• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم نئے معاشرے کی تشکیل

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نئے معاشرے کی تشکیل

ہم بیا ن کر چکے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ ۱۲ ؍ ربیع الاول ۱ ھ مطابق ۲۷؍ ستمبر ۶۲۲ ء کو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی۔ پھر آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر منتقل ہوگئے تھے۔
مسجد نبوی کی تعمیر:
اس کے بعد نبیﷺ کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپﷺ نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاںآپﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی۔ اس زمین کے مالک دویتیم بچے تھے۔ آپﷺ نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس ِنفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے۔ آپﷺ اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے تھے :


اللہم لا عیش إلا عیش الآخرۃ
فاغفر للأنصار والمہاجرۃ


''اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ، پس انصار ومہاجرین کو بخش دے۔''
یہ بھی فرماتے :


ہذا الحمال لا حمال خیبر
ہـذا أبـر ربنــا وأطہـر


''یہ بوجھ خیبر کا بوجھ نہیں ہے۔ یہ ہمارے پروردگار کی قسم زیادہ نیک اور پاکیزہ ہے۔''
آپﷺ کے اس طرزِ عمل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جوش و خروش اور سرگرمی میں بڑا اضافہ ہوجاتا تھا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے تھے :


لئن قعدنا والنبی یعمل
لذاک منا العمل المضلل


''اگر ہم بیٹھے رہیں اور نبیﷺ کام کریں تو ہمارا یہ کام گمراہی کا کام ہوگا۔''
اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں، کچھ ویرانہ بھی تھا۔ کھجور اور غَرْ قَد کے چند درخت بھی تھے۔ رسول اللہﷺ نے مشرکین کی قبریں اکھڑوا دیں ، ویرانہ برباد کرادیا ، اور کھجور وں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگادیا۔ ...اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا...دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے۔ دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں۔ چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوادیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنادیے گئے۔ زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھادی گئیں۔ تین دروازے لگا ئے گئے۔ قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی۔ چوڑائی بھی اتنی یااس سے کچھ کم تھی۔ بنیاد تقریباًتین ہاتھ گہری تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آپﷺ نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی۔ یہی آپﷺ کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے۔ ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے۔1
مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے۔ نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارانظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں۔ علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے۔
ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعدادکا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال۔
پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی۔ یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روز انہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا۔ یہ روز انہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمدﷺ اللہ کے پیغامبر ہیں۔ یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا۔ اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہؓ کو حاصل ہوا اور رسول اللہﷺ نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطابؓ نے بھی دیکھا۔ (تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے )2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰ - زاد المعاد ۲/۵۶۔
2 ترمذی ، صلاۃ ، بدء الاذان ح ۱۸۹ (۱/۳۵۸ ، ۳۵۹ ) ابو داؤد ، احمد وغیرہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسلمانوں میں بھائی چارگی:
جس طرح رسول اللہﷺ نے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرماکر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا اسی طرح آپﷺ نے تاریخ ِ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ ابن قیم لکھتے ہیں :
پھر رسول اللہﷺ نے حضرت انس بن مالکؓ کے مکان میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ کل نوے آدمی تھے ، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار۔ بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابتداروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ وراثت کا یہ حکم جنگ ِ بدر تک قائم رہا ، پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ :
وَأُولُو الْأَرْ‌حَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ
(۳۳: ۶)''نسبتی قرابتدار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔'' (یعنی وراثت میں )
توانصار ومہاجرین میں باہمی توارُث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ آپﷺ نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے۔ یوںبھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت ، وطنی اخوت اور رشتہ وقرابتداری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ 1
اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں۔ نسل ، رنگ اور وطن کے امتیاز ات مٹ جائیں۔ موالات اور برا ء ت کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔
اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور موانست اور خیر وبھلائی کرنے کے جذبات مخلوط تھے، اسی لیے اس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔
چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہﷺ نے عبد الرحمن بن عوفؓ اور سعدؓ بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عبدالرحمنؓ سے کہا: ''انصار میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں۔ آپ میرا مال دوحصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں) اور میری دوبیویاں ہیں، آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو مجھے بتادیں میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔'' حضرت عبد الرحمنؓ نے کہا: اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے۔ آپ لوگوں کا بازار کہا ں ہے ؟ لوگوں نے انہیں بنو قینقاع کا بازار بتلادیا۔ وہ واپس آئے تو ان کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پاس کچھ فاضل پنیر اور گھی تھا۔اس کے بعدوہ روزانہ جاتے رہے، پھر ایک دن آئے تو اُن پر زردی کا اثر تھا۔ نبیﷺ نے دریافت فرمایا : یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا :میں نے شادی کی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : عورت کو مہر کتنا دیا ہے ؟ بولے : ایک نواۃ (گٹھلی ) کے ہموزن (یعنی کوئی سواتولہ ) سونا۔1
اسی طرح حضرتِ ابو ہریرہؓ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبیﷺ سے عرض کیا : آپﷺ ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرمادیں۔ آپﷺ نے فرمایا : نہیں۔ انصار نے کہا : تب آپ لوگ، یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے۔ انہوں نے کہا : ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی۔2
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیاتھا اور کس قدر محبت ، خلوص ، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم ونوازش کی کتنی قدر کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا کو ئی غلط فائد ہ نہیں اٹھا یا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمرسیدھی کرسکتے تھے۔
اور حق یہ ہے کہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت ، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔
اسلامی تعاون کا پیمان: 3
مذکوہ بھائی چارے کی طرح رسول اللہﷺ نے ایک اور عہد وپیمان کرایا جس کے ذریعے ساری جاہلی کشاکش اور قبائلی کشمکش کی بنیاد ڈھادی اور دور جاہلیت کے رسم ورواج کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی۔ ذیل میں اس پیمان کو اس کی دفعات سمیت مختصراً پیش کیا جارہا ہے۔
یہ تحریر ہے محمدنبیﷺ کی جانب سے قریشی ، یثربی اور ان کے تابع ہوکر ان کے ساتھ لاحق ہونے اور جہاد کرنے والے مومنین اور مسلمانوں کے درمیان کہ :
یہ سب اپنے ماسوا انسانوں سے الگ ایک امت ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری : باب اخاء البنی ﷺ بین المہاجرین والانصار ۱/۵۵۳
2 ایضاً باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل ۱/۲۱۳
3 یہ عہد وپیمان امت کی تاسیس وتکوین کا درمیانی مرحلہ ہے۔ ورنہ خود اسلام نے مسلمانوں کو باہم اس طرح مربوط کردیا ہے کہ اب ان میں کسی عہد وپیمان کی ضرورت نہیں رہی۔ بلکہ اسلام کے معین کردہ حقوق ہی ایجاب تعاون کے لیے کافی ہیں۔ یہی معنی ہے اس حدیث کا کہ اسلام میں کوئی حلف نہیں اور جاہلیت کا کوئی حلف ہوتو اسے اسلام مزید پختہ ہی کرتا ہے۔ (مسلم فضائل الصحابہ ، باب المواخاۃ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مہاجرین ِ قریش اپنی سابقہ حالت کے مطابق باہم دیت کی ادائیگی کریں گے اور مومنین کے درمیان معروف اور انصاف کے ساتھ اپنے قیدی کا فدیہ دیں گے۔ اور انصار کے تمام قبیلے اپنی سابقہ حالت کے مطابق باہم دیت کی ادائیگی کریں گے اور ان کا ہرگروہ معروف طریقے پر اور اہل ِ ایمان کے درمیان انصاف کے ساتھ اپنے قیدی کا فدیہ ادا کرے گا۔

اور اہل ِ ایمان اپنے درمیان کسی بیکس کو فدیہ یا دیت کے معاملے میں معروف طریقے کے مطابق عطا ونوازش سے محروم نہ رکھیں گے۔

اور سارے راست باز مومنین اس شخص کے خلاف ہوں گے جوان پرزیادتی کرے گا یا ان کے درمیان ظلم اور گناہ اور زیادتی اور فساد کی راہ کا جویا ہوگا۔

اور یہ کہ ان سب کے ہاتھ اس شخص کے خلاف ہوں گے، خواہ وہ ان میں سے کسی کا لڑکا ہی کیوں نہ ہو۔

کوئی مومن کسی مومن کو کافر کے بدلے قتل کرے گا اورنہ ہی کسی مومن کے خلاف کسی کافر کی مدد کرے گا۔

اور اللہ کا ذِمّہ (عہد) ایک ہوگا، ایک معمولی آدمی کا دیا ہوا ذمہ بھی سارے مسلمانوں پر لاگو ہوگا۔

جو یہود ہمارے پیروکار ہوجائیں ، ان کی مدد کی جائے گی اور وہ دوسرے مسلمانوں کے مثل ہوں گے۔ نہ ان پر ظلم کیا جائے گا اور نہ ان کے خلاف تعاون کیا جائے گا۔
( مسلمانوں کی صلح ایک ہوگی۔ کوئی مسلمان کسی مسلمان کو چھوڑ کر قتال فی سبیل اللہ کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرے گا بلکہ سب کے سب برابر ی اور عدل کی بنیاد پر کوئی عہد وپیمان کریں گے۔) مسلمان اس خون میں ایک دوسرے کے مساوی ہوں گے جسے کوئی فی سبیل اللہ بہائے گا۔

کوئی مشرک قریش کی کسی جان یامال کو پناہ نہیں دے سکتا اور نہ کسی مومن کے آگے اِس کی حفاظت کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔

جو شخص کسی مومن کو قتل کرے گا اور ثبوت موجود ہوگا ، اس سے قصاص لیا جائے گا۔ سوائے اس صورت کے کہ مقتول کا ولی راضی ہوجائے۔

اور یہ کہ سارے مومنین اس کے خلاف ہوں گے۔ ان کے لیے اس کے سوا کچھ حلال نہ ہوگا کہ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔

کسی مومن کے لیے حلال نہ ہوگا کہ کسی ہنگامہ برپا کرنے والے (یا بدعتی) کی مدد کرے اور اسے پناہ دے ، اور جو اس کی مدد کرے گا یا اسے پناہ دے گا ، اس پر قیامت کے دن اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہوگا اور اس کا فرض ونفل کچھ بھی قبول نہ کیا جائے گا۔
.
تمہارے درمیا ن جو بھی اختلاف رُونما ہوگا اسے اللہ عزوجل اور محمدﷺ کی طرف پلٹایا جائے گا۔ 1

معاشرے پر معنویات کا اثر:
اس حکمتِ بالغہ اور اس دُور اندیشی سے رسول اللہﷺ نے ایک نئے معاشرے کی بنیادیں اُستوارکیں، لیکن معاشرے کا ظاہری رُخ درحقیقت ان معنوی کمالات کا پر توتھا جس سے نبیﷺ کی صحبت وہم نشینی کی بدولت یہ بزرگ ہستیاں بہرہ ور ہوچکی تھیں۔ نبیﷺ ان کی تعلیم وتربیت ، تزکیۂ نفس اور مکارمِ اخلاق کی ترغیب میں مسلسل کوشاں رہتے تھے اور انہیں محبت وبھائی چارگی ، مجدوشرف اور عبادت واطاعت کے آداب برابر سکھاتے اور بتاتے رہتے تھے۔
ایک صحابیؓ نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ (یعنی اسلا م میں کون سا عمل بہتر ہے ؟) آپﷺ نے فرمایا : ''تم کھانا کھلاؤ اور شناسا اور غیرشناسا سبھی کو سلام کرو۔''2
حضرت عبد اللہ بن سلامؓ کا بیان ہے کہ جب نبیﷺ مدینہ تشریف لائے تو میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب میں نے آپﷺ کا چہرہ ٔ مبارک دیکھا تو اچھی طرح سمجھ گیا کہ یہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ پھر آپﷺ نے پہلی بات جو ارشاد فرمائی وہ یہ تھی :''اے لوگو! سلام پھیلاؤ ، کھانا کھلاؤ ، صلہ رحمی کرو، اور رات میں جب لوگ سورہے ہوں نماز پڑھو۔ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے۔''3
آپﷺ فرماتے تھے : ''وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور تباہ کاریوں سے مامون ومحفوظ نہ رہے۔''3
اور فرماتے تھے :''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔''4اور فرماتے تھے : ''تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''5
اور فرماتے تھے :'' سارے مومنین ایک آدمی کی طرح ہیں کہ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہوتو سارے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے۔''6
اور فرماتے :''مومن ،مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا بعض بعض کو قوت پہنچا تا ہے۔''7
اور فرماتے :'' آپس میں بغض نہ رکھو ، باہم حسد نہ کرو ، ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کو تین دن سے اوپر چھوڑے رہے۔''8
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۵۰۲، ۵۰۳ 2 صحیح بخاری ۱/۶، ۹
3 ترمذی۔ ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۸ 4 صحیح مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲
5 ،6 صحیح بخاری ۱/۶ 7 مسلم ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲
8متفق علیہ ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۲ صحیح بخاری ۲/۸۹۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اور فرماتے :''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے دشمن کے حوالے کرے ، اورجو شخص اپنے بھائی کی حاجت (برآری) میں کوشاںہوگا اللہ اس کی حاجت (برآری) میں ہوگا ، اور جو شخص کسی مسلمان سے کوئی غم اور دُکھ دُور کرے گا اللہ اس شخص سے روز قیامت کے دُکھوں میں سے کوئی دُکھ دُور کرے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔''1
اور فرماتے:''تم لوگ زمین والوں پر مہربانی کرو تم پر آسمان والا مہربانی کرے گا۔''2
اورفرماتے :''وہ شخص مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کھالے اوراس کے بازو میں رہنے والا پڑوسی بھوکا رہے۔''3
اور فرماتے :''مسلمان سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے اوراس سے مارکاٹ کرنا کفر ہے۔'' 4
اسی طرح آپﷺ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو صدقہ قرار دیتے تھے اور اسے ایمان کی شاخوں میں سے ایک شاخ شمار کرتے تھے۔5
نیز آپﷺ صدقے اور خیرات کی ترغیب دیتے تھے اور اس کے لیے ایسے ایسے فضائل بیان فرماتے تھے کہ اس کی طرف دل خود بخود کھنچتے چلے جائیں ، چنانچہ آپﷺ فرماتے کہ صدقہ گناہوں کو ایسے ہی بجھادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔7
اور آپﷺ فرماتے کہ جو مسلمان کسی ننگے مسلمان کوکپڑا پہنادے اللہ اسے جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلادے اللہ اسے جنت کے پھَل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلادے اللہ اسے جنت کی مُہر لگی ہوئی شراب طہور پلائے گا۔''8
آپﷺ فرماتے :''آگ سے بچو اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کرکے ، اور اگر وہ بھی نہ پاؤ تو پاکیزہ بول ہی کے ذریعے۔''9
اور اسی کے پہلو بہ پہلو دوسری طرف آپﷺ مانگنے سے پرہیز کی بھی بہت زیادہ تاکید فرماتے ، صبر وقناعت کی فضیلتیں سناتے اور سوال کرنے کو سائل کے چہرے کے لیے نوچ ، خراش اور زخم قرار دیتے۔0 البتہ اس سے اس شخص کو مُستثنیٰ قرار دیا جو حد درجہ مجبور ہوکر سوال کرے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح بخاری ۲/۸۹۶ 2 متفق علیہ مشکوٰۃ ۲/۴۲۲
3 سنن ابی داؤد ۲/ ۳۳۵۔ جامع ترمذی ۲/۱۴ 4 شعب الایمان للبیہقی ، مشکوٰۃ ۲/۴۲۴
5 صحیح بخاری ۲ /۸۹۳
6 اس مضمون کی حدیث صحیحین میں مروی ہے۔ مشکوٰۃ ۱/۱۲، ۱۶۷
7 احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ۔ مشکوٰۃ ۱/۱۴
8 سنن ابی داؤد ، جامع ترمذی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۹
(صحیح بخاری ۱/۱۹۰، ۲/۸۹۰
)دیکھئے : ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، مشکوٰۃ ۱/۱۶۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسی طرح آپﷺ یہ بھی بیان فرماتے کہ کن عبادات کے کیا فضائل ہیں اور اللہ کے نزدیک ان کا کیا اجر وثواب ہے؟ پھر آپﷺ پر آسمان سے جو وحی آتی آپﷺ اس سے مسلمانوں کو بڑی پختگی کے ساتھ مربوط رکھتے۔ آپﷺ وہ وحی مسلمانوں کو پڑھ کرسناتے اور مسلمان آپﷺ کو پڑھ کر سناتے تاکہ اس عمل سے ان کے اندر فہم و تدبر کے علاوہ دعوت کے حقوق اور پیغمبرانہ ذمّے داریوں کا شعور بیدار ہو۔
اسی طرح رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی اخلاقیات بلند کیں ، ان کی خداداد صلاحیتوں کو عروج بخشا اور انہیں بلند ترین اقدار وکردار کا مالک بنایا ، یہاں تک کہ وہ انسانی تاریخ میں انبیاء کے بعد فضل وکمال کی سب سے بلند چوٹی کا نمونہ بن گئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو وہ گزرے ہوئے لوگوں کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنے کا اندیشہ ہے۔ وہ لوگ نبیﷺ کے ساتھی تھے۔ اس امت میں سب سے افضل ، سب سے نیک دل، سب سے گہرے علم کے مالک اور سب سے زیادہ بے تکلف۔ اللہ نے انہیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا، لہٰذا ان کا فضل پہچانو اور ان کے نقش ِ قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہوان کے اخلاق اور سیرت سے تمسک کرو کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے صراطِ مستقیم پر تھے۔ 1
پھر ہمارے پیغمبر رہبر اعظمﷺ خود بھی ایسی معنوی اور ظاہری خوبیوں، کمالات، خداداد صلاحیتوں ، مجد وفضائل مکارمِ اخلاق اور محاسن ِ اعمال سے متصف تھے کہ دل خودبخودآپ کی جانب کھنچے جاتے تھے اور جانیں قربان ہوا چاہتی تھیں۔ چنانچہ آپﷺ کی زبان سے جونہی کوئی کلمہ صادر ہوتا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی بجا آوری کے لیے دوڑ پڑتے اور ہدایت ورہنمائی کی جو بات آپﷺ ارشاد فرمادیتے اسے حرزِجان بنانے کے لیے گویا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بازی لگ جاتی۔
اس طرح کی کوشش کی بدولت نبیﷺ مدینے کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جو تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھر پور معاشر ہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پِس کر اور اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مارکر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔
اس نئے معاشرے کے عناصر ایسی بلند وبالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے کے ہر جھٹکے کا مقابلہ کرکے اس کا رُخ پھیر دیا اور تاریخ کا دھارابدل دیا۔

****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 رزین ، مشکوٰۃ ۱/۳۲
 
Top