محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۱۸۸ۧ
وکالت کی موجودہ صورت جس میں صرف قانون کی نزاکت اورلچک کا خیال رکھاجاتا ہے ، اس ضمن میں آجاتی ہے۔موجودہ تہذیب کی متعدد لعنتوں میں سے ایک لعنت وکالت بھی ہے جو قوم کے اخلاق کوبدرجۂ غایت تباہ کرنے والی ہے ۔ اس کا مقصد اکثر جلب زرہوتا ہے ۔ چاہے کسی سچے انسان کا خون ہوجائے۔ ان آیات میں تصریح موجود ہے کہ کسی جرم کے علم ہوجانے کے بعد اس کی حمایت ناجائزہے۔
صرف یہ عذر کہ قانون میں گنجائش ہے ، کافی نہیں، اس لیے کہ وکلا یقینا جانتے ہیں کہ بعض اوقات قانون کے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔یا کم از کم ان کا منشا یہ نہیں، اس لیے اسلام کے نظام عدالت میں پیشہ ور وکیلوں کا کہیں ذکر نہیں، کیوں کہ اس سے براہ ِ راست جرائم پھیلتے ہیں۔ جب مجرم کو یہ معلوم ہو کہ ہرجرم کے لیے چاہے وہ کتنا ہی سنگین ہو ، ایک قابل وکیل مل سکتا ہے جو اس کا جرم ثابت نہ ہونے دے گاتو اس کے شوقِ جرم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح دنیا میں جرائم کی افزائش ہوتی ہے جو عدل وانصاف کے خلاف ہے ۔
ورآپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اس کو حکام تک پہنچاؤ کہ گناہ کے ساتھ آدمیوں کے مال میں کچھ کاٹ کوٹ کے کھاجاؤ اور تم کو معلوم ہے۔۱؎(۱۸۸)
۱؎ ان آیات میں نیک چلن رہنے کی تلقین فرمائی ہے، اس لیے کہ روزہ کا مقصد ہی کردار واخلاق میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے ۔ فرمایا کہ باطل اور مضر اخلاق وسائل سے روپیہ حاصل نہ کرو۔ یعنی خواہ مخواہ کی مقدمہ بازی اور دلالی جس سے مقصود روپیہ کا حصول ہو،ناجائز ہے ۔ناحق مال کھانا، جرائم اور پیشہ وکالت کا ربط
وکالت کی موجودہ صورت جس میں صرف قانون کی نزاکت اورلچک کا خیال رکھاجاتا ہے ، اس ضمن میں آجاتی ہے۔موجودہ تہذیب کی متعدد لعنتوں میں سے ایک لعنت وکالت بھی ہے جو قوم کے اخلاق کوبدرجۂ غایت تباہ کرنے والی ہے ۔ اس کا مقصد اکثر جلب زرہوتا ہے ۔ چاہے کسی سچے انسان کا خون ہوجائے۔ ان آیات میں تصریح موجود ہے کہ کسی جرم کے علم ہوجانے کے بعد اس کی حمایت ناجائزہے۔
صرف یہ عذر کہ قانون میں گنجائش ہے ، کافی نہیں، اس لیے کہ وکلا یقینا جانتے ہیں کہ بعض اوقات قانون کے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے۔یا کم از کم ان کا منشا یہ نہیں، اس لیے اسلام کے نظام عدالت میں پیشہ ور وکیلوں کا کہیں ذکر نہیں، کیوں کہ اس سے براہ ِ راست جرائم پھیلتے ہیں۔ جب مجرم کو یہ معلوم ہو کہ ہرجرم کے لیے چاہے وہ کتنا ہی سنگین ہو ، ایک قابل وکیل مل سکتا ہے جو اس کا جرم ثابت نہ ہونے دے گاتو اس کے شوقِ جرم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح دنیا میں جرائم کی افزائش ہوتی ہے جو عدل وانصاف کے خلاف ہے ۔