• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے عمرمیں فرق کے باوجود شادی میں حکمت

رانا اویس سلفی

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
387
ری ایکشن اسکور
1,609
پوائنٹ
109
اعتراض 1: میرے ایک نصرانی دوست نے یہ سوال کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاسے نوبرس کی عمر میں شادی کرنے میں کیا حمکت تھی حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ برس کے ہونے والے تھے ، اور کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس عمرمیں ازدواجی تعلقات قائم کیے تھے یا نہیں ؟؟ حقیقت تویہ ہے کہ مجھے اس کے رد کا علم نہيں ۔

اعتراض 2 : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر 6سال تھی جب ان سے خلوت کی گئی تو عمر 9سال تھی ۔ (صحیح بخاری کتاب النکاح صفحہ: 75) (اسلام کے مجرم صفحہ: 31)

ازالہ : ڈاکٹر شبیر اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے قرآن نکاح کو انتہائی سنجیدہ معاہدہ کہتا ہے بچے سنجیدہ معاہدہ کیسے کرسکتے ہیں اگر آپ کی بیٹی یا بہن 6یا 9سال کی ہے تو آپ اس موضوعہ روایت کا زہر محسوس کرسکتے ہیں'' ۔(اسلام کے مجرم صفحہ :31)

اعتراض 1 ازالہ

الحمد للہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کرنے کے بعد عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی ، اورصرف عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا ہی کنواری تھیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور جب ان سے ازداوجی تعلقات قائم کیے توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی عمر نوبرس تھی ۔

اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ ازواج مطہرات میں سے کسی اورکے لحاف میں وحی نازل نہيں ہوئی ، اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسب بیویوں سے زيادہ محبوب تھیں ، ان کی برات ساتوں آسمانوں سے نازل ہوئی ۔

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے سب سےزيادہ فقیہ اورعلم رکھنے والے تھیں ، بلکہ مطلقاامت اسلامیہ کی عورتوں میں سب سے زيادہ فقیہ اورعلم رکھنے والی تھیں ، بڑے بڑے صحابہ کرام عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے رجوع کرتے اوران سے مسائل پوچھا کرتے تھے ۔

ان کی شادی کا قصہ یہ ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی وفات سے بہت زيادہ غمزدہ ہوئے اس لیے کہ وہ ان کی تائيد اورمدد کیا کرتی تھیں ، اورہر معاملہ میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتی تھیں ، اسی لیے اس سال کو جس میں وہ فوت ہوئي اسےعام الحزن ( یعنی غموں کا سال ) کہا جاتا ہے ۔

پھران کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کرلی یہ بڑی عمر کی تھیں اورخوبصورت بھی نہيں تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف غمواری کے لیے شادی کی تھی کیونکہ اس کا خاوند فوت ہوچکا تھا ، اوریہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں ۔

اس کے چارسال بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے شادی کی اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچاس برس سے زيادہ تھی ، عائشہ رضي اللہ تعالی عہنا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شادی کرنے میں مندرجہ ذیل حکمتیں ہوسکتی ہیں :

اول :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے شادی کی خواب دیکھی تھی ، صحیح بخاری میں حدیث مروی ہے کہ عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہيں فرمایا :

( خواب میں مجھے تو دوبار دکھائي گئي تھی ، میں نے تجھے ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئي دیکھا ، کہا گیا کہ یہ تیری بیوی ہے جب میں کپڑا ہٹاتا ہوں تو دیکھا کہ تو ہے ، میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کی طرف سے ہے توپھر اللہ اسے پورا کرے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3682 ) ۔

اورکیا یہ اپنے ظاہر پر نبوت کی خواب ہے یا اس کی کوئي تاویل ہوگي علماء کرام کے مابیں اس میں اختلاف ہے ، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 181 ) ۔

دوم :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے بچپن میں جوذھانت اورسمجھداری کی علامات اورنشانیاں دیکھیں تواس بنا پران سے شادی کرنا پسند فرمائی تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اوراقوال کودوسروں کی بنسبت صحیح اوربہتر طریقے سے نقل کرسکے ۔

اورپھر حیقیقتا ہوا بھی ایسے ہی جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بڑے بڑے صحابہ کرام کے لیے مرجع بن گئي اورصحابہ کرام اپنے احکام اورہرمعاملہ کے بارہ میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے رجوع کیا کرتے اورپوچھا کرتے تھے ۔

سوم :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے والد ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، کہ انہوں نے دعوت حق کے راستے میں جواذیتیں برداشت کی اوران پر صبر وتحمل سے کام لیا ، لھذا علی الاطلاق انبیاء کےبعد وہ سب لوگوں سے زیادہ پختہ ایمان والے اورسچے یقین والے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی شادیاں کی اگران میں نظر دوڑائي جائے توہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں کم عمر بھی ہے اوربوڑھی بھی اورسخت قسم کے جھگڑالودشمن کی بیٹی بھی اورجگری اوردلی دوست کی بیٹی بھی ۔

ان میں ایسی بھی ہے جویتیموں کی پرورش بھی کرنے والی ہے ، اوران میں ایسی بھی ہے جونماز اورروزے کثرت سے رکھنے میں دوسروں سے ممتازہوتی ہے ۔۔۔ وہ سب انسانی افراد کے لیے نمونہ اورآئڈیل تھیں ، ان کے ذریعہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کوایک ایسی یکسو تشریع دی جس میں بشریت کے ہرمعاملے اورکام سے تعامل اوربرتاؤ کی کیفیت بیان کی گئي ہے ۔

دیکھیں : السیرۃ النبويۃ فی ضوء المصادرالاصلیۃ صفحہ ( 711 ) ۔

اوررہا مسئلہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی صغر سنی اوراس کے بارہ میں آپ کے اشکال کا توہم گزارش کرینگے گے کہ : آپ کوعلم ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گرم علاقہ جزیرہ عربیہ میں رہتے تھے اوروہيں پرورش بھی پائي ، اورغالباگرم علاقوں میں سن بلوغ بھی جلد آجاتا ہے جس کی بنا پر شادی بھی جلد ہوجاتی ہے ، جزیرہ میں بھی عھد قریب تک یہی حالت تھی ، اورپھر عورتوں میں جسم کے نشونما کا بھی اختلاف پایا جاتا ہے جس میں وہ ایک دوسرے سے بہت زيادہ مختلف ہوتی ہیں ۔

اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے ، جب آپ غورکریں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کے علاوہ کسی اورکنواری عورت سے شادی نہيں کی بلکہ ان کے علاوہ باقی سب بیویاں ایسی تھیں جن کی پہلے شادی ہوچکی تھی اب یا تو وہ مطلقہ تھیں یا بیوہ ، اس طرح وہ طعن جوکچھ لوگ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی کرنے کا مقصد صرف عورتوں کی شھوت اوران سے نفع اٹھانا تھا زائل ہوجاتا ہے ۔

کیونکہ جس شخص کا یہ مقصد ہو تووہ اپنی ساری بیویاں یا اکثر ایسی اختیار کرتا ہے جوانہتائي خوبصورت ہوں اوران میں رغبت کی ساری صفات پائي جائيں ، اوراسی طرح اورحسی اورزائل ہونے والے معیار بھی ۔

کفار اوران کے پیروکاروں کا اس طرح نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم میں طعن کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ دین اورشریعت میں طعن کرنے سے بالکل عاجز آچکے ہیں اب انہيں کچھ نہيں ملا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں طعن کرنا شروع کردیا اورکوشش کرتے ہيں کہ خارجی امور میں طعن کیا جائے ، لیکن اللہ تعالی تواپنے نور اوردین کو مکمل کرکے رہے گا اگرچہ کافر برا مناتے رہیں ۔اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

2 اعتراض ازالہ:۔

زیر بحث روایت صحیح بخاری میں موجود ہے جو کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ عائشہ کا اپنا قول ہے کہ:



أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین وبنی بھا وھی بنت تسع سنین

(صحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الأب ابنة من الامام رقم الحدیث5134)

'' عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور نو برس کی عمر میں رخصتی کی گئی ''

(1) روایت کا ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر شبیرنے بنٰی کا ترجمہ خلوت کیا ہے جو کہ غلط ہے بنٰی کا معنی رخصتی ہے نہ کہ خلوت (النھایہ فی غریب الحدیث جلد 1صفحہ156)

(2) اس روایت کوڈاکٹرشبیرنے موضوع کہا ہے جبکہ ڈاکٹر موصوف جو جرح وتعدیل کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور صحیح روایت کو اپنے مبلغ علم کی بنیا د پر ضعیف بھی نہیں بلکہ موضوع (من گھڑت ) قرار دے رہے ہیں ؟

(3) کیاسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بوقت رخصتی نابالغہ تھیں اور اگر نا بالغہ تھیں تو قرآن نے کہاں نابالغہ سے نکاح ممنوع قرار دیا ہے :

(4) ڈاکٹر شبیرتحریر فرماتے ہیں :''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے''۔ ھٰذا بھتان عظیم ۔ قرآن حکیم میں ا یسا حکم کہیں موجودنہیں۔ حالانکہ قرآن مجید تو اس کے بالکل برعکس اصول بیان کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

''اور تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے ما یوس ہوچکی ہیں اگرتمھیں کچھ شبہ ہو تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی کہ جنھیں ابھی حیض شروع نہ ہوا ہو ۔''(سورة الطلاق ۔آیت :4)

مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کررہا ہے کہ ،

(1) وہ عورتیں جنھیں حیض آنا بند ہوگیا ہو ۔ان کی عدت تین ماہ ہے ۔

(2) وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے (یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں)۔

قارئین کرام !.

عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد اور یا جب طلاق مل جائے اور یا وہ خلع حاصل کرے اس وقت لاگو ہوتے ہیں ۔

اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا (یعنی بالغ نہیں ہوئی ) نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور عدت منکوحہ کے لئے ہے لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر بھی وارد ہوتا ہے ۔

مزید برآں :

ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ ،جسمانی وجنسی بناوٹ اورعادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاوت و فرق ہوتا ہے ۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہوجاتی ہے ۔ مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے ۔وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جوکہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لئے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا 9سال کی عمر میں بالغ ہوجانا بعید از عقل نہیں ۔ کیونکہ اسلاف نے ایسے بہت سے واقعات نقل فرمائے ہیںجو منکرین حدیث سے اوجھل ہیں صرف امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا قصہ ہی کیوں زیر بحث ہے حالانکہ کئی حوالے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کوئی انوکھا معاملہ نہیں پہلے بھی اس قسم کے بہت سارے معاملات ہوچکے ہیںاور اب بھی اخباروں میں اس قسم کی خبریں موجود ہیں ۔ عرب کے معاشرے میں نو (9) سال کی عمر میں بچہ جنم دینا اور اس عمر میں نکاح کرنارواج تھاپر ان لوگوں کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی۔مثلاً ،

(1) ابوعاصم النبیل کہتے ہیں کہ میری والدہ ایک سو دس (110) ہجری میں پیدا ہوئیں اور میں ایک سو بائیس( 122) ہجری میں پیدا ہوا۔ (سیر اعلاالنبلاء جلد7رقم1627) یعنی بارہ سال کی عمر میں ان کا بیٹا پیدا ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کی والدہ کی شادی دس سے گیارہ سال کی عمر میں ہوئی ہوگی۔

(2) عبداللہ بن عمر و اپنے باپ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے ۔

( تذکرة الحفاظ جلد1ص93)

(3) ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت منذر سے شادی کی اور بوقت زواج فاطمہ کی عمر نو سال تھی ۔ (الضعفاء للعقیلی جلد4رقم 1583، تاریخ بغداد 222/1)

(4) عبداللہ بن صالح کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں ایک عورت نو سال کی عمر میں حاملہ ہوئی اور اس روایت میں یہ بھی درج ہے کہ ایک آدمی نے ان کو بتایاکہ اس کی بیٹی دس سال کی عمر میں حاملہ ہوئی ۔ (کامل لابن عدی جلد5ر قم 1015)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں عبداللہ بن عامر سے کرائی (تاریخ ابن عساکر جلد70) ۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ عباد بن عباد المہلبی فرماتے ہیں میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں نانی بن گئی نو سال کی عمر میں اس نے بیٹی کو جنم دیا اور اس کی بیٹی نے بھی نو سال کی عمر میں بچہ جنم دیا ۔(سنن دارقطنی جلد3کتاب النکاح رقم 3836) ان دلائل کے علاوہ اور بھی بے شماردلائل موجود ہیں جو کہ طالب حق کے لئے کافی اور شافی ہونگے ۔ ان شاء اللہ ۔

ماضی قریب میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہواکہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔ (روزنامہ DAWN 29 مارچ1966) دور حاضر کے نامور اسلامک اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں : ''حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک وشبہات تھے۔بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً 9سال تھی اور اسے حیض آرہے تھے۔ تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آگیا ' علاوہ ازیں روزنامہ جنگ کراچی میں 16اپریل 1986ء کوایک خبر مع تصویرکے شائع ہوئی تھی جس میں ایک نو سال کی بچی جس کا نام (ایلینس) تھا اور جو برازیل کی رہنے والی تھی بیس دن کی بچی کی ماں تھی۔ (روزنامہ آغاز میں یکم اکتوبر 1997کوایک خبر چھپی کہ (ملتان کے قریب ایک گاؤں میں)ایک آٹھ سالہ لڑکی حاملہ ہوگئی ہے اور ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ زچکی کے دوران ہلاک ہوجائے.پھر 9دسمبر 1997کو اسی اخبار میں دوسری خبر چھپی کہ ''ملتان (آغاز نیوز) ایک آٹھ سالہ پاکستانی لڑکی نے ایک بچہ کو جنم دیا ہے. ڈاکٹروں نے گزشتہ روز بتایا ہے کہ بچہ صحت مند ہے ۔) قرآن میں اللہ رب العالمین نے نوح علیہ السلام کی طویل العمری کا ذکر فرمایا ہے کہ :

فَلَبِثَ فِیْہِمْ أَلْفَ سَنَة ِلَّا خَمْسِیْنَ عَاماً (سورة العنکبوت ۔آیت 14)

''نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال ٹھہرے ''

یہ بات بھی ناقابل اعتبار اور عقل کے خلاف نظر آتی ہے تو اس کا آپ کیا جواب دیں گے ؟ پس جو جواب آپ دیں گے وہی جواب اس حدیث کا بھی سمجھ لیں ۔

فماکان جوابکم فھوجوابنا فللہ الحمد

آخر میں ہم بطور ثبوت کے کچھ ویڈیو لنک دے رہے ہیں.



Youngest Egyptian Mother - YouTube

پہلے ایتراز کا جواب

الشيخ محمد صالح المنجد

دوسرے ایتراز کا جواب

الشيخ محمد حسین میمن
 
Top