Bint e Rafique
رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2017
- پیغامات
- 130
- ری ایکشن اسکور
- 27
- پوائنٹ
- 40
عورت کی آواز بھی عورت ہے اس کا بھی پردہ کریں
ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خواتین کے لیے اپنے جسم کو نامحرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے ، اسی طرح اپنی آواز کو بھی نامحرم مردوں تک پہنچنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ جہاں ضرورت ہو وہاں نامحرم مرد سے پردہ کے پیچھے سے بات کرسکتی ہے، اسی طرح ٹیلی فون پر بھی ضرورت کے وقت بات کر سکتی ہے ، البتہ ادب یہ ہے کہ نامحرم سے بات کرتے وقت عورت اپنی آواز کی قدرتی لچک اور نرمی کو ختم کرکے ذرا خشک لہجے میں بات کرے، تاکہ قدرتی لچک اور نرمی ظاہر نہ ہونے پائے اور نامحرم مرد کو عورت کے نرم انداز گفتگو سے بھی کسی گناہ کی لذت لینے کا موقع نہ مل سکے۔ اس سے شریعت کی احتیاط کا اندازہ لگائیے
آج کل ہمارے معاشرے میں جن گھروں میں کچھ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے ، وہاں بھی عورت کی آواز کے سلسلے میں عموماً کوئی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ان سے گفتگو میں ایسا انداز ہوتا ہے جیسے اپنے محرم کے ساتھ گفتگو کا انداز ہوتا ہے، مثلاً جس بے تکلفی سے انسان اپنی ماں کے ساتھ، اپنی بیٹی کے ساتھ، اپنی بیوی کے ساتھ اوراپنی سگی بہن کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور ہنستا بولتا ہے اوراس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات یہ انداز نامحرم عورتوں کے ساتھ گفتگو کے وقت بھی ہوتا ہے ۔ اور نامحرم عورتیں نامحرم مردوں کے ساتھ یہی انداز اختیار کر لیتی ہیں اور گفتگو کے دوران ہنسی مذاق، دل لگی اور چھیڑ چھاڑ سبھی کچھ ہوتا ہے ، آج یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں ۔ یاد رکھیے! جس طرح عورت کے جسم کا پردہ ہے، اسی طرح اس کی آواز کا بھی پردہ ہے، جس طرح عورت کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو نامحرم مرد کے سامنے آنے سے بچائے ، اسی طرح اس کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی آواز کو بھی بلاضرورت نامحرم مردوں تک جانے سے روکے ، البتہ جہاں ضرورت ہے وہاں بقدر ضرورت (ضرورت کی حد تک) گفتگو کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح نامحرم مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا ضرورت نامحرم عورت کی آواز کی طرف کان نہ لگائیں ۔ ( یعنی نہ سنیں)
اور نامحرم عورت کی آواز یا نامحرم مرد کی آواز کو خواہش نفس (شہوت ) کی تسکین کی خاطر سننا یقینا ناجائز اور گناہ ہے ۔ حج جو کہ فرض ہے اورحج میں زور سے تلبیہ ( یعنی لبیک اللھم لبیک) پڑھا جاتا ہے، لیکن عورتوں کے لیے حکم یہ ہے کہ عورتیں تلبیہ زور سے نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ آواز میں پڑھیں۔
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کی دینی تقریات، اجتماعات وغیرہ میں اسپیکر لگے ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے عورتوں کی تقاریر ، نعتوں وغیرہ کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ، کیوں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بند مکان میں عورتوں کا اجتماع ہو اور اگر عورتوں کے رش یا کثرت کی وجہ سے ان سب تک بات پہنچانے کے لیے اسپیکر بھی لگانے پڑیں تو عورتوں کی آواز باہر نہ جائے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح خواتین کے لیے اپنے جسم کو نامحرم مردوں سے چھپانا ضروری ہے ، اسی طرح اپنی آواز کو بھی نامحرم مردوں تک پہنچنے سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، البتہ جہاں ضرورت ہو وہاں نامحرم مرد سے پردہ کے پیچھے سے بات کرسکتی ہے، اسی طرح ٹیلی فون پر بھی ضرورت کے وقت بات کر سکتی ہے ، البتہ ادب یہ ہے کہ نامحرم سے بات کرتے وقت عورت اپنی آواز کی قدرتی لچک اور نرمی کو ختم کرکے ذرا خشک لہجے میں بات کرے، تاکہ قدرتی لچک اور نرمی ظاہر نہ ہونے پائے اور نامحرم مرد کو عورت کے نرم انداز گفتگو سے بھی کسی گناہ کی لذت لینے کا موقع نہ مل سکے۔ اس سے شریعت کی احتیاط کا اندازہ لگائیے
آج کل ہمارے معاشرے میں جن گھروں میں کچھ پردہ کا اہتمام ہوتا ہے ، وہاں بھی عورت کی آواز کے سلسلے میں عموماً کوئی احتیاط نہیں کی جاتی، بلکہ نامحرم مردوں سے بلاضرورت بات چیت ہوتی رہتی ہے اور ان سے گفتگو میں ایسا انداز ہوتا ہے جیسے اپنے محرم کے ساتھ گفتگو کا انداز ہوتا ہے، مثلاً جس بے تکلفی سے انسان اپنی ماں کے ساتھ، اپنی بیٹی کے ساتھ، اپنی بیوی کے ساتھ اوراپنی سگی بہن کے ساتھ بات چیت کرتا ہے اور ہنستا بولتا ہے اوراس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات یہ انداز نامحرم عورتوں کے ساتھ گفتگو کے وقت بھی ہوتا ہے ۔ اور نامحرم عورتیں نامحرم مردوں کے ساتھ یہی انداز اختیار کر لیتی ہیں اور گفتگو کے دوران ہنسی مذاق، دل لگی اور چھیڑ چھاڑ سبھی کچھ ہوتا ہے ، آج یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہیں ۔ یاد رکھیے! جس طرح عورت کے جسم کا پردہ ہے، اسی طرح اس کی آواز کا بھی پردہ ہے، جس طرح عورت کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو نامحرم مرد کے سامنے آنے سے بچائے ، اسی طرح اس کے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی آواز کو بھی بلاضرورت نامحرم مردوں تک جانے سے روکے ، البتہ جہاں ضرورت ہے وہاں بقدر ضرورت (ضرورت کی حد تک) گفتگو کرنا جائز ہے۔ اور اسی طرح نامحرم مردوں کو بھی چاہیے کہ وہ بلا ضرورت نامحرم عورت کی آواز کی طرف کان نہ لگائیں ۔ ( یعنی نہ سنیں)
اور نامحرم عورت کی آواز یا نامحرم مرد کی آواز کو خواہش نفس (شہوت ) کی تسکین کی خاطر سننا یقینا ناجائز اور گناہ ہے ۔ حج جو کہ فرض ہے اورحج میں زور سے تلبیہ ( یعنی لبیک اللھم لبیک) پڑھا جاتا ہے، لیکن عورتوں کے لیے حکم یہ ہے کہ عورتیں تلبیہ زور سے نہیں، بلکہ آہستہ آہستہ آواز میں پڑھیں۔
بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کی دینی تقریات، اجتماعات وغیرہ میں اسپیکر لگے ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے عورتوں کی تقاریر ، نعتوں وغیرہ کی آواز دور دور تک سنائی دیتی ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ، کیوں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بند مکان میں عورتوں کا اجتماع ہو اور اگر عورتوں کے رش یا کثرت کی وجہ سے ان سب تک بات پہنچانے کے لیے اسپیکر بھی لگانے پڑیں تو عورتوں کی آواز باہر نہ جائے۔