مبتدعین حضرات جس آیت یا حدیث سے کسی اپنے باطل عقیدے یا عمل کا اثبات نکالنے کی کوشش کریں گے ۔ اسی میں ہی ان پر رد ثابت ہوئی ہوتی ہے ۔
مثلاً شیخ امین اللہ پشاوری صاحب ایک بدعتی مولوی کا واقعہ نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ " طالوت نے جب اپنی لشکرسے کہا کہ اس نہر سے پانی نہیں پینا ۔
تو ماسوائے چند کے بہت سارے لوگوں نے پانی نہیں پیا ،
جس سے تقلید ثابت ہوئی ۔ یعنی لوگوں نے طالوت کی بات بے سوچے سمجھے مان لی "۔
حالانکہ طالوت کا واقعہ پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ان کو یہ پانی نہ پینے کا حکم دیا تھا ۔ اس میں تقلید ہی کی نفی ہے کیونکہ اس نے کہا کہ یہ اللہ کا حکم ہے کہ پانی نہیں پینا ۔ماسوائے ایک دو گھونٹ کے ۔
البقرۃ:۲۴۹۔ترجَمہ:(طالوت)بولا بے شک اللہ تمہیں ایک نَہَر سے آزمانے والا ہے،تو جو اس کاپانی پئے وہ میرا نہیں اورجو نہ پئے وہ میرا ہے مگروہ جو ایک چُلّو اپنے ہاتھ سے لے لے۔
الغرض جو کوئی بھی اس حدیث سے ووٹ ڈالنا ثابت کرنے کی کوشش کرے گا اسی حدیث میں ہی اس کا مخالف جواب ہے۔
یعنی یہ قیامت کے نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے کہ لوگ ووٹ ڈال نااہل لوگوں کو منتخب کریں گے ۔
اور یہ ووٹ ڈالنا مستحسن نہیں ہے بلکہ غضب والی چیز ہے ۔ کیونکہ قیامت کے قریب لوگ برائیوں میں پھنسے ہوں گے نہ کہ اچھائیوں میں ۔
دوسری بات۔
﴿أَفَمَن كانَ مُؤمِنًا كَمَن كانَ فاسِقًا ۚ لا يَستَوۥنَ ﴿١٨﴾السجدة
بھلا جو مومن ہے وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے۔ جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔
﴿هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...٩﴾الزمر
ترجمہ: کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں۔
کیا شیخ توصیف الرحمٰن صاحب اور ریمان ملک ، ایک جیسے ہوسکتے ہیں ؟ وعلی ھذالقیاس ۔
تیسری بات :
وَما يُؤمِنُ أَكثَرُهُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِكونَ ﴿١٠٦﴾يوسف
اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔
جمہوری قاعدے میں یہی ہوتا ہے کہ جس کے ووٹ زیادہ وہ ہی حاکم ہوگا ۔ چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔
حضور اکرم ﷺ نے مجلسِ ''مشاورت متعلقہ اساریٰ .......'' کے بھرے مجمع میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔
لَوِ اجتمعًا ما عصیتکما (در منثور)
اگر یہ دونوں ہم رائے ہو جاتے تو میں ان کا خلاف نہ کرتا۔
گویا آپ کے نزدیک ان دو بزرگوں کی رائے باقی سارے مجمع پر بھاری تھی اور جیش اسامہ کی روانگی اور مانعین زکوٰۃ کے بارے میں حضرت ابو بکرؓ کی رائے ساری شوریٰ پر بھاری تھی۔
فَإِن تَنازَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ...٥٩﴾النساء
ور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو۔
لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ایک خاص تعداد تک پہنچنے پر ہر قسم قانون لایااور لاگوکیا جاسکتا ہے ۔ چاہے وہ لارڈ منہ کالے جیسا قانون ہی کیوں نہ ہو ۔