• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جشن نزول قرآن سے میلاد پر استدلال اور اس کا جواب:
باب چہارم میں لکھا ہے
’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن حکیم سے استدلال‘
اس کے ضمن میں ایک جگہ لکھا ہے ’جشن نزول قرآن سے استدلال‘
حالانکہ ’جشن نزول قرآن ‘ تو آج تک کسی نے منایا ہی نہیں؟ تو پھر اس سے استدلال کیسا؟
دوسری جگہ لکھا ہے ’جشن نزول خوان نعمت سے استدلال‘ اور اس کے تحت سورہ مائدہ کی آیت 114ذکر کی ہے۔
حالانکہ یہ تو عیسیٰ علیہ السلام اور انکی امت کا مسئلہ تھا اور وہ ’شرع من قبلنا‘ یعنی ہم سے قبل کی شریعت تھی جو کہ منسوخ ہو چکی ہے اور ہماری شریعت نے اسے باقی رکھنے کا کوئی حکم نہیں دیا۔
اور یہ بھی اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ ’تکون لنا عيداً‘ سے مراد ’مائدہ‘ خوان نعمت تھا نہ کہ یوم نزول خوان نعمت۔ فافهم۔
قادری صاحب نے یہاں (اس کے اترنے کادن) بریکٹ میں لکھ کر زبردست خیانت سے کام لیاہے۔ اس عنوان کے اختتام پرقادری صاحب لکھتے ہیں: جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا نص قرآن سے ثابت ہے۔ (صفحہ 245)
جبکہ قادری صاحب کے ممدوح امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس مسئلے میں کوئی نص موجود نہیں بلکہ قیاس سے کام چلایا جاتا ہے۔ (حسن المقصد فی عمل المولد)
باقی رہا قادری صاحب کے ’استدلالات و استنباطات ‘ تو ہم بتا چکے ہیں کہ وہ اس کے اہل نہیں کیونکہ ’مقلد‘ ہیں ۔ ہاں البتہ وہ یہ بات اپنے امام صاحب سے ثابت کریں تو پھر دیکھا جائے گا۔
صاحب جاء الحق نے یہ بھی لکھا ہے کہ’ظاہری کتاب و سنت کو لینا‘ کفر کی بنیاد ہے۔ قادری صاحب غور فرمائیں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صوم عاشوراء سے استدلال اور اس کا جواب:
باب پنجم میں لکھا ہے: ’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احادیث سے استدلال‘
اس مضمون میں قادری صاحب ’صوم عاشوراء‘ سے دلیل لانے کی کوشش کرتے ہیں اور خود ہی فرماتے ہیں کہ:
’بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہود اپنا یوم آزادی یعنی عاشورہ کے دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلاد النبی ﷺ کا دن یوم عید کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟
پھر انتہائی ڈھٹائی سے لکھتے ہیں کہ : اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یوم مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرہ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جاسکتا ہے۔ اگر یہود یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کر لیا جائے۔ احادیث مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ نہیں ۔ (صفحہ 255)
کس قدر افسوس ہوتا ہے ان نام نہاد ’عاشقان رسول‘ پر کہ جنہیں سنت مصطفی کریم ﷺ ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
خود نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کے روزہ کو باقی رکھا مگر قادری صاحب خود مختار ہیں کہ جو سنت رسول کو بد ل کر کسی اور صورت کو ایجاد کرنے پر قادر ہیں؟
قادری صاحب نے اس ’تاویل‘ کا سہارا اس لئے لیا کہ کہیں میلاد مصطفی ﷺ کے دن روزہ نہ رکھنا پڑجائے کہ نبی مکرم ﷺ تو اپنی ولادت کے دن روزہ ہی رکھا کرتے تھے۔
اور کمال یہ ہے کہ ’دروغ گورا حافظ نہ باشد‘ کے بمصداق خود ہی میلاد النبی ﷺ کی دلیل رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کو بنایا کہ آپ ﷺ اپنی ولادت کے دن روزہ رکھا کرتے تھے اور یہی میلاد کی دلیل ہے ۔ (صفحہ 281)
غور کریں ’جناب شیخ کا قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حدیث عقیقہ جناب کو مفید نہیں:
اس باب میں جناب نے ’اپنے زعم میں‘ ایک اوردلیل ذکر کی ہے کہ : نبی علیہ السلام نے بعد از بعثت (اعلان نبوت) اپنا عقیقہ کیا۔
ہم اس سلسلے میں اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ اس روایت کی اسنادی حیثیت کیا ہے۔ کہتے ہیں جناب کیا آپ ﷺ نے ’ولادت کے دن اور تاریخ‘ کا اعتبار کرکے عقیقہ کیا تھا؟
یقیناًنہیں !
بلکہ آپ نے تو خود لکھا ہے کہ یہ ’اعلان ‘ نبوت کے بعد تھاتو پھر اسے ’جشن ولادت ‘ کی دلیل کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟
اور یہ بھی یاد رہے کہ اس ’عقیقہ‘ کو دلیل تو وہ بنائے جو عقیقہ کو سنت مصطفی ﷺ سمجھتا ہو۔
جناب قادری صاحب تو حنفی بنے پھرتے ہیں اور فقہ حنفی میں ’عقیقہ ‘ کو دور جاہلیت کی رسم کہا جاتا ہے ۔(موطا امام محمد)
اور غلام رسول سعیدی صاحب نے تو اسے مکروہ ثابت کیا ہے۔ معاذالله ! استغفرالله۔
ان حضرات کی سنت رسول ﷺ سے عداوت دیکھ لیجئے ۔
مانتے تو ہیں نہیں اور دلیل بنانے چلے مروجہ جشن و جلوس کی؟
ھل من مدکر ؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ابو لہب کے بارے میں خواب کا سہارا قابل استدلال نہیں:
اور پھر آخر میں جناب نے ابو لہب کے لونڈی آزاد کرنے کی روایت کو بطور دلیل و استدلال پیش کیا ہے۔
یاد رکھئے یہ روایت مرسل ہے جیساکہ موصوف کو بھی اقرار ہے۔ (صفحہ 293) اور مرسل ضعیف ہوتی ہے۔ اور یہ روایت قرآن سے متصادم ہے۔ (فتح الباری)
یہ خواب کا واقعہ ہے جو حجت شرعیہ نہیں مسلمہ بات ہے (میلاد النبی احمد سعید کاظمی)
اس روایت میں عذاب کی کمی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس روایت میں ہر سوموار کا بھی ذکر نہیں ہے۔
بالفرض اسے مان بھی لیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ ابو لہب کی خوشی طبعی تھی دینی و مذہبی نہیں، وہ فقط ذات مصطفی ﷺ کو مانتا تھا اور بات مصطفی ﷺ کو اس نے نہ مانا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آج اس کی سنت کیوں زندہ کی جارہی ہے؟
اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن تو اس نے لونڈی کو آزادہی نہیں کیا(فتح الباری ، الاصابہ، الوفا ابن جوزی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کے دلائل ائمہ و محدثین ہیں:
باب ششم کا عنوان قائم کرتے ہیں ’’جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ائمہ و محدثین کی نظر میں‘‘ پھر اس کے تحت رقم طراز ہوتے ہیں ’’باب ھذا میں ان ائمہ کرام کے حوالہ جات دیں گے جنہوں نے انعقاد جشن میلاد کے احوال بیان کئے ہیں۔ (صفحہ 311)
قادری صاحب ’’ائمہ و محدثین‘‘ کی ترتیب یوں شروع کرتے ہیں۔
(۱) حجۃ الدین امام محمد بن ظفر المکی (565-497)
اور پھر اسی طرح یعنی ’’سن‘‘ کے اعتبار سے تقریباً 54 نام ذکر کرتے ہیں۔ جن میں آخری نام اس طرح ہے
’’علمائے دیوبند کا متفقہ فیصلہ (1325ھ)‘‘
ہم اس سلسلے کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ قارئین کرام نوٹ کرلیں کہ قادری صاحب ’’دین اسلام کے ثابت شدہ امر‘‘ کو ’’ائمہ و محدثین‘‘ کی تائید دلانا چاہتے ہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ جناب نے جنہیں بلا تخصیص و تفریق ’’ائمہ و محدثین‘‘ قرار دیا ہے انکی تاریخ 565-497ھ سے شروع ہوتی ہے۔ جیسا کہ مذکور بالا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آخر کیوں؟
آئمہ اربعہ، ان کے اساتذہ و شیوخ اور ائمہ صحاح ستہ وغیرہ جو اس تاریخ سے کہیں پہلے موجود رہ کر گزر چکے وہ کہاں گئے؟
قادری صاحب شاید انہیں ائمہ و محدثین ہی شمار نہیں کرتے، یا پھر وہ ’’مروجہ جشن و میلاد‘‘ کے حامی و ناصر ہی نہ تھے؟ یا پھر یہ ’’سرکاری کلچر‘‘ ان کے دور میں شروع ہی نہ ہوا تھا اور غالباً یہی سب سے مضبوط بات ہے اور یہی دلیل ہے کہ یہ ’’عمل‘‘ قرآن و حدیث میں ’’مروجہ انداز و کیفیت کے ساتھ ‘‘ موجود ہی نہیں وگرنہ تو ’’ائمہ و محدثین‘‘ کا دور تو قرآن و حدیث کی حکمرانی، ترویج اور بالا دستی کا دور تھا یہ مسئلہ اس وقت کے خیار علماء کرام سے مخفی کیسے رہ سکتا تھا۔
اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا تھا ’’جو عمل اس (خیر القرن) وقت میں دین کا حصہ نہ تھا وہ آج بھی دین کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (الاعتصام)
قارئین کرام یاد رکھئے گا کہ ہم نے قادری صاحب کی ہیڈنگ ’’ائمہ و محدثین‘‘ پر نظر عنایت نہیں کی وگرنہ تو نہ جانے کتنے ’’ائمہ و محدثین‘‘ فقط قادری صاحب کے ہاں ہی ’’ائمہ و محدثین قرار پاتے۔ جمیع اہل سنت کے ہاں نہیں۔
اور یاد رہے کہ اس زیر بحث عنوان میں ’’دلائل قرآن و حدیث‘‘ سے کوئی تعرض نہیں ہے کیونکہ قادری صاحب نے اسے ’’ائمہ و محدثین‘‘کی ’’نظر میں‘‘ مقید کردیا ہے۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ قادری صاحب کے پیش کردہ ’’ائمہ و محدثین‘‘ میں سے کسی نے شاید ہی کبھی کوئی دلیل قرآن و سنت سے ذکر کی ہو!۔ حاشاوکلا۔
کسی کی رائے اور نظر سے نہ تو کوئی عمل سنت قرار پاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر کسی ثواب کی نوید سنائی جاسکتی ہے اگرچہ کہنے والے کہہ دیتے ہیں کہ اس ’’عمل‘‘ پر اتنا اور اتنا ثواب ملے گا اور یہ اس کی فضیلت و فوائد ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
آیئے کچھ تفصیل میں چلیں۔
4 ۔ پر قادری صاحب نے ابو الخطاب ابن دحیہ کلبی (633-544ھ) کو ذکر کیا ہے اور بڑی انکی مدح کی ہے جبکہ حقیقتاً وہ ایک ’’وضاع، کذاب اور سلف کا گستاخ شخص تھا۔(دیکھئے، تدریب الراوی، لسان المیزان، میزان الاعتدال، راہ سنت وغیرہ)
اب یہ کیا راز ہے کہ جناب قادری صاحب ایسے بدنصیب کو ’’دلیل ‘‘بناکر اسکی مدح کریں؟
جنس با جنس کند پرواز ......... کبوتر با کبوتر باز با باز
5۔ جناب نے حافظ شمس الدین الجزری (م 660ھ) کو ذکر کرکے صفحہ 318 پر ان سے نقل کیا ہے کہ: جس سال میلاد منایا جائے اس سال امن قائم رہتا ہے۔
ہم اس پر کیا کہیں کہ ’’امن عامہ‘‘ اور ’’امن پاکستان‘‘ ہمارے سامنے ہیں۔
حتیٰ کہ ’’جلوس میلاد و جشن‘‘ بھی دھماکوں اور حملوں سے غیر محفوظ وغیر مامون۔۔۔ کیا یہ ’’میلاد مروجہ‘‘ منانے کی برکتیں ہیں اور امن و چین کے حصول کا ذریعہ ہے؟
16۔ قادری صاحب نے ترتیب کے اس نمبر پر ’’حافظ زین الدین بن رجب الحنبلی(795-736ھ) کو رکھا ہے اور پھر ان کی تصنیف ’’لطائف المعارف‘‘ سے ذکر و ولادت کی روایات سے ’’جشن میلاد‘‘ کشید کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ انہیں اپنا ہمنوا ثابت کیا جاسکے۔
حالانکہ بات واضح ہے کہاں ذکر ولادت اور کہاں جشن ولادت؟
اور پھر خود حافظ ابن رجب نے ’’لطائف المعارف‘‘ میں لکھ رکھا ہے۔
’’مسلمانوں کیلئے جائز ہی نہیں کہ وہ بنا شریعت کے بیان کرے کسی دن کو عید قرار دیں اور شریعت کی بیان کردہ عیدیں سالانہ یہ ہیں۔ یوم الفطر، یوم الاضحی، ایام التشریق جبکہ ہفتہ واری عید یوم الجمعہ ہے اور اس کے علاوہ کسی اور دن کو عید قرار دینا بدعت ہے بے اصل ہے۔‘‘
نبی علیہ السلام نے فرمایا:
لاتتخذوا شهراً عيداً ولا يوماً عيداً۔
(مصنف عبدالرزاق 7853)
یعنی کسی مہینے کو (از خود عید قرار نہ دو اور نہ ہی کسی دن کو یوم عید قرار دو۔ (دیکھئے لطائف المعارف 228)
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کی عبارت بالکل واضح ہے جبکہ قادری صاحب کا انہیں اپنا ہمنوا قرار دینا۔
دجل ہے، فریب ہے، دھوکہ ہے۔ ھل من مدکر؟
21 ۔ ترتیب کے اس نمبر پر ’’امام سیوطی (911-849ھ)‘‘ کا ذکر کرتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ وہ بھی اس ’’مروجہ میلاد‘‘ کی مدح کرتے ہیں بلکہ اسے دلائل بھی فراہم کرتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ جناب بلاشبہ ’’امام سیوطیؒ ‘‘ اس عمل کے جواز کی طرف گئے ہیں مگر جہاں تک دلائل کا تعلق ہے تو خود امام سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وهذا ان لم يردفيه نص، ففيه القياس۔(حسن المقصد فی عمل المولد ص 51)
یعنی اس ’’عمل‘‘ پر کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی بلکہ اس میں قیاس کیا جاتا ہے۔ مگر قادری صاحب امام سیوطیؒ کی بات کو کیوں نقل کریں گے؟
30 ۔ اس نمبر پر جناب نے ’’ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ)‘‘ کا ذکر کیا ہے اور انکی کتاب ’’المولد الروی‘‘ سے عبارتیں نقل کرکے انہیں اپنا ہمنوا ثابت کیا ہے۔
بے شک علامہ ملا علی قاری حنفی نے یہ کتاب لکھی ہے اور جو کچھ لکھا ہے وہ بھی قادری صاحب نے اپنے الفاظ میں لکھ دیا ہے۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب ’’علامہ الجزری‘‘ نے استدلال کیا کہ ’’جب اہل صلیب نے اپنے نبی کی پیدائش کی رات کو عید بنا رکھا ہے تو اہل اسلام اپنے نبی کریمﷺکی تعظیم و تکریم کے زیادہ حقدار ہیں‘‘
تو ’’ملا علی قاری‘‘ نے اعتراض کیا کہ: لیکن اس پر سوال ہوگا کہ ہمیں تو اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے۔ شیخ نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا۔ (الموردالروی مترجم ص 293)
گویا علامہ علی قاری کے ہاں یہ ’’مروجہ میلاد‘‘ کا عمل عیسائیت کے مشابہ قرار پاتا ہے۔
ملا علی قاری کا مذکورہ اعتراض مولانا کوکب نورانی نے بھی اپنی کتاب ’’اسلام کی پہلی عید‘‘ میں ص 46 پر ذکر کیا ہے۔
مگر قادری صاحب جیسے ’’فهيم‘‘ ’’ڈاکٹر‘‘ یہ عبارتیں کیوں نقل کرنے لگے!!!
31 ۔ پر ،شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی (1034-971ھ) کا ذکر کیا ہے اور پھر سیاق و سباق کے بغیر ایک رخ سے شیخ کی بات نقل کردی ہے اور وہ بھی اس طرح کہ گویا شیخ بھی ڈاکٹر صاحب کے ہمنوا ہیں۔
ہم اس سلسلے میں قارئین کو بتاتے ہیں کہ
اولاً: تو جناب قادری صاحب نے شیخ سرہندی کا مکتوب 72 ’’کاٹ چھانٹ‘‘ کے بعد ذکر کیا ہے۔ دارالاشاعت کراچی کی طباعت میں آپ اسے حصہ سوم کے مذکورہ نمبر پر دیکھ سکتے ہیں۔
ثانیاً: جب تک کہ کسی شخص کی مزید تحریریں نہ دیکھ لی جائیں اس وقت تک ان کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا صحیح نہیں ہوسکتا بلکہ تو اسے ایک علمی خیانت کا نام ہی دیا جائے گا۔ شیخ احمد سرہندیؒ مکتوب 273 جلد اول میں فرماتے ہیں۔
’’آپ کو لکھا جاچکا ہے کہ سماع کے منع کا مبالغہ مولود کے منع ہونے کو بھی شامل ہے جو نعتیہ قصیدوں اور غیر نعتیہ شعروں کے پڑھنے سے مراد ہے۔
لیکن برادر عزیز میر محمد خان اور بعض اس جگہ کے یا جنہوں نے واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس مجلس مولود خوانی سے بہت خوش ہیں ان پر مولود نہ سننا اور ترک کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میرے مخدوم!
اگر واقعات کا کچھ اعتبار ہوتا اور منامات اور خوابوں کو کچھ بھروسہ ہوتا تو مریدوں کو پیروں کی حاجت نہ رہتی۔(صفحہ 1/678)
مزید فرماتے ہیں:
اس منع کرنے میں فقیر کا مبالغہ اپنی طریقت کے مخالفت کے باعث ہے۔طریقت کی مخالفت خواہ سماع و رقص سے ہو خواہ مولود اور شعر خوانی سے۔
حضرت خواجہ نقشبندی نے فرمایا ہے کہ : ’’میں نہ یہ کام کرتا ہوں اور نہ ہی انکار کرتا ہوں۔‘‘
آپ نظر انصاف سے کام لیں اگر بالفرض حضرت ایشاں اس وقت دنیا میں زندہ ہوتے اور یہ مجلس و اجتماع ان کی موجودگی میں منعقد ہوتا ہوکیا آیا حضرت اس وقت دنیا میں زندہ ہوتے اور اس اجتماع کو پسند کرتے یا نہ، فقیر کا یقین ہے کہ حضرت ہرگز اس امر کو پسندنہ کرتے بلکہ انکار کرتے۔۔۔ (صفحہ 1/681 طبع دار الاشاعت)
اب ازراہ انصاف بتائیں شیخ احمد سرہندی کا اس سلسلے میں کیا موقف ہے؟ یقیناًقادری صاحب کے خلاف۔
مگر موصوف کو ہر عالم ’’مروجہ میلاد‘‘ کا حامی نظر آتا ہے نہ جانے کونسی ’’عینک‘‘ جناب لگاتے ہیں جو ’’مولود‘‘ تو دکھاتی ہے ’’ممنوع‘‘ نہیں دکھاتی؟؟
38 ۔ اس نمبر پر قادری صاحب نے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (1239-1159ھ) کو ذکر کرکے انکی عبارت سے خودساختہ ’’جواز میلاد مروجہ‘‘ کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔
حالانکہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تو فرماتے ہیں: سال میں دو مجلسیں فقیر کے مکان میں منعقد ہوا کرتی ہیں۔ مجلس ذکر وفات شریف اور مجلس شہادت حسین۔۔۔(دیکھئے فتاویٰ عزیزی صفحہ 199 مترجم، ایچ ایم سعید کمپنی۔ کراچی)
اور یہی
شاہ عبدالعزیز دہلویؒ تحفہ ’’اثنا عشریہ صفحہ 666 طبع دار الاشاعت‘‘ میں لکھتے ہیں: اسی طرح کسی نبی کے یوم تولد یا یوم وفات کے دن کو عید قرار نہیں دیا گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قارئین کرام!
غور کیجئے کہ ’’قادری صاحب‘‘ کس درجہ ’’خائن‘‘ ثابت ہوتے جارہے ہیں
نبی علیہ السلام نے فرمایا تھا ’’مومن خائن نہیں ہوسکتا‘‘ اور نبی علیہ السلام نے فرمایا تھا ’’خیانت منافق کی نشانی ہے۔‘‘
50 ۔ ترتیب کے اس نمبر پر مولانا اشرف علی تھانوی (1362-1280ھ) کو ذکر کیا ہے اور ان سے اثبات ’’میلاد مروجہ‘‘ کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں۔
’’بہر حال میلاد شریف منانا ان کے نزدیک جائز اور مستحب امر تھا۔(صفحہ 395)
قادری صاحب کا بس نہیں چلتا وگرنہ تو وہ شاید ہر ہر تصنیف و ہر ہر مصنف سے ’’مروجہ میلاد و جشن‘‘ بذریعہ استنباط ثابت کردیتے یہ تو انکی نوازش ہے کہ انہوں نے اصحاب خیر القرون کو استثناء دے دیا !
اشرف علی تھانوی صاحب نے تو بڑی علمی گرفت کی ہے ’’میلادیوں‘‘ کی۔ وہ کہتے ہیں یہ استنباطات کرنے والے ’’مقلد‘‘ درحقیقت غیر مقلد ہیں کیونکہ ’’مروجہ میلاد‘‘ نہ ہدایہ میں ہے اور نہ درمختار میں۔(خطبات میلاد النبیؐ صفحہ 130)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: قرآن و حدیث سے ممانعت اس عید مخترع کی ثابت ہوئی۔ پھر لکھتے ہیں: یہ عید میلاد بدعت اور امر مخترع واجب الترک ہے۔ (صفحہ 86) (نیز صفحہ 93)
مزید فرماتے ہیں: پس حدیث سے اتنا ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا تو تم بھی اتنا ہی کرلو باقی عیدمیلاد النبیؐ وغیرہ یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ (خطبات میلاد النبیؐ صفحہ 132)
کیا اب بھی قادری صاحب عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے کہیں گے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top