• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو احادیث پر ایک منکرحدیث کا اعتراض

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
ڈاکٹر شبیر رقمطراز ہیں:

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ٹب میں نہاتے تھے اور وہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت حیض میں مجھ سے اختلاط فرمایا کرتے تھے "اسلام کے مجرم،صفحہ26"

ازالہ؛۔

یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے۔

حدثنا قبيصة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن منصور،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن إبراهيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الأسود،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قالت كنت أغتسل أنا والنبي،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ صلى الله عليه وسلم من إناء واحد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ كلانا جنب‏.وكان يأمرني فأتزر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيباشرني وأنا حائض‏.‏

ترجمہ:۔سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں ،،میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم جنبی ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اخلاط فرماتے ،،

صحیح بخاری کتاب الحیض،باب مباشرۃ الحائض رقم الحدیث299۔300



ڈاکٹر شبیر نے یہاں حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے تلبیس سے کام لیا ہے اور ترجمہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی ٹب میں نہاتے تھےحالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ایک ٹب سے نہاتے تھے۔

قارئین کرام اس حدیث سے جس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غسل کر سکتا ہے آخر اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟

اگر ہم اس حدیث کا پس منظر دیکھیں تو اعتراض کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔حدثنا عبد الله بن يوسف،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال أخبرنا مالك،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي النضر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ مولى عمر بن عبيد الله عن أبي سلمة بن عبد الرحمن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عائشة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت كنت أنام بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلاى في قبلته،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا سجد غمزني فقبضت رجلى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فإذا قام بسطتهما‏.‏ قالت والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح‏.‏ترجمہ:۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پاوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قبلے کی جانب ہوتے تھے پس آپ سجدہ کرتے تو میرے پاوں کو دباتے میں اپنے پاوں سمیٹ لیتی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو میں پاوں پھلا لیتی، اور ان دنون ہمارے گھر میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔



"صحِح بخاری کتاب الصلوۃ باب ۱۰۴ح،۵۱۳ ،صحیح مسلم کتاب الصلوتہ باب ۵۱ح۲۸۲"



ایک اور روایت میں مزید وضاحت کے ساتھ ملا حظہ فرمائیں؛۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: میں نے ایک رات آپ صلی اللہ علہ وسلم کو بستر سے گم پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرنا شروع کیا تو میرے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے تلووں پہ لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کی حالت میں تھے۔

"صحیح مسلم کتاب الصلوتہ باب ما یقال فی الرکوع والسجود رقم حدیث 486"



مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں عموما اندھرا رہا کرتا تھا اور چراغ تک موجود نہ تھا تو اس قدر اندھرے مین ایک دوسرے کو دیکھنا محال تھا۔رہی بات پردہ پوشی کی تو حدیث میں صراحت موجود ہے۔

"کہ ہم اہک ٹب سے نہاتے تھے جو ہمارے درمیان رکھا ہوتا تھالہذا یہ ٹب دونون کے درمیان پردہ کا کام بھی کرتا تھا "۔

"صحیح مسلم کتان الحیضباب قدر المستحب من الماء رقم حدیث 321"





اگر اعتراض یہ ہے کہ یہ فحش الفاظ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح ہو سکتے ہیں ہا اس طرح کی حدیث کو بنیاد بنا کر غیر مسلم اسلام پر بےہودہ اعتراض کرتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

مشرکین شروع دن ہی سے اسلام و مسلمانوں طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

جیسا کہ حدیث میں ہے

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ بعض مشرکوں نے بطور استہزاء کہا کہ "میں تمھآرے ساتھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھتا ہوں کہ وہ تمھیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہیں یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی بتاتے ہیں تو سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ بلکل درست بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قبلہ کی جانب منہ نہ کریں اور نہ ہی سیدھے ہاتھ سے استنجا کریں اور تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفاء نہ کریں نیز ڈھیلوں میں گوبر اور ہڈی نہ ہو۔،،

"صحیح مسلم کتاب الطھارہ باب ۱۸ح۲۶۲/۵۷۔مسند احمدالحدیث ۲۴۱۰۳"



مزکورہ روایت میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر فخر کے ساتھ طہارت پر مبنی مسائل کو بیان فرمایا اور زرہ برابر بھی احساح کمتری کا شکار نہیں ہوئے

عرض یہ کی جسے آپ اسلام کا جرم سمجھ رہے ہیں۔ صحیح احادیث کےاس سرمائے پر ہم فخر کرتے ہیں اور "ڈنکے کی چوٹ" کہتے ہیں کہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ہمیں اپنی رہنمائی کے لیے باہر جانے کی تکلیف بھی نہیں دیتا۔کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر واقعات اور نبوت کی مکمل زندگی ہمارے پاس محفوظ ہے یہ ہی کمال ہے صحیح احادیث کا ورنہ اگر ہم عیسائت کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں عیسی علیہ سلام کے پچاس دنوں سے زیادہ کچھ محفوظ نہیں۔اسی لیے اللہ تعالی نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ

"لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" "سورہ الاحزاب آیت نمبر21"

"یقینا تمھارے لیے اللہ کے رسول کی ذات بہترین نمونہ ہے"

ہی کا تقاضآ تھا کی احادیث کے زریعہ رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم شب و روز کے اعمال و اقوال اور خروت و جلوت کے اسوہ سے ضابطہ حیات تیار کروایا جا رہا ہے۔

مسائل ڈھل رہے ہیں۔

حلال و حرام،جائز و نا جائز میں احادیث و سنن کے زریعہ امتیاز کیا جا رہا ہے۔

آپ کو یہاں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر وہ چیز دستیاب ہو گی جس سے تمیز و تمدن اور انسانی ضآبطہ حیات پر روشنی پڑتی ہے

ایسے بیش بہا سرمائے پر فخر کرنا چاہئے نہ کہ احساس کمتری کا شکار ہو کر ان پر اعتراضات شروع کر دیے جائیں۔

بلفرض اگر کوئی دشمن اسلام قرآن کی آیت پر اعتراض کر دے مثلا "افرایتم ما تمنون" سورہ واقعہ آہت 58

"کہ اچھا زرایہ بتلاوکہ جو منی تم ٹپکاتے ہو"

یا سورہ مریم میں جو سیدہ مریم علیہاالسلام کے حاملہ ہونے کا زکر ہے۔ تو ہم اس اعتراض کا کیا جواب دیں گے؟

یقینا ہم اس کی توضیح کریں گے جب قرآن مجید کے لیے ہم تاویل کر سکتے ہیں تو حدیث کے لیے کیوں تاویل نہیں کر سکتے؟؟؟؟





ام البشر حواء ؑکی خیانت کی حقیقت ۔





مصنف اپنی کتاب کے صفحہ 22پر لکھتا ہے کہ:

انہوںنے(امام بخاری رحمہ اللہ نے) لعنتی راویوں پر اعتماد کلی کرکے ام البشر حضرت حوا ء کو خیانت کرنے والیوں میں ذکر کردیا بلکہ تمام عورتوں کا خیانت کرنے میں بنیادی نکتہ آغاز حواء ہی کو ذکر کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔



جواب :۔

قارئین کرام اللہ کے رسول ﷺکی حدیث مبارکہ ہے جو شخص کسی پر لعنت کرتا ہے اگر وہ اس کا مستحق نہیں تو لعنت کہنے والے پر ہی لوٹتی ہے حدیث کا مفہوم وہ نہیں جسے مصنف نے یہاںبیان کیا ہے اصل حدیث اس طرح ہے:

’’عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عن النبی (ﷺ) نحوہ یعنی لولا بنواسرائیل لم یخنزاللحم ولولا حواء لم تخن أنثی زوجھا ۔

(صحیح بخاری کتاب الأنبیاء باب خلق آدم وذ ریتہ رقم الحدیث 3330)

’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل نہ ہوتے تو گوشت نہ سڑتا ،اگر حوا ء نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے خاوند سے دغا نہ کرتی ‘‘۔



مصنف کا خیال ہے کہ دغا ام البشر حواء کی وجہ سے ہوتا ہے ، جوکہ جہالت پر مبنی ہے ۔ مصنف کے پاس علم تو ہے ہی نہیں اب ایسا لگتا ہے کہ عقل سے بھی کورا ہے جناب اگر حواء پیدا ہی نہ ہوتیں تو ’’علامہ سعید خان ملتانی ‘‘ کہاں سے پیدا ہوتے یعنی علامہ صاحب نے حدیث میں جو خیانت کی ہے تو اگر حواء پیدا ہی نہ ہوئی ہوتیں تو علامہ صاحب بھی نہ ہوتے اگر علامہ صاحب بھی نہ ہوتے تو خیانت بھی نہ ہوتی ،اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ خیانت حواء نے سکھائی ۔ قارئین کرام مجھے امید ہے کافی حد تک آپ سمجھ چکے ہونگیں۔



حدیث کا مفہو م ہر گز یہ نہیں کہ حواء کی خیانت فحاشی ہے نعوذباللہ بلکہ اس کا یہ مفہوم ہے کہ شیطان نے پہلے حواء کو بہکایا اور وہ صنف نازک تھیں کمزور تھیں اور ان کے ذریعے آدم علیہ السلام کو بہکایا اور قرآن میں بھی درخت کا پھل کھانے کی نسبت آدم وحواء دونوں کی طرف کی گئی ہے
 
Top