• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نجاست اور پاکی

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
منی اور مذی میں سے جنس کون سی شئے ہے اور پاک کون سی؟
منی کے نکلنے تو غسل فرض ہوجاتا ہے؟ جبکہ مذی کے نکلنے سے صرف وضو فرض ہوتا ہے ؟
سوال یہ ہے کہ کپڑے پر منی لگی ہو تو کیا کپڑا ناپاک ہوجائے گا؟ یہی سوال مذی کے لئے بھی ہے؟

اسی طرح مشرکین اور کفار کو نجس قرار دیا گیا ہے۔ تو کیا مشرکین اور کفار کے (خشک یا گیلے) جسم سے مسلمان کا جسم مس ہونے سے مسلمان کے جسم میں نجاست منتقل ہوجائے گی، جسے پاک کرنا لازم ہوگا؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
منی اور مذی میں سے نجس کون سی شئے ہے اور پاک کون سی؟
مذی کی نجاست متفق علیہ ہے جبکہ منی کے بارے اختلاف ہے کہ نجس ہے یا نہیں؟ اس بارے میرا خیال یہی ہے کہ راجح موقف یہ ہے کہ یہ بھی نجس ہے اور جن روایات میں منی کھرچنے کا ذکر ہے تو ان سے مراد یہ ہے کہ اس نجاست کے ازالہ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کو کھرچ دیا جائے جیسا کہ مذی کی نجاست متفق علیہ ہے لیکن اس کے ازالہ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس پر پانی کے چھینٹے مار دیے جائیں۔

منی کے نکلنے تو غسل فرض ہوجاتا ہے؟ جبکہ مذی کے نکلنے سے صرف وضو فرض ہوتا ہے ؟
جی ہاں ایسا ہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کپڑے پر منی لگی ہو تو کیا کپڑا ناپاک ہوجائے گا؟ یہی سوال مذی کے لئے بھی ہے؟
جی ہاں دونوں صورتوں میں کپڑا ناپاک ہو جائے گا لیکن اس نجاست کے ازالہ کے کئی طریقے حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ پانی سے دھو لیا جائے اور منی کے بارے دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے خشک ہونے پر اسے کھرچ لیا جائے اور مذی کے بارے یہ بھی ملتا ہے کہ اس پر پانی کے چھینٹے مار لیے جائیں۔

اسی طرح مشرکین اور کفار کو نجس قرار دیا گیا ہے۔ تو کیا مشرکین اور کفار کے (خشک یا گیلے) جسم سے مسلمان کا جسم مس ہونے سے مسلمان کے جسم میں نجاست منتقل ہوجائے گی، جسے پاک کرنا لازم ہوگا؟
کفار اور مشرکین کی نجاست ان کے عقیدے کی نجاست ہے یعنی معنوی نجاست مراد ہے اور ان کے ساتھ ہاتھ مس ہونے کی صورت میں اس کا ناپاک ہونا ثابت نہیں ہے۔

شیخ صالح المنجد ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :
سوال : بعض اوقات گاڑھا اور غليظ پانى خارج ہوتا ہے، چنانچہ ميں منى جس كى بنا پر غسل واجب ہوتا ہے، اور جسے فقہاء ودى كا نام ديتے ہيں ميں كيسے فرق كروں ؟

الحمد للہ:

ودى اس گاڑھے اور سفيد پانى كا نام ہے جو پيشاب كے بعد خارج ہوتا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى منى، مذى اور ودى ميں فرق كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" منى اور مذى ميں فرق يہ ہے كہ: منى گاڑھى اور غليظ اور بدبودار ہوتى ہے، اور شہوت شديد ہو جانے كى صورت ميں اچھل كر نكلتى ہے.

ليكن مذى پتلى اور رقيق ہوتى ہے، جس كى بدبو نہيں ہوتى، اور نہ ہى اچھل كر نكلتى ہے، اور نہ ہى شديد شہوت كے وقت نكلتى ہے، بلكہ شہوت كے نرم پڑ جانے كے وقت نكلتى ہے، اور جب شہوت نرم پڑ جائے تو انسان كو پتہ چل جاتا ہے.

ليكن ودى جسے عام طور پر دھات يا قطرے كہا جاتا ہے، اور پيشاب كے بعد آنے والے سفيد نقطوں كا نام ہے.

يہ تو ان تين اشياء كى ماہيت كے متعلق تھا.

ان اشياء كے احكام يہ ہيں:

ودى ہر اعتبار سے پيشاب كے حكم ميں آتى ہے.

اور طہارت ميں مذى بعض چيز ميں پيشاب سے مختلف ہے، كيونكہ اس كى نجاست پيشاب سے كم ہے، چنانچہ اس ميں پانى كے چھينٹے مارنا ہى كافى ہونگے، وہ اس طرح كہ جہاں مذى لگے وہاں بغير كھرچے اور نچوڑے پانى سے دھويا جائے، اور اسى طرح اس ميں عضو تناسل اور خصيتين دھونا واجب ہيں چاہے وہ انہيں نہ بھى لگى ہو.

ليكن منى طاہر ہے، اس دھونا لازم نہيں ليكن صرف اس كے اثرات زائل كرنے كے ليے دھونا ہوگا، اور منى نكلنے سے غسل واجب ہو جاتا ہے، ليكن مذى اور ودى پيشاب كى طرح ہے، اس سے وضوء كرنا ضرورى ہے. اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 169 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,552
پوائنٹ
641
شیخ صالح المنجد فرماتے ہیں :

سوال : بعض اوقات جب ميں صبح نيند سے بيدار ہوتا ہوں تو اپنے زيرجامہ لباس گيلا محسوس كرتا ہو، گزارش ہے كہ آپ اس معاملہ كو نہ ديكھيں كہ يہ دوران نيند احتلام ہے، يا پھر غير ارادى طور پر رات كو نيند ميں پيشاب نكل گيا ہوگا.
كيونكہ مذى يا ليس دار مادہ عام طور پردوسرے دن نيند سے بيدار ہونے پر نكلتا ہے، اور اكثر طور پر اس وجہ سے ميں اپنا زيرجامہ لباس اور سلوار دھوتا ہوں، ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا تھا كہ اگر يہ مادہ منى كے جرثوموں پر مشتمل نہ ہو بلكہ صرف مذى ہو تو پھر غسل كرنا واجب نہيں، بلكہ صرف نماز والا وضوء كرنا ہى كافى ہے.
اگر تو معاملہ ايسے ہى ہے تو ہميں لباس كا كيا كرنا ہوگا ؟
ميں نے محسوس كيا ہے كہ مذى ان حالات ميں بھى خارج ہوتى رہتى ہے جن ميں خارج ہونے كے عوامل نہيں ہوتے.

الحمد للہ:

پہلا فرق:

منى اور مذى كى صفات ميں فرق:

مرد كا مادہ منويہ گاڑھا اور سفيد ہوتا ہے، ليكن عورت كى منى پتلى اور زرد رنگ كى ہوتى ہے.

اس كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مرد كى عورت كا خواب ميں ديكھنے كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت ايسا خواب ميں ديكھے تو وہ غسل كرے "

ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: ـ مجھے اس سے شرم آ گئى ـ اور ميں نے عرض كيا كيا ايسا ہوتا ہے ؟

تو رسو ل كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو پھر مشابہت كس طرح ہوتى ہے ؟ بلا شبہ مرد كا مادہ گاڑھا اور سفيد، اور عورت كا مادہ پتلا اور زرد ہوتا ہے، دونوں ميں سے جو بھى اوپر ہو جائے، يا سبقت لے جائے اس كى مشابہت ہو جاتى ہے "

متفق عليہ، صحيح مسلم حديث نمبر ( 469 ).

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم:

" مرد كا مادہ منويہ گاڑھا سفيد ہوتا ہے، اور عورت كا پانى پتلا زرد ہوتا ہے "

يہ منى كى صفت كے بيان ميں عظيم دليل ہے، تندرستى اور عام حالات ميں منى كى حالت اور صفت يہى ہے.

علماء كرام كا كہنا ہے: تندرستى اور صحت كى حالت ميں مرد كى منى گاڑھى سفيد ہوتى ہے اور اچھل اچھل كر خارج ہوتى ہے، اور اس كے خارج ہوتے وقت لذت آتى ہے، اور جب منى خارج ہو چكے تو خارج ہونے كے بعد فتور اور ٹھراؤ پيدا ہوتا اور اس كى بو تقريبا كھجور كے شگوفہ اور گوندھے ہوئے آٹے كى بو كى طرح ہوتى ہے...

( بعض اوقات كسى سبب كے باعث منى كى رنگت تبديل ہو جاتى ہے مثلا ) بيمار ہو تو اس كى پانى پتلى زرد ہو گى، يا پھر منى والى جگہ ميں استرخاء( يعنى ڈھيلا پن ) پيدا ہو جائے تو بغير لذت اور شہوت ہى خارج ہونا شروع ہو جاتى ہے، يا پھر جماع كثرت سے كيا جائے تو منى سرخ ہو كر گوشت كے پانى كى طرح ہو جاتى ہے، اور بعض اوقات تو تازہ خون ہى خارج ہوتا ہے...

پھر منى كے تين خواص ہيں جو منى بااعتماد شمار ہوتے ہيں:

پہلا خاصہ: شہوت سے خارج ہونا، اور بعد ميں فتور پيدا ہو جانا.

دوسرا خاصہ: اس كى بو كھجور كے شگوفہ كى طرح ہوتى ہے جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے.

تيسرا خاصہ: اچھل كر خارج ہونا.

ان تين خواص ميں سے كسى ايك خاصہ كا پايا جانا منى ہونے كے ليے كافى ہے، تينوں كا بيك وقت پايا جانا شرط نہيں، اور اگر ان تينوں ميں سے كوئى بھى نہ ہو تو پھر وہ منى نہيں ہو گى، اور ظن غالب كا ہونا بھى منى كے ثبوت كے ليے كافى نہيں، يہ سب تو مرد كى منى كے متعلقہ ہے.

رہا عورت كى منى كا مسئلہ تو وہ پتلى زرد ہوتى ہے، اور بعض اوقات اس كى قوت و طاقت بڑھ جانے كى بنا پر سفيد بھى ہو جاتى ہے، اس كے دو خاصے ہيں، اگر ان ميں سے كوئى ايك بھى ہو تو وہ منى شمار ہو گى:

پہلا: اس كى بو مرد كى منى جيسى ہو.

دوسرا: خارج ہوتے وقت لذت آئے، اور بعد ميں فتور پيدا ہو. اھـ

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 222 ).

اور مذى سفيد رنگ كا ليس دار پانى ہوتا ہے، جو جماع كى سوچ يا اردہ كے وقت خارج ہوتا ہے، اس كے خارج ہونے ميں نہ تو شہوت ہوتى ہے، اور نہ ہى اچھل كر خارج ہوتا ہے، اور نہ ہى نكلنے كے بعد فتور پيدا ہوتا ہے، يعنى جسم ڈھيلا نہيں پڑتا.

اور مرد و عورت دونوں سے ہى مذى خارج ہوتى ہے، ليكن مردوں كى بنسبت عورتوں ميں زيادہ ہے.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 213 ).

دوسرا فرق:

اگر يہ خارج ہو تو اس پر كيا حكم لاگو ہوتا ہے:

منى خارج ہونے سے غسل جنابت فرض ہوتا ہے، چاہے يہ بيدارى كى حالت ميں جماع كرنے سے خارج ہو يا پھر كسى اور طريقہ سے، يا پھر نيند ميں احتلام كے ساتھ خارج ہو.

اور مذى خارج ہونے سے صرف وضوء ہى كرنا ہو گا، اس كى دليل على رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے، وہ بيان كرتے ہيں:

" مجھے مذى بہت زيادہ آتى تھى چنانچہ ميں نے مقداد رضى اللہ تعالى عنہ كو كہا كہ وہ اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كريں، انہوں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے پوچھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس ميں وضوء ہے "

متفق عليہ، يہ الفاظ بخارى شريف كے ہيں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى مغنى ميں كہتے ہيں:

ابن منذر كا كہنا ہے: اہل علم كا اجماع ہے كہ مرد و عورت كى دبر سے پاخانہ اور عضو تناسل اور قبل سے پيشاب خارج ہونے، اور دونوں كى مذى يا ہوا خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 168 ).

تيسرا فرق:

ان كى طہارت اور نجاست كے اعتبار سے فرق:

علماء كرام كے راجح قول كے مطابق منى طاہر ہے، اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منى دھو كر اسى لباس ميں نماز ادا كرنے چلے جاتے، اور مجھے اس ميں دھونے كے آثار نظر آ رہے ہوتے تھے "

متفق عليہ.

اور مسلم شريف كى روايت ميں ہے:

" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے لباس سے منى كھرچ ديا كرتى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں نماز ادا كرتے تھے "

اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

" ميں اپنے ناخن كے ساتھ ان كے لباس سے خشك منى كو كھرچ ديا كرتى تھى "

بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ آپ تازہ منى كو بھى نہيں دھوتے تھے بلكہ اسے كسى لكڑى وغيرہ كے ساتھ پونچھ ديتے، جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے مسند احمد ( 6 / 243 ) ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے، وہ بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے كپڑوں سے اذخر كے تنكوں كے ساتھ منى كو پونچھ ديا كرتے تھے، اور پھر اسى لباس ميں نماز ادا كرتے، اور اپنے كپڑوں سے خشك منى كو كھرچ كے نماز ادا كرتے تھے "

اسے صحيح ابن خزيمہ ميں روايت كيا گيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 1 / 197 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور مذى نجس ہے، اس كى دليل مندرجہ بالا حديث ہے، جس كے بعض طرق ميں بيان ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذى كى بنا پر عضو تناسل اور خصيتين كو دھو كر وضوء كرنے كا حكم ديا.

اسے ابو عوانہ نے مسخرج ابو عوانہ ميں روايت كيا ہے، اور ابن حجر التلخيص ميں كہتے ہيں:

اس سند ميں كوئى طعن نہيں، چنانچہ يہ نجس ہے، اس كى بنا پر عضو تناسل اور خصيتين دھونا واجب ہيں، اور اس كى بنا پر وضوء ٹوٹ جاتا ہے.

منى اور مذى لگے ہوئے لباس كا حكم:

منى كے طاہر ہونے كے قول كے مطابق اگر منى كپڑے كو لگ جائے تو وہ نجس نہيں ہوگا، اور اگر اس طرح انسان نماز ادا كر لے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 763 ).

اور اگر ہم اسے طاہر كہيں تو اس كا كھرچنا مستحب ہے، اور اگر كسى نے بغير كھرچے نماز ادا كر لى تو بھى كافى ہے.

ليكن مذى ميں پانى چھڑكنا كافى ہے، كيونكہ اس ميں مشقت ہے، اس كى دليل سنن ابو داود كى درج ذيل حديث ہے:

سھل بن حنيف رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:

مجھے بہت زيادہ مذى آتى اور ميں كثرت سے غسل كيا كرتا تھا، چنانچہ ميں نے اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آپ كو اس سے وضوء كرنا كافى ہے "

ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے لباس ميں جہاں لگى ہوئى ہو اسے كيا كروں؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" آپ كے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ چلو بھر پانى لے كر جہاں لگى ہو اس پر چھڑك دو "

اور اسے امام ترمذى رحمہ اللہ اسے روايت كرنے كے بعد كہتے ہيں: يہ حديث حسن صحيح ہے، اور مذى ميں اس طرح كى حديث محمد بن اسحاق كے علاوہ ہميں كسى اور سے اس كا علم نہيں. اھـ

تحفۃ الاحوذى ميں ہے:

اس سے يہ ستدلال كيا جاتا ہے كہ اگر كپڑے كو مذى لگ جائے تو اس پر پانى چھڑكنا كافى ہے، اور دھونا واجب نہيں.

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 1 / 373 ).
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
Top