• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم نبوت ورسالت کی داعیانہ زندگی کا مکی دور

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبوت و دعوت کا مکی دور

نبوت ورسالت سے مشرف ہونے کے بعد رسول اللہﷺ کی زندگی کے دو واضح دور ہیں جو ایک دوسرے سے مکمل طور پر ممتاز ہیں۔ جو یہ ہیں :
(۱) مکی دور...تقریبا ً تیرہ سال
(۲) مدنی دور ...پورے دس سال
پھر دونوں میں سے ہر دور کے کئی مرحلے ہیں اور ہر مرحلے کی اپنی خصوصیات ہیں۔ جن کے ذریعہ سے وہ دوسرے مرحلوں سے ممتاز ہے۔ دونوں دور میں آپﷺ کی دعوت جن حالات سے گزری ہے ان پر باریک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔
مکی دور کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
سری اور انفرادی دعوت کا مرحلہ ...تین سال -
1۔۔۔۔ اہل مکہ میں کھلی دعوت کا مرحلہ ...نبوت کے چوتھے سال کے آغاز سے ہجرتِ مدینہ تک۔
2۔۔۔۔ مکہ سے باہر دعوت کے پھیلاؤ کا مرحلہ ...نبوت کے دسویں سال کے آغاز سے ...یہ مرحلہ مدنی دور کو بھی شامل ہے اور نبیﷺ کی آخری زندگی تک ممتد ہے۔
مدنی دور کے مرحلوں کی تفصیل اپنی جگہ پر آرہی ہے۔
****​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبوت ورسالت کی چھاؤں میں

غارِ حِرا ء کے اندر:
رسول اللہﷺ کی عمر شریف جب چالیس برس کے قریب ہوچلی...اور اس دوران آپﷺ کے اب تک کے تاملات نے قوم سے آپﷺ کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کردیا تھا... تو آپﷺ کو تنہائی محبوب ہوگئی۔چنانچہ آپﷺ ستو اور پانی لے کر مکہ سے کوئی دومیل دور کوہِ حراء کے ایک غار میں جارہتے ... یہ ایک مختصر ساغار ہے جس کا طول چار گز اور عرض پونے دوگز ہے۔ یہ نیچے کی جانب گہرا نہیں تھا بلکہ ایک مختصر راستے کے بازو میں اوپر کی چٹانوں کے باہم ملنے سے ایک کوتل کی شکل اختیار کیے ہوئے ہے۔ آپﷺ رمضان بھر اس غار میں قیام فرماتے، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کرتے۔ کائنات کے مشاہد اور اس کے پیچھے کار فرما قدرتِ نادرہ پر غور فرماتے۔ آپﷺ کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا لیکن آپﷺ کے سامنے کوئی واضح راستہ ، معین طریقہ اور افراط وتفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپﷺ اطمینان وانشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے۔
نبیﷺ کی یہ تنہائی پسندی بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تدبیر کا ایک حصہ تھی تاکہ زمین کے مشاغل ، زندگی کے شور ، اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ہم وغم کی دنیا سے آپ کا کٹنا اس کار عظیم کی تیاری کے لیے پلٹنے کا نقطہ ہو جس کا دنیا کو انتظار تھا اور آپ امانتِ کبریٰ کا بوجھ اٹھانے ، روئے زمین کو بدلنے اور خطِ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اللہ نے رسالت کی ذمہ داری عائد کرنے سے تین سال پہلے آپﷺ کے لیے یہ خلوت نشینی مقدر کردی۔ آپﷺ اس خلوت میں ایک ماہ تک کائنات کی آزاد روح کے ساتھ ہم سفر رہتے اور اس وجود کے پیچھے چھپے ہوئے غیب کے اندر تدبر فرماتے تاکہ جب اللہ تعالیٰ کا اذن ہو تو اس غیب کے ساتھ تعامل کے لیے مستعد رہیں۔ 1
جبریل ؑ وحی لاتے ہیں:
جب آپﷺ کی عمر چالیس برس ہوگئی ... اور یہی سن کمال ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اصل واقعے کے لیے دیکھئے : صحیح بخاری ح ۳، ابن ہشام ۱/۲۳۵، ۲۳۶، اور دیگر کتب تفسیر وسنت وسیرت۔ کہا جاتا ہے کہ عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنھوں نے حراء میں عبادت کی۔ وہ رمضان آتے ہی وہاں جاپہنچتے۔ اور پورے مہینے مسکینوں کو کھانا کھلاتے۔ (الکامل لابن الاثیر۱/۵۵۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کی عمر ہے ... تو آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے، چنانچہ مکہ میں ایک پتھر آپ کو سلام کرتا تھا۔ نیز آپ کو سچے خواب نظر آتے تھے۔ آپﷺ جو بھی خواب دیکھتے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا۔ اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا... جو مدتِ نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اور کل مدتِ نبوت کا تیئس برس ہے... اس کے بعد جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ روئے زمین کے باشندے پر اس کی رحمت کا فیضان ہو۔ چنانچہ اس نے آپﷺ کو نبوت سے مشرف کیا اور حضرت جبریل علیہ السلام قرآن مجید کی چند آیات لے کر آپﷺ کے پاس تشریف لائے۔ 1
دلائل وقرآن پر ایک جامع نگاہ ڈال کر حضرت جبریل علیہ السلام کی تشریف آوری کے اس واقعے کی تاریخ معین کی جاسکتی ہے۔ ہماری تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی ۲۱/تاریخ کو دوشنبہ کی رات میں پیش آیا۔ اس روز اگست کی ۱۰/تاریخ تھی اور ۶۱۰ ء تھا۔ قمری حساب سے نبیﷺ کی عمر چالیس سال چھ مہینے بارہ دن اور شمسی حساب سے ۳۹ سال تین مہینے ۲۲ دن تھی۔ 2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ بیہقی نے یہ حکایت کی ہے کہ خواب کی مدت چھ ماہ تھی۔ لہٰذا خواب کے ذریعے نبوت کا آغاز چالیس سال کی عمر مکمل ہونے پر ماہ ربیع الاوّل میں ہوا جو آپ کی ولادت کا مہینہ ہے لیکن حالت بیداری میں آپ کے پاس وحی رمضان شریف میں آئی۔ (فتح الباری ۱/۲۷ )
2 آغاز وحی کا مہینہ ، دن اور تاریخ مورخین میں بڑا اختلاف ہے کہ نبیﷺ کس مہینے میں شرفِ نبوت اور اعزازِ وحی سے سر فروزہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بیشتر سیرت نگار کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا لیکن ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ رجب کا مہینہ تھا۔ (دیکھئے : مختصر السیرۃ از شیخ عبد اللہ ص :۷۵) ہمارے نزدیک دوسرا قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ (۲/۱۸۵) ''رمضان کا مہینہ ہی وہ (بابرکت مہینہ ہے ) جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا ''اور ارشاد ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ‌ (۹۷/۱) یعنی ''ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ '' اور معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے،یہی لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بھی مراد ہے: إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَ‌كَةٍ ۚ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِ‌ينَ (۴۴/۳) ''ہم نے قرآن مجید کو ایک بابرکت رات میں اتارا۔ ہم لوگوں کو عذاب کے خطرے سے آگاہ کرنے والے ہیں۔ ''دوسر ے قول کی ترجیح کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حراء میں رسول اللہﷺ کا قیام ماہ رمضان میں ہوا کرتا تھا اور معلوم ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حراء ہی میں تشریف لائے تھے۔
جو لوگ رمضان میں نزول وحی کے آغاز کے قائل ہیں ان میں پھر اختلاف ہے کہ اس دن رمضان کی کونسی تاریخ تھی۔ بعض سات کہتے ہیں۔ بعض سترہ اور بعض اٹھارہ (دیکھئے: مختصر السیرہ ص ۷۵ رحمۃ للعالمین ۱/۴۹ ) ابن اسحاق اور علامہ خضری کا اصرار ہے کہ یہ سترہویں تاریخ تھی۔ دیکھئے : تاریخ خضری ۱/۶۹ اور تاریخ التشریع الاسلامی ص ۵، ۶،۷۔)
میں نے ۲۱ تاریخ کو اس بنا پر ترجیح دی ہے کہ بیشتر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ آپ کی بعثت دوشنبہ کے روز ہوئی تھی اور اس کی تائیدابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہﷺ سے دوشنبہ کے دن کے روزے کی بابتïïï
آیئے ! اب ذرا حضرت عائشہ ؓ کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں جو نبوت کا نقطۂ آغاز تھا اور جس سے کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتدا نیند میں اچھے خواب سے ہوئی۔ آپ جو بھی خواب دیکھتے تھے وہ سپیدۂ صبح کی طرح نمودار ہوتا تھا، پھر آپ کو تنہائی محبوب ہوگئی۔ چنانچہ آپ غارِ حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروفِ عبادت رہتے۔ اس کے لیے آپ توشہ لے جاتے۔ پھر (توشہ ختم ہونے پر ) حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس حق آیا اور آپ غارِ حراء میں تھے، یعنی آپ کے فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو۔ آپ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس پراس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ! میں نے کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ پکڑ کر دبوچا۔ پھر چھوڑ کر کہا: پڑھو ! میں نے پھر کہا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا، پھر چھوڑ کر کہا: اقْرَ‌أْ بِاسْمِ رَ‌بِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَ‌أْ وَرَ‌بُّكَ الْأَكْرَ‌مُ ﴿٣﴾
''پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، انسان کو لوتھڑے سے پیدا کیا ، پڑھو اور تمہارا رب نہایت کریم ہے۔''
ان آیات کے ساتھ رسول اللہﷺ پلٹے۔ آپﷺ کا دل دَھک دَھک کر رہا تھا۔ حضرت خَدِیجہ ؓبنت خویلد کے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ انہوں نے آپﷺ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔
اس کے بعد آپﷺ نے حضرت خدیجہ ؓ کو واقعے کی اطلاع دیتے ہوئے فرمایا۔ یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کاڈر لگتا ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا قطعاً نہیں۔ واللہ ! آپﷺ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا۔ آپﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ تہی دستوں کا بند وبست کرتے ہیں۔ مہمان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ïïïدریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ دن ہے جس میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے پیغمبر بنایا گیا ۔ یا جس میں مجھ پر وحی نازل کی گئی ۔ (صحیح مسلم ۱/۳۶۸ ، مسند احمد ۵/۲۹۷ ، ۲۹۹ بیہقی ۴/۲۸۶ ، ۳۰۰ حاکم ۲/۲،۶ ) اور اس سال رمضان میں دوشنبہ کا دن ۷، ۱۴، ۲۱، اور ۲۸تاریخوں کو پڑا تھا ادھر صحیح روایات سے یہ ثابت اور معین ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور انھی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے ۔ اب ہم ایک طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں کہ ہم نے قرآن مجید کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ۔ دوسری طرف ابو قتادہؓ کی یہ روایت دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو دوشنبہ کے روز مبعوث فرمایا گیا ۔ تیسری طرف تقویم کا حساب دیکھتے ہیں کہ اس سال رمضان میں دوشنبہ کن کن تاریخوں میں پڑا تھا تو متعین ہوجاتا ہے کہ نبیﷺ کی بعثت اکیسویں رمضان کی رات میں ہوئی ۔ اس لیے یہی نزول ِ وحی کی پہلی تاریخ ہے ۔
آیتیں عَلَّمَ الْاِِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ تک نازل ہوئی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ آپ کو اپنے چچیرے بھائی وَرَقَہ بن نَوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں۔ ورقہ دورِ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے اور عبرانی میں لکھنا جانتے تھے۔ چنانچہ عبرانی زبان میں حَسبِ توفیق الٰہی انجیل لکھتے تھے۔ اس وقت بہت بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے، ان سے حضرت خدیجہؓ نے کہا : بھائی جان ! آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔ ورقہ نے کہا : بھتیجے ! تم کیا دیکھتے ہو ؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرمادیا، اس پر ورقہ نے آپ سے کہا: یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ ؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش! میں اس وقت توانا ہوتا۔ کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا ! تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا : ہاں! جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو تمہاری زبردست مدد کروںگا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی رک گئی۔ 1
وحی کی بندش:
رہی یہ بات کہ وحی کتنے دنوں تک بند رہی تو اس سلسلے میں ابن سعد نے ابن عباسؓ سے ایک روایت نقل کی ہے۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ بندش چند دنوں کے لیے تھی اور سارے پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بعد یہی بات راجح بلکہ یقینی معلوم ہوتی ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ وحی کی بندش تین سال یا ڈھائی سال تک رہی تو یہ قطعاً صحیح نہیں۔
روایات اور اہل علم کے اقوال پر نظر ڈالنے کے بعد میں ایک عجیب وغریب نتیجہ پر پہنچاہوں۔ جس کا ذکر مجھے کسی صاحب علم کے یہاں نہیں مل سکا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ روایات اور اہل علم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ غار حراء میں ہر سال ایک مہینہ تشریف رکھتے تھے اور یہ رمضان کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔ یہ کام آپ نے نبوت کے تین سال پہلے سے شروع کیا تھا اور سال نبوت اس کام کا آخری سال تھا، پھر رمضان کے خاتمے کے ساتھ حراء میں آپ کی اقامت ختم ہوجاتی تھی اور آپ صبح کو ...یعنی پہلی شوال کی صبح کو ...گھر واپس آجاتے تھے۔
ادھر صحیحین کی روایات میں یہ بات صراحت سے بیان کی گئی ہے کہ وحی کی بندش کے بعد دوبارہ جس وقت وحی نازل ہوئی ہے اس وقت آپﷺ غار حراء میں اپنے قیام کا مہینہ پورا کر کے گھر تشریف لا رہے تھے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس رمضان میں آپﷺ نبوت اور وحی سے مشرف ہوئے اسی رمضان کے خاتمے کے بعد پہلی شوال کو دوبارہ وحی نازل ہوئی کیونکہ یہ حراء میں آپ کے قیام کا آخری موقع تھا اور جب یہ بات ثابت ہے کہ آپ پر پہلی وحی ۲۱/رمضان دوشنبہ کی رات نازل ہوئی تو اس کے معنی یہ ہے کہ وحی کی بندش کل دس دن تھی اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری باب کیف کا بدء الوحی ۱/۲،۳ الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یہ روایت صحیح بخاری کتاب التفسیر اور تعبیر الرؤیا میں بھی مروی ہے۔ نیز مسلم : کتاب الایمان حدیث نمبر ۲۵۲
دوبارہ اس کا نزول جمعرات یکم شوال ۱ نبوت کو ہوا اور شاید یہی وجہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے کو اعتکاف کے لیے خاص کیا گیا ہے اور پہلی شوال کو عید کے لیے۔ (واللہ اعلم )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی کی اس بندش کے عرصے میں رسول اللہﷺ حزین وغمگین رہے اور آپ پر حیرت واستعجاب طاری رہا۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب التعبیرکی روایت ہے کہ :
''وحی بند ہوگئی جس سے رسول اللہﷺ اس قدر غمگین ہوئے کہ کئی بار بلند وبالا پہاڑ کی چوٹیوں پر تشریف لے گئے کہ وہاں سے لڑھک جائیں، لیکن جب کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے کہ اپنے آپ کو لڑھکا لیں تو حضرت جبریل ؑ نمودار ہوتے اور فرماتے اے محمد! آپ اللہ کے رسول برحق ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کا اضطراب تھم جاتا، نفس کو قرار آجاتا اور آپ واپس آجاتے ، پھر جب آپ پر وحی کی بندش طول پکڑ جاتی تو آپ پھر اسی جیسے کام کے لیے نکلتے لیکن جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے توحضرت جبریل ؑ نمودار ہوکر پھر وہی بات دہراتے۔''1
جبریل ؑ دوبارہ وحی لاتے ہیں:
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ یہ (یعنی وحی کی چند روزہ بندش ) اس لیے تھی تاکہ آپ پرجو خوف طاری ہوگیا تھا وہ رخصت ہوجائے اور دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے۔2 چنانچہ جب یہ بات حاصل ہوگئی اور آپ وحی کی آمدکے منتظر رہنے لگے تو اللہ نے آپ کو دوبارہ وحی سے مشرف کیا۔ آپ کا بیان ہے کہ :
''میں نے حراء میں ایک مہینہ اعتکاف کیا۔ جب میرا عتکاف پورا ہوگیا تو میں اترا۔ جب بطن وادی میں پہنچا تو مجھے پکارا گیا۔ میں نے دائیں دیکھا ، کچھ نظر نہ آیا ، بائیں دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ آگے دیکھا ، کچھ نظر نہ آیا، پیچھے دیکھا۔ کچھ نظر نہ آیا، پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو ایک چیز نظر آئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس حِراء میں آیا تھا آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔ میں اس سے خوف زدہ ہوکر زمین کی طرف جاجھکا، پھر میں نے خدیجہؓ کے پاس آکر کہا : مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھادو، مجھے کمبل اوڑھا دو اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دو، انہوں نے مجھے چادر اوڑھادی اور مجھ پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تک نازل فرمائی: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ‌ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ‌ ﴿٢﴾ وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّرْ‌ ﴿٣﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ ﴿٤﴾ وَالرُّ‌جْزَ فَاهْجُرْ‌ ﴿٥﴾ (المدثر:۱تا۵) یہ نماز فرض ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد وحی میں گرمی آگئی اور وہ پیاپے نازل ہونے لگی۔ '' 3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری کتاب التعبیر باب اول مابدئ بہ رسول اللہﷺ الرؤیا الصالحۃ ۲/۱۰۳۴
2 فتح الباری ۱/۲۷
3 صحیح بخاری کتاب التفسیر : تفسیر سورۂ مدثر باب اور اس کے مابعد ، فتح الباری ۸/۴۴۵ -۴۴۷ اور ایسا ہی صحیح مسلم ، کتاب الایمان حدیث نمبر ۲۵۷ ، ۱/۱۴۴ میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہی آیات آپﷺ کی رسالت کا نقطۂ آغاز ہیں۔ یہ رسالت آپ کی نبوت سے اتناہی عرصہ متأخر ہے جتنا عرصہ وحی بند رہی۔ اس میں دوقسم کی باتوں کا آپ کو مکلف کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بھی بتلائے گئے ہیں۔
پہلی قسم:... تبلیغ اور ڈراوے کی ہے۔ جس کا حکم ''قم فانذر'' سے دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اٹھ جایئے ، اور آگاہ کر دیجیے کہ لوگ اللہ برتر کے علاوہ دوسروں کی پوجا کر کے ، اور اس کی ذات وصفات اور افعال وحقوق میں دوسروں کو شریک ٹھہرا کر جس غلطی وگمراہی میں پھنسے ہوئے ہیں اگر اس سے باز نہ آئے تو ان پر اللہ کا عذاب آپڑے گا۔
دوسری قسم:... جس کا آپ کو مکلف کیا گیا ہے یہ ہے کہ آپ اپنی ذات پر اللہ کا حکم لاگو کریں اور اپنی حد تک اس کا التزام کریں۔ تاکہ ایک طرف آپ اللہ کی مرضی حاصل کرسکیں اور دوسری طرف ایمان لانے والوں کے لیے بہترین نمونہ بھی ہوں۔ اس کا حکم باقی آیات میں ہے چنانچہ وَرَ‌بَّكَ فَكَبِّرْ‌ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو بڑا ئی کے ساتھ خاص کریں اور اس میں کسی کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‌ اپنے کپڑے پاک رکھ۔ کا ،مقصود یہ ہے کہ کپڑے اور جسم پاک رکھیں۔ کیونکہ جو اللہ کے حضور کھڑا ہو اور اس کی بڑائی بیان کرے کسی صورت درست نہیں کہ وہ گندہ اور ناپاک ہو اور جب جسم ولباس تک کی پاکی مطلوب ہوتو شرک اور اخلاق وکردار کی گندگی سے پاکی بدرجہ اولیٰ مطلوب ہوگی۔ وَالرُّ‌جْزَ فَاهْجُرْ‌ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کے اسباب سے دور رہو اور اس کی صورت یہی ہے کہ اس کی اطاعت لازم پکڑو اور معصیت سے کنارہ کش رہو اور وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ‌ کامطلب یہ ہے کہ کسی احسان کا بدلہ لوگوں سے نہ چاہو۔ یا جیسا احسان کیا ہے اس سے افضل جزاء کی امید اس دنیا میں نہ رکھو۔
آخری آیت میں تنبیہ کی گئی ہے کہ اپنی قوم سے الگ دین اختیار کرنے ، اسے اللہ وحدہ لاشریک لہ کی دعوت دینے ، اور اس کے عذاب اور گرفت سے ڈرانے کے نتیجے میں قوم کی طرف سے اذیتوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس لیے فرمایا گیا: وَلِرَ‌بِّكَ فَاصْبِرْ‌ اپنے پروردگار کے لیے صبر کرنا۔
پھر ان آیات کا مطلع اللہ بزرگ وبرتر کی آواز میں ایک آسمانی نداء پر مشتمل ہے ، جس میں نبیﷺ کو اس عظیم وجلیل کام کے لیے اٹھنے اور نیند کی چادر پوشی اور بستر کی گرمی سے نکل کر جہاد وکفاح اور سعی مشقت کے میدان میں آنے کے لیے کہا گیا ہے: اے چادر پوش! اٹھ اور ڈرا۔ گویا یہ کہا جارہا ہے کہ جسے اپنے لیے جینا ہے وہ تو راحت کی زندگی گزار سکتا ہے لیکن آپ جو اس زبر دست بوجھ کو اٹھا رہے ہیں تو آپ کو نیند سے کیا تعلق ؟ آپ کو راحت سے کیا سروکار؟ آپ کو گرم بستر سے کیا مطلب ؟ یہ سکون زندگی سے کیا نسبت ؟ راحت بخش سازوسامان سے کیا واسطہ ؟ آپ اٹھ جایئے !اس کار عظیم کے لیے جو آپ کا منتظر ہے۔ ا س بار گزاں کے لیے جو آپ کی خاطر تیار ہے۔ اٹھ جایئے جہد ومشقت کے لیے۔ تکان اور محنت کے لیے۔ اٹھ جایئے ! کہ اب نیند اور راحت کا وقت گزر چکا۔ اب آج سے پیہم بیداری ہے اور طویل اور پر مشقت جہاد ہے۔ اٹھ جایئے ! اور اس کام کے لیے مستعد اور تیار ہوجایئے۔
یہ بڑا عظیم اور پر ہیبت کلمہ ہے۔ اس نے نبیﷺ کو پر سکون گھر ، گرم آغوش اور نرم بستر سے کھینچ کر تند طوفانوں اور تیز جھکڑوں کے درمیان اتھا ہ سمندر میں پھینک دیا اور لوگوں کے ضمیر اور زندگی کے حقائق کی کشاکش کے منجد ھار میں لاکھڑا کیا۔
پھر ...رسول اللہﷺ اٹھ گئے اور بیس سال سے زیادہ عرصہ تک اٹھے رہے، راحت وسکون تج دیا۔ زندگی اپنے لیے اور اپنے اہل وعیال کے لیے نہ رہی۔ آپ اٹھے تو اٹھے ہی رہے ، کام اللہ کی دعوت دینا تھا۔ آپ نے یہ کمر توڑ بارگراں اپنے شانے پر کسی دباؤ کے بغیر اٹھا لیا۔ یہ بوجھ تھا اس روئے زمین پر امانت کبریٰ کا بوجھ ، ساری انسانیت کا بوجھ ، سارے عقیدے کا بوجھ اور مختلف میدانوں میں جہاد ودفاع کا بوجھ۔ آپ نے تیس سال سے زیادہ عرصے تک پیہم اور ہمہ گیر معرکہ آرائی میں زندگی بسر کی اور اس پورے عرصے میں ، یعنی جب سے آپ نے وہ آسمانی ندائے جلیل سنی، اور یہ گراں بار ذمہ داری پائی۔ آپ کو کوئی ایک حالت دوسری حالت سے غافل نہ کرسکی۔ اللہ آپ کو ہماری طرف سے اور ساری انسانیت کی طرف سے بہترین جزا دے۔
اگلے صفحات رسول اللہﷺ کے اسی طویل اور پر مشقت جہاد کاا یک مختصر ساخاکہ ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وحی کے اقسام :
اب ہم سلسلہ ٔ بیان سے ذرا ہٹ کر، یعنی رسالت ونبوت کی حیاتِ مبارکہ کی تفصیلات شروع کرنے سے پہلے وحی کے اقسام ذکر کردینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ رسالت کا مصدر اور دعوت کی کمک ہے۔ علامہ ابن ِ قیم ؒ نے وحی کے حسبِ ذیل مراتب ذکر کیے ہیں :
سچا خواب: اسی سے نبیﷺ کے پاس وحی کی ابتدا ہوئی۔
فرشتہ آپ کو دکھلائی دیئے بغیر آپ کے دل میں بات ڈال دیتا تھا۔ مثلاً: نبیﷺ کا ارشاد ہے :
(( ان روح القدس نفث فی روعی أنہ لن تموت نفس حتی تستکمل رزقہا فاتقوا اللہ وأجملوا فی الطلب ولا یحملنکم استبطاء الرزق علی أن تطلبوہ بمعصیۃ اللہ فان ما عند اللہ لا ینال الا بطاعتہ۔))
''روح القدس نے میرے دل میں یہ بات پھونکی کہ کوئی نفس مر نہیں سکتا یہاں تک کہ اپنا رزق پورا پورا حاصل کرلے۔ پس اللہ سے ڈرو اورطلب میں اچھائی اختیار کرو اور رزق کی تاخیر تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اسے اللہ کی معصیت کے ذریعے تلاش کرو۔ کیونکہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی اطاعت کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔''
فرشتہ نبیﷺ کے لیے آدمی کی شکل اختیار کرکے آپ کو مخاطب کرتا، پھر جو کچھ وہ کہتا اسے آپ یاد کرلیتے۔ اس صورت میں کبھی کبھی صحابہ ؓ بھی فرشتے کو دیکھتے تھے۔
آپ کے پاس وحی گھنٹی کے ٹن ٹنانے کی طرح آتی تھی اور وحی کی یہ سب سے سخت صورت ہوتی تھی۔ اس صورت میں فرشتہ آپ سے ملتا تھا اور وحی آتی تھی تو سخت جاڑے کے زمانے میں بھی آپ کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ پڑتا تھا اور آپ اوٹنی پر سوار ہوتے تو وہ زمین پر بیٹھ جاتی تھی۔ ایک بار اس طرح وحی آئی اور آپ کی ران حضرت زید بن ثابت کی ران پر تھی ، تو ان پر اس قدر گراںبار ہوئی کہ معلوم ہوتا تھا کہ ران کچل جائے گی۔
آپ فرشتے کو اس کی اصلی اور پیدائشی شکل میں دیکھتے تھے اور اسی حالت میں وہ اللہ تعالیٰ کی حسبِ مشیت آپ کی طرف وحی کرتا تھا۔ یہ صورت آپ کے ساتھ دو مرتبہ پیش آئی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم میں فرمایاہے۔
وہ وحی جو آپ پر معراج کی رات نماز کی فرضیت وغیرہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرمائی ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں کے اُوپر تھے۔
فرشتے کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی آپ سے براہ راست گفتگو۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے گفتگوفرمائی تھی۔ وحی کی یہ صورت موسیٰ علیہ السلام کے لیے نص ِقرآنی سے قطعی طورپر ثابت ہے ، لیکن نبیﷺ کے لیے اس کا ثبوت (قرآن کی بجائے) معراج کی حدیث میں ہے۔
بعض لوگوں نے ایک آٹھویں شکل کا بھی اضافہ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ رُو در رُو بغیر حجاب کے گفتگو کرے، لیکن یہ ایسی صورت ہے جس کے بارے میں سلف سے لے کر خلف تک اختلاف چلا آیا ہے۔ 1
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۱/۱۸ پہلی اور آٹھویں صورت کے بیان میں اصل عبارت کے اندر تھوڑی تلخیص کر دی گئی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

پہلا مرحلہ:
دعوت الی اللہ


خفیہ دعوت کے تین سال:
سورۂ مدثر کی گزشتہ آیات نازل ہونے کے بعد رسول اللہﷺ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھ گئے۔ چونکہ آپ کی قوم جفاکار تھی۔ بت پرستی اور درگاہ پرستی اس کا دین تھا۔ باپ دادا کی روش اس کی دلیل تھی۔ غرور وتکبر اور حمیت وانکار اس کا اخلاق تھا اور تلوار ان کے مسائل کا ذریعہ تھی۔ اس کے علاوہ وہ جزیرۃ العرب میں دینی پیشوائی کے صدر نشین تھے۔ اس کے اصل مرکز پر قابض اور اس کے وجود کے نگہبان تھے۔ اس لیے اس کیفیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھاکہ پہلے پہل دعوت وتبلیغ کا کام پس پردہ انجام دیا جائے، تاکہ اہل مکہ کے سامنے اچانک ایک ہیجان خیزصورت حال نہ آجائے۔
اوّلین رَاہروَان اسلام:
یہ بالکل فطری بات تھی کہ رسول اللہﷺ سب سے پہلے ان لوگوں پر اسلام پیش کرتے جن سے آپ کا سب سے گہرا ربط و تعلق تھا، یعنی اپنے گھر کے لوگوں اور دوستوں پر۔ چنانچہ آپ نے سب سے پہلے انہیں دعوت دی۔ اس طرح آپ نے ابتدا میں اپنی جان پہچان کے ان لوگوں کو حق کی طرف بلایا جن کے چہروں پر آپ بھلائی کے آثار دیکھ چکے تھے اور یہ جان چکے تھے کہ وہ حق اور خیر کو پسند کرتے ہیں ، آپ کے صدق وصلاح سے واقف ہیں۔ پھر آپ نے جنہیں اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک ایسی جماعت نے جسے کبھی بھی رسول اللہﷺ کی عظمت ، جلالتِ نفس اور سچائی پر شبہ نہ گزرا تھا، آپ کی دعوت قبول کر لی۔ یہ اسلامی تاریخ میں سابقین اولین کے وصف سے مشہور ہیں۔ ان میں سر فہرست آپ کی بیوی اُم المومنین حضرت خدیجہ ؓ بنت خویلد ، آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ بن شراحیل کلبی 1، آپ کے چچیرے بھائی حضرت علی بن ابی طالب، جو ابھی آپ کے زیر کفالت بچے تھے اور آپ کے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ سب کے سب پہلے ہی دن مسلمان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 جنگ میں قید ہوکر غلام بنالیے گئے تھے۔ بعد میں حضرت خدیجہ ؓ ان کی مالک ہوئیں اور انہیں رسول اللہﷺ کو ہبہ کردیا۔ اس کے بعد ان کے والداور چچا انہیں گھر لے جانے کے لیے آئے لیکن انہوں نے باپ اور چچا کو چھوڑ کر رسول اللہﷺ کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے دستور کے مطابق انہیں اپنا متَبنی (لے پالک ) بنالیا اور انہیں زید بن محمد کہاجانے لگا۔ یہاں تک کہ اسلام نے اس رسم کا خاتمہ کردیا۔ یہ جنگ موتہ جمادی الاولیٰ ۸ ھ میں سپہ سالار لشکر کی حیثیت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ابو بکرؓ اسلام کی تبلیغ میں سرگرم ہوگئے۔ وہ بڑے ہر دلعزیزنرم خُو، پسندیدہ خصال کے حامل بااخلاق اور دریادل تھے ، ان کے پاس ان کی مروت ،دور اندیشی ، تجارت اور حسن صحبت کی وجہ سے لوگوں کی آمد ورفت لگی رہتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پاس آنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے جس کو قابلِ اعتماد پایا اسے اب اسلام کی دعوت دینی شروع کردی۔ ان کی کوشش سے حضرت عثمان ؓ، حضرت زبیر ؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ مسلمان ہوئے۔ یہ بزرگ اسلام کا ہر اوَل دستہ تھے۔
ان کے بعد امینِ امت 1حضرت ابوعبیدہ ؓ عامر بن جراح ؓ ، ابوسلمہ بن عبد الاسد مخزومی ، ان کی بیوی ام سلمہ، ارقم بن ابی الارقم مخزومی ، عثمان بن مظعون اور ان کے دونوں بھائی قدامہ اور عبداللہ ، اور عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبدمناف ، سعید بن زید عدوی ، اور ان کی بیوی، یعنی حضرت عمر ؓ کی بہن فاطمہ بنت خطاب عدویہ ، اور خباب بن اَرت تمیمی ، جعفر بن ابی طالب اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس ، خالد بن سعید بن عاص اموی ، ان کی بیوی امینہ بنت خلف، اور ان کے بھائی عمرو بن سعید بن عاص ، حاطب بن حارث جحمی ، ان کی بیوی فاطمہ بنت مجلل ، اور ان کے بھائی حطاب بن حارث ، اور ان کی بیوی فکیہہ بنت یسار ، اور ان کے ایک اور بھائی معمر بن حارث ، مطلب بن ازہر زہری اور ان کی بیوی رملہ بنت ابی عوف ، اور نعیم بن عبد اللہ بن نحام عدوی مسلمان ہوئے۔ یہ سب قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں اور شاخوں سے تعلق رکھتے تھے۔
قریش کے باہر سے جولوگ پہلے پہل اسلام لائے ان میں سر فہرست یہ ہیں : عبد اللہ بن مسعود ہذلی ، مسعود بن ربیعہ قاری ، عبد اللہ بن جحش اسدی ، ان کے بھائی احمد بن جحش ، بلال بن رباح حبشی ،صہیب بن سنان رومی ، عمار بن یاسر عنسی ، ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ ، اور عامر بن فہیرہ۔
عورتوں میں مذکورہ عورتوں کے علاوہ جو پہلے پہل اسلام لے آئیں ان کے نام یہ ہیں: أم ایمن برکۃ حبشیہ، حضرت عباس بن عبد المطلب کی بیوی أم الفضل لبابہ الکبریٰ بنت حارث ہلالیہ ، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی صاحبزادی حضرت اسماء۔ 2
یہ سب سابقین اولین کے لقب سے معروف ہیں۔ تلاش وجستجو سے معلوم ہوا ہے کہ جو لوگ اسلام کی طرف سبقت کرنے کے وصف سے موصوف کیے گئے ہیں ان کی تعداد مردوں اور عورتوں کو ملا کر ایک سو تیس تک پہنچ جاتی ہے، لیکن یہ بات پورے تیقن کے ساتھ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ سب کھلی دعوت وتبلیغ سے پہلے اسلام لائے یا بعض لوگ اس سے متاخر بھی ہوئے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اس لقب سے ملقب کیے جانے کی وجہ کے لیے ملاحظہ ہو : صحیح بخاری۔ منا قب ابی عبیدہ بن جراح ۱/۵۳۰
2 تفصیل کے لیے دیکھئے : سیرت ابن ہشام ۱/۲۴۵-۲۶۲، ابن ہشام کے بعض ذکر کردہ نام محل نظر ہیں۔ میں نے ایسے ناموں کو ترک کردیا ہے۔
 
Top