• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناقد کے قول کی سند نہیں مانگی جاتی کیونکہ ناقد کافیصلہ بجائے خود دلیل ہوتاہے۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اپنا قول ہے نہ کہ کسی اور کا اس لئے سند کا مطالبہ ہی مردودہے۔
یاد رہے کہ ائمہ نقاد کا یہ کہنا کہ :
فلاں نے فلاں سے سنا نہیں ۔
فلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں ۔
یااس طرح کے فیصلے دینا حجت ودلیل کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ جب ہم کسی سندکومنقطع بتلاتے ہیں تو کسی امام سے محض یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے کہ اس راوی نے فلاں راوی سے نہیں سنا ،وغیرہ وغیرہ۔
دیکھئے کفایت اللہ صاحب کیاکہہ رہے ہیں کہ اگرکسی ناقد نے کوئی بات کہہ دی تو تومحض قول نقل کردیناکافی ہوگیا۔لیکن دوسری جگہ یزید کے معاملے میں وہ دلیل کا سوال کھڑاکردیتے ہیں کہ اس کی دلیل کہاں ہے
لہٰذا یہ روایت اس لحاظ سے منقطع ٹہری ۔رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
یہاں پر یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ ناقد کے اس فیصلہ کی سند پیش کرو یعنی اس نے جو یہ کہا فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی سند پیش کرو ، کیونکہ یہ فیصلہ ایک ناقد کا ہے اورائمہ نقاد کے اس طرح کے فیصلے بجائے خود دلیل ہوتے ہیں ، خود حافظ موصوف کی تحقیقی کتب سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے جہاں سند میں انقطاع کا حکم لگایاگیا ہے اوردلیل میں کسی ناقد امام کا اپنا قول ہی پیش کیا گیاہے۔بلکہ عدم لقاء سے زیادہ نازک مسئلہ تدلیس کا ہے یعنی کسی راوی سے متعلق ناقد کا یہ فیصلہ کرنا کہ وہ اپنے اساتذہ سے سنے بغیر روایت کردیتاہے یہاں بھی ناقد کے قول کی سند نہیں مانگی جاتی کیونکہ ناقد کافیصلہ بجائے خود دلیل ہوتاہے۔
مثلا امام ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ موصوف نے نقل کیا:وقال ابوزرعہ العراقی مشھوربالتدلیس(کتاب المدلسین:21)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
عرض ہے کہ رواۃ کی کسی خوبی کو مشہور کہا جائے یا معروف کہا جائے ایک ہی بات ہے، اور اگر یہ بات کوئی ناقد کہے تو اس بات کی سند کامطالبہ بجائے خود مردود ہے۔
بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا ایک قول حافظ موصوف الفتح المبین میں یوں نقل کرتے ہیں:
وَلَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , وَلَا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , وَلَا عَنْ مَنْصُورٍ. وَذَكَرَ مَشَايِخَ كَثِيرَةً لَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ هَؤُلَاءِ تَدْلِيسًا مَا أَقَلَّ تَدْلِيسَهُ.(التمہید: 1/ 18 العلل الكبير للترمذي:2/ 266)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
دیکھئے کفایت اللہ صاحب کس خوبی اوروضاحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ناقدین کے حکم پر سند کا مطالبہ نہیں کرناچاہئے ۔سند کا مطالبہ کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے اوریہی عام طریقہ کار رہاہے۔لیکن اس کے برعکس امام احمد بن حنبل سے یزید کے لوٹ مار کے متعلق وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہوں نے ان کا زمانہ نہیں پایااس لئے لوٹ مار کی بات غلط ہے۔
دراصل اس روایت میں یزید پرجرح کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق مدینہ میں لوٹ مار کی بات بھی امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نقل فرمارہے ہیں اور امام احمدبن حبنل رحمہ اللہ نے یزید کا دور نہیں پایا ہے لہٰذا روایت کا یہ حصہ منقطع السند اورغیرثابت ہے،یعنی اس حصہ کے اعتبار سے یہ روایت منقطع ہے، اوراس روایت کو صحیح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ تک سلسلہ سند صحیح ہے لیکن اس سے آگے عہدیزیدرحمہ اللہ تک سلسلہ سند مذکورہی نہیں لہٰذا یہ روایت اس لحاظ سے منقطع ٹہری ۔رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
سوال یہ ہے کہ
ایک ناقد اپنے سے دوسوسال پیشتر راوی کے بارے میں کہتاہے کہ
اس نے فلاں سے نہیں سنا ۔
اورایک ناقد کہتاہے کہ فلاں شخص ظالم تھا
تودونوں میں اصولی اعتبار سے کیافرق ہے؟
اگرراوی پر کذب صدق اورضعف حافظہ کی بات ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ چلوراوی پر حکم لگانے میں اجتہاد سے کام لیاہوگالیکن کسی کے متعلق یہ کہناکہ اس نے فلاں سے نہیں سنا اوراس نے صرف فلاں سے ہی سناہے۔اجتہادی معاملہ نہیں ہے۔
لہذا جس طرح کسی کے قول فلاں ظالم تھا میں سند ضروری ہے ۔اسی طرح فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی بھی سند چاہئے۔
نیزامام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے یزید پرروایت کے لحاظ سے یہاں جوجرح کی ہے اس کی دلیل بھی اسی لوٹ مار والی بات کو بنایا ہے ، اور یزید رحمہ اللہ کا یہ کردار سرے سے ثابت ہی نہیں لہٰذا غیرثابت شدہ امورکی بناد پر کی گئی جرح بھی مردود ہے، اوریزیدرحمہ اللہ کی شخصیت بے داغ ہے والحمدللہ۔
یہ کہنابھی اصولی طورپر غلط ہے کہ امام احمد بن حنبل نے یزید پر جرح کیلئے لوٹ مار کو ہی دلیل بنایاہے۔یہ بات کفایت اللہ نے کہاں سے جاناکہ ان کے یزید پر جرح کیلئے فقط یہی بنیاد ہے۔ اورکوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ایساکیون نہیں ہوسکتاکہ انہوں نے لوٹ مار کو ایک تاریخی واقعہ کے طورپر ذکر کیاہو اوراسی سیاق وسباق میں مناسبت سے جرح کی بھی بات کردی ہو؟
محض ایک ساتھ لوٹ مار اوریزید پرجرح کو ذکرنااس کی کافی دلیل نہیں ہے کہ امام احمد کے نزدیک فقط یہی ایک جرح کی بنیاد تھی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
پیارے جمشید صاحب کچھ آگے پیچھے بھی پڑھا ہے یا بس جو سمجھ میں آیا اوٹ پٹانگ لکھ مارا ۔
آپ نے بظاہر یہ دکھانے کی کوشش کی ہے میں نے کوئی متضاد طرزعمل اختیار کیا ہے لیکن یہ سب کچھ آئینہ دیکھنے کا کمال ہے ، متضاد طرزعمل اپنانے کا خاصہ میرا نہیں آپ کا ہے اس کی وضاحت بعد میں پہلے میں اپنے طرزعمل کی وضاحت کردوں۔

آپ کی پوری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ :

  • یزیدسے متعلق امام احمدرحمہ اللہ کا ایک قول ہم نے اس لئے رد کردیا کہ اس قول کی دلیل معلوم نہ تھی ۔
  • جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ایک قول قبول کرلیا اوراس کی بھی دلیل معلوم نہ تھی ۔



اوراس کا جواب بطور خلاصہ یہ کہ :

یزید سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کا جو قول ہم نے رد کیا ہے اس میں امام احمد رحمہ اللہ نے یزید پر لوٹ مار کا الزام لگایا ہے اور اس چیز کا تعلق محدثین کے فن نقد سے نہیں ہے جس میں امام احمد رحمہ اللہ کو اتھارٹی حاصل ہے اس لئے ہم نے امام احمدرحمہ اللہ کا قول اس کی دلیل معلوم نہ ہونے کی بناپر رد کردیا ہے
جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا جو قول ہے وہ محدثین کے فن نقد سے ہے سماع یا عدم سماع کی صراحت یہ محدثین کا اپنا فن ہے اور جب محدثین اپنے فن کے بارے میں فیصلہ دیں تو اس معاملہ میں انہیں اٹھارٹی حاصل ہے ، لہٰذا محدثین کے اس طرح کے اقوال حجت ہیں گرچہ ان کے دلائل معلوم نہ ہوں۔


ان دونوں چیزوں کا فرق آپ کی نظر میں ہوتا یا معاف کیجئے آپ کو سمجھ میں آیا ہوتا تو تضاد دکھانے کی کوشش ہر گز نہ کرتے لیکن کیا کیا جائے جو لوگ خود تضادات میں ڈوبے ہوئے ہوں انہیں دوسروں کی تحریروں میں بھی تضاد ہی نظر آتاہے۔

اب آئیے اگلی سطور میں دونوں قول کے فرق کے بارے میں تھورڑی سی اور تفصیل پیش کردی جائے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
ہم نے اوپر جو مختصر وضاحت کی ہے ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ وضاحت جمشید صاحب کے تقاقب کے بعد کررہے ہیں بلکہ ہم نے یہ وضاحت متعلقہ موضوع ہی میں کردی تھی ، ملاحظہ ہو میری پرانی تحریر کے چند اقتباسات:

رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
محدثین کو یہ حق توحاصل ہے کہ اپنے زمانہ سے قبل کے رواة پر حفظ و ضبط اورصدق و کذب کے لحاظ سے جرح کریں کیونکہ ان جروح کی بنیاد ان کی مرویات ہوتی ہیں ، علمی تنقید بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ، لیکن کسی بھی محدث کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے سے قبل والے زمانہ کے کسی شخص پر لوٹ مار کا الزام عائد کرے کیونکہ اس کاتعلق علم غیب سے ہے اوریہ چیز شخص مذکور کے عہد تک صحیح سند کے بغیرنہیں معلوم کی جاسکتی ۔
لہٰذا ہم متاخرین کی زبانی ، متقدمین پر لوٹ مار کے ایسے الزامات کو قطعا نہیں قبول کرسکتے جس کی صحیح دلیل موجود نہ ہو۔
غور کریں کہ ان الفاظ میں ہم نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں طرزعمل کا فرق بتلادیا ہے اور اسی پرانے تھریڈ ہی میں ہم نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ ناقد کا قول ثابت ہوجائے تو وہ حجت ہے گرچہ اس کی دلیل معلوم نہ ہو، میرے یہ الفاظ بطور خاص پڑھیں:
محدثین کو یہ حق توحاصل ہے کہ اپنے زمانہ سے قبل کے رواة پر حفظ و ضبط اورصدق و کذب کے لحاظ سے جرح کریں کیونکہ ان جروح کی بنیاد ان کی مرویات ہوتی ہیں ، علمی تنقید بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ،
اسی طرح ایک اور تھریڈ میں ہم نے کہاتھا:
رہا امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا اپنا موقف تو آں رحمہ اللہ نے اپنے اس موقف کی دلیل میں کوئی صحیح تاریخی روایت نہیں پیش کی ہے لہٰذا ان کا یہ موقف بے دلیل ہونے کی بنا پرغیرمسموع ہے ۔
محدثین کو یہ حق توحاصل ہے کہ اپنے زمانہ سے قبل کے رواۃ پر حفظ و ضبط اورصدق و کذب کے لحاظ سے جرح کریں کیونکہ ان جروح کی بنیاد ان کی مرویات ہوتی ہیں ، علمی تنقید بھی اسی زمرہ میں آتی ہے ، لیکن کسی بھی محدث کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے سے قبل والے زمانہ کے کسی شخص پر لوٹ مار کا الزام عائد کرے کیونکہ اس کاتعلق علم غیب سے ہے اوریہ چیز شخص مذکور کے عہد تک صحیح سند کے بغیرنہیں معلوم کی جاسکتی ۔
لہٰذا ہم متاخرین کی زبانی ، متقدمین پر لوٹ مار کے ایسے الزامات کو قطعا نہیں قبول کرسکتے جس کی صحیح دلیل موجود نہ ہو۔
الغرض یہ کہ ہم نے بہت پہلے ہی دونوں طرزعمل کا فرق بتلادیا ہے اور پوری وضاحت کردی ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا موقف کیوں قبول نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
دیکھئے کفایت اللہ صاحب کس خوبی اوروضاحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ناقدین کے حکم پر سند کا مطالبہ نہیں کرناچاہئے ۔سند کا مطالبہ کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے اوریہی عام طریقہ کار رہاہے۔لیکن اس کے برعکس امام احمد بن حنبل سے یزید کے لوٹ مار کے متعلق وہ سند کا مطالبہ کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ انہوں نے ان کا زمانہ نہیں پایااس لئے لوٹ مار کی بات غلط ہے۔
ہم نے صرف یہی نہیں کہا ہے کہ ناقد کے حکم پر سند کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس نقد کی نوعیت بھی واضح کردی ہے ہمارے الفاظ ملاحظہ ہوں:
الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔
یعنی جب ناقد اپنے فن کی بات کرے تو اس میں اس کی بات حجت ہے لیکن اگر ناقد اپنے فن سے ہٹ کر بات کرے تو بہر حال معاملہ کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سوال یہ ہے کہ
ایک ناقد اپنے سے دوسوسال پیشتر راوی کے بارے میں کہتاہے کہ
اس نے فلاں سے نہیں سنا ۔
اورایک ناقد کہتاہے کہ فلاں شخص ظالم تھا
تودونوں میں اصولی اعتبار سے کیافرق ہے؟
جمشید صاحب کے درج ذیل دو جملے الگ الگ دیکھیں:
  • ایک ناقد اپنے سے دوسوسال پیشتر راوی کے بارے میں کہتاہے کہ اس نے فلاں سے نہیں سنا ۔
  • اورایک ناقد کہتاہے کہ فلاں شخص ظالم تھا۔

جمشید صاحب یہ دونوں جملے لکھ کر سوال کرتے ہیں کہ دونوں میں اصولی اعتبار سے کیافرق ہے؟

عرض ہے کہ اصولی طورپر ہی توفرق ہے جناب ۔
پہلے جملے کا تعلق محدثین کے فن نقد سے ہے ۔
جبکہ دوسرے جملے کا تعلق محدثین کے فن نقد سے نہیں ہے ۔

اگرراوی پر کذب صدق اورضعف حافظہ کی بات ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ چلوراوی پر حکم لگانے میں اجتہاد سے کام لیاہوگا
آپ نے جو یہ کہاکہ : ’’اگرراوی پر کذب صدق اور ضعف حافظہ کی بات ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ چلوراوی پر حکم لگانے میں اجتہاد سے کام لیاہوگا‘‘ یہ بات بڑی عمدہ کہی ہے آپ نے اسے یاد رکھئے گا شاید بہت سے مقامات پر میں آپ کو آپ کی یہ بات یاد دلاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔


اگرراوی پر کذب صدق اورضعف حافظہ کی بات ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ چلوراوی پر حکم لگانے میں اجتہاد سے کام لیاہوگالیکن کسی کے متعلق یہ کہناکہ اس نے فلاں سے نہیں سنا اوراس نے صرف فلاں سے ہی سناہے۔اجتہادی معاملہ نہیں ہے۔
لہذا جس طرح کسی کے قول فلاں ظالم تھا میں سند ضروری ہے ۔اسی طرح فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی بھی سند چاہئے۔
جناب کذب وصدق اور ضعف حافظہ ہی کی طرح سماع وعدم سماع کا معاملہ بھی ہے ۔
بلکہ سماع وعدم سماع کی بنیاد پر بھی صدق وکذب کا فیصلہ ہوتا ہے ۔

دراصل ایک ناقد ایک روای کی تمام مرویات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک فیصلہ کرتا ہے یعنی ایک دو روایت کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اگر کسی ناقد کی نظر میں کسی راوی کی ایک دو روایت ہی ہو تو وہ اس کے بارے میں فیصلہ ہی نہیں کرپاتا یعنی کسی راوی سے متعلق فیصلہ کے لئے اس کی بہت سی مرویات کا سامنے ہونا ضروری ہوتا ہے اور اسی روشنی میں ناقد فیصلہ کرتاہے ، کہ کس روای نے کس روایت کو کس طرح بیان کیا اوردوسرے لوگوں نے اسے کیسے بیان کیا اور کون سا راوی کس طبقہ میں آرہا ہے اورکس راوی سے کس واسطے سے بیان کررہاہے ان تمام چیزوں کو دیکھنے کے بعد ایک ناقد کے لئے یہ فیصلہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ فلاں فلاں کے دور کا نہیں ہے یا فلاں کی ملاقات فلاں سے نہی ہوسکتی وغیرہ وغیرہ ، اوریہ تمام باتیں فن نقد کی ہیں یعنی ایک ناقد کا روز کا یہ کام ہی ہوتا ہے کہ وہ راوی کی مرویات دیکھتے رہتاہے ۔

لیکن کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے لوٹ مار کیا یہ بات تو اس شخص کی بہت ساری مرویات کو دیکھ کر ہرگز نہیں معلوم کی جاسکتی ، بالفاظ دیگر یہ فیصلہ فنی مہارت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ماخذ صرف اور صرف کسی کی شہادت ہوتی ہے اوراس طرح کی شہادت وہی دے سکتا جو متعلقہ شخص کے دور کا ہو اورامام احمد رحمہ اللہ یزید کے دور کے نہیں ہیں اس لئے ہم نے امام احمد کی طرف سے یزید پر لگائے گئے لوٹ مار کے الزام کو قبول نہیں کیا ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جمشید صاحب کا دلچسپ تضاد


یوں تو جمشید صاحب کے ہر تھریڈ میں تقریبا ایسی باتیں ہی ہوتی ہیں جو خود انہیں کی دیگر باتوں سے ٹکراتی ہیں اس لئے اگران کے تضاد کو دکھلانا ہوتو ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ خود اسی تھریڈ میں اس کی مثال مل جائے گی چنانچہ ملاحظہ ہو جمشید صاحب کا ایک دلچسپ تضاد ۔


جمشید صاحب اسی تھریڈ میں فرماتے ہیں:
دیکھئے کفایت اللہ صاحب کس خوبی اوروضاحت کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ناقدین کے حکم پر سند کا مطالبہ نہیں کرناچاہئے ۔سند کا مطالبہ کرناہی اصولی لحاظ سے غلط ہے اوریہی عام طریقہ کار رہاہے۔
یہاں پر توجمشید صاحب ہمیں عام طریقہ کار بتلارہے ہیں لیکن ان کی تحریر کا ایک دوسرا رخ ملاحظ ہو:

امام ذہبی والے ٹھریڈ میں ہم نے لکھا تھا:
أبو بكر عبد الله بن الزبير الحميدي المتوفى:219 ۔

امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگردامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔

اس کے جواب میں جمشیدصاحب نے کئی باتیں کہیں جن میں دوسری بات ماشاء اللہ یہ تھی:
ثانیاسندنہایت ضعیف ہے۔حمیدی کی امام ابوحنیفہ سے لقاء ثابت نہیں ہے ۔ درمیان کا راوی محذوف ہے ۔
اس کا مفصل جواب تو مذکورہ ٹھریڈ ہی میں دیاجائے گا لیکن یہاں ہم صرف یہ عرض کردیں کہ جمشید صاحب نے مذکوہ قول کے جس حصہ کو منقطع بتلایا ہے وہ امام حمیدی کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے جہاں تک امام حمیدی کے اپنے قول کی بات ہے جو کہ ہمارا محل شاہد تھا تو وہ بہرصورت ثابت شدہ ہے کہ اسے امام حمیدی رحمہ اللہ سے ان کے شاگر امام بخاری نے نقل کیا۔

بالفاظ دیگر یہ سمجھ لیں کہ امام حمیدی رحمہ اللہ ناقد امام ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ :
فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها
یعنی ابوحنیفہ ایسا آدمی ہے جسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور صحابہ کرام کے آثار سے واقفیت ہی نہیں حج وغیرہ کے مسائل میں ۔

یہ ایک ناقد امام ، امام حمیدی رحمہ اللہ کا قول ہے اوریہ قول امام حمیدی رحمہ اللہ سے بہت ہی مضبوط سند کے ساتھ ثابت کیونکہ اسے امام حمیدی رحمہ اللہ سے ان کے شاگرد امام بخاری رحمہ اللہ نقل فرمارہے ہیں ۔


لیکن جمشدصاحب کی تحقیق دیکھئے کہ ان کی نظر میں امام حمیدی رحمہ اللہ کے اس قول کا ثابت ہونا کافی نہیں ہے بلکہ موصوف اس قول کی جو دلیل ہے اس کی سند پر بھی سوال اٹھارہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس قول کی دلیل کی سند نہایت ضعیف ہے۔


اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ تضاد کا شکار کون ہے؟؟؟؟؟؟؟ اورکون ہے جو قول ثابت ہوجانے کے بعد اس کی دلیل پر سوال اٹھارہاہے؟؟؟


واضح رہے کہ ہماری نظر میں امام حمیدی رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کی بہت ساری دلیلین ہیں لیکن یہ الگ موضوع ہے ، یہاں ہمیں صرف جمشید صاحب کاتضاد دکھلانا مقصود ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جمشید صاحب کا دوسرا تضاد


ہم اس موضوع میں جمشید صاحب کے تمام تضادات کا استعیاب نہیں کررہے بلکہ محض وہ تضادات دکھلارہے ہیں جو صرف اسی موضوع میں بکھرے پڑے ہیں تو کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہے اسی تھریڈ سے جمشید صاحب کاایک اور تضاد ملاحظہ ہو:

جمشید صاحب کہتے ہیں:
اگرراوی پر کذب صدق اورضعف حافظہ کی بات ہوتی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ چلوراوی پر حکم لگانے میں اجتہاد سے کام لیاہوگا
نوٹ کیا جائے کہ یہاں جمشید صاحب یہ اعتراف کرتے ہیں کہ کذب وصدق کی بات ہو تو اجتہادی مسئلہ اورپورے تھریڈ کے سیاق کے لحاظ سے مطلب یہ ہوا کہ اس طرح کی بات میں قول کی دلیل کا مطالبہ یا اس کی سند صحیح کا مطالبہ درست نہیں تو عرض ہے کہ امام مغلطائی پر صدق وکذب کے لحاظ سے ناقدین نے جرح کی ہے ملاحظہ ہو:


امام زين الدين العراقي رحمه الله (المتوفى806)نے کہا:
امام عراقی کے بیٹے إبن العراقي (المتوفى 826)نقل کرتے ہیں:
قال والدی وادعی السماع من الشیخ تقی الدین ابن دقیق العید والدمیاطی ، وابن الصواف ، فی آخرین ولم یقبل ذلک منہ ، وادعی انہ اجاز لہ الفخرابن البخاری ولم یقبل اہل الحدیث ذلک منہ،[الذیل علی العبر الابن العراقی :ص: ٧١]۔

امام عراقی کے شاگردحافظ ابن حجررحمہ اللہ(المتوفى852)نقل کرتے ہیں:
قال العراقي واقدم ما وجدت له من السماع سنة سبع عشرة بخط من يوثق به وادعى هو السماع قبل ذلك بزمان فتكلم فيه لذلك[لسان الميزان لابن حجر: 6/ 73]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وفي آخر الأمر ادعى أن الفخر ابن البخاري أجاز له وصار يتتبع ما كان خرجه عنه بواسطة فيكشط الواسطة ويكتب فوق الكشط: أنبأنا , قال شيخنا العراقي: ذكرت دعواه في مولده وفي إجازة الفخر له للشيخ تقي الدين السبكي فأنكر ذلك وقال: إنه عرض عليه كفاية المتحفظ في سنة خمس عشرة وهو أمرد بغير لحية[لسان الميزان لابن حجر: 6/ 73]۔

حافظ تقي الدين بن فهد المكي(المتوفى: 871)نے کہا:
وكان أول سماعه الصحيح للحديث في سنة سبع عشرة وسبعمائة غير أنه ادعى السماع من جماعة قدماء ماتوا قبل هذا كالدمياطي وابن دقيق العيد وابن الصواف ووزيرة بنت المنجا، وتكلم فيه الجهابذة من الحفاظ لأجل ذلك ببراهين واضحة قد تقدم بعضها، فالله تعالى يغفر لنا وله[لحظ الألحاظ بذيل طبقات الحفاظ:ص: 92]۔

شہاب ابن رجب (المتوفی850) کے بیٹے زین الدین نے کہا:
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نقل کرتے ہیں:
قال ولده زين الدين ابن رجب وغالب ما قاله من ترجمة مغلطاي التي أفردها شيخنا بعد أن سمى جماعة من المشايخ الذين ادعى السماع منهم لا يصح ذلك قال وذكر أنه سمع من الحافظ الدمياطي وأنه سمع من ابن دقيق العيد درسا بالكاملية في سنة ٧٠٢ وابن دقيق العيد انقطع في أواخر سنة ٧٠١ ببستان ظاهر القاهرة إلى أن مات في أوائل صفر ولم يحضر درسا في سنة ٧٠٢[الدرر الكامنة لابن حجر: 6/ 116]۔

غورفرمائیں کہ ناقدین نے کذب وصدق کے لحاظ سے مغلطائی پر جرح کی اور یہ کہا ہے کہ اس نے ایسے مشائخ سے سماع کا دعوی کیا جن سے اس کا سماع تھا ہی نہیں ، اس جرح کا تعلق صدق وکذب سے ہے اور جمشید صاحب کو کم زکم از ناقدین کی یہ جرح تو آنکھ بند کرکے مان لینی چاہئے تھی اوراس کے دلائل کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے مگر موصوف نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس طرح کے جروح کے دلائل پر بحث کرنے کوشش ہے چنانچہ جمشید صاحب لکھتے ہیں:

مغلطائی پر تیسرابڑااعتراض یہ ہے کہ انہوں نے ایسے محدثین سے روایت کے سماع کادعویٰ کیاجن سے ان کو سماع حاصل نہیں ہے۔

قول کے دلائل پر جمشید صاحب نے جو بحث کی ہے اس کا جائزہ تو ہم متعلقہ تھریڈ میں ہی لیں گے یہاں صرف جمشید صاحب کا تضاد دکھلانا مقصود ہے ۔


نوٹ: ہمارے نزدیک مغلطائی ہر حال میں غیرمعتبر نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ تفصیل ہے جس کا ذکر ان شاء اللہ ہم متعلقہ تھریڈ میں کریں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جمشید صاحب کا تیسرا تضاد


جمشید صاحب لکھتے ہیں:
یہ کہنابھی اصولی طورپر غلط ہے کہ امام احمد بن حنبل نے یزید پر جرح کیلئے لوٹ مار کو ہی دلیل بنایاہے۔یہ بات کفایت اللہ نے کہاں سے جاناکہ ان کے یزید پر جرح کیلئے فقط یہی بنیاد ہے۔ اورکوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ایساکیون نہیں ہوسکتاکہ انہوں نے لوٹ مار کو ایک تاریخی واقعہ کے طورپر ذکر کیاہو اوراسی سیاق وسباق میں مناسبت سے جرح کی بھی بات کردی ہو؟
محض ایک ساتھ لوٹ مار اوریزید پرجرح کو ذکرنااس کی کافی دلیل نہیں ہے کہ امام احمد کے نزدیک فقط یہی ایک جرح کی بنیاد تھی۔
جناب ہم نے درج ذیل وجوہات سے جانا کہ امام احمدرحمہ اللہ کی جرح کی بنیاد صرف لوٹ مار والی بات ہے ۔

پہلی وجہ:
ایک ہی مجلس میں امام احمد رحمہ اللہ نے دونوں بات کہی ہے اس سے اشارہ ملتاہے کہ یہی ایک ہی بنیاد ہے۔
دوسری وجہ:
مھنی نے جب پہلے بار سوال کیا تو یزید کے بارے میں مطلق سوال تھا اس سوال کے جواب میں امام احمد رحمہ اللہ نے صرف لوٹ مارکی بات کہی اب اگر عدم کتابت حدیث کی کوئی اوروجہ ان کے سامنے ہوتی تو اسے بھی ذکر کرتے۔
تیسری وجہ:
مہنا کے سوال کا مقصد جرح وتعدیل میں یزید کا درجہ معلوم کرنا تھا کیونکہ مھنا کے سوال پر جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے لوٹ مار کی بات کی تو مھنا نے اس کے معا بعد کہا:
فيذكر عنه الحديث تو کیا اس سے حدیث روایت کی جاسکتی ہے ؟؟؟ اس سے صاف معلوم ہوتا کہ مھنی کے سوال کا اصل مقصود جرح وتعدیل میں یزید کا درجہ معلوم کرنا تھا اور امام احمدبن حنبل نے لوٹ مار والی بات ہی کو بنیاد بناکر اس پرجرح کردی۔
چوتھی وجہ:
اگرہم مان لیں کہ مھنی کے پہلے سوال کا مقصد جرح وتعدیل کے اعتبار سے یزید کا درجہ معلوم کرنا نہ تھا تو بھی امام احمد کے جواب کے بعد مھنی نے جو یہ کہا:
فيذكر عنه الحديث تو کیا اس سے حدیث روایت کی جاسکتی ہے ؟؟؟
اس کا مطلب یہ کہ مھنی نے اس الزام کے پس منظر میں سوال کیا تھا یعنی کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب یزید لوٹ مار کرنے تو والاتھا تو فيذكر عنه الحديث کیا اس سے حدیث روایت کی جاسکتی ہے ؟؟؟ یعنی اسی لوٹ مار کی بنیاد پر سوال کیا گیا اور اسی روشنی میں امام احمد نے جواب دیا۔
پانچویں وجہ:
یزید کی مرویات بہت ہی کم بلکہ نہ کے برابر ہیں ایسی صورت میں اس بات کا امکان کم ازکم ہمیں تو نظر نہیں آتا کہ یزید کی مرویات کے مطالعہ سے امام احمد رحمہ اللہ نے مذکورہ جرح کی ہو ۔
چھٹی وجہ:
امام احمد دنیا کے واحد ناقد ہیں جنہوں نے یزید پر عدم کتابت حدیث کی جرح کی ہے ، ان سے قبل کسی ایک بھی ناقد نے یزید پر ایسی جرح نہیں ہے اور امام احمد کے بعد دوسرے لوگوں نے امام احمد ہی کے قول کو نقل کیا ہے یا اسی کو سامنے رکھتے ہوئے جرح کی ہے، اس سے بھی اشارہ ملتاہے کہ عدم کتابت والی جرح کی کوئی بنیاد ہے ہی نہیں ۔

ان تمام وجوہات کو ایک ساتھ ملاکر غور کرنے سے ہم اسی نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ لوٹ مار والی بات ہی کی بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ نے جرح کی ہے ۔

اگر اس جرح کی بنیاد ہمارے سامنے نہ ہوتی تو ہم ہرگز امام احمد رحمہ اللہ کے قول پر دلیل کا مطالبہ یا دلیل پر بحث نہ کرتے مگر جب ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اس جرح کی بنیاد یہی چیز ہے اور اس چیز کا تعلق محدثین کے فن سے نہیں ہے تو یہ سب جاننے کے بعد ہم یہ جرح بھی نہیں لے سکتے ۔

اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ابن اسحاق رحمہ اللہ کو دجال من الدجاجلہ کاہے۔
یہ ایک ناقد کی جرح ہے اور ہمیں کوئی حق نہیں کہ اس قول کے دلائل پر بحث کریں لیکن جب ہمیں یہ بھی ملتاہے کہ امام مالک نے یہ جرح اس وجہ سے کی کیونکہ ابن اسحاق نے ان کے بارے میں کچھ کہہ دیا تھا اوراسی بات کو سن کر امام مالک نے ابن اسحاق کو دجال کہہ دیا ، اور اس بنیاد کا یعنی جو بات ابن اسحاق نے امام مالک کے بارے میں کہی اورامام مالک نے اسے سنا اس بات کا فن نقد سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا فن سے باہر کی چیز کو بنیاد بناکر امام مالک نے جو دجال والی بات کہی ہم اس بات کو قبول نہیں کریں گے گرچہ امام مالک رحمہ اللہ سے یہ بات ثابت ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جمشید صاحب کے تیسرے تضاد کی وضاحت


جمشید صاحب لکھتے ہیں:
یہ کہنابھی اصولی طورپر غلط ہے کہ امام احمد بن حنبل نے یزید پر جرح کیلئے لوٹ مار کو ہی دلیل بنایاہے۔یہ بات کفایت اللہ نے کہاں سے جاناکہ ان کے یزید پر جرح کیلئے فقط یہی بنیاد ہے۔ اورکوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ایساکیون نہیں ہوسکتاکہ انہوں نے لوٹ مار کو ایک تاریخی واقعہ کے طورپر ذکر کیاہو اوراسی سیاق وسباق میں مناسبت سے جرح کی بھی بات کردی ہو؟
محض ایک ساتھ لوٹ مار اوریزید پرجرح کو ذکرنااس کی کافی دلیل نہیں ہے کہ امام احمد کے نزدیک فقط یہی ایک جرح کی بنیاد تھی۔
جمشید صاحب کے سوال کا جواب تو اوپر ہم دے چکے ہیں اب ہم ان کا تضاد دکھلاتے ہیں ۔
نوٹ کیا جائے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ایک ہی مجلس میں یزید کے تعلق سے دو بات کہی ایک یہ کہ یزید لوٹ مار کرنے ولا تھا اور دوسری بات یہ کہ اس سے کتابت حدیث درست نہیں ۔

جمشید صاحب کہتے ہیں کہ
محض ایک ساتھ لوٹ مار اوریزید پرجرح کو ذکرنااس کی کافی دلیل نہیں ہے کہ امام احمد کے نزدیک فقط یہی ایک جرح کی بنیاد تھی۔
اب آئیے ہم جمشید صاحب کا دوسرا چہرہ دکھاتے ہیں :

ہم نے ایک موضوع میں کہا تھا:
أبو بكر عبد الله بن الزبير الحميدي المتوفى:219 ۔

امام حمیدی رحمہ اللہ کے شاگردامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔
نوٹ کریں کہ یہاں امام حمیدی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کے بارے میں پہلے یہ نقل کیا کہ ابوحنیفہ مکہ آئے تو انہیں ایک حجام سے حج کے مسائل سیکھنے پڑھے اس کے بعد کہا کہ جو شخص حج وغیرہ کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کے آثار سے ناواقف ہے وہ بھلا اس لائق کہاں کہ مواریث ، فرائض ، نماز اور دین کے دیگرمعاملات میں اس کی تقلید کی جائے۔

اس قول میں امام حمیدی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو حج وغیرہ سے متعلق احادیث و آثار سے ناواقف گردانا ہے ۔

لیکن جمشید صاحب یہ بات قبول اس لئے نہیں کرتے کیونکہ ان کی سمجھ کے مطابق امام حمیدی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کے بارے میں حجام والے واقعہ کی بنیاد پر یہ بات کہی ہے اب ہم بھی جمشید صاحب کے الفاظ میں سوال کرتے ہیں:
یہ کہنابھی اصولی طورپر غلط ہے کہ امام حمیدی نے ابوحنیفہ پر جرح کیلئے حجام والی بات کو ہی دلیل بنایاہے۔یہ بات جمشید نے کہاں سے جاناکہ ان کے ابوحنیفہ پر جرح کیلئے فقط یہی بنیاد ہے۔ اورکوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ ایساکیون نہیں ہوسکتاکہ انہوں نے حجام والی بات کو ایک مشہور واقعہ کے طورپر ذکر کیاہو اوراسی سیاق وسباق میں مناسبت سے جرح کی بھی بات کردی ہو؟
ہم کہتے ہیں یہاں امام حمیدی رحمہ اللہ نے مذکورہ جرح صرف اسی ایک بات کو دیکھ نہیں کی ہے بلکہ ابوحنیفہ سے متعلق ان کے پاس بہت ساری باتیں مضبوط ذرائع سے موجود تھیں۔
ان سب کی روشنی میں امام حمیدی رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ، امام حمیدی رحمہ اللہ کے خود اسی قول میں دیکھ لیں ، موصوف نے ’’في المناسك‘‘ کے ساتھ ’’وغيرها‘‘ بھی کہا ہے ۔
ایک بار پھر سے ان کا قول دیکھیں:
سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام [التاريخ الصغير 2/ 43]۔


غورکریں کہ امام حمیدی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ سے معرفت سنن کی جو نفی کی ہے وہ صرف مناسک سے متعلق نہیں بلکہ ’’وغيرها‘‘ کہہ کر دیگرامور کو بھی شامل مانا ہے۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جمشید صاحب کا ایک چھوتھا اور انتہائی دلچسپ تضاد


اسی موضوع کے تحت جمشید صاحب کا ایک اور تضاد ہے لیکن یہ اتنا دلچسپ اورمزیدار تضاد ہے کہ ہم اسے الگ تھریڈ میں پیش کریں گے کیونکہ اسے پیش کرنے کے بعد توقع ہے کافی لمبی بحث ہوجائے اس لئے ہم اس موضوع پر اپنے جواب کو یہیں ختم کرتے ہیں اوچھوتے تضاد کو جلد ہی ایک الگ تھریڈ میں پیش کرکے یہاں لنک دے دیں گے۔
والسلام



تمت



۔۔۔
 
Top