• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناروے میں 100 بندوں کاقاتل اور اسلامی سزا

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
آندرے بیرنگ بریوک نامی شخص کو ناروے میں دہشت گردی کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس نے اعتراف بھی کر لیا ہے۔ وہ ایک شدت پسند عیسائی ہے۔ دائیں بازو سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دائیں بازو بھی ہر جگہ مختلف ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارے ہاں دائیں بازو ہو تو اس سے مراد مسلمان ہوتے ہیں۔ بہرحال ہر جگہ کے مذہبی لوگ اپنے سیکولر مخالفوں کے مقابل دائیں بازو کہلاتے ہیں۔ آندرے بیرنگ بریوک نے اپنے ان حملوں کو دہشت ناک مگر ”ضروری“ قرار دیا ہے۔ یہ آندرے صاحب بھی کوئی مغربی پڑھے لکھوں میں سے نکلے ہیں، انہوں نے خیال سے لے کر عمل تک اپنی پوری کہانی لکھ ڈالی ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر ذرائع کو بھی اختیار کیا گیا ہے۔ آندرے نے اپنی کہانی میں سرفہرست ایک مغربی مفکر کا قول درج کیا ہے۔ اس بیان میں بتایا گیا ہے کہ ”ایک صاحب ایمان شخص ایک لاکھ مفاد پرستوں کے برابر طاقت رکھتا ہے۔ بہرحال آندرے کی مختلف مقامات پر بکھری کہانی جمع کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے 2002ءمیں ہی اس تباہی کا پروگرام بنا لیا تھا۔
جولائی 2010ءمیں وہ ایک بلٹ پروف جیکٹ خریدنے اور اسلحہ سے بھرا ایک صندوق حاصل کر کے جنگل میں دفن کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں آندرے صاحب بتاتے ہیں کہ گڑھا کھودنا آسان کام نہیں ہوتا کیونکہ مکھیوں، مکڑوں اور سخت چٹانوں کو کھودنے میں آندرے کو دانتوں پسینہ آ گیا تھا۔ بہرحال اس نے گڑھا کھودنے کی مشکلات کو ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ قرار دیا ہے، جس میں اس کے پانچ گھنٹے صرف ہو گئے۔ اب ستمبر 2010ءمیں وہ ایک نیم خود کار رائفل اور ایک پستول حاصل کر لیتا ہے۔ ایک دفعہ کسی نیلامی سے اس نے تین بوتلیں فرانسیسی شراب کی حاصل کر لی تھیں اور ارادہ یہ تھا کہ ان میں سے دو تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ کرسمس کے موقع پر پیے گا تاہم اس نے آخری بوتل مشن پر جانے سے پہلے کسی جسم فروش عورت کے سنگ پینے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ مشن کتنا مقدس تھا اب یہ تو پتہ نہیں کہ بوتلوں کے پروگرام پر عمل ہو سکا یا نہیں تاہم وہ جو اس کا ”ضروری“ مشن تھا، اس پر نا صرف عمل ہو گیا بلکہ ساری دنیا اس اکیلے شخص کے ”مقدس مشن“ پر حیرت اور خوف سے گنگ ہو کے رہ گئی ہے۔
آپ اندازہ کریں کہ اوسلوناروے کا دارالحکومت ہے، وہاں اس نے بم دھماکہ کر دیا، بیس منزلہ سرکاری عمارت ڈھانچے میں بدل گئی، بیس میل تک دھماکے کی آواز سنی گئی، خود وزیراعظم کا دفتر بھی تباہی سے نہ بچ سکا، تاہم وزیراعظم محفوظ رہے۔
دوسرا حملہ اس نے ناروے کے ایک جزیرے ٹیویا میں کیا، جہاں کے علاقے کا نام جنت رکھا گیا تھا مگر آندرے نے وہ جنت اب جہنم بنا کے رکھ دی ہے۔
قارئین! یہ ایک دہشت گردی کا واقعہ ہے، تاہم اس پر مغرب کی طرف سے وہ واویلا نظر نہیں آ رہا جو وہ مسلمانوں کے خلاف ایسے موقعوں پر مچا دیا جاتا ہے۔ شکر ہے آندرے ”صاحبِ ایمان“ تھا اور اس نے جرم قبول کر لیا ہے، ورنہ مغرب نے اس موقع کو ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف خوب استعمال کرنا تھا۔ ابھی دھماکہ ہوا ہی تھا کہ جرار کے قطعہ نگار زاہد سعید کو ناروے کے ایک مسلمان شاعر کا پیغام موصول ہوا، اس نے لکھا، ناروے میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ”لعنت ہو مسلمانوں پر“۔
آپ اندازہ کیجئے یہ ایک مسلمان کی سوچ تھی۔ یہ سوچ بتاتی ہے کہ کفر اہل اسلام کے خلاف کس قدر پروپیگنڈا کرتا ہے، اتنا کہ دھماکہ کوئی عیسائی شدت پسند کرتا ہے، مگر بلاتحقیق مسلمانوں کے ذہن بھی فوراً مسلمانوں کے خلاف سوچنے لگتے ہیں، سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکہ ایک ہندو کرنل کرتا ہے، مگر الزام مسلمانوں کے سر آتا ہے، ممبئی میں دھماکے ہوتے ہیں تو فوراً الزام پاکستان پر ڈال دیا جاتا ہے، حالانکہ جتنی دہشت گردی مغرب نے کی اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنگ عظیم میں ایٹم امریکہ نے چلایا، بوسنیا میں مسلمان فلسطینیوں کو اپنے وطن سے بے وطن یہودیوں نے کیا۔ عراق و افغانستان جیسے ملکوں پر ننگی جارحیت اور دہشت گردی ساری مغربی دنیا نے مل کر کی۔ پاکستان میں ہوتے فسادات اور دہشت گردی کے پیچھے اب تو حکمران بھی مانتے ہیں کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گرد مسلمان ہی کہلاتے ہیں اب لیکن وقت ثابت کر رہا ہے کہ مسلمان نہیں بلکہ دہشت گرد دوسرے مذاہب کے شدت پسند ہیں، جو دراصل اسلام کے فروغ سے خائف ہیں، وہ مسلمانوں کا قتل عام بھی کرتے ہیں، ان کے ملکوں کو پامال بھی کرتے ہیں، ان کے وسائل پر قبضے بھی کرتے ہیں، مگر بدنام پھر بھی انہیں ہی کرتے ہیں، لیکن اب اللہ کے فضل سے وہ اپنے پھیلائے دہشت گردی کے جال میں خود پھنس رہے ہیں۔
قارئین! یہاں ایک بات بہت قابل ذکر ہے، آندرے نامی دہشت گرد نے 98 افراد قتل کر ڈالے، ابھی اور کتنے ہوں گے اس کا کوئی پتہ نہیں، مگر آپ کوحیرت ہو گی کہ ناروے کے قانون کے مطابق اس جرم میں آندرے کو قتل نہیں کیا جا سکتا، پھانسی کی سزا نہیں دی جا سکتی، کیونکہ وہاں کے قانون میں موت کی سزا ہے ہی نہیں اور یوں وہ زیادہ سے زیادہ 21 سال قید کی سزا پا سکے گا۔ اب 21سال کو اگر دن رات جمع کر کے دیکھا جائے اور وہ گنجائشیں نکالی جائیں جو قیدیوں کو حکومتوں کی طرف سے ملا کرتی ہیں تو کوئی تعجب نہیں وہ سات آٹھ سال بعد رہا ہو کر دوبارہ کوئی دہشت گردی کر ڈالے۔ اس پر ناروے کے عوام پھٹ پڑے ہیں، وہ اپنے قانون کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں، جہاں بے گناہ مارے جائیں، مگر قاتل دندناتے پھریں۔ میرا خیال ہے اب ناروے ہی نہیں سارے مغرب کا اگلا ہدف اپنے اپنے ملکوں کی سزاﺅں کا جائزہ لینا ہو گا۔ وہ سزائیں جو بظاہر انہوں نے انسانوں کے حق میں بنائی تھیں لیکن جب چوٹ پڑی تو پتا چلا کہ یہ انسان کے حق میں نرمی نہیں بلکہ نادانستگی میں پوری انسانیت اور ملک و ملت کے ساتھ ایک ایسا ظلم ہے جو دہشت گردوں، چوروں اچکوں اور انسانیت کے دشمنوں کے تو حق میں ہے مگر معصوم لوگوں کے لئے زہر قاتل ہے۔ چنانچہ ناروے پر حملے نے دراصل یورپ اور مغرب پر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے کہ انہیں اپنے آئین میں موجود خلا اور خامی کا احساس دلا گیا ہے۔
سبحان اللہ! قارئین! میرا مولا بھی کیا کیا منظر دکھا رہا ہے۔ یہ وہی مغرب و یورپ ہے جو کل تک اسلام کو دہشت گرد اور سخت سزا دینے والا مذہب قرار دیتے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے حکمران بھی اسلامی حدوں کو ”وحشیانہ“ قرار دیتے تھے۔ مشرف صاحب کو چوری کی سزا قبول نہیں تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ کیا میں ہاتھ کاٹ کر ساری قوم کو ٹنڈا کر دوں؟ حالانکہ اگر یہ سزا لاگو ہوتی تو ساری قوم کے نہیں بڑے بڑے وڈیروں اور لٹیروں کے ہاتھ کٹنے تھے۔
بہرحال اب وقت آ گیا ہے کہ خود مغرب کو اپنے قانون گھٹیا اور بودے لگنے لگے ہیں۔ انہیں اپنے قوانین کی بے حسی اور بے بسی کا احساس ہونے لگا ہے۔ ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب انہیں ناصرف اسلام بلکہ اس کی سزائیں بھی انسانیت پر ایک بہت بڑا انعام اور رحم محسوس ہوں گی۔ انہیں پتہ چل جائے گا کہ اگر اسلام قاتل کو قتل کرتا ہے تو یہ عمل معاشرے کو امن عطا کرتا ہے، چوری کا ہاتھ کٹتا ہے تو معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے، ان شاءاللہ وقت آئے گا کہ یورپ ہو کر کہ مغرب، انہیں اگر امن ملے گا تو اسلام سے۔ پناہ ملے گی تو اسلامی میں اور زندگی ملے گی تو اسلام سے، انتظار کیجئے۔ ان شاءاللہ اب بہت جلد یورپ و مغرب اسلام کی دہلیز پر سجدہ ریزہونے جا رہا ہے۔ اللہ یہ منظر جلد دکھائے۔ (آمین)




بشکریہ ،، ہفت روزہ جرار
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جزاکم اللہ بھائی بہت عمدہ پوسٹ کی ہے۔
ان شاء اللہ اللہ تعالی وہ وقت ضرور لائے گاجب یورپ اور مغرب اسلام کی دہلیز پر سجدہ ریزہوں گے۔ان شاء اللہ ۔ان شاء اللہ
 
Top