• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نحوی قواعد کا قرآن سے انحرف اور اس کے اَسباب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ پر لانا، مثلا آیت کریمہ ’’ بِأَنَّ رَبَّکَ أَوْحٰی لَہَا٭۲ ‘‘ (الزلزال: ۵)
میں فعل ’أوحی‘ اگرچہ مشہور ہے کہ ’إلی‘ سے متعدد ہوتا ہے مگر اسے (لام) سے متعدی لایا گیا ہے، کیونکہ ’لہا‘ فاصلہ ہے جیسا کہ عجاج بن رؤبۃ نے بھی ’أوحی‘ کو ’لہا‘ سے متعدی پڑھا ہے۔
أوحی لہا الراء فاستقرت
وشدہا بالراسیات الثبت​
( البحر المحیط: ۸؍۷۱۰)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) عدد
(١) صیغہ جمع کے بجائے صیغہ مفرد لانا مثلاً آیت کریمہ ’’إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَنَہَرٍ٭۴ ‘‘ (القمر: ۵۴)
میں ’أنہار‘ کے بجائے ’نہر‘ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ فاصلہ ہے۔ (مجمع البیان: ۱۰؍۲۹۵)
(٢) صیغہ مفرد کے بجائے صیغہ جمع ذکر کرنا مثلا آیت کریمہ ’’ لاَ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خِلٰلٌ٭ ‘‘ (ابراہیم: ۳۱)
میں ’لاخل‘ کے بجائے ’لاخلٰل‘ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ فاصلہ ہے جیسا کہ ’البوار‘، ’القرار‘ اور ’الأنہار‘ بھی فواصل ہیں۔
(٣) مفرد کے بجائے تثنیہ کا صیغہ لانا ، مثلاً آیت کریمہ’’ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ٭۶ ‘‘ (رحمن: ۴۶)
میں ’جنۃ‘ کے بجائے ’جنتان‘ فاصلہ ہونے کی وجہ سے ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ ٰایک شاعر نے بھی جنۃ کے بجائے جنتین پڑھا ہے۔
یسعی بکیداء ولہذمین
قد جعل الأرطاۃ جنتین​
(معاني القرآن :۳؍۲۶)​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) جنس (مذکر ،مؤنث)
(١) مذکر کے بجائے مونث لانا مثلا آیت کریمہ’’ کَلَّآ إِنَّہٗ تَذْکِرَۃٌ٭۶ ‘‘ (المدثر: ۵۴)
میں قاعدے کے مطابق ’تذکیر یاتذکار‘ کے بجائے (تذکرۃ) تاء تانیث کے ساتھ لایا گیا ہے کیونکہ وہ ’الأخرۃ‘، ’المغفرۃ‘ کی طرح فاصلہ ہے۔
(٢) اسم جنس کی صفت لاتے وقت اس میں تذکیر اور تانیث میں سے ہر ایک کا اعتبار کرنا جائز ہے لیکن فاصلہ قرآنی کی خاطر کبھی اس کی تذکیر کو ترجیح دی جاتی ہے جیسا کہ آیت کریمہ’’ أَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ٭ ‘‘ (القمر: ۲۰)
میں ’منقعر‘، ’أعجاز‘ کے لئے صفت ہے اور ’مستمر‘، ’نذر‘، ’مدکر‘ فواصل کی خاطر اسے بھی ’منقعر‘ بغیر تاء تانیث کے ذکر کیا گیا ہے۔ (أبو حیان، البحر المحیط: ۸؍۲۵۵)
اور بعض مقامات پر فاصلہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے صفت میں صیغہ مؤنث لایا گیا ہے مثال کے طور پر آیت کریمہ ’’أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ٭ ‘‘(الحاقۃ: ۷)
میں ’خاویۃ‘، ’أعجاز‘ کے لئے صفت ہے اور دوسرے فواصل یعنی ’کاتبہ‘، ’باقیۃ‘ کی طرح اسے تاء تانیث کے ساتھ لایا گیا ہے۔ (الزمخشری، جاراﷲ بن محمد بن عمر، المفصل في صنعۃ الأعراب: ۳؍۲۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) امالہ
امالہ یہ ہے کہ الف کو کسرہ کی طرف مائل کر کے پڑھا جائے تاکہ اس سے یا کی آوازپیدا ہو اب الف کلمہ کے آخر میں ہوتو فعل ہونے کی صورت میں اس میں مطلقا امالہ جائز ہے جیسے دعا، رضیٰ، اور اگر اسم کے آخر میں ہو تواگر وہ یا سے بدلا ہوا نہ ہو اور تیسر ی جگہ واقع ہو تو امالہ جائز نہیں او رچوتھی جگہ واقع ہو تو امالہ جائزہے۔ تو اس قاعدے کے تحت ’الضحیٰ‘ میں امالہ جائز نہیں ہونا چاہیے لیکن قرآنی فاصلہ کی خاطر آیت کریمہ’’وَالضُّحٰی٭‘‘ (الضحی: ۱)
میں ’والضحی‘ کے الف کو ’سجیٰ‘، ’قلی‘، ’أولی‘ میں الف کی طرح امالہ کے ساتھ پڑھاگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) عدول
فاصلہ قرآنی کی وجہ سے صیغہ ماضی کے بجائے صیغہ مضارع لایا جاتا ہے مثلاً آیت کریمہ’’ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ٭‘‘ (البقرۃ: ۸۷)
میں ’قتلتم‘ کے بجائے ’تقتلون‘ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ فاصلہ واقع ہے۔ (أبو حیان: البحر المحیط: ۱؍۵ ۴۳ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٩) فصل
جن کلمات کے درمیان قاعدے کے مطابق کسی دوسرے لفظ کا فاصلہ ڈالنا صحیح نہیں ہوتا قرآنی فاصلہ کی خاطر وہ جائز ہوتا ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل موارد میں ہے۔
(١) معطوف علیہ اور معطوف کے درمیان فاصلہ ڈالنا مثلاً آیت کریمہ’’ وَلَوْ لاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُّسَمًّی٭۲ ‘‘ (طہ: ۱۲۹)
میں ظاہرا ’أجل مسمی‘ کا (کلمہ ) پر عطف ہے۔ (المرجع السابق: ۶؍۳۵۷)
اس کے باوجود ان کے درمیان ’سبقت‘ کو ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ’مسمی‘، ’نہی‘، ’ترضی‘ اور ’أبقی‘ کی طرح فاصلہ قرآنی ہے۔
(٢) قاعدے کے مطابق ذوالحال اور حال کے درمیان کسی لفظ کا فاصلہ نہیں ڈالا جاتا لیکن فاصلہ قرآنی اسے جائز قرار دیتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ’’ وَالَّذِیْ أَخْرَجَ الْمَرْعٰی٭۴ فَجَعَلَہُ غُثآئً أَحْوٰی٭۲ ‘‘ (الاعلی: ۵)
اس میں ’أحوی‘، ’مرعی‘ کے لئے حال ہے اور ان دونوں کے درمیان ’فجعلہ غثآء‘ کا فاصلہ ڈال کر ’أحوی‘ کو آخر میں لایا گیا ہے، کیونکہ وہ قرآنی فاصلہ ہے۔ (المرجع السابق: ۸؍۶۴۵)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کریم سے نحوی عدول کے مذکورہ چار اسباب یہ ثابت کرنے کے لئے تو کافی ہیں کہ نحو کے کے بعض قواعد میں قر آن کریم سے عدول و انحراف پایا جاتا ہے لہٰذا فنی طور پر چونکہ قرآن کریم نحو کا بنیادی مصدر اور زبان کی صحت وسقم پر کھنے کا معیار ہے اس لیے ضروری ہے کہ جو قواعد قرآنی اسلوب کے خلاف ہیں انہیں اس طریقہ سے Modify کیا جائے کہ وہ اصل سے ہم آہنگ ہو جائیں او رجس مقصد کے لئے نحو کی تدوین کی گئی ہے وہ حاصل ہو سکے۔ اور یہ علمی اعتبار سے ہرگز صحیح نہیں ہے کہ ہم اس کے برعکس ، معاذ اللہ یہ کہیں کہ قرآن کریم میں نحوی غلطیاں (Grammatical errors) پائی جاتی ہیں۔

٭_____٭_____٭
 
Top