• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نئے سال کی ایک دعا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.

اس دعا کی تحقیق مطلوب ہے. کیا یہ دعا نئے سال پر پڑھنا درست ہے؟؟؟
حدثني إبراهيم بن هانئ بن أصبغ قال: أخبرني ابن وهب, عن حيوة, عن أبي عقيل, عن جده عبد الله بن هشام قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعلمون هذا الدعاء كما يتعلمون القرآن, إذا دخل الشهر أو السنة: (اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان والسلامة والإسلام وجوار من الشيطان ورضوان من الرحمن)
(معجم الصحابہ للبغوی: 1539)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ الاصابہ میں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں اسکو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وهذا موقوف على شرط الصحيح

کیا انکی بات درست ہے؟؟؟ اور یہاں الصحیح سے مراد کیا صحیح بخاری ہے؟؟؟

امید ہے کہ جلد ہی جواب سے نوازا جاۓ گا.
بارک اللہ فیکم
جزاکم اللہ خیرا
محترم شیخ @خضر حیات حفظک اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ.

اس دعا کی تحقیق مطلوب ہے. کیا یہ دعا نئے سال پر پڑھنا درست ہے؟؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پیارے بھائی
حافظ ابن حجرؒ کا اس حدیث کو " الصحیح " کی شرط پر کہنا صحیح ہے
یہاں الصحیح سے مراد میرا خیال ہے صحیح بخاری ہے
لیکن ملحوظ رہے کہ یہ حدیث امام بغویؒ نے معجم الصحابہ میں جس سند سے نقل فرمائی ہے اس اسناد سے حافظ صاحب کا حکم صحیح ہے ،
جبکہ امام ابوالقاسم الطبرانی ؒ نے جس سند سے اسے روایت کیا وہ انتہائی ضعیف ہے ، وہ سند اور متن درج ذیل ہے
" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الصَّائِغُ قَالَ: نا مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ قَالَ: نا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي عُقَيْلٍ زُهْرَةُ بْنُ مَعْبَدٍ، عَنْ جَدِّهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَتَعَلَّمُونَ هَذَا الدُّعَاءَ إِذَا دَخَلْتِ السَّنَةُ أَوِ الشَّهْرُ: اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ»
لَا يُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِشَامٍ إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ "


قال الشيخ الألباني :" قلت : فيه رشدين بن سعد ، وهو ضعيف " [ سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ( ج 8 / ص 6 حديث رقم 3504) ]
اب تک کی بحث و تفتیش کے مطابق لکھ رہا ہوں ، مزید نظر ڈال رہا ہوں
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم اسحاق سلفی صاحب نے مناسب جواب دے دیا ہے ، اس حوالے سے تقریبا ایک ہفتے سے علماء کے گروپس میں بحث چھڑی ہوئی ہے ، شیخ کفایت اللہ ، شیخ رفیق طاہر ، شیخ ابو مریم اور شیخ الشیوخ حافظ محمد شریف صاحب وغیرہم ، سب نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے ۔
گو جنہوں نے اس کو ضعیف کہا ہے، ان کے پیش نظر صرف طبرانی والی سند ہوگی ، جس میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے ، لیکن معجم الصحابہ للبغوی میں یہ علت موجود نہیں ۔ اس لیے موقوفا یہ روایت صحیح ہے ۔
البتہ بعض اہل علم معجم الصحابہ للبغوی والی سند پر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں ابن وہب مدلس راوی ہے ، لیکن صحیح بات یہی لگتی ہے کہ ابن وہب کی تدلیس یہاں علت نہیں بن سکتی ، کیونکہ ابن وہب طبقہ اولی کا مدلس ہے ، جن کی روایات کو ائمہ نے قبول کیا ہے ۔ اسی طرح بعض علما نے یہ بھی کہا کہ ابن وہب کی تدلیس سے مراد عام تدلیس نہیں بلکہ تدلیس فی الاحازۃ ہے ، جو کہ مضر نہیں ۔ واللہ اعلم ۔
 
Top