محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
اِنَّ اللہَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِہٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ۰ۚ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا۴۸ اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ۰ۭ بَلِ اللہُ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا۴۹ اُنْظُرْ كَيْفَ يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللہِ الْكَذِبَ۰ۭ وَكَفٰى بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِيْنًا۵۰ۧ
۱؎ اس آیت میں بتایا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک وسہیم ٹھہرانا ناقابل عفو گناہ ہے ۔
سارے گناہ ،تمام عیب بخشے جاسکتے ہیں مگر شرک جو اللہ کے جلال وجبروت پر کھلا حملہ ہے کسی طرح بھی نہیں بخشا جاسکتا۔اعمال کے تمام جرائم لائق بخشش ہیں مگر عقیدے کا یہ گناہ ناشائستہ معافی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرک ذہن وفکر کی ایسی پستی کا نام ہے جس کے بعد انسانی شرف وفضیلت کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی۔ شرک کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ حدودِ انسانیت کے اندر ہیں مگر شرک یکسر غیر انسانی فعل ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے اونچا درجہ دیا ہے اوراگر یہ اپنی رفعت وعظمت کو محسوس نہ کرے بلکہ پتھروں کے سامنے جھک کر اپنے جوہر فضیلت کی توہین کرے توکیوں کر اسے بخشا جاسکتا ہے ۔
۲؎ یوں تویہودی دین فطر ت سے کوسوں دور تھے اور ان کی کوئی بات بھی دینی اورمذہبی نہ تھی ۔ مگر ان کو ہمیشہ یہ وہم رہتا کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں سے بہتر وافضل ہیں۔ وہ علی الاعلان کہتے ۔نحن ابناء اللہ واحبآء ہٗ کہ ہم خدا کے فرزند اور مقرب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اس تزکیۂ نفس اورکبر کی تمھیں اجازت نہیں۔
دوسرا عیب ان میں یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے لیے تورات کے احکام بدل دیتے۔
تیسری برائی مداہنت کی برائی تھی۔ وہ مشرکین مکہ کے احوال وعواطف کا ہمیشہ ساتھ دیتے اورمسلمانوں کی مخالفت میں اپنے اصول دینیہ کی بھی چنداں پروانہ کرتے۔
بے شک اللہ شرک کو نہیں بخشتا اور اس کے نیچے جسے چاہے بخش دے اور جس نے خدا کا شریک ٹھہرایا، اس نے گناہ عظیم باندھا۔۱؎(۴۸) کیا تونے ان کی طرف نہ دیکھا جو اپنی جانوں کو پاک کہتے ہیں(یعنی یہود) بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے۲ ؎ اور ایک دھاگے کے برابر ان پر ظلم نہ ہوگا۔(۴۹) دیکھ اللہ پر کیسا جھوٹ باندھتے ہیں اوریہی صریح گناہ اس کو کافی ہے۔(۵۰)
ناقابل معا فی جرم
۱؎ اس آیت میں بتایا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک وسہیم ٹھہرانا ناقابل عفو گناہ ہے ۔
سارے گناہ ،تمام عیب بخشے جاسکتے ہیں مگر شرک جو اللہ کے جلال وجبروت پر کھلا حملہ ہے کسی طرح بھی نہیں بخشا جاسکتا۔اعمال کے تمام جرائم لائق بخشش ہیں مگر عقیدے کا یہ گناہ ناشائستہ معافی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرک ذہن وفکر کی ایسی پستی کا نام ہے جس کے بعد انسانی شرف وفضیلت کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی۔ شرک کے علاوہ جتنے گناہ ہیں وہ حدودِ انسانیت کے اندر ہیں مگر شرک یکسر غیر انسانی فعل ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے اونچا درجہ دیا ہے اوراگر یہ اپنی رفعت وعظمت کو محسوس نہ کرے بلکہ پتھروں کے سامنے جھک کر اپنے جوہر فضیلت کی توہین کرے توکیوں کر اسے بخشا جاسکتا ہے ۔
تین بڑے بڑے عیب
۲؎ یوں تویہودی دین فطر ت سے کوسوں دور تھے اور ان کی کوئی بات بھی دینی اورمذہبی نہ تھی ۔ مگر ان کو ہمیشہ یہ وہم رہتا کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں سے بہتر وافضل ہیں۔ وہ علی الاعلان کہتے ۔نحن ابناء اللہ واحبآء ہٗ کہ ہم خدا کے فرزند اور مقرب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اس تزکیۂ نفس اورکبر کی تمھیں اجازت نہیں۔
دوسرا عیب ان میں یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے لیے تورات کے احکام بدل دیتے۔
تیسری برائی مداہنت کی برائی تھی۔ وہ مشرکین مکہ کے احوال وعواطف کا ہمیشہ ساتھ دیتے اورمسلمانوں کی مخالفت میں اپنے اصول دینیہ کی بھی چنداں پروانہ کرتے۔