• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کا عقیدہ کہ ان زمینی قبروں میں عذاب قبر نہیں ہوتا۔

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ واقعتاً سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اور صحابہؓ کا یہی عقیدہ تھا کہ ان زمینی قبروں میں عذاب نہیں ہوتا؟؟؟
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو
اس سے میری اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ
آپ اہل حدیث نہیں بل کہ بدعتی ہیں
کیوں کہ
کسی بھی اہل حدیث عالم کا یہ موقف نہیں
بہ ظاہر چوں کہ آپ اسی پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ابھی تک اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ موجودہ جسم کو زمینی قبر میں عذاب ہوتا ہے
اس لیے میں بھی اپنی راے پر قائم ہوں
اور
آپ بار بار ایک ہی بات کو دہراتے چلے جا رہے ہیں جب کہ ہر بات کا جواب دیا جا چکا ہے
اور
آپ اپنی تائید میں کسی بھی اہل حدیث عالم کا حوالہ پیش نہیں کر سکے۔
اب مجھ پر غصہ ہونے کے بجاےاس بات کا جواب دے دیں کہ جو عنوان آپ نے قائم کیا ہے
کس اہل حدیث عالم نے کہا یا لکھا ہے؟؟؟
بہ صورت دیگر آپ کا معاملہ بالکل واضح ہے کہ آپ نہ حنفی ہیں نہ اہل حدیث بل کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا ءَالَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ
آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح شام لائے جاتے ہیں (١) اور جس دن قیامت قائم ہوگی (فرمان ہوگا کہ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو۔ (۲)‏
کیا یہ آیت عذاب قبر کی دلیل نہیں ہے ؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
@محمد عثمان


ایک حدیث پیش ہے -




سمرہ بن جندبؓ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ الفجر پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض ِمقدس کی طرف لے گئے۔ اور وہاں سے عالم ِبالا کی مجھ کو سیر کرائی ، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو ' ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتاکہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتاکہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ' عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زناکار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ' لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو ' یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی
اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔

صحیح بخاری ، کتاب الجنائز



اس حدیث کے ان الفاظ کی تشریح کر دیں -

ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔


ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔



یہاں جو عذاب ہو رہا ہے وہ روح پر ہے یا جسم پر بھی ہے - اگر جسم پر بھی ہے تو کون سے جسم پر دنیا والے جسم پر یا وہاں کوئی اور جسم دیا گیا -

ان لوگوں کی قبریں بھی اندر ہیں تندور کے- اکھٹی ہیں وہاں یا دنیا میں ایک کی کہاں دوسرے کی کہاں - وضاحت کر دیں -





امید ہے کہ آپ کا جواب ضرور آے گا -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436

آپ اپنی تائید میں کسی بھی اہل حدیث عالم کا حوالہ پیش نہیں کر سکے۔


میں الله کا قرآن اور محمد صلی الله وسلم کا فرمان پیش کر چکا ہوں - کیا
اہلحدیث عالم کا حوالہ الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان سے بڑھ کر ہے - ہو سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک اہلحدیث عالم کا حوالہ الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان سے بڑھ کر ہو - لیکن میرے لئے الله کے قران اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان کے آگے اہلحدیث عالم کی بات کا حوالہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
میں الله کا قرآن اور محمد صلی الله وسلم کا فرمان پیش کر چکا ہوں - کیا اہلحدیث عالم کا حوالہ الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان سے بڑھ کر ہے - ہو سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک اہلحدیث عالم کا حوالہ الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان سے بڑھ کر ہو - لیکن میرے لئے الله کے قران اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان کے آگے اہلحدیث عالم کی بات کا حوالہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا -
یعنی یہ بات جو آپ قرآن وحدیث سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔۔ وہ بات اہلحدیث کے کسی عالم کو قرآن وحدیث سے سمجھ نہیں آئی ۔
گویاآپ پہلے محقق ہیں جس کی نظر ان نصوص کے اصلی معانی اور حقیقی مراد تک پہنچی ۔
ویسے تکلف برطرف ۔لکھنو کا ایک کباڑیہ بھی توحید کا نام لے کر یہی گل فشانی کرتے کرتے مردار ہوگیا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میں الله کا قرآن اور محمد صلی الله وسلم کا فرمان پیش کر چکا ہوں - کیا اہلحدیث عالم کا حوالہ الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان سے بڑھ کر ہے - ہو سکتا ہے کہ آپ کے نزدیک اہلحدیث عالم کا حوالہ الله کے قرآن اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان سے بڑھ کر ہو - لیکن میرے لئے الله کے قران اور محمد صلی الله وسلم کے فرمان کے آگے اہلحدیث عالم کی بات کا حوالہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا -

میرے بھائی میرا آپ سے سوال ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کسی قبر کو دیکھ کر روتے تھے اور وہ کس قبر کی طرف دیکھ کر کہتے تھے جو اس قبر میں پاس ہو گیا وہ ہر منزل میں پاس ہو گیا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قرآن کریم کی درج ذیل آیات سے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قرآن میں عذابِ قبر کا واضح ذکر ہے۔

1: ( الانعام:6 - آيت:93 )
2: ( التوبة:9 - آيت:101 )
3: ( غافر:40 - آيت:45-46 )
4: (ابراهيم:14 - آيت:27)
امام بخاری رحمة اللہ علیہ صحیح بخاری کی کتاب الجنائز کے باب "ما جاء في عذاب القبر (
عذاب قبر
کا بیان)" کے تحت لکھتے ہیں :


1 :

وقوله تعالى ‏{‏اذ الظالمون في غمرات الموت والملائكة باسطو ايديهم اخرجوا انفسكم اليوم تجزون عذاب الهون‏}‏ هو الهوان، والهون الرفق


اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ

کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔
( الانعام:6 - آيت:93 )


یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :

هُونِ کے معنی ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر


مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔

الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

ب : (قبر کا) یہ عذاب بھی گو ذلت و رسوائی کا ہوگا تاہم اشدّ العذاب یا عذابِ عظیم (عذابِ قیامت) کی نسبت بہت ہلکا اور کمزور ہوگا۔

(بحوالہ : روح ، عذابِ قبر اور سماع موتیٰ ، ص:37)

2 :

وقوله جل ذكره ‏{‏سنعذبهم مرتين ثم يردون الى عذاب عظيم‏}

اللہ تعالیٰ نے سورۂ التوبہ میں فرمایا :

سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيم

ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے (یعنی دنیا میں اور قبر میں) پھر بڑے عذاب میں لوٹائے جائیں گے۔
( التوبة:9 - آيت:101 )

صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر


تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے دو بار کے عذاب سے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ ، قتادہ رضی اللہ اور ابن جریج رحمة اللہ اور محمد بن اسحٰق رحمة اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ پہلا عذاب دنیا کا عذاب اور دوسرا قبر کا عذاب ہوگا۔
(بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : التوبة-101)


3 :
اور سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )

صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر


تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کی تشریح کے ذیل میں "عذابِ قبر" سے متعلق کئی مستند احادیث کا ذکر کرنے سے قبل لکھا ہے :

وهذه الآية أصل كبير في استدلال أهل السنة على عذاب البرزخ في القبور

یہ آیت اہل سنت کے اس مذہب کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عالم برزخ میں یعنی قبروں میں عذاب ہوتا ہے۔
(بحوالہ : تفسیر ابن کثیر ، آیت : غافر-46)



4 :


عن البراء بن عازب ۔ رضى الله عنهما ۔ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اذا اقعد المؤمن في قبره اتي، ثم شهد ان لا اله الا الله، وان محمدا رسول الله، فذلك قوله ‏{‏يثبت الله الذين امنوا بالقول الثابت‏}‏ ‏"‏‏.‏ حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة بهذا وزاد ‏{‏يثبت الله الذين امنوا‏}‏ نزلت في عذاب القبر‏.

براء بن عازب نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ تو یہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورۂ ابراھیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔
شعبہ نے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے مزید کہا کہ آیت
يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ (اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے) [ابراهيم:14 - آيت:27]

عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر , حدیث : 1384
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
@lovelyalltime بھائی، بہت ہی لولی (lovely) باتیں کرتے ہیں آپ ماشاءاللہ، ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا آپ کہ والد محترم کے دادا جان اس دنیا میں موجود ہیں ؟، کیا انکی وفات پر کسی نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ دنیا فانی سے رخصت ہو گئے؟ میرے بھائی جب قبر میں موجود انسان کو کوئی دنیا میں موجود نہیں سمجھتا تو اگر اسکی روح اللہ کچھ دیر کے لئے لوٹا دے تو وہ دنیا میں واپس آجاتا ہے؟ سبحان اللہ۔ اوپر بیان کردہ حدیث کو مناظراتی انداز سے ہٹ کر سمجھنے کی کوشش کریں تو بات واضح ہو جائے گی کہ " دنیا میں واپس آنا" اور قبر میں ایک انسان کی روح کو ایک خاص مقصد کے لئے لوٹانے کا کیا مطلب ہے۔

آپ نے جو یہ فرمایا کہ:
"دنیاوی جسم میں روح لوٹائے جانے کی بات ہےاور یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے"

یہ بات اللہ جانے آپ نے حدیث کہ کس حصہ سے اخذ کی ہے، ان لوگوں نے یہ کب کہا کے ہماری روح کو اسی جسم میں لوٹا دے جو قبر میں پڑا ہے، بل
کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا میں واپس لوٹا دے تاکہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل ہو جایئں ، اس ایک جملہ سے دنیا اور قبر کا فرق واضح ہو جاتا ہے، اسی لیئے قبر کو دنیا کی نہیں بلکہ آخرت کی ایک منزل کہا جاتا ہے۔


اوپر درج کردہ حدیث ہی کہ الفاظ ہیں کہ:

"اللہ تعالیٰ نے فرمایا میری طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا کہ دینا چھوڑنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جائے گا"
تو بھائی اگر اس بات کو ویسے ہی مان لیا جائے جیسا آپ سمجھانا چاہ رہے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ "قیامت کے دن پھر اس قانون کی شکنی کیوں کی جائے گی" اس کا جو جواب دیا جائے گا وہی جواب قبر کے سلسلہ میں بھی حتمی ہوگا، کیونکہ قبرکا تعلق دنیا سے نہیں، آخرت سے ہے۔

حدیث پر تھوڑا غور کر لیا جائے تو ایک اور مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے، ان الفاظ پر غور کریں:

" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کے علاوہ ہر شخص سے پردے کے پیچھے سے گفتگو کی لیکن تمہارے والد کو زندہ کر کے ان سے بالمشافہ گفتگو کی اور فرمایا اے میرے بندے تمنا کر۔"

پیارے بھائی زندہ اسی کو کیا جاتا ہے جو مردہ ہو، نئے اجسام کو پیدا یا تخلیق کیا جاتا ہے، اور روح تو مرتی نہیں۔ واللہ اعلم،

اللہ کا قانون یقینا اٹل ہوتا ہے، مگر ہم اس قانون کو ایک آیت یا ایک حدیث سے سمجھنے بیٹھ گئے تو منکرین حدیث کی طرح معجزات اور رفع و نزول عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھی اللہ کے قانون کے خلاف سمجھ کر گمراہ ہو جایئنگے۔ اللہ ہمیشہ ہماری ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائے، آمین۔
محترم -

کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ جس قبر میں مردہ دفن کیا جاتا ہے -وہ کہاں ہوتی ہے کیا اس دنیا میں نہیں ہوتی -

آپ قبر عذاب کو زبردستی ثابت کرنا چاہتے ہیں ضرور کریں

لیکن قرآن میں فرما رہا ہے کہ:

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ -مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ- ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ -
انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے- اس نے کس چیز سے اس کو بنایا- ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا- پھراس پر راستہ آسان کر دیا- پھر اس کو موت دی پھر اس کو قبر دی-

یعنی ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد قبر ملتی ہے - سوال ہے کہ جن کو زمینی گڑھا قبر کی صورت میں نہیں ملتا ان کے بارے میں روح لوٹنے کا عقیدہ آپ کس طرح ثابت کریں گے -؟؟؟ کیوں کہ قرآن تو که رہا ہے کہ ہر انسان کو قبر ملتی ہے -

ہمارے سلفی بھائی زمینی قبر میں ثواب و عذاب کے اس لئے قائل ہے کہ وہ احادیث میں "قبر" کے لفظ سے زمینی گڑھا مراد لیتے ہیں - جب کہ قبرکا اصل مطلب ہے ٹھہرنے کی جگہ - نا کہ زمینی گڑھا- زمینی گڑھے کے لئےلفظ قبر صرف ایک عام اصطلاح کے طور پر استمعال کیا جاتا ہے -

اب دیکھتے ہیں کہ مولانا عبد الرحمان کیانی صاحب عذاب قبر سے متعلق کیا فرماتے ہیں -

اللہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ ( الانعام:6 - آيت:93 )

یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنی ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر

مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

اوپر دیے گئے فتوے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عذاب زمینی قبر میں نہیں بلکہ مرنے کے فورا بعد شروع ہوتا ہے - جب کہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اکثر اوقات تدفین میں کافی دیر ہو جاتی ہے اکثر تو دودو تین تین دن بعد تدفین عمل میں ہے آتی -عزیز و اقارب کا انتظار ہوتا ہے پھر کہیں جا کر مرنے والے کو دفن کیا جاتا ہے - اکثر لاشیں بغیر قبر کے ہسپتالوں اور مختلف جگہوں میں مہینوں پڑی رہتی ہیں نہ ان کا جنازہ پڑھا جاتا ہے نہ تدفین کی جاتی ہے - تو آخر مرنے کے فورا بعد یہ عذاب کہاں ہوتا ہے
ظاہر ہے کہ اس سے مراد زمینی گڑھا نہیں بلکہ وو مقام ہے جہاں مردے کی روح کو ٹہرایا جاتا ہے قیامت تک کے لئے -

دیکھیے - مشہور محقق و مصنف سید سلیمان ندوی عذاب قبر سے متعلق کیا فتویٰ دیتے ہیں -

قرآن مجید کا مفسر اول حدیث شریف ہے،ظاہر ہے کہ حدیث سے زیاد ہ بہتر اوربااعتماد تفسیر کسی آیت شریفہ کی کیاہوسکتی ہے؟آیت مذکورہ کی تفسیر حدیث میں اس طرح کی گئی ہے کہ یہاں سوال وجواب سے برزخ کاسوال وجواب مراد ہے،جس طرح اہل ایمان دنیوی زندگی میں ایمان پر ثابت قدمی سے قائم رہتے تھے اسی طرح برزخ میں بھی اس پر قائم رہیں گے اورجو کفار ومشرکین دنیا میں اس پر قائم نہ تھے وہاں بھی نہ رہ پائیں گے، بلکہ بہک جائیں گے۔ (سیرت النبی4/347) اسی طرح سورہ ٴمومن کی فرعون اورآل فرعون کو برزخ میں آگ پر پیش کیے جانے کے تذکرہ والی آیت شریفہ کی تشریح ہی میں گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مرتا ہے تو صبح وشام اس کااصلی مقام پیش کیا جاتا ہے ،اگروہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے تو جنت او راہل دوزخ میں سے ہوتا ہے تودوزخ،پھر اس سے کہاجاتا ہے کہ یہ تیرامقام ہے اس وقت تک کے لیے کہ جب تو قیامت کے دن اٹھایا جائے۔ “(صحیح مسلم،کتاب الجنة والنار ،ترمذی وبخاری، بحوالہ:سیرت النبی:4/342)
 
Last edited:
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@lovelyalltime

بھائی کاش کہ آپکو صحیح بخاری کے اسی باب میں مندرجہ ذیل حدیث بھی نظر آ جاتی، تو یہ سوال نہ کرتے۔

"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد (ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول (ﷺ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ ﷺ نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد ﷺ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)"

بھائی اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ تقلید عقلوں پر پردے ڈال دیتی ہے، چاہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ہو، یا عثمانی صاحب کی۔

آپ سے اس حدیث کا "جواب" تو درکار نہیں ہے، کیونکہ حدیث رسول خود ہر مسئلہ کا جواب ہے، بشرطے کہ آنکھیں اور دل دونوں ہر قسم کی تقلید سے آزاد ہوں۔ بس ایک گزارش ہے کہ اس حدیث اور جو آپ نے بیان کی، اس میں تطبیق دے دیں آپ، کیونکہ قول رسول باہم متضاد نہیں ہو سکتے۔ تطبیق دیتے ہوئے حدیث کہ ان مقامات پر خاص توجہ مطلوب ہے۔

1۔ ایک قبر میں بیٹھے انسان سے کہا جاتا ہے کہ : تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ اور پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے،

2۔ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے (اسی لئے ایک مسنون دعا میں بھی کہا جاتا ہے کہ "اے اللہ، اس کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے)

3۔ جہنمی کو "لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘" (قبر میں اتنی جگہ کیسے بنی کہ لوہے کہ گوزوں سے مارا جا رہا ہے، اگر جگہ اللہ کہ حکم سے ستر ہاتھ چوڑی کی جا سکتی ہے، تو ستر لاکھ گز بھی کی جا سکتی ہے، اور، اس کے چیخنے کی آواز انسانوں اور جنوں کے سوا سب سنتے ہیں، بھائی اگر آسمانی جنت یا جھنم کا ہی کونسیپٹ ہے تو یہ بات کرنے کا مقصد کیا تھا، وہاں تو نہ انسان ہیں، نہ جن، اور اگر آپ ان سے وہاں موجود انسان مراد لیتے ہیں تو یہ قرآن کے خلاف ہے کیونکہ جنتی اور دوزخی ایک دوسرے کے احوال کو سنتے دیکھتے ہیں، اور بات بھی قبر کے قریب کی چیزوں کی ہو رہی ہے، ایک مطبع سنت کے لیئے ایک فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کافی ہے )

ایک حدیث مزید پیش خدمت ہے، مضمون تقریبا ایک ہی ہے، آپ ایک ساتھ ہی تطبیق دے دیں، شکریہ

"سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ بنو نجار کے باغ میں اپنے خچر پر سوار تھے کہ اچانک آپ ﷺ کا خچر بدکا اور قریب تھا کہ آپ ﷺ کو گرا دے ناگہاں چھ یا پانچ یا چار قبریں معلوم ہوئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان قبر والوں کو کوئی جانتا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں (جانتا ہوں)۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ کب مرے ہیں؟ وہ بولا شرک کے زمانے میں۔ پس آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان ھذہ الامۃ تبتلی فی قبورھا فلولا ان لا تدا فنوا لدعوت اللّٰہ ان یسمعکم من عذاب القبر الذی اسمع منہ
’’یہ اُمت اپنی قبروں میں آزمائی جاتی ہے پس اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا ہی چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی قبر کا عذاب سنادے جس طرح میں سنتا ہوں‘‘۔

اللہ ہمیں گمراہی کے عذاب سے محفوظ رکھے، آمین۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
@محمد علی جواد بھائی السلام علیکم، 3 گزارشات رکھنا چاہونگا بھائی کی خدمت میں،

آپ نے فرمایا:

""لیکن قرآن میں فرما رہا ہے کہ:

مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ -مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ- ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ- ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ -
انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے- اس نے کس چیز سے اس کو بنایا- ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا- پھراس پر راستہ آسان کر دیا- پھر اس کو موت دی پھر اس کو قبر دی-"
آگے مذید "" سوال ہے کہ جن کو زمینی گڑھا قبر کی صورت میں نہیں ملتا ان کے بارے میں روح لوٹنے کا عقیدہ آپ کس طرح ثابت کریں گے ""

بھائی اول تو آپ نے آیت پوری نہی پڑہی، [FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]"[/FONT]ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ (عبس:۲۱،۲۲) (پھر اس (انسان کو) موت دی اور قبر میں پہنچایا۔ پھر جب چاہے گا تو اسے (قبر سے) اٹھا کھڑا کرے گا"
اسی مضمون کی ایک اور آیت ہے:
"نْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی
اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری بار (قیامت کے دن) نکالیں گے۔ (طہ:۵۵)۔"
بھائی اب وہی آپکا والا سوال پیدا ہوتا ہے کہ "یہاں ایک عمومی اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو مرنے کے بعد قبر ملتی ہے" اور" ہر انسان کی قبر مٹی کے اندر ہی ہوتی ہے" اور " قیامت کے دن اسی مٹی میں سے اسے اٹھایا جائیگا" تو۔۔۔ فرعون اس اصول کے مطابق کس مٹی کی قبر سے اٹھے گا؟
بھائی آیت کے الفاظ ہیں کہ "اسی میں ہم تم کو واپس لے جائیں گے" ، یہ نہیں کہا گیا کہ "اسی میں تم کو واپس جانا ہے"، اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کو بھی اس اصول کے مطابق مٹی میں ہونا چاہیئے تھا، اب یا تو یہ آیت کوئی اصول نہیں بلکہ ایک عام معمول بتا رہی ہے کہ مرنے کے بعد اکثر لوگ مٹی میں جاتے ہیں، جب کہ ہندو راکھ بنا کر اڑا دیتے ہیں، یا پھر فرعون اور ہر ایسے انسان کے ساتھ کوئی الگ معاملہ کرتا ہے اللہ جس کا ہمیں علم نہیں،
اگر ان تین باتوں کو دماغ میں بٹھا لیا جائے تو قبر میں عذاب کے عقیدے کو سمجھنا اتنا مشکل نہ ہوگا:
1۔ اللہ ہر کام کرنے پر قادر ہے
2۔ ہمیں جن چیروں پر ایمان لانے کا کہا گیا ہے اس میں ایک "غیب" بھی ہے
3۔اور غیب کی باتیں، جن میں سے "روح" کا وجود بھی ہے، کہ بارہ میں اللہ فرماتا ہے " وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً (اسرائیل-85) (
اور یہ لوگ آپ سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، آپ جواب دے دیجئیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے
)
تو ایک مومن کا تو شیوا ہے کہ اس "کم علم" کے معاملات کو عقلی گھوڑوں سے حل کرنے کے بجائے، ہم نے سنا اور ایمان لائے کہنے والے اصحاب رسول کی سنت پر عمل کیا جائے،

آپ نے مذید فرمایا:

"للہ تعالیٰ نے سورۂ الانعام میں فرمایا :

وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ
کاش تم ان ظالموں کو اس وقت دیکھو جب موت کی سختیوں میں مبتلا ہوں اور فرشتے ان کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہوں کہ نکالو اپنی جانیں ، آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی۔ ( الانعام:6 - آيت:93 )

یہ آیت درج کرنے کے بعد امام بخاری لکھتے ہیں :
هُونِ کے معنی ھوان یعنی ذلت و رسوائی ہے اور هَون کے معنی نرمی اور ملائمت ہے۔
صحيح بخاري , كتاب الجنائز , باب : باب ما جاء في عذاب القبر

مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
امام بخاری نے اس آیت کی جو شرح کی ہے ، اس سے دو باتوں کا پتا چلتا ہے۔
الف : عذاب ( و ثوابِ) قبر مرنے کے وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جیسا کہ آیت میں لفظ "الْيَوْمَ" سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔""

اس بات پرابھی میں زیادہ نہیں کہونگا، بس ایک حدیث بیان کرونگا:
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا:
’’جب میت کو چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے اور مرد اس کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ میت نیک ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ مجھے آگے لے چلو اور اگر وہ نیک نہیں ہوتی تو اپنے گھر والوں سے کہتی ہے کہ ہائے بربادی مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس میت کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے اور اگر کوئی انسان سن لے تو بے ہوش ہو جائے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قول المیت و ھو علی الجنازۃ، باب کلام المیت علی الجنازۃ۔ مسند احمد۳/۴۱، ۸۵)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’جب نیک آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’مجھے آگے لے چلو، مجھے آگے لے چلو‘‘۔ اور جب برے آدمی کو اس کی چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے ’’ہائے بربادی و افسوس مجھے تم کہاں لے جارہے ہو‘‘۔ (سنن النسائی کتاب الجنائز باب السرعۃ بالجنازۃ، صحیح ابن حبان ۷۶۴، مسند احمد ۲/۲۹۲، ۵۰۰)۔

آگے آپ خود سمجھدار ہیں، باقی کیلانی صاحب کی کتاب میں "برزخی قبر اور جسم" پر بحث ضرور پڑہیئے گا، جزاک اللہ۔
 
Top