• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نائن الیون کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دیں گے

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
نائن الیون کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے
اثاثے فروخت کر دیں گے، سعودی عرب نے امریکہ میں کھلبلی مچا دی
16 اپریل 2016 (21:02)

واشنگٹن (خصوصی رپورٹ) سعودی عرب نے امریکہ کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرامریکہ نے کوئی ایسا قانون یا بِل منظور کیا جس کے تحت امریکی عدالت نے سعودی عرب کو گیارہ ستمبر کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تو سعودی عرب امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا، دوسری جانب صدر براک اوباما بدھ کو ریاض پہنچیں گے جہاں وہ شاہ سلیمان اوراعلیٰ سعودی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔


امریکی اخبار ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے مطابق گزشتہ کئی ہفتوں سے اوباما انتظامیہ کانگریس کے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن ارکان کو قائل کرنے میں مصروف ہے کہ وہ کانگریس میں اس قسم کے بل کو روکنے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے سے سعودی عرب کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ اور وزارت دفاع کے حکام اور کانگریس کے درمیان بھی بہت لے دے ہو رہی ہے۔

خارجہ اور دفاعی امور کے سینیئر حکام نے دونوں جماعتوں کے اراکین سینیٹ کو خبردار کیا ہے کہ اگر سعودی عرب کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی ہوتی ہے تو امریکہ کے لیے سفارتی اور معاشی حوالے سے اس کے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے یہ پیغام ذاتی طور پر وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اس وقت پہنچایا تھا جب وہ گزشتہ ماہ واشنگٹن گئے تھے۔ انھوں نے کانگریس کے ارکان کو بتایا تھا کہ اگر سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ کسی نئے قانون کے تحت امریکہ میں موجود سعودی اثاثوں کو منجمند کیا جا سکتا ہے تو سعودی عرب یہ اثاثے فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیگا۔

اس وقت امریکہ میں سعودی عرب کے 750 ارب ڈالر امریکی خزانے کی سکیوریٹیز کی شکل میں موجود ہیں۔ اگرچہ عالمی معاشی امور کے کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب اس قسم کا کوئی قدم نہیں اٹھائیگا کیونکہ ایسا کرنا اس کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ اس سے سعودی عرب کی اپنی معشیت بہت خراب ہو جائے گی، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو اس قسم کی دھمکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنا کی کیفیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اوباما انتظامیہ کا موقف ہے کہ اس قسم کی قانون سازی سے ان امریکیوں کو خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے جو ملک سے باہر ہیں۔ اسی لیے سرکاری حکام بڑی شد و مد سے کانگریس کے ارکان کو سعودی عرب کے خلاف کوئی بِل پاس کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اوباما انتظامیہ کی جانب سے یہ پسِ پردہ کوششیں اتنی زیادہ ہوئی ہیں کہ کچھ ارکان اور گیارہ ستمبر کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین اوباما انتظامیہ پر خاصے برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس حلقے کا خیال ہے کہ اوباما انتظامیہ مسلسل سعودی عرب کی حمایت کر رہی ہے صدر براک اوباما بدھ کو ریاض پہنچ رہے ہیں جہاں وہ شاہ سلیمان اور دیگر سعودی حکام سے ملاقاتیں کریں گے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان ملاقاتوں میں وہ آیا گیارہ ستمبر کے حوالے سے مجوزہ قانون سازی کا معاملہ اٹھائیں گے یا نہیں۔ جب اس معاملے پر امریکہ میں سعودی عرب کے سفارتخانے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

یاد رہے کہ سعودی حکام ایک عرصے سے اس الزام سے انکار کرتے آ رہے ہیں کہ گیارہ ستمبر کے حملوں میں سعودی عرب کا کوئی کردار تھا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ان حملوں کے حوالے سے قائم ہونے والے 9/11 کمیشن کا کہنا تھا کہ کمیشن کو بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا کہ بطور ادارہ سعودی حکومت یا سینیئر سعودی عہدیداروں نے ذاتی حیثیت میں یہ حملے کرنے میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں اس بات کا امکان نظر آتا ہے کہ شاید سعودی عرب کے کم سینیئر درجے کے حکام یا سعودی حکومت کے کچھ حصوں نے ان حملوں میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔

کمیشن کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد سے سعودی عرب کے حوالے سے الزامات کا سلسلہ جاری رہا ہے، جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سنہ 2002 میں امریکی کانگریس نے گیارہ ستمبر کے حملوں کی جو تفتیش کی تھی اس کے نتائج میں کچھ ایسے شواہد کا ذکر کیا گیا تھا جن کے مطابق ان حملوں کی منصوبہ سازی میں کچھ ایسے سعودی حکام کا ہاتھ ہو سکتا ہے جو اس وقت امریکہ میں موجود تھے۔

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
امریکہ نے سعودی عرب کے خلاف بڑا فیصلہ کر لیا، سنگین ترین خطرہ پیدا ہو گیا
25 اپریل 2016 (20:28)
روزنامہ پاکستان

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی تاریخ کے سب سے بڑے دہشتگردی حملے میں سعودی عرب کو ملوث کرنے کی سازش اپنے آخری مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے اور اب کسی بھی وقت 9/11 انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے وہ صفحات منظر عام پر آ سکتے ہیں کہ جو امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیں گے۔

اخبار ڈیلی میل کے مطابق امریکی حکومت 9/11 رپورٹ کے سعودی عرب سے متعلقہ 28 صفحات کا کچھ حصہ منظر عام پر لانے کی تیاری کر چکی ہے اور اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ ان صفحات میں سے کون سے حصے ابتدائی مرحلے میں دنیا کے سامنے لائے جا سکتے ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بین روڈز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صدر اوباما نے نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر کو مذکورہ صفحات کا جائزہ لینے کا حکم دے دیا ہے تاکہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کونسے حصے شائع کئے جائیں۔

امریکی سینیٹر باب گراہم کا کہنا ہے کہ 9/11 دہشت گردی کے ذمہ دار 19 دہشت گردوں میں سے 15 سعودی شہری تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ان 19 افراد نے اتنی بڑی کارروائی اپنے طور پر کی یا انہیں کوئی حکومت مدد فراہم کر رہی تھی۔ ان کا اشارہ سعودی حکومت کی طرف ہے۔


9/11 تحقیقاتی کمیشن میں شامل رہنے والے ٹم رومر کہتے ہیں کہ یہ 28 صفحات ابتدائی پولیس رپورٹ جیسے ہیں، جن میں الزامات، اشارے، گواہان کے بیانات، ہائی جیکروں کے متعلق معلومات اور مختلف لوگوں سے ان کی ملاقاتوں کے شواہد موجود ہیں۔

واضح رہے کہ 9/11 تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ 838 صفحات پر مشتمل تھی، جن میں سے متنازعہ 28 صفحات کی اشاعت اس وقت امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے حکم پر روک دی گئی تھی۔

 
Top