• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نشانیاں تو عقل والوں کے لئے ہیں۔۔

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
عبد نام ہی اس مخلوق کا ہے جو کسی نہ کسی کی غلامی ضرور کرتا ہے۔فظری طور پر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہے مگر معیار الگ الگ اور اقسام الگ الگ ہیں۔۔ کوئی اللہ کا عبد بنتا ہے۔ اللہ کی غلامی میں آتا ہے، تو کوئی نفس کی غلامی قبول کرتا ہے، کوئی شیطان کا بندہ بن جاتا ہے۔ تو کوئی سائنس اور عقل کو مختار کل مانتے ہوئی اسی کی غلامی کرنے لگتا ہے۔۔مگر غلامی ضرور کرتا ہے۔۔

'نشانیاں تو عقل والوں کے لئے ہیں'کا عنوان باندہ کر یہاں ان لوگوں کا ذکر مقصود ہے جو انسانی عقل کو اپنا خدا بنائے بیٹھے ہیں۔ان کی دلیل عقل سے شروع ہو کر عقل پر ختم ہو جاتی ہے۔ وہی حجت ہے جسے عقل تسلیم کر لے۔۔ اور جسے عقل تسلم نہ کرے وہ اس کے منکر بن جاتے ہیں۔ جسطرح سرسید احمد خان نے معجزوں کا انکار کیا کیونکہ اسکی عقل نے معجزے کو تسلیم نہیں کیا مگر مجھے حیرت ہے کہ قرآن جیسے معجزے کو اسکی عقل نے کیسے تسلیم کر لیا؟

اپنی نظر میں عقلمند تو وہ بھی تھا جس نے سیدنا ابراھیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔۔۔ پھر اس نے کیا کیا؟؟؟ ایک سزا پانے والے کو بلایا اور آزاد کر دیا اور دوسرے کو بلایا اور قتل کروا دیا۔ اس کی نظر میں یہ فیصلے کی تبدیلی ہی زندہ کرنا اور مارنا تھا۔کیونکہ اس کی عقل کی رسائی یہیں تک تھی ورنہ مرے ہوئے کو زندہ کرنے سے وہ بھی عاجز تھا۔ گویا کہ وہ عقلمند نہیں بلکہ جاہل تھا۔

عقلمندوں کا ایک گروہ (دہریہ)کائنات کے خودبخود بن جانے اور سارا نظام چلتے اور چلے ہی جانے کا قائل ہے۔ انکا نظریہ ہے کہ بغیر کسی خالق کے سب کچھ بنا اور بنتا جا رہا ہے اور سارا نظام بھی خود تشکیل پا گیا۔۔ مگر جب جب سائنس نے تجربے کیئے اور ایک تجربے نے پرانے تجربے کو رد کر دیا، پرانے نظریے کو جھٹلا دیا تو ان کے منہ پر وہ ایک تھپڑ تھا کہ انسانی عقل اور تجربے حتمی فیصلہ دینے سے قاصر رہے۔۔ اور جب جب سائنسی تجربوں نے اسلام کی تصدیق کی بلکہ ذیادہ تر تجربوں نے تصدیق ہی کی تو تب بھی انکو تھپڑ رسید ہوا کہ بغیر تجربہ کہئے یہی بات کئی سو سال پہلے بھی بتلائی جا چکی تھی۔۔
اسی طرح یہ خود کو عقلمند سمجھنے والا اللہ کا منکر کائنات کو دیکھتا تو ہے ،بگ بینگ جس پر ماہرین فلکیات کی اکثریت متفق ہے اسے بھی قبول کرتا ہے مگر جب اس نظریے کی حقیقت کو قرآن میں بیان کیا جاتا ہے کہ تو اسکی عقل اسے ماننے سے عاجز آجاتی ہے۔

أَوَلَمْ يَرَ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ كَانَتَا رَ‌تْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿الأنبياء: ٣٠﴾
کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین باہم ملے جلے تھے پھر ہم نے انہیں جدا کیا اور ہر زنده چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں ﻻتے۔۔۔

وہ سوچتا تو ہے کہ آسمان بن گیا۔آسمان کی وسعتیں ،اسکی رونقیں، چاند، ستارے ،سورج ، اڑتے ہوئے پرندے سب کچھ بن گیا مگر اتنا زبردست، وسیع اور بغیر کسی شگاف کے کیسے بن گیا؟؟؟

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَ‌ىٰ فِي خَلْقِ الرَّ‌حْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْ‌جِعِ الْبَصَرَ‌ هَلْ تَرَ‌ىٰ مِن فُطُورٍ‌ ﴿٣﴾ ثُمَّ ارْ‌جِعِ الْبَصَرَ‌ كَرَّ‌تَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ‌ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ‌ ﴿٤﴾ (الملک)
جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ (تو اے دیکھنے والے) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا، دوباره (نظریں ڈال کر) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آرہا ہے (3) پھر دوہرا کر دو دو بار دیکھ لے تیری نگاه تیری طرف ذلیل (و عاجز) ہو کر تھکی ہوئی لوٹ آئے گی۔۔۔

وہ زمین دیکھتا تو ہے کہتا ہے خودبخود بن گئی۔کیا خودبخود بن جانے والی اتنا بوجھ اٹھا کر بھی قائم ہے؟؟؟اس پر موجود پہاڑوں نے اس پر کیسے توازن قائم کیا؟؟ کیا خود بخود اتنی ترتیب سے بن جانا اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ایک طرف نہ جھکنا۔۔۔۔ یہ سب خودبخود کیسے قائم ہو گیا؟؟

إِنَّ اللَّـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورً‌ا ﴿٤١﴾۔۔۔سورۃ فاطر
یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وه ٹل نہ جائیں اور اگر وه ٹل جائیں تو پھر اللہ کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا۔ وه حلیم غفور ہے ۔۔

دوبارہ اٹھائے جانے کے منکروں کو جھنجھورنے کے لئے یہی اک آیت کافی تھی کہ؛
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿٣﴾ بَلَىٰ قَادِرِ‌ينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ ﴿٤﴾سورة القيامة
کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں (3) ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں (4)

پور پور درست کر دینے کا ذکر اسلئے ہوا کہ کسی انسان کا فنگر پرنٹ دوسرے سے نہیں ملتا۔آنکھیں، پٹھے،دل، دماغ کسی بھی چیز کا ذکر کیا جا سکتا تھا مگر پور پور کا ذکر دوبارہ اسکو مکمل ترین تخلیق کیئے جانے کی انتہا ہے۔کیا 1400 سال پہلے اس سے کوئی واقف تھا؟؟؟؟ مگر نشانیاں تو عقل والوں کے لئے ہیں۔۔

کیا یہ لوگ واقعی عقلنمد ہیں؟ کیا انسانی عقل علم کا حقیقت کے حصول کا یقینی ذریعہ ہے؟ یا یہ لوگ بے وقوف، ذھنی مریض اور بھول بھلیاں میں بھٹکنے والے احمق ہیں؟؟؟
کیا یہ واقعی عقلمند ہیں یا عقل نان کے ہاں سے رخصت ہو چکی ہے؟
کیونکہ نشانیاں تو عقل والوں کے لئے ہیں۔۔۔۔

اگر مزید نشانیوں کا ذکر کیا جائے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا۔اسلئے یہیں سے اختصار کرتے ہوئے ان عقلمندوں سے چند سوال زندگی اور موت کے بارے میں کرتے ہیں۔۔

کہ جب ایک مردہ شے سے جاندار تخلیق پایا۔بے جان سے زندہ بچہ بنا۔ سارا سسٹم بنا۔ تو بننے کے بعد جب پیدائش ہوئی تو کسی کا زندہ بچہ پیدا ہوا اور کسی کا مردہ۔۔۔۔ جب سسٹم ایک جیسا تھا، سارا نظام ایک جیسا تھا، سب کچھ ایک ہی جیسا تھا تو ایک زندہ کیسے ہو گیا اور دوسرا زندہ کیوں نہیں ہوا؟؟

وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿الذاريات: ٢١﴾
اور خود تمہاری ذات میں بھی(نشانیاں ہیں)، تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو ؟

جب ایک انسان اچانک مر گیا۔ تو وہ کس طرح مر گیا؟؟ کس چیز کی کمی کی وجہ سے مر گیا؟ اگر دھڑکن بند ہونے سے مرا تو مشینوں کے ذریعے دھڑکن بحال کر کے اسے زندہ کیوں نہیں کیا؟ خون کی کمی سے مر ا تو خون مہیا کر کے زندہ کرو۔۔ روح کو تو تم مانتے نہیں۔ ایک سسٹم ہی تھا ناں؟ تو سسٹم دوبارہ بحال کیوں نہ ہوا؟؟؟ سانس رکنے سے مرا تو آکسیجن دے کر زندہ کر لو۔۔۔ اگر نہیں کر سکتے اور بے شک نہیں کر سکتے تو سوال یہ ہے کہ کس شے کی کمی ہے اس میں؟؟؟
کون سی چیز تھی اس کے اندر جو اب اس میں نہیں رہی؟؟؟

فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿٨٣﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٨٤﴾ وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٨٥﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ‌ مَدِينِينَ ﴿٨٦﴾ تَرْ‌جِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٨٧﴾۔۔۔۔الواقعہ
پھر کس لیے روح کو روک نہیں لیتے جب کہ وہ گلے تک آ جاتی ہے (83) اورتم اس وقت دیکھا کرتے ہو (84) اور تم سے زیادہ ہم اس کے قرب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھتے (85) پس اگر تمہارا حساب کتاب ہونے والا نہیں ہے (86) تو تم اس روح کو کیوں نہیں لوٹا دیتے اگر تم سچے ہو (87)

ہے کوئی عقلمند جو بس عقل سے اسکا جواب دے سکے؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بہت بہت زبردست اور پر اثر ! ۔۔۔فاعتبروا یا اولی ابصار۔جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
 
Top