• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کا شرعی جائزہ

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کا شرعی جائزہ
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

عصر حاضر میں دنیا کے کئی مسلمان ممالک میں نام نہاد جہادی تنظمیں سرگرم ہیں۔ جن میں سر فہرست القاعدہ, داعش, بوکوحرام, الشباب، لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین وغیرہ ہیں, پاکستان تو ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا گڑھ ہے۔ ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا جائزہ شریعت کی روشنی میں پیش خدمت ہے۔ اور میرا اس سے مقصد مسلمان نوجوانوں کو ان جہادی تنظیموں کی غیر شرعی حیثیت سے واقف کرانا ہے تاکہ وہ ان کا شکار بننے سے محفوظ رہیں۔ اور میں اس جائزہ کے لیے قرآن کریم کی ایک آیت مع ترجمہ وتفسیر, دو فتاوی اور جہاد کے شروط نقل کر رہا ہوں۔


اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
یقینا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں و جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور ان کی مدد کی وہی در اصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لاے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔

( انفال/72)

اس آیت سے واضح ہے کہ اگر کسی کافر ملک میں رہنے والے مسلمان بصورت ظلم کسی مسلم ملک سے مدد طلب کرتے ہیں تو مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہے۔ لیکن اگر اس کافر ملک اور مسلم ملک کے درمیان صلح کا اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو ایسی صورت میں مسلمانوں کی حمایت و مدد کے مقابلے میں معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے اور مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو معاہدات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔

(دیکھیے: تفسیر أحسن البیان, چوتھا ایڈیشن, 1418ھ, ص 466 و ترجمہ قرآن مجید, مولانا ابو الاعلى مودودی, طبع ہشتم, نومبر 1990ع, ص 493)

اب یہ فتوی ملاحظہ فرمائیے جو علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے ۔ جن کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔


إنه في عصرنا الحاضر يتعذر القيام بالجهاد في سبيل الله بالسيف و نحوه , لضعف المسلمين ماديا و معنويا و عدم إتيانهم بأسباب النصر الحقيقية , ولأجل دخولهم في المواثيق و العهود الدولية , فلم يبق إلا الجهاد بالدعوة إلى الله على بصيرة .

بلا شبہ ہمارے اس زمانہ میں تلوار اور اس جیسی چیز کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ مسلمان معنوی اور مادی دونوں اعتبار سے کمزور ہیں اور انہوں نے غلبہ و فتح کے حقیقی اسباب و وسائل کو نہیں اپنایا ہے۔ اور اسی طرح وہ بین الاقوامی سمجھوتوں اور معاہدوں میں داخل ہیں۔ لہذا جہاد کا صرف ایک ہی طریقہ بچا ہے اور وہ اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دینا ہے۔
المصدر : مجموع فتاوى ابن عثيمين رحمه الله ج (18/ 388)

قرآن کی اس آیت اور فتوی سے واضح ہے کہ عہد و مواثیق کے ہوتے ہوئے کسی کافر ملک پر حملہ کرنا صحیح نہیں ہے جو عام طور سے یہ نام نہاد تنظیمیں کر رہی ہیں۔


اب جہاد کے شروط ملاحظہ فرمائیے اور پھر خود ہی غور فرمائیے کہ کیا یہ تنظیمیں ان شروط پر پورا اتر تی ہیں۔ یہ شروط عربی میں مکمل حوالہ کے ساتھ منقول ہیں ۔


مجلة البحوث الإسلامية,تصفح برقم المجلد , العدد السابع والتسعون - الإصدار من رجب إلى شوال 1433 هـ , البحوث , الفرق بين الجهاد والإرهاب , المبحث الأول الجهاد , المطلب الخامس شروط الجهاد, (الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 223),المطلب الخامس


شروط الجهاد, ويشتمل على :
1- التكليف.

2- الحرية.
3- القدرة.
4- الذكورية.
5- إذن الوالدين.
6- إذن ولي الأمر.

1- التكليف :فالواجبات الشرعية تجب على البالغ العاقل ، وقد جاء دليل خاص بالجهاد على شرط التكليف ، وذلك أن النبي - صلى الله عليه وسلم - ردَّ ابن عمر حينما عرض على النبي - صلى الله عليه وسلم - يوم أُحد وهو ابن أربع عشرة فلم يجزه ، وعرض عليه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة فأجازه.
وقال ابن القيم : (إن النبي - صلى الله عليه وسلم - رده لما استصغره عن القتال ، وأجازه لمَّا وصل إلى السن التي رآه فيها مطيقًا)

2- الحرية :فالعبد ليس من أهل القتال ، قال تعالى :
(الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 224)
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلا عَلَى الْمَرْضَى وَلا عَلَى الَّذِينَ لا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [التوبة: 91] ، قال محمد بن عيسى بن أصبغ : (فأما العبد ، فالجمهور على أنه ليس من أهل الفرض في الجهاد ، وأنه لم يخاطب بذلك إلا الأحرار ؛ لأن فعل الجهاد تصاب فيه النفس والمال بالإتلاف ، وهو مقصور على ذلك بالشرع

3- القدرة :وهي شرط معتبر ، سواء في جهاد الأفراد ، أو في جهاد الجماعة ، قال تعالى : لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلا عَلَى الْمَرْضَى وَلا عَلَى الَّذِينَ لا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [التوبة: 91] .


ويقول شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : (ومن كان عاجزًا عن إقامة الدين بالسلطان والجهاد ففعل ما يقدر عليه من النصيحة بقلبه ، والدعاء للأمة ، ومحبة الخير ، وفعل ما يقدر عليه من الخير ، لم يكلف ما عجز عنه)


وقال الشيخ محمد بن عثيمين - رحمه الله - عن الجهاد : (ولا بد فيه من شرط : وهو أن يكون عند المسلمين قدرة وقوة يستطيعون بها القتال ، فإن لم يكن لديهم قدرة فإن إقحام أنفسهم في القتال إلقاء بأنفسهم إلى التهلكة .. إلى أن قال : وعلى هذا ، فلا بد من هذا الشرط وإلا سقط عنهم كسائر الواجبات)(الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 225)


4- الذكورية :من شروط وجوب الجهاد الذكورية ، قال تعالى : وَإِذَا أُنْـزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ (86) رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لا يَفْقَهُونَ [التوبة: 86، 87] .
قال الحافظ محمد الكرجي - رحمه الله - (ت : 360 هـ) في فوائد الآية : (فيه دليل على أن النساء لا جهاد عليهن وإن أطقنه ؛ لأنه جل جلاله قد ذكر الخوالف مرتين في الآية الأولى ، والثانية ، ولم يخرجهن ، إنما أخرج من تشبه في التخلف عنه بمن لا جهاد عليه)

5- إذن الوالدين :عن عبد الله بن عمرو قال : جاء رجل إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - يستأذنه في الجهاد ، فقال : أحي والداك ؟ قال : نعم ، قال : ففيهما فجاهد
أي خصصهما بجهاد النفس في رضاهما وقد بيَّن الحافظ ابن حجر رحمه الله : (أن هذا الرجل استفصل عن الأفضل في أعمال الطاعات ؛ ليعمل به ؛ لأنه سمع فضل الجهاد فبادر إليه ، ثم لم يقنع حتى استأذن فيه ، فَدُلَّ على ما هو أفضل منه في حقِّه) فقوله صلى الله عليه وسلم : ففيهما فجاهد ، قال الحافظ ابن حجر أيضًا : (أي إن كان لك أبوان فبالغ جهدك في برهما ، والإحسان إليهما ؛ فإن ذلك يقوم مقام الجهاد) (الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 226)

6- إذن ولي الأمر :وقد سئل فضيلة الشيخ صالح الفوزان عن حكم القتال بدون إذن الإمام ، فقال : (لا يجوز ما دام أنه ليس للمجاهدين إمام شرعي ؛ لأن هذا يجر على المسلمين شرًا وضررًا أكثر مما يتوقع من المصلحة ، فلا جهاد في الإسلام إلا بإمام ، هذه هي القاعدة ، وهذا مما يدل على ضرورة نصب الأئمة)


یہ ہیں وہ شروط جن کا ایک اسلامی جہاد میں پایا جانا ضروری ہے ۔ اب ان نام نہاد جہادی تنظیموں کو جائزہ لینا چاہیے کہ یہ شروط ان کے اندر پائے جاتے ہیں کہ نہیں؟ میں ان تمام شروط کا ترجمہ کرنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ اس سے موضوع بہت ہی طویل ہو جائے گا۔ میں صرف تیسری شرط کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو قدرت و طاقت سے عبارت ہے یعنی مسلمانوں پر جہاد اسی صورت میں فرض ہے جب ان کے پاس جہاد کی مادی طاقت اور قوت ہو, وسائل و ذرائع فراہم ہوں۔
اب میں جہاد سے متعلق ایک فتوى نقل کرتا ہوں۔ یہ فتوى محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ کا ہے۔ اس فتوى میں انھوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ شرعی جہاد کیا ہے اور یہ کس پر واجب ہے؟ کیا جماعتوں اور گروپوں کا جہاد اسلامی جہاد ہے اور کیا ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے؟ لیجیے خود فتوى پڑھئے اور خود فیصلہ کجیجے۔

نصُّ الفتوى:
سؤال: هناك كثير من الشباب المسلم المستقيم – يعني الملتزم – يسأل عما ترون في الجهاد؛ كثير منهم متحمسون للجهاد، فهم في حيرة مما يسمعون من آراء متضاربة حول ((عدم وجوب أو فرضية الجهاد)) بشكل أفراد أو بشكل مجموعات إسلامية، إلا إذا تحقق سلطان مسلم يحكم فيهم بشرع الله عز وجل أو يقيم شرع الله بدولة إسلامية، فبعضهم كذلك يُعتدُّ برأيهم عند كثير من الناس، وأنتم تعرفون أمثال هؤلاء. كذلك من إخواننا من أهل السلف من يختلفون مع بعض إخوانهم وأساتذتهم السلفيين في هذا الموضوع، فهنا العكس؛ يَجوز الجهاد لمن توفرت له القدرة دون أن يكون هناك عوائق للوالدين أو التزامات ...إلى آخره، فهم في حيرة ويطلبون رأيكم في هذا الأمر لأنَّهم يحبونكم في الله ويستأنسون برأيكم؟.

اس سوال میں شیخ سے شخصی یا کسی جماعت و گروہ کے ماتحت جہاد کا حکم دریافت کیا گیا ہے؟
أجاب الشيخ الألباني رحمه الله تعالى: شیخ البانی کا جواب


بالنسبة للجهاد يا أخي في هذا الزمان وقبل هذا الزمان فهو فرض عين, لأنَّ المشكلة الآن ليست هي مشكلة البوسنة والهرسك؛ التي أثارت من جديد عواطف الشباب المسلم، فهنا بجوارنا اليهود قد احتلوا فلسطين، ولم تتحرك أي دولة من الدول الإسلامية لتقوم بواجب مجاهدتهم وإخراجهم!!، ورميهم في البحر كما كان يقول بعض وأحد رؤساء إحدى الدول العربية!!.المقصود: أنَّ الجهاد هو فرض عين؛ لأنَّ كثيراً من البلاد الإسلامية قد احتلت قديماً وحديثاً من بعض الكفار، ومثل هذا الاحتلال لا يخفى على فرد من أفراد المسلمين يهتم بشؤون المسلمين فضلاً عن الجماعات الإسلامية أو الأحزاب الإسلامية أو الدول الإسلامية.

ولكنَّ الجهاد له أركانه وله شروطه؛ فنحن نعتقد معشر المسلمين جميعاً: أنَّ الجهاد الواجب هو إنَّما يجب على المسلمين الذين يتعاونون جميعاً على القيام بما فرض الله عز وجل عليهم من جهاد الكفار وإخراجهم من البلاد الإسلامية التي احتلوها.


ولسنا بحاجة الآن لنسوق الأدلة من الكتاب والسنة، فهذه مسألة لا خلاف فيها بين العلماء، أنَّ الجهاد فرض عين إذا ما احتل طرف من أطراف البلاد الإسلامية( )، فكيف والمحتل منها أطراف كثيرة جداً؟!

ولكن – مع الأسف – أُريد أن أقول: إنَّ هذا الجهاد الذي هو فرض، وفرض عين لا يستطيع الأفراد – كما جاء في السؤال – أن يقيموا به!!، بل ولا بعض الجماعات الإسلامية أو الأحزاب الأسلامية!!؛ لأنَّ هذا الجهاد وبخاصة في زماننا هذا الذي تعددت فيه وسائل القتال, لا تستطيع هذه الأحزاب أو هذه الجماعات فضلاً عن الأفراد أن يقوموا بهذا الجهاد العيني، وإنَّما هذا الواجب على الدول؛ والدول الإسلامية التي تملك من العتاد والقوة ووسائل الحرب الحديثة ما لو أنَّها اجتمعت وأخلصت لهذا الجهاد لقامت بالواجب العيني، ولكنَّ مع الأسف الشديد هذه الدول لا تحرك ساكناً لتقوم بواجب هذا الجهاد، وقد تَكِلُ أمر هذا الجهاد إلى بعض الجماعات والأحزاب، وهي لا تستطيع أن تفعل شيئاً لإيقاف أعتداء الكافر المعتدي على بعض البلاد الإسلامية، والواقع يشهد أنَّ أي جماعة مسلمة تقوم إما بمقاتلة المعتدي كما وقع في الأفغان مثلاً، أو بالخروج على الحاكم الذي ظهر كُفره كما وقع في الجزائر مثلاً.
فهذا الواقع المؤسف يدل على: أنَّ الجهاد الفردي أو الحزبي لا يُثمر الثمرة المرجوة من فريضة الجهاد، الثمرة هذه هي: أن تكون كلمة الله هي العليا.


فإذاً نحن نعتقد أنَّ الجهاد لا يمكن إلا أن يكون: تحت راية إسلامية أولاً، وتحت جماعة مسلمة متكتلة من مختلف البلاد الإسلامية وليس من بلد واحد أو اقليم واحد، يضاف إلى ذلك أنَّه لابدَّ من تقوى الله عز وجل بالإبتعاد عما نهى الله عنه من الأمور المعروفة لدى المسلمين كآفَّة علماً، ولكنَّها بعيدة عن تطبيقها مع الأسف عملياً.


وقد ذكرنا – وأختصر الكلام أيضاً ما استطعت – أكثر من مرَّة أنَّ ما حلَّ في المسلمين اليوم من هذا الذل والهوان الذي لا يعرفه التاريخ الإسلامي إنَّما سببه أنَّ المسلمين تخلَّوا بتطبيق آية واحدة على الأقل، ألا وهي قوله تبارك وتعالى(إن تنصروا الله ينصركم ويثبت أقدامكم))، ومما لاشكَّ فيه أنَّ نصر المسلمين لله عز وجل؛ إنَّما يراد به: نصر أحكام شريعته، وجعلها حقيقة واقعة، وهذا – مع الأسف الشديد – ليس متحقق في الحكومات ولا في الأفراد.


فالحكومات أكثرها لا تحكم بما أنزل الله عزَّ وجل، ومن كان منها لايزال فيها بقية من حكم بما أنزل الله، فليس فيها حتى الآن من أعلن الجهاد في سبيل الله عز وجل, ولذلك فالأفراد والشعوب ضعيفة؛ مادام أنَّ أي حكومة إسلامية لم ترفع راية الجهاد في سبيل الله عز وجل المستلزم لمقاتلة الذين يلونهم من الكفار، وليس الذين هم بعيدون عنه كل البعد، فالمسلمون بدولهم وبأحزابهم وبجماعاتهم وأفرادهم، إذا لم يقوموا بجهاد الكفار الذين هم بجانبهم وقريباً من ديارهم، فهم لن يستطيعوا أن يجاهدوا من كان بعيداً عنهم، مثل: مثلاً إرتيريا، والصومال، والبوسنة والهرسك.


لهذا فنحن نُذكِّر الآن: بأنَّ على الشباب المسلم أفراداً وجماعات وأحزاباً أن ينشروا الوعي الإسلامي الصحيح في الشعوب أولاً، ثم في الحكام ثانياً؛ وهو أن يحكم هؤلاء جميعاً بما أمر الله عز وجل.
فعلى الحكام أن يحكموا بما أنزل الله عز وجل وبما أمر، والأفراد أيضاً أن يحكموا بما أنزل الله عز وجل وبما أمر، أنا أشعر اليوم: أنَّ كثيراً من الأفراد والجماعات والأحزاب يُلقون المسؤولية على الحكام فقط، بينما في اعتقادي جازماً: أنَّ المسؤولية تقع على هؤلاء الأفراد والجماعات والأحزاب كما تقع على الحكومات!!، ذلك لأنَّ الحكومات ما نبعت إلا من أرض هؤلاء المسلمين، هؤلاء المسلمون هم الذين خاطبهم الرسول صلى الله تعالى عليه وآله وسلم بحديثين اثنين:

أحدهما: قوله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم(إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد: سلط الله عليكم ذلاً، لا ينزعه حتى: ترجعوا إلى دينكم)) .

والحديث الآخر: قوله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم(ستتداعى عليكم الأمم، كما تداعى الأكلة إلى قصعتها، قالوا: أمن قلة نحن يومئذ يارسول الله؟ قال: لا بل أنتم يومئذ كثير!!، ولكنكم غثاء كغثاء السيل، ولينزعنَّ الله الرهبة من صدور عدوكم، وليقذفنَّ في قلوبكم الوهن، قالوا: وما الوهن يارسول الله؟ قال: حب الحياة وكراهية الموت)).

وهذه المخالفات التي ذكرها رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم في هذا الحديث: هي الآن – مع الأسف – في كل المجتمعات الإسلامية واقعة، فهي من المصائب الجلية التي استلزمت نزول هذا الذل في المسلمين حتى ران على قلوبهم؛ حكومات كما قلنا وجماعات وأفراد. الحكومات التي لا تحكم بما أنزل الله، ولئن كان فيها من تحكم بما أنزل الله فأول ظاهرة لا تدل على أنَّها لا تحكم بما أنزل الله: أنَّها لم تعلن الجهاد في سبيل الله عز وجل

وإذا كان هذا الزمان ليس هو الزمن الذي يجب فيه الجهاد في سبيل الله عز وجل وقد احتلت كثير من بلادنا، فمتى سيكون هذا الجهاد واجباً؟! لكنَّ المصيبة – وهذه مشكلة المشاكل – أنَّه ليس عندنا من يستطيع، لماذا؟، لأنَّنا منغمسون في المعاصي، ومنغمسون في الخلافات الحزبية والدولية، ونحن نعلم أنَّ من أسباب الضعف والهزيمة: أن يختلف المسلمون بعضهم مع بعض.

وقد وقعنا قريباً في تجربة مؤسفة جداً ألا وهي: الجهاد الأفغاني، حيث أنَّنا كنَّا نأمل أن تكون عاقبته نصراً للمسلمين، وبشائر قوية لوضع النواة لدولةٍ أسلاميةٍ وإذا العاقبة والنتيجة تنعكس، بسبب: أنَّ البشائر الأولى التي ظهرت من الانتصار على العدو اللدود ألا وهم الشيوعون قد أضمحلت حينما بدأت الفرقة بين الأحزاب التي لم يمنعهم إسلامهم الذي يدينون به من أن يتفرقوا إلى سبعت أحزاب وربنا عز وجل يقول( مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَلا تَكُونُوا مِنْ الْمُشْرِكِينَ. مِنْ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ))، إذاً من أراد أن يجاهد: فعليه أن يتخذ أسباب الجهاد أولاً، وأسباب أكتساب النصر ثانياً، وهذا وذاك غير متحقق مع الأسف في هذا الزمان، والله عز وجل يقول في القرآن الكريم: ((إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ))، إذاً نحن ندعو إلى: اهتمام الأفراد والجماعات والأحزاب فضلاً عن الحكومات الإسلامية بنشر الإسلام الصحيح المصَفَّى من كل دخيل فيه مع مرِّ الزمان، وتربية المسلمين على هذا الإسلام الصحيح، يوم تبدأ هذه البشائر وتتجلَّى في هذه الساحة الإسلامية الواسعة، يومئذ تبدأ بشائر الإستعداد للقيام بالفرض العيني من الجهاد.

هؤلاء الأفراد المتحمسون الذين يذهبون إلى كثير من البلاد المغزوة من الكفَّار كالبوسنة والهرسك مثلاً: ماهي الأسلحة التي معهم؟! من هم القوَّاد؟! من هم الرؤوس الذين يستطيعون أن ينظمونهم وأن يجعلوهم يقاتلون تحت إمرةٍ واحدةٍ؟! لو قامت راية واحدة كما وقع في أفغانستان لكانت الثمرة كما رأينا في أفغانستان!!.

إذاً قال تعالى(وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ))، أين هذا الإعداد؟! ومن الذي يستطيع أن يقوم بهذا الإعداد؟!، الأفراد؟! لا، الحكومات؟! نعم، الحكومات نستطيع أن نقول بأنَّهم يقومون بشيء من الإعداد يأخذونه من أعدائهم!!!، فلو أنَّ هناك قتالاً وجهاداً قام بين المسلمين وبين الكفَّار فهؤلاء المسلمون سوف لا يستطيعون أن يتابعوا إمداد جيوشهم بالأسلحة اللازمة لهم إلا شراءً من أعدائهم!!!، وهل يكون نصر وجهاد بشراء الأسلحة من أعداء المسلمين؟! هذا أمر مستحيل!!؛ لذلك هذا الإعداد المأمور به في هذه الآية: لم تقم به حتى الدول الإسلامية، لأنَّ شراء الدول الإسلامية لأسلحة مدمرة يكون من أعدائهم ومن خصومهم!!؛ وقد يكون هناك بعض الدسائس التي قد تفسد عليهم أسلحتهم إذا ما أرادوا استعمالها ضد عدوهم الكافر.

لهذا قلت، وأُنهي كلامي وجوابي عن هذا السؤال:
إنَّ الله عز وجل حينما قال( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ)) هذا الخطاب لأصحاب النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم ثم هو موجه لعامة المسلمين بالتالي بعموم النص؛ ولكن هذا الخطاب وجِّه إلى الصحابة بعد أن رُبُّو تربيةً إسلاميةً صحيحةًحتى تمكنوا من أن يقوموا بتنفيذ مثل هذا الخطاب؛ ألا وهو: إعداد القوة المادية، بعد أن قاموا بإعداد القوة المعنوية بنفوسهم أو في نفوسهم؛ بسبب تربية نبيهم صلى الله تعالى عليه وآله وسلم إيَّاهم، والتاريخ يعيد نفسه.

فلابُدَّ من تربية شعبٍ من الشعوب الإسلامية ليتمكن هذا الشعب من القيام بإعداد العدَّة المادية، ونحن اليوم لا نجد شعباً قام بهذا الواجب الذي نُعبِّر نحن عنه بكلمتين: (التصفية والتربية)، نجد أفراداً مبعثرين هنا وهناك!!؛ أمَّا أن تكون هناك جماعةً، وعلى هذه الجماعة أمير بويع من المسلمين كآفةً( )، ورفع راية الجهاد لمجاهدة الأعداء هذا لم يحصل بعدُ!!.

ولذلك فنحن ندعو: إلى إيجاد هذه المقدمة للجهاد المُقَدَّس، أمَّا الإنطلاق وراء عواطف لم يتحقق في أهلها رُبَّما الجهاد المعنوي؛ وهو فهم الإسلام فهماً صحيحاً وتطبيقه تطبيقاً جماعيّاً، وأن يكون عليهم بعد ذلك أمير وهو الذي يأمرهم أن يُعِدّوا ما استطاعوا من سلاحٍ ومن قوَّةٍ، فيوم يوجد مثل هذا: يومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله، والله ينصر من يشاء، هذا ما عندي جواباً لهذا السؤال] انتهى جواب الشيخ الألباني رحمه الله تعالى عن السؤال الذي طُرِح إليه في شريط بعنوان (فرضية الجهاد)، رقم الشريط (720).
وبهذه ينتهي ما أردنا بيانه نصحاً لعموم المسلمين، واستجابةً لبعض الأخوة الأحباب، ودفعاً لتلبيس أهل الأهواء والتحريف، والله الموفِق وهو الهادي إلى سواء السبيل.
سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، استغفرك وأتوب إليك


میں اس فتوى کا مکمل ترجمہ تو نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف ان چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جن کا تذکرہ شیخ نے اپنے اس فتوى میں کیا ہے۔

1۔ جہاد کرنا اس دور میں فرض ہی نہیں بلکہ فرض عین ہے ۔ کیونکہ بہت سارے ممالک پر دشمنوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ لیکن جہاد کے ارکان و شروط ہوتے ہیں۔ اور میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس فرض بلکہ فرض عین جہاد کی طاقت افراد اور جماعتوں یا گروہوں کو حاصل نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس دور میں جنگ کے بہت زیادہ وسائل و ذرائع ہیں۔ مختلف طریقے اور شکلیں ہیں۔ اسی وجہ سے یہ جماعتیں, گروہیں اس طرح کی جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں, چہ جائیکہ افراد اس طرح کی جنگ کر سکیں۔


2۔ شیخ کا کہنا ہے کہ جہاد کرنا اسلامی ملکوں کا کام ہے جو ساز وسامان, قوت اور جدید جنگی وسائل سے لیس ہوتی ہیں, اب اگر یہ متفق و متحد ہو کے اخلاص کے ساتھ جہاد کرتی ہیں تو اس ذمہ داری کو ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن سخت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے یہ حکومتیں ذرہ برابر کچھ نہیں کرتی ہیں۔ بلکہ یہ معاملہ وہ بعض گروہوں اور جماعتوں پر چھوڑ دیتی ہیں۔ جو در حقیقت بعض اسلامی ممالک پر واقع جارحیت کو روکنے کی ذرہ برابر طاقت نہیں رکھتی ہیں۔


3۔ امر واقع سے پتہ چلتا ہے کہ فردی یا گروہی جہاد سے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں جو کہ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہے۔ لہذا میرا پختہ عقیدہ ہے کہ جہاد صرف اور صرف اسلامی علم کے تحت ہو ۔ اسی طرح جہاد مختلف اسلامی ممالک کے متحدہ اسلامی جماعت کے تحت ہو۔ صرف ایک ملک یا علاقہ یا ایک حکومت کی طرف سے نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہر چیز میں اللہ کا تقوى اختیار کیا جائے۔


4۔ میں اپنی بات مختصر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج کے دور میں مسلمان جس بے نظیر تاریخی ذلت و رسوائی اور خواری میں مبتلا ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس آیت یاایہا الذین آمنوا ان تنصرو اللہ ینصرکم و یثبت أقدامکم
( محمد/7) پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یعنی اے مومنو: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔ اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ اور بلا شبہ اس آیت میں اللہ کی مدد سے مراد اس کے دین کی مدد اور اس کی شریعت کو حقیقت میں نافذ کرنا ہے۔اور یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ یہ چیز نہ تو حکومتوں میں موجود ہے اور نہ ہی افراد میں۔ کیونکہ اکثر حکومتیں اللہ کی شریعت کو نافذ نہیں کرتی ہیں۔ اور جو نافذ بھی کرتی ہیں ان میں سے کسی نے بھی آج تک اللہ کی راہ میں جہاد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افراد اور قومیں ضائع و برباد ہیں۔


5- اسی وجہ سے میرا یہ کہنا ہے کہ آج کے تمام مسلمان نوجوانوں پر باعتبار فرد, جماعت و گروہ لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی قوموں میں اور پھر حاکموں میں صحیح اسلامی بیداری پیدا کریں کہ یہ سب اللہ کی شریعت کی پابندی کریں اور اس کو نافذ کریں۔


6- فی زمانہ مجھے اس کا بھی احساس ہے کہ بہت سارے لوگ, جماعتیں اور گروہیں یہ ذمہ داری صرف مسلمان حکمرانوں پر ڈال دیتی ہیں جبکہ میرا پختہ یقین ہے کہ جس طرح یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے اسی طرح یہ افراد, جماعتوں اور گروہوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہ حکومتیں انہیں مسلماںوں سے بنتی ہیں۔


7- شیخ نے مذکورہ بالا دو حدیثوں کا تذکرہ کر کے یہ بتلایا ہے کہ ان میں مذکور مخالفات بہت ہی افسوس کے ساتھ تمام اسلامی معاشروں میں موجود ہیں خواہ وہ افراد ہوں یا جماعت اور گروہ, کیونکہ اکثر حکومتیں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکومت نہیں کرتی ہیں۔

اور اگر ان میں سے بعض اللہ کی شریعت کی تنفیذ کر رہی ہیں تو پہلا رجحان جو ان کے بھی شریعت کے مطابق حکومت نہ کرنے کی دلیل ہے وہ یہ کہ انھوں نے بھی جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان نہیں کیا ہے۔


8- اور اگر اس زمانہ میں جہاد فی سبیل اللہ واجب نہیں ہے جبکہ ہمارے بہت سارے ممالک پر دشمنوں نے قبضہ کیا ہوا ہے تو پھر کب جہاد واجب ہو گا۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت اور پریشانی یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی جہاد کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم سب گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی و جماعتی اختلافات میں غرق ہیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف کمزوری و شکست کے اسباب میں سے ہے۔ جس کا ایک زندہ نمزنہ افغانی جہاد ہے۔وہ افغانی جہاد جس سے ہمیں بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔ کیونکہ انھوں نے ایک بہت بڑے اسلامی دشمن کو شکست کا مزہ چکھایا تھا جس سے امید تھی کہ اس کا انجام مسلمانوں کا فتح و غلبہ ہو گا۔ اور یہ ایک اسلامی حکومت کے بنیاد کی زبردست خوشخبری ہو گی۔ لیکن ان کے آپسی اختلافات اور سات گروپوں میں بٹ جانے کی وجہ سے اس کا الٹا نتیجہ بر آمد ہوا۔


9- اس لیے جس کا بھی ارادہ جہاد کا ہے اس کے لیے ضروی ہے کہ وہ پہلے جہاد کے وسائل و اسباب اختیار کرے اور پھر فتح و نصرت کے حصول کے ذرائع کو اپنائے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ دونوں چیزیں آج کے زمانہ میں موجود نہیں ہیں۔

10۔ آخر میں علامہ کا یہ کہنا ہے کہ آج کے دور میں پہلے مسلمانوں کو معنوی تربیت کی ضرورت ہے بعد ازاں مادی تیاری کی جو کہ جہاد کا مقدمہ ہے۔

ناظرین: قرآن کی آیت, علامہ ابن عثیمین اور محدث عصر علامہ البانی کے فتاوى اور جہاد کے شروط و اصول سے واقف ہونے کے بعد جائزہ پیش خدمت ہے۔

مذکورہ بالا چیزوں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے لیے قدرت و طاقت کی شرط ہے جو ان تنظیموں میں بالکل نہیں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمان و کافر ملکوں کے درمیان کیے گئے سمجھوتوں اور معاہدوں کا پاس و لحاظ رکھنا شرعی طور پر واجب ہے۔ اس کی خلاف ورزی کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔ لہذا ان تنظیموں کا کسی کافر ملک کے اندر گھس کے حملہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ چیز خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ اگر کسی کافر ملک کے مظلوم مسلمان مدد طلب کرتے ہیں تب بھی ان معاہدوں کا پاس و لحاظ ضروری ہے۔ ان کی مدد حملہ اور جنگ کے ذریعہ نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ اس کے لیے سیاسی و اقتصادی یا کوئی بھی دوسرا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اگر حملہ کرنا ہے تو معاہدہ کے ختم ہونے کا انتظار کیا جائے گا یا دشمن معاہدہ توڑ دے تو پھر حملہ کیا جا سکتا ہے۔

اور موجودہ دور کے محدث علامہ ناصرالدین البانی کا جہاد کے متعلق طویل فتوى بہت ہی واضح ہے۔ اور میں اس فتوى کے لفظ لفظ سے متفق ہوں۔ کیونکہ یہ فتوی ایک عظیم محدث اور عالم دین کا ہے جس کی شریعت پر گہری نظر ہے۔ اور جو مسلمانوں و ان کے حکمرانوں کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہے ۔ اور جو موجودہ دنیا کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے۔

اس فتوى میں جہاں ایک طرف یہ بتلایا گیا ہے کہ جہاد کا اعلان کرنا, اور جہاد کرنا یہ اسلامی ملکوں اور ان کے حکمرانوں کا کام ہے۔ یہ کسی فرد , جماعت یا گروہ کا کام نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں عصر حاضر کے مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں میں موجود کمیوں اور نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بتلایا ہے کہ ان کمیوں کو دور کیے بغیر جہاد ممکن نہیں ہے۔ علامہ نے مزید یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ جماعت وفرد یا گروہ کا جہاد مفید نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے متوقع نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ فتوى نہ صرف نام نہاد جہادی تنظیموں بلکہ مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کو بھی ان کا اصلی چہرہ دکھاتا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ علامہ کے اس فتوی کی روشنی میں تمام نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کو اپنا احتساب کرنا چائیے۔ کیونکہ جہاد کا اعلان کرنا یا جہاد کرنا ان کا کام نہیں ہے۔ کیونکہ جہاد کے جو شروط وضوابط, اصول وقوانیں ہیں وہ ان کے جہاد کے اندر نہیں پائے جاتے ہیں۔ کیا اسلام معصوموں کے قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اسلام عورتوں و بچوں کے قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اگر ان کو اسلامی اصول و ضوابط کا علم نہیں ہے تو وہ یہ حدیث بھی پڑھ لیں:
‏اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ، اغْزُوا وَلاَ ‏تَغُلُّوا، ‏وَلاَ ‏تَغْدِرُوا، ‏‏وَلاَ ‏تُمَثِّلوا، ‏وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِيدًا، أَوِ امْرَأَةً، وَلا كَبِيرًا فَانِيًا، وَلا مُنْعَزِلاً بِصَوْمَعَةٍ)
(مسلم)

اس طرح کی احادیث کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں۔ کیا ان سب کا پاس و لحاظ یہ جماعتیں کرتی ہیں۔ اور کیا ان کے اندر قدرت کی شرط پائی جاتی ہے؟ اور ایک اہم چیز یہ کہ وہ کافروں کے مقابلے میں تیاری نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے وسائل و ذرائع نہایت محدود ہیں۔ ان کی اقتصادی و مالی حالت نہایت کمزور ہے۔ لہذا ان کی تیاری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ غرضیکہ شرعی نقطہ نظر سے ان کو جہاد کا حق حاصل نہیں ہے۔

علاوہ ازین ان کا جہاد مفید بھی نہیں ہے بلکہ اس سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ جانی و مالی دونوں نقصان ہوتا ہے۔ مسلمان لڑکے اس نام نہاد جہاد کے ایندھن بنتے ہیں۔ ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہوتی ہیں۔ اسلام و مسلمانوں کی بدنامی اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر الشباب, بوکوحرام یا جیش محمد و لشکر طیبہ کے جہاد سے مسلمانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟ کیا ان سب کے جہاد سے مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل ہوا ہے؟ بلکہ اگر بنا کسی تعصب کے حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جاے تو نقصان ہی نقصان ہوا ہے فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ ہاں کچھ لوگوں نے جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بیوقوف ضرور بنایا ہے۔ ان کا مالی اور جذباتی استحصال کیا ہے اور اپنی جیبیں گرم کی ہیں۔

اور میں علامہ کے اس قول سے کلی طور پر متفق ہوں کہ آج کے دور میں بیشتر مسلمانوں و ان کے حکمرانوں میں جو خرابیاں و برائیاں موجود ہیں پہلے ان کے خلاف جہاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج کون سی ایسی برائی ہے جو مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی ہے۔ أپنے گردو پیش کا جائزہ لیجیے آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا۔ بلکہ میرے خیال میں آج کل مسلمان اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی برائیوں و خرابیوں میں کافروں سے کہیں آگے ہیں اور ان کے اندر برائیاں ان سے زیادہ ہیں۔ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی غرضیکہ ہر برائی مسلمان سماج و معاشرہ میں موجود ہی نہیں بلکہ جڑ جمائے ہوے ہے۔ شرک, بدعت, کبر و غرور, نسل پرستی , بد دیانتی, والدین کی نافرمانی, بخل , ظلم, چوری, ڈکیتی, جھوٹ,شراب نوشی , رشوت, دھوکہ دہی , فریب, غیبت, چغل خوری, ملاوٹ, جوا, زنا, بغض و حسد, کینہ کپٹ, قتل و خونریزی, بے پردگی , عریانیت, سود, حرام کمائی, دوسرے کا مال ہڑپ کر لینا, دوسرے کی زمیں پر قبضہ کر لینا , حق بات نہ کہنا, جھوٹی گواہی دینا وغیرہ کا دور دورہ ہے اور یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ آپ خود ہی سوچئے کہ کتنے فیصد مسلمان نماز ادا کرتے ہیں ؟ کتنے زکوۃ دیتے ہیں؟ کتنے مالدار طاقت والے مسلمان حج کرتے ہیں؟ عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیسا معاملہ ہے؟ کیا ہم اپنی لڑکیوں کو میراث میں ان کا حصہ دیتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں و بچیوں کو ضروری دینی تعلیم دیتے ہیں وغیرہ ۔ نہ جانے اس طرح کے کتنے سوال ہیں۔ بلکہ میرے خیال میں پوری دنیا کے مسلمانوں میں فساد و بگاڑ کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ان کے اصلاح کے لیے زبر دست و انتھک محنت کی ضرورت ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ان فساد و برائی کی جڑوں کو اکھاڑنا چاہتا ہے اس کو خود ہی جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے مسلمان حکمراں بھی ان معاملوں میں ہم سے پیچھے نہیں بلکہ وہ ہم سے دو قدم آگے ہی ہیں۔ ان کے اندر فساد وبگاڑ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان ممالک کے سربراہ اسلامی شریعت کی تنفیذ نہیں کرتے ہیں۔ حدود کو نافذ نہیں کرتے ہیں۔ ان کے محکموں میں انسانی قوانیں پر عمل ہوتا ہے۔اسلامی تعلیم , دعوت و تبلیغ سے انہیں دلچسپی نہیں ہے۔ مسلمان ملکوں کی سیاست انتہائی گندی ہے۔ اکثر حکمراں سیاسی و مالی فساد میں مبتلا ہیں۔ سرکاری خزانے کو اپنا نجی مال تصور کرتے ہیں۔ ان میں دینی غیرت و حمیت برائے نام ہے۔ وہ اپنی ذاتی مفادات پر قوم و ملک کی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم چیز اپنی کرسی کی حفاظت ہے۔ جہاد کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حقیقی اتفاق و اتحاد کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ غیر اسلامی دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پے ان کا ردعمل صرف بیان بازی تک محدود رہتا ہے۔ اسی وجہ سے میرا ملاحظہ ہے کہ جومحنت, لگن, خلوص اور جذبہ صادق , غیر مسلم حکمرانوں میں اپنی قوموں و ملکوں کے تئیں پایا جاتا ہے وہ عموما مسلمان حکمرانوں میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ وغیرہ

ایسی صورت حال میں ان نام نہاد جہادی تنظیموں کے اس جہاد کی کیا ضرورت ہے اور کیا ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کافروں کے خلاف جہاد کوچھوڑ کے پہلے مسلمانوں کے خلاف جہاد کریں۔ ان کو صحیح معنی میں مسلمان بنائیں۔ مسلمان حکمرانوں کی اصلاح کریں۔ ان کے اندر موجود فساد و بگاڑ کو دور کریں ۔

اور میں آخر میں کہتا ہوں کہ ان نام نہاد جہادی تنظیموں نے سالہا سال سے اب تک جتنا سرمایہ, مال و دولت اور وقت اپنے اس مزعوم بناوٹی جہاد پر صرف کیا ہے۔ جتنی تگ و دو, دوڑ دھوپ اور محنت کی ہے اگر انھوں نے اتنی ہی محنت مسلمانوں و ان کے حکمرانوں کی اصلاح پر کی ہوتی۔ اتنا ہی سرمایہ اور وقت اس پر لگایا ہوتا۔ تو آج یقینا نتیجہ دوسرا ہوتا اور مسلمان حقیقت میں مسلمان ہوتے اور ان کا سماج و معاشرہ ان تمام خرابیو ں وبرائیوں سے بہت حد تک پاک ہوتا۔ اور ان کا جہاد بھی حقیق جہاد ہوتا اور مسلمان بھی حقیقی طور پر کافروں کے خلاف جہاد کے لیے معنوی و مادی ہر طرح سے تیار ہوتے۔

آخر میں میں قارئین کرام سے مضمون کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں۔ در اصل میں نے فتوى کو اس کی اصل عبارت میں منتقل کر دیا ہے تاکہ کسی کو شک و شبہ کی ادنى گنجائش باقی نہ رہے۔اس کے علاوہ کچھ چیزوں کو میں نے طوالت سے بچنے کے لیے بہت مختصر طور پر بیان کیا ہے جب کہ اس میں مجھے مزید تفصیل کی ضرورت کا احساس ہے۔ لیکن یہ تفصیلات کتابوں و انٹرنٹ میں موجود ہیں وہاں سے بآسانی لی جا سکتی ہیں۔ امید ہے کہ اس سے مسلمان نوجوانوں کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی ہو گی اور وہ ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا ایندھن بننے سے محفوظ رہیں گے۔

وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔


(ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق)
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
السلام علیکم.. یہ جو قدرت والی شرط جو ہے اس کی کوئی دلیل دے سکتے ہیں آپ ؟؟؟
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
اس کا مطلب ہے کہ اگر قدرت نہیں ہے تو مسلمان مرتے رہیں کفار کے ہاتھوں اور قیدی بنتے جائیں جب تک کے کوئی قدرت نہ ہو .
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
جناب آپ کی اس لمبی چوڑی تحریر کو پڑھ کر کچھ سوالات زہن میں ابھرے ہیں امید آپ ان کے جوابات مرحمت فرمائیں گے
1- اگر کافر افواج کسی مسلمان ملک پر حملہ کر دے اور وہاں کے باشندوں کو اپنا غلام بنا کر ، ان پر مظالم ڈھائے، ان کے جان مال و عصمت کو پامال کرے، ان کی آذادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبائے، ان کی زمینوں پر قبضہ جمائے، تو ایسے میں وہاں کے رہنے والے مسلمانوں پر اور اگر وہاں کے مسلمان بے سر و سامان ہوں تو جو مسلمان ان کے قریب بستے ہیں ان پر کیا زمہ داری عائد ہوتی ہے، کیا ان پر بھی جہاد فرض نہیں ہوتا اگر نہیں ہوتا تو کیوں اور ان مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر عالم اسلام کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ اور اگر عالم اسلام بھی خاموش تماشائی بنا رہے تو کیا اس سر زمین کے مظلوم باشندوں کے لیے '' مار '' کھانا ہی صحیح ہے یا ان کو کسی گروہی شکل میں اٹھ کر دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے چاہئیں، اور اگر وہ اپنے دفاع میں ایسا کرتے ہیں تو آپ ان کے عمل کو غلط کس بنیاد پر کہتے ہیں؟
2-سنہ 656ھ میں مسلمانوں کا خلیفہ بغداد میں شہید کر دیا گیا اب مسلمانوں کے پاس نہ خلافت تھی نہ کوئی حکومت یہاں تک کہ 659ھ تک مسلمان بغیر خلافت و امارت کے رہے، سوال یہ ہے کہ پھر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے ان تین سالوں میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو، جو بغیر خلافت و امارت کے جہاد کرتے رہے، طائفہ منصورہ کیوں کر قرار دیا؟
3- کئی احادیث ایسی ہیں جن میں "لاتزال" لن یبرح "جیسے الفاظ آئے ہیں جو قتال کے دوام پر دلالت کرتے ہیں مثلاً فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہے(( لا تزال طائفۃ من امتی یقاتلون على الحق ظاهرين الی یوم القیامہ ))مسلم 1223
اور فرمایا(( لن یبرح ھذا الدین قائما '' یقاتل" علیہ عصابۃ من المسلمين حتی تقوم الساعۃ ))مسلم :1299
ان دونوں احادیث میں جو مسلم شریف کی ہیں، لفظ قتال استعمال ہوا ہے اور لا تزال اور لن یبرح اور حتی تقوم الساعۃ کے الفاظ قتال کے دوام کو ظاہر کرتے ہیں، یعنی قتال روز قیامت تک جاری رہے گا ایک حدیث میں ہے کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال کے خلاف جہاد کرے گا، الصحیحۃ :1959، احادیث میں کہیں بھی جہاد و قتال کو خلافت و حکومت کے ساتھ مشروط نہیں رکھا گیا، جبکہ صحیح حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ نہ خلافت ہے نہ امارت مگر جہاد کا پھر بھی حکم ہے، امام طبرانی نے معجم کبیر( 11138)میں حدیث بیان فرمائی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ( 3270)میں اسے درج کیا ہے، فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے '' اس دین کی ابتداء نبوت اور رحمت سے ہے، پھر خلافت اور رحمت کا دور ہو گا، اس کے بعد ملوکیت اور رحمت ہو گی، پھر لوگ اس حکومت پر گدھوں کی طرح لوگ ایک دوسرے کو کاٹیں گے،، پھر رسول اللہ صلی اللہ نے حکم فرمایا کہ تم جہاد کرنا، فعلیکم بالجهاد،، اگر جہاد کے لیے خلافت و امارت شرط ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بعد بھی اس کا زکر فرماتے،، تو سوال یہ ہے کہ دوام جہادوقتال کی احادیث کی آپ کیا تاویل فرمائیں گے؟


Sent from my SM-E700H using Tapatalk
 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کا شرعی جائزہ
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

عصر حاضر میں دنیا کے کئی مسلمان ممالک میں نام نہاد جہادی تنظمیں سرگرم ہیں۔ جن میں سر فہرست القاعدہ, داعش, بوکوحرام, الشباب، لشکر طیبہ، جیش محمد، حزب المجاہدین وغیرہ ہیں, پاکستان تو ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا گڑھ ہے۔ ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا جائزہ شریعت کی روشنی میں پیش خدمت ہے۔ اور میرا اس سے مقصد مسلمان نوجوانوں کو ان جہادی تنظیموں کی غیر شرعی حیثیت سے واقف کرانا ہے تاکہ وہ ان کا شکار بننے سے محفوظ رہیں۔ اور میں اس جائزہ کے لیے قرآن کریم کی ایک آیت مع ترجمہ وتفسیر, دو فتاوی اور جہاد کے شروط نقل کر رہا ہوں۔


اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
یقینا جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں و جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور ان کی مدد کی وہی در اصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لاے ہیں لیکن ہجرت نہیں کی تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے۔

( انفال/72)

اس آیت سے واضح ہے کہ اگر کسی کافر ملک میں رہنے والے مسلمان بصورت ظلم کسی مسلم ملک سے مدد طلب کرتے ہیں تو مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا فرض ہے۔ لیکن اگر اس کافر ملک اور مسلم ملک کے درمیان صلح کا اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو ایسی صورت میں مسلمانوں کی حمایت و مدد کے مقابلے میں معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے اور مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو معاہدات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔

(دیکھیے: تفسیر أحسن البیان, چوتھا ایڈیشن, 1418ھ, ص 466 و ترجمہ قرآن مجید, مولانا ابو الاعلى مودودی, طبع ہشتم, نومبر 1990ع, ص 493)

اب یہ فتوی ملاحظہ فرمائیے جو علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا ہے ۔ جن کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔


إنه في عصرنا الحاضر يتعذر القيام بالجهاد في سبيل الله بالسيف و نحوه , لضعف المسلمين ماديا و معنويا و عدم إتيانهم بأسباب النصر الحقيقية , ولأجل دخولهم في المواثيق و العهود الدولية , فلم يبق إلا الجهاد بالدعوة إلى الله على بصيرة .

بلا شبہ ہمارے اس زمانہ میں تلوار اور اس جیسی چیز کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ مسلمان معنوی اور مادی دونوں اعتبار سے کمزور ہیں اور انہوں نے غلبہ و فتح کے حقیقی اسباب و وسائل کو نہیں اپنایا ہے۔ اور اسی طرح وہ بین الاقوامی سمجھوتوں اور معاہدوں میں داخل ہیں۔ لہذا جہاد کا صرف ایک ہی طریقہ بچا ہے اور وہ اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دینا ہے۔
المصدر : مجموع فتاوى ابن عثيمين رحمه الله ج (18/ 388)

قرآن کی اس آیت اور فتوی سے واضح ہے کہ عہد و مواثیق کے ہوتے ہوئے کسی کافر ملک پر حملہ کرنا صحیح نہیں ہے جو عام طور سے یہ نام نہاد تنظیمیں کر رہی ہیں۔


اب جہاد کے شروط ملاحظہ فرمائیے اور پھر خود ہی غور فرمائیے کہ کیا یہ تنظیمیں ان شروط پر پورا اتر تی ہیں۔ یہ شروط عربی میں مکمل حوالہ کے ساتھ منقول ہیں ۔


مجلة البحوث الإسلامية,تصفح برقم المجلد , العدد السابع والتسعون - الإصدار من رجب إلى شوال 1433 هـ , البحوث , الفرق بين الجهاد والإرهاب , المبحث الأول الجهاد , المطلب الخامس شروط الجهاد, (الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 223),المطلب الخامس


شروط الجهاد, ويشتمل على :
1- التكليف.

2- الحرية.
3- القدرة.
4- الذكورية.
5- إذن الوالدين.
6- إذن ولي الأمر.

1- التكليف :فالواجبات الشرعية تجب على البالغ العاقل ، وقد جاء دليل خاص بالجهاد على شرط التكليف ، وذلك أن النبي - صلى الله عليه وسلم - ردَّ ابن عمر حينما عرض على النبي - صلى الله عليه وسلم - يوم أُحد وهو ابن أربع عشرة فلم يجزه ، وعرض عليه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة فأجازه.
وقال ابن القيم : (إن النبي - صلى الله عليه وسلم - رده لما استصغره عن القتال ، وأجازه لمَّا وصل إلى السن التي رآه فيها مطيقًا)

2- الحرية :فالعبد ليس من أهل القتال ، قال تعالى :
(الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 224)
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلا عَلَى الْمَرْضَى وَلا عَلَى الَّذِينَ لا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ [التوبة: 91] ، قال محمد بن عيسى بن أصبغ : (فأما العبد ، فالجمهور على أنه ليس من أهل الفرض في الجهاد ، وأنه لم يخاطب بذلك إلا الأحرار ؛ لأن فعل الجهاد تصاب فيه النفس والمال بالإتلاف ، وهو مقصور على ذلك بالشرع

3- القدرة :وهي شرط معتبر ، سواء في جهاد الأفراد ، أو في جهاد الجماعة ، قال تعالى : لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلا عَلَى الْمَرْضَى وَلا عَلَى الَّذِينَ لا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [التوبة: 91] .


ويقول شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : (ومن كان عاجزًا عن إقامة الدين بالسلطان والجهاد ففعل ما يقدر عليه من النصيحة بقلبه ، والدعاء للأمة ، ومحبة الخير ، وفعل ما يقدر عليه من الخير ، لم يكلف ما عجز عنه)


وقال الشيخ محمد بن عثيمين - رحمه الله - عن الجهاد : (ولا بد فيه من شرط : وهو أن يكون عند المسلمين قدرة وقوة يستطيعون بها القتال ، فإن لم يكن لديهم قدرة فإن إقحام أنفسهم في القتال إلقاء بأنفسهم إلى التهلكة .. إلى أن قال : وعلى هذا ، فلا بد من هذا الشرط وإلا سقط عنهم كسائر الواجبات)(الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 225)


4- الذكورية :من شروط وجوب الجهاد الذكورية ، قال تعالى : وَإِذَا أُنْـزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ (86) رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لا يَفْقَهُونَ [التوبة: 86، 87] .
قال الحافظ محمد الكرجي - رحمه الله - (ت : 360 هـ) في فوائد الآية : (فيه دليل على أن النساء لا جهاد عليهن وإن أطقنه ؛ لأنه جل جلاله قد ذكر الخوالف مرتين في الآية الأولى ، والثانية ، ولم يخرجهن ، إنما أخرج من تشبه في التخلف عنه بمن لا جهاد عليه)

5- إذن الوالدين :عن عبد الله بن عمرو قال : جاء رجل إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - يستأذنه في الجهاد ، فقال : أحي والداك ؟ قال : نعم ، قال : ففيهما فجاهد
أي خصصهما بجهاد النفس في رضاهما وقد بيَّن الحافظ ابن حجر رحمه الله : (أن هذا الرجل استفصل عن الأفضل في أعمال الطاعات ؛ ليعمل به ؛ لأنه سمع فضل الجهاد فبادر إليه ، ثم لم يقنع حتى استأذن فيه ، فَدُلَّ على ما هو أفضل منه في حقِّه) فقوله صلى الله عليه وسلم : ففيهما فجاهد ، قال الحافظ ابن حجر أيضًا : (أي إن كان لك أبوان فبالغ جهدك في برهما ، والإحسان إليهما ؛ فإن ذلك يقوم مقام الجهاد) (الجزء رقم : 97، الصفحة رقم: 226)

6- إذن ولي الأمر :وقد سئل فضيلة الشيخ صالح الفوزان عن حكم القتال بدون إذن الإمام ، فقال : (لا يجوز ما دام أنه ليس للمجاهدين إمام شرعي ؛ لأن هذا يجر على المسلمين شرًا وضررًا أكثر مما يتوقع من المصلحة ، فلا جهاد في الإسلام إلا بإمام ، هذه هي القاعدة ، وهذا مما يدل على ضرورة نصب الأئمة)


یہ ہیں وہ شروط جن کا ایک اسلامی جہاد میں پایا جانا ضروری ہے ۔ اب ان نام نہاد جہادی تنظیموں کو جائزہ لینا چاہیے کہ یہ شروط ان کے اندر پائے جاتے ہیں کہ نہیں؟ میں ان تمام شروط کا ترجمہ کرنے سے گریز کر رہا ہوں کیونکہ اس سے موضوع بہت ہی طویل ہو جائے گا۔ میں صرف تیسری شرط کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو قدرت و طاقت سے عبارت ہے یعنی مسلمانوں پر جہاد اسی صورت میں فرض ہے جب ان کے پاس جہاد کی مادی طاقت اور قوت ہو, وسائل و ذرائع فراہم ہوں۔
اب میں جہاد سے متعلق ایک فتوى نقل کرتا ہوں۔ یہ فتوى محدث عصر علامہ البانی رحمہ اللہ کا ہے۔ اس فتوى میں انھوں نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ شرعی جہاد کیا ہے اور یہ کس پر واجب ہے؟ کیا جماعتوں اور گروپوں کا جہاد اسلامی جہاد ہے اور کیا ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے؟ لیجیے خود فتوى پڑھئے اور خود فیصلہ کجیجے۔

نصُّ الفتوى:
سؤال: هناك كثير من الشباب المسلم المستقيم – يعني الملتزم – يسأل عما ترون في الجهاد؛ كثير منهم متحمسون للجهاد، فهم في حيرة مما يسمعون من آراء متضاربة حول ((عدم وجوب أو فرضية الجهاد)) بشكل أفراد أو بشكل مجموعات إسلامية، إلا إذا تحقق سلطان مسلم يحكم فيهم بشرع الله عز وجل أو يقيم شرع الله بدولة إسلامية، فبعضهم كذلك يُعتدُّ برأيهم عند كثير من الناس، وأنتم تعرفون أمثال هؤلاء. كذلك من إخواننا من أهل السلف من يختلفون مع بعض إخوانهم وأساتذتهم السلفيين في هذا الموضوع، فهنا العكس؛ يَجوز الجهاد لمن توفرت له القدرة دون أن يكون هناك عوائق للوالدين أو التزامات ...إلى آخره، فهم في حيرة ويطلبون رأيكم في هذا الأمر لأنَّهم يحبونكم في الله ويستأنسون برأيكم؟.

اس سوال میں شیخ سے شخصی یا کسی جماعت و گروہ کے ماتحت جہاد کا حکم دریافت کیا گیا ہے؟
أجاب الشيخ الألباني رحمه الله تعالى: شیخ البانی کا جواب


بالنسبة للجهاد يا أخي في هذا الزمان وقبل هذا الزمان فهو فرض عين, لأنَّ المشكلة الآن ليست هي مشكلة البوسنة والهرسك؛ التي أثارت من جديد عواطف الشباب المسلم، فهنا بجوارنا اليهود قد احتلوا فلسطين، ولم تتحرك أي دولة من الدول الإسلامية لتقوم بواجب مجاهدتهم وإخراجهم!!، ورميهم في البحر كما كان يقول بعض وأحد رؤساء إحدى الدول العربية!!.المقصود: أنَّ الجهاد هو فرض عين؛ لأنَّ كثيراً من البلاد الإسلامية قد احتلت قديماً وحديثاً من بعض الكفار، ومثل هذا الاحتلال لا يخفى على فرد من أفراد المسلمين يهتم بشؤون المسلمين فضلاً عن الجماعات الإسلامية أو الأحزاب الإسلامية أو الدول الإسلامية.

ولكنَّ الجهاد له أركانه وله شروطه؛ فنحن نعتقد معشر المسلمين جميعاً: أنَّ الجهاد الواجب هو إنَّما يجب على المسلمين الذين يتعاونون جميعاً على القيام بما فرض الله عز وجل عليهم من جهاد الكفار وإخراجهم من البلاد الإسلامية التي احتلوها.


ولسنا بحاجة الآن لنسوق الأدلة من الكتاب والسنة، فهذه مسألة لا خلاف فيها بين العلماء، أنَّ الجهاد فرض عين إذا ما احتل طرف من أطراف البلاد الإسلامية( )، فكيف والمحتل منها أطراف كثيرة جداً؟!

ولكن – مع الأسف – أُريد أن أقول: إنَّ هذا الجهاد الذي هو فرض، وفرض عين لا يستطيع الأفراد – كما جاء في السؤال – أن يقيموا به!!، بل ولا بعض الجماعات الإسلامية أو الأحزاب الأسلامية!!؛ لأنَّ هذا الجهاد وبخاصة في زماننا هذا الذي تعددت فيه وسائل القتال, لا تستطيع هذه الأحزاب أو هذه الجماعات فضلاً عن الأفراد أن يقوموا بهذا الجهاد العيني، وإنَّما هذا الواجب على الدول؛ والدول الإسلامية التي تملك من العتاد والقوة ووسائل الحرب الحديثة ما لو أنَّها اجتمعت وأخلصت لهذا الجهاد لقامت بالواجب العيني، ولكنَّ مع الأسف الشديد هذه الدول لا تحرك ساكناً لتقوم بواجب هذا الجهاد، وقد تَكِلُ أمر هذا الجهاد إلى بعض الجماعات والأحزاب، وهي لا تستطيع أن تفعل شيئاً لإيقاف أعتداء الكافر المعتدي على بعض البلاد الإسلامية، والواقع يشهد أنَّ أي جماعة مسلمة تقوم إما بمقاتلة المعتدي كما وقع في الأفغان مثلاً، أو بالخروج على الحاكم الذي ظهر كُفره كما وقع في الجزائر مثلاً.
فهذا الواقع المؤسف يدل على: أنَّ الجهاد الفردي أو الحزبي لا يُثمر الثمرة المرجوة من فريضة الجهاد، الثمرة هذه هي: أن تكون كلمة الله هي العليا.


فإذاً نحن نعتقد أنَّ الجهاد لا يمكن إلا أن يكون: تحت راية إسلامية أولاً، وتحت جماعة مسلمة متكتلة من مختلف البلاد الإسلامية وليس من بلد واحد أو اقليم واحد، يضاف إلى ذلك أنَّه لابدَّ من تقوى الله عز وجل بالإبتعاد عما نهى الله عنه من الأمور المعروفة لدى المسلمين كآفَّة علماً، ولكنَّها بعيدة عن تطبيقها مع الأسف عملياً.


وقد ذكرنا – وأختصر الكلام أيضاً ما استطعت – أكثر من مرَّة أنَّ ما حلَّ في المسلمين اليوم من هذا الذل والهوان الذي لا يعرفه التاريخ الإسلامي إنَّما سببه أنَّ المسلمين تخلَّوا بتطبيق آية واحدة على الأقل، ألا وهي قوله تبارك وتعالى(إن تنصروا الله ينصركم ويثبت أقدامكم))، ومما لاشكَّ فيه أنَّ نصر المسلمين لله عز وجل؛ إنَّما يراد به: نصر أحكام شريعته، وجعلها حقيقة واقعة، وهذا – مع الأسف الشديد – ليس متحقق في الحكومات ولا في الأفراد.


فالحكومات أكثرها لا تحكم بما أنزل الله عزَّ وجل، ومن كان منها لايزال فيها بقية من حكم بما أنزل الله، فليس فيها حتى الآن من أعلن الجهاد في سبيل الله عز وجل, ولذلك فالأفراد والشعوب ضعيفة؛ مادام أنَّ أي حكومة إسلامية لم ترفع راية الجهاد في سبيل الله عز وجل المستلزم لمقاتلة الذين يلونهم من الكفار، وليس الذين هم بعيدون عنه كل البعد، فالمسلمون بدولهم وبأحزابهم وبجماعاتهم وأفرادهم، إذا لم يقوموا بجهاد الكفار الذين هم بجانبهم وقريباً من ديارهم، فهم لن يستطيعوا أن يجاهدوا من كان بعيداً عنهم، مثل: مثلاً إرتيريا، والصومال، والبوسنة والهرسك.


لهذا فنحن نُذكِّر الآن: بأنَّ على الشباب المسلم أفراداً وجماعات وأحزاباً أن ينشروا الوعي الإسلامي الصحيح في الشعوب أولاً، ثم في الحكام ثانياً؛ وهو أن يحكم هؤلاء جميعاً بما أمر الله عز وجل.
فعلى الحكام أن يحكموا بما أنزل الله عز وجل وبما أمر، والأفراد أيضاً أن يحكموا بما أنزل الله عز وجل وبما أمر، أنا أشعر اليوم: أنَّ كثيراً من الأفراد والجماعات والأحزاب يُلقون المسؤولية على الحكام فقط، بينما في اعتقادي جازماً: أنَّ المسؤولية تقع على هؤلاء الأفراد والجماعات والأحزاب كما تقع على الحكومات!!، ذلك لأنَّ الحكومات ما نبعت إلا من أرض هؤلاء المسلمين، هؤلاء المسلمون هم الذين خاطبهم الرسول صلى الله تعالى عليه وآله وسلم بحديثين اثنين:

أحدهما: قوله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم(إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد: سلط الله عليكم ذلاً، لا ينزعه حتى: ترجعوا إلى دينكم)) .

والحديث الآخر: قوله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم(ستتداعى عليكم الأمم، كما تداعى الأكلة إلى قصعتها، قالوا: أمن قلة نحن يومئذ يارسول الله؟ قال: لا بل أنتم يومئذ كثير!!، ولكنكم غثاء كغثاء السيل، ولينزعنَّ الله الرهبة من صدور عدوكم، وليقذفنَّ في قلوبكم الوهن، قالوا: وما الوهن يارسول الله؟ قال: حب الحياة وكراهية الموت)).

وهذه المخالفات التي ذكرها رسول الله صلى الله تعالى عليه وآله وسلم في هذا الحديث: هي الآن – مع الأسف – في كل المجتمعات الإسلامية واقعة، فهي من المصائب الجلية التي استلزمت نزول هذا الذل في المسلمين حتى ران على قلوبهم؛ حكومات كما قلنا وجماعات وأفراد. الحكومات التي لا تحكم بما أنزل الله، ولئن كان فيها من تحكم بما أنزل الله فأول ظاهرة لا تدل على أنَّها لا تحكم بما أنزل الله: أنَّها لم تعلن الجهاد في سبيل الله عز وجل

وإذا كان هذا الزمان ليس هو الزمن الذي يجب فيه الجهاد في سبيل الله عز وجل وقد احتلت كثير من بلادنا، فمتى سيكون هذا الجهاد واجباً؟! لكنَّ المصيبة – وهذه مشكلة المشاكل – أنَّه ليس عندنا من يستطيع، لماذا؟، لأنَّنا منغمسون في المعاصي، ومنغمسون في الخلافات الحزبية والدولية، ونحن نعلم أنَّ من أسباب الضعف والهزيمة: أن يختلف المسلمون بعضهم مع بعض.

وقد وقعنا قريباً في تجربة مؤسفة جداً ألا وهي: الجهاد الأفغاني، حيث أنَّنا كنَّا نأمل أن تكون عاقبته نصراً للمسلمين، وبشائر قوية لوضع النواة لدولةٍ أسلاميةٍ وإذا العاقبة والنتيجة تنعكس، بسبب: أنَّ البشائر الأولى التي ظهرت من الانتصار على العدو اللدود ألا وهم الشيوعون قد أضمحلت حينما بدأت الفرقة بين الأحزاب التي لم يمنعهم إسلامهم الذي يدينون به من أن يتفرقوا إلى سبعت أحزاب وربنا عز وجل يقول( مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَلا تَكُونُوا مِنْ الْمُشْرِكِينَ. مِنْ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعاً كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ))، إذاً من أراد أن يجاهد: فعليه أن يتخذ أسباب الجهاد أولاً، وأسباب أكتساب النصر ثانياً، وهذا وذاك غير متحقق مع الأسف في هذا الزمان، والله عز وجل يقول في القرآن الكريم: ((إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ))، إذاً نحن ندعو إلى: اهتمام الأفراد والجماعات والأحزاب فضلاً عن الحكومات الإسلامية بنشر الإسلام الصحيح المصَفَّى من كل دخيل فيه مع مرِّ الزمان، وتربية المسلمين على هذا الإسلام الصحيح، يوم تبدأ هذه البشائر وتتجلَّى في هذه الساحة الإسلامية الواسعة، يومئذ تبدأ بشائر الإستعداد للقيام بالفرض العيني من الجهاد.

هؤلاء الأفراد المتحمسون الذين يذهبون إلى كثير من البلاد المغزوة من الكفَّار كالبوسنة والهرسك مثلاً: ماهي الأسلحة التي معهم؟! من هم القوَّاد؟! من هم الرؤوس الذين يستطيعون أن ينظمونهم وأن يجعلوهم يقاتلون تحت إمرةٍ واحدةٍ؟! لو قامت راية واحدة كما وقع في أفغانستان لكانت الثمرة كما رأينا في أفغانستان!!.

إذاً قال تعالى(وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ))، أين هذا الإعداد؟! ومن الذي يستطيع أن يقوم بهذا الإعداد؟!، الأفراد؟! لا، الحكومات؟! نعم، الحكومات نستطيع أن نقول بأنَّهم يقومون بشيء من الإعداد يأخذونه من أعدائهم!!!، فلو أنَّ هناك قتالاً وجهاداً قام بين المسلمين وبين الكفَّار فهؤلاء المسلمون سوف لا يستطيعون أن يتابعوا إمداد جيوشهم بالأسلحة اللازمة لهم إلا شراءً من أعدائهم!!!، وهل يكون نصر وجهاد بشراء الأسلحة من أعداء المسلمين؟! هذا أمر مستحيل!!؛ لذلك هذا الإعداد المأمور به في هذه الآية: لم تقم به حتى الدول الإسلامية، لأنَّ شراء الدول الإسلامية لأسلحة مدمرة يكون من أعدائهم ومن خصومهم!!؛ وقد يكون هناك بعض الدسائس التي قد تفسد عليهم أسلحتهم إذا ما أرادوا استعمالها ضد عدوهم الكافر.

لهذا قلت، وأُنهي كلامي وجوابي عن هذا السؤال:
إنَّ الله عز وجل حينما قال( وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ)) هذا الخطاب لأصحاب النبي صلى الله تعالى عليه وآله وسلم ثم هو موجه لعامة المسلمين بالتالي بعموم النص؛ ولكن هذا الخطاب وجِّه إلى الصحابة بعد أن رُبُّو تربيةً إسلاميةً صحيحةًحتى تمكنوا من أن يقوموا بتنفيذ مثل هذا الخطاب؛ ألا وهو: إعداد القوة المادية، بعد أن قاموا بإعداد القوة المعنوية بنفوسهم أو في نفوسهم؛ بسبب تربية نبيهم صلى الله تعالى عليه وآله وسلم إيَّاهم، والتاريخ يعيد نفسه.

فلابُدَّ من تربية شعبٍ من الشعوب الإسلامية ليتمكن هذا الشعب من القيام بإعداد العدَّة المادية، ونحن اليوم لا نجد شعباً قام بهذا الواجب الذي نُعبِّر نحن عنه بكلمتين: (التصفية والتربية)، نجد أفراداً مبعثرين هنا وهناك!!؛ أمَّا أن تكون هناك جماعةً، وعلى هذه الجماعة أمير بويع من المسلمين كآفةً( )، ورفع راية الجهاد لمجاهدة الأعداء هذا لم يحصل بعدُ!!.

ولذلك فنحن ندعو: إلى إيجاد هذه المقدمة للجهاد المُقَدَّس، أمَّا الإنطلاق وراء عواطف لم يتحقق في أهلها رُبَّما الجهاد المعنوي؛ وهو فهم الإسلام فهماً صحيحاً وتطبيقه تطبيقاً جماعيّاً، وأن يكون عليهم بعد ذلك أمير وهو الذي يأمرهم أن يُعِدّوا ما استطاعوا من سلاحٍ ومن قوَّةٍ، فيوم يوجد مثل هذا: يومئذ يفرح المؤمنون بنصر الله، والله ينصر من يشاء، هذا ما عندي جواباً لهذا السؤال] انتهى جواب الشيخ الألباني رحمه الله تعالى عن السؤال الذي طُرِح إليه في شريط بعنوان (فرضية الجهاد)، رقم الشريط (720).
وبهذه ينتهي ما أردنا بيانه نصحاً لعموم المسلمين، واستجابةً لبعض الأخوة الأحباب، ودفعاً لتلبيس أهل الأهواء والتحريف، والله الموفِق وهو الهادي إلى سواء السبيل.
سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، استغفرك وأتوب إليك


میں اس فتوى کا مکمل ترجمہ تو نہیں کر رہا ہوں۔ میں صرف ان چند اہم چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں جن کا تذکرہ شیخ نے اپنے اس فتوى میں کیا ہے۔

1۔ جہاد کرنا اس دور میں فرض ہی نہیں بلکہ فرض عین ہے ۔ کیونکہ بہت سارے ممالک پر دشمنوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ لیکن جہاد کے ارکان و شروط ہوتے ہیں۔ اور میں افسوس کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس فرض بلکہ فرض عین جہاد کی طاقت افراد اور جماعتوں یا گروہوں کو حاصل نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس دور میں جنگ کے بہت زیادہ وسائل و ذرائع ہیں۔ مختلف طریقے اور شکلیں ہیں۔ اسی وجہ سے یہ جماعتیں, گروہیں اس طرح کی جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہیں, چہ جائیکہ افراد اس طرح کی جنگ کر سکیں۔


2۔ شیخ کا کہنا ہے کہ جہاد کرنا اسلامی ملکوں کا کام ہے جو ساز وسامان, قوت اور جدید جنگی وسائل سے لیس ہوتی ہیں, اب اگر یہ متفق و متحد ہو کے اخلاص کے ساتھ جہاد کرتی ہیں تو اس ذمہ داری کو ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن سخت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے یہ حکومتیں ذرہ برابر کچھ نہیں کرتی ہیں۔ بلکہ یہ معاملہ وہ بعض گروہوں اور جماعتوں پر چھوڑ دیتی ہیں۔ جو در حقیقت بعض اسلامی ممالک پر واقع جارحیت کو روکنے کی ذرہ برابر طاقت نہیں رکھتی ہیں۔


3۔ امر واقع سے پتہ چلتا ہے کہ فردی یا گروہی جہاد سے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوتے ہیں جو کہ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہے۔ لہذا میرا پختہ عقیدہ ہے کہ جہاد صرف اور صرف اسلامی علم کے تحت ہو ۔ اسی طرح جہاد مختلف اسلامی ممالک کے متحدہ اسلامی جماعت کے تحت ہو۔ صرف ایک ملک یا علاقہ یا ایک حکومت کی طرف سے نہ ہو۔ اس کے علاوہ ہر چیز میں اللہ کا تقوى اختیار کیا جائے۔


4۔ میں اپنی بات مختصر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ آج کے دور میں مسلمان جس بے نظیر تاریخی ذلت و رسوائی اور خواری میں مبتلا ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس آیت یاایہا الذین آمنوا ان تنصرو اللہ ینصرکم و یثبت أقدامکم
( محمد/7) پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یعنی اے مومنو: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔ اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ اور بلا شبہ اس آیت میں اللہ کی مدد سے مراد اس کے دین کی مدد اور اس کی شریعت کو حقیقت میں نافذ کرنا ہے۔اور یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ یہ چیز نہ تو حکومتوں میں موجود ہے اور نہ ہی افراد میں۔ کیونکہ اکثر حکومتیں اللہ کی شریعت کو نافذ نہیں کرتی ہیں۔ اور جو نافذ بھی کرتی ہیں ان میں سے کسی نے بھی آج تک اللہ کی راہ میں جہاد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افراد اور قومیں ضائع و برباد ہیں۔


5- اسی وجہ سے میرا یہ کہنا ہے کہ آج کے تمام مسلمان نوجوانوں پر باعتبار فرد, جماعت و گروہ لازم ہے کہ وہ پہلے اپنی قوموں میں اور پھر حاکموں میں صحیح اسلامی بیداری پیدا کریں کہ یہ سب اللہ کی شریعت کی پابندی کریں اور اس کو نافذ کریں۔


6- فی زمانہ مجھے اس کا بھی احساس ہے کہ بہت سارے لوگ, جماعتیں اور گروہیں یہ ذمہ داری صرف مسلمان حکمرانوں پر ڈال دیتی ہیں جبکہ میرا پختہ یقین ہے کہ جس طرح یہ حکومتوں کی ذمہ داری ہے اسی طرح یہ افراد, جماعتوں اور گروہوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ یہ حکومتیں انہیں مسلماںوں سے بنتی ہیں۔


7- شیخ نے مذکورہ بالا دو حدیثوں کا تذکرہ کر کے یہ بتلایا ہے کہ ان میں مذکور مخالفات بہت ہی افسوس کے ساتھ تمام اسلامی معاشروں میں موجود ہیں خواہ وہ افراد ہوں یا جماعت اور گروہ, کیونکہ اکثر حکومتیں اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکومت نہیں کرتی ہیں۔

اور اگر ان میں سے بعض اللہ کی شریعت کی تنفیذ کر رہی ہیں تو پہلا رجحان جو ان کے بھی شریعت کے مطابق حکومت نہ کرنے کی دلیل ہے وہ یہ کہ انھوں نے بھی جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان نہیں کیا ہے۔


8- اور اگر اس زمانہ میں جہاد فی سبیل اللہ واجب نہیں ہے جبکہ ہمارے بہت سارے ممالک پر دشمنوں نے قبضہ کیا ہوا ہے تو پھر کب جہاد واجب ہو گا۔ لیکن سب سے بڑی مصیبت اور پریشانی یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی جہاد کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم سب گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور بین الاقوامی و جماعتی اختلافات میں غرق ہیں۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا باہمی اختلاف کمزوری و شکست کے اسباب میں سے ہے۔ جس کا ایک زندہ نمزنہ افغانی جہاد ہے۔وہ افغانی جہاد جس سے ہمیں بہت زیادہ توقعات وابستہ تھیں۔ کیونکہ انھوں نے ایک بہت بڑے اسلامی دشمن کو شکست کا مزہ چکھایا تھا جس سے امید تھی کہ اس کا انجام مسلمانوں کا فتح و غلبہ ہو گا۔ اور یہ ایک اسلامی حکومت کے بنیاد کی زبردست خوشخبری ہو گی۔ لیکن ان کے آپسی اختلافات اور سات گروپوں میں بٹ جانے کی وجہ سے اس کا الٹا نتیجہ بر آمد ہوا۔


9- اس لیے جس کا بھی ارادہ جہاد کا ہے اس کے لیے ضروی ہے کہ وہ پہلے جہاد کے وسائل و اسباب اختیار کرے اور پھر فتح و نصرت کے حصول کے ذرائع کو اپنائے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ دونوں چیزیں آج کے زمانہ میں موجود نہیں ہیں۔

10۔ آخر میں علامہ کا یہ کہنا ہے کہ آج کے دور میں پہلے مسلمانوں کو معنوی تربیت کی ضرورت ہے بعد ازاں مادی تیاری کی جو کہ جہاد کا مقدمہ ہے۔

ناظرین: قرآن کی آیت, علامہ ابن عثیمین اور محدث عصر علامہ البانی کے فتاوى اور جہاد کے شروط و اصول سے واقف ہونے کے بعد جائزہ پیش خدمت ہے۔

مذکورہ بالا چیزوں سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جہاد کے لیے قدرت و طاقت کی شرط ہے جو ان تنظیموں میں بالکل نہیں پائی جاتی ہے۔ اسی طرح مسلمان و کافر ملکوں کے درمیان کیے گئے سمجھوتوں اور معاہدوں کا پاس و لحاظ رکھنا شرعی طور پر واجب ہے۔ اس کی خلاف ورزی کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔ لہذا ان تنظیموں کا کسی کافر ملک کے اندر گھس کے حملہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ چیز خاص طور سے قابل ذکر ہے کہ اگر کسی کافر ملک کے مظلوم مسلمان مدد طلب کرتے ہیں تب بھی ان معاہدوں کا پاس و لحاظ ضروری ہے۔ ان کی مدد حملہ اور جنگ کے ذریعہ نہیں کی جا سکتی ہے بلکہ اس کے لیے سیاسی و اقتصادی یا کوئی بھی دوسرا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اگر حملہ کرنا ہے تو معاہدہ کے ختم ہونے کا انتظار کیا جائے گا یا دشمن معاہدہ توڑ دے تو پھر حملہ کیا جا سکتا ہے۔

اور موجودہ دور کے محدث علامہ ناصرالدین البانی کا جہاد کے متعلق طویل فتوى بہت ہی واضح ہے۔ اور میں اس فتوى کے لفظ لفظ سے متفق ہوں۔ کیونکہ یہ فتوی ایک عظیم محدث اور عالم دین کا ہے جس کی شریعت پر گہری نظر ہے۔ اور جو مسلمانوں و ان کے حکمرانوں کے حالات سے گہری واقفیت رکھتا ہے ۔ اور جو موجودہ دنیا کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے۔

اس فتوى میں جہاں ایک طرف یہ بتلایا گیا ہے کہ جہاد کا اعلان کرنا, اور جہاد کرنا یہ اسلامی ملکوں اور ان کے حکمرانوں کا کام ہے۔ یہ کسی فرد , جماعت یا گروہ کا کام نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں عصر حاضر کے مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں میں موجود کمیوں اور نقائص کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بتلایا ہے کہ ان کمیوں کو دور کیے بغیر جہاد ممکن نہیں ہے۔ علامہ نے مزید یہ بھی وضاحت کر دی ہے کہ جماعت وفرد یا گروہ کا جہاد مفید نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے متوقع نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ فتوى نہ صرف نام نہاد جہادی تنظیموں بلکہ مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کو بھی ان کا اصلی چہرہ دکھاتا ہے۔

میں کہتا ہوں کہ علامہ کے اس فتوی کی روشنی میں تمام نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کو اپنا احتساب کرنا چائیے۔ کیونکہ جہاد کا اعلان کرنا یا جہاد کرنا ان کا کام نہیں ہے۔ کیونکہ جہاد کے جو شروط وضوابط, اصول وقوانیں ہیں وہ ان کے جہاد کے اندر نہیں پائے جاتے ہیں۔ کیا اسلام معصوموں کے قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ کیا اسلام عورتوں و بچوں کے قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اگر ان کو اسلامی اصول و ضوابط کا علم نہیں ہے تو وہ یہ حدیث بھی پڑھ لیں:
‏اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ فِي سَبِيلِ اللهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ، اغْزُوا وَلاَ ‏تَغُلُّوا، ‏وَلاَ ‏تَغْدِرُوا، ‏‏وَلاَ ‏تُمَثِّلوا، ‏وَلاَ تَقْتُلُوا وَلِيدًا، أَوِ امْرَأَةً، وَلا كَبِيرًا فَانِيًا، وَلا مُنْعَزِلاً بِصَوْمَعَةٍ)
(مسلم)

اس طرح کی احادیث کتب احادیث میں بکثرت موجود ہیں۔ کیا ان سب کا پاس و لحاظ یہ جماعتیں کرتی ہیں۔ اور کیا ان کے اندر قدرت کی شرط پائی جاتی ہے؟ اور ایک اہم چیز یہ کہ وہ کافروں کے مقابلے میں تیاری نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے وسائل و ذرائع نہایت محدود ہیں۔ ان کی اقتصادی و مالی حالت نہایت کمزور ہے۔ لہذا ان کی تیاری کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ غرضیکہ شرعی نقطہ نظر سے ان کو جہاد کا حق حاصل نہیں ہے۔

علاوہ ازین ان کا جہاد مفید بھی نہیں ہے بلکہ اس سے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ جانی و مالی دونوں نقصان ہوتا ہے۔ مسلمان لڑکے اس نام نہاد جہاد کے ایندھن بنتے ہیں۔ ان کی زندگیاں تباہ و برباد ہوتی ہیں۔ اسلام و مسلمانوں کی بدنامی اس کے علاوہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر الشباب, بوکوحرام یا جیش محمد و لشکر طیبہ کے جہاد سے مسلمانوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا ہے؟ کیا ان سب کے جہاد سے مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل ہوا ہے؟ بلکہ اگر بنا کسی تعصب کے حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جاے تو نقصان ہی نقصان ہوا ہے فائدہ کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ ہاں کچھ لوگوں نے جہاد کے نام پر مسلمانوں کو بیوقوف ضرور بنایا ہے۔ ان کا مالی اور جذباتی استحصال کیا ہے اور اپنی جیبیں گرم کی ہیں۔

اور میں علامہ کے اس قول سے کلی طور پر متفق ہوں کہ آج کے دور میں بیشتر مسلمانوں و ان کے حکمرانوں میں جو خرابیاں و برائیاں موجود ہیں پہلے ان کے خلاف جہاد کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج کون سی ایسی برائی ہے جو مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی ہے۔ أپنے گردو پیش کا جائزہ لیجیے آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا۔ بلکہ میرے خیال میں آج کل مسلمان اسلام کا نام لیتے ہوئے بھی برائیوں و خرابیوں میں کافروں سے کہیں آگے ہیں اور ان کے اندر برائیاں ان سے زیادہ ہیں۔ بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی غرضیکہ ہر برائی مسلمان سماج و معاشرہ میں موجود ہی نہیں بلکہ جڑ جمائے ہوے ہے۔ شرک, بدعت, کبر و غرور, نسل پرستی , بد دیانتی, والدین کی نافرمانی, بخل , ظلم, چوری, ڈکیتی, جھوٹ,شراب نوشی , رشوت, دھوکہ دہی , فریب, غیبت, چغل خوری, ملاوٹ, جوا, زنا, بغض و حسد, کینہ کپٹ, قتل و خونریزی, بے پردگی , عریانیت, سود, حرام کمائی, دوسرے کا مال ہڑپ کر لینا, دوسرے کی زمیں پر قبضہ کر لینا , حق بات نہ کہنا, جھوٹی گواہی دینا وغیرہ کا دور دورہ ہے اور یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ آپ خود ہی سوچئے کہ کتنے فیصد مسلمان نماز ادا کرتے ہیں ؟ کتنے زکوۃ دیتے ہیں؟ کتنے مالدار طاقت والے مسلمان حج کرتے ہیں؟ عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کا کیسا معاملہ ہے؟ کیا ہم اپنی لڑکیوں کو میراث میں ان کا حصہ دیتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں و بچیوں کو ضروری دینی تعلیم دیتے ہیں وغیرہ ۔ نہ جانے اس طرح کے کتنے سوال ہیں۔ بلکہ میرے خیال میں پوری دنیا کے مسلمانوں میں فساد و بگاڑ کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ ان کے اصلاح کے لیے زبر دست و انتھک محنت کی ضرورت ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ان فساد و برائی کی جڑوں کو اکھاڑنا چاہتا ہے اس کو خود ہی جڑ سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے مسلمان حکمراں بھی ان معاملوں میں ہم سے پیچھے نہیں بلکہ وہ ہم سے دو قدم آگے ہی ہیں۔ ان کے اندر فساد وبگاڑ کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر مسلمان ممالک کے سربراہ اسلامی شریعت کی تنفیذ نہیں کرتے ہیں۔ حدود کو نافذ نہیں کرتے ہیں۔ ان کے محکموں میں انسانی قوانیں پر عمل ہوتا ہے۔اسلامی تعلیم , دعوت و تبلیغ سے انہیں دلچسپی نہیں ہے۔ مسلمان ملکوں کی سیاست انتہائی گندی ہے۔ اکثر حکمراں سیاسی و مالی فساد میں مبتلا ہیں۔ سرکاری خزانے کو اپنا نجی مال تصور کرتے ہیں۔ ان میں دینی غیرت و حمیت برائے نام ہے۔ وہ اپنی ذاتی مفادات پر قوم و ملک کی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ ان کے لیے سب سے اہم چیز اپنی کرسی کی حفاظت ہے۔ جہاد کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ خلافت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حقیقی اتفاق و اتحاد کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ غیر اسلامی دنیا میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پے ان کا ردعمل صرف بیان بازی تک محدود رہتا ہے۔ اسی وجہ سے میرا ملاحظہ ہے کہ جومحنت, لگن, خلوص اور جذبہ صادق , غیر مسلم حکمرانوں میں اپنی قوموں و ملکوں کے تئیں پایا جاتا ہے وہ عموما مسلمان حکمرانوں میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ وغیرہ

ایسی صورت حال میں ان نام نہاد جہادی تنظیموں کے اس جہاد کی کیا ضرورت ہے اور کیا ان کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ کافروں کے خلاف جہاد کوچھوڑ کے پہلے مسلمانوں کے خلاف جہاد کریں۔ ان کو صحیح معنی میں مسلمان بنائیں۔ مسلمان حکمرانوں کی اصلاح کریں۔ ان کے اندر موجود فساد و بگاڑ کو دور کریں ۔

اور میں آخر میں کہتا ہوں کہ ان نام نہاد جہادی تنظیموں نے سالہا سال سے اب تک جتنا سرمایہ, مال و دولت اور وقت اپنے اس مزعوم بناوٹی جہاد پر صرف کیا ہے۔ جتنی تگ و دو, دوڑ دھوپ اور محنت کی ہے اگر انھوں نے اتنی ہی محنت مسلمانوں و ان کے حکمرانوں کی اصلاح پر کی ہوتی۔ اتنا ہی سرمایہ اور وقت اس پر لگایا ہوتا۔ تو آج یقینا نتیجہ دوسرا ہوتا اور مسلمان حقیقت میں مسلمان ہوتے اور ان کا سماج و معاشرہ ان تمام خرابیو ں وبرائیوں سے بہت حد تک پاک ہوتا۔ اور ان کا جہاد بھی حقیق جہاد ہوتا اور مسلمان بھی حقیقی طور پر کافروں کے خلاف جہاد کے لیے معنوی و مادی ہر طرح سے تیار ہوتے۔

آخر میں میں قارئین کرام سے مضمون کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں۔ در اصل میں نے فتوى کو اس کی اصل عبارت میں منتقل کر دیا ہے تاکہ کسی کو شک و شبہ کی ادنى گنجائش باقی نہ رہے۔اس کے علاوہ کچھ چیزوں کو میں نے طوالت سے بچنے کے لیے بہت مختصر طور پر بیان کیا ہے جب کہ اس میں مجھے مزید تفصیل کی ضرورت کا احساس ہے۔ لیکن یہ تفصیلات کتابوں و انٹرنٹ میں موجود ہیں وہاں سے بآسانی لی جا سکتی ہیں۔ امید ہے کہ اس سے مسلمان نوجوانوں کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی ہو گی اور وہ ان نام نہاد جہادی تنظیموں کا ایندھن بننے سے محفوظ رہیں گے۔

وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔


(ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق)
جناب آپ کی اس لمبی چوڑی تحریر کو پڑھ کر کچھ سوالات زہن میں ابھرے ہیں امید آپ ان کے جوابات مرحمت فرمائیں گے
1- اگر کافر افواج کسی مسلمان ملک پر حملہ کر دے اور وہاں کے باشندوں کو اپنا غلام بنا کر ، ان پر مظالم ڈھائے، ان کے جان مال و عصمت کو پامال کرے، ان کی آذادی کے لیے اٹھنے والی آوازوں کو دبائے، ان کی زمینوں پر قبضہ جمائے، تو ایسے میں وہاں کے رہنے والے مسلمانوں پر اور اگر وہاں کے مسلمان بے سر و سامان ہوں تو جو مسلمان ان کے قریب بستے ہیں ان پر کیا زمہ داری عائد ہوتی ہے، کیا ان پر بھی جہاد فرض نہیں ہوتا اگر نہیں ہوتا تو کیوں اور ان مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر عالم اسلام کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ اور اگر عالم اسلام بھی خاموش تماشائی بنا رہے تو کیا اس سر زمین کے مظلوم باشندوں کے لیے '' مار '' کھانا ہی صحیح ہے یا ان کو کسی گروہی شکل میں اٹھ کر دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے چاہئیں، اور اگر وہ اپنے دفاع میں ایسا کرتے ہیں تو آپ ان کے عمل کو غلط کس بنیاد پر کہتے ہیں؟
2-سنہ 656ھ میں مسلمانوں کا خلیفہ بغداد میں شہید کر دیا گیا اب مسلمانوں کے پاس نہ خلافت تھی نہ کوئی حکومت یہاں تک کہ 659ھ تک مسلمان بغیر خلافت و امارت کے رہے، سوال یہ ہے کہ پھر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے ان تین سالوں میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو، جو بغیر خلافت و امارت کے جہاد کرتے رہے، طائفہ منصورہ کیوں کر قرار دیا؟
3- کئی احادیث ایسی ہیں جن میں "لاتزال" لن یبرح "جیسے الفاظ آئے ہیں جو قتال کے دوام پر دلالت کرتے ہیں مثلاً فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہے(( لا تزال طائفۃ من امتی یقاتلون على الحق ظاهرين الی یوم القیامہ ))مسلم 1223
اور فرمایا(( لن یبرح ھذا الدین قائما '' یقاتل" علیہ عصابۃ من المسلمين حتی تقوم الساعۃ ))مسلم :1299
ان دونوں احادیث میں جو مسلم شریف کی ہیں، لفظ قتال استعمال ہوا ہے اور لا تزال اور لن یبرح اور حتی تقوم الساعۃ کے الفاظ قتال کے دوام کو ظاہر کرتے ہیں، یعنی قتال روز قیامت تک جاری رہے گا ایک حدیث میں ہے کہ ان کا آخری گروہ مسیح دجال کے خلاف جہاد کرے گا، الصحیحۃ :1959، احادیث میں کہیں بھی جہاد و قتال کو خلافت و حکومت کے ساتھ مشروط نہیں رکھا گیا، جبکہ صحیح حدیث سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ نہ خلافت ہے نہ امارت مگر جہاد کا پھر بھی حکم ہے، امام طبرانی نے معجم کبیر( 11138)میں حدیث بیان فرمائی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ( 3270)میں اسے درج کیا ہے، فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہے '' اس دین کی ابتداء نبوت اور رحمت سے ہے، پھر خلافت اور رحمت کا دور ہو گا، اس کے بعد ملوکیت اور رحمت ہو گی، پھر لوگ اس حکومت پر گدھوں کی طرح لوگ ایک دوسرے کو کاٹیں گے،، پھر رسول اللہ صلی اللہ نے حکم فرمایا کہ تم جہاد کرنا، فعلیکم بالجهاد،، اگر جہاد کے لیے خلافت و امارت شرط ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بعد بھی اس کا زکر فرماتے،، تو سوال یہ ہے کہ دوام جہادوقتال کی احادیث کی آپ کیا تاویل فرمائیں گے؟


Sent from my SM-E700H using Tapatalk
 
شمولیت
مئی 27، 2016
پیغامات
256
ری ایکشن اسکور
75
پوائنٹ
85
اور ایک بات یہ بھی ہے کہ غزوہ بدر وموتہ میں کیا مسلمانوں کی قدرت تھی لڑنے کی ؟؟ اگر نہیں تھی تو پھر یہ قدرت والی شرط کیوں؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

مجھے معلوم ہے کہ میں کونسے پلیٹ فارم پر کھڑا ہوں اور اس لئے ایسا کبھی ہوا نہیں کہ میں ان کے خلاف کوئی ایسی بات پیش کروں یا خود لکھوں کہ جس سے یہاں کسی کو کوئی تکلیف پہنچے یا یہاں کا ماحول خراب ہو اس لئے کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسا میٹیریل وہیں سے لوں جو ان کے مطابق میل کھاتا ہو، اس لئے پہلی پوسٹ کسی سلفی فورم سے لی گئی ہے جو کسی ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ ہے اور یہ اس فورم پر سٹاف ٹیم کا حصہ بھی ہیں اگر کسی کو علمی گفتگو کرنی ہے تو اپنا تعارف کروائیں پھر دیکھیں گے کہ اعتراض کرنے والا خود کہاں پر کھڑا ہے اس لئے ضرورت پڑی تو ڈاکٹر صاحب کو یہاں آنے کی دعوت بھی دے دیں گے۔

السلام علیکم.. یہ جو قدرت والی شرط جو ہے اس کی کوئی دلیل دے سکتے ہیں آپ ؟؟؟
آپ اسے اگنور کریں اور خود مضمون سے قدرت پر جو اعتراض ہیں اس پر اپنا رد پیش کریں جس سے میری معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔

جناب آپ کی اس لمبی چوڑی تحریر کو پڑھ کر کچھ سوالات زہن میں ابھرے ہیں امید آپ ان کے جوابات مرحمت فرمائیں گے
جناب یہ تحریر میری نہیں بلکہ جن کی ہے ان کا نام ابتداء میں بھی پیش کیا اور اختتام پر بھی شائد آپ دیکھ نہیں پائے، مزید آپ نے جو سوال لکھا ہے اس کا جواب تو مضمون کے اندر ہی ہے اس لئے آپ دیکھ نہیں پائے تو میرے بتانے پر کیا سمجھو گے اس لئے اس کے رد میں آپ بھی ایک کوشش کر کے دیکھ لیں۔ پھر بھی آپکے سوال کا جواب یہی ہے کہ آپ اس ظلم کے خلاف جو کرنا چاہتے ہیں ہیں اس پر عمل کریں آپکو کوئی نہیں روکے گا۔

والسلام

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
جہاد اور ناصر الدین البانی

ایک اور بحث ''مناظرہ ماتنہیم الجہاد الاسلامی'' جو کہ علامہ ناصر الدین البانی کی ایک تقریر ہے ، سے لی گئی ہے۔

اسلامک جہاد آرگنائیزیشن کے ایک حامی
اور
علامہ ناصر الدین البانی

کے درمیان جہاد کے موضوع پر ہونے والے ایک مکالمے کی یہ روداد ہے۔

اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہمیں اس میں کوئی شک نہ ہے کہ آپ اس صدی کے چند علماء میں سے ہیں جو کہ سلف کے منہج (طریقہء کار ) کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ جہاد کے مسئلے پر سلف الصالحین کے مسلک کی پیروی کرنے والوں کے درمیان اختلاف ہے۔ جہاد کے لئے ہم لوگوں کو دو شرائط کے تحت دعوت دے رہے ہیں۔

1) یہ جہاد خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے ہونا چاہیے

2) یہ جہاد اسلام کے جھنڈے کے تحت ہونا چاہیے۔

البتہ ہم دیندار مسلمانوں سے دوسری شرائط کا بھی سنتے جو وہ آپ سے منسوب کرتے ہیں لیکن ان شرائط کو ہم نے احادیث میں نہیں پایا ہے۔ جیسا کہ تصفیہ اور تربیۃ اور خلیفہ یا اسلامی ریاست۔

یہ وہ شرائط ہیں جو کہ ہم سلف کے منہج کی پیروی کرنے والوں سے سنتے ہیں اور میں بھی اسی مسلک کی پیروی کرنے والوں میں سے ہوں ان شاء اللہ۔

میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آیا ان شرائط کا حوالہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ملتا ہے یا یہ محض موجودہ صورتحال کے متعلق ایک اجتہاد ہیں ؟

اور ان سب سے پہلے (میر ا ایک اور سوال یہ ہے ) کہ کیا واقعی میں آپ (جہاد کے لئے دعوت دینے سے پہلے) ان شرائط کے پورا کرنے کو کہتے ہیں۔؟؟

علامہ ناصر الدین البانی
سب سے پہلے تو ہم آپ سے اس معاملے پر بحث کے لئے راضی ہوئے ہیں تاکہ آپ کی دعوت کے بارے میں پتہ چل سکے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
میں آپ کو اس بارے میں بتا چکا ہوں۔

علامہ ناصر الدین البانی
تو پھر آپ اپنی دعوت کے بارے میں وضاحت کریں کیونکہ آپ کے سوالات ابھی غیر واضح ہیں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی دعوت کس لئے ہے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
میری دعوت واضح ہے کہ ان شرائط کے تحت جہاد کیا جائے جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں : (جہاد صرف اللہ کے لئے کرنے کی نیت)

کیونکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ''جس نے اللہ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے جہاد کیا''

اور جہاد ایک اسلامی جھنڈے کے تحت ہونا چاہیے (یہی ہمارے نزدیک درست جہاد ہے)

اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ : جو عصبیت ('' ایک گروہ کی حمایت کرتے ہوئے دوسرے سے لڑنا'' ) کی لڑائی لڑتے ہوئے مرا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔

علامہ ناصر الدین البانی
کیا ہمیں جہاد کے لئے امیر کی ضرورت ہے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں

علامہ ناصر الدین البانی
تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جہاد بڑے غیر منظم طریقے سے کریں گے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن

علامہ ناصر الدین البانی
اس کے علاوہ آپ کی جو پہلی شرط جو کہ نیت کے بارے میں ہے تو وہ تو ہر عبادت پر لاگو ہوتی ہے اور اس کے بارے میں ہم متفق ہیں۔

آپ کی دوسری شرط جو کہ اسلامی جھنڈے کے تحت جہاد کرنا ہے تو (مجھے بتاؤ) کہ ہمارے پاس اسلامی علم کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس جھنڈے کا کوئی امیر ہی نہ ہو۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہم جہاد ایسے کر سکتے ہیں کہ ایک مسلمان کسی کافر رہنما کے پاس جاتا ہے اور اسے مار دیتا ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی
لیکن ہم تو ایک گروہ کے جہاد کی بات کر رہے ہیں۔

اسلامی شریعت کی رو سے آیا یہ فردِ واحد کا جہاد ہے یا ایک گروہ کا جہاد ہے؟

اس کے علاوہ جب مسلمانوں کا ایک گروہ جہاد کے لئے نکلتا ہے تو کیا انہیں جہاد کے لئے ایک امیر کی ضرورت نہیں ہوتی؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
یقیناً یقیناً کیوں نہیں۔ مسلمانوں کا ایک گروہ جو سفر کرتا ہے یا جہاد کے لئے نکلتا ہے اسے امیر کی ضرورت ہوتی ہے نیز اگر مسلمانوں کا گروہ تین سے زیادہ ہو تب بھی انہیں امیر کی ضرورت ہوتی ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی
تو پھر آپ اسے (یعنی امیر کو) ایک (جہاد کرنے سے پہلے کی شرطوں میں سے) ایک شرط کے طور پر کیوں ذکر نہیں کرتے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ہم اسے ایک شرط کے طور پر مان لیتے ہیں۔

علامہ ناصر الدین البانی
کیا فرضِ عین جہاد کے فرض کو ادا کرنے کے لئے ( فرضِ عین وہ جہاد ہوتا ہے جو کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے) ہمیں ایک جماعت کی ضرورت نہیں یا اسے اکیلے اکیلے افراد ادا کر سکتے ہیں۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
دونوں صورتوں میں

علامہ ناصر الدین البانی
یہ کوئی جواب نہیں ہے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ایسا کیوں ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی
ہم کہتے ہیں کہ جہاد دو قسم کا ہوتا ہے فرضِ کفایہ اور فرضِ عین۔

فرضِ کفایہ وہ جہاد ہوتا ہے جسے مسلمانوں کا ایک گروہ کر لے تو باقی مسلمانوں سے اس کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے جہاد کو اکیلے افراد انجام دے سکتے ہیں۔

فرضِ عین وہ جہاد ہوتا ہے جو کہ کسی خطے کہ تمام مسلمانوں پر واجب ہوتا ہے؟ کیا اسے کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کی ضرورت نہیں ہے؟؟؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ہاں! اس قسم کے جہاد کو کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہو چاہے یہ لڑے یا نہ لڑے۔

علامہ ناصر الدین البانی
بہت خوب، بہت خوب! تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ امیر کا مطلب ہے مسلمانوں کا خلیفہ


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں خلیفہ نہیں

علامہ ناصر الدین البانی
کیوں؟ کیا خلیفہ کہنا خطرناک ہے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی بالضرور کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ '' ہم درخت کا بیج بونے سے پہلے اس کا پھل لینا چاہتے ہیں''

علامہ ناصر الدین البانی
یہی ہے جو میں آپ کو کرتے دیکھتا ہوں کہ آپ مسلمانوں کے تمام گروہ کے لئے ایک امیر چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ خلیفہ نہ ہو۔ کیا یہی آپ کا مطمعِ نظر ہے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ہاں

علامہ ناصر الدین البانی
پھر وہ امیر کہاں ہے؟ اور وہ امیر کون ہے؟ اور کیا ہمارے ایک سے زیادہ امیر ہو سکتے ہیںِ ؟ اس سے پہلے اہم اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے۔

نیز آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ جہاد کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ خلیفہ نہ ہو۔ ہمیں پہلے کیا ملتا ہے ، امیر یا جہاد؟

یہ پوچھنا ایسا ہی ہے کہ '' آیا ہم آذان سے پہلے نماز پڑھتے ہیں یا بعد میں'' کون سی چیز پہلے آتی ہے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ہمیں اس فرضِ عین جہاد کو شروع کرنے سے پہلے ایک امیر کی ضرورت ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی
بہت خوب! تو پہلے ہمیں امیر کی دعوت دینا چاہیے یا جہاد کی؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ، دونوں بیک وقت

علامہ ناصر الدین البانی
لاحول ولا قوۃ الا باللہ ! (کوئی بڑائی کوئی طاقت نہیں ماسوائے اللہ کے)۔

ہم پہلے ہی اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس فرضِ عین جہاد کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے قبل اس کے کہ ہم جہاد شروع کریں ۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا ہم پہلے امیر کی دعوت دیں یا پہلے جہاد کی دعوت؟

گروہ ، بلکہ تمام گروہوں کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے ۔ اس (فرضِ عین) جہاد کو کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کے لئے دعوت دینے کی ضرورت ہے. ( جب امیر منتخب ہو جائے گا) اس کے بعد امیر ، جہاد کے لئے مجاہدین کو ادھر یا ادھر بھیجے گا۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
اچھا ! فرض کیا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ قرآن پاک میں جہاد کے بارے میں پڑھتا ہے اور جہاد کرنا چاہتا ہے اور وہ لوگ جہاد کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اپنے اوپر ایک امیر مقرر کر لیتے ہیں (تو اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے)

علامہ ناصر الدین البانی
اے میرے بھائی! آپ جو صورتحال بیان کر رہے ہو یہ فرضِ کفایہ جہاد کی ہے۔ فرضِ کفایہ کی حد تک تو یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ اکٹھا ہو جائے اور جہاد کے لئے چلا جائے۔

(اس صورتحال میں) ہمارے پاس تمام مسلمان کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں جب کہ ان کا کوئی متفقہ لیڈر (امام ) ہی نہ ہو۔ میں آپ میں سے کسی بھی گروہ کو اس طرف دعوت دیتے ہوئے نہیں دیکھ رہا۔ آپ امیر کے لئے دعوت کیوں نہیں دیتے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ہم اس امیر کے لئے دعوت دیتے ہیں۔

علامہ ناصر الدین البانی
ٹھیک ہے تو آپ کی نظر میں اس امیر کی کیا خصوصیات ہے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
(جی ہاں!) چند خوبیاں (ہیں)۔

علامہ ناصر الدین البانی
اور کیا آپ کو ایسا امیر نظر آتا ہے جس میں یہ خوبیاں موجود ہوں۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
جی ہاں ! بہت !!

علامہ ناصر الدین البانی
کہاں؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہر جگہ۔

علامہ ناصر الدین البانی
ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تمام گروہ کے لئے ایک امیر کی ضرورت ہے یعنی کہ تمام مسلمانوں کے لئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمانوں کا ایک سے زیادہ امیر ہو؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
سوال سنسر ھے

علامہ ناصر الدین البانی
کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت حذيفة بن اليمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث

فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام؟
(اگر تمہاری کوئی جماعت اور کوئی اما م نہ ہو)۔
صحيح بخاری ، كتاب الفتن ، باب : كيف الامر اذا لم تكن جماعة ، حدیث : 7173

(کیا تم جانتے ہو) کہ یہ حدیث اس بارے میں کیا کہتی ہے کیا یہ نہیں کہتی ہے کہ جہاد کے لئے خلیفہ کی ضرورت ہے ۔ یا اس کا مطلب کچھ اور ہے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
اس حدیث کا ہماری گفتگو سے کیا تعلق ہے

علامہ ناصر الدین البانی
کیا حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں پوچھا تھا کہ : ہم اس صورت میں کیا کریں جب جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے موجود ہوں؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ : '' تمہیں جماعت کے ساتھ مضبوطی سے جڑ جانا چاہیے"۔

کیا آج ایسے لوگ موجود نہیں جو کہ مسلمانی کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ جہنم کے دروازوں کی طرف بلا رہے ہیں۔ کیا خلیفہ کی کمی نہیں ہے؟

(جاری ہے)

 
شمولیت
دسمبر 21، 2015
پیغامات
137
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
46
السلام علیکم

مجھے معلوم ہے کہ میں کونسے پلیٹ فارم پر کھڑا ہوں اور اس لئے ایسا کبھی ہوا نہیں کہ میں ان کے خلاف کوئی ایسی بات پیش کروں یا خود لکھوں کہ جس سے یہاں کسی کو کوئی تکلیف پہنچے یا یہاں کا ماحول خراب ہو اس لئے کوشش یہی ہوتی ہے کہ ایسا میٹیریل وہیں سے لوں جو ان کے مطابق میل کھاتا ہو، اس لئے پہلی پوسٹ کسی سلفی فورم سے لی گئی ہے جو کسی ڈاکٹر صاحب کی پیش کردہ ہے اور یہ اس فورم پر سٹاف ٹیم کا حصہ بھی ہیں اگر کسی کو علمی گفتگو کرنی ہے تو اپنا تعارف کروائیں پھر دیکھیں گے کہ اعتراض کرنے والا خود کہاں پر کھڑا ہے اس لئے ضرورت پڑی تو ڈاکٹر صاحب کو یہاں آنے کی دعوت بھی دے دیں گے۔


آپ اسے اگنور کریں اور خود مضمون سے قدرت پر جو اعتراض ہیں اس پر اپنا رد پیش کریں جس سے میری معلومات میں بھی اضافہ ہو گا۔


جناب یہ تحریر میری نہیں بلکہ جن کی ہے ان کا نام ابتداء میں بھی پیش کیا اور اختتام پر بھی شائد آپ دیکھ نہیں پائے، مزید آپ نے جو سوال لکھا ہے اس کا جواب تو مضمون کے اندر ہی ہے اس لئے آپ دیکھ نہیں پائے تو میرے بتانے پر کیا سمجھو گے اس لئے اس کے رد میں آپ بھی ایک کوشش کر کے دیکھ لیں۔ پھر بھی آپکے سوال کا جواب یہی ہے کہ آپ اس ظلم کے خلاف جو کرنا چاہتے ہیں ہیں اس پر عمل کریں آپکو کوئی نہیں روکے گا۔

والسلام

کیا خوب صورت جواب ہے! سبحان اللہ
دکھائیے کہاں ہیں میرے سوالات کے جوابات؟
جب ہمیں ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کی آپ اجازت مرحمت فرما رہے ہیں تو پھر اس تحریر کو یہاں شئیر کرنے کا فائدہ؟
قتال فی سبیل اللہ کے دوام پر دلالت کرنے والی احادیث پر کچھ فرمانے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو یہاں لا سکتے ہیں جی؟

Sent from my SM-E700H using Tapatalk
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
میں پسند کرتا ہوں کہ اس کی بجائے دوسری احادیث کے بارے میں گفتگو کروں (جیسا کہ) '' میری امت کا ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ حق کے لئے ہمیشہ لڑتا رہے گا، وہ اس بات کی پرواہ نہیں کریں گے کہ کون ان سے اختلاف کرتا ہے اور کون ان کو چھوڑ دیتا ہے؟"

علامہ ناصر الدین البانی
اس کا ہماری گفتگو سے کیا تعلق ہے جبکہ ہم پہلے ہی اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ جہاد کے لئے دعوت دینا ضروری ہے۔

ہم اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد آج ایک فرضِ عین ہے۔

ہمارے درمیان جو فرق ہے وہ اس بات کا ہے کہ ہمیں پہلے خلیفہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟

آپ نے جو حوالہ دیا ہے وہ ہماری گفتگو سے کوئی تعلق نہیں رکھتا کیونکہ ہم دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد فرض ہے۔

کیا آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟ ہمارے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ ہمیں جہاد کے لئے ایک خلیفہ کی ضرورت ہے جو کہ جہاد کے لئے دعوت دے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے

علامہ ناصر الدین البانی
ملاحظہ کریں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلمانوں کے امام اور ان کے بنیادی گروہ (جماعت) کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا تھا اور اس حدیث میں جو باتیں بتائی گئی تھیں کیا وہ سچ نہیں ہیں؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
سچ ہیں۔

علامہ ناصر الدین البانی
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں کا امام یا جماعت نہ ہو تو وہ تمام جماعتوں کو چھوڑ دیں۔ اب ایسی صورتحال میں آپ کیا کریں گے؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہم مسلمانوں کا گروہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے اور بعد میں ان کے لئے امام

علامہ ناصر الدین البانی
یہی ہے جس کی طرف ہم دعوت دے رہے ہیں۔ جہاد فرض ہے مگر ابھی اس کا وقت نہیں ہے۔ ہمیں پہلے امام کی ضرورت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم دیا ہے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہمیں یہ کیسے معلوم ہو کہ ہم تب تک جہاد نہیں کر سکتے جب تک ہم خلیفہ کا حصول نہ کر لیں جو کہ لازم ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی
حدیث کی رو سے اگر مسلمانوں کا کوئی امام نہ ہو تو تمام گروہوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اور میں پہلے ہی یہ کہ چکا ہوں کہ ، مسلمانوں کی جماعت ایک امیر (امام) کے تحت یہ فرضِ عین جہاد کرے گی۔ اگر کوئی امام نہ ہو گا تو مسلمان تمام گروہوں سے پرے رہیں گے۔

تو مسلمان متحد ہو کر جہاد کیسے کر سکتے ہیں جبکہ (بیک وقت) وہ تمام گروہوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں؟

آپ اسی بات سے اختلاف کر رہے ہیں جس پر آپ پہلے رضامند ہو چکے تھے۔ اسلام کی رو سے ہمارا صرف ایک ہی جھنڈا، ایک گروہ اور ایک امیر ہے۔ ہمیں اس ایک گروہ کی ضرورت ہے تاکہ ہم جہاد شروع کر سکیں۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
سوال سینسر ھے

علامہ ناصر الدین البانی
اب میں آپ پر یہ بات واضح کروں گا کہ فرضِ عین جہاد کا امیر صرف امیر ہی نہیں بلکہ اسکا خلیفہ ہونا بھی ضروری ہے۔

(میری) دلیل ایک بار پھر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث ہی ہے۔

(حدیث سے استدلال کی صورت میں) بعض دفعہ دلیل قطعی ہوتی ہے اور بعض دفعہ غیر واضح۔

ہم ایک مثال لیتے ہیں کہ ایک شیخ (عالم) اپنے شاگرد کو اس حدیث کی بنا پر نصحیحت کرتا ہے۔ شاگرد اپنے شیخ سے پوچھتا ہے کہ برائی سے اجتناب کا کیا طریقہ ہے۔ شیخ کہتا ہے کہ مسلمانوں کے امام کے ساتھ جڑے رہو، شاگرد جواب دیتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی خلیفہ نہیں ہے تو شیخ نصیحت کرتا ہے کہ تمام گروہوں سے دور رہو۔ شاگرد اپنے شیخ کا تابع فرمان ہے اور شیخ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیروکار ہے۔ یہ شیخ کیا کرے گا کہ وہ ایک وادی میں نکل جائے گا اور اپنی زندگی ایسے گزارے گا کہ غلہ بانی کرے گا یا اللہ کی عبادت کرے گا۔ تو جہاد کہاں ہے؟ اگر جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہوتا تو شیخ نے اسے جہاد کرنے کا کہا ہوتا اور تمام گروہوں سے دور رہنے کا کہا ہوتا۔ جب تک کوئی امام نہیں تب تک کوئی جہاد نہیں۔ جہاد بالضرور ایک امام کے تحت ہونا چاہیے، یا ایک خلیفہ کے۔

لیکن میں تمہیں ایک چیز بتاتا چلوں جو کہ طالب علموں کو بہت مشکل میں ڈال دیتی ہے کہ بہت سے گروہ جیسا کہ افغانستان یا شام میں ایک دہائی پہلے لڑ رہے تھے، اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک امام کے تحت ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شام کے لوگ افغانستان میں لڑیں اور افغانستان کے لوگ شام میں لڑیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں لڑنے والے گروہ ایک ہی امام کے تحت ہونا چاہئے۔ اگر کوئی امام یا جماعت نہ ہو گی تو دونوں گروہ اپنی صوابدید پر لڑ رہے ہوں گے۔

فرضِ عین جہاد کو کرنے کے لیے مسلمانوں کا متحد ہونا واجب ہے اور متحد ہونے کے لیے خلیفہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور اس چیز کو قائم کرنے کے لئے ہمیں تعلیم اور تزکیہ (تصفیہ اور تربیۃ) کی ضرورت ہے ہم ابھی سے جہاد شروع نہیں کر سکتے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ جہاد کے لئے بہت سے گروہ ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ گروہ آپس میں اختلاف میں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
( سورة الانفال : 8 ، آیت : 46 )
''آپس میں جھگڑا نہ کرو ایسا کرو گے تو بزدل ہو جاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ ﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''

ہم آج دریا کے بہتے ہوئے دھارے کی طرح ہیں اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ ان (آپس میں اختلاف رکھنے والے گروہوں کو) شرعی حییثیت حاصل ہو جائے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے اس تعلیم اور تزکیہ سے خلیفہ کیسے حاصل ہو گا۔

علامہ ناصر الدین البانی
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

ہر شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے نمونۂ اتباع ہیں۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا پہلا حصہ دعوت دینے میں گزارا اور اسے جہاد کے بغیر شروع کیا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو یہ اسلامی تعلیم دی کہ سچ بات کرنی ہے اور (سچ بات کرتے ہوئے) خوفزدہ نہیں ہونا ہے۔


آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلامی تعلیمات بھی سکھائیں۔


ہم جانتے ہیں کہ اسلام آج اس حالت میں نہیں ہے جس حالت میں کہ نازل کیا گیا تھا :

'' آج میں نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا ''

بہت ساری چیزیں (بدعات) اسلام میں شامل کر دی گئی ہیں۔ کیا آپ اس سے متفق نہیں ہیں۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ہاں میں اس بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں مگر بہت سے قرآنی شواہد موجود ہیں جن کی رو سے جہاد (مسلمانوں پر) ایک اہم فریضہ ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی
میں اس (حقیقت) کو جھٹلاتا نہیں ، مگر میرے بھائی ، سوال یہ ہے کہ اس جہاد کو (شروع) کرنے کے لئے ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے اور اس امیر کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں تصفیة اور تربیة کی ضرورت ہے۔ اپنے طور پر سوچو، حذیفہ بن یمان کی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ، ہمیں پہلے جہاد کی ضرورت ہے یا پہلے امیر کی؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
کیا (آپ سے) پہلے بھی کسی نے جہاد سے پہلے تصفیة اور تربیة کی دعوت دی ہے؟

علامہ ناصر الدین البانی
اللہ تم پر رحم کرے ۔ مجھے یہ بتاؤ کہ مسلمانوں کا ایک مشترکہ خلیفہ کب نہ تھا؟


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) اور حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

علامہ ناصر الدین البانی
تمہارا مطلب یہ ہے کہ تمہیں اس میں شک ہے کہ علی (رضی اللہ عنہ) صحیح تھے اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) غلطی پر تھے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
نہیں مگر

علامہ ناصر الدین البانی
نہیں مگر ؟؟ اُس وقت کتنے خلیفہ تھے ؟

[ کچھ دیر بحث کے بعد]


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
ٹھیک ہے ٹھیک ہے ، (اُس وقت) ایک (خلیفہ تھا) !!

ایک سامع:
میر ے محترم شیخ ! حقیقتاً اس گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ، اگر کوئی اپنی نیت اور ذہن کو صاف نہیں کرتا تو وہ کبھی سمجھ نہیں پائے گا۔

علامہ ناصر الدین البانی
یقینا یہ ایک اچھی تجویز ہے۔

ہم آج ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں کہ تقدیر کا لکھا غالب آچکا ہے اور ہر شخص اپنی رائے (پر ڈٹے رہنے) کو پسند کرتا ہے۔ آج جو شخص تھوڑا سا قرآن یا کچھ احکام پڑھ لیتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ اسے علم میں کچھ مقام حاصل ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ احادیث کو بغیر غلطی کئے پڑھ نہیں سکتا ہے اور (ساتھ ہی ساتھ) وہ ہر معاملے پر بحث بھی کرنا چاہتا ہے۔


اسلامک جہاد آرگنائزیشن کا حامی
[گفتگو میں مداخلت کرنے کی کوشش]


====================================
====================================


علامہ ناصر الدین البانی

گفتگو کا وقت ختم ہو چکا ہے میں اس بھائی کی نصیحت پر عمل کروں گا۔

علم کے متلاشیوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی نصیحت نہ کریں جو ان کے لئے بڑی گمراہی کا باعث بن جائے۔

یہ آج کل کے نوجوانوں کا المیہ ہے کہ وہ (کسی معاملے میں) سلف اور خلف کی رائے جانے بغیر (اس معاملے پر) اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں۔

میں مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جہاد سے متعلقہ گروہوں کے متعلق مکمل تحقیق کر لیں۔ جہاد کے متعلق اس بات میں (کسی کو) کوئی شک نہ ہونا چاہیے کہ جہاد اسلام کی آن بان ہے نیز جہاد اسلام کی بنیاد ہے اور جہاد کے متعلق آیات اور احادیث ہر (کس و ناکس) کو معلوم ہیں ان شاءاللہ۔


لیکن جہاد کی چند بنیادی شرائط ہیں۔
اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ جو گروہ جہاد کی طرف دعوت دے رہا ہو وہ قرآن اور سنت کے احکامات کی طرف لوٹنے پر رضامند بھی ہو۔

(اور اس شرط کو پورا کرنے کے لئے) تعلیم کے لئے بہت سا وقت درکار ہے، نیز عالموں اور مبلغین کا تزکیہ بھی درکار ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں رضوان اللہ عنہم اجمعین کو تعلیم دی۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مجاہد جہاد کے لئے دعوت دیتے ہیں مگر جب وہ جہاد کے لئے جاتے ہیں تو وہ عقائد اور اسلام کی بنیادی باتوں (کے علم) میں آپس میں اختلاف پاتے ہیں۔

یہ لوگ جہاد کرنے کے لئے کیسے جا سکتے ہیں جب کہ ابھی ان کے لئے یہ سمجھنا باقی ہے کہ عقیدے کی رو سے ان پر کیا لازم ہے۔

اس سے میرے بھائی یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جہاد پر بحث کرنے سے پہلے ہمیں اس کی pre-requisites (بنیادی شرائط ) پر بحث کرنا ہے۔

پہلی بنیادی شرط تو یہ ہے کہ خلیفہ ہو اور اس کا ہم اللہ کے سامنے اقرار کرتے ہوں۔ کیونکہ آج اگر مسلمانوں کا امیر موجود ہو مگر (دوسری طرف) مسلمانوں کے درمیان وہ رشتہ (اسلام کی عام سمجھ بوجھ) موجود نہ ہو تو وہ ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں گے اور ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔ ان سب (مجاہدین) کا ایک ہی طریقۂ کار اور ایک ہی سمجھ بوجھ ہونی چاہیے
(سلف الصالحین کا اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے کا طریقہ)۔

اس لئے میں ہر مسلمان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی (بیان کردہ) حدیث کی رو سے ہر گروہ سے علیحدہ ہو جائیں۔
یعنی stay by yourself ۔ اس کا مطلب الگ تھلگ رہنا (دنیا سے کٹ کر رہنا) ہر گز نہیں ہے

بلکہ ۔۔۔

اس کا مطلب کس بھی گروہ میں شمولیت اختیار نہ کرنا ہے!

آپ اپنے طور پر کوشش کر سکتے ہیں اور (دوسرے مسلمان اپنی طور پر) اپنے علم سے دوسرے مسلمانوں کو درست کر سکتے ہیں۔

یہ (مسلمانوں کے لئے) ایک یاد دہانی ہے اور یقیناً یاد دہانی ایمان والوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔

صفحہ 4/4
ختم شد

(اردو ترجمہ سلفی و مراسلہ باذوق)

ح
 
Top