• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پہلے یمن کا بادشاہ تبع حمیری کے واقعہ کی حقیقت

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
اہل علم سے گزارش ہے کہ اس متعلق رہنمائی فرمائیں کہ کیا ایسی کوئی روایت ہے اور اس کی اسناد کی حیثیت کیا ہے ۔ یہ واقعہ بریلوی عالم سید محمد دیدار علی کی کتاب تفسیر میزان الادیان میں موجود ہے ۔ صاحب کتاب نے تین کتب کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے ۔
۱۔ المستفرف فی کل فن مستفرف
۲۔ حجتہ اللہ علی العالمین
۳۔ تاریخ ابن عساکر

کتاب کا اسکین ملاحظہ ہو :
TafseerMizanUlAdyanPart1_0001.jpg
TafseerMizanUlAdyanPart1_0160.jpg
TafseerMizanUlAdyanPart1_0161.jpg
TafseerMizanUlAdyanPart1_0162.jpg
TafseerMizanUlAdyanPart1_0163.jpg


یونکوڈ میں پڑھیں :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔
پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔
یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔
وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے:
”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“
شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔
سبحان اللہ!) میں صدقے یارسول اللہ!ﷺ
بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)(کتاب المُستظرف)(حجتہ اللہ علی العالمین)(تاریخ ابن عساکر)

اہل علم سے گزارش ہے کہ جلد از جلد اس کا جواب دیں ۔ جزاک اللہ خیرا
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
شیخ محترم @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اس روایت کا ایک جواب آیا ہے کیا یہ درست ہے ؟ نظر ثانی فرما لیں ۔ جزاک اللہ خیرا

یہ روایت ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں 10/11ـ12 بحوالہ ابن اسحاق نقل کی ہے۔ اس طویل روایت کے لیے ابن عساکر کی سند بھی مخدوش ہے جبکہ ابن اسحاق نے اسے مختصرا اور الفاظ کے واضح اختلاف کے ساتھ اپنی سیرة ابن اسحاق ص 52/1 سے 55/1 تک حدیث تبع الحمیری کے عنوان سے نقل کیا۔ ابن اسحاق سےاوپر کی سند نہ ہونے کی وجہ سے ناقابل استدلال ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شیخ محترم @اسحاق سلفی حفظہ اللہ
اس روایت کا ایک جواب آیا ہے کیا یہ درست ہے ؟ نظر ثانی فرما لیں ۔ جزاک اللہ خیرا
یہ روایت ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں 10/11ـ12 بحوالہ ابن اسحاق نقل کی ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے اس روایت یا قصہ کے متعلق جب پہلی مرتبہ سوال کیا تھا ،اسی دن میں نے اس پر کافی وقت لگایا تھا لیکن اس قصہ کی کوئی قابل اعتماد روایت اور دلیل نہ مل سکی تھی اسی لئے خاموش رہا ،
تاریخ دمشق کی ایک طویل روایت جو محمد بن اسحاق ؒ کے حوالہ سے منقول ہے اور کئی صفحات پر مشتمل ہے اس کا ابتدائی حصہ یوں ہے :
أخبرنا أبو الفتح نصر الله بن محمد حدثنا نصر بن إبراهيم المقدسي أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسن القرشي قراءة عليه حدثنا أبو بكر محمد بن علي بن محمد الغازي النيسابوري نا الأستاذ أبو سعيد عبد الملك بن أبي عثمان الواعظ أخبرنا أبو عمر محمد بن سهل بن هلال البستي بمكة حدثنا أبو الحسن محمد بن أبي نافع الخزاعي حدثنا أبو محمد إسحاق بن محمد حدثنا أبو الوليد الأزرقي حدثني جدي عن سعيد بن سنان عن عثمان بن ساج عن محمد بن إسحاق قال سار تبع الأول إلى الكعبة فأراد هدمها وكان من الخمسة الذين لهم الدنيا بأسرها وكان له وزراء فاختار منهم واحدا وأخرجه معه وكان يسمى (3) عميارسنا لينظر إلى أمر مملكته وخرج في مائة ألف وثلاثين ألفا من الفرسان ومائة ألف وثلاثة عشر ألفا من الرجالة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی آخرہ
ـــــــــــــــــــ
اس میں تین چار باتیں سمجھ لیں تو تبع حمیری کے اس قصہ کی حقیقت واضح ہوجائے گی
(1) اس قصہ کو امام محمد بن اسحاقؒ نے بلا اسناد بیان کیا ہے ،یعنی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے قصہ کس سے سنا ، اور ملحوظ رہے محمد بن اسحاقؒ ( 80ھ)اسی ہجری میں پیدا ہوئے ،
(2)عثمان بن ساج : کے متعلق امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ اسکی حدیث لکھ لو اور یہ حجت نہیں۔ازدی کہتے ہیں کہ حدیث میں متکلم ہے۔
(3) سعيد بن سنان : ابو مھدی ، الحمصی ۔ امام احمد نے ضعیف کہا ہے، یحیی بن معین نے کہا کہ ثقہ نہیں، بخاری نے منکر الحدیث کہا، نسائی نے متروک۔(دیگر محدثین نے بھی اس راوی پر جرح نقل کی ہے)

(4) اور اس بادشاہ تبع کے متعلق صحیح حدیث (مستدرک حاکم ،کتاب البیوع ،ھدیث نمبر 2174 ) میں وارد ہے کہ :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أدري أتبع لعينا كان أم لا، وما أدري ذو القرنين نبيا كان أم لا، وما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا» هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرط البخاري ومسلم

سیدناا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں ،اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں ،اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ حدود (شرعی سزائیں ) مجرم کیلئے کفارہ ہیں یا نہیں "
حاکمؒ کہتے ہیں یہ حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے ،اور علامہ ذہبیؒ بھی اسے شرط شیخین پر بتاتے ہیں ۔

امام ابو عمر ابن عبدالبر (جامع بیان العلم وفضلہ ،جلد 2 ص882 ) میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
وَقَالَ أَبُو عُمَرَ: «حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ أَنَّ الْحُدُودَ كَفَّارَةٌ وَهُوَ أَثْبَتُ وَأَصَحُّ إِسْنَادًا مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا»یعنی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث جو سیدنا ابو ہریرہ والی روایت سے صحت میں بڑھ کرہے اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ حدود (شرعی سزائیں )مجرم کیلئے کفارہ ہیں "
(یعنی مجرم کو جب دنیا میں اس کے جرم کی شرعی سزا مل گئی تو اس کا گناہ معاف ہوگیا )

اور امام ابو داودؒ (4674) نے اس حدیث کو حسب ذیل روایت کیا ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ لَعِينٌ هُوَ أَمْ لَا، وَمَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا»
حكم الألباني : صحيح

ترجمہ :​
سیدناا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں ،اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ جناب عزیر نبی تھے یا نہیں "

اور مسند امام احمدؒ میں ایک روایت ہے کہ :
حدثنا حسن، حدثنا ابن لهيعة، حدثنا أبو زرعة عمرو بن جابر، عن سهل بن سعد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تسبوا تبعا؛ فإنه قد كان أسلم "
سیدناسہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تبع کو برا بھلا مت کہو ،کیونکہ وہ مسلمان ہوگیا تھا "
لیکن یہ روایت ضعیف ہے ،اس میں دو راوی "ابن لہیعہ " اور ابو زرعہ عمرو " دونوں ضعیف ہیں ۔
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے اس روایت یا قصہ کے متعلق جب پہلی مرتبہ سوال کیا تھا ،اسی دن میں نے اس پر کافی وقت لگایا تھا لیکن اس قصہ کی کوئی قابل اعتماد روایت اور دلیل نہ مل سکی تھی اسی لئے خاموش رہا ،
تاریخ دمشق کی ایک طویل روایت جو محمد بن اسحاق ؒ کے حوالہ سے منقول ہے اور کئی صفحات پر مشتمل ہے اس کا ابتدائی حصہ یوں ہے :
أخبرنا أبو الفتح نصر الله بن محمد حدثنا نصر بن إبراهيم المقدسي أخبرنا أبو الحسن علي بن الحسن القرشي قراءة عليه حدثنا أبو بكر محمد بن علي بن محمد الغازي النيسابوري نا الأستاذ أبو سعيد عبد الملك بن أبي عثمان الواعظ أخبرنا أبو عمر محمد بن سهل بن هلال البستي بمكة حدثنا أبو الحسن محمد بن أبي نافع الخزاعي حدثنا أبو محمد إسحاق بن محمد حدثنا أبو الوليد الأزرقي حدثني جدي عن سعيد بن سنان عن عثمان بن ساج عن محمد بن إسحاق قال سار تبع الأول إلى الكعبة فأراد هدمها وكان من الخمسة الذين لهم الدنيا بأسرها وكان له وزراء فاختار منهم واحدا وأخرجه معه وكان يسمى (3) عميارسنا لينظر إلى أمر مملكته وخرج في مائة ألف وثلاثين ألفا من الفرسان ومائة ألف وثلاثة عشر ألفا من الرجالة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی آخرہ
ـــــــــــــــــــ
اس میں تین چار باتیں سمجھ لیں تو تبع حمیری کے اس قصہ کی حقیقت واضح ہوجائے گی
(1) اس قصہ کو امام محمد بن اسحاقؒ نے بلا اسناد بیان کیا ہے ،یعنی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے قصہ کس سے سنا ، اور ملحوظ رہے محمد بن اسحاقؒ ( 80ھ)اسی ہجری میں پیدا ہوئے ،
(2)عثمان بن ساج : کے متعلق امام ابو حاتم کہتے ہیں کہ اسکی حدیث لکھ لو اور یہ حجت نہیں۔ازدی کہتے ہیں کہ حدیث میں متکلم ہے۔
(3) سعيد بن سنان : ابو مھدی ، الحمصی ۔ امام احمد نے ضعیف کہا ہے، یحیی بن معین نے کہا کہ ثقہ نہیں، بخاری نے منکر الحدیث کہا، نسائی نے متروک۔(دیگر محدثین نے بھی اس راوی پر جرح نقل کی ہے)

(4) اور اس بادشاہ تبع کے متعلق صحیح حدیث (مستدرک حاکم ،کتاب البیوع ،ھدیث نمبر 2174 ) میں وارد ہے کہ :
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما أدري أتبع لعينا كان أم لا، وما أدري ذو القرنين نبيا كان أم لا، وما أدري الحدود كفارات لأهلها أم لا» هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرط البخاري ومسلم

سیدناا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں ،اور میں یہ ھی نہیں جانتا کہ ذوالقرنین نبی تھے یا نہیں ،اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ حدود (شرعی سزائیں ) مجرم کیلئے کفارہ ہیں یا نہیں ،
حاکمؒ کہتے ہیں یہ حدیث شرط شیخین پر صحیح ہے ،اور علامہ ذہبیؒ بھی اسے شرط شیخین پر بتاتے ہیں ۔

امام ابو عمر ابن عبدالبر (جامع بیان العلم وفضلہ ،جلد 2 ص882 ) میں اس حدیث کو نقل کرکے فرماتے ہیں :
وَقَالَ أَبُو عُمَرَ: «حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ أَنَّ الْحُدُودَ كَفَّارَةٌ وَهُوَ أَثْبَتُ وَأَصَحُّ إِسْنَادًا مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ هَذَا»یعنی سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کہ حدود (شرعی سزائیں )مجرم کیلئے کفارہ ہیں ،
(یعنی مجرم کو جب دنیا میں اس کے جرم کی شرعی سزا مل گئی تو اس کا گناہ معاف ہوگیا )

اور امام ابو داودؒ (4674) نے اس حدیث کو حسب ذیل روایت کیا ہے :
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، وَمَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ الشَّعِيرِيُّ الْمَعْنَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَدْرِي أَتُبَّعٌ لَعِينٌ هُوَ أَمْ لَا، وَمَا أَدْرِي أَعُزَيْرٌ نَبِيٌّ هُوَ أَمْ لَا»
حكم الألباني : صحيح

ترجمہ :​
سیدناا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں ،اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ جناب عزیر نبی تھے یا نہیں "

اور مسند امام احمدؒ میں ایک روایت ہے کہ :
حدثنا حسن، حدثنا ابن لهيعة، حدثنا أبو زرعة عمرو بن جابر، عن سهل بن سعد قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تسبوا تبعا؛ فإنه قد كان أسلم "
سیدناسہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تبع کو برا بھلا مت کہو ،کیونکہ وہ مسلمان ہوگیا تھا "
لیکن یہ روایت ضعیف ہے ،اس میں دو راوی "ابن لہیعہ " اور ابو زرعہ عمرو " دونوں ضعیف ہیں ۔
جزاک اللہ خیرا یا شیخ محترم
اللہ آپ کے علم و عمل میں مزید برکتیں دے ۔ آمین

یہ روایت ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں 10/11ـ12 بحوالہ ابن اسحاق نقل کی ہے۔ اس طویل روایت کے لیے ابن عساکر کی سند بھی مخدوش ہے
محترم شیخ "مخدوش" کا کیا معنی ہوگا ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
محترم شیخ "مخدوش" کا کیا معنی ہوگا ؟
مخدوش " خدشہ سے بھرا ہوا ،یعنی مشکوک ،
یہاں مراد یہ کہ اس روایت کی اسناد قابل اعتماد اور یقینی نہیں ،
 
Top