• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد النبی ﷺ کا تحقیقی جائزہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میلاد شریف منانا ان کے نزدیک جائز اور مستحب امر تھا؟
قارئین کرام دوسرا عنوان شروع ہونے سے قبل سمجھ لیجئے کہ ہم نے گزشتہ گفتگو میں طاہر قادری صاحب کے بیان کردہ جن ’’ائمہ و محدثین‘‘ کے اسماء کو بمع تبصرہ ترک کیا ہے اس کی وجہ تحریر کو مختصر انداز میں پیش کرنا ہے۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ’’ائمہ و محدثین‘‘ نے بھی ’’مروجہ میلاد‘‘ کی حمایت کبھی نہیں کی بلکہ انہوں نے نفس ذکر ولادت اور بیان سیرت طیبہ کا اثبات کیا ہے اور یہی تو لفظ میلاد کی حقیقت ہے جس کا اقرار قادری صاحب کو بھی ہے۔ انکی کتاب کا ابتدائیہ دیکھ لیجئے۔
نیز یہ کہ جناب کے بیان کردہ علماء میں سے اکثریت نے اس ’’مروجہ میلاد‘‘ کو بدعت کہا ہے، جو خود قادری کی تحریر میں عیاں ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قادری صاحب نے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ اور مولانا عبدالحیی لکھنویؒ جیسے علماء کو بھی اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے حالانکہ ان کا اس ’’مروجہ عمل‘‘ کی تردید کرنا یا کراہیت بیان کرنا اظہر من الشمس ہے۔
اور یہ بھی خوب لکھا ہے کہ ’’محمد بن عبدالوہاب بانی غیر مقلدین ہیں!!!‘‘
گویا قادری صاحب کہنا چاہتے ہیں کہ ان سے قبل غیر مقلدین نہ تھے۔
تو معلوم ہونا چاہئے کہ صحابہ تمام کے تمام، تابعین عظام سب کے سب اور ائمہ حدیث اور ائمہ اربعہ وغیرہ سب ہی تقلید سے تہی دست تھے اور یہ کوئی عیب نہیں بلکہ ’’فخر‘‘ ہے۔ وگرنہ تو ائمہ پر موجودہ ’’مقلدین‘‘ کیا فتویٰ صادر کریں گے اور پھر اثبات ’’میلاد مروجہ‘‘ میں تو سارے بریلوی مقلد ہی غیر مقلد بنے پھر رہے ہیں، کبھی استبناط کرتے ہیں کبھی قیاس؟
یاد رہے کہ مقلد کی ضد محقق یا متبع سنت آتی ہے۔ غیر مقلد نہیں۔
قادری صاحب زیر نظر مسئلہ میں امام ابو حنیفہؒ سے ایک بھی قول نقل نہیں کرسکے اور دوسرے کی تقلید پر چل پڑے ہیں جبکہ ان کے ہم مشرب بھائی ’’صاحب جاء الحق‘‘ کے ہاں ائمہ اربعہ کی تقلید سے خروج انسان کو ’’ضال مضل‘‘ بنادیتا ہے اور کبھی کبھی ’’کفر‘‘ میں پہنچا دیتا ہے۔ قادری صاحب سوچ لیں؟؟؟ (دیکھئے جاء الحق صفحہ 26)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب کے تاریخی میلاد کی حقیقت:
پھر قادری صاحب عنوان قائم کرتے ہیں:
’’بلاد اسلامیہ میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ‘‘
اس عنوان کے تحت ایک جگہ لکھتے ہیں: ہر اسلامی ملک اپنی ثقافت اور رسم و رواج کے مطابق محبت آمیز جذبات کے ساتھ یہ مہینہ مناتا ہے۔(صفحہ 402)
غور کیجئے
کہاں قرآن و حدیث سے ’’ثابت شدہ امر‘‘ اور کہاں ’’رسم و رواج‘‘ شاید قادری صاحب کا مبلغ علم یہی ہے؟ کیا واقعی ’’جشن میلاد‘‘ کی حیثیت ایک علاقائی اور ملکی رسم و رواج کی ہے؟
تو پھر یہ قرآن و حدیث کا ’’ثابت شدہ امر‘‘ کیسے ہوگا کہ ہوسکتا ہے بعض جگہ یہ رسم و رواج بالکلیہ ہی مفقود ہو تو کیا یہ کہا جائے گا کہ اس جگہ کے لوگوں نے قرآن و سنت کے ثابت شدہ امر کو چھوڑ دیا ہے؟ اور وہ پھر بھی مسلمان ہی ہوں گے؟
’’من کان هذا القدر مبلغ علمه ........ فليستتر بالصمت والکتمان‘‘
شاید آنے والے وقتوں میں قادری صاحب ’’جشن میلاد مروجہ‘‘ نہ منانے والوں پر کوئی فتویٰ صادر کریں مگر امید ہے کہ یہ ضرور یاد رکھیں گے کہ یہ علاقائی ’’رسم و رواج‘‘ ہے جوکہ خیر القرون میں رائج نہ تھا؟ کس کس پر فتویٰ صادر ہوگا!!!
آگے چل کر قادری صاحب نے مکہ، مدینہ، مصر اور برصغیر پاک و ہند وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہاں ہمیشہ سے ’’جشن میلاد‘‘ منانے کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔
ہمارا یہ سوال ہے کہ ’’آج تو مکہ و مدینہ وغیرہ میں یہ عمل دکھائی نہیں دیتا بلکہ وہاں کے علما نے بڑی شد و مد کے ساتھ ’’مروجہ جشن و جلوس‘‘ کو ’’بدعت‘‘ قرار دیا اور اس کا انکار کیا ہے اور حقیقت ہے کہ ہمیشہ سے ہی (یعنی جب سے یہ مروجہ میلاد شروع ہوا ہے) اہل علم اس کا انکار کرتے چلے آرہے ہیں اور یہ بھی وضاحت کہ اس عمل میں نصاریٰ کی مشابہت ہے نیز یہ عمل خیر القرون میں نہ تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مروجہ میلاد کو بدعت کہنے والے علماء کی ایک فہرست
قادری صاحب نے جن ’’ائمہ و محدثین‘‘ کو ذکر کیا ہے ان میں سے اکثر علماء موصوف کے ’’مروجہ میلاد‘‘ سے بری ہیں۔
علماء تردید و تبدیع کچھ اس طرح ہیں:
  1. امام تاج الدین فاکھانی
  2. حافظ ابو الحسن علی بن مقدسی
  3. امام ابن تیمیہ
  4. قاضی شہاب الدین حنفی
  5. امام شاطبی
  6. امام ابن رجب حنبلی
  7. ابو عبداللہ ابن الحاج
  8. محمد بن عبدالسلام خضر قشیری
  9. رشید رضا مصری
  10. محمد بن ابراہیم آل شیخ
  11. شمس الحق عظیم آبادی
  12. شاہ عبدالعزیز دہلوی
  13. مجدد الف ثانی
  14. عبدالحی لکھنوی
  15. عبداللہ بن حمید
  16. شیخ ابن باز
  17. حامد الفقی
  18. ابو بکر الجزائری
  19. صالح بن فوزان
  20. میاں نذیر حسین محدث دہلوی
  21. اشرف علی تھانوی
  22. سرفراز صفدر
  23. عبدالشکور مرزا پوری
  24. امام نصیر الدین شاہی
  25. عبدالرحمن مغربی
  26. احمد بن محمد مصری مالکی
  27. شیخ الحنابلہ شرف الدین احمد
  28. علامہ حسن بن علی
  29. ابوالقاسم عبدالرحمن بن عبدالحمید مالکی
  30. محمد بن ابی بکر مخزومی
  31. حافظ ابو بکر عبدالغنی (ابن نقطہ بغدادی)
  32. ابن رجب آفندی
  33. فخر الدین خراسانی
  34. شعرانی صاحب تنبیہ
  35. مفتی رشید احمد گنگوھی
  36. مولانا یوسف لدھیانوی
  37. حمود بن عبداللہ التویجری
  38. شیخ محمد بن سعد بن شقیر
  39. شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری
اور بالاتفاق ’’خیر القرون‘‘ کے تمام اصحاب رسولؐ، تمام تابعین عظام ؒ اور تمام اتباع تابعین کرام اور تمام ائمہ حدیث و فقہ۔ اس ’’مروجہ میلاد‘‘ سے بے خبر تھے۔
پھر قادری صاحب ایک اور عنوان اس طرح قائم کرتے ہیں: ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی جانے والی گراں قدر تصانیف‘‘
گویا وہ اس طرح بھی ’’مروجہ جشن و جلوس‘‘ ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ جن کتابوں کے قادری صاحب نے حوالے دیئے ہیں وہ ’’مروجہ میلاد‘‘ پر نہیں بلکہ ’’ذکر ولادت‘‘ فضائل نبی مکرمؐ اور آپکی سیرت طیبہ و خصائل حمیدہ پر لکھی گئی ہیں اور عربی میں چونکہ یوم ولادت، وقت ولادت اور جائے ولادت کو ’’میلاد‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے لہٰذا قادری صاحب نے اس لفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اور اس طرح جناب نے تقریباً 116 کتابوں کے نام گنواکر عوام الناس کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ حالانکہ ان تمام کتب میں سیرت طیبہ، فضائل رسول ہاشمی وغیرہ ہی بیان ہوئے ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میلادی روایات کا تجزیہ
اب آیئے ہم آپ کو قادری صاحب کی ’’گراں قدر تصانیف‘‘ کی حقیقت دکھلائیں۔ محمد مظفر عالم جاوید صدیقی صاحب نے ایک ضخیم کتاب ترتیب دی ہے جس کا نام ہے ’’اردو میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (تحقیق، تنقید، تاریخ) اور مظفر عالم صاحب قادری صاحب کے ہم مشرب و ہم مسلک ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔
وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں:
میلاد ناموں میں روایات کا ایک لامتناھی سلسلہ قائم ہوگیا ہے، ان روایات کا بظاہر نہ کوئی ماخذ ہے اور نہ مبداء، سینکڑوں روایات ایسی ہیں جن کی صحت کو پرکھنے اور درایت کی کسوٹی پر کسنے کے لئے بے شمار کتابوں کا مطالعہ کرنا پڑے گا، بے شمار روایات ایسی بھی ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔ بایں ہمہ بیشتر میلاد ناموں میں ضعیف بلکہ موضوع اور وضعی روایات کی بھرمار ہے۔
ان کتب کے دلائل کے بارے میں سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں: یہی کتابیں ہیں جنہوں نے معجزات کی جھوٹی اور غیر مستند روایتوں کا ایک انبار لگا دیا ہے اور انہی سے میلاد و فضائل کی تمام کتابوں کا سرمایہ مہیا کیا گیا ہے، خوش اعتقادی اور عجائب پرستی نے ان غلط معجزات کو اس قدر شرف قبول بخشا کہ ان کے پردہ میں آپؐ کے تمام صحیح معجزات چھپ کر رہ گئے اور حق و باطل کی تمیز مشکل ہو گئی حالانکہ ایسے تمام ذخیرہ سے کتب صحاح اور خصوصاً بخاری و مسلم خالی ہیں۔ کتب دلائل کے ان مصنفین کا مقصد معجزات کی صحیح روایات کو یکجا کرنا نہیں بلکہ کثرت سے عجیب و غریب واقعات کا مواد فراہم کرنا تھا، تاکہ خاتم المرسلین ؐ کے فضائل و مناقب کے ابواب میں معتدبہ اضافہ ہوسکے۔ بعد کو جو احتیاط پسند محدثین آئے، مثلاً زرقانی وغیرہ، وہ ان روایات کے نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تردید اور تضعیف بھی کرتے گئے لیکن جو چیز اس وسعت کے ساتھ پھیل گئی ہو، جو اسلامی لٹریچر کا ایک جزو بن گئی ہو، جو اس کی رگ و پے میں سرایت کر گئی ہو، اس کے لئے صرف اس قدر کافی نہیں بلکہ وہ مزید تنقید کی محتاج ہے، خصوصاً اس لئے کہ ہمارے ملک میں میلاد کی مجلسوں میں جو بیانات پڑھے جاتے ہیں، وہ تمام تر ان ہی بے بنیاد روایتوں سے بھرے ہوتے ہیں۔
اکثر و بیشتر میلاد ناموں کا سرمایہ جن کتابوں سے حاصل کیا گیا ہے۔ ان کی نشاندہی کرتے ہوئے، سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آیات و معجزات پر جو مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے کچھ تیسرے طبقہ میں اور بقیہ تمام تر چوتھے طبقہ کی کتابوں میں داخل ہیں۔ متاخرین نے عام طور پر یہ سرمایہ جن کتابوں سے حاصل کیا ہے، وہ طبری، طبرانی، بیہقی، دیلمی، بزار اور ابو نعیم اصفہانی کی تصانیف ہیں۔‘‘
مولود ناموں کے مصنفین نے مواہب اللدنیہ۔ معارج النبوت اور خصائص الکبریٰ کے مواد سے فائدہ اٹھایا ہے اور ان کا سرمایہ درج ذیل کتابوں سے ماخوذ ہے:
کتاب الطبقات لابن سعد، سیرت ابن اسحق، دلائل النبوت ابن قتیبہ (م ۲۷۶ھ) ، دلائل النبوت ابو اسحاق حربی (م ۲۵۵ھ) شرف المصطفی، ابو سعید عبدالرحمن بن حسن اصفہانی (م۳۰۷ ھ) تاریخ و تفسیر ابو جعفر بن جریر طبری (م ۳۱۰ھ) مولد یحییٰ بن عائذ، دلائل النبوت جعفر ابن محمد مستغفری (م۷۳۲ھ) دلائل النبوت ابو القاسم اسماعیل اصفہانی (م ۵۳۵ھ) تاریخ و مشق ابن عساکر (م۵۷۱ھ)، ان کے علاوہ ان رواییات کا سب سے بڑا خزانہ متاخرین کی دو کتابیں ہیں۔ کتاب الدلائل ابو نعیم اصفہانی (م۴۳۰ھ) کتاب الدلائل امام بیہقی (م۵۳۰ھ)
مولانا احمد رضا خان بریلوی نے میلاد میں پڑھی جانے والی مندرجہ ذیل روایتوں کے بارے میں لکھا ہے کہ غلط ہیں:
1۔نبی کریمؐ کا شب معراج براق پر سوار ہوتے وقت، اسی طرح قیامت کے دن ہر مسلمان کی قبر پر براق بھیجنے کا اللہ تعالیٰ سے وعدہ لینا، بے اصل ہے۔
2۔قیامت کے دن حضرت فاطمہؓ کا ہاتھوں میں امامین کا خون آلود اور زہر آلود کپڑے لے کر ننگے سر برہنہ پا خدا کے سامنے عرش کا پایہ پکڑ کر فریاد کرنا اور خون کے عوض میں امت عاصی کو بخشوانا یہ سب محض جھوٹ، کذب اور گستاخی و بے ادبی ہے۔
3۔شب معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرش پر مع نعلین جانا، محض جھوٹ اور موضوع ہے۔
4۔شب معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپؐ کے والدین کا عذاب دکھایا جانا، پھر آپؐ کو والدین یا امت میں سے ایک کو بخشوانے کا اختیار ملنا، آپؐ کا والدین کو چھوڑنا اور امت کو اختیار کرنا محض جھوٹ، افترا اور کذب و بہتان ہے۔
5۔جس رات آمنہ خاتون حاملہ ہوئیں، دو سو عورتیں رشک و حسد سے مرگئیں اس کی صحت معلوم نہیں، البتہ چند عورتوں کا بہ تمنائے نور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرجانا ثابت ہے۔‘‘
تمام علماء نے اس قسم کی روایات موضوعہ کے بیان کی بڑی شدت سے مخالفت کی ہے۔ پچھلے چند سال سے علامہ ابن حجر مکی ہیثمی(م ۹۴۷ھ) کے نام سے ایک کتاب ’’نعمت الکبریٰ علی العالم فی مولد سید ولد آدم‘‘ دیکھنے میں آرہی ہے۔ اس میں نبی کریمؐ کے فضائل و محاسن کے بیان کے علاوہ میلاد شریف منانے کے فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں۔
اس میں خلفائے راشدین کے حوالے سے فضائل اس طرح مرقوم ہیں:
۱۔ جس شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد پڑھنے پر ایک درہم خرچ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
۲۔ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد شریف کی تعظیم کی اس نے اسلام کو زندہ کیا (حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
۳۔ جس شخص نے حضرت انور صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد شریف پڑھنے پر ایک درہم خرچ کیا گویا وہ غزوہ بدر و حنین میں حاضر ہوا (حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
۴۔ جس شخص نے حضرت اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد شریف کی تعظیم کی اور میلاد کے پڑھنے کا سبب بنا۔ وہ دنیا سے ایمان کے ساتھ جائے اور جنت میں حساب کے بغیر جائے گا (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اس کے علاوہ حضرت حسن بصری، جنید بغدادی، معروف کرخی، امام رازی، امام شافعی، سری سقطی وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ارشادات منقول ہیں۔
اس کتاب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اقوال دسویں صدی ہجری کے بعد تیار کئے گئے ہیں۔ نہ اس زمانے میں درہم خرچ کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی میلاد النبی کی محافل ربیع الاول کے مہینے میں مخصوص تھیں۔ علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی نے ابن حجر مکی ھیتمیؒ کے اصل رسالہ ’’النعمت الکبریٰ علی العالم بمولد سيد ولد آدم‘‘ کی تلخیص نقل کی ہے۔جو خود علامہ ابن حجر مکی نے تیار کی تھی۔ اصل کتاب میں ہر بات سند کے ساتھ بیان کی گئی تھی۔ اس میں خلفائے راشدین اور دیگر بزرگان دین کے مذکورہ بالا اقوال کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجرؒ کی طرف منسو ب کردی گئی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
میلاد ناموں کی بیان کردہ روایات کا جائزہ لینے کے لئے درج ذیل چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
۱۔ ’’راوی لکھتا ہے کے جس رات آمنہؓ حاملہ ہوئیں، دو سو عورتیں رشک و حسد سے مرگئیں۔ اس رات کو آسمان کے فرشتوں نے غلغلہ شادمانی کا زمین تک پہنچایا اور اہل زمین نے طنطنہ کامرانی کا آسمان کو سنایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے علم سبز خانہ کعبہ پر نصب کیا، مبارکباد دی۔ فرشتوں نے ارباب زمین کو دروازے بہشت کے مفتوح کردیئے۔ عالم، عالم انوار اقدس سے معمور ہوگیا۔ ابلیس پہاڑوں میں جاچھپا، چالیس شبانہ روز صحرا اور دریا میں سرگرداں رہا۔ بت روئے زمین کے سرنگوں ہوئے۔ حیوانات قریش کے بولنے لگے اور بشارت دی چرند پرند کو کہ آج آمنہؓ خاتون حاملہ ہوئیں، اب زمانہ خیرالبشر ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا نزدیک آیا۔‘‘
۲۔ ’’روایت ہے کہ ہجوم محشر میں غیب سے آواز آئے گی کہ ’’اے میدان حشر کے مرد اور عورتو! اپنی اپنی آنکھیں بند کرلو۔ مقام ادب ہے کہ ہمارے محبوب کی بیٹی فاطمہ زہرا، علیؓ شیر خدا کی بی بی، حسن مجتبیٰ ؓ اور حسینؓ شہید کربلا کی والدہ اور زینبؓ مصیبت زدہ کی مادر آتی ہے۔‘‘ حالانکہ عورتوں سے عورت کا پردہ کچھ ضروری نہیں، مگر وہ اس طرح سے آوے گی کہ عورتیں دیکھنے کی متحمل نہ ہوں گی۔ یہ آواز سنتے ہی سب اپنی اپنی آنکھیں بند کرلیں گے اور عمامہ مبارک حضرت شاہ مرداں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خون آلود دست راست میں لئے، اور کرتہ زہر آلود حضرت امام حسینؓ کا ایک کندھے پر ڈالے اور حضرت امام حسینؓ کا پیرہن خود آلود دوسرے شانے پر رکھے زار زار روتی اور درگاہ الٰہی میں فریاد کرتی ہوئی تشریف لائیں گی اور عرش پروردگار کا پایہ پکڑ کریوں کہیں گی ’’خدایا! میرے حسین کو ڈیڑھ سو خط بھیج کے بلایا، پھر وہ سلوک کئے کہ خیمے تک کو جلایا اور ریگستان کربلا میں بھوکا پیاسا خنجر سے شہید کیا۔ تو ہی انصاف کرکہ میرے بچے کا کیا قصور تھا۔ آپ کے بیان سے فرشتے آسمان کے روتے روتے بیہوش ہوجائیں گے اور پیمبر منبروں سے گرپڑیں گے۔‘‘
۳۔ جب سدرة المنتھٰی سے چلنے کا قصد کیا، جبرائیلؑ نے کھڑے ہوکر کہا:
اگر یک سرے موئے برتر پرم فروغ تجلی بسوزد پرم
حضرت ؐ نے فرمایا: اے جبرائیل! ایسے مقام پر مجھ کو تنہا چھوڑے جاتے ہو، ندا آئی: ’’يَامُحمدد عَاک الْجلَيل لَاتُنظَر اِلٰی جبرئيل‘‘ وہاں سے ایک ہاتھ نکلا اور اندر حجاب کے لئے گیا۔ ستر حجاب نور و ظلمت کے اس طرح طے ہوئے۔ موٹائی ہر حجاب کے پانچ سو برس کے راہ اور مسافت ایک سے دوسرے کی پانچ سو برس کا فرق۔ وہاں پر براق رفتار سے باز رہا۔ رفرف سبز ظاہر ہوا کہ نور اوس کا آفتاب و ماہتاب پر غالب تھا۔ اس پر بیٹھ کر ستر ہزار حجاب اور طے کئے۔ ہر پردہ ستر ہزار برس کی راہ، رفرف نے سب پردوں سے گذارنا۔ ایک پردہ درمیان عرش اور حضرت کے باقی تھا کہ رفرف غائب ہوگیا۔ (۳۷۵)
۴۔ ’’صفیہ بنت عبدالمطلب سے روایت ہے کہ شب ولادت آنحضرتؐ بجائے دائی قابلہ کے میں خدمت گذار تھی کہ جب آپؐ پیدا ہوئے، میں نے چاہا کہ غسل دوں، ایک نور ظاہر ہوا کہ آفتاب کو اس نور سے کچھ نسبت نہ تھی۔ ایک آواز بلند آئی کہ ’’اے صفیہ! غسل اس مولود کو نہ دے کہ ہم نے پاک و پاکیزہ کرکے بھیجا ہے۔ حاجت غسل کی نہیں ہے، میں نے گود میں لیا تو معائنہ کیا کہ پشت مبارک لَا اِلهَ اِلاَّ اللّهُ مُحَمَدُ‘ رَّسُولُ اللّهِ عَلَيهِ وَآله لکھا ہے۔‘‘
۵۔ ’’حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ بعد ولادت سرور عالم، تین فرشتے آسمان سے اترے، ایک کے ہاتھ میں آفتابہ نقرئی، دوسرے کے ہاتھ میں طشت زمردیں، تیسرے کے ہاتھ میں جامہ سفید تھا۔ انہوں نے حضرت خواجہ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طشت میں سات بار غسل دیا، پھر اس جامہ سفید کو آپؐ کے زیب جسم اطہر کیا اور کہا ’’جوانب چہار گانہ دنیا میں آپؐ کو اختیار فرما نروائی مرحمت ہوا ہے۔ حضرت سرور عالمؐ نے دست مبارکہ وسط طشت میں رکھا، غیب سے ندا آئی، آپؐ نے وسط دنیا یعنی مقام بیت اللہ پسند کیا، اس وجہ سے ہم نے اس کو مسجود خلائق فرمایا۔‘‘
۶۔ ’’حضرت عبدالمطلب نے جب خبر پائی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے کمال خوشی سے دیکھنے کا ارادہ کیا۔ آمنہ خاتونؓ نے فرمایا کہ تم حضرت کو ہرگز نہ دیکھ سکو گے اس لئے کہ جب حضرت پیدا ہوئے ایک شخص آیا اور کہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکان سے باہر نہ نکالنا اور تین روز تک کسی کو نہ دکھانا۔ عبدالمطلب کو یہ سن کر غصہ آگیا اور تلوار کھینچ کر مکان میں جانے لگے ایک فرشتہ بڑی عظمت والا ننگی تلوار ہاتھ میں لئے سامنے آیا اور کہا ہٹ جاؤ، جب تک تمام فرشتے آسمانوں کے نبی کریم ؐ کی زیارت سے مشرف نہ ہولیں گے اور سلام نہ کرچکیں گے کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہوگا۔ جب فرشتے زیارت نبی کرچکے تب عبدالمطلب نے حضرت رسول کریمؐ کو دیکھا۔ بہت خوش ہوئے۔‘‘
ان متذکرہ بالا چند مثالوں کے علاوہ میلاد ناموں میں بے شمار محیرا لعقول روایات بیان کی گئی ہیں۔ کئی محققین نے ایسی روایات کو صاف طور پر غلط قرار دیا ہے۔ حافظ عبداللہ کانپوری نے ایسی روایات کے بارے میں لکھا ہے کہ:
مولود کی اکثر کتابوں میں جھوٹی روایتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے بعض وضعی روایات کی مثالیں بھی دی ہیں اور واضح طور پر کہا ہے کہ ایسی باتیں کفر میں داخل ہیں۔‘‘
میلاد ناموں میں لکھی گئی روایات کے بیان کے ضمن میں سید سلیمان ندوی نے سات اسباب پر بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک ان روایات کے پیدا ہونے کی بڑی وجہ ایسے مولود خواں ہیں، جن کی دسترس میں صحیح روایات نہیں تھیں اور علم سے محروم تھے۔ انہوں نے اپنی خداداد ذہانت اور قوت اختراع سے ان واقعات کو لطائف صوفیانہ اور مضامین شاعرانہ میں بیان کیا مگر سننے والوں نے انہیں روایت کی حیثیت دے دی یا بعد میں ان بیانات نے روایت کی صورت اختیار کرلی۔ اس طرح سے وقائع میلاد میں وضعی روایات آگئیں اور انہی روایات کو واعظوں اور میلاد خوانوں نے امر واقعہ سمجھ لیا اور اسے بطور معجزہ پیش کیا جانے لگا۔ سید سلیمان ندوی نے تقریباً تیس (۳۰) روایات کی نشاندہی کی ہے جو ان کے نزدیک وضعی ہیں جبکہ دیگر اہل سیر اور دیگر مصنفین نے انہیں فضائل نبوی میں شمار کیا ہے۔
میلاد ناموں میں بیان کی گئی روایات کا تذکرہ کرتے ہوئے، ڈاکٹر انور محمود خالد لکھتے ہیں:
’’اردو میلاد ناموں میں کئی روایات محیرا لعقول ہیں، مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے نو لاکھ برس پہلے نور محمدؐ پیدا کیا، پھر لوح و قلم، کرسی و عرش، زمین و آسمان، ارواح اور فرشتے وغیرہ اسی نور سے پیدا ہوئے، یا یہ کہ ولادت کے بعد ابر کا ایک ٹکڑا آیا اور آپؐ کو اٹھا کر لے گیا اور غیب سے آواز سنائی دی کہ محمدؐ کو ملکوں ملکوں پھراؤ اور سمندروں کی تہوں میں لے جاؤ یا یہ روایت کہ جب آپؐ گہوارہ میں تھے تو آپؐ چاند سے اور چاند آپؐ سے باتیں کرتا تھا اور انگلی سے آپؐ اس کو جدہر اشارہ کرتے تھے وہ ادھر جھک جاتا تھا، معراج کی شب عرش پر نعلین سمیت جانا، جیسی روایات بھی ان میلاد ناموں میں درج ہیں۔ جن کو تسلیم کرنے میں تامل ہوتا ہے۔‘‘ (اردو میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 119 تا 124)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مروجہ میلاد کے موجد کون؟
کیا ہی اچھا ہوتا اگر قادری صاحب یہ بھی بتا دیتے کہ اس ’’مروجہ میلاد‘‘ کی ابتدا ’’فاطمی شیعوں‘‘ نے کی تھی بلکہ تو یہ انصاف کا تقاضہ تھا کیوں کہ قادری صاحب نے تو ساری دنیا سے اسے ’’ثابت شدہ امر‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
’’مروجہ میلاد‘‘ کی ابتداء ’’فاطمی شیعوں‘‘ نے کی تھی درج ذیل کتابوں میں یہ بات موجود ہے:
  1. علامہ مقریزی کی’المواعظ والا عتبار بذکر الخطط والأ ثار،
  2. علامہ بخیت المطیعی الحنفی کی’احسن الکلام فیما یتعلق بالسنہ والبدعۃ من الاحکام،
  3. ابو العباس احمد بن علی القلقشندی کی’صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء،
  4. شیخ علی محفوظ کی’الابداع فی مضار الابتداع،
  5. الاستاذ سید علی فکری کی’المحاضرات الفکریہ۔ عنوان البدع فی الموالد،
  6. حسن بن ابراہیم اور طہ احمد شریف کی کتاب’ المعزلدین اللہ،
  7. احمد مختار العبادی کی’التاریخ العباسی والفاطمی،
  8. قاضی دوحہ قطر احمد بن حجر ’بدعات کا شرعی پوسٹمارٹم‘
تفصیل کے لئے ’’رسائل فی حکم الاحتفال بالمولد النبوی، جزثانی، طبع ریاض اور دین الحق بجواب جاء الحق‘‘
شاید قادری صاحب کو اس حقیقت کا علم ہی نہ ہوا؟
یا پھر کسی مخصوص ’’حکمت عملی‘‘ کے تحت اسے چھپا لینا ہی انہوں نےایمان سمجھا ہو۔ کیونکہ قادری صاحب ’’اتحاد امت‘‘ کے بھی داعی ہیں اور سب سے بڑھ کر تو انہیں فاطمیوں اور رافضیوں سے خطرہ ہوتا ہے کہیں وہ ’’ناراض‘‘ نہ ہوجائیں، اسی لئے وہ ماہ محرم الحرام میں جس طرح ’’میڈیا‘‘ پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بس ’’شیعہ سنی بھائی بھائی‘‘ جناب کھل کر رونے پیٹنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں کہ آخر ’’اتحاد امت‘‘ کیلئے یہ ’’حکمت و مصلحت‘‘ ناگزیر جو ٹھہری اور اپنے نام نہاد ’’سنی‘‘ مقلدین کو دکھانے کے لئے ’’یوم عاشوراء‘‘ کو عید کا دن لکھ رکھا ہے اور ماہ محرم میں اسے ’’یوم ماتم‘‘ بنانے میں لگے رہتے ہیں۔
کیونکہ ’’عید لکھ دینا‘‘ آسان ہے مگر ’’منانا‘‘ حکمت قادری کے منافی؟ذرا دیکھے جناب کی میلاد النبی صفحہ 255)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جشن میلاد نہیں منایا
باب ہفتم کا عنوان قادری صاحب یوں قائم کر تے ہیں ’’ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے جشن میلاد کیوں نہیں منایا‘‘؟
پھر اس کی توضیح بیان کر تے ہوئے ہیڈنگ لگاتے ہیں
صحابہ رضی اﷲ عنہم کیلئے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا سانحہ ارتحال انتھائی غم انگیز تھا۔
اور پھر اس کے تحت رقم طراز ہو تے ہیں:
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اگر انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یوم ولادت تزک و احتشام سے نہیں منایا تو اسکی ایک خاص وجہ تھی جیسا کہ سب جانتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یوم ولادت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کا بھی دن تھا ۔۔۔۔۔۔ (454 صفحہ)
گویا اس طرح قادری صاحب بتانا چاہتے ہیں کہ بوجہ غم جدائی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ ’’ مروجہ جشن‘‘ نہ مناتے تھے۔ ہمیں تو ایسا معلوم ہو تا ہے کہ قادری صاحب شاید ’’ اعداء صحابہ ‘‘ سے میل جول بڑھانے کی وجہ سے ان کے اثرات قبول کر چکے ہیں اسی وجہ سے وہ صحابہ کے بارے میں یہ بات لکھ گئے جو اوپر ذکر کی گئی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ جو ’’صحابہ کرام ‘‘ قرآن و حدیث کی ترویج و آبیاری کیلئے اپنی خواہشات کو بالا طاق رکھ دیا کر تے تھے، اپنے ہر عمل کی نفی کر دیا کرتے تھے وہ اپنے غم میں قرآن و حدیث کے ’’ثابت شدہ امر‘‘ کو بھی بھلا دیتے؟ یا پھر یہ عمل ’’ثابت شدہ امر‘‘ ہی نہ تھا۔ اور ان کے دور میں تو واقعی نہ تھا جیسا کہ خود قادری صاحب کے حوالوں میں جا بجا لکھا ہے’’مروجہ جشن و جلوس اور محفل میلاد‘‘ خیر القرون ، قرون اولیٰ ، قرون ثلاثہ وغیرہ میں نہ تھا۔
مگر یہاں قادری صاحب نے صحابہ پر الزام دھر دیا کہ وہ ’’غم ‘‘ میں مبتلا ہو نے کی وجہ سے خوشی کا اظہار نہ کر سکے۔ معاذ اﷲ
اور پھر اس کے بالکل برعکس بھی لکھ دیا: سو وہ ولادت کی خوشی میں جشن مناتے نہ وصال کے غم میں افسردہ ہوتے؟ (صفحہ 454 )
پہلے کہا غمزدہ ہوتے پھر کہا نہ وصال کے غم میں افسردہ ہوتے!!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اب کیا صحیح اور کیا غلط؟
قادری صاحب نے مذکورہ بالا صفحے پر مزید دو ہیڈنگز لگائی ہیں-
  1. انسانی فطرت لمحات غم میں خوشی کا کھلا اظہار نہیں کرنے دیتی
  2. کیفیات غم کی شدت قرون اولیٰ میں جشن منانے سے مانع تھی
غور کیجئے کس قدر معصومانہ انداز میں قادری صاحب لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ وفات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کی حالت و کیفیت کی طرف اپنی گفتگو کا رخ موڑ دیا ہے، ہم یہ عرض کر تے ہیں کہ قادری صاحب آپکی ’’ عوام کا لا نعام‘‘ ہوگی تو ہو گی مگر بحمد اﷲ ہم سلفی حضرات آپکے چکر میں آنے والے نہیں
ہمارا آپ سے سوال ہے کہ ہم نے آپ سے یہ پوچھا ہی کب ہے کہ صحابہ کرامؓ نے وفات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ’’جشن میلاد‘‘ منایا تھا یا نہیں بلکہ سوال تو یہ ہے کہ بعد از اعلان نبوت خود نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کم و بیش 23 سال تک صحابہ کے درمیان موجود رہے اس دوران یہ ’’مروجہ جشن میلاد‘‘ کیوں نہ منایا گیا؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غم تو وفات کے بعد شروع ہوا تھا نہ
صحابہ کرامؓ کے غم کی چند ایک مثالیں ذکر کرنے کے بعد قادری صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: جب محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی جدائی پر غم و اندوہ اور اضطراب دل کی یہ کیفیت ہو اور یہی دن آپکی ولادت با سعادت کا بھی ہو تو کس کے اندر اتنی تاب ہو سکتی تھی کہ وہ جشن ولادت منانے کا سوچے ؟ (صفحہ 468 )
* ہمارا سوال یہی ہے کہ وفات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے قبل حیات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں صحابہ کرامؓ نے ’’مروجہ جشن میلاد‘‘ کیوں نہ منایا؟
قادری صاحب کا وفات کیلئے لفظ ’’وصال‘‘ استعمال کرنا بھی صوفی ازم کی ترجمانی ہے قرآن و سنت کی نہیں اور جہاں تک تعلق ہے 12 ربیع الاول کا یوم وفات ہونا تو یہ ہمیں تسلیم ہو یا نہ ہو! مگر قادری صاحب کے مسلکی ہم زلف کو کب نورانی صاحب کو یہ تاریخ ہر گز قبول نہیں وہ کہتے ہیں:
یہ خادم آپ کو چیلنج کر تا ہے کہ آپ تقویم سے اس سال ربیع الاول میں 12 تاریخ پیر کے دن ثابت کر دیں۔۔
حاشیہ میں لکھتے ہیں: حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رحلت فرمانے کی تاریخ یکم یا 2 ربیع الاول ہے۔ (دیکھئے اسلام کی پہلی عید صفحہ 31 )
اب یہ مسئلہ تو قادری اور نورانی اوکاڑوی خود ہی حل کریں کہ صحیح موقف کیا ہے؟ مذکورہ بحث میں قادری صاحب نے جو ’’دھول جھونک‘‘ کہ ثابت کر نیکی کوشش کی ہے وہ تو واضح ہو چکا مگر یہ موقف بفرض تسلیم خود علماء بریلی کو بھی منظور نہیں بلکہ علامہ ابو الحسن زید فاروقی فرماتے ہیں:
اس وقت مسلمان کو گھر بیٹھنے کی فرصت کہاں تھی جہاد فی سبیل اﷲ اور تبلیغ دین اور دیگر بڑے بڑے کام کرنے میں مصروف تھے، اب وہ کام کہاں ہیں۔ (دیکھئے خیر المورد فی احتفال المولد صفحہ 560 مطبوع فی رسائل میلاد مصطفی ناشر قادری رضوی کتب خانہ لاہور)
اب قادری صاحب علامہ زید کو بھی سمجھائیں کہ صحابہؓ نے کیوں نہ منایا، کو کب صاحب کو بھی پڑھائیں کہ تاریخ وفات النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ولادت با سعادت کی طرح 12 ربیع الا ول ہی تھی ہم تو یہ کہیں گے کہ علامہ زید فاروقی نے صحیح لکھا ! آج بریلویت کے پاس صحابہ والے کام کہاں ہیں؟
شاید اسی لیے یہ ’’مروجہ جشن و جلوس‘‘ میں لگے ہوئے ہیں۔
قادری صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں: یہی کیفیت (یعنی غم کی کیفیت) تابعین اور تبع تابعین کے ادوار میں بھی رہیں۔(صفحہ 482 )
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قادری صاحب گئے غم رسول ﷺ بھول گئے مگر غم حسین
پھر عنوان قائم کر تے ہیں’’ولادت کی خوشی غم و صال پر بعد ازاں غالب آتی گئی‘‘
ہم کہتے ہیں قادری صاحب یہ آپ ہی کا ظرف ہے کہ نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے غم کو آپ نے اپنی مرضی سے، منہج صحابہ و تابعین سے انحراف کر کے ’’ولادت‘‘ کی خود ساختہ خوشی سے ختم کر دیا !!
یہی آپ کی محبت و عشق کی حقیقت ہے، اچھا ذرا یہ بتائیں کہ بعد ازاں غم رسول رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم تو آپ بھول گئے مگر کیا وجہ ہے کہ ’’غم نواسہ رسول ؐ ‘‘ نہیں بھول پاتے؟
شرم مگر تم کو نہیں آتی۔
غم رسول رحمتﷺ اس قدر سستا؟ اور غم حسین رضی اللہ عنہ اس قدر گراں؟
کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے!!! قادری صاحب انتظار کریں جب حوض کوثر پر تمہیں کہا جائے گا ’’سحقا سحقا لمن غير بعدی ‘‘ اللهم لا تجعلنا مع الظالمين اور پھر ظلم تو یہ ہے کہ قادری صاحب نے اپنے موقف کو صحیح ثابت کرنے کیلئے ایک ضعیف حدیث کو دلیل بناتے ہوئے نبی علیہ السلام کی وفات کو ’’رحمت ‘‘ سے تعبیر کر ڈالا۔
ہیڈنگ لگاتے ہیں: ’’حضور صلی اﷲعلیہ وسلم کی ولادت اور رحلت دونوں رحمت ہیں‘‘
قادری صاحب کی دلیلیں اکثر و بیشتر ضعیف بلکہ ضعیف تر ہو تی ہیں جبکہ صحیح روایات تو ان کے حلق سے اتر تی ہی نہیں خواہ وہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہی کیوں نہ ہوں۔
موصوف کی پیش کر دہ روایت حياتی خير لکم۔۔۔ضعیف ہے۔ شیخ البانی ؒ لکھتے ہیں:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہے اور اس سلسلے میں قدرے بہتر حدیث بکر بن عبد اﷲ المزنی ہے مگر وہ مرسل ہے اور مرسل تو ضعیف احادیث کی اقسام میں سے ہوتی ہے۔ محدثین عظام کے نزدیک۔ پھر حدیث ابن مسعودؓ ہے اور وہ مبنی بر خطاء ہے جبکہ اس سلسلے میں انتہائی نا مناسب حدیث انس ہے اپنے دونوں طرق کے ساتھ۔ (سلسلہ ضعیفہ ۲/۴۰۶۔ رقم 975 )
امام شاطبی رحمہ اﷲ نے صحیح فرمایا تھا کہ اہل بدعت کا اعتماد ضعیف ، سخت کمزور اور ان روایات پر ہو تا ہے جنہیں اصول میں ماہر محدثین قبول نہیں کرتے۔ (الا عتصام 152/1 )
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top