• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نحوی قواعد کا قرآن سے انحرف اور اس کے اَسباب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) قرآنی فواصل کی رعایت نہ کرنا
قرآن کریم کی اِنفرادیت کا ایک سبب اس کے فواصل ہیں۔ قرآنی فواصل آیات کریمہ کے اواخر کو کہا جاتا ہے یہ شعر میں قافیہ اور نثر میں مقاطع کی طرح آیات کریمہ میں تناسب وزن اور حسن پیدا کرتے ہیں۔ ان کے بغیر قرآن کے معانی کا سمجھنا اور اس سے شرعی دلیلوں کا استنباط ممکن نہیں ہے۔ (الإتقان في علوم القرآن: ۲۱۱)
اَدبی اعتبار سے قرآنی فواصل بعض مقامات پر نحوی قواعد کی مخالفت کا سبب بنتے ہیں لیکن یہ چونکہ قرآن کا ایک خاص اسلوب شمار ہوتا ہے اس لیے اس کی وجہ سے وہ فصاحت وبلاغت کے دائرہ سے خارج نہیں ہوتا ۔ ان کے مقامات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) حذف وبقاء
قرآنی فواصل کی خاطر جہاں کسی حرف کو حذف کرنا چاہیے تھالیکن اسے باقی رکھا گیاہے وہ حسب ذیل ہیں۔
(١) فرمان الٰہی ہے:
’’وَلَقَدْ أَوْحَیْنَآ إِلٰی مُوْسٰٓی۴۵ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِی فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقًا فِیْ الْبَحْرِ یَبَسًا ۳ لاَّ تَخٰفُ دَرَکًا وَّلَا تَخْشٰی٭ ‘‘ (طہ: ۷۷)
قراء ت کے ماہرین کی اکثریت نے ’لاَ تَخَافُ‘ کو حالت رفع کے ساتھ اس بنا پر پڑھاہے کہ وہ جملہ خبریہ بن کریا تو ’اضرب‘ میں فاعل کی ضمیر کے لئے حال ہے اور یا جملہ ابتدائیہ ہے۔( الکتاب :۳؍۱۱۳)
پھر ’وَّلَا تَخْشٰی‘ کو بھی حالت رفعی میں الف کے ساتھ قراء ت کر کے اسے ’لاَّ تَخَاف‘ پر عطف کیا ہے۔ جبکہ قراء اعمش ، حمزہ اور ہارون ابن ابی لیلیٰ نے ’لاَّ تَخَفْ‘ کو جزمی حالت کے ساتھ الف کو حذف کر کے اس بنا پر پڑھا ہے کہ وہ یا تو امر’اضرب‘ کے جواب میں ہے، اور جب فعل مضارع اَمر کے جواب میں واقع ہو تو وہ مجزوم ہوتاہے، یا وہ نہی کا صیغہ ہے۔ پھر اس پر ’وَّلَا تَخْشٰی‘ پڑھنا چاہیے کیونکہ حالت جزمی میں فعل ناقص سے الف کو حذف کیا جاتا ہے۔ لیکن سورۃ کی اکثر آیات کا فاصلہ چونکہ الف ہے اس لیے ’وَّلَا تَخْشٰی‘ میں بھی الف کو حذف نہیں کیا گیا۔ ( مجمع البیان :۷؍۳۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) اسی طرح آیت کریمہ ’’ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰی٭ ‘‘ (الأعلی: ۶)
میں ’فَلَا تَنْسٰی‘ میں بھی فواصل کے سبب الف کو باقی رکھا گیا ہے حالانکہ ایک قول کے مطابق اس پر لائے نہی داخل ہے جس کی وجہ سے جزمی حالت میں الف نہیں لاتے ہیں۔(البحر المحیط:۸؍۲۴۵)
(٣) آیت کریمہ ’’ وَالَّیْلِ إِذَا یَسْرِ٭۶‘‘ (الفجر: ۴) میں اکثر قراء نے ’یَسْر‘ کو وقف او ر وصل دونوں حالتوں میں بغیر یا کے پڑھا ہے۔ ( الکتاب :۴؍۲۹۷) حالانکہ اس پر حروف جازمہ ’لم ، لما ، لام امر، لائے نہی، إن شرطیہ‘ میں سے کوئی جازم داخل نہیں ہے ۔ لہٰذا قاعدے کے مطابق ’یسری‘ ہونا چاہیے لیکن فواصل آیات کی وجہ سے بغیر یاء کے پڑھا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) قاعدہ یہ ہے کہ جب اسم منقوص پر ’ ال تعریف‘ داخل ہو تو اس سے یا ء کو حذف نہیں کیا جاتا۔جیسے ’القاضی‘ لیکن قرآنی اسلوب کے مطابق یاء کو باقی رکھنا جائز ہے جیسا کہ آیت کریمہ’’ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہٰدَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَالِ٭ ‘‘ (الرعد: ۹)
میں المتعال سے یاء کو فواصل کی خاطر حذف کیا گیا ہے۔ (المرجع السابق: ۲۹۸)
حالانکہ قاعدے کے مطابق المتعالی ہوناچاہیے تھا ۔ اسی طرح آیت کریمہ ’’وَیٰقَوِمْ إِنِّیٓ أَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ٭۴ ‘‘ (غافر: ۳۲)
میں کلمہ ’التناد‘ سے یا فاصلہ کی خاطر حذف ہے۔ (المرجع السابق)
(٥) قاعدے کے مطابق کلام میں جو معنی مقصود ہے اس کے لیے لفظ کو ذکر کیا جائے اور اسے حذف نہ کیا جائے او ر حذف کرنے کے ،نحوی علماء نے، خاص موارد بیان کیے ہیں لیکن قرآن کریم میں صرف فواصل کی خاطر مفعول بہ کو حذف کیاگیا ہے۔ مثال کے طور پر آیۃ کریمہ ’’ فَـــأَمَّا مَنْ أَعْطٰی وَاتَّقٰی٭۴ ‘‘ (اللیل: ۵)
یعنی ’أعطی مما أتاہا اﷲ واتقاہ‘ (البحر المحیط: ۸؍۶۸۰) اس میں فعل ’اتقی‘ کا مفعول فواصل ’الشتی‘، ’الحسنی‘ اور ’للیسری‘ کی خاطر نہیں لایا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح آیت کریمہ
’’مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَماَ قَلٰی٭۲ ‘‘ (الضحیٰ:۳)
یعنی ’وما قلاک منذ اصطفاک‘ ( مجمع البیان:۱۰؍۷۰۵)
اس میں بھی مفعول ’ک‘ کو فواصل ’سجٰی‘، ’الأولی‘، ’فترضی‘ کی خاطر نہیں لایا گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) تقدیم وتاخیر
(١) گرائمر کے مطابق معمول اپنے عامل کے بعد لایا جاتا ہے۔ جیسے مفعول کو فعل کے بعد ذکر کیا جاتا ہے۔ اور اگر اس کے برعکس کیا جاتا ہے تو اس کے کچھ عوامل ہوتے ہیں لیکن ان کے علاوہ بھی قرآن کریم میں فواصل کی خاطر مفعول کو فعل سے پہلے لایا گیا ہے مثلاً آیت کریمہ’’ أَہٰٓـــؤُلَآئِ إِیَّاکُمْ کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ٭ ‘‘ (سباء :۴۰)
میں ’إِیَّاکُمْ‘ کو اپنے عامل ’یَعْبُدُوْنَ‘ پر مقدم کیاگیا ہے، کیونکہ ’یَعْبُدُوْنَ‘ کا فاصلہ ہے۔ (البحر المحیط: ۷؍۳۷۹)
(٢) اصل یہ ہے کہ مفعول کو فاعل کے بعد لایا جائے لیکن آیت کریمہ’’ وَلَقَدْ جَآئَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ٭۶ ‘‘ (القمر: ۴۱)
میں مفعول ’آلَ فِرْعَوْنَ‘ کو فاعل ’النُّذُرُ‘ کے بعد لایا گیا ہے، کیونکہ ’النُّذُرُ‘ فاصلہ ہے۔
(٣) قاعدہ یہ ہے کہ ’کان‘ کی خبر کو اس کے اسم کے بعد ذکر کیا جائے لیکن آیت کریمہ’’ وَلَمْ یَکُنْ لَّــہٗ کُفُوًا أَحَدٌ٭۹ ‘‘ (الاخلاص: ۴)
میں اس کے برعکس لایا گیا ہے کیونکہ ’أحدٌ‘ فاصلہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤)جس لفظ کا معنی وجود خارجی میں زماناً متاخر ہے اسے قاعدے کے مطابق اس لفظ کے بعد لانا چاہیے جس کا معنی متقدم ہے مگر آیت کریمہ’’ فَلِلّٰہِ الْاٰخِرَۃُ وَالْأُوْلٰی٭۹ ‘‘ (النجم: ۲۵)
میں کلمہ ’الأولی‘ کو ’الآخرۃ‘ سے پہلے لایا گیا ہے حالانکہ ’أولی‘ سے مقصود دنیوی زندگی ہے جسے مذکورہ قاعدہ کے مطابق ’الأخرۃ‘ سے پہلے آنا چاہیے مگر اس ترتیب کی رعایت فاصلہ کی خاطر نہیں کی گئی۔ ( البحر المحیط: ۸؍۲۳۲)
اس طرح اللہ تعالی سے استعانت (مدد طلب کرنا) پہلے اور عبادت اس کے بعد معرض وجود میں آتی ہے مگر آیت کریمہ: ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ٭۲ ‘‘ (الفاتحۃ: ۵)
میں عبادت کوپہلے اور استعانت کو اس کے بعد ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ’نَسْتَعِیْنُ‘ قرآنی فاصلہ ہے۔
(٥) قاعدے کے مطابق ضمیر غائب اپنے مرجع کے بعد آتی ہے مگر آیت کریمہ ’’ فَــأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی٭ ‘‘ (طہ: ۶۷)
میں کلمہ ’مُّوْسٰی‘ فعل ’فَــأَوْجَسَ‘ کے لئے فاعل ہے اور ’فِیْ نَفْسِہٖ‘ ضمیر غائب ’موسٰی‘ کی طرف پلٹتی ہے لیکن اسے فاصلے کی خاطر ضمیر کے بعد لایا گیا ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) جار ومجرور کو فعل کے بعد ذکر کیا جاتا ہے جبکہ آیت کریمہ’’ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ٭۴ ‘‘ (البقرۃ: ۳)
میں ’مما‘ جار ومجرور کوفعل ’ینفقون‘ سے پہلے لایاگیا، کیونکہ وہ فاصلہ ہے۔
(٧) صفت وموصوف کے باب میں مفرد صفت کو جملہ پر مقدم کیا جاتا ہے لیکن قرآن کریم میں جملہ وصفیہ کو مفرد صفت پر مقدم لایاگیا ہے جیسا کہ آیت کریمہ ’’ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِتَابًا یَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا٭ ‘‘ (الاسراء: ۱۳)
میں ’یلقٰہ‘ کو پہلے اور ’منشورا‘ اس کے بعد ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ وہ فاصلہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) اِنصراف
جس طرح ضرورت شعری کی خاطر غیر منصرف کو منصرف پڑھا جاتا ہے اسی طرح فاصلہ قرآنی کی خاطر بھی ایسا کرنا جائز ہے۔مثال کے طور پر آیت کریمہ’’ وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بَاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَأَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَاْ٭۴ قَوَارِیْرَاْ مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْہَا تَقْدِیْرًا٭ ‘‘(الدہر: ۱۵،۱۶)
میں ’قواریر، قواریر‘ نافع، ابوبکر،کسائی نے تنوین کے ساتھ پڑھا ہے۔ حالانکہ پہلا ’قواریر‘ جمع المنتہی المجموع کا صیغہ ہے اور وہ غیر منصرف ہے جس پر تنوین نہیں آسکتی ۔ مگر اسے منصرف پڑھا گیا ہے کیونکہ وہ فاصلہ ہے۔ او رجہاں تک دوسرے ’قواریر‘ کو منصرف پڑھنے کا تعلق ہے حالانکہ وہ آیت کی اِبتداء میں ہے تو اسے پہلے ’قواریر‘ سے تناسب کی خاطر منصرف پڑھا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) نیابت
ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کی جگہ اس کے نائب کے طور پر لانا۔ اس کے درج ذیل موارد ہیں۔
(١) اسم ظاہر کو ضمیر کی جگہ لانا، جیسا کہ آیت کریمہ’’وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَأَقَامُوْ الصَّلٰوۃَ ۱ إِنَّا لاَ نُضِیْعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ٭ ‘‘ (الاعراف :۱۷۰)
میں ’أجرہم‘ کے بجائے ’المصلحین‘ اسم ظاہر لایا گیا ہے، کیونکہ وہ فاصلہ ہے، جیسا کہ اسی سورۃ میں ’تعقلون‘، ’تتقون‘ اور ’غافلین‘ بھی فواصل ہیں۔
(٢) فاعل کی جگہ مفعول کا صیغہ لانا ، مثلا آیت کریمہ’’حِجَابًا مَّسْتُوْرًا٭۴ ‘‘ (الاسراء:۴۵)
میں ’ساترا‘ کے بجائے ’مستورا‘ لایا گیا ہے، کیونکہ وہ فاصلہ ہے۔ جیسا کہ اسی سورۃ میں ’غفورا، نفورا اور مسحورا‘ فواصل میں۔
(٣) مفعول کے بجائے فاعل کاصیغہ ذکر کرنا ، جیسا کہ آیت کریمہ’’فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ٭۴ ‘‘ (الحاقۃ:۲۱)
میں ’مرضیۃ‘ کے بجائے ’راضیۃ‘ کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے ۔ حالانکہ زندگی راضیۃ نہیں بلکہ مرضیۃ (پسندیدہ) ہوتی ہے۔ مگر وہ فاصلہ واقع ہے جیسا کہ ’عالیۃ‘، ’دانیۃ‘ اور ’خالیۃ‘ بھی فواصل ہیں۔(البحر المحیط: ۸؍۴۵۶)
 
Top