ہجر پابندِ ماہ و سال نہیں
ہجر کے اَوج کو زوال نہیں
اور لوگوں سے کیا کروں شکوہ
آپ کو جب مرا خیال نہیں
دُوسروں کے گناہ پر ہے نظر!
ناصحوں کا بھی کوئی حال نہیں
’’مشورہ‘‘ دیں تجھے بھلانے کا
دُنیا والوں کی یہ مجال نہیں!
سر پہ گر ’’قلب‘‘ حکمرانی کرے
کوئی بھی راستہ محال نہیں!
لیلیٰ بھی ہر جگہ پہ آئے نظر
لیلیٰ کی بھی کوئی مثال نہیں
بت بھی جھک جاتا تیرے آگے صنم
تجھ کو سجدہ مرا کمال نہیں
آدمی رزق کا ’’وسیلہ‘‘ ہے
آدمی ربِّ ذوالجلال نہیں!
فکر نہ کر پہنچ ہی جاؤں گا
یہ مرا پہلا انتقال نہیں
قیس کی عاجزی پسند آئی
شاعروں کا وگرنہ کال نہیں