی الله عليه وسلم کو تمام
دنیا (اور ہر زمانے) کے لئے رسول تسلیم نہ کر لے
اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتا
*** انسان کو کب مؤمن کہا جائے؟
اس مسئلہ کے بارے میں کچھ علماء نے ایک قاعدہ مقرر کیا ہے
وہ قاعدہ یہ ہے کہ
کسی شخص کو اس وقت تک مسلمان تسلیم نہ کیا جائے
جب تک کہ
وہ شہادتین کا اقرار نہ کرلے اور
یہ اقرار اس طرح ہو کہ
اس سے پہلے والے تمام باطل عقائد ختم ہو جائیں
اگر اقرار اس طرح کا نہیں ہے تو پھر
شہادتین زبان سے ادا کرے
اور
عقائدِ باطلہ سے برات کا اعلان کرے
وہ عقائد جو صرف اقرارِ شہادتین سے باطل نہیں ٹھہرے تھے
(تفسیرِ کبیر)
اس مقام پر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ
کلمہ لا اله الا اللہ ان تمام باطل تصورات کو ختم کر دیتا ہے
جو خالق یا اس کی ربوبیت و الوہیت سے متعلق ہوتے ہیں
اسی طرح
الله کی ذات، اس کی صفات، اسماء و افعال اور
الله کو ہر عیب سے پاک سمجھنے میں اس کلمہ کا اقرار کفایت کرتا ہے
جو شخص اس کلمہ کا اقرار کر لیتا ہے تو
وہ گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ
میں ان تمام باطل اعتقادات سے براءت کا اظہار کرتا ہوں
جو الله کے بارے میں پہلے موجود تھے
جبکہ
دوسری شہادت
یعنی
(محمد رسول الله)
ان تمام باطل تصورات کو ختم کر دیتی ہے
جو نبی صلی الله عليه وسلم کے بارے میں یا
آپ صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے متعلق یا
آپ صلی الله عليه وسلم کی حیثیت و مرتبہ کے بارے میں ہوں
اگر کوئی بھی غلط تصور باقی رہا
جیسا کہ بعض لوگ
آپ صلی الله عليه وسلم کی
شریعت کو ایک قوم تک محدود سمجھتے ہیں
تو پھر یہ گواہی فائدہ نہیں دے گی
یہ سب شرائط و تفصیلات ان لوگوں کے لئے ہیں
جو پہلے کافر تھے اور اب اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں
جہاں تک مرتد کا تعلق ہے تو
وہ اس وقت تک مسلمان تسلیم نہیں کیا جائے گا
جب تک ان باتوں کا اقرار نہ کر لے
جن کا انکار کر کے وہ مرتد ہوا تھا اور
اس کے ساتھ ساتھ
لا اله الا اللہ محمد رسول الله کا اقرار بھی کرنا ہو گا
اگر
اس نے صرف اللہ کی وحدانیت یا
محمد صلی الله عليه وسلم کی رسالت کا انکار کیا تھا
تو شہادتین کا اقرار اس کے لئے کافی ہے اور
اگر
اسلام کے کسی اور رکن یا مسئلہ کا بھی انکاری تھا
تو اس کا اقرار بھی کرنا ہوگا
مثلاً
اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی فرضیت یا
حرمتِ زنا یا حرمتِ سود کا انکار کرتا ہے
تو وہ مرتد ہوگا
اور دوبارہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ
وہ
لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ
کا اقرار کرے اور
پھر زکٰوۃ کی فرضیت، زنا و سود کی حرمت کا اقرار کرے
غرض جس حکم کا بھی انکار کیا تھا اس دوبارہ تسلیم کرلے
اس مقام پر
اگر ایک اور بات کی وضاحت کی جائے تو بہت مفید ہوگا
وہ یہ کہ
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
شہادتین کے اقرار سے انسان ظاہری مسلمان بن جاتا ہے اور
اس پر وہ تمام احکام لاگو ہوتے ہیں
البتہ خلود فی النار (ہمیشہ جہنم میں رہنے) سے بچنے کے لئے
صرف زبانی اقرار کافی نہیں
جب کہ
دل کی تصدیق بھی اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائے
لہذا اب
جو شخص شہادتین کا اقرار کر لے گا
اس کے ساتھ دنیا میں وہی برتاؤ کیا جائے گا
جو مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے
اگرچہ
حقیقت میں وہ منافق ہی کیوں نہ ہو
اس لئےکہ
ہم دنیا میں ظاہری اعمال کے لحاظ سے معاملہ کرنے کے پابند ہیں اور
ہمیں انہی کی بنیاد پر
کسی کے مسلمان و کافر ہونے کا فیصلہ کرنے کا حکم ہے
باطن کا معاملہ
الله کے سپرد ہے اس لئے کہ باطن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے
جیسا کہ
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ
اسامہ رضی الله عنه نے
ایک شخص کے ظاہری اقرار کو تسلیم نہیں کیا کہ
وہ تو جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھ رہا ہے اور اسے قتل کر دیا
(جنگ کے دوران)
تو
آپ صلی الله عليه وسلم نے اس بات پر سرزنش کی
(کہ تم کو باطن میں جھانکنے کا کس نے کہا ہے؟)
*** ایمان کے منافی امور کون سے ہیں؟
*** مومن کب کافر ہوتا ہے؟
اللہ کے دین میں داخل ہونے والوں کی اقسام
سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ
اسلام میں داخل ہونے کے بعد کچھ لوگ تو
اپنے اقرار پر قائم رہتے ہیں اور انکا خاتمہ ایمان پر ہو جاتا ہے اور
بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرتد ہو جاتے ہیں
پہلی قسم کے جو لوگ ہیں
(یعنی ایمان پر قائم رہنے والے)
ان کی کئی اقسام ہیں:
1- بہت زیادہ نیکوکار
2- متوسط درجے کے نیکوکار
3- ایمان کے ساتھ ساتھ کچھ گناہ کرنے والے
4- بغیر حساب کے جنت میں جانے والے
5- آسان حساب لئے جانے والے
6- کچھ عرصہ تک حساب بھگتنے والے،
یہاں تک کہ
اللہ اپنے فضل و کرم سے انہیں عذاب سے نجات دے دے
جہاں تک ان اسباب کا تعلق ہے
جن کی وجہ سے کوئی شخص
اسلام لانے کے بعد مرتد ہوتا ہے تو
اس بارے میں ہم ایسا قاعدہ کلیہ ذکر کرتے ہیں
جس پر اہلِ سنت کا اتفاق ہے
اس کے بعد ہم
اسے تفصیل سے بیان کریں گے
قاعدہ:
جس قاعدے کی رو سے
ان اعتقادات اور افعال و اقوال کی وضاحت ہوتی ہے
جن کے اپنانے سے انسان کافر ہوتا ہے
وہ قاعدہ ہم
امام طحاوی رحمہ الله کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں
فرماتے ہیں
"ہم اہلِ قبلہ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور انہیں مؤمن تسلیم کرتے ہیں
جب تک وہ
محمد صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے اقراری ہوں اور
آپ صلی الله عليه وسلم کی ہر بات کی تصدیق کرتے ہوں
ہم
اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کسی گناہ کے سرزد ہونے پر کافر نہیں کہتے
جب تک کہ وہ کسی گناہ کو جائز نہ سمجھے
ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ
ایمان کسی گناہ کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا
ایمان سے انسان اس وقت نکلتا ہے
جب وہ اس اقرار کا انکار کر دے
جس کی وجہ سے وہ اسلام میں داخل ہوا تھا
(العقیدۃ الطحاویة مع شرح، صفحہ 350 تا 351 اور 371)
تفصیل اس قاعدہ کی اس طرح ہے کہ
شارع نے ایمان و اسلام میں داخل ہونے کے لئے ایک دروازہ مقرر کیا ہے
جسے شہادتین کا اقرار اور اُس کی تصدیق کہا جاتا ہے
اب جو شخص
اس دروازہ سے اسلام و ایمان میں داخل ہو گیا
وہ باہر تب نکلے گا
جب
اس سے کوئی قول، عمل یا اعتقادی کام ایسا سرزد ہو جائے
جو اس اقرار و تصدیق کے منافی ہو
آپ کے سامنے
ہم یہ صراحت کر چکے ہیں کہ
لا اله الا اللہ کی شہادت کا مقصد ہے
اللہ کی ربوبیت، اسماء و صفات اور افعال میں وحدانیت کا اقرار
اور
توحید الوہیت کو قائم کرنا اور
عبادت میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف توجہ نہ کرنا
محمد صلی الله عليه وسلم کی شہادت کا مطلب ہے
اس بات کا اقرار اور تصدیق کہ
محمد صلی الله عليه وسلم جو شریعت ہمیں دے گئے ہیں
وہ برحق اور واجب الاتباع ہے
اور
جو خبریں ہمیں
آپ صلی الله عليه وسلم نے (سابقہ یا آئندہ) غیب کی دی ہیں
انہیں سچا ماننا اور انہیں الله کی طرف سے ہونے کا یقین کرنا
اسی طرح یہ اعتراف کرنا کہ تمام نبوی اخلاق و صفات
آپ صلی الله عليه وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھیں اور
آپ صلی الله عليه وسلم امین، دیانتدار ، عقلمند، پاکدامن اور
الله کے احکام کو کماحقہ پہنچانے والے تھے
اب اس کے بعد
اگر کوئی شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے یا ایسا کوئی فعل کرتا ہے
جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے انکار پر دلالت کرتا ہو تو
یہ قول یا فعل
اس کے اس اقرار کو ختم کردے گا اور
یوں ایسا شخص دینِ اسلام سے خارج شمار ہوگا
اگر
اس کی نیت اور عقیدہ بھی اس قول یا فعل کے موافق ہو تو
یہ شخص دنیا و آخرت دونوں میں کافر شمار ہوگا
اور
اس کے ساتھ دنیا میں وہی سلوک و معاملہ کیا جائے گا
جو کافروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے
اور
اس پر مرتد کے احکام لاگو ہوں گے
یعنی سب سے پہلے
اس سے توبہ کروائی جائے، اگر نہ کرے تو قتل کر دیا جائے
اگر اسی حالت پر اسے موت آجائے تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا
البتہ جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے
یا
ایسا کوئی قول یا فعل اس سے سرزد ہوتا ہے
جو اللہ کی معصیت میں شمار ہوتا ہو تو
اس کا قول یا فعل اسے دین اسلام سے خارج نہیں کرتا،
اگرچہ وہ توبہ بھی نہ کرے
البتہ گناہ ایسا نہ ہو کہ
جو
شہادتین یا ان میں سے کسی ایک کے منافی و نقیض ہو
ایسے شخص کی سزا و جزا اور بخشش کا معاملہ
اللہ کی مشیئت پر ہے
اگر وہ چاہے تو
اسکے
گناہ و معصیت (نافرمانی) کی سزا کے طور پر جہنم میں ڈال دے
اور
سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے
اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث ہیں کہ
جہنم سے ہر وہ شخص نکال لیا جائے گا
جس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا
اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو
ایسے مؤمن گناہ گار کو معاف کر دے اور
بغیر عذاب دئیے ہی جنت میں داخل کر دے
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ}
"الله تعالیٰ
اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے
اس کے علاوہ
جس گناہ کو چاہے معاف کر دے"
(النسآء ۔ 116)
اسلام کی اس صفت کو جان لینا نہایت ضروری ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں آگ کی سختی سے بچائے؛
ایک طرف تو ہم کہیں کہ
اسلام کے بغیر انسان لاکھوں کروڑوں سال آگ میں جلے گا
دوسری طرف ہمارا یہ خیال ہو کہ
اسلام میں آنے اور مسلمان رہنے کے لئے کوئی قاعدہ قانون ہی نہیں؟
عقل کا تقاضا ہے کہ
اللہ کی رحمت ایسی انمول چیز ہو تو سب کے لیے مگر ہو
کسی وصف merit کی بنیاد پر
کوئی اس کو پائے تو کسی معقول بنیاد پر پائے
اور
اگر کوئی اس کو کھوئے تو اس کی بھی کوئی معقول بنیاد ہو
اب
جہاں تک اس نعمت کو پانے کا تعلق ہے
تو
اس کا اصول یہ ہے کہ
انسان
لا اله الا اللہ کی دعوت کو قبول کرے
یعنی
اس کو سمجھے، دل میں بٹھائے اور
اس پر چلنے کا عہد کرے
بالفاظِ دیگر:
شروطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کو پورا کرے
یعنی:
تمام باطل خداؤں کا انکار کرے،
اللہ تعالیٰ کے سوا
عبادت کی جانے اور پوجی جانے والی ہستیوں کا کفر کرے
اور
بندگی اور عبادت کو
الله وحدہ لا شریک کے لیے خالص کر لے
نیز
محمد رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کو اپنے لئے ہدایت کا منبع،
قانون کا مصدر، حق کا معیار اور
زندگی کا اسوہ و نمونہ مان لے۔۔۔
پورے
علم اور وثوق کے ساتھ، صدق اور اخلاص کے ساتھ،
گرویدہ ہوکر اور ظاہر و باطن میں
اس کی پابندی قبول کرتے ہوئے
اور
جہاں تک اِس نعمت کا چھن جانا ہے
تو وہ یہ کہ
انسان کوئی ایسا قول یا فعل یا اعتقاد یا رویہ اختیار کر لے
جو لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کو توڑ دینے والا ہو
ایسے خطرناک اقوال، افعال، اعتقادات اور رویے
جو انسان کے عہد
لَا اِلٰهَ اِلَّا الله کو توڑ دینے والے ہیں،
علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں نواقض اسلام و توحید کہلاتے ہیں
خلاصہ یہ کہ:
1-- شروطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا الله
ادا ہوں تو انسان "کلمہ گو" بنتا ہے
2-- نوقضِ اسلام (اسلام ختم کرنے)
ایسی کوئی شے کا ارتکاب ہو تو
"کلمہ گو" نہیں رہتا
شروطِ لا اله الا اللہ و شروطِ توحید
ہم پہلے بیان کر آئیں ہیں
اب
ہم نواقضِ اسلام کے بارے میں بیان کریں گے
ان شاءالله
عربی میں
"نواقض" کا مطلب ہے:
توڑ دینے والی چیزیں
"نواقضِ اسلام"
یعنی:
اسلام کو توڑ یا ختم کر دینے والی باتیں یا اعمال
وہ اعمال یا اشیاء
جن کی زد سیدھی "کلمہ" پر پڑتی ہے
جس طرح فقہ میں:
وضوء کو توڑ دینے والے اعمال کو "نواقض وضوء" کہتے ہیں،
مثلاََ
ہوا خارج ہونا، قضائے حاجت وغیرہ۔۔۔
اور
جس طرح نماز کو توڑ دینے والے اعمال "نواقض صلوٰۃ" کہلاتے ہیں،
مثلاََ
نماز میں گفتگو یا وضوء ٹوٹنا وغیرہ۔۔۔
اور
جس طرح روزہ کو توڑ دینے والے اعمال "نواقض صوم" کہلاتے ہیں،
مثلاََ
جان بوجھ کر کھانا پینا، قےء کر لینا یا ہم بستری وغیرہ۔۔۔۔۔۔
اسی طرح عقیدہ میں:
وہ اعمال جو انسان کے کلمہ کو توڑ دیں،
مثلاََ
عبادت میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا،
وسیلے اور واسطے گھڑنا اور
الله کے ساتھ ان کو پکارنے لگنا، جادو اور عملیات کرنا،
محمد صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
شریعت پر کسی آئین یا ضابطے یا قانون کو ترجیح دینا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
نوقض اسلام کہلاتے ہیں
پس
"نواقض اسلام"
گناہوں کی وہ خطرناک قسم ہے
جو زنا سے بھی زیادہ گھناؤنی ہے اور چوری سے بھی
"نواقض اسلام"
کبائر کی وہ قسم ہے
جو شرابی ہونے سے بھی سنگین تر ہے
اور
قاتل اور ڈکیت ہونے سے بھی
راشی، کرپٹ، سود خور یا بھتہ خور ہونے سے بھی
"نواقضِ اسلام"
کچھ ایسے گھناؤنے کبائر ہیں
جو کفر اور شرک کے باب سے ہیں اور
جن کے ارتکاب سے
انسان کا الله تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا بندگی اور عبادت کا وہ عہد
جسے "اسلام" کہا جاتا ہے سرے سے کالعدم ہو جاتا ہے،
یہ گناہوں کی وہ قسم ہے
جس کو الله معاف کرتا ہی نہیں
الا یہ کہ
انسان نے زندگی ہی میں اللہ سے اس کی معافی مانگ لی ہو
اور
اس سے تائب ہو گیا ہو،
انسان نے جانتے بوجھتے ہوئے
"نواقضِ اسلام" قبیل کا کوئی گناہ کر لیا ہو اور
اسی حالت میں اُس کی موت واقع ہو گئی ہو،
تو
دوزخ سے نکلنے کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے
ایسے انسان کے اعمال تُلنے کی نوبت ہی نہ آئے گی
"نواقضِ اسلام"
اُس مصیبت کا نام ہے
جو انسان کی سب سے بڑی نیکی
یعنی
"ایمان" یا "توحید" کو ختم کر دیتی ہے،
جبکہ
"توحید" باقی نیکیوں کے قبول ہونے کے لیے شرط ہے
انسان کی نیکیاں اور برائیاں دونوں ترازو میں رکھ دی جائیں اور
پھر یہ دیکھا جائے کہ
کونسا پلڑا جھک گیا،
یہ امکان اُسی شخص کے حق میں ہے
جس کی توحید سلامت تھی؛
باقی
کیسی ہی برائیاں اُس کے اعمال نامے میں کیوں نہ پائی گئی ہوں
البتہ
شرک اور کفر ایسی برائیوں سے اُس کا دامن پاک ہو
فتنوں کا ایک ایسا دور
جس میں
صبح کا مومن شام پڑنے تک کافر ہو چکا ہو
یا
شام کو مومن ہو تو صبح چڑھنے تک کافر ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔
اس کی پیشگوئی حدیث میں ہوئی ہے:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ
انَّ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم قال:
[بَادِرُوْا بِالْاَعْمَالِ فِتَناً کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ
یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِناً وَیُمْسِیْ کَافِراً
اوْیُمْسِیْ مُؤْمِناً وَ یَصْبِحُ کَافِراً یَبِیْعُ دِیْنَہُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا]
"نیک اعمال کی جلدی کر لو
اس سے پہلے کہ کچھ ایسے فتنے آئیں
جو رات کے سیاہ پردوں کی طرح (چھا جانے والے) ہوں
انسان صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوا ہوگا
یا
شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح تک کافر بنا ہوگا
دنیا کے کسی لالچ کے عوض انسان اپنا دین بیچ دیا کرے گا"
(رواہ مسلم)
فتنوں کے ایسے دور میں جہاں
لا اله الا اللہ کی حدیں توڑی جارہی ہوں،
دائرہ اسلام پامال ہوتا ہو،
جہالت نہ صرف عام ہو
بلکہ
منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلائی جارہی ہو،
تاویل اور تحریف کے جھکڑ چل رہے ہوں،
حق غربت (اجنبیت) کا شکار ہو
اور
اسلام کے نام پر جعلسازیاں ہوں۔۔۔
نتیجتاً
لوگوں کے ہاتھوں سے "اسلام" کا دامن ہی چھوٹتا جا رہا ہو،
یہاں تک کہ
حدیث کی مذکورہ بالا پیشگوئی
پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہو۔۔۔
ضروری ہوجاتا ہے کہ
انسان کو نہ صرف
اسلام میں داخلے کے راستے معلوم ہوں بلکہ
اسلام سے خارج کر دینے والی راہوں کی بھی نشاندہی ہو
جہاں اسلام کی سب سے بڑی بنیاد خطرے میں ہو
یعنی
لا اله الا اللہ ،
وہاں
اسلام کے درد مندوں پر لازم ہو جاتا ہے
کہ
سب سے بڑھ کر اِسی کی دہائی مچائیں؛
اِس (لا اله الا اللہ) کو منوانے کے حوالے سے بھی
اور
اس کو توڑنے سے خبردار کرنے کے حوالے سے بھی
مسلمان بھائیو!
اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انسانوں پر دینِ اسلام میں داخل ہونا،
اس پر مضبوطی سے قائم رہنا،
اس کی منافی و مخالف چیزوں سے بچنا اور دور رہنا واجب کر دیا ہے
اسی بات کی دعوت دینے کے لئے
اللہ تعالیٰ نے اپنے
آخری نبی صلی الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر بتلا دیا کہ
جس نے
آپ صلی الله عليه وسلم کی نافرمانی کی اور منہ موڑا تو وہ گمراہ ہوگیا
الله تعالیٰ نے بہت سی آیات میں
اِرتداد کے اسباب اور کفر و شرک کی تمام انواع و اقسام سے ڈرایا اور
آگاہ فرمایا ہے
علمائے کرام نے
کتبِ فقہ میں مرتد کے احکام کے ضمن میں ذکر کیا ہے کہ
اسلام کے نواقض منافی بہت سے ایسے امور ہیں
جن کا ارتکاب کر کے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہو جاتا ہے اور اس کے جان و مال کی حرمت ختم ہو جاتی ہے
ان نواقض اسلام میں
سب سے زیادہ خطرناک اور کثرت سے واقع ہونے والے اعمال کو
اختصار اور کچھ ضروری وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے
تاکہ تمام مسلمان ان نواقض سے خود بھی بچیں اور
دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں
ہم ان کے ارتکاب سے
الله کی پناہ چاہتے ہیں اور اس سے عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔
اہلِ سنت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ
شہادتین
(لا اله الا اللہ محمد رسول الله)
کے اقرار کے سوا کوئی چیز انسان کو
اسلام میں داخل کرنے کا موجب نہیں بنتی
لہذا
جس کسی نے
اس کلمہ کا اقرار نہ کیا ہو
اس کو مسلمان کہنے کا حق کسی کو حاصل نہیں
اسی طرح یہ بھی
کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ
اس کلمہ کے اقرار کرنے والے کو کافر کہے یا سمجھے
جب تک کہ
کلمہ پڑھنے والا
اس کلمہ کے تقاضوں یا
اس کے کسی ایک جز کے منافی عمل نہ کر لے
اس لئے کہ
اس کلمہ کے ایک جز کا اقرار
اسلام میں داخل ہونے کے لئے کافی نہیں ہے
بلکہ
توحید و رسالت دونوں کا اقرار ضروری ہے
اگرچہ
ایک حدیث میں صرف
شہادۃ ان لا اله الا اللہ کا ذکر ہے
مگر
اس کا مطلب بھی پورا کلمہ ہی ہے
جس طرح کہ
دیگر احادیث سے اس کی صراحت ہو جاتی ہے
(شرح نووی، صحیح مسلم، ج ا صفحہ 149 تا 219 ملاحظہ کریں)
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
شہادتین کا اقرار اور دل سے
اس کے مفہوم کی تصدیق اس وقت فائدہ نہیں دے گی
جب ان دونوں یا ایک شہادت کے منافی کام کئے جائیں
نہ ہی ایسا اقرار اسلام میں داخل کرے گا
اور
نہ جہنم میں ہمیشہ رہنے سے بچا سکے گا
ایسے شخص کو مؤمن نہیں کہا جاسکتا
جو
لا اله الا اللہ محمد رسول الله کا اقرار کرے
مگر زکوٰۃ یا حج کے وجوب کا انکار کرے،
یا زنا، سود، قتل وغیرہ کی حرمت، یا دیگر ایسے احکام کا انکاری ہو
جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں
اور
ہر مسلمان ان کو جانتا پہچانتا ہے
اس طرح
اگر کوئی شخص
محمد رسول الله صلی الله عليه وسلم کی رسالت کا اقرار کرے اور
پھر کہے کہ
یہ رسالت صرف
آپ صلی الله عليه وسلم کے دور تک یا
کسی خاص قوم تک محدود و مخصوص تھی تو
ایسا شخص بھی مؤمن اور مسلمان نہیں کہلائے گا
یا
اگر کوئی شخص شہادتین کا اقرار کرے
مگر ان کی ایسی تفسیر کرے
جس سے
الله کی صفاتی توحید کا انکار پیدا ہوتا ہو تو
ایسا شخص بھی مؤمن نہیں کہلا سکتا
اگر کوئی شخص شہادتین کا اقرار کرتا ہو
مگر
قرآن کے کسی حصہ،
آیت یا ایک حرف تک کا انکار کرتا ہو تو
ایسے شخص کو شہادتین کا اقرار کوئی فائدہ نہیں دے گا
اس لئے کہ
ایک طرف تو
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليه وسلم کا اقرار کرتا ہے
مگر ساتھ ہی
ان دونوں کی شریعت کا انکار کرتا ہے
اگر کوئی شخص کسی ایسے مذہب سے تعلق رکھتا ہے
جس کی بنیاد شہادتین کے مفہوم کے منافی ہے
تو
جب تک وہ اُس مذہب کو چھوڑ نہ دے
اس وقت تک شہادتین کا اقرار کوئی فائدہ نہیں دے گا
اسی طرح
اگر کوئی شخص توحید کا اقرار کرتا ہو اور
محمد صلی الله عليه وسلم کو رسول بھی مانتا ہو
مگر
کسی ایک زمانے یا قوم کے لئے مانتا ہو تو
جب تک یہ شخص
آپ صلی الله عليه وسلم کو تمام
دنیا (اور ہر زمانے) کے لئے رسول تسلیم نہ کر لے
اس وقت تک مؤمن نہیں بن سکتا
*** انسان کو کب مؤمن کہا جائے؟
اس مسئلہ کے بارے میں کچھ علماء نے ایک قاعدہ مقرر کیا ہے
وہ قاعدہ یہ ہے کہ
کسی شخص کو اس وقت تک مسلمان تسلیم نہ کیا جائے
جب تک کہ
وہ شہادتین کا اقرار نہ کرلے اور
یہ اقرار اس طرح ہو کہ
اس سے پہلے والے تمام باطل عقائد ختم ہو جائیں
اگر اقرار اس طرح کا نہیں ہے تو پھر
شہادتین زبان سے ادا کرے
اور
عقائدِ باطلہ سے برات کا اعلان کرے
وہ عقائد جو صرف اقرارِ شہادتین سے باطل نہیں ٹھہرے تھے
(تفسیرِ کبیر)
اس مقام پر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ
کلمہ لا اله الا اللہ ان تمام باطل تصورات کو ختم کر دیتا ہے
جو خالق یا اس کی ربوبیت و الوہیت سے متعلق ہوتے ہیں
اسی طرح
الله کی ذات، اس کی صفات، اسماء و افعال اور
الله کو ہر عیب سے پاک سمجھنے میں اس کلمہ کا اقرار کفایت کرتا ہے
جو شخص اس کلمہ کا اقرار کر لیتا ہے تو
وہ گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ
میں ان تمام باطل اعتقادات سے براءت کا اظہار کرتا ہوں
جو الله کے بارے میں پہلے موجود تھے
جبکہ
دوسری شہادت
یعنی
(محمد رسول الله)
ان تمام باطل تصورات کو ختم کر دیتی ہے
جو نبی صلی الله عليه وسلم کے بارے میں یا
آپ صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے متعلق یا
آپ صلی الله عليه وسلم کی حیثیت و مرتبہ کے بارے میں ہوں
اگر کوئی بھی غلط تصور باقی رہا
جیسا کہ بعض لوگ
آپ صلی الله عليه وسلم کی
شریعت کو ایک قوم تک محدود سمجھتے ہیں
تو پھر یہ گواہی فائدہ نہیں دے گی
یہ سب شرائط و تفصیلات ان لوگوں کے لئے ہیں
جو پہلے کافر تھے اور اب اسلام میں داخل ہونا چاہتے ہیں
جہاں تک مرتد کا تعلق ہے تو
وہ اس وقت تک مسلمان تسلیم نہیں کیا جائے گا
جب تک ان باتوں کا اقرار نہ کر لے
جن کا انکار کر کے وہ مرتد ہوا تھا اور
اس کے ساتھ ساتھ
لا اله الا اللہ محمد رسول الله کا اقرار بھی کرنا ہو گا
اگر
اس نے صرف اللہ کی وحدانیت یا
محمد صلی الله عليه وسلم کی رسالت کا انکار کیا تھا
تو شہادتین کا اقرار اس کے لئے کافی ہے اور
اگر
اسلام کے کسی اور رکن یا مسئلہ کا بھی انکاری تھا
تو اس کا اقرار بھی کرنا ہوگا
مثلاً
اگر کوئی شخص زکوٰۃ کی فرضیت یا
حرمتِ زنا یا حرمتِ سود کا انکار کرتا ہے
تو وہ مرتد ہوگا
اور دوبارہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ
وہ
لا اله الا اللہ محمد رسول اللہ
کا اقرار کرے اور
پھر زکٰوۃ کی فرضیت، زنا و سود کی حرمت کا اقرار کرے
غرض جس حکم کا بھی انکار کیا تھا اس دوبارہ تسلیم کرلے
اس مقام پر
اگر ایک اور بات کی وضاحت کی جائے تو بہت مفید ہوگا
وہ یہ کہ
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
شہادتین کے اقرار سے انسان ظاہری مسلمان بن جاتا ہے اور
اس پر وہ تمام احکام لاگو ہوتے ہیں
البتہ خلود فی النار (ہمیشہ جہنم میں رہنے) سے بچنے کے لئے
صرف زبانی اقرار کافی نہیں
جب کہ
دل کی تصدیق بھی اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائے
لہذا اب
جو شخص شہادتین کا اقرار کر لے گا
اس کے ساتھ دنیا میں وہی برتاؤ کیا جائے گا
جو مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے
اگرچہ
حقیقت میں وہ منافق ہی کیوں نہ ہو
اس لئےکہ
ہم دنیا میں ظاہری اعمال کے لحاظ سے معاملہ کرنے کے پابند ہیں اور
ہمیں انہی کی بنیاد پر
کسی کے مسلمان و کافر ہونے کا فیصلہ کرنے کا حکم ہے
باطن کا معاملہ
الله کے سپرد ہے اس لئے کہ باطن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے
جیسا کہ
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ
اسامہ رضی الله عنه نے
ایک شخص کے ظاہری اقرار کو تسلیم نہیں کیا کہ
وہ تو جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھ رہا ہے اور اسے قتل کر دیا
(جنگ کے دوران)
تو
آپ صلی الله عليه وسلم نے اس بات پر سرزنش کی
(کہ تم کو باطن میں جھانکنے کا کس نے کہا ہے؟)
*** ایمان کے منافی امور کون سے ہیں؟
*** مومن کب کافر ہوتا ہے؟
اللہ کے دین میں داخل ہونے والوں کی اقسام
سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ
اسلام میں داخل ہونے کے بعد کچھ لوگ تو
اپنے اقرار پر قائم رہتے ہیں اور انکا خاتمہ ایمان پر ہو جاتا ہے اور
بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مرتد ہو جاتے ہیں
پہلی قسم کے جو لوگ ہیں
(یعنی ایمان پر قائم رہنے والے)
ان کی کئی اقسام ہیں:
1- بہت زیادہ نیکوکار
2- متوسط درجے کے نیکوکار
3- ایمان کے ساتھ ساتھ کچھ گناہ کرنے والے
4- بغیر حساب کے جنت میں جانے والے
5- آسان حساب لئے جانے والے
6- کچھ عرصہ تک حساب بھگتنے والے،
یہاں تک کہ
اللہ اپنے فضل و کرم سے انہیں عذاب سے نجات دے دے
جہاں تک ان اسباب کا تعلق ہے
جن کی وجہ سے کوئی شخص
اسلام لانے کے بعد مرتد ہوتا ہے تو
اس بارے میں ہم ایسا قاعدہ کلیہ ذکر کرتے ہیں
جس پر اہلِ سنت کا اتفاق ہے
اس کے بعد ہم
اسے تفصیل سے بیان کریں گے
قاعدہ:
جس قاعدے کی رو سے
ان اعتقادات اور افعال و اقوال کی وضاحت ہوتی ہے
جن کے اپنانے سے انسان کافر ہوتا ہے
وہ قاعدہ ہم
امام طحاوی رحمہ الله کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں
فرماتے ہیں
"ہم اہلِ قبلہ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور انہیں مؤمن تسلیم کرتے ہیں
جب تک وہ
محمد صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے اقراری ہوں اور
آپ صلی الله عليه وسلم کی ہر بات کی تصدیق کرتے ہوں
ہم
اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کسی گناہ کے سرزد ہونے پر کافر نہیں کہتے
جب تک کہ وہ کسی گناہ کو جائز نہ سمجھے
ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ
ایمان کسی گناہ کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا
ایمان سے انسان اس وقت نکلتا ہے
جب وہ اس اقرار کا انکار کر دے
جس کی وجہ سے وہ اسلام میں داخل ہوا تھا
(العقیدۃ الطحاویة مع شرح، صفحہ 350 تا 351 اور 371)
تفصیل اس قاعدہ کی اس طرح ہے کہ
شارع نے ایمان و اسلام میں داخل ہونے کے لئے ایک دروازہ مقرر کیا ہے
جسے شہادتین کا اقرار اور اُس کی تصدیق کہا جاتا ہے
اب جو شخص
اس دروازہ سے اسلام و ایمان میں داخل ہو گیا
وہ باہر تب نکلے گا
جب
اس سے کوئی قول، عمل یا اعتقادی کام ایسا سرزد ہو جائے
جو اس اقرار و تصدیق کے منافی ہو
آپ کے سامنے
ہم یہ صراحت کر چکے ہیں کہ
لا اله الا اللہ کی شہادت کا مقصد ہے
اللہ کی ربوبیت، اسماء و صفات اور افعال میں وحدانیت کا اقرار
اور
توحید الوہیت کو قائم کرنا اور
عبادت میں اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف توجہ نہ کرنا
محمد صلی الله عليه وسلم کی شہادت کا مطلب ہے
اس بات کا اقرار اور تصدیق کہ
محمد صلی الله عليه وسلم جو شریعت ہمیں دے گئے ہیں
وہ برحق اور واجب الاتباع ہے
اور
جو خبریں ہمیں
آپ صلی الله عليه وسلم نے (سابقہ یا آئندہ) غیب کی دی ہیں
انہیں سچا ماننا اور انہیں الله کی طرف سے ہونے کا یقین کرنا
اسی طرح یہ اعتراف کرنا کہ تمام نبوی اخلاق و صفات
آپ صلی الله عليه وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھیں اور
آپ صلی الله عليه وسلم امین، دیانتدار ، عقلمند، پاکدامن اور
الله کے احکام کو کماحقہ پہنچانے والے تھے
اب اس کے بعد
اگر کوئی شخص کوئی ایسی بات کرتا ہے یا ایسا کوئی فعل کرتا ہے
جو مذکورہ امور میں سے کسی ایک کے انکار پر دلالت کرتا ہو تو
یہ قول یا فعل
اس کے اس اقرار کو ختم کردے گا اور
یوں ایسا شخص دینِ اسلام سے خارج شمار ہوگا
اگر
اس کی نیت اور عقیدہ بھی اس قول یا فعل کے موافق ہو تو
یہ شخص دنیا و آخرت دونوں میں کافر شمار ہوگا
اور
اس کے ساتھ دنیا میں وہی سلوک و معاملہ کیا جائے گا
جو کافروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے
اور
اس پر مرتد کے احکام لاگو ہوں گے
یعنی سب سے پہلے
اس سے توبہ کروائی جائے، اگر نہ کرے تو قتل کر دیا جائے
اگر اسی حالت پر اسے موت آجائے تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا
البتہ جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے
یا
ایسا کوئی قول یا فعل اس سے سرزد ہوتا ہے
جو اللہ کی معصیت میں شمار ہوتا ہو تو
اس کا قول یا فعل اسے دین اسلام سے خارج نہیں کرتا،
اگرچہ وہ توبہ بھی نہ کرے
البتہ گناہ ایسا نہ ہو کہ
جو
شہادتین یا ان میں سے کسی ایک کے منافی و نقیض ہو
ایسے شخص کی سزا و جزا اور بخشش کا معاملہ
اللہ کی مشیئت پر ہے
اگر وہ چاہے تو
اسکے
گناہ و معصیت (نافرمانی) کی سزا کے طور پر جہنم میں ڈال دے
اور
سزا بھگتنے کے بعد جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دے
اس بارے میں بہت سی صحیح احادیث ہیں کہ
جہنم سے ہر وہ شخص نکال لیا جائے گا
جس کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگا
اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو
ایسے مؤمن گناہ گار کو معاف کر دے اور
بغیر عذاب دئیے ہی جنت میں داخل کر دے
جیسا کہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اِنَّ اللہَ لَایَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَادُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ}
"الله تعالیٰ
اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے
اس کے علاوہ
جس گناہ کو چاہے معاف کر دے"
(النسآء ۔ 116)
اسلام کی اس صفت کو جان لینا نہایت ضروری ہے
اللہ تعالیٰ ہمیں آگ کی سختی سے بچائے؛
ایک طرف تو ہم کہیں کہ
اسلام کے بغیر انسان لاکھوں کروڑوں سال آگ میں جلے گا
دوسری طرف ہمارا یہ خیال ہو کہ
اسلام میں آنے اور مسلمان رہنے کے لئے کوئی قاعدہ قانون ہی نہیں؟
عقل کا تقاضا ہے کہ
اللہ کی رحمت ایسی انمول چیز ہو تو سب کے لیے مگر ہو
کسی وصف merit کی بنیاد پر
کوئی اس کو پائے تو کسی معقول بنیاد پر پائے
اور
اگر کوئی اس کو کھوئے تو اس کی بھی کوئی معقول بنیاد ہو
اب
جہاں تک اس نعمت کو پانے کا تعلق ہے
تو
اس کا اصول یہ ہے کہ
انسان
لا اله الا اللہ کی دعوت کو قبول کرے
یعنی
اس کو سمجھے، دل میں بٹھائے اور
اس پر چلنے کا عہد کرے
بالفاظِ دیگر:
شروطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کو پورا کرے
یعنی:
تمام باطل خداؤں کا انکار کرے،
اللہ تعالیٰ کے سوا
عبادت کی جانے اور پوجی جانے والی ہستیوں کا کفر کرے
اور
بندگی اور عبادت کو
الله وحدہ لا شریک کے لیے خالص کر لے
نیز
محمد رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کو اپنے لئے ہدایت کا منبع،
قانون کا مصدر، حق کا معیار اور
زندگی کا اسوہ و نمونہ مان لے۔۔۔
پورے
علم اور وثوق کے ساتھ، صدق اور اخلاص کے ساتھ،
گرویدہ ہوکر اور ظاہر و باطن میں
اس کی پابندی قبول کرتے ہوئے
اور
جہاں تک اِس نعمت کا چھن جانا ہے
تو وہ یہ کہ
انسان کوئی ایسا قول یا فعل یا اعتقاد یا رویہ اختیار کر لے
جو لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کو توڑ دینے والا ہو
ایسے خطرناک اقوال، افعال، اعتقادات اور رویے
جو انسان کے عہد
لَا اِلٰهَ اِلَّا الله کو توڑ دینے والے ہیں،
علمائے عقیدہ کی اصطلاح میں نواقض اسلام و توحید کہلاتے ہیں
خلاصہ یہ کہ:
1-- شروطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا الله
ادا ہوں تو انسان "کلمہ گو" بنتا ہے
2-- نوقضِ اسلام (اسلام ختم کرنے)
ایسی کوئی شے کا ارتکاب ہو تو
"کلمہ گو" نہیں رہتا
شروطِ لا اله الا اللہ و شروطِ توحید
ہم پہلے بیان کر آئیں ہیں
اب
ہم نواقضِ اسلام کے بارے میں بیان کریں گے
ان شاءالله
عربی میں
"نواقض" کا مطلب ہے:
توڑ دینے والی چیزیں
"نواقضِ اسلام"
یعنی:
اسلام کو توڑ یا ختم کر دینے والی باتیں یا اعمال
وہ اعمال یا اشیاء
جن کی زد سیدھی "کلمہ" پر پڑتی ہے
جس طرح فقہ میں:
وضوء کو توڑ دینے والے اعمال کو "نواقض وضوء" کہتے ہیں،
مثلاََ
ہوا خارج ہونا، قضائے حاجت وغیرہ۔۔۔
اور
جس طرح نماز کو توڑ دینے والے اعمال "نواقض صلوٰۃ" کہلاتے ہیں،
مثلاََ
نماز میں گفتگو یا وضوء ٹوٹنا وغیرہ۔۔۔
اور
جس طرح روزہ کو توڑ دینے والے اعمال "نواقض صوم" کہلاتے ہیں،
مثلاََ
جان بوجھ کر کھانا پینا، قےء کر لینا یا ہم بستری وغیرہ۔۔۔۔۔۔
اسی طرح عقیدہ میں:
وہ اعمال جو انسان کے کلمہ کو توڑ دیں،
مثلاََ
عبادت میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا،
وسیلے اور واسطے گھڑنا اور
الله کے ساتھ ان کو پکارنے لگنا، جادو اور عملیات کرنا،
محمد صلی الله عليه وسلم کی لائی ہوئی
شریعت پر کسی آئین یا ضابطے یا قانون کو ترجیح دینا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
نوقض اسلام کہلاتے ہیں
پس
"نواقض اسلام"
گناہوں کی وہ خطرناک قسم ہے
جو زنا سے بھی زیادہ گھناؤنی ہے اور چوری سے بھی
"نواقض اسلام"
کبائر کی وہ قسم ہے
جو شرابی ہونے سے بھی سنگین تر ہے
اور
قاتل اور ڈکیت ہونے سے بھی
راشی، کرپٹ، سود خور یا بھتہ خور ہونے سے بھی
"نواقضِ اسلام"
کچھ ایسے گھناؤنے کبائر ہیں
جو کفر اور شرک کے باب سے ہیں اور
جن کے ارتکاب سے
انسان کا الله تعالیٰ کے ساتھ کیا ہوا بندگی اور عبادت کا وہ عہد
جسے "اسلام" کہا جاتا ہے سرے سے کالعدم ہو جاتا ہے،
یہ گناہوں کی وہ قسم ہے
جس کو الله معاف کرتا ہی نہیں
الا یہ کہ
انسان نے زندگی ہی میں اللہ سے اس کی معافی مانگ لی ہو
اور
اس سے تائب ہو گیا ہو،
انسان نے جانتے بوجھتے ہوئے
"نواقضِ اسلام" قبیل کا کوئی گناہ کر لیا ہو اور
اسی حالت میں اُس کی موت واقع ہو گئی ہو،
تو
دوزخ سے نکلنے کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے
ایسے انسان کے اعمال تُلنے کی نوبت ہی نہ آئے گی
"نواقضِ اسلام"
اُس مصیبت کا نام ہے
جو انسان کی سب سے بڑی نیکی
یعنی
"ایمان" یا "توحید" کو ختم کر دیتی ہے،
جبکہ
"توحید" باقی نیکیوں کے قبول ہونے کے لیے شرط ہے
انسان کی نیکیاں اور برائیاں دونوں ترازو میں رکھ دی جائیں اور
پھر یہ دیکھا جائے کہ
کونسا پلڑا جھک گیا،
یہ امکان اُسی شخص کے حق میں ہے
جس کی توحید سلامت تھی؛
باقی
کیسی ہی برائیاں اُس کے اعمال نامے میں کیوں نہ پائی گئی ہوں
البتہ
شرک اور کفر ایسی برائیوں سے اُس کا دامن پاک ہو
فتنوں کا ایک ایسا دور
جس میں
صبح کا مومن شام پڑنے تک کافر ہو چکا ہو
یا
شام کو مومن ہو تو صبح چڑھنے تک کافر ہوا ہو ۔۔۔۔۔۔
اس کی پیشگوئی حدیث میں ہوئی ہے:
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ
انَّ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم قال:
[بَادِرُوْا بِالْاَعْمَالِ فِتَناً کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ
یُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِناً وَیُمْسِیْ کَافِراً
اوْیُمْسِیْ مُؤْمِناً وَ یَصْبِحُ کَافِراً یَبِیْعُ دِیْنَہُ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْیَا]
"نیک اعمال کی جلدی کر لو
اس سے پہلے کہ کچھ ایسے فتنے آئیں
جو رات کے سیاہ پردوں کی طرح (چھا جانے والے) ہوں
انسان صبح کو مومن ہوگا تو شام کو کافر ہوا ہوگا
یا
شام کے وقت مومن ہوگا تو صبح تک کافر بنا ہوگا
دنیا کے کسی لالچ کے عوض انسان اپنا دین بیچ دیا کرے گا"
(رواہ مسلم)
فتنوں کے ایسے دور میں جہاں
لا اله الا اللہ کی حدیں توڑی جارہی ہوں،
دائرہ اسلام پامال ہوتا ہو،
جہالت نہ صرف عام ہو
بلکہ
منصوبہ بندی کے ساتھ پھیلائی جارہی ہو،
تاویل اور تحریف کے جھکڑ چل رہے ہوں،
حق غربت (اجنبیت) کا شکار ہو
اور
اسلام کے نام پر جعلسازیاں ہوں۔۔۔
نتیجتاً
لوگوں کے ہاتھوں سے "اسلام" کا دامن ہی چھوٹتا جا رہا ہو،
یہاں تک کہ
حدیث کی مذکورہ بالا پیشگوئی
پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہو۔۔۔
ضروری ہوجاتا ہے کہ
انسان کو نہ صرف
اسلام میں داخلے کے راستے معلوم ہوں بلکہ
اسلام سے خارج کر دینے والی راہوں کی بھی نشاندہی ہو
جہاں اسلام کی سب سے بڑی بنیاد خطرے میں ہو
یعنی
لا اله الا اللہ ،
وہاں
اسلام کے درد مندوں پر لازم ہو جاتا ہے
کہ
سب سے بڑھ کر اِسی کی دہائی مچائیں؛
اِس (لا اله الا اللہ) کو منوانے کے حوالے سے بھی
اور
اس کو توڑنے سے خبردار کرنے کے حوالے سے بھی
مسلمان بھائیو!
اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انسانوں پر دینِ اسلام میں داخل ہونا،
اس پر مضبوطی سے قائم رہنا،
اس کی منافی و مخالف چیزوں سے بچنا اور دور رہنا واجب کر دیا ہے
اسی بات کی دعوت دینے کے لئے
اللہ تعالیٰ نے اپنے
آخری نبی صلی الله عليه وسلم کو مبعوث فرمایا ہے
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر بتلا دیا کہ
جس نے
آپ صلی الله عليه وسلم کی نافرمانی کی اور منہ موڑا تو وہ گمراہ ہوگیا
الله تعالیٰ نے بہت سی آیات میں
اِرتداد کے اسباب اور کفر و شرک کی تمام انواع و اقسام سے ڈرایا اور
آگاہ فرمایا ہے
علمائے کرام نے
کتبِ فقہ میں مرتد کے احکام کے ضمن میں ذکر کیا ہے کہ
اسلام کے نواقض منافی بہت سے ایسے امور ہیں
جن کا ارتکاب کر کے ایک مسلمان دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد ہو جاتا ہے اور اس کے جان و مال کی حرمت ختم ہو جاتی ہے
ان نواقض اسلام میں
سب سے زیادہ خطرناک اور کثرت سے واقع ہونے والے اعمال کو
اختصار اور کچھ ضروری وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے
تاکہ تمام مسلمان ان نواقض سے خود بھی بچیں اور
دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین کرتے رہیں
ہم ان کے ارتکاب سے
الله کی پناہ چاہتے ہیں اور اس سے عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔