• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم نبیﷺ کی ہجرت

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبیﷺ کی ہجرت

قریش کی تدبیر اور اللہ کی تد بیر:
مذکورہ قسم کے اجتماع کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ اس میں انتہائی رازداری برتی جاتی ہے اور ظاہری سطح پر کوئی ایسی حرکت سامنے نہیں آنے دی جاتی جو روز مرہ کے معمول کے خلاف اور عام عادات سے ہٹ کر ہو تاکہ کوئی شخص خطرے کی بوسونگھ نہ سکے اور کسی کے دل میں خیال نہ آئے کہ یہ خاموشی کسی خطرے کا پیش خیمہ ہے۔ یہ قریش کا مکر یا داؤ پیچ تھا۔ مگر یہ مکر انہوں نے اللہ کے ساتھ کیا تھا۔ اس لیے اللہ نے انہیں ایسے ڈھنگ سے ناکام کیا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، چنانچہ جب نبیﷺ کے قتل کی مجرمانہ قرار داد طے ہوچکی تو حضرت جبریل علیہ السلام اپنے رب تبارک وتعالیٰ کی وحی لے کر آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو یہاں سے روانگی کی اجازت دے دی ہے اور یہ کہتے ہوئے ہجرت کے وقت کی تَعِیین بھی فرمادی کہ آپﷺ یہ رات اپنے اس بستر پر نہ گزاریں جس پر اب تک گزارا کرتے تھے۔1
اس اطلاع کے بعد نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے تاکہ ان کے ساتھ ہجرت کے سارے پروگرام اور مرحلے طے فرمالیں۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ٹھیک دوپہر کے وقت ہم لوگ ابوبکرؓ کے مکان میں بیٹھے تھے کہ کسی کہنے والے نے ابوبکرؓ سے کہا: یہ رسول اللہﷺ سرڈھان کے تشریف لارہے ہیں۔ یہ ایسا وقت تھا جس میں آپﷺ تشریف نہیں لایا کرتے تھے۔ ابوبکرؓ نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپﷺ اس وقت کسی اہم معاملے ہی کی وجہ سے تشریف لائے ہیں۔
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ اجازت طلب کی۔ آپﷺ کو اجازت دی گئی اور آپﷺ اندر داخل ہوئے۔ پھر ابو بکرؓ سے فرمایا : تمہارے پاس جو لوگ ہیں انہیں ہٹادو۔ ابوبکرؓ نے کہا : بس آپ کی اہلِ خانہ ہی ہیں۔ آپ پر میرے باپ فدا ہوں اے اللہ کے رسول! (ﷺ ) آپ نے فرمایا : اچھا تو مجھے روانگی کی اجازت مل چکی ہے۔ ابوبکر ؓ نے کہا : ساتھ ......اے اللہ کے رسول ! میرے باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہاں۔2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۲ ، زاد المعاد ۲/۵۲
2 صحیح بخاری باب ہجرۃ النبیﷺ ۱/۵۵۳، اور ہجرت کے لیے دیکھئے : بخاری کی حدیث نمبر ۴۶۷، ۲۱۳۸، ۲۲۶۳، ۲۲۶۴، ۲۲۹۷، ۳۹۰۵، ۴۰۹۳، ۵۸۰۷،۶۰۷۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد ہجرت کا پروگرام طے کرکے رسول اللہﷺ اپنے گھر تشریف لائے اور رات کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
رسول اللہﷺ کے مکان کا گھیراؤ:
ادھر قریش کے اکابرمجرمین نے اپنا سارا دن مکے کی پارلیمان دار الندوہ کی پہلے پہر کی طے کردہ قرارداد کے نفاذ کی تیاری میں گزاری اور اس مقصد کے لیے ان ا کابرمجرمین میں سے گیارہ سردار منتخب کیے گئے جن کے نام یہ ہیں :
ابوجہل بن ہشام ! حَکم بن عاص
عُقبہ بن ابی معیط 3 نضر بن حارث
اُمیہ بن خلف 5 زَمْعَہْ بن الاسود
طُعَیْمہ بن عدی ' ابولہب
( اُبی بن خلف ) نُبَیہ بن الحجاج
اور اس کا بھائی مُنَبہّ بن الحجاج1
نبیﷺ کا معمول تھا کہ آپ شروع رات میں عشاء کی نماز کے بعد سوجاتے اور آدھی رات کے بعد گھر سے نکل کر مسجد حرام تشریف لاتے اور وہاں تہجد کی نماز ادا فرماتے۔ اس رات آپ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر سوجائیں اور آپ کی سبز حضرمی (۲)چادر اوڑھ لیں۔ یہ بھی بتلادیا کہ تمہیں ان کے ہاتھوں کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔ (آپﷺ وہی چادر اوڑھ کر سویا کرتے تھے)
ادھر رات جب ذرا تاریک ہوگئی۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا ، اور عام لوگ اپنی خوابگاہوں میں جاچکے تو مذکورہ بالا افراد نے خفیہ طور پر نبیﷺ کے گھر کا رخ کیا اور دروازے پر جمع ہوکر گھات میں بیٹھ گئے۔ وہ حضرت علیؓ کودیکھ کر سمجھ رہے تھے کہ آپﷺ سوئے ہوئے ہیں۔ اس لیے انتظار کرنے لگے کہ آپ اٹھیں اور باہر نکلیں تو یہ لوگ یکایک آپ پر ٹوٹ پڑیں اور مقررہ فیصلہ نافذ کرتے ہوئے آپ کو قتل کردیں۔
ان لوگوں کو پورا وثوق اور پختہ یقین تھا کہ ان کی یہ ناپاک سازش کامیاب ہوکر رہے گی۔ یہاں تک کہ ابوجہل نے بڑے متکبرانہ اور پُر غرور انداز میں مذاق واستہزاء کرتے ہوئے اپنے گھیرا ڈالنے والے ساتھیوں سے کہا : محمد (ﷺ ) کہتا ہے کہ اگر تم لوگ اس کے دین میں داخل ہوکر اس کی پیروی کرو گے تو عرب وعجم کے بادشاہ بن جاؤ گے۔ پھر مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو تمہارے لیے اردن کے باغات جیسی جنتیں ہوں گی اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ان کی طرف سے تمہارے اندر ذبح کے واقعات پیش آئیں گے۔ پھر تم مرنے کے بعد اٹھا ئے جاؤ گے اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۲ 2 حضرموت (جنوبی یمن ) کی بنی ہوئی چادر حضرمی کہلاتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تمہارے لیے آگ ہوگی جس میں جلائے جاؤگے۔1
بہرحال اس سازش کے نفاذ کے لیے آدھی رات کے بعد کا وقت مقرر تھا۔ اس لیے یہ لوگ جاگ کر رات گزار رہے تھے اور وقتِ مقررہ کے منتظر تھے ، لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ اسی کے ہاتھ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے وہ جوچاہتاہے کرتا ہے۔ جسے بچانا چاہے کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتا اورجسے پکڑنا چاہے کوئی اس کو بچا نہیں سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پروہ کام کیا جسے ذیل کی آیت کریمہ میں رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ :
وَإِذْ يَمْكُرُ‌ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِ‌جُوكَ ۚ وَيَمْكُرُ‌ونَ وَيَمْكُرُ‌ اللَّـهُ ۖ وَاللَّـهُ خَيْرُ‌ الْمَاكِرِ‌ينَ (۸:۳۰)
''وہ موقع یاد کرو جب کفار تمہارے خلاف مکر کررہے تھے تاکہ تمہیں قید کردیں یاقتل کردیں یانکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والاہے۔''
رسول اللہﷺ اپنا گھر چھوڑتے ہیں:
بہر حال قریش اپنے پلان کے نفاذکی انتہائی تیاری کے باوجود فاش ناکامی سے دوچار ہوئے کیونکہ رسول اللہﷺ گھر سے باہر تشریف لے آئے۔ مشرکین کی صفیں چیر یں اور ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی لے کر ان کے سروں پر ڈالی لیکن اللہ نے ان کی نگاہیں پکڑ لیں اور وہ آپﷺ کو دیکھ نہ سکے۔ اس وقت آپﷺ یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے :
وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُ‌ونَ (۳۶: ۹)
''ہم نے ان کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے تھے۔''
اس موقع پر کوئی بھی مشرک باقی نہ بچا۔ جس کے سر پر آپﷺ نے مٹی نہ ڈالی ہو۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل پر واقع ثور نامی پہاڑ کے ایک غار میں جا پہنچے۔2
ادھر محاصرین وقت صفر کا انتظار کررہے تھے لیکن اس سے ذرا پہلے انہیں اپنی ناکامی ونامرادی کا علم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ان کے پاس ایک غیر متعلق شخص آیا اورانہیں آپﷺ کے دروازے پر دیکھ کر پوچھا کہ آپ لوگ کس چیز کا انتظار کررہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: محمد(ﷺ )کا۔اس نے کہا : آپ لوگ ناکام ونامراد ہوئے۔ اللہ کی قسم ! محمد(ﷺ )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۲، ۴۸۳ 2 ایضاً ۱/۴۸۳ ، زادا لمعاد ۲/۵۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تو آپ لوگوں کے پاس سے گزرے اور آپ کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے کام کو گئے۔ انہوں نے کہا :واللہ! ہم نے تو انہیں نہیں دیکھا اور اس کے بعد اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ پڑے۔
لیکن پھر دروازے کی دراز سے جھانک کر دیکھا تو حضرت علیؓ نظر آئے۔ کہنے لگے :اللہ کی قسم ! یہ تو محمد(ﷺ ) سوئے پڑے ہیں۔ ان کے اوپر ان کی چادر موجود ہے۔ چنانچہ یہ لوگ صبح تک وہیں ڈٹے رہے۔ ادھر صبح ہوئی اور حضرت علیؓ بستر سے اٹھے تو مشرکین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ انہوں نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کہا ں ہیں۔ حضرت علیؓ نے کہا : مجھے معلوم نہیں۔1
گھر سے غار تک:
رسول اللہﷺ ۲۷ ؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲ - ۱۳ ستمبر ۶۲۲ ء2کی درمیانی رات اپنے مکان سے نکل کر جان ومال کے سلسلے میں اپنے سب سے قابل اعتماد ساتھی ابوبکرؓ کے گھر تشریف لائے تھے اور وہاںسے پچھواڑے کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے باہر کی راہ لی تھی تاکہ مکہ سے جلد از جلد، یعنی طلوع فجر سے پہلے پہلے باہر نکل جائیں۔
چونکہ نبیﷺ کو معلوم تھا کہ قریش پوری جانفشانی سے آپﷺ کی تلاش میں لگ جائیں گے اور جس راستے پر اول و ہلہ میں نظر اٹھے گی وہ مدینہ کا کاروانی راستہ ہوگا جو شمال کے رخ پر جاتا ہے اس لیے آپﷺ نے وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے بالکل الٹ تھا۔ یعنی یمن جانے والا راستہ جو مکہ کے جنوب میں واقع ہے۔ آپﷺ نے اس راستے پر کوئی پانچ میل کا فاصلہ طے کیا اور اس پہاڑ کے دامن میں پہنچے جو ثور کے نام سے معروف ہے۔ یہ نہایت بلند ، پر پیچ اور مشکل چڑھائی والا پہاڑ ہے۔ یہاں پتھر بھی بکثرت ہیں۔ جن سے رسول اللہﷺ کے دونوں پاؤں زخمی ہوگئے اور کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نشان قدم چھپانے کے لیے پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ اس لیے آپﷺ کے پاؤں زخمی ہوگئے۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو حضرت ابوبکرؓ نے پہاڑ کے دامن میں پہنچ کر آپﷺ کو اٹھالیا اور دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر ایک غار کے پاس جاپہنچے جو تاریخ میں ''غارِ ثور'' کے نام سے معروف ہے۔3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۳ ، زادا لمعاد ۲/۵۲
2 رحمۃ للعالمین ۱/۹۵ صفر کا یہ مہینہ چودھویں سنہ نبوت کا اس وقت ہوگا جب سنہ کا آغاز محرم کے مہینے سے مانا جائے اور اگر سنہ کی ابتداء اسی مہینے سے کریں۔ جس میں آپﷺ کو نبوت سے مشرف کیا گیا تھا تو صفر کا یہ مہینہ قطعی طور پر تیرہویں سنہ نبوت کا ہوگا۔ عام اہل سیر نے کہیں پہلا حساب اختیار کیا ہے اور کہیں دوسرا، جس کی وجہ سے واقعات کی ترتیب میں خبط اور غلطی میں پڑ گئے ہیں ہم نے سنہ کا آغاز محرم سے مانا ہے۔
3 مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص ۱۶۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غار میں:
غار کے پاس پہنچ کر ابوبکرؓ نے کہا: اللہ کے لیے ابھی آپﷺ اس میں داخل نہ ہوں۔ پہلے میں داخل ہو کر دیکھے لیتا ہوں۔ اگر اس میں کوئی چیز ہوئی تو آپﷺ کے بجائے مجھے اس سے سابقہ پیش آئے گا۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ اندر گئے اور غار کو صاف کیا۔ ایک جانب چند سوراخ تھے۔ انہیں اپنا تہبند پھاڑ کر بند کیا لیکن دو سوراخ باقی بچ رہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے ان دونوںمیں اپنے پاؤں ڈال دیے۔ پھر رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ اندر تشریف لائیں۔
آپﷺ اندرتشریف لے گئے اور حضرت ابوبکرؓ کی آغوش میں سر رکھ کر سو گئے۔ ادھر ابوبکرؓ کے پاؤں میں کسی چیز نے ڈس لیا۔ مگر اس ڈر سے ہلے بھی نہیں کہ رسول اللہﷺ جاگ نہ جائیں لیکن ان کے آنسو رسول اللہﷺ کے چہرے پر ٹپک گئے۔ (اور آپﷺ کی آنکھ کھل گئی) آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر ؓ تمہیں کیا ہوا ؟ عرض کی میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے رسول اللہﷺ نے اس پر لعاب دہن لگادیا اور تکلیف جاتی رہی۔1
یہاں دونوں حضرات نے تین راتیں یعنی جمعہ ، سنیچر اور اتوار کی راتیں غار میںچھپ کر گزاریں۔ 2 اس دوران ابوبکرؓ کے صاحبزادے عبد اللہ بھی یہیں رات گزارتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ وہ گہری سوجھ بوجھ کے مالک ، سخن فہم نوجوان تھے۔ سحر کی تاریکی میں ان دونوں حضرات کے پاس سے چلے جاتے ، اور مکہ میں قریش کے ساتھ یوں صبح کرتے گویا انہوں نے یہیں رات گزاری ہے۔ پھر آپ دونوں کے خلاف کے سازش کی جو کوئی بات سنتے اسے اچھی طرح یاد کرلیتے اور جب تاریکی گہری ہوجاتی تو اس کی خبر لے کر غار میں پہنچ جاتے۔
ادھر حضرت ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فُہَیْرَہ بکریاں چراتے رہتے اور جب رات کا ایک حصہ گزر جاتا تو بکریاں لے کر ان کے پاس پہنچ جاتے۔ اس طرح دونوں حضرات رات کو آسودہ ہوکر دودھ پی لیتے۔ پھر صبح تڑکے ہی عامر بن فُہیرہ بکریاں ہانک کر چل دیتے۔ تینوں رات انہوں نے یہی کیا۔3(مزید یہ کہ ) عامر بن فہیرہ ، حضرت عبد اللہ بن ابی بکرؓ کے مکہ جانے کے بعد انہیں کے نشانات قدم پر بکریاں ہانکتے تھے تاکہ نشانات مٹ جائیں۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ بات زرین نے حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کی ہے۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ پھر یہ زہر پھوٹ پڑا۔ (یعنی موت کے وقت اس کا اثر پلٹ آیا ) اور یہی موت کا سبب بنا۔ دیکھئے: مشکوٰۃ ۲/۵۵۶، باب مناقب ابی بکر۔
2 فتح الباری ۷/۳۳۶ 3 صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۴
4 ابن ہشام ۱/۴۸۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قریش کی تگ و دَو:
ادھر قریش کا یہ حال تھا کہ جب منصوبۂ قتل کی رات گزر گئی اور صبح کو یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ رسول اللہﷺ ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو ان پر گویا جنون طاری ہوگیا۔ انہوں نے سب سے پہلے اپنا غصہ حضرت علیؓ پر اتارا آپ کو گھسیٹ کر خانہ کعبہ لے گئے اور ایک گھڑی زیر حراست رکھا کہ ممکن ہے ان دونوں کی خبر لگ جائے۔1لیکن جب حضرت علیؓ سے کچھ حاصل نہ ہوا تو ابوبکرؓ کے گھر آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا :تمہارے ابا کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا: واللہ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے ابا کہا ں ہیں۔ اس پر کمبخت خبیث ابوجہل نے ہاتھ اٹھا کر ان کے رخسار پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی گرگئی۔2
اس کے بعد قریش نے ایک ہنگامی اجلاس کر کے یہ طے کیا کہ ان دونوں کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل کام میں لائے جائیں۔ چنانچہ مکے سے نکلنے والے تمام راستوں پر خواہ وہ کسی بھی سمت جارہا ہو نہایت کڑا مسلح پہرہ بٹھا دیا گیا۔ اسی طرح یہ اعلان عام بھی کیا گیا کہ جوکوئی رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کو یا ان میں سے کسی ایک کو زندہ یامردہ حاضر کرے گا اسے ہر ایک کے بدلے سو اونٹوں کا گرانقدر انعام دیا جائے گا۔ 3اس اعلان کے نتیجے میں سوار اور پیادے اور نشانات ِ قدم کے ماہر کھوجی نہایت سرگرمی سے تلاش میں لگ گئے اور پہاڑوں ، وادیوں اور نشیب وفراز میں ہر طرف بکھر گئے لیکن نتیجہ اور حاصل کچھ نہ رہا۔
تلاش کرنے والے غار کے دہانے تک بھی پہنچے لیکن اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ابوبکرؓ نے فرمایا: میں نبیﷺ کے ساتھ غار میں تھا۔ سر اٹھا یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپﷺ نے فرمایا : ابوبکر ! خاموش رہو (ہم ) دوہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
((ما ظنک یا أبا بکر باثنین اللہ ثالثھما۔)) 4
'' ابوبکر ! ایسے دوآدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ جن کا تیسرا اللہ ہے۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تاریخ طبری ۲/۳۷۴ 2 ابن ہشام ۱/۴۸۷ 3 صحیح بخاری ۱/۵۵۴
4 ایضاً ۱/۵۱۶ ، ۵۵۸۔ایسا ہی مسند احمد ۱/۴ میں ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ابو بکرؓ کا اضطراب اپنی جان کے خوف سے نہ تھا بلکہ اس کا واحد سبب وہی تھا۔ جو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ ابوبکرؓ نے جب قیافہ شناسوں کو دیکھا تو رسول اللہﷺ پر آپ کا غم فزوں تر ہوگیا اور آپ نے کہا : اگر میں مارا گیا تو میں محض ایک آدمی ہوں لیکن آگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیے گئے تو پوری امت ہی غارت ہوجائے گی اور اسی موقع پر ان سے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا کہ غم نہ کرو۔ یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ دیکھئے: مختصرالسیرۃ للشیخ عبداللہ ص ۱۶۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے۔ جب آپﷺ کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔
مدینہ کی راہ میں:
جب جستجو کی آگ بجھ گئی۔ تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا۔ عبد اللہ بن اریقط لَیْثی سے ، جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا۔ یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل اطمینان تھا۔ اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہواتھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول ۱ ھ کی چاند رات تھی (مطابق ۱۶؍ستمبر ۶۲۲ ء) عبد اللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا اور اسی موقع پر ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گزارش کی کہ آپ میری ان دوسواریوں میں سے ایک قبول فرمالیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : قیمتاً
ادھر اسماء بنت ابی بکر ؓ بھی زاد سفر لے کر آئیں۔ مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں۔ جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا پٹکا (کمر بند) کھولا اور دوحصوں میں چاک کر کے ایک میں توشہ لٹکا دیا اور دوسرا کمر میں باندھ لیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب ذاتُ النّطاقین پڑ گیا۔1
اس کے بعد رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ نے کوچ فرمایا۔ عامر بن فُہیرہؓ بھی ساتھ تھے۔ دلیل راہ عبداللہ بن اریقط نے ساحل کا راستہ اختیار کیا۔
غار سے روانہ ہوکر اس نے سب سے پہلے یمن کے رخ پر چلایا اور جنوب کی سمت خوب دورتک لے گیا۔ پھر پچھم کی طرف مڑا اور ساحل سمندر کا رخ کیا۔ پھر ایک ایسے راستے پر پہنچ کر جس سے عام لوگ واقف نہ تھے۔شمال کی طرف مڑ گیا ، یہ راستہ ساحل بحرِ احمر کے قریب ہی تھا اور اس پر شاذونادر ہی کوئی چلتا تھا۔
رسول اللہﷺ اس راستے میں جن مقامات سے گزرے ابن اسحاق نے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب راہنماآپ دونوں کو ساتھ لے کر نکلا تو زیرین مکہ سے لے چلا پھر ساحل کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا زیر ین عسفان سے راستہ کاٹا ، پھر زیرین امج سے گزرتا ہوا آگے بڑھا اور قد ید پار کرنے کے بعد پھر راستہ کا ٹا اور وہیں سے آگے بڑھتا ہو ا خرار سے گزرا۔ پھر ثنیۃ المرہ سے ، پھر لقف سے ، پھر بیابان لقف سے گزرا ، پھر مجاح کے بیابان
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۵۳، ۵۵۵ ، ابن ہشام ۱/۴۸۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
میں پہنچا اور وہاں سے پھر مجاح کے موڑ سے گزرا۔ پھر ذی الغضوین کے موڑ کے نشیب میں چلا۔ پھر ذی کشرکی وادی میں داخل ہوا۔ پھر جدا جدکا رخ کیا۔ پھر اجرد پہنچا اور اس کے بعد بیابا ن تعہن کے وادئ ذو سلم سے گزرا۔ وہاں سے عبابید اور اس کے بعد فاجہ کا رخ کیا۔ پھر عرج میں اترا۔ پھر رکوبہ کے داہنے ہاتھ ثنیۃ العائر میں چلا، یہاں تک کہ وادی رئم میں اترا اور اس کے بعد قبا ء پہنچ گیا۔1
آیئے ! اب راستے کے چند واقعات بھی سنتے چلیں:
صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا:ہم لوگ (غار سے نکل کر) رات بھراور دن میں دوپہر تک چلتے رہے۔ جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا ، راستہ خالی ہوگیا اور کوئی گزرنے والا نہ رہا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھلائی پڑی جس کے سائے پردھوپ نہیں آئی تھی۔ ہم وہیں اترپڑے۔ میں نے اپنے ہاتھ سے نبیﷺ کے سونے کے لیے ایک جگہ برابر کی اور اس پر ایک پوستین بچھا کر گزارش کی اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد وپیش کی دیکھ بھال کیے لیتا ہوں۔ آپﷺ سو گئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردوپیش کی دیکھ بھا ل کے لیے نکلا۔ اچانک کیا دیکھتا ہو ں کہ ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چٹان کی جانب چلا آرہا ہے، وہ بھی اس چٹان سے وہی چاہتا تھا جوہم نے چاہا تھا۔ میں نے اس سے کہا : اے جوان تم کس کے آدمی ہو ؟ اس نے مکہ یا مدینہ کے کسی آدمی کا ذکر کیا۔ 2میں نے کہا: تمہاری بکریوں میں کچھ دودھ ہے ؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: دوھ سکتا ہوں۔ اس نے کہا:ہاں اور ایک بکری پکڑی۔ میں نے کہا: ذرا تھن کومٹی ، بال اور تنکے وغیرہ سے صاف کرلو۔ اس نے ایک کاب میں تھوڑا سا دودھ دوہا اور میرے پاس ایک چرمی لوٹا تھا جو میں نے رسول اللہﷺ کے پینے اور وضو کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ میں نبیﷺ کے پاس آیا لیکن گوارانہ ہوا کہ آپ کو بیدار کروں۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئے تومیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور دودھ پر پانی انڈیلا یہاں تک کہ اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے کہا: اے اللہ کے رسول (ﷺ ) ! پی لیجئے۔ آپ نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا: ابھی کوچ کا وقت نہیں ہوا ؟ میں کہا: کیوں نہیں ؟ اس کے بعد ہم لوگ چل پڑے۔3
اس سفر میں ابوبکرؓ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ نبیﷺ کے ردیف رہا کرتے تھے۔ یعنی سواری پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ ان پر بڑھاپے کے آثار نمایاں تھے۔ اس لیے لوگوں کی توجہ انہیں کی طرف جاتی تھی۔ نبیﷺ پر ابھی جوانی کے آثار غالب تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف توجہ کم جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی آدمی سے سابقہ پڑتا تو وہ ابوبکرؓ سے پوچھتا کہ یہ آپ کے آگے کون ساآدمی ہے ؟ (حضرت
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۹۱، ۴۹۲ 2 ایک روایت میں ہے کہ اس نے قریش کے ایک آدمی کا بتلایا ۔
3 صحیح البخاری ۱/۵۱۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ابوبکرؓ اس کا بڑا لطیف جواب دیتے ) فرماتے : ''یہ آدمی مجھے راستہ بتا تا ہے۔'' اس سے سمجھنے والا سمجھتا کہ وہ یہی راستہ مراد لے رہے ہیں حالانکہ وہ خیر کا راستہ مراد لیتے تھے۔1
" اسی سفر میں دوسرے یا تیسرے دن آپﷺ کا گزر اُمّ معبد خزاعیہ کے خیمے سے ہو ا۔ یہ خیمہ قدید کے اطرف میں مشلل کے اندر واقع تھا۔ اس کا فاصلہ مکہ مکرمہ سے ایک سوتیس (۱۳۰) کیلو میٹر ہے۔ اُمّ معبد ایک نمایاں اور توانا خاتون تھیں۔ ہاتھ میں گھٹنے ڈالے خیمے کے صحن میں بیٹھی رہتیں اور آنے جانے والے کو کھلاتی پلاتی رہتیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ پاس میں کچھ ہے ؟ بولیں : واللہ! ہمارے پاس کچھ ہوتا تو آپ لوگوں کی میزبانی میں تنگی نہ ہوتی۔ بکریاں بھی دور دراز ہیں۔ یہ قحط کا زمانہ تھا۔
رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ خیمے کے ایک گوشے میں ایک بکری ہے۔ فرمایا : ام معبد ! یہ کیسی بکری ہے؟ بولیں:اسے کمزوری نے ریوڑ سے پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آپﷺ نے دریافت کیا کہ اس میں کچھ دودھ ہے ؟ بولیں : وہ اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ آپﷺ نے فرمایا : اجازت ہے کہ اسے دھو لوں؟ بولیں: ہاں ،میرے ماں باپ تم پر قربان۔ اگر تمہیں اس میں دودھ دکھائی دے رہا ہے تو ضرور دھولو۔ اس گفتگو کے بعد رسول اللہﷺ نے اس بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا، اللہ کا نام لیا اوردعا کی۔ بکری نے پاؤں پھیلادیئے۔ تھن میں بھر پور دودھ اُتر آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد کا ایک بڑا سا برتن لیا جو ایک جماعت کو آسودہ کرسکتا تھا اور اس میں اتنا دوہا کہ جھاگ اوپر آگیا۔ پھر ام معبد کو پلایا، وہ پی کر شکم سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کوپلایا۔ وہ بھی شکم سیر ہوگئے توخود پیا ، پھر اسی برتن میں دوبارہ اتنادودھ دوہا کہ برتن بھر گیا اور اسے ام ِ معبد کے پاس چھوڑ کر آگے چل پڑے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان کے شوہر ابو معبد اپنی کمزور بکریوں کو ، جو دُبلے پن کی وجہ سے مریل چال چل رہی تھیں ، ہانکتے ہوئے آپہنچے۔ دودھ دیکھا تو حیرت میں پڑ گئے۔ پوچھا :یہ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟ جبکہ بکریاں دور دراز تھیں اور گھر میں دودھ دینے والی بکری نہ تھی ؟ بولیں: واللہ! کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہمارے پاس سے ایک بابرکت آدمی گزرا جس کی ایسی اور ایسی بات تھی اور یہ اور یہ حال تھا۔ ابومعبد نے کہا: یہ تو وہی صاحب قریش معلوم ہوتا ہے جسے قریش تلاش کررہے ہیں۔ اچھا ذرا اس کی کیفیت تو بیان کرو۔ اس پر اُمِ معبد نے نہایت دلکش انداز سے آپﷺ کے اوصاف وکمالات کا ایسا نقشہ کھینچا کہ گویا سننے والا آپﷺ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے -- کتا ب کے اخیر میں یہ اوصاف درج کیے جائیں گے -- یہ اوصاف سن کر ابو معبد نے کہا : واللہ! یہ تو وہی صاحبِ قریش ہے جس کے بارے میں لوگوں نے قسم قسم کی باتیں بیان کی ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ آپﷺ کی رفاقت اختیا ر کروں اور کوئی راستہ ملا تو ایسا ضرور کروں گا۔
ادھرمکے میں ایک آواز ابھری جسے لوگ سن رہے تھے مگر اس کا بولنے والا دکھائی نہیں پڑرہا تھا۔ آواز یہ تھی :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح البخاری عن انس ۱/۵۵۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

جزی اللہ رب العرش خیر جزائہ رفیقین حـلا خیمتی أم معبـد
ہمـا نـزلا بالبـر وارتحـلا بـــہ وأفلح من أمسی رفیق محمـد
فیـا لقصـی مـا زوی اللہ عنکـم بہ من فعال لا یجازی وسودد
لیہن بـنی کـعب مـکان فتاتہـم ومقعدہـا للمؤمنیـن بمرصد
سلوا أختکـم عن شأتہـا وإنائہا فإنکم إن تسألوا الشـاۃ تشہـد


''اللہ رب العرش ان دورفیقوں کو بہتر جزادے جو امِ معبد کے خیمے میں نازل ہوئے۔ وہ دونوں خیر کے ساتھ اترے اور خیر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جومحمدﷺ کا رفیق ہو اوہ کامیاب ہوا۔ ہائے قصی ! اللہ نے اس کے ساتھ کتنے بے نظیر کارنامے اور سرداریاں تم سے سمیٹ لیں۔بنوکعب کو ان کی خاتون کی قیام گاہ اور مومنین کی نگہداشت کا پڑاؤ مبارک ہو۔ تم اپنی خاتون سے اس کی بکری اور برتن کے متعلق پوچھو۔ تم خود بکری سے پوچھو گے تو وہ بھی شہادت دے گی۔''
حضرت اسماء ؓکہتی ہیں: ہمیں معلوم نہ تھا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رخ فرمایا ہے کہ ایک جن زیرین مکہ سے یہ اشعار پڑھتا ہو آیا۔ لوگ اس کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ اس کی آواز سن رہے تھے لیکن خود اسے نہیں دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بالائی مکہ سے نکل گیا ، وہ کہتی ہیں کہ جب ہم نے اس کی بات سنی تو ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے کدھر کا رُخ فرمایا ہے، یعنی آپﷺ کا رُخ مدینہ کی جانب ہے۔1
3 راستے میں سُراقَہ بن مالک نے تعاقب کیا اور اس واقعے کو خود سُراقہ نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : میں اپنی قوم بنی مد لج کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آکر ہمارے پاس کھڑا ہوا اور ہم بیٹھے تھے۔ اس نے کہا:اے سُراقَہ ! میں نے ابھی ساحل کے پاس چند افراد دیکھے ہیں۔میرا خیال ہے کہ یہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی ہیں۔ سراقہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا یہ وہی لوگ ہیں لیکن میں نے اس آدمی سے کہا کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں۔ بلکہ تم نے فلاں اور فلاں کودیکھا ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے گزر کر گئے ہیں۔ پھرمیں مجلس میں کچھ دیر تک ٹھہرا رہا۔ اس کے بعد اٹھ کر اندر گیا اور اپنی لونڈی کو حکم دیا کہ وہ میرا گھوڑا نکالے اورٹیلے کے پیچھے روک کرمیرا انتظار کرے۔ ادھر میں نے اپنا نیزہ لیا، اور گھر کے پچھواڑے سے باہر نکلا۔ لاٹھی کا ایک سرازمین پر گھسیٹ رہا تھا اور دوسرا اوپری سرا نیچے کر رکھا تھا۔ اس طرح میں اپنے گھوڑے کے پاس پہنچا اور اس پر سوار ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ حسب معمول مجھے لے کر دوڑ رہا ہے۔ یہاں تک کہ میں ان کے قریب آگیا۔ اس کے بعد گھوڑا مجھ سمیت پھِسلا میں اس سے گرگیا ، میں نے اٹھ کر ترکش کی طرف
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۵۳، ۵۴۔ مستدرک حاکم ۳/۹، ۱۰حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اسے بغوی نے بھی شرح السنہ ۱۳/۲۶۴ میں روایت کیا ہے۔
 
Top