• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کا عقیدہ کہ ان زمینی قبروں میں عذاب قبر نہیں ہوتا۔

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اﷲَ أَنْ يُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ۔
  1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النّار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 : 2200، رقم : 2868
  2. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر، 4 : 102، رقم : 2058
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر (مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ) تم (اپنے مردے) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر (کی آوازیں) سنوا دے۔‘‘

اس حدیث کے بعد بھی اگر کوئی گنجائش رہ جاتی ہے تو بتائیں، شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
میرے بھائی یہ جو روایت آپ نے پیش کی ہے کہ " نبی صلی الله علیہ وسلم ایک جنازہ پر سے گزرے۔۔ الخ" اس کا جواب تو پچھلے پیغام میں دے چکا ہوں میں، اگر فرست ملے تو ضرور پڑہیئے گا، اور اگر کوئی اشکال ہو تو اس پر بات کی جا سکتی ہے،

باقی رہی یہ بات کہ:

""
اہل سلف بشمول حضرت عائشہ رضی الله عنہ مردہ کی سماع موتہ کی قائل نہیں تھیں - اور مقتولین بدر کے نبی کریم کے خطاب سننے کے معاملے میں جب صحابہ کرام کو مغالطہ ہوا تو انہوں نے ہی سوره فاطر کی آیات وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ پیش کر کے یہ معاملہ صاف کردیا کہ مردے نہیں سنتے اور نہ ہی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم مردوں کو سنا سکتے ہیں""

بھائی مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو سماع موتی کا مسئلہ سمجھنے میں کوئی مغالطہ لگا ہے، نا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو۔ میں نے اکثر سیکھا ہے فورم پر کہ سورۃ الفاطر کی اس آیت کو ہمیشہ ادھورا بیان کیا جاتا ہے، اور پوری آیت پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ پوری آیت پیش خدمت ہے:

وَمَا يَسۡتَوِى ٱلۡأَحۡيَآءُ وَلَا ٱلۡأَمۡوَٲتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسۡمِعُ مَن يَشَآءُۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسۡمِعٍ۬ مَّن فِى ٱلۡقُبُورِ

اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔

میرے بھائی اس آیت کا یہ حصہ کہ "الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے"، یہی اصل بنیاد ہے اس عقیدہ کی کہ انسان، چاہے نبی ہی کیوں نہ ہو، خود سے قبروں میں مدفون لوگوں کو کچھ نہیں سنا سکتا، ہاں اگر اللہ چاھے تو کچھ بھی سنوا سکتا ہے، اس کی مثال ایسے لیجیئے کہ مردہ کو زندہ صرف اللہ کر سکتا ہے، مگر ایک نبی (عیسی علیہ السلام) اگر زندہ کرتا ہے تو اللہ کے چاھنے کے سبب، اس کے اذن سے، اور یہ فعل نہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے، نہ عقل صحیح کے،

اس لیئے جیسے اگر آپ کے بقول صحابہ کرام کو کسی مسئلہ میں غلطی لگ سکی ہے، تو ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالہ عنہا کو بھی لگ سکتی ہے، اور اسی لیئے قرآن میں آپس کے اختلاف کے وقت سب سے پہلے صحابہ کرام کو ہی مخاطب کر کہ فرمایا:

"يا ايّہا الّذينء امنوا اطيعوا اللّہ و اطيعوا الرّسول و اولي الامرمنکم فان تنٰازعتم في شي ئٍ فرُدّوہ الي اللّہ و الرّسول ان کنتم تومنون باللّہ و اليوم الاٰخر ذلک خير واحسن تاويلا"
"
محترم -

پہلی بات تو یہ کہ اماں عائشہ رضی الله عنہ نے صحابہ کرام کے سماع موتہ کے مغالطے کو دور کرنے کے لئے سوره فاطر کی آیت کے آخری الفاظ ہی پیش کیے -اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس موقعے پر کسی صحابی نے حضرت عائشہ رضی الله عنہ کی سماع موتہ کی تفسیر سے اختلاف نہیں کیا - جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا اجتہاد بلکل صحیح اور عین قران کی آیات کے حکم کے مطابق تھا کہ مردہ نہیں سنتا -

دوسری بات جو آپ نے کہی کہ پوری آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ

"الله جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے"، یہی اصل بنیاد ہے اس عقیدہ کی کہ انسان، چاہے نبی ہی کیوں نہ ہو، خود سے قبروں میں مدفون لوگوں کو کچھ نہیں سنا سکتا، ہاں اگر اللہ چاھے تو کچھ بھی سنوا سکتا ہے، اس کی مثال ایسے لیجیئے کہ مردہ کو زندہ صرف اللہ کر سکتا ہے، مگر ایک نبی (عیسی علیہ السلام) اگر زندہ کرتا ہے تو اللہ کے چاھنے کے سبب، اس کے اذن سے، اور یہ فعل نہ اللہ کے قانون کے خلاف ہے، نہ عقل صحیح کے،

تو اس بات میں کوئی شک نہیں -لیکن محترم یہ ایک استثنائی صورت کا بیان ہے جو ایک معجزے کے وقت ہی پیدا ہوتی ہے اور اس صورت کو عموم پر محمول نہیں کیا جا سکتا - یعنی اگر ہم بالفرض محال یہ مان بھی لیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا اجتہاد صحیح نہیں تھا اور وہ غلطی پر تھیں تو بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہ جا سکتا ہے کہ مقتولین بدر کا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا خطاب سننا صرف ایک معجزے کے تحت تھا اور چوں کہ نبی کریم کی وفات کے بعد اب نبوت ختم ہو چکی تو اب معجزے کی یہ استثنائی صورتیں بھی باقی نہیں رہیں - یعنی اب کوئی یہ دعوا نہیں کرسکتا کہ مجھے الله نے یہ معجزہ عطا کیا ہے کہ میں مردوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں الله کے ازن سے سنوا سکتا ہوں -

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سوره فاطر کی اس آیت میں الله نے صرف اپنی قدرت کو بیان کیا ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے چاہے تو ایک مردہ انسان کو کسی نبی کی آواز سنوا دے -چاہے تو آگ کو حضرت ابراہیم علیہ سلام کے لئے گلزار کردے (جب کہ آگ کا کام جلانا ہے- اب اگر کوئی کہے کہ جب الله ہرچیز پر قادر ہے تو آج کل بھی کسی انسان کے لئے آگ گلزار بن سکتی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل قبول سمجھی جائے گی؟؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں- باوجود اس کے کہ اللہ اس پر قادر ہے لیکن یہ الله کی سنّت نہیں - اسی طرح یہ بھی الله کی سنّت نہیں کہ ہر وقت ہر لمحہ ہر مردہ انسان کو جب وہ فوت ہو اس کو سنوانا شروع کردے یہ اس کے اصولوں کے خلاف ہے - )

سماع موتہ سے متعلق یہی وہ گمراہ کن عقائد ہیں کہ جن کی بنا پر لوگوں میں شرک تیزی سے پھیل رہا ہے -

الله ہم سب کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین )-
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اﷲَ أَنْ يُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ۔
  1. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب عرض مقعد الميت من الجنة أو النّار عليه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 : 2200، رقم : 2868
  2. نسائي، السنن، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر، 4 : 102، رقم : 2058
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر (مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ) تم (اپنے مردے) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذاب قبر (کی آوازیں) سنوا دے۔‘‘

اس حدیث کے بعد بھی اگر کوئی گنجائش رہ جاتی ہے تو بتائیں، شکریہ



کیا کہیں گے آپ یہاں


سورۂ مومن (غافر) میں فرمایا :

وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَاب
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَاب

فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور قیامت کے دن تو فرعون والوں کے لئے کہا جائے گا ان کو سخت عذاب میں لے جاؤ۔
( غافر:40 - آيت:45-46 )



قرآن کی اس آیت کے مطابق فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا ، صبح اور شام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں- وہ عذاب کہاں ہو رہا ہے - کیا یہ عذاب فرعون والوں کو زمینی قبر میں ہو رہا ہے یا کہیں اور - اور یہ بھی بتا دیں کہ فرعون والوں کی قبر کہاں ہے -


کیوں کہ قبر ہر انسان کو دی جاتی ہے ۔

قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَكْفَرَهُ۔ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ۔ مِن نُّطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ۔ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ۔ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ۔ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ


انسان پر اللہ کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے۔ کس چیز سے اللہ نے اس کو بنایا؟ نطفہ کی ایک بوند سے اللہ نے اسے پیدا کیا ، پھر اس کی تقدیر مقرر کی، پھر اسکے لئے زندگی کی راہ آسان کی، پھر اسے موت دی اور قبر عطا فرمائی، پھر جب اسے چاہے گا زندہ کرے گا۔

سورة عبس آیات ۱۷ تا ۲۲

ترجمہ کی غلطی ہو تو اصلاح کر دیں


شکریہ
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
بھائی عجیب بات ہے، میں وہ بتا رہا ہوں جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ وہ بتا رہے ہیں جو حضرت اماں عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، حدیث کو قرآن کے خلاف کہ کر فوراَ رد کرنے کے لئے تیار ہیں لوگ، مگر ایک صحابی کا قول، قول رسول کے خلاف کہ کر رد کرنے میں صرف اس لیئے دقت محسوس ہو رہی ہے کیونکہ وہ قول اپنے موقف کے مطابق نظر آ رہا ہے، کیا انصاف اسی کا نام ہے؟

@محمد علی جواد بھائی در اصل آپ میری بات سمجھے نہیں، میں نے پورے پیغام میں ایک جگہ بھی یہ نہیں کہا جو آپ نے مجھ سے منسوب کر دیا ہے: آپ نے فرمایا:

" یعنی اب کوئی یہ دعوا نہیں کرسکتا کہ مجھے الله نے یہ معجزہ عطا کیا ہے کہ میں مردوں کو جو قبروں میں مدفون ہیں الله کے ازن سے سنوا سکتا ہوں"

بھائی میں کسی کے معجزہ یا دعوہ کرنے کی بات تو کر ہی نہیں رہا، میں نے عرض کی ہے کہ اللہ اس فعل پر قادر ہے، اور اللہ نے ہمیں جیسے دوسرے معجزات کے بارہ میں خبر دی ہے، ویسے ہی اپنے اس فعل کی بھی خبر دی ہے کہ مردوں کو میں سنواتا ہوں، فرشتوں کے سوال، واپس جانے والوں کی جوتیوں کی آواز، وغیرہ۔ میں نے تو کہا ہی نہیں کہ کوئی انسان خود مردوں کو جو قبروں میں ہے اللہ کے اذن سے سناتا ہے۔ اس فرق کو ملحوض خاطر رکھیں۔ کسی نے بھی مردوں کے قبر میں چند مخصوص باتیں سننے کو کسی انسان کا معجزہ نہیں کہا، اس کو اللہ کی قدرت کہا ہے، بالکل ویسے ہی، جیسے وہ قیامت کے روز اپنی قدرت سے سب انسانوں کو زندہ کر کہ جمع کریگا۔
آخر میں کہنا چاہونگا کہ:
"سماع موتہ سے متعلق یہی وہ تطبیق ہے قرآن و حدیث میں جس کے بعد کسی عیسائی یا یہودی کا یہ اعتراض باقی نہیں رہتا کہ قرآنی آیات میں باہمی، اور قرآن و صحیح حدیث رسول میں اختلاف ہے، یہی وہ مفہوم ہے جو کھلے اور "چھپے" دونوں قسم کے منکرین حدیث کے اعتراضات کو دفع کرتا ہے، اور یہی وہ مفہوم ہے جس کی بنا پر لوگوں میں موجود شرکیہ سماع موتی کے عقیدے کی نفی ہوتی ہے، اور سلف صالحین کو قرآنی بصیرت نے کورا سمجھنے کی جدید جاہلانہ سوچ کا بھی رد ہوتا ہے۔
 
Top