• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی صلی اللہ وسلم اور ازواج مطہرات (رض) کی شان میں بد ترین گستاخی

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ملفوظات رضا خاں بریلوی --- حصہ سوم ---
انبیاء علیہم الصلاة و السلام اور اولیاء کرام کی حیات برزخی
انبیاء علیہم الصلاة و السلام، نبی (ص) اور ازواج مطہرات (رض) کی شان میں بد ترین گستاخی
انبیاء علیہم الصلاة و السلام کی قبور مطہرہ میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں اور وہ ان کے ساتھ شب باشی فرماتے ہیں -

استغفراللہ من ذالک!

malfoozat.jpg



یہ کتاب مندرجہ زیل "ویب سائٹ" سے ڈاؤن لوڈ کی گئی





۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
استغفر اللہ
اللہ تعالی انھیں ہدایت دے۔۔آمین
 
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
شب باشی کا معنی رات گزارنا ہوتا ہے۔اور اگر حضور کی ازواج آپ کے ساتھ شب باش ہوں تو اس میں گستاخی کیا ہے۔؟؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
نبی صلی اللہ وسلم اور ازواج مطہرات (رض) کی شان میں بد ترین گستاخی

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا سليمان بن بلال عن يحيى عن عبيد بن حنين انه سمع ابن عباس رضي الله عنهما يحدث انه قال:‏‏‏‏"مكثت سنة اريد ان اسال عمر بن الخطاب عن آية فما استطيع ان اساله هيبة له حتى خرج حاجا فخرجت معه فلما رجعنا وكنا ببعض الطريق عدل إلى الاراك لحاجة له قال:‏‏‏‏ فوقفت له حتى فرغ ثم سرت معه فقلت:‏‏‏‏ يا امير المؤمنين من اللتان تظاهرتا على النبي صلى الله عليه وسلم من ازواجه؟ فقال:‏‏‏‏ تلك حفصة وعائشة قال:‏‏‏‏ فقلت:‏‏‏‏ والله إن كنت لاريد ان اسالك عن هذا منذ سنة فما استطيع هيبة لك قال:‏‏‏‏ فلا تفعل ما ظننت ان عندي من علم فاسالني فإن كان لي علم خبرتك به قال:‏‏‏‏ ثم قال عمر:‏‏‏‏ والله إن كنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتى انزل الله فيهن ما انزل وقسم لهن ما قسم قال:‏‏‏‏ فبينا انا في امر اتامره إذ قالت امراتي لو صنعت كذا وكذا قال:‏‏‏‏ فقلت لها:‏‏‏‏ ما لك ولما ها هنا وفيم تكلفك في امر اريده فقالت لي:‏‏‏‏ عجبا لك يا ابن الخطاب ما تريد ان تراجع انت وإن ابنتك لتراجع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يومه غضبان فقام عمر فاخذ رداءه مكانه حتى دخل على حفصة فقال لها:‏‏‏‏ يا بنية إنك لتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يومه غضبان فقالت حفصة:‏‏‏‏ والله إنا لنراجعه فقلت:‏‏‏‏ تعلمين اني احذرك عقوبة الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم يا بنية لا يغرنك هذه التي اعجبها حسنها حب رسول الله صلى الله عليه وسلم إياها يريد عائشة قال:‏‏‏‏ ثم خرجت حتى دخلت على ام سلمة لقرابتي منها فكلمتها فقالت ام سلمة:‏‏‏‏ عجبا لك يا ابن الخطاب دخلت في كل شيء حتى تبتغي ان تدخل بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وازواجه فاخذتني والله اخذا كسرتني عن بعض ما كنت اجد فخرجت من عندها وكان لي صاحب من الانصار إذا غبت اتاني بالخبر وإذا غاب كنت انا آتيه بالخبر ونحن نتخوف ملكا من ملوك غسان ذكر لنا انه يريد ان يسير إلينا فقد امتلات صدورنا منه فإذا صاحبي الانصاري يدق الباب فقال:‏‏‏‏ افتح افتح فقلت:‏‏‏‏ جاء الغساني فقال:‏‏‏‏ بل اشد من ذلك اعتزل رسول الله صلى الله عليه وسلم ازواجه فقلت:‏‏‏‏ رغم انف حفصة وعائشة فاخذت ثوبي فاخرج حتى جئت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مشربة له يرقى عليها بعجلة وغلام لرسول الله صلى الله عليه وسلم اسود على راس الدرجة فقلت له:‏‏‏‏ قل هذا عمر بن الخطاب فاذن لي قال عمر:‏‏‏‏ فقصصت على رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الحديث فلما بلغت حديث ام سلمة تبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنه لعلى حصير ما بينه وبينه شيء وتحت راسه وسادة من ادم حشوها ليف وإن عند رجليه قرظا مصبوبا وعند راسه اهب معلقة فرايت اثر الحصير في جنبه فبكيت فقال:‏‏‏‏"ما يبكيك؟"فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله إن كسرى وقيصر فيما هما فيه وانت رسول الله فقال:‏‏‏‏"اما ترضى ان تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة".

ترجمہ داؤد راز
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو؟ میری بیوی نے اس پر کہا: خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (حفصہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ بھی کر دیا تھا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا (ناراضگی) سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آ جانا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو! کھولو! کھولو! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام (رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
نبی صلی اللہ وسلم اور ازواج مطہرات (رض) کی شان میں بد ترین گستاخی

حدثنا عبد العزيز بن عبد الله حدثنا سليمان بن بلال عن يحيى عن عبيد بن حنين انه سمع ابن عباس رضي الله عنهما يحدث انه قال:‏‏‏‏"مكثت سنة اريد ان اسال عمر بن الخطاب عن آية فما استطيع ان اساله هيبة له حتى خرج حاجا فخرجت معه فلما رجعنا وكنا ببعض الطريق عدل إلى الاراك لحاجة له قال:‏‏‏‏ فوقفت له حتى فرغ ثم سرت معه فقلت:‏‏‏‏ يا امير المؤمنين من اللتان تظاهرتا على النبي صلى الله عليه وسلم من ازواجه؟ فقال:‏‏‏‏ تلك حفصة وعائشة قال:‏‏‏‏ فقلت:‏‏‏‏ والله إن كنت لاريد ان اسالك عن هذا منذ سنة فما استطيع هيبة لك قال:‏‏‏‏ فلا تفعل ما ظننت ان عندي من علم فاسالني فإن كان لي علم خبرتك به قال:‏‏‏‏ ثم قال عمر:‏‏‏‏ والله إن كنا في الجاهلية ما نعد للنساء امرا حتى انزل الله فيهن ما انزل وقسم لهن ما قسم قال:‏‏‏‏ فبينا انا في امر اتامره إذ قالت امراتي لو صنعت كذا وكذا قال:‏‏‏‏ فقلت لها:‏‏‏‏ ما لك ولما ها هنا وفيم تكلفك في امر اريده فقالت لي:‏‏‏‏ عجبا لك يا ابن الخطاب ما تريد ان تراجع انت وإن ابنتك لتراجع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يومه غضبان فقام عمر فاخذ رداءه مكانه حتى دخل على حفصة فقال لها:‏‏‏‏ يا بنية إنك لتراجعين رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يظل يومه غضبان فقالت حفصة:‏‏‏‏ والله إنا لنراجعه فقلت:‏‏‏‏ تعلمين اني احذرك عقوبة الله وغضب رسوله صلى الله عليه وسلم يا بنية لا يغرنك هذه التي اعجبها حسنها حب رسول الله صلى الله عليه وسلم إياها يريد عائشة قال:‏‏‏‏ ثم خرجت حتى دخلت على ام سلمة لقرابتي منها فكلمتها فقالت ام سلمة:‏‏‏‏ عجبا لك يا ابن الخطاب دخلت في كل شيء حتى تبتغي ان تدخل بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وازواجه فاخذتني والله اخذا كسرتني عن بعض ما كنت اجد فخرجت من عندها وكان لي صاحب من الانصار إذا غبت اتاني بالخبر وإذا غاب كنت انا آتيه بالخبر ونحن نتخوف ملكا من ملوك غسان ذكر لنا انه يريد ان يسير إلينا فقد امتلات صدورنا منه فإذا صاحبي الانصاري يدق الباب فقال:‏‏‏‏ افتح افتح فقلت:‏‏‏‏ جاء الغساني فقال:‏‏‏‏ بل اشد من ذلك اعتزل رسول الله صلى الله عليه وسلم ازواجه فقلت:‏‏‏‏ رغم انف حفصة وعائشة فاخذت ثوبي فاخرج حتى جئت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مشربة له يرقى عليها بعجلة وغلام لرسول الله صلى الله عليه وسلم اسود على راس الدرجة فقلت له:‏‏‏‏ قل هذا عمر بن الخطاب فاذن لي قال عمر:‏‏‏‏ فقصصت على رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا الحديث فلما بلغت حديث ام سلمة تبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنه لعلى حصير ما بينه وبينه شيء وتحت راسه وسادة من ادم حشوها ليف وإن عند رجليه قرظا مصبوبا وعند راسه اهب معلقة فرايت اثر الحصير في جنبه فبكيت فقال:‏‏‏‏"ما يبكيك؟"فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله إن كسرى وقيصر فيما هما فيه وانت رسول الله فقال:‏‏‏‏"اما ترضى ان تكون لهم الدنيا ولنا الآخرة".

ترجمہ داؤد راز
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لیے ایک سال تک میں تردد میں رہا، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا۔ آخر وہ حج کے لیے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لیے وہ پیلو کے درخت میں گئے۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا۔ امیرالمؤمنین! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متفقہ منصوبہ بنایا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لیے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہو گا تو تمہیں بتا دیا کروں گا۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو؟ میری بیوی نے اس پر کہا: خطاب کے بیٹے! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی (حفصہ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ بھی کر دیا تھا۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کی قسم! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا (ناراضگی) سے ڈراتا ہوں۔ بیٹی! اس عورت کی وجہ سے دھوکا میں نہ آ جانا جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لی ہے۔ ان کا اشارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا۔ میرے ایک انصاری دوست تھے، جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آ کر بتایا کرتے اور جب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آ کر بتایا کرتا تھا۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے، اس زمانہ میں کئی عیسائی اور ایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو! کھولو! کھولو! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آ گئے۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آ گیا ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو۔ چنانچہ میں نے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا۔ میں جب پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ نبی کریم کا ایک حبشی غلام (رباح) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا، میں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ عمر بن خطاب آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا۔ جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آ گئی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ پاؤں کی طرف کیکر کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کس بات پر رونے لگے ہو میں نے عرض کی یا رسول اللہ! قیصر و کسریٰ کو دنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں (آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے۔

اس کا جواب تو آپ کو @اسحاق سلفی بھائی دے گے


پہلے آپ اپنے گھر کی خبر لے شیعوں کی اللہ سبحان و تعالیٰ کی شان میں بدترین گستاخی نعوذباللہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کا بیٹا بنا دیا


لنک




 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
نبی صلی اللہ وسلم اور ازواج مطہرات (رض) کی شان میں بد ترین گستاخی
اپنے الفاظ میں ’’ گستاخی ‘‘ کو متعین کریں ۔۔۔۔۔
ویسے یہ بات ثابت ہوگئی کہ تمھارے نزدیک ۔۔۔بریلی کا ایک بدعتی مولوی ۔۔صحابہ کرام سے بڑھ کر عزیز ہے
کہ کسی نے ’‘ بدعتی احمد رضا ’‘ کے خلاف پوسٹ لگائی ۔۔۔جواب میں تم آسمان ھدایت پر الزام دینے لگے ۔۔۔۔۔۔

اور ہاں اگلی پوسٹ سوچ سمجھ کر لکھنا ۔۔۔۔کیونکہ صحابہ کرام کے مقابل کسی پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top