• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

میلاد منانے والوں کے چند کمزور شبہات کا رد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میلاد منانے والوں کے شبھات کا رد

میں عبد الغفار محمدی کہتا ہوں کہ علامہ سیوطی نے علامہ فاکھانی کے ان حقائق کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے اور جو دلائل علامہ سیوطی نے اثبات میلاد میں پیش کئے ہیں اور جو شبھات فاکھانی کے دلائل پر وارد کئے ہیں ان کی حقیقت علامہ جزائری نے اپنے اس رسالہ میں مفصل انداز میں بیان کر دی ہے، میں مختصر انداز میں ان کو بیان کر دیتا ہوں۔ علامہ جزائری لکھتے ہیں: محفل میلاد کو جائز کہنے والوں کے چند کمزور شبھات۔

برادران اسلام آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب ساتویں صدی کے آغاز میں میلاد کی بدعت ایجاد ہوئی اور لوگوں کے درمیان پھیل گئی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کے اندر روحانی اور جسمانی خلا پیدا ہو گیا تھا اس لئے انہوں نے جہاد کو ترک کر دیا تھا اور فتنوں کی اس آگ بجھانے میں مشغول ہو گئے تھے جو اسلام کے دشمن یہودیوں عیسائیوں اور مجوسیوں نے بھڑکا رکھی تھی اور یہ بدعت میلاد نفوس میں جڑ پکڑ گئی اور بہت سے جاہلوں کے عقیدے کا جز بن گئی، جس کی وجہ سے بعض اہل علم مثل علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ دیکھا کہ ایسے شبہات تلاش کر کے اس کیلئے جواز نکالا جائے جن سے اس بدعت میلاد کے جواز پر استدلال کیا جا سکے، اور یہ اس لئے تا کہ عوام الناس اور بلکہ خواص بھی راضی ہو جائیں اور دوسری طرف علماء کا اس سے رضامند ہونے اور اس پر حکام اور عوام کے ڈر سے خاموش رہنے کا جواز نکل آئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اب ہم یہاں ان شبھات کو بیان کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کا ضعف و بطلان بھی تا کہ اس مسئلہ میں مزید بصیرت حاصل ہو… ان شبھات کا مدار ایک تاریخی نقل اور تین احادیث نبویہ پر ہے ان شبھات کے ابھارنے والے اور اجاگر کرنے والے علامہ سیوطی غفر اللہ لہ ہیں حالانکہ وہ اس طرح کی چیزوں سے مستغنی ہو سکتے تھے وہ دسویں صدی کے علما میں سے ہیں جو فتنوں اور آزمائشوں کا زمانہ تھا، تعجب یہ ہے کہ ان شبھات پر وہ مسرور ہیں اور ان پر وہ فخر کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجھے شریعت میں میلاد کی اصل مل گئی ہے اور میں نے اس کی تخریج کر لی ہے (الحاوی فی الفتاوی للسیوطی)۔

لیکن سیوطی سے اس طرح کی باتوں کا کچھ تعجب نہیں کہ اس کے متعلق جب کہا جاتا ہے کہ وہ حاطب لیل (رات کے اندھیروں میں لکڑی جمع کرنے والے) کی طرح ہیں (ایسے آدمی کے ہاتھ میں لکڑی بھی آ سکتی ہے اور سانپ بھی۔ محمدی) شیئ اور ضد شیئی دونوں ہی جمع کر دیتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابولہب کا خواب والا واقعہ

پہلا شبہ: ابو لہب کا خواب والا واقعہ نقل کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کیا حال ہے تو کہا کہ حال برا ہے مگر ہر سوموار کے دن عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے کہ دو انگلیوں سے پانی چوس لیتا ہوں کہ ثویبہ لونڈی نے جب مجھے میرے بھتیجے محمد بن عبد اللہ کی پیدائش کی اطلاع دی تو میں نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ لیکن یہ شبہ باطل ہے۔

اول: شریعت سوائے پیغمبر کے اور کسی کے خواب سے ثابت نہیں ہوتی۔

دوم: یہ روایت مرسل ہے اور مرسل روایت ناقابل استدلال ہوتی ہے (جیسا کہ اس کتاب کے آخر میں اس پر مکمل تحقیق لکھی ہے۔محمدی) یہ بھی احتمال ہے کہ یہ خواب حضرت عباس کا اس وقت کا ہو جب خود حضرت عباس ابھی مسلمان بھی نہ ہوئے ہوں اور کافر کا خواب بحالت کفر قابل استدلال نہیں ہے۔

سوم: کافر اگر کفر کی حالت میں مر جائے تو اس کے نیک اعمال ضائع ہوتے ہیں اس کے نیک عملوں کا اس کو ثواب نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلنہ ھباء منثورا۔(الفرقان:23) اور اسی طرح سورت کہف میں بھی کافروں کے اعمال کیلئے فحبطت اعمالہم فلا نقیم لہم یوم القیٰمة وزنًا (کہف :۱۰۵) موجود ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبد اللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا جو ہر سال حج کے موسم میں ایک ہزار اونٹ ذبح کیا کرتا تھا اور ایک ہزار جوڑے پہناتا تھا اور جس نے حلف الفضول کیلئے اپنے گھر دعوت دی تھی کہ کیا اس کو ان اعمال کا فائدہ ہو گا تو رسول اللہ نے فرمایا نہیں الخ۔ اس جواب نبوی سے، خواب ابو لہبی کی عدم صحت یقینی ہو گئی۔

چہارم: یہ گارنٹی صرف نبوت کیلئے ہے کہ خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت میں شیطان نہیں آ سکتا، دوسرے آدمی کی شکل و صورت میں شیطان آ سکتا ہے کیونکہ حدیث بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ من رانی فی المنام فقد رانی فان الشیطان لا یتمثل فی صورتی (مشکوٰۃ ص:۳۹۴) کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تحقیق اس نے مجھے سچ مچ حقیقت میں مجھے دیکھا ہے کیونکہ شیطان خواب میں میری شکل و صورت میں نہیں آ سکتا انتھی (نبوت کے علاوہ خواب میں شیطان ہر کسی کی شکل و صورت میں آ سکتا ہے بلکہ شیطان جاگتے میں بھی کسی دوسرے انسان کی شکل میں آ سکتا ہے جیسا کہ جنگ بدر میں سراقہ کی شکل میں آیا تھا ۔چنانچہ نعیم الدین بریلوی مراد آبادی لکھتا ہے جب قریش نے بدر میں جانے پر اتفاق کر لیا تو انہیں یاد آیا کہ ان کے اور قبیلہ بنی بکر کے درمیان عداوت ہے ممکن تھا کہ وہ یہ خیال کر کے واپسی کا قصد کرتے یہ شیطان کو منظور نہ تھا اس لئے اس نے یہ فریب کیا کہ وہ سراقہ بن مالک بن جعشم بنی کنانہ کے سردار کی صورت میں نمودار ہوا اور ایک لشکر اور ایک جھنڈا ساتھ لے کر مشرکین سے آ ملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تمہارا ذمہ دار ہوں آج تم پر کوئی غالب نہیں آئے گا الخ (تفسیر خزائن العرفان سورۃ … ص:۲۶۳تختی خورد) (محمدی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تو ہو سکتا ہے کہ جس کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بشکل ابو لہب دیکھا ہو وہ حقیقت میں ابو لہب نہ ہو، شیطان ابولہب کی شکل میں آ گیا ہو اور شیطان ہی نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہا ہو چنانچہ امام نووی شرح مسلم میں قاضی عیاض سے نقل کرتے ہیں:
قال بعضہم خص اللہ سبحانہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بان رویۃ الناس ایاہ صحیحۃ وکلہا صدق ومنع الشیطان ان یتصور فی خلقتہ لئلایکذبہ علی لسانہ فی النوم کما استحال ان یتصور الشیطان فی صورتہ فی الیقظۃ الخ۔
(حاشیہ مشکوٰۃ ص:۳۹۴) کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات میں خاص فرما لیا ہے کہ جو کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھتے ہیں وہ صحیح ہے اور سب سچ ہے اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کو روک رکھا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت میں انسانوں کے سامنے نیند اور خواب میں آئے… پس جیسے یہ محال ہے کہ شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت میں جیتے جاگتے آئے اور اگر یہ ہوتا تو حق و باطل سے مشابہ ہو جاتا اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے وہ پکی بات نہ ہوتی تو جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان اور اس کے نزغہ اور اس کے وسوسہ اور اس کے اغوا اور اس کے مکرو فریب سے محفوظ رکھا اسی طرح آپ کو لوگوں کی نیند کے وقت دیکھنے کے شیطانی مکر سے محفوظ رکھا الخ ۔محمدی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آپ کے داداعبدالمطلب نے ولادت پر دعوت کھلائی

دوسرا شبہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب نے آپ کی ولادت پر دعوت کھلائی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر عمل کیا (اس کے متعلق ہم نے مکمل تحقیق پہلے لکھ دی ہے ملاحظہ فرما لیں۔ محمدی۔

تیسرا شبہ: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم فرمایا… اور فرمایا کہ یہ اچھا دن ہے اللہ تعالیٰ اس دن موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات دی ۔

جواب:
گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرعون کے ظلم سے ان کو نجات کے شکریہ میں روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کو روزے کا دن بنا کر سنت نبوی پر عمل کریں نہ کہ کھانے پینے کا دن کس قدر عجیب ہے یہ الٹی کھوپڑی کہ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم روزہ رکھتے جس طرح آپ نے روزہ رکھا نہ کہ دستر خواں لگائیں۔ دلیل کے مطابق تمہارا عمل نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے

چوتھا شبہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور خمیس کو روزہ رکھا کرتے تھے، علت یہ بیان فرمائی کہ سوموار کا دن تو وہ ہے جس دن میں پیدا ہوا اور خمیس کا دن وہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش ہوتے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ میرے رب کے سامنے میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے ہوئوں (ابن ماجہ) ۔

جواب اول: جب محفل میلاد کے منعقد کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت ولادت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنا ہے تو اس صورت میں عقل و نقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ شکریہ اسی نوع و صورت کا ہو جس نوع و صورت کا شکریہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یعنی روزہ رکھا تو ہمیں بھی اس دن آپ کی طرح روزہ رکھنا چاہئے نہ کہ روزہ خور۔

ہاں یہ اور بات ہے کہ یہ میلادی لوگ جو صرف چوری کے مجنوں ہیں اس دن کے روزے رکھنے کو میلاد کے ثبوت کیلئے بطور دلیل پیش تو کرتے ہیں مگر روزہ اس دن ہرگز نہیں رکھیں گے کیونکہ روزے میں نفس کو بھوکا رکھ کر نفس کی اصلاح کی جاتی ہے اور ان میلادیوں کا مقصد تو کھانا پینا ہے اس لئے غرض متعارض ہو گئی چنانچہ میلادیوں نے اپنی پسند کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند پر ترجیح دی ہے جو ایک بڑی بات ہے گویا ان لوگوں پر اس وقت یہ کہاوت صادق آ رہی ہوتی ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوم: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کی تاریخ کے دن روزہ نہیں رکھا جو کہ بارھویں ربیع الاول ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کا روزہ رکھا ہے جو ہر ماہ میں پانچ چار بار آتا ہے اس بنا پر بارھویں ربیع الاول کو کسی عمل کیلئے مخصوص کرنا اور ہر ہفتہ میں آنے والے سوموار کو چھوڑ دینا شارع علیہ السلام کے عمل کے خلاف اور زیادتی سمجھا جائے گا جو غلط ہے۔

سوم: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت باسعادت اور اپنے بشیر و نذیر ہو کر مبعوث ہونے کے شکریہ میں سوموار کا روزہ رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے کے ساتھ کوئی محفل اور تقریب بھی سجائی تھی جیسا کہ میلادی لوگ کیا کرتے ہیں اور کھانا پینا ہوتا ہے اور جلسے جلوس ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جب جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ صرف روزہ رکھا۔ تو کیا امت کیلئے یہ کافی نہیں ہے جو امت کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کافی ہے حالانکہ قرآنِ مجید میں تو ہے: وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نھاکم عنہ فانتھوا (الحشر) (کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں دے اس کو لے لو اور جس سے رسول تم کو روک دے اس سے رک جائو )اور قرآنِ مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کیلئے اسوہ حسنہ (نمونہ) کے طور پر پیش کیا ہے۔ اور علماء امت نے میلاد منانے کو بدعت قرار دیا ہے اور سلف صالحین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے جیسا کہ فتاوی رشیدیہ وغیرہ سے پہلے اقوال نقل کر آیا ہوں۔(محمدی) ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا امام ابن تیمیہ کے نزدیک میلاد منانے پر ثواب ملتا ہے

سعیدی: (دلیل نمبر۹) مسجد حرام کے مدرس الشیخ محمد بن علوی مالکی لکھتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ متوفی ۷۲۸ھ کا قول ہے کہ لوگوں کو میلاد شریف منانے کا ثواب ملتا ہے جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر آپ کی تعظیم کیلئے میلاد مناتے ہیں یقینا اس محبت و کوشش جمیل کا ثواب پائیں گے۔ ہر سال میلاد شریف منانا مسلمانوں کی نیک نیتی و تعظیم رسول کی وجہ سے بہت بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے (حول الاحتفال ص:۱۹) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۲)

محمدی: نواب صدیق حسن خاں نے بحوالہ اقتضاء الصراط المستقیم ۔ امام صاحب کی عبارت یوں لکھی ہے:
قال شیخ الاسلام فی اقتضاء الصراط المستقیم وکذلک ما یحدثہ بعض الناس اما مضاہاۃ بالنصاری فی میلاد عیسی علیہ السلام واما محبۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم وتعظیما لہ واللہ یثیبہم علی ھذہ المحبۃ والاجتھاد لا علی البدع من اتخاذ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدا امع اختلاف الناس فی مولدہ فان ھذا لم یفعلہ السلف مع قیام المقتضی لہ وعدم المانع منہ ولو کان ھذا خیرا اوراجحاً لکان السلف احق بہ منا فانہم کانوا اشد محبۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و تعظیماً لہ منا وھم علی الخیر احرص و انما کمال محبتہ وتعظیمہ فی متابعتہ واتباع امرہ واحیاء سنتہ ظاہرًا وباطنًا ونشر ما بعث بہ والجھاد علی ذلک بالقلب والید واللسان فان ھذہ طریقۃ السابقین الاولین من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان الخ۔(دلیل الطالب ص:۴۱۰)
کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب اقتضاء صراط مستقیم میں فرماتے ہیں۔ اور اسی طرح وہ چیز ہے جس کو بعض لوگوں نے بدعت کے طور پر نکال رکھا ہے یا تو وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے میلاد منانے میں عیسائیوں کی مشابہت میں ایسا کرتے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ ان کو ثواب دے گا اس محبت اور کوشش پر نہ کہ اس بدعت پر جو انہوں نے محفل میلاد کو عید کی صورت میں بنا رکھا ہے حالانکہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے میں لوگوں کا اختلاف ہے پس تحقیق یہ میلاد منانا ایسا کام ہے جو باوجود تقاضا اور عدم مانع کے جس کو سلف صالحین نے نہیں کیا اور اگر یہ میلاد منانا خیر ہوتا یا راجح ہوتا تو سلف صالحین اس کے کرنے میں ہم سے زیادہ حق دار تھے بیشک یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم سے زیادہ محبت اور تعظیم کرتے تھے اور وہ نیکی کے کام میں ہم سے زیادہ حریص تھے۔ تحقیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت اور ظاہری و باطنی تعظیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونے میں اور جس دین کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے ہیں دل و جان کے ساتھ اس کے پھیلانے اور کوشش کرنے میں ہے کیونکہ یہی طریقہ سب سے پہلے سبقت کرنے والوں مہاجرین والانصار والذین اتبعوھم کا ہے (انتھی ماقال شیخ الاسلام) دیکھو اس عبارت میں تو خط کشیدہ واضح الفاظ میں امام صاحب فرما رہے ہیں کہ ان لوگوں کو میلاد منانے کا ثواب نہیں ملے گا جس کو سلف صالحین نے نہیں کیا ، اگر ثواب ملے گا تو فقط محبت اور اس کی کوشش کا ملے گا۔ لہٰذا امام صاحب کی طرف یہ کہنا کہ وہ میلاد شریف منانے کو ثواب کا کام سمجھتے تھے ان کی طرف یہ نسبت غلط اور جھوٹ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ملک تلمسان کے سلطان کی محفل کے انعقاد کا ذکر

سعیدی (دلیل نمبر۱۰) علامہ محمد رضا مصری غیر مقلد نے ملک تلمسان کے سلطان کی محفل کے انعقاد کا ذکر نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۲)۔

محمدی: ملک تلمسان نے جو محفل منعقد کی اس کی منعقدہ محفل ہمارے لئے کوئی حجت تونہیں بن گئی اور نہ علامہ محمد رضا کے اس محفل میلاد کے ذکر کرنے سے اس کے نزدیک جواز ثابت ہوتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
متحدہ عرب امارات کے چیف جسٹس کا بیان

سعیدی: متحدہ عرب امارات کے چیف جسٹس علامہ عبد العزیز مبارک فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے اور تقاریب میں سے ایک تقریب ہے اور وہ چیز جو فرحت و سرور کا باعث ہو ، آپ کی ولادت کے دن مباح و جائز ہے…اور یہ دعویٰ کرنا کہ عید میلاد اہل ایمان کی مشروع تقریبوں میں نہیں، مناسب نہیں اور اس کو نیروز اور مہرجان یعنی یہودیوں و عیسائیوں کی رسموں سے تشبیہ دینا ایک ایسا امر ہے جو سلیم الطبع انسان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف کرنے کے برابر ہے۔ (روزنامہ جنگ ۲۹دسمبر ۱۹۸۱) (ہم میلاد کیوں مناتے ہیں ص:۱۲)
مفتی محمد حسین نعیمی کا بیان

محمدی اول: ہم اس چیف جسٹس کو نہیں جانتے لیکن مفتی محمد حسین صاحب نعیمی بریلوی کو جانتے ہیں جو بریلویوں کا معروف عالم دین اور جامعہ نعیمیہ لاہور کا مہتمم اور سابق وفاتی مجلس شوریٰ کا رکن رہا ہے۔ اسی کا فتویٰ اور بیان اسی روزنامہ جنگ ۱۳اکتوبر ۱۹۸۴ء میں چھپا ہے کہ عاشورہ اور بارہ ربیع الاول کے جلسے اور جلوس یادگاروں کے سلسلے میں نکالے جاتے ہیں اور یہ مذھبی نقطہ نگاہ سے نہ فرض ہیں نہ واجب بلکہ ان کا نکالا جانا مستحسن ہے انہوں نے کہا کہ ہر وہ کام جس سے کسی نقصان کا احتمال ہو اس پر پابندی لگا دینا ضروری ہے انسانیت کو قتل عام سے بچانے کیلئے مستحسن چیزوں کو ترک کیا جا سکتا ہے ایسے جلوس دیگر اسلامی ممالک میں اس لئے نہیں نکالے جاتے کہ یہ دین کا حصہ نہیں ہیں۔ آج کے حالات میں یہ ضروری ہے کہ ایسے جلوسوں پر فوری پابندی عائد کر دی جائے(روزنامہ جنگ ۱۳اکتوبر ۱۹۸۴ء)

تو بقول نعیمی صاحب یہ میلاداور محرم کے جلوس فتنہ و فساد کے باعث ہیں ان کو فوری بند کر دینا چاہئے تا کہ انسانیت کو سکون ملے۔ جادو وہ سر پر چڑھ کر بولے۔ الفضل ما شھدت بہ الاعداء۔

دوم: چیف جسٹس صاحب نے اپنی بات پر کوئی شرعی دلیل پیش نہیں کی بلکہ یہ ان کی رائے ہے جو دلیل نہیں ہے جیسا کہ خط کشیدہ عبارت سے واضح ہو رہا ہے۔

سوم: اگر چیف جسٹس نے یوں لکھا ہے اور وہ چیز جو فرحت وسرور کا باعث ہو آپ کی ولادت کے دن مباح و جائز ہے تو اس کے مقابلہ میں میلادیوں کے علامہ و مفتی پاکستان کی وفاقی مجلس شوری رکن نعیمی صاحب نے یوں لکھا ہے کہ ہر وہ کام جس سے کسی نقصان کا احتمال ہو اس پر پابندی لگا دینا ضروری ہے تو کیا مفتی صاحب کی اس عبارت سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ میلاد وغیرہ کے جلوس فتنہ و فساد کے باعث ہیں ، ان کو بند کر دینا چاہئے۔
 
Top