• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نجومی کے پاس جانے اور اس کی بات پر یقین کرنے کی سزا!

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800


نبی کریمﷺ نے فرمایا:
من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة ۔۔۔ مسلم
''جو شخص کسی کاہن (نجومی) کے پاس آیا اور اس سے کوئی بات پوچھی تو اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔''

یہ تو صرف کاہن کے پاس جانے کی سزا ہے۔ البتہ جو اسے عالم الغیب سمجھے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے ان پر ایمان لائے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔

نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ۔۔۔ أبو داؤد
کہ جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر دے تو نبی کریمﷺ پر اترنے والے دین (قرآن وسنت) کا منکر ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
85
[QUO
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ۔۔۔ أبو داؤد
کہ جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر دے تو نبی کریمﷺ پر اترنے والے دین (قرآن وسنت) کا منکر ہے۔
[/QUOTE]
اس حدیث کی ریفرنس دیں
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم @محمد عامر یونس صاحب
السلام علیکم
کیا نجومی کی پیشن گوئیوں کا پڑھنا بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ جیسے بہت سے لوگ اپنے اسٹار کا حال مختلف اخباروں یا آج کل آن لائن پڑھتے ہیں؟

دوسری بات یہ کیا کچھ آسڑولوجسٹ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا اندازہ ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے تو کیا ان کے اندازوں پر اس طرح یقین رکھنا کہ یہ ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔
جس طرح اللہ رب العزت نے بارش کو علم غیب کہا ہے لیکن موسمیات والے بارش ہونے یا نہ ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ مواصلاتی سیاروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح چاند گرہن اور سورج گرہن کے بارے میں بھی بتلایا جاتا ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی نجومی ستاروں کی حرکت سے کوئی نتیجہ اخذ کرے تو کیا اس پر موسمیات والا قیاس کیا جاسکتا ہے ۔
علم الاعداد اور پامسٹری کو بھی آپ اسی حدیث کے تحت لائے ہیں جب کہ یہ دونوں تو بالکل الگ علم ہیں ۔
ایک اور بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کاہن ہوتے تھے جو جنوں سے خبریں لیکر اس میں کچھ اپنے پاس سے ملا کر باتیں بیان کر تے تھے۔ اب اس طرح کے نجومیوں کا تو کوئی وجود نہیں رہا پھر اس حدیث کے تحت آج کل کے نجومی کیسے آسکتے ہیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
محترم @محمد عامر یونس صاحب
السلام علیکم
کیا نجومی کی پیشن گوئیوں کا پڑھنا بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ جیسے بہت سے لوگ اپنے اسٹار کا حال مختلف اخباروں یا آج کل آن لائن پڑھتے ہیں؟

دوسری بات یہ کیا کچھ آسڑولوجسٹ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا اندازہ ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے تو کیا ان کے اندازوں پر اس طرح یقین رکھنا کہ یہ ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔
جس طرح اللہ رب العزت نے بارش کو علم غیب کہا ہے لیکن موسمیات والے بارش ہونے یا نہ ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ مواصلاتی سیاروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح چاند گرہن اور سورج گرہن کے بارے میں بھی بتلایا جاتا ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی نجومی ستاروں کی حرکت سے کوئی نتیجہ اخذ کرے تو کیا اس پر موسمیات والا قیاس کیا جاسکتا ہے ۔
علم الاعداد اور پامسٹری کو بھی آپ اسی حدیث کے تحت لائے ہیں جب کہ یہ دونوں تو بالکل الگ علم ہیں ۔
ایک اور بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کاہن ہوتے تھے جو جنوں سے خبریں لیکر اس میں کچھ اپنے پاس سے ملا کر باتیں بیان کر تے تھے۔ اب اس طرح کے نجومیوں کا تو کوئی وجود نہیں رہا پھر اس حدیث کے تحت آج کل کے نجومی کیسے آسکتے ہیں ۔

@خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ۔۔۔ أبو داؤد
کہ جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر دے تو نبی کریمﷺ پر اترنے والے دین (قرآن وسنت) کا منکر ہے۔
اس حدیث کی ریفرنس دیں
سنن الترمذي ،كتاب الطهارة ، باب ما جاء في كراهية إتيان الحائض
https://archive.org/details/FP154293/page/n38

سنن ابی داود ،کتاب الطب ،باب فی الکاہن
https://archive.org/stream/SunanAbuDawood/Abi_Dawud04#page/n338/mode/2up
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم
کیا نجومی کی پیشن گوئیوں کا پڑھنا بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ جیسے بہت سے لوگ اپنے اسٹار کا حال مختلف اخباروں یا آج کل آن لائن پڑھتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دیکھئے حدیث شریف میں ہے کہ :
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ۔۔۔ أبو داؤد ،سنن الترمذی
کہ جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر دے تو نبی کریمﷺ پر اترنے والے دین (قرآن وسنت) کا منکر ہے۔"
کاہن کی بات کی جو بھی تصدیق کرے یعنی اسے سچا سمجھے ،اس پر یقین کرے وہ اس حدیث میں موجود حکم کی زد میں آئے گا ،خواہ وہ کاہن کے پاس جاکر ایسا کرے یا اخبار وغیرہ میں کاہن کی تحریر پڑھ کر اسے سچا مانے ،اس کا یہ عمل کفریہ ہی ہوگا ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم @محمد عامر یونس صاحب
السلام علیکم
کیا نجومی کی پیشن گوئیوں کا پڑھنا بھی اسی زمرے میں آئے گا۔ جیسے بہت سے لوگ اپنے اسٹار کا حال مختلف اخباروں یا آج کل آن لائن پڑھتے ہیں؟
دوسری بات یہ کیا کچھ آسڑولوجسٹ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا اندازہ ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے تو کیا ان کے اندازوں پر اس طرح یقین رکھنا کہ یہ ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔
جس طرح اللہ رب العزت نے بارش کو علم غیب کہا ہے لیکن موسمیات والے بارش ہونے یا نہ ہونے کا امکان ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وہ مواصلاتی سیاروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اسی طرح چاند گرہن اور سورج گرہن کے بارے میں بھی بتلایا جاتا ہے ۔
اسی طرح اگر کوئی نجومی ستاروں کی حرکت سے کوئی نتیجہ اخذ کرے تو کیا اس پر موسمیات والا قیاس کیا جاسکتا ہے ۔
علم الاعداد اور پامسٹری کو بھی آپ اسی حدیث کے تحت لائے ہیں جب کہ یہ دونوں تو بالکل الگ علم ہیں ۔
ایک اور بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کاہن ہوتے تھے جو جنوں سے خبریں لیکر اس میں کچھ اپنے پاس سے ملا کر باتیں بیان کر تے تھے۔ اب اس طرح کے نجومیوں کا تو کوئی وجود نہیں رہا پھر اس حدیث کے تحت آج کل کے نجومی کیسے آسکتے ہیں ۔
ایسی چیزوں کے حوالے سے ایک اصول ہے: جو چیزیں اسباب و ذرائع کے تحت آتی ہوں، تو اس میں کوئی اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کوئی رائے یا خبر دے، تو وہ درست ہے۔
وہ چیزیں جو مافوق الاسباب ہوتی ہیں، ان میں انسانوں کی خبر کا بھی کوئی اعتماد نہیں، اور ایسے کاموں میں دلچسپی ورغبت رکھنا بھی گناہ ہے۔
واللہ اعلم۔
 
Top