• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو صحیح طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کی فضیلت''

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو صحیح طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کی فضیلت''

اعجاز علی شاہ

السلام علیکم و رحمة ﷲ و برکة!!

رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کو بالکل سلامتی کے ساتھ دوسرے تک پہنچانے والے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی بہترین دعا کی ہے . ہمیں چاہیے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نقل کرتے وقت یہ خیال رکھیں کہ یہ بات کسی صحیح حدیث میں موجود ہے یا نہیں.

امام ابن ماجہ نے حضرت جبیر بن مطعم رضی ﷲ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوئے اور کہا:

'' نصر ﷲ امرء اسمع مقالتی فبلغھا ، فرب حامل فقہ غیر فقیہ، ورب حامل فقہ الی من ھو افقہ منہ''

( سنن ابن ماجہ ، حدیث 244 شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)
''ﷲ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے میری بات کو سنا ، اور اس کو آگے پہنچادیا . کتنے ہی حاملین فقہ غیر فقیہ ہوتے ہیں، اور کتنے ہی حاملین فقہ اس شخص تک ( دین کی بات) پہنچاتے ہیں جو ان سے بڑا فقیہ ہوتا ہے.''

امام ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی یوں شرح لکھتے ہیں:

''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سننے ، سمجھنے ، یاد کرنے اور اس کو آگے پہنچانے والے کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ہے ، اور یہی علم کے مراتب ہیں:

اس کا پہلا اور دوسرا مرتبہ علم کا سننا اور سمجھنا ہے، تیسرا مرتبہ اس کی حفاظت کرنا اور اس کو یاد رکھنا ہے تاکہ بھول جانے سے علم ختم ہی نہ ہو جائے، چوتھا مرتبہ اس کی تبلیغ کرنا اور اس کو امت میں پھیلانا ہے تاکہ امت میں اس کی اشاعت کا مقصد پورا ہو جائے. وہ (علم) زمین میں دفن شدہ خزانے کی مانند ہے جس سے خرچ نہ کیا گیا ہو، اور جب تک علم کو خرچ نہ کیا جائے، اس کی تعلیم نہ دی جائے اس کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہوتا ہے، لیکن جب اس کو خرچ کیا جائے تو خرچ کرنے کی بنا پر اس میں اضافہ ہوتا ہے.

جس نے یہ چاروں کام سر انجام دئیے، وہ اس نبوی دعا کا مستحق قرار پایا جس میں جمال ظاہری اور باطنی دونوں ہیں ، کیوں کہ ( النضرة) وہ تروتازگی اور حسن ہے جو ایمان کے آثار، باطنی ترو تازگی ، دل کی خوشی اور مسرت، اور اس سے لطف اندوز ہونے کے سبب چہرے پر آجاتا ہے، یہ فرحت و شادمانی چہرے کو رونق دیتی ہے، اسی بنا پر ﷲ تعالیٰ نے فرحت و سرور اور چہرے کی تر وتازگی کو اپنے اس ارشاد گرامی میں جمع کردیا :

(فوقاھم ﷲ شر ذلک الیوم ولقاھم نضرة و سرورا)( الانسان : 11)
( پس ﷲ تعالیٰ نے انہیں اس دن کی برائی سے بچا لیا اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی)

تروتازگی ان کے چہروں پر ہوگی، اور سرور ان کے دلوں میں . نعمتوں کا حصول اور دل کی خوشی چہرے پر تازگی کو ظاہر کرتی ہے جیسا کہ ﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی ہے :

( تعرف فی وجوھھم نضرة النعیم )( المطففین : 24)

( تو ان کے چہروں ہی سے نعمتوں کی تر وتازگی پہچان لے گا )

خلاصہ کلام یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جس شخص نے سنا، سمجھا، یاد کیا اور اس کو ( دوسرو تک ) پہنچایا، تو اس کے چہرے پر یہ تر وتازگی ہوگی، اور یہ اس شرینی، رونق اور سرور کا نتیجہ ہوگی جو اس کے قلب اور باطن میں پائی جائے گی.


( مفتاح دار السعادة : 1/ 82-71 اختصار کے ساتھ)
 
Last edited:
Top