• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بعض حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ 15 شعبان کے بعد روزہ نہیں رکھنا چاہئے اور بعض احادیث نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پہ دلالت کرتی ہیں جن کی بدولت عام آدمی کو یہ الجھن ہے کہ صحیح موقف کیا ہے ؟

پہلے ممانعت والی حدیث دیکھیں :
مختلف کتب احادیث میں الفاظ کے اختلاف کے ساتھ نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت وارد ہے ۔ وہ احادیث باختلاف الفاظ اس طرح ہیں ۔
(1)إذا كان النصف من شعبان فأمسكوا عن الصوم حتى يكون رمضان(أحمد وابن أبي شيبة)
ترجمہ : جب نصف شعبان ہوجائے تو رمضان تک روزہ رکھنے رکھنے سے رک جاؤ۔

(2)إذا انتصف شعبان فلا تصوموا (أبو داود والبيهقي )
ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو روزہ مت رکھو۔

(3)لا صومَ بعدَ النِّصفِ مِن شعبانَ حتَّى يجيءَ شهرُ رمضانَ(ابن حبان)
ترجمہ: نصف شعبان کے بعد کوئی روزہ نہیں یہاں تک کہ رمضان کا مہینہ آجائے۔

(4)إذا كان النصف من شعبان فأفطروا(ابنِ عديٍّ)
ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو (روزہ چھوڑدو) افطار کرو۔

(5)إذا انتصف شعبان فكفوا عن الصوم( النسائي)
ترجمہ: جب نصف شعبان آجائے تو روزہ سے رک جاؤ۔

(6)إذَا مضَى النِّصفُ مِن شعبانَ فأمسِكُوا عنِ الصِّيامِ حتَّى يدخلَ رمضانُ(بیہقی)
ترجمہ: جب نصف شعبان گذرجائے تو روزہ رکھنے سے رک جاؤ یہاں تک کہ رمضان داخل ہوجائے ۔

(7)إذا بقي نصف شعبان فلا تصوموا(الترمذي)
ترجمہ: جب نصف شعبان باقی بچ جائے تو روزہ مت رکھو۔

الفاظ کے اختلاف کے ساتھ یہ روایات تھیں ۔ اس باب کی روایات کو صحیح بھی قرار دینے والے محدثین ہیں اور ضعیف بھی قرار دینے والے ہیں ۔
صحیح قرار دینے والوں میں امام ترمذی ، امام ابن حبان،امام طحاوی ، ابوعوانہ،امام ابن عبدالبر،امام ابن حزم،علامہ احمد شاکر، علامہ البانی ، علامہ ابن باز اور علامہ شعیب ارناؤط وغیرہ ہیں مگر ان روایات میں نکارت اور علتین پاتی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انہیں منکر کہنا زیادہ مناسب ہے ۔

اب ان روایات کو دیکھیں جن سے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کا جواز نکلتا ہے ۔
پہلی دلیل :
حديث أبي هريرة - رضي الله عنه - عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم، أو يومين إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه فليصم ذلك اليوم.(صحيح البخاري:1914)
ترجمہ: رمضان المبارک سے ایک یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو ، لیکن وہ شخص جوپہلے روزہ رکھتا رہا ہے اسے روزہ رکھ لینا چاہیے ۔
فائدہ : یہ روایت رمضان سے ایک دو دن پہلے یعنی نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے پہ دلالت کرتی ہے۔
دوسری دلیل :
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
فائدہ : اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ پورے شعبان کا نہیں بلکہ شعبان کا تقریبا اکثر روزہ رکھا کرتے تھے ۔ اور اکثر روزہ میں نصف شعبان کا روزہ بھی داخل ہے ۔
تیسری دلیل :
عن عِمرانَ بنِ الحُصَيْنِ أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قال لرجلٍ " هل صُمتَ من سَرَرِ هذا الشهرِ شيئًا ؟ " قال : لا . فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ : " فإذا أفطرتَ من رمضانَ ، فصُمْ يومَينِ مكانَه " .(صحيح مسلم:1161)
ترجمہ: عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کوفرمایا : کیا تو نے اس مہینہ کے آخرمیں کوئي روزہ رکھا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا : نہیں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تو افطار کرے رمضان سے پس تو اس کی جگہ دو روزے رکھ لے ؟
فائدہ : یہ اصل میں ایک صحابی کو نبی ﷺ نے حکم دیا جن کی عادت ہمیشہ روزہ رکھنے کی تھی یا نذر کا روزہ تھا ۔ شعبان کے آخر میں نہ رکھ سکنے کی وجہ سے بعد رمضان کےبعد اس کو پورا کرنے کا حکم دیا۔
نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنے کی ممانعت والی روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس بنا پر یہ کہا جائے گا کہ اس ممانعت سے چند لوگ مستثنی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا۔
(2) جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردئے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا۔
(3)اس سے رمضان کی قضاء اور نذر میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
(4) نبی ﷺ کی اتباع میں شعبان کا اکثر روزہ رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے اس حال میں کہ رمضان کے روزے کے لئے کمزور نہ ہوجائے ۔

واللہ اعلم بالصواب
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اگرکوئی شخص شعبان کے اکثر دنوں کا روزہ رکھنا چاہے تو شعبان کے نصف اول کے روزوں کے بعد شعبان کے نصف ثانی کا روزہ بھی رکھ سکتاہے لیکن اگرکوئی شخص شعبان کے اکثر دنوں کا روزہ نہیں رکھنا چاہتا بلکہ بعض دنوں ہی کا روزہ رکھنا چاہتاہے تو اسے چاہئے کہ وہ ان روزوں کی شروعات ماہ شعبان کے نصف اول ہی سے کردے کیونکہ حدیث میں شعبان کے نصف ثانی کو روزوں کے لئے خاص کرنے کی ممانعت وارد ہے ۔

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ العَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا»
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 106 رقم738 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم لاغبار علیہ ]

یہ حدیث صحیح وثابت ہے بلکہ صحیح مسلم کی شرط پرہے لہٰذا اس کی سند پر اعتراض والی بات بہت ہی کمزور ہے۔اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کے سامنے بنیادی اشکال یہ ہے کہ یہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں نصف شعبان کے بعدبھی روزوں کا جواز ثابت ہوتاہے پھراس اشکال کو سامنے رکھنے کے بعد بعض اہل علم نے حدیث کی سند میں علت ٹٹولنے کی کوشش کی اورسند کے ایک ثقہ راوی ’’علاء بن عبد الرحمن‘‘ پرخواہ مخواہ تفردکا الزام لگاکر اس کی اس روایت کو منکر قراردے دیا ۔ حالانکہ تفرد فی نفسہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اورجب تک اصول حدیث کی رو سے دیگر قرائن تفرد کے رد کے حق میں نہ ہوں تب تک کسی بھی ثقہ راوی کے تفرد کو بنیاد بناکر کسی روایت کو ضعیف ثابت کرنا درست نہیں ہے۔
یہاں جس اشکال کو بنیاد بناکر تفرد کو عیب قرار دیا جارہاہے وہ دیگرصحیح حدیث سے اس حدیث کا ظاہری تعارض ہے ۔لیکن چونکہ یہاں جمع وتطبیق ممکن ہے اس لئے تعارض کو بنیاد بنانا درست نہیں ہے۔

تطبیق کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جن روایات میں نصف شعبان کے بعد روزوں کی اجازت مروی ہے ان میں اجازت ان لوگوں کے لئے مانی جائے جو شعبان کے نصف اول ہی سے اپنے روزے شروع کردئے ہوں یا نصف شعبان کے بعد کے دنوں میں روزہ رکھنا ان کا معمول رہاہے۔
لیکن جو لوگ شعبان کے نصف اول میں روزہ نہیں رکھتے یا نصف شعبان کے بعد کے دنوں میں روزہ رکھنے کے عادی نہ ہوں ان کے لئے ترمذی کی روایت کی روشنی میں یہ درست نہ ہوگا کہ وہ شعبان کے نصف اول کو چھوڑ کر صرف نصف ثانی کو روزوں کے لئے خاص کریں ۔

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751)نے کہا:
وأما ظن معارضته بالأحاديث الدالة على صيام شعبان فلا معارضة بينهما وإن تلك الأحاديث تدل على صوم نصفه مع ما قبله وعلى الصوم المعتاد في النصف الثاني وحديث العلاء يدل على المنع من تعمد الصوم بعد النصف لا لعادة ولا مضافا إلى ما قبله
اوریہ سمجھنا کہ یہ حدیث ان احادیث کے معارض ہے جن میں شعبان کے روزوں کا ثبوت ہے تو ان دونوں طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔بلکہ جواز والی احادیث شعبان کے نصف اول کے ساتھ ساتھ نصف ثانی کے روزوں یا نصف ثانی کے عادت والے روزوں کے جواز پردلالت کرتی ہیں۔اور (سنن ترمذی والی )علاء کی حدیث میں شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کے ممانعت اس شخص کے لئے ہے جو بغیرعادت ومعمول کے یا شعبان کے نصف اول میں روزہ رکھے بغیر ہی شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنا شروع کرے[حاشیہ ابن القيم علی سنن ابی داؤد: 6/ 331]
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
جزاک اللہ خیرا

Sent from my XT907 using Tapatalk
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اگرکوئی شخص شعبان کے اکثر دنوں کا روزہ رکھنا چاہے تو شعبان کے نصف اول کے روزوں کے بعد شعبان کے نصف ثانی کا روزہ بھی رکھ سکتاہے لیکن اگرکوئی شخص شعبان کے اکثر دنوں کا روزہ نہیں رکھنا چاہتا بلکہ بعض دنوں ہی کا روزہ رکھنا چاہتاہے تو اسے چاہئے کہ وہ ان روزوں کی شروعات ماہ شعبان کے نصف اول ہی سے کردے کیونکہ حدیث میں شعبان کے نصف ثانی کو روزوں کے لئے خاص کرنے کی ممانعت وارد ہے ۔

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ العَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا»

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 106 رقم738 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم لاغبار علیہ ]

یہ حدیث صحیح وثابت ہے بلکہ صحیح مسلم کی شرط پرہے لہٰذا اس کی سند پر اعتراض والی بات بہت ہی کمزور ہے۔اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کے سامنے بنیادی اشکال یہ ہے کہ یہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں نصف شعبان کے بعدبھی روزوں کا جواز ثابت ہوتاہے پھراس اشکال کو سامنے رکھنے کے بعد بعض اہل علم نے حدیث کی سند میں علت ٹٹولنے کی کوشش کی اورسند کے ایک ثقہ راوی ’’علاء بن عبد الرحمن‘‘ پرخواہ مخواہ تفردکا الزام لگاکر اس کی اس روایت کو منکر قراردے دیا ۔ حالانکہ تفرد فی نفسہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اورجب تک اصول حدیث کی رو سے دیگر قرائن تفرد کے رد کے حق میں نہ ہوں تب تک کسی بھی ثقہ راوی کے تفرد کو بنیاد بناکر کسی روایت کو ضعیف ثابت کرنا درست نہیں ہے۔
یہاں جس اشکال کو بنیاد بناکر تفرد کو عیب قرار دیا جارہاہے وہ دیگرصحیح حدیث سے اس حدیث کا ظاہری تعارض ہے ۔لیکن چونکہ یہاں جمع وتطبیق ممکن ہے اس لئے تعارض کو بنیاد بنانا درست نہیں ہے۔


تطبیق کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ جن روایات میں نصف شعبان کے بعد روزوں کی اجازت مروی ہے ان میں اجازت ان لوگوں کے لئے مانی جائے جو شعبان کے نصف اول ہی سے اپنے روزے شروع کردئے ہوں یا نصف شعبان کے بعد کے دنوں میں روزہ رکھنا ان کا معمول رہاہے۔
لیکن جو لوگ شعبان کے نصف اول میں روزہ نہیں رکھتے یا نصف شعبان کے بعد کے دنوں میں روزہ رکھنے کے عادی نہ ہوں ان کے لئے ترمذی کی روایت کی روشنی میں یہ درست نہ ہوگا کہ وہ شعبان کے نصف اول کو چھوڑ کر صرف نصف ثانی کو روزوں کے لئے خاص کریں ۔


امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751)نے کہا:
وأما ظن معارضته بالأحاديث الدالة على صيام شعبان فلا معارضة بينهما وإن تلك الأحاديث تدل على صوم نصفه مع ما قبله وعلى الصوم المعتاد في النصف الثاني وحديث العلاء يدل على المنع من تعمد الصوم بعد النصف لا لعادة ولا مضافا إلى ما قبله

اوریہ سمجھنا کہ یہ حدیث ان احادیث کے معارض ہے جن میں شعبان کے روزوں کا ثبوت ہے تو ان دونوں طرح کی احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔بلکہ جواز والی احادیث شعبان کے نصف اول کے ساتھ ساتھ نصف ثانی کے روزوں یا نصف ثانی کے عادت والے روزوں کے جواز پردلالت کرتی ہیں۔اور (سنن ترمذی والی )علاء کی حدیث میں شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کے ممانعت اس شخص کے لئے ہے جو بغیرعادت ومعمول کے یا شعبان کے نصف اول میں روزہ رکھے بغیر ہی شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنا شروع کرے[حاشیہ ابن القيم علی سنن ابی داؤد: 6/ 331]
علم میں اضافے پہ مشکور ہوں ۔

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ العَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا»

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 106 رقم738 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم لاغبار علیہ ]
ترمذی شریف کی اس روایت " إِذَا بَقِيَ نِصْف ٌمِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا" پر جہاں بعض محدثین نے صحت کا حکم لگایا ہے وہیں ان محدثین سے بھی بڑھ کر علم والے محدثین نے ضعف کا بھی حکم لگایا ہے جن میں عبدالرحمن بن مهدي، أحمد، ابن معين، أبو زرعة، اثرم،ابن الجوزي، ذهبي ،ابن رجب، بیہقی اور طحاوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین ہیں۔

حدیث کے ضعیف ( منکر) ہونے کی تین علتیں ہیں ۔
(1) پہلی علت : علاء کا تفرد ہے ۔اس علت کی طرف ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ بعض محدثین نے کہا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پہ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام مسلم نے ان کی کئی روایات لی ہیں مگر تفرد کی وجہ سے اس روایت کو صحیح مسلم میں جگہ نہیں دی ۔
٭ترمذی ؒنے کہا "حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ" کہ ابوھریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ہم اسے انہیں الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 3/106)
٭ابوداؤد ؒنے کہا "وَلَمْ يَجِئ بِهِ غَيرُ العَلَاءِ عَنْ أَبِيْه" کہ علاء عن ابیہ کے علاوہ دوسرے طریق سے نہیں آئی ہے۔ (سنن ابوداؤد 1/713)
٭نسائی ؒنے کہا "لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ" کہ ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس حدیث کو علاء بن عبدالرحمن کے علاوہ طریق سے روایت کیا ہو۔ (السنن الکبری 3/254)

(2) دوسری علت : یہ حدیث صحیح احادیث کے معارض ہے بلکہ صحیحین میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے معارض ہے۔ آپ فرماتی ہیں۔
لَمْ يَكُنِ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ.(متفق عليه )
کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس تعارض کو ان محدثین نے دفع کرنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے ترمذی کی مذکورہ بالا روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔

(3) تیسری علت : گوکہ بعض محدثین نے علاء بن عبدالرحمن کی توثیق کی ہے مگر وہ مطلقا ثقہ نہیں ہیں۔ان سے وہم سرزد ہوجاتا ہے اس وجہ سے وہ متکلم فیہ ہیں۔
ابن معین ؒنے حرج کرتے ہوئے کہا "ليس حديثه بحجة" یعنی ان کی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔ [التهذيب :346/3].
حافظ ابن حجرؒنے تقریب میں کہا "صَدُوقٌ لَهُ أَوْهَامْ" کہ صدوق ہیں مگر ان کے پاس اوہام بھی ہیں۔
منذری ؒنے ابوداؤد والی روایت پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد نے جو علاء بن عبدالرحمن کی جہت سے منکر کا حکم لگایا ہے اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ علاء کے متعلق اس فن کے علماء نے کلام کیا ہے۔ اس حدیث میں ان سے تفرد واقع ہوا ہے ۔ (مختصر سنن أبي داود (224/3) مطبوع مع تهذيب السنن

اب اس روایت کے متعلق محدثین کے بعض اقوال ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) خلیلی ؒنے علاء کے متعلق کہا کہ وہ حدیث " إذَا كَانَ النِّصْفُ مِنْ شَعْبَان فَلَا تَصُومُوا" میں منفرد ہیں ۔ امام مسلم نے ان کی مشاہیر والی روایات لی ہیں اس شاذ کے علاوہ ۔ (تهذيب التهذيب :8/187)

(2) ابن الجوزیؒ نے اس حدیث کے متعلق کہا کہ امام مسلم نے علاء سے اپنی صحیح میں بہت سی حدیث لی ہیں اور اس کواور اس جیسی مشابہ کو چھوڑ دیا جن میں علاء عن ابیہ سے تفرد ہوا ہے۔ (الموضوعات : 1/33)

(3) حافظ ابن کثیر ؒ کا کہنا ہے کہ جمہور علماء کہتےہيں کہ : نصف شعبان کے بعد نفلی روزے رکھنا جائز ہیں ، اوراس کی نہی میں وارد شدہ حدیث کو انہوں نے ضعیف قرار دیا ہے ، امام احمد اورابن معین کا کہنا ہے کہ یہ منکر ہے ۔بیہقی نے اس باب کی حدیث کو ضعیف کہا ہے اور کہا کہ اس سلسلے میں رخصت ہے کیونکہ علاء سے صحیح حدیث موجود ہے اور اسی طرح اس سے پہلے طحاوی نے بھی کیا ہے۔ (فتح الباری :4/129)

(4) ابن قدامہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام احمد نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ، ہم نے اس کے بارےمیں عبدالرحمن بن مہدی سے پوچھا توانہوں نے اسے صحیح قرار دیا اورنہ ہی اسے میرے لیےبیان ہی کیا ، بلکہ اس سے بچتے تھے ۔
امام احمد کہتےہیں : علاء ثقہ ہے اس کی احادیث میں سوائے اس حدیث کے انکار نہيں ۔( المغنی)

(5) اثرم نے کہا پوری احادیث اس کے مخالف ہیں۔(لطائف المعارف :142)

(6) ابن رجب نے کہا کہ اس حدیث کی صحت وعمل کے متعلق اختلاف ہے ۔ جنہوں نے تصحیح کی وہ ترمذی، ابن حبان،حاکم،طحاوی اور ابن عبدالبرہیں۔ اور جنہوں نے اس حدیث پر کلام کیا ہے وہ ان لوگوں سے زیادہ بڑے اور علم والے ہیں ۔ ان لوگوں نے حدیث کو منکر کہا ہے ۔ وہ ہیں عبدالرحمن بن مہدی،امام احمد،ابوزرعہ رازی،اثرم ۔ (لطائف المعارف ص: 135)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث "إِذَا انْتَصَفَ شَعْبَانُ فَلاَ تَصُومُوا" منکر ہے اور اول سے آخر شعبان کے اکثر روزے رکھنا مستحب ہے جیساکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔
أن عائشةَ رضي الله عنها حدَّثَتْه قالتْ : لم يكنِ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يصومُ شهرًا أكثرَ من شَعبانَ، فإنه كان يصومُ شعبانَ كلَّه(صحيح البخاري:1970)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
(1) پہلی علت : علاء کا تفرد ہے ۔اس علت کی طرف ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ بعض محدثین نے کہا کہ یہ روایت مسلم کی شرط پہ ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ امام مسلم نے ان کی کئی روایات لی ہیں مگر تفرد کی وجہ سے اس روایت کو صحیح مسلم میں جگہ نہیں دی ۔
٭ترمذی ؒنے کہا "حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ" کہ ابوھریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے ، ہم اسے انہیں الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں ۔ (سنن الترمذی 3/106)
٭ابوداؤد ؒنے کہا "وَلَمْ يَجِئ بِهِ غَيرُ العَلَاءِ عَنْ أَبِيْه" کہ علاء عن ابیہ کے علاوہ دوسرے طریق سے نہیں آئی ہے۔ (سنن ابوداؤد 1/713)
٭نسائی ؒنے کہا "لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ" کہ ہم کسی کو نہیں جانتے کہ اس حدیث کو علاء بن عبدالرحمن کے علاوہ طریق سے روایت کیا ہو۔ (السنن الکبری 3/254)
تفرد فی نفسہ کوئی علت نہیں ہے ۔قرائن دیکھ کرفیصلہ ہوتا ہے یہاں ان کے تفرد کے رد کا کوئی معتبر قرینہ نہیں ہے۔اس لئے یہ کوئی علت نہیں ۔

(2) دوسری علت : یہ حدیث صحیح احادیث کے معارض ہے بلکہ صحیحین میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے معارض ہے۔ آپ فرماتی ہیں۔
لَمْ يَكُنِ النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم يَصُومُ شَهْرًا أَكْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ، فَإِنَّهُ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ.(متفق عليه )
کہ نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ نہیں رکھا کرتے تھے ، آپ ﷺ شعبان کے مہینے کا تقریبا پورا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس تعارض کو ان محدثین نے دفع کرنے کی کوشش کی ہے جنہوں نے ترمذی کی مذکورہ بالا روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔
صحیحین کی حدیث اس کے معارض ہے ہی نہیں تطبیق بآسانی ممکن ہے۔اس لئے یہ کوئی علت ہی نہیں ۔


(3) تیسری علت : گوکہ بعض محدثین نے علاء بن عبدالرحمن کی توثیق کی ہے مگر وہ مطلقا ثقہ نہیں ہیں۔ان سے وہم سرزد ہوجاتا ہے اس وجہ سے وہ متکلم فیہ ہیں۔
ابن معین ؒنے حرج کرتے ہوئے کہا "ليس حديثه بحجة" یعنی ان کی حدیث قابل حجت نہیں ہے ۔ [التهذيب :346/3].
حافظ ابن حجرؒنے تقریب میں کہا "صَدُوقٌ لَهُ أَوْهَامْ" کہ صدوق ہیں مگر ان کے پاس اوہام بھی ہیں۔
منذری ؒنے ابوداؤد والی روایت پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد نے جو علاء بن عبدالرحمن کی جہت سے منکر کا حکم لگایا ہے اس میں اس بات کا احتمال ہے کہ علاء کے متعلق اس فن کے علماء نے کلام کیا ہے۔ اس حدیث میں ان سے تفرد واقع ہوا ہے ۔ (مختصر سنن أبي داود (224/3) مطبوع مع تهذيب السنن
ان گنت ثقہ رواۃ سے وہم ہوجاتاہے لیکن جو ثقہ ثابت ہوں ان کی صرف وہ روایت رد ہوتی ہے جس میں ان کے وہم کی خاص دلیل ہو یہاں علاء کے وہم کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں اس لئے یہ بات بھی کوئی علت نہیں ۔

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں ۔اس لئے ہماری نظر میں تصحیح کرنے والے اہل علم ہی کا قول راجح ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
تفرد فی نفسہ کوئی علت نہیں ہے ۔قرائن دیکھ کرفیصلہ ہوتا ہے یہاں ان کے تفرد کے رد کا کوئی معتبر قرینہ نہیں ہے۔اس لئے یہ کوئی علت نہیں ۔
تفرد بذات خود علت قادحہ نہیں ہے مگر جب راوی پہ وہم اور ضعف کا حکم لگاہو تو پھر علت قادحہ بن جاتی ہے ۔

صحیحین کی حدیث اس کے معارض ہے ہی نہیں تطبیق بآسانی ممکن ہے۔اس لئے یہ کوئی علت ہی نہیں ۔
یہ جواب معقول لگتا ہے ۔

ان گنت ثقہ رواۃ سے وہم ہوجاتاہے لیکن جو ثقہ ثابت ہوں ان کی صرف وہ روایت رد ہوتی ہے جس میں ان کے وہم کی خاص دلیل ہو یہاں علاء کے وہم کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں اس لئے یہ بات بھی کوئی علت نہیں ۔

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں ۔اس لئے ہماری نظر میں تصحیح کرنے والے اہل علم ہی کا قول راجح ہے۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ ثقہ سے بھی وہم ہوجاتا ہے اور بہت ایسے ثقہ ہیں جن سے وہم صادر ہوا اور امت نے ان کی روایات کو قبول کیا ہے ۔
چونکہ علاء مطلقا ثقہ نہیں ہیں ، ان پر وہم کی جرح ہے ۔ اس وجہ سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محدثین نے ان کی کس روایت کی بنیاد پر وہم کا حکم لگایا ہے ؟ یا ان کے وہم کی بنیاد کون سی حدیث ہے ؟
جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ علاء کی یہی ایک روایت ہے جس پہ کبار محدثین کا کلام ہے ، علاء کی ساری حدیثیں قابل قبول ہیں سوائے اس کے جیساکہ امام احمد ؒ نے بھی کہا ہےباوجود اس کے کہ وہ انہیں ثقہ کہتے ہیں پھر بھی اس روایت کی تائید نہیں کی ۔
بایں سبب اس روایت کو منکر ماننا زیادہ اولی ہے ۔ مذکورہ باتوں کے علاوہ بھی کئی قرینے ہیں جو اس روایت پہ ضعف کا حکم لگانے میں معاون ہیں ۔
مثلا امام مسلم کا ان کی اس روایت کو اپنے صحیح میں جگہ نہ دینا۔
آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اس طرح کی بہت سی روایات ہیں جن میں صحت وضعف کے تعلق سے دونوں اقوال ملتے ہیں ۔ اس موڑ پہ ایک عام آدمی کے لئے صوابدید کا پہلو اختیار کرنا ذرا مشکل ہوجاتاہے ۔ جو اہل علم ہیں وہ اپنے اپنے نظرئے کے حساب سے فیصلہ کرتے ہیں جبکہ اس سلسلے میں جہاں اس فن کے ماہرین کا حکم دیکھا جائے گا وہیں ترجیحات کی بنیاد بھی دیکھی جائے گی ۔

 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تفرد بذات خود علت قادحہ نہیں ہے مگر جب راوی پہ وہم اور ضعف کا حکم لگاہو تو پھر علت قادحہ بن جاتی ہے ۔
وہم اور ضعف کا حکم لگا ہو اس سے اگرآپ کی یہ مراد ہے کہ کسی راوی پر کسی ایک دومقام پر وہم یا ضعف کی جرح کی گئی ہو تو اس کا تفرد علت قادحہ ہوگا ۔ توپھردنیا کے کسی بھی راوی کا تفرد نہیں بچے گا کیونکہ ایک یا دو مقام پر تو ہرایک ثقہ سے غلطی ہوجاتی ہے جیساکہ امام ذہبی کی وضاحت آرہی ہے۔
صحیح بات تو ہے یہ کہ ایک یا دو مقام پر وہم کی وجہ سے کسی راوی کو عام ثقاہت سے نیچے بھی نہیں گراسکتے چہ جائے کہ اس کے تفردات ہی کو مردود قراردیا جائے۔ علم حدیث میں قولا یا عملا ہمارے سامنے ایسی ایک بھی مثال نہیں ہے۔

اوراگرآپ کی مراد یہ ہے کہ جس راوی پر وہم اورضعف کی ایسی جرح ہو کہ وہ عام ثقہ راوی سے کم درجے کا ثقہ یعنی صدوق یاحسن الحدیث ہو ایسے راوی کا تفرد علت قادحہ ہوگا تو
تو میرے ناقص علم کی حدتک اصول حدیث میں نہ کسی امام نے ایسی بات کہی ہے اور نہ ہی عملا کسی امام نے محض وہم اورضعف کے سبب کسی راوی کے تفرد کو رد کیا ہے۔
دوسری طرف ایسی روایات بہت بڑی تعداد میں ہیں جن کو امت نے قبول کیا اور وہ بعض ثقہ یا حسن الحدیث رواۃ کے تفردات ہیں ۔
الغر ض یہ کہ راوی ثقہ ہو یا ثقہ متکلم فیہ ہو یا صدوق ربما وھم وحسن الحدیث ہو ایسے رواۃ کا تفرد فی نفسہ کوئی علت نہیں ہے جب تک کہ دیگر قرائن اس کے کسی خاص تفرد کے رد کے حق میں نہ ہوں ۔

علامہ ابن القیم فرماتے ہیں :
وأما المصححون له فأجابوا عن هذا بأنه ليس فيه ما يقدح في صحته وهو حديث على شرط مسلم فإن مسلما أخرج في صحيحه عدة أحاديث عن العلاء عن أبيه عن أبي هريرة وتفرده به تفرد ثقة بحديث مستقل وله عدة نظائر في الصحيح قالوا والتفرد الذي يعلل به هو تفرد الرجل عن الناس بوصل ما أرسلوه أو رفع ما وقفوه أو زيادة لفظة لم يذكروها وأما الثقة العدل إذا روى حديثا وتفرد به لم يكن تفرده علة فكم قد تفرد الثقات بسنن عن النبي صلى الله عليه و سلم عملت بها الأمة [حاشیہ ابن القيم علی سنن ابی داؤد: 6/ 331]


یہ بات بھی صحیح ہے کہ ثقہ سے بھی وہم ہوجاتا ہے اور بہت ایسے ثقہ ہیں جن سے وہم صادر ہوا اور امت نے ان کی روایات کو قبول کیا ہے ۔چونکہ علاء مطلقا ثقہ نہیں ہیں ، ان پر وہم کی جرح ہے ۔
اس وجہ سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محدثین نے ان کی کس روایت کی بنیاد پر وہم کا حکم لگایا ہے ؟ یا ان کے وہم کی بنیاد کون سی حدیث ہے ؟جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ علاء کی یہی ایک روایت ہے جس پہ کبار محدثین کا کلام ہے ، علاء کی ساری حدیثیں قابل قبول ہیں سوائے اس کے جیساکہ امام احمد ؒ نے بھی کہا ہےباوجود اس کے کہ وہ انہیں ثقہ کہتے ہیں پھر بھی اس روایت کی تائید نہیں کی ۔
ہمارے ناقص مطالعہ کی حدتک کسی بھی محدث نے محض اس حدیث کی بناپر علاء پر وہم یا ضعف کی جرح نہیں کی ہے۔بلکہ یہاں صرف ان کے تفرد پر کلام کیا ہے اورکسی بھی ثقہ کے کسی تفرد پر کلام کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عین اس تفرد کے سبب راوی پر وہم یا ضعف کی جرح کی جارہی ہے ۔مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔

بالفرض آپ کی بات مان لیں توآپ نے جو یہ سوال کیا :
اس وجہ سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محدثین نے ان کی کس روایت کی بنیاد پر وہم کا حکم لگایا ہے ؟ یا ان کے وہم کی بنیاد کون سی حدیث ہے ؟جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ علاء کی یہی ایک روایت ہے جس پہ کبار محدثین کا کلام ہے ،
اس پر یہ سوال بھی اٹھ سکتا ہے کہ:
اس وجہ سے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محدثین نے ان پر کس بات کی بنیاد پر وہم کا حکم لگایا ہے ؟ یا ان کے وہم کی بنیاد کون سی بات ہے ؟جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی بنیاد بظاہر صحیح حدیث کی مخالفت کو بنایا گیا ہے ۔اور چونکہ یہ مخالفت حقیقتا ثابت نہیں اس لئے یہ بنیاد ہی غلط ہے اور جب یہ بنیاد ہی غلط ہے تو اس کی بناپر وہم کا الزام ہی غلط ہے۔

اب یہ واضح کردیا جائے کہ آپ کی یہ بات :
پتہ چلتا ہے کہ علاء کی یہی ایک روایت ہے جس پہ کبار محدثین کا کلام ہے ، علاء کی ساری حدیثیں قابل قبول ہیں سوائے اس کے
انتہائی محل نظر ہے کیونکہ :
پہلی بات یہ کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان کی صرف اورصرف ایک ہی حدیث پر کلام ہے تو پھرایک حدیث پر کلام کی وجہ سے ان کے علی الاطلاق ثقہ ہونے سے انکار ناممکن ہے ۔ اوراگر صرف ایک حدیث پر کلام کی وجہ سے کوئی علی الاطلاق ثقہ نہیں رہ جاتا ہے پھر دنیائے رواۃ میں کوئی راوی ایسا ہوگا ہی نہیں جسے علی الاطلاق ثقہ کہا جائے ۔
امام ذہبی نے چیلنج کے انداز میں کہا ہے کہ ایسا کوئی کوئی راوی نہیں ہے جس سے کہیں پر کوئی غلطی ہی نہ ہوئی ہو یا اس کے پاس تفردات نہ ہوں ۔امام ذہبی کے الفاظ ہیں:
وأنا أشتهى أن تعرفني من هو الثقة الثبت الذي ما غلط ولا انفرد بما لا يتابع عليه، بل الثقة الحافظ إذا انفرد بأحاديث كان أرفع له، وأكمل لرتبته، وأدل على اعتنائه بعلم الاثر، وضبطه دون أقرانه لأشياء ما عرفوها[ميزان الاعتدال للذهبي: 3/ 140]

دوسری بات یہ کہ :
محدثین نے علاء پر کئی روایات کی بناپرکلام کیا ہے چنانچہ:

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
أنا أنكر من حديثه أشياء.[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 6/ 357]

امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446)نے کہا:
مختلف فيه؛ لأنه يتفرد بأحاديث لا يتابع عليها[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 218]

ان اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی کئی روایات پر کلام ہے۔

نیز جن ائمہ نے انہیں لیس بالقوی یا لیس بہ باس کہا ہے اس سے بھی معلوم ہوتا کہ ان کی کئی روایات پر کلام ہے۔
اس لئے یہ کہنا بالکل درست نہیں کہ ان کی صرف اور صرف ایک ہی روایت پر کلام ہے۔اگر ان کی ایک ہی روایت پرکلام ہوتا تو عام ثقات سے ان کا درجہ کم ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ ایک دو جگہ تو سب سے غلطی ہوجاتی ہے جیساکہ امام ذہبی کا قول ا گذرا ۔

ناقدین کے نقد کی بنیاد سند نہیں متن ہے:
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اس روایت پر نقد کی بنیاد سند نہیں متن ہے۔
یعنی ناقدین نے اپنے نقد کی بنیاد اس حدیث کی سند پر نہیں بلکہ متن پر رکھی ہے۔ یعنی ان کی نظر میں اس حدیث کا متن صحیح حدیث کے خلاف ہے۔ اور یہ نقد غیرمسموع ہے کیونکہ فی الحقیقت یہ حدیث کسی بھی صحیح حدیث کے خلاف نہیں۔

پھراس بات پرغور کریں کہ متن ہی پر جب مخالفت کے سبب نقد ہے تو بالفرض اگر علاء کی جگہ یہاں کوئی اور راوی ہوتا تو کیا ناقدین یہ نقد نہیں کرتے ؟ کیا علاء کی جگہ کوئی اعلی درجے کا راوی ہوتا تو مخالفت والی بات کا ازالہ ہوجاتا؟ ہرگزنہیں ۔
لہٰذا غور وفکر کا فوکس اس بات پرکریں کہ ناقدین کے نقد کا اصل محل کیا ہے؟ اور اس کی اصل وجہ کیا ہے؟
پھرکیا یہ اصل وجہ درست ہے ؟ اگر نہیں پھر انہیں محدثین وائمہ کی بات راجح ہے جو اس روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔

امام احمد رحمہ اللہ کا معاملہ دیکھیں آپ علاء کی زبردست توثیق کرتے ہیں :

• قال عبد الله بن أحمد: سألت أبي عن العلاء بن عبد الرحمن، وسهيل بن أبى صالح، فقدم العلاء على سهيل، وقال: لم أسمع أحدًا ذكر العلاء بسوء.
وقال أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد: سهيل بن أبى صالح أحب إلي من العلاء. «المسند» 5/114 (21412) .
• وقال عبد الله: قال أبي: العلاء بن عبد الرحمن ثقة. «العلل» (3171) .
• وقال ابن هانىء: وسئل (يعني أبا عبد الله) : أيما أحب إليك العلاء بن عبد الرحمن، أو محمد بن عمرو؟ قال: العلاء أحب إلي، محمد بن عمرو، مضطرب الحديث. «سؤالاته» (2330) .
• وقال المروذي: وسئل (يعني أبا عبد الله) عن محمد بن عمرو، والعلاء، فقال: العلاء أحب إلي. «سؤالاته» 116.
• وقال أبو داود: سمعت أحمد، قيل له: العلاء بن عبد الرحمن، أليس ثقة؟ قال: بلى هو ثقة. «سؤالاته» (187) .
• وقال حرب بن إسماعيل: قال أحمد بن حنبل: العلاء بن عبد الرحمن عندي فوق سهيل، وفوق محمد بن عمرو. «الجرح والتعديل» 6/ (1974) .

دیکھیں:موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله (3/ 132)

جس راوی کو امام احمدعلی الاطلاق ثقہ قراردیں ، دوسرے ثقات پر فوقیت دیں اور یہاں تک کہیں کہ میں نے ان کے بارے میں کچھ برا نہیں سنا ۔ کیا ایسے راوی کے ضعف کی وجہ سے امام احمد اس کی روایت پر نقد کریں گے ؟
ہرگزنہیں بلکہ امام احمد نے صرف متن کو صحیح حدیث کے خلاف پاکر ان کی روایت پر نقد کیا ہے جیساکہ خود ان کی طرف سے اس کی صراحت منقول ہے:
هذا خلاف الاحاديث التي رويت عن النبي صلي اله علية وسلم .[علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 160]

اورنقد کی یہ بنیاد درست نہیں اس لئے نقد بھی درست نہیں ۔


نقد اور تضعیف میں فرق:
اوریہ بات بھی معلوم ہونی چاہے کہ ہر نقد کو تضعیف نہیں کہا جاتا ہے ۔بعض اہل علم ثقہ کے تفرد پر منکر کا اطلاق کرتے ہیں لیکن ان کا مقصود تضعیف نہیں ہوتا بلکہ محض کسی راوی کا تفرد بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ جیساکہ حافظ ابن حجر وغیرہ نے کئی مقامات پر یہ وضاحت کی ہے۔
اس حدیث سے متعلق بھی بعض اہل علم نے محض تفرد پر کلام کیا اور اس کو بعض حضرات نے تضعیف سمجھ لیا جو بالکل درست نہیں ہے۔

اورآپ نے جو یہ کہا:
مذکورہ باتوں کے علاوہ بھی کئی قرینے ہیں جو اس روایت پہ ضعف کا حکم لگانے میں معاون ہیں ۔مثلا امام مسلم کا ان کی اس روایت کو اپنے صحیح میں جگہ نہ دینا۔
یہ بات قطعا درست نہیں ہے کیونکہ امام مسلم کا کسی روایت کو درج نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ روایت ضعیف ہے بلکہ اس بات کی بھی دلیل نہیں کہ وہ روایت امام مسلم کی نظر میں ضعیف ہے۔
بعض ایسی احادیث جو امام مسلم کی نظر میں بھی صحیح ہیں امام مسلم نے انہیں اپنی کتاب میں داخل نہیں کیا کیونکہ اس کی صحت پراجماع نہیں ہے۔
ایسی ہی ایک حدیث کے بارے میں امام مسلم کے شاگرد نے سوال کیا تو امام مسلم نے کہا :
هو عندي صحيح [صحيح مسلم: 1/ 304]

تو ان کے شاگرد نے کہا:
لم لم تضعه ها هنا؟ [صحيح مسلم: 1/ 304]

اس پر امام مسلم نے جواب دیا:
ليس كل شيء عندي صحيح وضعته ها هنا إنما وضعت ها هنا ما أجمعوا عليه[صحيح مسلم: 1/ 304]

پتہ چلا امام مسلم اپنی صحیح میں صرف ان احادیث کو درج کرتے ہیں جو باجماع امت صحیح ہوں ۔
لہٰذا صحیح مسلم میں کسی حدیث کا درج نہ ہونا اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ خود امام مسلم کے نزدیک بھی اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے۔


الغرض یہ کہ اس روایت پر نقد صرف اس بنیاد پر ہے کہ اس کا متن صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔اور یہ بنیاد ثابت نہیں ہے اس لئے یہ نقد بھی درست نہیں ۔ نتیجتا حدیث بالکل صحیح ہے ، بلکہ صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
 
Top