رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سےمقتدی کو امام کی قراءت کفایت کرتی ہے لہٰذا اس کو خود قراءت نہیں کرنی چاہئے حکم باری تعالیٰ سے اور اس کی نماز سورہ فاتحہ والی ہی ہے فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
محترم -
احناف تو
سری نمازوں میں بھی فاتحہ خلف الامام کے قائل نہیں ؟؟ اس کی کیا وجہ ہے؟؟ جب کہ احناف جس سورة الأعراف کی آیت ٢٠٤ (
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کے ذریے مقتدی کی عدم قرآءت کو دلیل بناتے ہیں- وہ زیادہ سے زیادہ جہری نماز کی قرات ہو سکتی ہے- کیوں کہ اس میں سننے اور خاموش رہنے کا حکم ہے - اور سنائی اس وقت ہی دیا جا سکتا ہے جب قرات بلند آواز سے ہو--(یہ بھی یاد رہے کہ صحیح احادیث نبوی نے ہی مقتدی کو فاتحہ کی قرآت کا استثنیٰ دیا ہے)-
دوسری بات یہ کہ اگر قرآن سے ہی دلیل پکڑنی ہے توسورة الأعراف کی اگلی آیت ٢٠٥ میں ہے کہ
(وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ) -ترجمہ اوراپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی کرتا ہوا اور ڈرتا ہوا یاد کرتا رہ اور
صبح اور شام بلند آواز کی بجاے ہلکی آواز سے ذکرکر اور غافلوں میں سے نہ ہوجا -
تو اس سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ صبح (یعنی فجر) اور شام (یعنی مغرب و عشاء ) میں امام کو بھی آہستہ آواز میں ذکر کرنا چاہیے- جب کہ ایسا نہیں ہوتا - ان صبح شام کی نمازوں میں بلند آواز سے الله کا ذکر کیا جاتا ہے -یعنی بلند آواز سے قرآت قرآن کی جاتی ہے- اس کی کیا دلیل ہے آپ کے پاس ؟؟