• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نامحرم سے دوستی کرنا انٹرنیٹ کے ذریعے

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
السلام علیکم

انٹرنیٹ کے ذریعے کسی نامحرم سے بات کرنا کیسا ہے؟
اس میں چاٹنگ، میل، یا کسی فورم میں بات ہو

اگر بات دین کی بات کہنے کے لئے ہو تو کیا صحیح ہے؟
نامحرم سے دوستی کرنا انٹرنیٹ کے ذریعے چاہے وہ دین کے کام کے لئے ہو یا پھر ٹائم پاس کے لئے
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اس سلسلے میں اعداد وشمار جمع کئے جانے چاہئے ہیں۔۔۔
پھر اس کے بعد ان سے نتائج اخذ کر کے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کے
کیا اس طرح کی دوستیاں فائدہ مند ہیں یا نقصان دہ۔۔۔
عموما اس طرح کی دوستیاں شخصیات کو بےراہ وروی کی طرف فائل کرتی ہیں۔۔۔
اس لئے میرا ذاتی مشاہدہ تو یہ ہی کہتا ہے جہاں تک ہو انٹرنیٹ ما مثبت استعمال کیا جانا چاہئے۔۔۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
انٹرنیٹ پر غیر محرم سے بات کرنا ، درست نہیں ہے ، کیونکہ اس میں خلوت ( مرد و عورت کا اکیلا ہونا) پائ جاتی ہے ۔ اور خلوت سے منع فرمایا گیا ہے ۔
مجبوری (شرعی مجبوری) کی حالت میں ، شائد گنجائش نکلتی ہو۔
واللہ اعلم
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,656
پوائنٹ
186
[وعلیکم السلام ورحمت اللہ !! برادر عزیز حافظ نوید صاحب !!!
انٹرنیٹ کی دنیا میں مینے بہت سی ایسی مسلمان مواحد بہنیں دیکھی ہے(شکل صورت نہی ان کی تحریریں ) جن کو اللہ تعالی نے علم کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے اور وہ دعوت توحید کا کام بھی خوب سرانجام دے رہی ہے الحمداللہ !!
اگر بات دین سیکھنے سکھانے کی نیت سے ہو تو صحیح ہے کیونکہبڑے بڑے محدثین نے خواتین سے کسب فیض کیا جن میں امام بخاری اور امام شافعی جیسے عظیم نام بھی شامل ہیں ۔
اور کتب احادیث کا مطالعہ کرنے والا احادیث کی اسانید میں بے شمار خواتین کے نام دیکھ سکتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد بھی عورتوں کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ تواتر کی حدوں کو بھی پار کر چکا ہے
اور جب ہم تواریخ کا مطالہ کرتے ہے تو ہمیں کئی ایسی محدثات وفقیہہ عورتیں نظر آتی ہے جن میں سےعمرۃ بنت عبدالرحمان ،عابدۃالمدینہ، ام عمر الثقفیۃ، زینب بنت سلیمان ، نفیسہ بنت حسن بن زید، خدیجہ ام محمد، عبدۃ بنت عبدالرحمان ،عباسہ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کی اہلیہ
کریمۃالمروزيہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت میں وہ يکتائے زمانہ تھیں ۔بڑے بڑے ائمّہ جن میں ابو بکر الخطیب البغدادی بھی شامل ہیں جو بغداد سے مکہ پہنچ کر کریمہ سے صحیح بخاری کا سماع کرتے ہیں ۔ ابوبکر بن منصور سمعانی کا کہنا ہے کہ میرے والد کریمہ کی علمی شخصیت سے بہت متاثر تھے ،وہ کہتے تھے کہ میں نے کریمہ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔(تاریخ اسلام للذہبی ،ت بشار 223/10)
صحیح البخاری کی روایت میں مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمرکا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ، جو طویل عرصہ تک دمشق اور مصر میں درس و تدریس کرتی رہیں اور جن کی روایت ِبخاری بھی بہت شہرت کی حامل ہوئی ۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 397/2)
ام الخیر امۃ الخالق مدرسہ حجاز کی آخری راویہ صحیح بخاری تھیں۔ (شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 21/10)
اسی طرح عائشہ بنت عبدالہادی بھی تدریس بخاری کے لےے ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔(شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 399/10)

خواتین نے نہ صرف صحیح بخاری کی درس و تدریس اور روایت کا اہتمام کیا بلکہ دیگر کتب حدیث کی روایات اور درس و تدریس میں قابل ذکرحصہ ڈالا، اس سلسلے میں ام الخیر فاطمہ بنت علی بغدادیہ کا نام قابل ذکر ہے جو اپنے وقت کی مشہور راویہ صحیح مسلم تھیں ۔ (سیر اعلام النبلاء 265/19)
ام ابراہیم فاطمہ الجوزدانیہ معجم للطبرانی کی روایت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ اسلام ۔ت:تدمری 126/43)
ام احمد زینب بنت المکی بن علی بن کامل الحرانی چورانوے سال تک زندہ رہیں،ان کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا ، مسند احمد کی روایت کیا کرتی تھیں (شذرات الذہب 607/7)
ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیيد لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (ص :497)میں ایسی بارہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے دور میں کتب ِاحادیث کی روایت میں مشہور ہوئیں۔
فاطمہ بنت عبدالرحمان الحرانیہ ام محمد (تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 441/14)،
ام سلمہ فاطمہ بنت أبی بکر بن أبی داود -سنن ابی داؤد کے مولف امام ابو داؤدسجستانی کی پوتی -(تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 442/14)
امۃ الواحد بنت قاضی ابی عبداﷲ حسین بن اسماعیل المحاملی (تاریخ اسلام ، ت:بشار 437/8)
ام الفتح امۃ السلام بنت القاضی احمد بن کامل بغدادیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 465/8)
ام الحسین جمعۃبنت احمد المحیۃ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 634/16)
فاطمہ بنت ہلال الکرجیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
اور طاہرۃ بنت احمد ا لتنوخیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کمال پیدا کرکے لازوال نقوش چھوڑے ، انکے دروس میں بے شمار لوگ شریک ہوتے تھے ۔
حسن بن علی الدقاق کی بیٹی اور ابو قاسم القشیری کی زوجہ محترمہ فاطمہ نے بھی سند عالی کے لیے شہرت پائی جو ابو نعیم الاسفرائنی اور حاکم نیشاپوری سے حدیث روایت کرتی تھیں(تاریخ اسلام ، ت:بشار 457/10)
اس کے علاوہ خدیجہ بنت محمد شاہجہانیہ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 118/10)
سُتَیْتَہ بنت قاضی ابن ابی عمرہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 693/9)
خدیجہ بنت البقال(تاریخ اسلام ، ت:بشار 636/16)
اور جبرۃ السوداء (تاریخ اسلام ، ت:بشار 637/16)
نے شہرت پائی ۔ام البہاء فاطمہ بنت محمد مسندۃ اصفہان(تاریخ اسلام ، ت:بشار 716/11)
ام الخیر فاطمہ بنت علی مسندۃ خراسان (تاریخ اسلام ، ت:بشار 576/11)
مسندۃ الوقت خدیجہ بنت محمد(تاریخ اسلام ، ت:بشار 43/14)
تجنی بنت عبداﷲ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 550/12)
اور شہدۃ بنت احمد مسندۃ العراق سند عالی کے لیے مشہور ہیں(التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والأسانیدص:105) ، شہدۃ جنہیں فخرالنساء کا خطاب دیا گیا ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوا کرتی ، علو سند میں ان کی اس شہرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا استاد قرار دیا،ذکی الدین البرزالی نے ان کا مشیخہ آٹھ اجزاء میں مرتب کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد ، ط: العلمیۃ394/15 نیز دیکھیے العمدۃ من الفوائد والآثار الصحاح والغرائب فی مشیخۃ شہدۃ)ام محمد زینب بنت احمد المقدسی (المتوفیہ 722 ھ ) نے طلبِ حدیث کی خاطر فلسطین سے مصر ، شام اور مدینہ کا سفر کیے ، زینب علماء سے علم حدیث حاصل کرنے اور اجازتِ حدیث لینے کے بعد جب مسندِ تدریس پر بیٹھیں تو دور دراز سے طلبہ سفر کرکے ان کے پاس سماع ِحدیث کے لیے کھنچے چلے آتے۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید368/2)
عائشہ بنت ابراہیم جو ابنۃ الشرائحی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اس میدان میں کمال حاصل کرنے کے بعد مصر ، شام اور بعلبک وغیرہ میں درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا ۔(التنبیہ والإیقاظ لما فی ذیول تذکرۃ الحفاظ، ص:109)
عائشہ بنت محمدبن مسلم الحرانیہ جو سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ پالتی تھیں، کثرتِ روایت کے علاوہ بعض اجزاءِ حدیث کی روایت میں منفرد حیثیت رکھتی تھیں (ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 382/2)۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر دمشق کے دوران726ھ میں جامع بنی امیّہ میں ان سے سماع حدیث کیا
مسندۃ خراسان زینب بنت عبد الرحمن بن الحسن الاشعریہ ، جن کی وفات سند عالی کے انقطاع کا باعث بنی (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:501)
عائشہ بنت معمر الاصبہانیہ مسند ابی یعلی کی روایت میں شہرت کی حامل تھیں مشہور محدث ابن نقطہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:449)
مسندہء شام کریمہ بنت عبد الوہاب بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل تھیں جنھیں روایت حدیث کے لےے بڑے بڑے علماء سے اجازت حاصل تھی ۔ اور وہ کبھی روایت حدیث سے اکتاتی نہیں تھیں(سیر اعلام النبلاء 92/23)
زینب بنت عبد اللہ بن أسعد المکی کے دروازے پر ہمیشہ طلبہِ علم کا ہجوم رہتا(الاعلام للزکلی 66/3)
شامیہ امۃ الحق متعدد اجزاء حدیث کی روایت میں منفرد تھیں (تاریخ اسلام ، ت : بشار 542/15)
عجیبہ بنت محمد البغدادیہ نے اپنا مشیخہ دس اجزاء میں مرتب کیا(تاریخ اسلام ، ت : بشار 581/14)۔
اسماء بنت محمد ابی المواہب ابن حصری ، امۃ العزیز بنت ذہبی ، فاطمہ بنت البرازلی ، اسماء بنت خلیل بن کیکلدی العلائی ، رقیہ بنت ابن دقیق العید ، زینب بنت ابن قدامہ المقدسی ، زینب بنت ابن جماعی الکنانی، ام البھائ، زینب بنت ابن العجمی ،ست النعم بنت العلامہ نجم الدین الحرانی ،ست الوزراء بنت عمر ابن منجاء ،ستیہ بنت تقی الدین السبکی ، ستیہ بنت نجم الدین الدمیاطی ، عائشہ بنت ابراہیم حافظ المزی کی اہلیہ ، عائشہ بنت عبداﷲ محب الدین الطبری کی پوتی ،لوزہ بنت عبداﷲمولاۃ ابن دقیق العید ، ست الرکب علی ابن حجر کی بہن ، زینب بنت عبداﷲتقی الدین ابن تیمیہ کی بھتیجی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ (الدررالکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ)
تاریخ ِدمشق کے مؤلف ابن عساکر اپنے مشیخہ میں 80 خواتین کا ذکر کرتے ہیں جن سے انہوں نے درس حدیث لیا۔ابو طاہر السلفی اپنی کتاب'' مشیخہ البغدادیہ ''''معجم السفر'' اور'' مشیخہ الاصبہانیہ'' میں اور ابوسعید السمعانی ''الخبیرفی المعجم الکبیر'' میں متعدد خواتین کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں جن سے انہوں نے بطریق سماع یا اجازۃ روایت کی ۔ ''وفیات الاعیان'' کے مؤلف ابن خلکان زینب بنت اشعری م524ھ کے شاگرد رہے ۔ ابن بطوطہ کا شمار اگرچہ محدثین میں نہیں ہوتا لیکن شوق طلب حدیث میں متعددخواتین وحضرات اور خصوصاََزینب بنت احمد کمال م710ھ سے سماع کیا۔ نویں صدی کے مشہور محدث عفیف الدین جنید نے سنن دارمی کا درس فاطمہ بنت احمد قاسم سے لیا ۔نفیسہ بنت ابراہیم برزالی اور ذہبی کی استادرہیں،حافظ العرقی اور الھیثمی ست العرب بنت محمد البخاری کے شاگرد رہے ۔ (الاعلام للزرکلی 77/3)
ام ہانی مریم بنت عبد الرحمٰن الہورینیہ م871 ھ جنہیں ادب ، شعر اور خطاطی میں مہارت کے علاوہ حفظِ قرآن اور اسلامی علوم پر بھی عبور تھا۔ انہیں قاہرہ اور مکہ میں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے باقاعدہ تدریس کے ساتھ حدیث میں اجازت نامے جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مریم بنت احمد الاذرعی بھی اس میدان میں سند کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کے اساتذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ان کی باقاعدہ ایک معجم مرتب کی، ان کے شاگرد وں کی تعداد بھی ان گنت ہے ۔(المجمع المؤسس 559/2،انباء الغمر 126/5)
فاطمہ الفضیلیہ م 1247ھ ہیں ،جو بارہویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئیں ، ماہر خطاط تھیں خود اپنے ہاتھوں سے بہت سی کتب کو نقل کیا ۔ حدیث میں بھی بہت دلچسپی رکھتی تھیں بہت سے علماء سے اجازت بھی حاصل کی اور محدثہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زندگی کے آخری حصہ میں مکہ میں رہائش پذیر ہوئیں اور ایک بڑی لائبریری کی بنیاد ڈالی ۔ بڑے بڑے علماء ان سے سند حدیث کے لئے رجوع کرتے تھے۔اور ماضی قریب میں علویۃ الحبشیہ کو علو سند میں جو مقام حاصل تھا وہ مردوں میں صرف عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی کو حاصل تھا یا ایک دو مرد انکے علاوہ تھے ۔ محترمہ علویہ سے کتب حدیث روایت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی دنیا میں زندہ موجود ہیں اور وہ سند کے اعتبار سے سب سے اعلى اسانید کے حامل ہیں ۔ یعنی عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی اور علویہ حبشیہ سے روایت کرنے والے لوگ اعلى اہل الارض اسناداً ہیں ۔ کہ انکے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مابین صحیح سند کے ساتھ باعتبار عشاریات ابن حجر 18 اور باعتبار عشاریات سیوطی 17 وسائط ہیں ۔
واللہ اعلم !! جزاکم اللہ خیرا !! والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ؟؟؟
[/B][/B][/B]
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
انٹرنیٹ پر غیر محرم سے بات کرنا ، درست نہیں ہے ، کیونکہ اس میں خلوت ( مرد و عورت کا اکیلا ہونا) پائ جاتی ہے ۔ اور خلوت سے منع فرمایا گیا ہے ۔
مجبوری (شرعی مجبوری) کی حالت میں ، شائد گنجائش نکلتی ہو۔
واللہ اعلم
جزاک الله خیرا بھائی
کیا خوب ہوتا اگر آپ دلائل بھی پیش کر دیتے
 
شمولیت
مارچ 09، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
53
پوائنٹ
31
کریمۃالمروزيہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت میں وہ يکتائے زمانہ تھیں ۔بڑے بڑے ائمّہ جن میں ابو بکر الخطیب البغدادی بھی شامل ہیں جو بغداد سے مکہ پہنچ کر کریمہ سے صحیح بخاری کا سماع کرتے ہیں ۔ ابوبکر بن منصور سمعانی کا کہنا ہے کہ میرے والد کریمہ کی علمی شخصیت سے بہت متاثر تھے ،وہ کہتے تھے کہ میں نے کریمہ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔(تاریخ اسلام للذہبی ،ت بشار 223/10)
صحیح البخاری کی روایت میں مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمرکا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ، جو طویل عرصہ تک دمشق اور مصر میں درس و تدریس کرتی رہیں اور جن کی روایت ِبخاری بھی بہت شہرت کی حامل ہوئی ۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 397/2)
ام الخیر امۃ الخالق مدرسہ حجاز کی آخری راویہ صحیح بخاری تھیں۔ (شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 21/10)
اسی طرح عائشہ بنت عبدالہادی بھی تدریس بخاری کے لےے ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔(شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 399/10)

خواتین نے نہ صرف صحیح بخاری کی درس و تدریس اور روایت کا اہتمام کیا بلکہ دیگر کتب حدیث کی روایات اور درس و تدریس میں قابل ذکرحصہ ڈالا، اس سلسلے میں ام الخیر فاطمہ بنت علی بغدادیہ کا نام قابل ذکر ہے جو اپنے وقت کی مشہور راویہ صحیح مسلم تھیں ۔ (سیر اعلام النبلاء 265/19)
ام ابراہیم فاطمہ الجوزدانیہ معجم للطبرانی کی روایت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ اسلام ۔ت:تدمری 126/43)
ام احمد زینب بنت المکی بن علی بن کامل الحرانی چورانوے سال تک زندہ رہیں،ان کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا ، مسند احمد کی روایت کیا کرتی تھیں (شذرات الذہب 607/7)
ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیيد لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (ص :497)میں ایسی بارہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے دور میں کتب ِاحادیث کی روایت میں مشہور ہوئیں۔
فاطمہ بنت عبدالرحمان الحرانیہ ام محمد (تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 441/14)،
ام سلمہ فاطمہ بنت أبی بکر بن أبی داود -سنن ابی داؤد کے مولف امام ابو داؤدسجستانی کی پوتی -(تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 442/14)
امۃ الواحد بنت قاضی ابی عبداﷲ حسین بن اسماعیل المحاملی (تاریخ اسلام ، ت:بشار 437/8)
ام الفتح امۃ السلام بنت القاضی احمد بن کامل بغدادیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 465/8)
ام الحسین جمعۃبنت احمد المحیۃ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 634/16)
فاطمہ بنت ہلال الکرجیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
اور طاہرۃ بنت احمد ا لتنوخیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کمال پیدا کرکے لازوال نقوش چھوڑے ، انکے دروس میں بے شمار لوگ شریک ہوتے تھے ۔
حسن بن علی الدقاق کی بیٹی اور ابو قاسم القشیری کی زوجہ محترمہ فاطمہ نے بھی سند عالی کے لیے شہرت پائی جو ابو نعیم الاسفرائنی اور حاکم نیشاپوری سے حدیث روایت کرتی تھیں(تاریخ اسلام ، ت:بشار 457/10)
اس کے علاوہ خدیجہ بنت محمد شاہجہانیہ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 118/10)
سُتَیْتَہ بنت قاضی ابن ابی عمرہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 693/9)
خدیجہ بنت البقال(تاریخ اسلام ، ت:بشار 636/16)
اور جبرۃ السوداء (تاریخ اسلام ، ت:بشار 637/16)
نے شہرت پائی ۔ام البہاء فاطمہ بنت محمد مسندۃ اصفہان(تاریخ اسلام ، ت:بشار 716/11)
ام الخیر فاطمہ بنت علی مسندۃ خراسان (تاریخ اسلام ، ت:بشار 576/11)
مسندۃ الوقت خدیجہ بنت محمد(تاریخ اسلام ، ت:بشار 43/14)
تجنی بنت عبداﷲ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 550/12)
اور شہدۃ بنت احمد مسندۃ العراق سند عالی کے لیے مشہور ہیں(التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والأسانیدص:105) ، شہدۃ جنہیں فخرالنساء کا خطاب دیا گیا ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوا کرتی ، علو سند میں ان کی اس شہرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا استاد قرار دیا،ذکی الدین البرزالی نے ان کا مشیخہ آٹھ اجزاء میں مرتب کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد ، ط: العلمیۃ394/15 نیز دیکھیے العمدۃ من الفوائد والآثار الصحاح والغرائب فی مشیخۃ شہدۃ)ام محمد زینب بنت احمد المقدسی (المتوفیہ 722 ھ ) نے طلبِ حدیث کی خاطر فلسطین سے مصر ، شام اور مدینہ کا سفر کیے ، زینب علماء سے علم حدیث حاصل کرنے اور اجازتِ حدیث لینے کے بعد جب مسندِ تدریس پر بیٹھیں تو دور دراز سے طلبہ سفر کرکے ان کے پاس سماع ِحدیث کے لیے کھنچے چلے آتے۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید368/2)
عائشہ بنت ابراہیم جو ابنۃ الشرائحی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اس میدان میں کمال حاصل کرنے کے بعد مصر ، شام اور بعلبک وغیرہ میں درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا ۔(التنبیہ والإیقاظ لما فی ذیول تذکرۃ الحفاظ، ص:109)
عائشہ بنت محمدبن مسلم الحرانیہ جو سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ پالتی تھیں، کثرتِ روایت کے علاوہ بعض اجزاءِ حدیث کی روایت میں منفرد حیثیت رکھتی تھیں (ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 382/2)۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر دمشق کے دوران726ھ میں جامع بنی امیّہ میں ان سے سماع حدیث کیا
مسندۃ خراسان زینب بنت عبد الرحمن بن الحسن الاشعریہ ، جن کی وفات سند عالی کے انقطاع کا باعث بنی (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:501)
عائشہ بنت معمر الاصبہانیہ مسند ابی یعلی کی روایت میں شہرت کی حامل تھیں مشہور محدث ابن نقطہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:449)
مسندہء شام کریمہ بنت عبد الوہاب بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل تھیں جنھیں روایت حدیث کے لےے بڑے بڑے علماء سے اجازت حاصل تھی ۔ اور وہ کبھی روایت حدیث سے اکتاتی نہیں تھیں(سیر اعلام النبلاء 92/23)
زینب بنت عبد اللہ بن أسعد المکی کے دروازے پر ہمیشہ طلبہِ علم کا ہجوم رہتا(الاعلام للزکلی 66/3)
شامیہ امۃ الحق متعدد اجزاء حدیث کی روایت میں منفرد تھیں (تاریخ اسلام ، ت : بشار 542/15)
عجیبہ بنت محمد البغدادیہ نے اپنا مشیخہ دس اجزاء میں مرتب کیا(تاریخ اسلام ، ت : بشار 581/14)۔
اسماء بنت محمد ابی المواہب ابن حصری ، امۃ العزیز بنت ذہبی ، فاطمہ بنت البرازلی ، اسماء بنت خلیل بن کیکلدی العلائی ، رقیہ بنت ابن دقیق العید ، زینب بنت ابن قدامہ المقدسی ، زینب بنت ابن جماعی الکنانی، ام البھائ، زینب بنت ابن العجمی ،ست النعم بنت العلامہ نجم الدین الحرانی ،ست الوزراء بنت عمر ابن منجاء ،ستیہ بنت تقی الدین السبکی ، ستیہ بنت نجم الدین الدمیاطی ، عائشہ بنت ابراہیم حافظ المزی کی اہلیہ ، عائشہ بنت عبداﷲ محب الدین الطبری کی پوتی ،لوزہ بنت عبداﷲمولاۃ ابن دقیق العید ، ست الرکب علی ابن حجر کی بہن ، زینب بنت عبداﷲتقی الدین ابن تیمیہ کی بھتیجی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ (الدررالکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ)
تاریخ ِدمشق کے مؤلف ابن عساکر اپنے مشیخہ میں 80 خواتین کا ذکر کرتے ہیں جن سے انہوں نے درس حدیث لیا۔ابو طاہر السلفی اپنی کتاب'' مشیخہ البغدادیہ ''''معجم السفر'' اور'' مشیخہ الاصبہانیہ'' میں اور ابوسعید السمعانی ''الخبیرفی المعجم الکبیر'' میں متعدد خواتین کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں جن سے انہوں نے بطریق سماع یا اجازۃ روایت کی ۔ ''وفیات الاعیان'' کے مؤلف ابن خلکان زینب بنت اشعری م524ھ کے شاگرد رہے ۔ ابن بطوطہ کا شمار اگرچہ محدثین میں نہیں ہوتا لیکن شوق طلب حدیث میں متعددخواتین وحضرات اور خصوصاََزینب بنت احمد کمال م710ھ سے سماع کیا۔ نویں صدی کے مشہور محدث عفیف الدین جنید نے سنن دارمی کا درس فاطمہ بنت احمد قاسم سے لیا ۔نفیسہ بنت ابراہیم برزالی اور ذہبی کی استادرہیں،حافظ العرقی اور الھیثمی ست العرب بنت محمد البخاری کے شاگرد رہے ۔ (الاعلام للزرکلی 77/3)
ام ہانی مریم بنت عبد الرحمٰن الہورینیہ م871 ھ جنہیں ادب ، شعر اور خطاطی میں مہارت کے علاوہ حفظِ قرآن اور اسلامی علوم پر بھی عبور تھا۔ انہیں قاہرہ اور مکہ میں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے باقاعدہ تدریس کے ساتھ حدیث میں اجازت نامے جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مریم بنت احمد الاذرعی بھی اس میدان میں سند کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کے اساتذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ان کی باقاعدہ ایک معجم مرتب کی، ان کے شاگرد وں کی تعداد بھی ان گنت ہے ۔(المجمع المؤسس 559/2،انباء الغمر 126/5)
فاطمہ الفضیلیہ م 1247ھ ہیں ،جو بارہویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئیں ، ماہر خطاط تھیں خود اپنے ہاتھوں سے بہت سی کتب کو نقل کیا ۔ حدیث میں بھی بہت دلچسپی رکھتی تھیں بہت سے علماء سے اجازت بھی حاصل کی اور محدثہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زندگی کے آخری حصہ میں مکہ میں رہائش پذیر ہوئیں اور ایک بڑی لائبریری کی بنیاد ڈالی ۔ بڑے بڑے علماء ان سے سند حدیث کے لئے رجوع کرتے تھے۔اور ماضی قریب میں علویۃ الحبشیہ کو علو سند میں جو مقام حاصل تھا وہ مردوں میں صرف عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی کو حاصل تھا یا ایک دو مرد انکے علاوہ تھے ۔ محترمہ علویہ سے کتب حدیث روایت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی دنیا میں زندہ موجود ہیں اور وہ سند کے اعتبار سے سب سے اعلى اسانید کے حامل ہیں ۔ یعنی عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی اور علویہ حبشیہ سے روایت کرنے والے لوگ اعلى اہل الارض اسناداً ہیں ۔ کہ انکے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مابین صحیح سند کے ساتھ باعتبار عشاریات ابن حجر 18 اور باعتبار عشاریات سیوطی 17 وسائط ہیں ۔
اس تحریر کا حوالہ:
URDU MAJLIS FORUM - تنہا پوسٹ دیکھیں - وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی استاد ہیں
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
[وعلیکم السلام ورحمت اللہ !! برادر عزیز حافظ نوید صاحب !!!
انٹرنیٹ کی دنیا میں مینے بہت سی ایسی مسلمان مواحد بہنیں دیکھی ہے(شکل صورت نہی ان کی تحریریں ) جن کو اللہ تعالی نے علم کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے اور وہ دعوت توحید کا کام بھی خوب سرانجام دے رہی ہے الحمداللہ !!
اگر بات دین سیکھنے سکھانے کی نیت سے ہو تو صحیح ہے کیونکہبڑے بڑے محدثین نے خواتین سے کسب فیض کیا جن میں امام بخاری اور امام شافعی جیسے عظیم نام بھی شامل ہیں ۔
اور کتب احادیث کا مطالعہ کرنے والا احادیث کی اسانید میں بے شمار خواتین کے نام دیکھ سکتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرد بھی عورتوں کے آگے زانوئے تلمذ تہ کرتے آئے ہیں اور یہ سلسلہ تواتر کی حدوں کو بھی پار کر چکا ہے
اور جب ہم تواریخ کا مطالہ کرتے ہے تو ہمیں کئی ایسی محدثات وفقیہہ عورتیں نظر آتی ہے جن میں سےعمرۃ بنت عبدالرحمان ،عابدۃالمدینہ، ام عمر الثقفیۃ، زینب بنت سلیمان ، نفیسہ بنت حسن بن زید، خدیجہ ام محمد، عبدۃ بنت عبدالرحمان ،عباسہ امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کی اہلیہ
کریمۃالمروزيہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت میں وہ يکتائے زمانہ تھیں ۔بڑے بڑے ائمّہ جن میں ابو بکر الخطیب البغدادی بھی شامل ہیں جو بغداد سے مکہ پہنچ کر کریمہ سے صحیح بخاری کا سماع کرتے ہیں ۔ ابوبکر بن منصور سمعانی کا کہنا ہے کہ میرے والد کریمہ کی علمی شخصیت سے بہت متاثر تھے ،وہ کہتے تھے کہ میں نے کریمہ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔(تاریخ اسلام للذہبی ،ت بشار 223/10)
صحیح البخاری کی روایت میں مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمرکا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ، جو طویل عرصہ تک دمشق اور مصر میں درس و تدریس کرتی رہیں اور جن کی روایت ِبخاری بھی بہت شہرت کی حامل ہوئی ۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 397/2)
ام الخیر امۃ الخالق مدرسہ حجاز کی آخری راویہ صحیح بخاری تھیں۔ (شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 21/10)
اسی طرح عائشہ بنت عبدالہادی بھی تدریس بخاری کے لےے ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔(شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 399/10)

خواتین نے نہ صرف صحیح بخاری کی درس و تدریس اور روایت کا اہتمام کیا بلکہ دیگر کتب حدیث کی روایات اور درس و تدریس میں قابل ذکرحصہ ڈالا، اس سلسلے میں ام الخیر فاطمہ بنت علی بغدادیہ کا نام قابل ذکر ہے جو اپنے وقت کی مشہور راویہ صحیح مسلم تھیں ۔ (سیر اعلام النبلاء 265/19)
ام ابراہیم فاطمہ الجوزدانیہ معجم للطبرانی کی روایت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ اسلام ۔ت:تدمری 126/43)
ام احمد زینب بنت المکی بن علی بن کامل الحرانی چورانوے سال تک زندہ رہیں،ان کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا ، مسند احمد کی روایت کیا کرتی تھیں (شذرات الذہب 607/7)
ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیيد لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (ص :497)میں ایسی بارہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے دور میں کتب ِاحادیث کی روایت میں مشہور ہوئیں۔
فاطمہ بنت عبدالرحمان الحرانیہ ام محمد (تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 441/14)،
ام سلمہ فاطمہ بنت أبی بکر بن أبی داود -سنن ابی داؤد کے مولف امام ابو داؤدسجستانی کی پوتی -(تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 442/14)
امۃ الواحد بنت قاضی ابی عبداﷲ حسین بن اسماعیل المحاملی (تاریخ اسلام ، ت:بشار 437/8)
ام الفتح امۃ السلام بنت القاضی احمد بن کامل بغدادیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 465/8)
ام الحسین جمعۃبنت احمد المحیۃ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 634/16)
فاطمہ بنت ہلال الکرجیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
اور طاہرۃ بنت احمد ا لتنوخیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کمال پیدا کرکے لازوال نقوش چھوڑے ، انکے دروس میں بے شمار لوگ شریک ہوتے تھے ۔
حسن بن علی الدقاق کی بیٹی اور ابو قاسم القشیری کی زوجہ محترمہ فاطمہ نے بھی سند عالی کے لیے شہرت پائی جو ابو نعیم الاسفرائنی اور حاکم نیشاپوری سے حدیث روایت کرتی تھیں(تاریخ اسلام ، ت:بشار 457/10)
اس کے علاوہ خدیجہ بنت محمد شاہجہانیہ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 118/10)
سُتَیْتَہ بنت قاضی ابن ابی عمرہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 693/9)
خدیجہ بنت البقال(تاریخ اسلام ، ت:بشار 636/16)
اور جبرۃ السوداء (تاریخ اسلام ، ت:بشار 637/16)
نے شہرت پائی ۔ام البہاء فاطمہ بنت محمد مسندۃ اصفہان(تاریخ اسلام ، ت:بشار 716/11)
ام الخیر فاطمہ بنت علی مسندۃ خراسان (تاریخ اسلام ، ت:بشار 576/11)
مسندۃ الوقت خدیجہ بنت محمد(تاریخ اسلام ، ت:بشار 43/14)
تجنی بنت عبداﷲ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 550/12)
اور شہدۃ بنت احمد مسندۃ العراق سند عالی کے لیے مشہور ہیں(التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والأسانیدص:105) ، شہدۃ جنہیں فخرالنساء کا خطاب دیا گیا ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوا کرتی ، علو سند میں ان کی اس شہرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا استاد قرار دیا،ذکی الدین البرزالی نے ان کا مشیخہ آٹھ اجزاء میں مرتب کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد ، ط: العلمیۃ394/15 نیز دیکھیے العمدۃ من الفوائد والآثار الصحاح والغرائب فی مشیخۃ شہدۃ)ام محمد زینب بنت احمد المقدسی (المتوفیہ 722 ھ ) نے طلبِ حدیث کی خاطر فلسطین سے مصر ، شام اور مدینہ کا سفر کیے ، زینب علماء سے علم حدیث حاصل کرنے اور اجازتِ حدیث لینے کے بعد جب مسندِ تدریس پر بیٹھیں تو دور دراز سے طلبہ سفر کرکے ان کے پاس سماع ِحدیث کے لیے کھنچے چلے آتے۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید368/2)
عائشہ بنت ابراہیم جو ابنۃ الشرائحی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اس میدان میں کمال حاصل کرنے کے بعد مصر ، شام اور بعلبک وغیرہ میں درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا ۔(التنبیہ والإیقاظ لما فی ذیول تذکرۃ الحفاظ، ص:109)
عائشہ بنت محمدبن مسلم الحرانیہ جو سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ پالتی تھیں، کثرتِ روایت کے علاوہ بعض اجزاءِ حدیث کی روایت میں منفرد حیثیت رکھتی تھیں (ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 382/2)۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر دمشق کے دوران726ھ میں جامع بنی امیّہ میں ان سے سماع حدیث کیا
مسندۃ خراسان زینب بنت عبد الرحمن بن الحسن الاشعریہ ، جن کی وفات سند عالی کے انقطاع کا باعث بنی (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:501)
عائشہ بنت معمر الاصبہانیہ مسند ابی یعلی کی روایت میں شہرت کی حامل تھیں مشہور محدث ابن نقطہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:449)
مسندہء شام کریمہ بنت عبد الوہاب بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل تھیں جنھیں روایت حدیث کے لےے بڑے بڑے علماء سے اجازت حاصل تھی ۔ اور وہ کبھی روایت حدیث سے اکتاتی نہیں تھیں(سیر اعلام النبلاء 92/23)
زینب بنت عبد اللہ بن أسعد المکی کے دروازے پر ہمیشہ طلبہِ علم کا ہجوم رہتا(الاعلام للزکلی 66/3)
شامیہ امۃ الحق متعدد اجزاء حدیث کی روایت میں منفرد تھیں (تاریخ اسلام ، ت : بشار 542/15)
عجیبہ بنت محمد البغدادیہ نے اپنا مشیخہ دس اجزاء میں مرتب کیا(تاریخ اسلام ، ت : بشار 581/14)۔
اسماء بنت محمد ابی المواہب ابن حصری ، امۃ العزیز بنت ذہبی ، فاطمہ بنت البرازلی ، اسماء بنت خلیل بن کیکلدی العلائی ، رقیہ بنت ابن دقیق العید ، زینب بنت ابن قدامہ المقدسی ، زینب بنت ابن جماعی الکنانی، ام البھائ، زینب بنت ابن العجمی ،ست النعم بنت العلامہ نجم الدین الحرانی ،ست الوزراء بنت عمر ابن منجاء ،ستیہ بنت تقی الدین السبکی ، ستیہ بنت نجم الدین الدمیاطی ، عائشہ بنت ابراہیم حافظ المزی کی اہلیہ ، عائشہ بنت عبداﷲ محب الدین الطبری کی پوتی ،لوزہ بنت عبداﷲمولاۃ ابن دقیق العید ، ست الرکب علی ابن حجر کی بہن ، زینب بنت عبداﷲتقی الدین ابن تیمیہ کی بھتیجی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ (الدررالکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ)
تاریخ ِدمشق کے مؤلف ابن عساکر اپنے مشیخہ میں 80 خواتین کا ذکر کرتے ہیں جن سے انہوں نے درس حدیث لیا۔ابو طاہر السلفی اپنی کتاب'' مشیخہ البغدادیہ ''''معجم السفر'' اور'' مشیخہ الاصبہانیہ'' میں اور ابوسعید السمعانی ''الخبیرفی المعجم الکبیر'' میں متعدد خواتین کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں جن سے انہوں نے بطریق سماع یا اجازۃ روایت کی ۔ ''وفیات الاعیان'' کے مؤلف ابن خلکان زینب بنت اشعری م524ھ کے شاگرد رہے ۔ ابن بطوطہ کا شمار اگرچہ محدثین میں نہیں ہوتا لیکن شوق طلب حدیث میں متعددخواتین وحضرات اور خصوصاََزینب بنت احمد کمال م710ھ سے سماع کیا۔ نویں صدی کے مشہور محدث عفیف الدین جنید نے سنن دارمی کا درس فاطمہ بنت احمد قاسم سے لیا ۔نفیسہ بنت ابراہیم برزالی اور ذہبی کی استادرہیں،حافظ العرقی اور الھیثمی ست العرب بنت محمد البخاری کے شاگرد رہے ۔ (الاعلام للزرکلی 77/3)
ام ہانی مریم بنت عبد الرحمٰن الہورینیہ م871 ھ جنہیں ادب ، شعر اور خطاطی میں مہارت کے علاوہ حفظِ قرآن اور اسلامی علوم پر بھی عبور تھا۔ انہیں قاہرہ اور مکہ میں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے باقاعدہ تدریس کے ساتھ حدیث میں اجازت نامے جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مریم بنت احمد الاذرعی بھی اس میدان میں سند کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کے اساتذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ان کی باقاعدہ ایک معجم مرتب کی، ان کے شاگرد وں کی تعداد بھی ان گنت ہے ۔(المجمع المؤسس 559/2،انباء الغمر 126/5)
فاطمہ الفضیلیہ م 1247ھ ہیں ،جو بارہویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئیں ، ماہر خطاط تھیں خود اپنے ہاتھوں سے بہت سی کتب کو نقل کیا ۔ حدیث میں بھی بہت دلچسپی رکھتی تھیں بہت سے علماء سے اجازت بھی حاصل کی اور محدثہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زندگی کے آخری حصہ میں مکہ میں رہائش پذیر ہوئیں اور ایک بڑی لائبریری کی بنیاد ڈالی ۔ بڑے بڑے علماء ان سے سند حدیث کے لئے رجوع کرتے تھے۔اور ماضی قریب میں علویۃ الحبشیہ کو علو سند میں جو مقام حاصل تھا وہ مردوں میں صرف عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی کو حاصل تھا یا ایک دو مرد انکے علاوہ تھے ۔ محترمہ علویہ سے کتب حدیث روایت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی دنیا میں زندہ موجود ہیں اور وہ سند کے اعتبار سے سب سے اعلى اسانید کے حامل ہیں ۔ یعنی عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی اور علویہ حبشیہ سے روایت کرنے والے لوگ اعلى اہل الارض اسناداً ہیں ۔ کہ انکے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مابین صحیح سند کے ساتھ باعتبار عشاریات ابن حجر 18 اور باعتبار عشاریات سیوطی 17 وسائط ہیں ۔
واللہ اعلم !! جزاکم اللہ خیرا !! والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ؟؟؟
[/B][/B][/B]
جزاک الله خیرا بھائی
کافی محنت کئے ہیں آپ ان سب کو جمع کرنے میں

یعنی دین کی تبلیغ یا دین کی بات ہو تو لڑکا اور لڑکی بات کر سکتے ہیں چاہے وہ نٹ کے ذریعے ہو یا پھر بذات خود

لیکن ہمارا دوسرا سوال یا دوسرا جو پوانٹ تھا آپ نے اس پر روشنی نہیں ڈالی اگر اس پر بھی آپ روشنی ڈالیں تو سمجھنے کے لئے آسانی ہوگی

نامحرم سے دوستی کرنا انٹرنیٹ کے ذریعے چاہے وہ دین کے کام کے لئے ہو یا پھر ٹائم پاس کے لئے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
انٹر نیٹ اور نا محرم:
انٹر نیٹ صرف اور صرف ایک میڈیم ہے، جس کے ذریعہ دو افراد کے مابین انفرادی طور پر یا اجتماعی آن محفل میں رابطہ ممکن ہوا کرتا ہے۔ پہلے یہ رابطہ وَن ٹو وَن باہم ملنے سے یا کسی محفل، اجتماع میں ملنے سے ہوا کرتا تھا۔ اس کے بعد خط و کتابت بھی باہمی روابطہ کا ذریعہ بنا۔ اس کے بعد خوتین نے پرچوں، جریدوں اور اخبارات میں لکھنا شروع کیا تو بھی ان کا (اجتماعی) رابطہ نامحرم مردوں سے ہوا۔ پھر ریڈیو اور ٹی وی آیا۔ جہاں آواز اور تصویر کے ساتھ خواتین اپنے سامعین و ناظرین سے "مخاطب" ہوئیں۔ تازہ ترین میڈیم انٹر نیٹ ہے، جس کی مزید ذیلی اقسام میں وَن تو وَن آن لائن چیٹنگ، ای میل، اور آن لائن فورمز کے ذریعہ مرد و خواتین کا باہمی روابط قائم کرنا یا قائم ہوجانا ہے۔
اہل علم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ "ضرورت" کے تحت نامحرم خواتین سے رابط یا مکالمہ ممنوع نہیں ہے، بشرطیکہ اس رابطہ یا مکالمہ سے کوئی اور شرعی ضابطہ پامال نہ ہوتا ہو۔ مثلا" مرد کسی کے گھر جاتا ہے اور گھر میں صرف خواتین ہوں تو انہیں اپنی آمد کا مقصد بتلایا جاسکتا ہے اور ان سے گھر کے مردوں کے بارے میں پوچھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کسی کے گھر فون کیا جائے تو خواہ فون کے دونوں طرف نامحرم ہی کیوں نہ ہوں، مدعا کہا اور سنا جاسکتا ہے۔ "ایمرجنسی" میں "نامحرم" کی مدد کی بھی جاسکتی ہے اور ان سے مدد لی بھی جاسکتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
انٹر نیٹ ایک "بہترین شرعی پردہ" ہے۔ اس میں نامحرم خواتین و حضرات کی آواز و تصویر کے علاوہ اے ایس ایل (ایج، سیکس، لوکیشن) تک کا پردہ رکھا جاسکتا ہے۔ ہم صرف ایک فرضی آئی ڈی سے کہیں لاگ اِن ہوتے ہیں، یا ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ لہٰذا یہاں اس طرح کے " نامحرم سے روابط" میرے خیال سے "غیر شرعی" نہیں ہے، الا یہ کہ اس رابطہ کو کسی "غیر شرعی" مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جائے یا ان روابط کوئی شرعی ضابطہ پامال نہ ہوتا ہو۔ آج کل ہر نیٹ یوزر کے کونٹیکٹس میں بالعموم خواتین و حضرات کی ایک طویل فہرست ہوتی ہے اور یہ بات بھی "یقینی" نہیں ہوتی کہ ہر "زنانہ آئی ڈی" کے پس پردہ لازماؐ کوئی زن اور ہرمردانہ آئی ڈی کے پس پردہ لازماؐ کوئی مرد ہی ہو۔ اس کے برعکس بھی ممکن ہے، بلکہ اکثر ایسا ہوتا بھی ہے۔ تاہم اگر کوئی مرد یا خاتون اپنے کسی کام، مشن، سبجیکٹ وغیرہ کی وجہ سے اپنی باقاعدہ "شناخت" رکھتے ہوں، تو ایک الگ بات ہے۔
لہٰذا شرعی ضابطوں پر صد فیصد عمل کرتے ہوئے بھی انٹر نیٹ کے استعمال کے ذریعہ نامحرم خواتین و حضرات ایک دوسرے سے مکالمہ و رابطہ رکھ سکتے ہیں، بالخصوص اگر یہ روابط حصول علم یا دین سیکھنے سکھلانے کی غرض سے ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
اگست 20، 2012
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
84
پوائنٹ
38
جزاک اللہ خیرا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مقصد اچھا ہو تو غیر محرم سے گفتگو جائز ورنہ درست نہیں۔ لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات شروع میں مقصد انتہائی ارفع و اعلیٰ ہوتا ہے، دین کی تبلیغ وغیرہ۔ لیکن بعد میں مرد و زن کی فطری کشش غالب آ جاتی ہے اور کچھ ذاتی گفتگو ہو ہی جاتی ہے۔ آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی پسند ناپسند کا بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ اور پھر ایک وقت آتا ہےکہ آپ نا چاہتے ہوئے بھی ان غیر شرعی مفاسد کا شکار ہو جاتے ہیں، جو مردو زن کے اختلاط کا (چاہے وہ صوتی و بصری نہ بھی ہو، جیسے خط و کتابت) کا لازمی نتیجہ ہے۔
اس بحث میں یک طرفہ گفتگو والے میڈیم کو لانا درست معلوم نہیں ہوتا۔ جیسے اخبار میں کسی کا لکھنا، کہ اس کے مفاسد نہ ہونے برابر ہیں۔ البتہ چیٹ اور فورم میں فرق کیا جا سکتا ہے کہ چیٹ خط و کتابت ہی کا جدید متبادل ہے۔ اور فورم پر گفتگو ، محفل میں ایک دوسرے سے بات چیت کے زمرے میں آ سکتی ہے۔ چیٹ کے مفاسد واضح ہیں اور فورم پر شرعی مقاصد کے تحت ایک دوسرے سے مخاطب ہونے میں زیادہ حرج معلوم نہیں ہوتا۔

میری رائے ہے کہ اس معاملے میں کھلی چھوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ خصوصیت سے نامحرم سے پرائیویٹ گفتگو کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہئے، چاہے مقاصد کیسے ہی اعلیٰ و ارفع کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ یہ اس حدیث، کہ تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے، کے تحت سنگین مفاسد پر منتج ہو سکتی ہے۔ باقی بہتر روشنی تو علمائے کرام ہی ڈال سکتے ہیں۔
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
جزاک الله خیرا یوسف ثانی بھائی اور عبدالحنان بھائی
بہت اچھے سے آپ دونو نے بات کو سمجھایا ہے لیکن مسلہ یہ ہے کے اگر شرعی دلائل کے ساتھ اسکو واضح کریں تو پھر بات میں وزن اور سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی
 
Top