• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصیحتیں میرے اسلاف کی پہلی قسط

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
نصیحتیں میرے اسلاف کی

پہلی قسط
سلسلہ احیاء فکر سلف صالحین
(جو اس کتاب کو شایع کرنا چاہے وہ ہم سے رابطہ کرے)
علماء خطباء اور طلبہ میں سلف صالحین کی فکر کو زندہ کرنے کی ایک کوشش اور پریشان اولاد ،والدین، بیوی اور خاوند کے لئے پریشانیوں سے نجات کا ذریعہ حکمرانوں اور ججوں کے لئے ایک حقیقت پسندانہ پیغام خواہشات نفس کے پجاری اور معاشرہ میں بگاڑپیدا کرنے والے بے راہ روی کا شکار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے دردمندانہ فکر گناہوں کے اسباب و علاج نمازیوں ، تاجروں اور دکانداروں کے لئے ایک لاجواب قیمتی تحفہ اُمّتِ مسلمہ کے لئے خیر خواہی اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی والہانہ دعوت
قیمتی نصائح، حکیمانہ اقوال اور عبرتناک واقعات کا عمدہ مجموع
(علماء و محدثین کے زریں اقوال و افعال)
از ابن بشیر الحسینوی

(مولانا محمد محدث گوندلوی رحمہ اللہ کی نصیحتیں)
ہمارے استاد محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ (مدیر مرکزالتربیہ اسلامیہ فیصل آباد)نے بتایا کہ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ شاگردوں کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم کتابوں کے سیاہ الفاظ پڑھتے ہو جس سے تمہارے دل بھی سیاہ ہو جاتے ہیں لہٰذا تم اپنے دلوں کو کثرت سے ذکر اذکار کرنے کے ذریعہ منور کیا کرو ۔
ہمیں مولانا خالدحفظہ اللہ (خطیب ١٨ چک تحصیل چونیاں ضلع قصور) نے بتایا کہ استادِ مکرم محمد گوندوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ
١۔ زمانہ طالب علمی میں صدقہ کی عادت ڈالو خواہ تھوڑا ہی کرو ۔
٢۔ کثرت سے نوافل پڑھا کرو اس سے دل روشن ہوتا ہے۔
٣۔ مفت چیز نا لیا کروکیونکہ اس سے چیز کی قدر نہیں کی جاتی۔
پھر ایک آدمی کچھ کتابیں لینے آیا جس سے آپ نے فرمایا: آج میں تمہیں کتب دینا چاہتا ہوں لیکن مفت نہیں دوں گا میں آپ سے انکی معمولی سی قیمت صرف ٣ روپے لوں گا تاکہ آپ ان کی قدر کرو۔

(علماء محدثین کی زندگی بدل دینے والی نصیحتیں)

عرضِ مؤلف ؛
نبی کریمﷺ کا فرمان ہے۔''الدین النصیحۃ ''دین ہر ایک کے بارے میں نصیحت و خیر خواہی کاجذبہ رکھنے کا نام ہے۔اس لئے ہمارے دین اسلام میں نصیحت کو بڑا دخل ہے۔ دانش مند لوگ شروع سے اس کا التزام کرتے آئے ہیں۔ ہر آدمی نصیحت کا محتاج ہو تا ہے ، کیونکہ زندگی کٹھن مرحلہ ہے ، اس سے بحفاظت گزرنا مشکل کام ہے اور مشکل حالات میں آدمی پہلے تو اپنی ذہنی سوچ کو بروئے کار لاتا ہے ،پھر دانش ور لوگوں سے اس بارے میں مشورہ و نصیحت کی درخواست کر تا ہے ۔ویسے تو قرآن و حدےث ہر مرد و عورت کے لئے نصیحت اور خیر خواہی کا پیغام ہے۔ایک پریشان کے لئے قرآن و حدیث پر عمل ہی اس کی پریشانی کا حل ہے، لیکن علماء و محدثین کے اقوال و افعال اسی شمع فروزاں سے مقتبس ہیں ۔ اسلام کے شیدائی آغاز سے ہی لوگوں کے اندر پیدا ہونے والی خرابیوں کو دیکھ کر جذبہ اصلاح کے ساتھ میدان عمل میں آتے رہے ہیں ۔آج ان کی یہ مساعی کتب کی شکل میں بھی موجود ہے ،جن میں ہر ایک کے لئے نصیحت و خیر خواہی کا مکمل سامان موجود ہے۔
ایک طالب علم اپنے لئے بہت اُو نچی منزل منتخب کرتا ہے، پھر اس کے حصول کی خاطر ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے، اسی سوچ کے پیشِ نظر وہ اپنے اساتذہ سے گاہے بگاہے نصیحت کی درخواست کرتا رہتا ہے۔
یہ اٹل حقیقت ہے کہ (ہمارے ناقص علم کے مطابق ) جو طالب علم اپنے اسا تذہ کی نصیحتو ں پر عمل کرتا ہے، کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے، کیونکہ ایک استاد اپنے طلبا کا خیر خواہ ہوتا ہے اور وہ زندگی میں مختلف کٹھن مراحل سے گزر کر بہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے۔ نیز وہ اپنے تجربات و مشاہدات میں جس چیز کو انتہائی اہم سمجھتا ہے اسی کو نصیحت کے انداز میں اپنے شاگردوں تک منتقل کرتا ہے۔
ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے راقم الحروف مختلف شیوخ کے سامنے نصیحت حاصل کرنے کی غرض سے دو زانوں ہوکر بیٹھنے کے مواقع کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔
جب ہم نے''علماء و محدثین کے ذریں اقوال و افعال'' کے عنوان پر غور کیا تو ہمارے پاس کافی مواد جمع ہوگیا۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ ان نصیحتوںکوہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کے لئے جمع کیا جائے۔ کیونکہ ہر طبقہ کے لوگوں کو نصائح کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔ہوسکتا ہے کسی ایک کی زندگی بھی بدل جائے ۔خواہ علماء ، طلباء ، تاجروں ، حکمرانوں یا گنہگاروں میں سے ہو۔لیکن یہ وہ نصیحتیں ہیں جن کا ہر شخص ضرورت مند ہوتا ہے ،اس لئے ہم اسے کتابی شکل میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہں۔ تاکہ شیوخ کی قیمتی نصیحتیں بھی محفوظ ہو جائیں ۔جن سے رہتی دنیا تک آنے والے لوگ نصیحت حاصل کرتے رہیں ۔ اور اس باب میں متقدمین محدثین و سلف صالحین کی نصائح بھی جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ آج کا مسلما ن سلف صالحین کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہوکر اپنے آپ میں سلف صالحین کی فکر کو پیدا کرسکے۔
تنبیہ : وہ بات جو قرآن و سنت کے خلاف ہے اسے ہم نصیحت نہیں سمجھتے اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں محفوظ رکھے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں علماء و محدثین کی نصیحتوں پر غور کرنے والا بنائے اور ہمارے اس عمل کو ہمارے لئے ، ہمارے والدےن اور اساتذہ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

عبد العزیز پر ہارویؒ کا شعر ہماری دعا ہے؛
واسآلک اللھم یا خیر سامع بآ سما ئک الحسنیٰ الی ّ ھی آبجا قبول تصانیفی جمیعاً وَّ رْسٰھا علی ٰ صفاتِ الدھر لا تنزل
اےاللہ ! اے بہترین سننے اور قبول کرنے والے ، میں تیرے جلیل قدر اسماء کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری تمام تصانیف کو قبول فرما اور یہ عرصہ دراز تک صفحہ ہستی پر باقی رہیں ۔'' (النبراس، صفحہ:٣،٢ بحوالہ محدث :٢٨٦،صفحہ:١٣٧)
مزید فرماتے ہیں: الہ البراےا ا، ستخرئی مسائلً وما خا ب عبد الستخیر وسا،لفأِنی کا ن ما صنفتہ ھو عابث علیٰ وَجَلٍ أن تضیع و تبطل و اِن کان فی تصنیف خیر و برکۃ میسرہ لی کیلا ی عو مّنَّ ّ مشکل
''اے کائنات کے اللہ ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں استخارہ کرتا ہوں ، اور یہ حقیقت ہے کہ تجھ سے استخارہ کرنے والا اور مانگنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔مجھے یہ اندیشہ بھی ہے کہ وہ ضائع نہ ہوجائیں ۔۔۔۔۔میں جو کتابیں تصنیف کرتا ہوں اگر یہ بے فائدہ کام ہے تو میرے رب مجھے اس سے کسی بہتر کام میں مصروف کردے اور اگر تصنیف کے کام میں خیر اور برکت ہے تو اسے میرے لئے آسان کردے تاکہ کوئی مشکل آڑے نہ آ سکے ۔'' (النبراس صفحہ :٣٠ بحوالہ محدث ،٢٨٦، صفحہ: ١٣٣،١٣٧)
سلف صالحین کی فکر کا احیاء کیسے ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب تفصیل طلب ہے ہم اختصار سے جواب دےتے ہیں ؛
١۔ قرآن و حدیث کو لازم پکڑا جائے ، سلف صالحین کی زندگی مین یہ سب سے بڑی خوبی تھی ۔
٢۔ قرآن حدیث کے علم کو اچھے طریقے سے گھر گھر پہنچایا جائے اور اسے حاصل کرنے والے طلباء یکسو ہو کر محنت سے علم کو حاصل کریں ، اور طریقہ تدریس محدثین کا اپنایا جائے ۔
٣۔ کلمہ حق کہا جائے خواہ سامنے کتنا مرضی ظالم بادشاہ ہو۔
٤۔ تذکیہ نفس پر ہر کوئی زور دے۔
٥۔ فکر آخرت کو اپنایا جائے۔
٦۔ اخلاص کو اپنی زینت بنایا جائے ۔
٧۔ سلف صالحین کے اقوال و افعال کو گہرائی سے پڑھا جائے۔
٨۔ حرام امور سے اجتناب کیا جائے اور حلال کاموں کو اپنی زندگی میں لاگو کیا جائے ۔
٩۔ رزق حلال کھایا جائے ۔ خواہ محنت مزدوری ہی کرنی پڑے۔
١٠۔ امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کو عام کیا جائے۔
اب ''سلف صالحین کی فکر کا احیاء کیسے ممکن ہے؟'' اس کے تفصیلی جواب کے لئے ہماری اسی کتاب '' علماء محدثین کے زریں اقوال و افعال '' اور آئندہ طبع ہونے والی اسی سلسلہ احیاء فکر سلف صالحین'' کی کتب کا مطالعہ کریں ۔ان شا ء اللہ آج بھی وہ سنہری سلف صالحین کا دور آئے گا۔
جس کی بات قرآن و حدیث خلاف ہو وہ مردود ہے
(سلف صالحین کی فکر کا احیاء کیوں ضروری ہے؟)

سلف صالحین ہمارے لئے مشعلِ راہ:
حضرت قاسم بن محمد ؒ نے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ سے کہا کہ'' سلف صالحین ہمارے لئے مشعل ِ راہ ہیں ۔ ہم انہی سے روشنی لے کر صراطِ مستقیم پر گامزن ہوسکتے ہیں ہم انہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہر اس گمراہی سے نجات پا سکتے ہیں جس نے ہماری زندگی کو گدلاکر دیا ہے۔'' (فقھائے مدینہ۔ صفحہ ۔١١٥)
سلف صالحین کے راستے پر چلو:
امام اوزاعی فرماتے ہیں؛''سلف کے راستے پر چلو خواہ لوگ تم سے ناراض ہو جائین اور لوگوں کے رائے اور قیاس سے دور رہوخواہ وہ چکنی چپڑی باتوں سے کتنا ہی مزّین ہو تم صراطِ مستقےم پر گامزن رہے تو جلد ہی تم پر حقیقت حال واضح ہوجائے گی۔'' (تذکرہ الحفاظ صفحہ ۔١ /١٥٦)
امام جعفر صادق ؒ فرماتے ہیں ؛''اے سفیانؒ !سلامتی بہت نادر چیز ہے یہاں تک کہ اس کے تلاش کرنے کی جگہ بھی مخفی ہے، اگر وہ کہیں مل سکتی ہے تو ممکن ہے گوشئہ گمنامی میں ملے ، اگر تم اس کو گوشئہ گمنامی میں تلاش کرو اور نہ ملے ،تو ممکن ہے تنہا نشینی میں ملے ، گوشئہ گمنامی سے مختلف ہے ، اگر گوشئہ تنہا ئی میں بھی تلاش سے نہ ملے تو سلف صالحین کے اقوال میں ملے گی۔'' (تہذیب الاسماء ، صفحہ= ١ / ١٥٠ سیر الصحابہ = ٧/ ٨٦)
(پہلی فصل )

علماء کو نصیحتیں ؛
بدعت کو جاری نہ کریں :
امام اوزاعی فرماتے ہیں ؛'' جب کوئی شخص کوئی بدعت جاری کرتا ہے تو اس سے پر ہیز گاری سلب ہو جاتی ہے۔'' ( تذکرہ الحفاظ= ١/ ١٥٦)
بدعتی کو حدیث نہ پڑھائیں:
امام ابو داود طبالسی ؒ کہتے ہیں ؛ '' امام زائدہ بن قوامہ ثقفی کوفی کسی بدعتی کو حدیث نہیں پڑھاتے تھے۔'' (تذکرہ الحافظ = ١ / ١٨٠)
صحابہ ؓ کو برا بھلا کہنے والے کو حدیث نہ پڑھائیں:
امام عجلیؒ کہتے ہیں ؛ '' امام ابو الا حوص سلام بن سلمہ کوفی کا حلقہ جب طلباء حدیث سے کھچا کھچ بھر جاتا تو اپنے لڑکے کو حکم دیتے کہ ان میں جو صحابہ کرام ؓ کے حق میں سب و شتم کرتا ہے اسے باہر نکال دو۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ٢٠٣)
ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنے سے نہ ڈریں :
ہم نصیحت کے لئے چند ضروری باتیں کرنا چاہتے ہیں۔
١۔ نفع و نقصان کا ملک صرف اللہ تعا لیٰ ہے۔
٢۔ موت و حیات صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
٣۔ عزت و ذلّت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
٤۔ تقدیر بر حق ہے۔
٥۔ رزق میں کمی بےشی اللہ تعالیٰ کے اختیار سے ہے۔
٦۔ غربت و امارت جسے اللہ دے۔
٧۔ قرآن و حدیث بر حق ہیں ان کی مخال فت کرنے والے ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات دو ٹوک کرنا بغیر کسی ڈر کے علماء پر ضروری ہے۔
ہم یہاں نصیحت کے لئے ایک واقع نقل کرتے ہیں ، فریابی کہتے ہیں ایک دفعہ سفیان بن عیینیہ ؒ، امام اوزاعیؒ اور عباد بن کثیر ؒ مکہ مکرمہ میں جمع ہوئے تو سفیان نے امام اوزاعی سے کہا ''ابو عمرو ! خلیفہ سفاح کے چچا عبد اللہ بن علی کے دربار میں آپ کی اسی سوچ جو گفتگو ہوئی تھی اس کی تفصیل ہمیں بتائیے ۔

فرمایا سنئیے !جب وہ شام آےا اور بنو امّیہ کے قتل عام سے فارغ ہوا تو ایک دن اس نے اپنا دربار منعقد کیا ۔ سپاہیوں کو چاروں قطار وں میں اس طرح کھڑا کیا کہ ایک قطار کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں ، دوسری کے ہاتھوں میں بیڑیاں ، تیسری کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور چوتھی قطار کے ہاتھوں میں کوڑے تھے پھرمجھے لانے کے لئے پیادے بھیجے جب ہم دروازے پر پہنچے تو انھوں نے سواری سے اتار لیا پھر دو پیادوں نے مجھے دونوںبازؤ ں سے پکڑ لیا اور مذکورہ بالا قطاروں کے درمیان مجھے ایسی جگہ کھڑا کر دیا جہاں سے وہ میری بات بآسانی سن سکتا تھا ۔ مجھے سامنے کھڑا دیکھ کر بولا تم ہی عبد الرحمان بن عمرو اوزاعی ہو ؟ میں نے کہا :جی ہاں! اللہ تعالیٰ امیر کو نیکی کی توفےق عطا فرمائے ۔ بولا بنو امیہ کے قتل عام کے متعلق کبا کہتے ہو؟ میں نے کہا: آپ نے ان سے امن کا عہد کیا تھا۔جسے بہر صورت آپ کو پورا کرنا چاہئے تھا ، کڑک کر بولا تم پر ہلاکت ہو ، میں اپنے اور انکے درمیان کسی معائدہ امن کا ذکر نہیں سننا چاہتا اس وقت میری روح قتل کے خوف سے کانپنے لگی لیکن میں نےاللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑا ہونے کا تصور کرتے ہوئے اپنی جان سے بے پرواہ ہوکر کہا ''آپ پر ان کا خون بہانا حرام تھا'' اب تو وہ غصہ سے بھر گیا ، اسکی رگیں پھول گئیں اور آنکھیں سرخ ہو گئیں اور پہلے سے زیادہ کڑک کر کہنے لگا ، تم پر ہلاکت ہو، وہ کیوں؟میں نے کہا وہ اس لئے کہ ہمارے پیغمبر ؐنے فرمایا ہے کہ تین گناہوں میں سے ایک کے سوا کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے ، کسی شخص کو ناحق قتل کرےاسلام لانے کے بعد مرتد ہوجائے یہ سن کر نبیﷺ حضرت علیؓ کے حق میں خلافت کی وصیت نہیں فرمائی تھی؟
میں نے عرض کی اگر آپ نے وصیت نہ فرمائی ہوتی تو حضرت علی ؓ خلافت کے فیصلے کے لئے حکم نہ فرماتے یہ سن کر وہ چپ تو ہوگیا مگر غصے سے تلملا اُٹھا مجھے امید تھی کہ ابھی میرا سر میرے آگے گرتا ہے،مگر اس کے برعکس اس نے اشارہ کےا کہ اسے باہر نکال دو۔ چنانچہ میں وہاں سے نکلا اور ابھی اپنے گھر کا زیادہ فاصلہ طے نہیں کیا تھا کہ پیچھے سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتا ہوا نظر آیا ، میں ڈرا کہ میرا سر لینے آیا ہے ۔چنانچہ میں سواری سے نیچے اترا تا کہ قتل سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لوں ۔ میں نے کہا ابھی تکبیر کہہ کر نماز شروع ہی کی تھی کہ سوار نے آکر السلام و علیکم کہا ؛ بولا ''امیر نے آپ کی خدمت کی یہ تھیلی پیش کی ہے یہ سن کر میری جان میں جان آئی اور میں نے یہ سارا مال گھر پہنچنے سے پہلے پہلے غرباء اور مساکین میں تقسیم کردیا۔ ( تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٥٧)
حق بات کہنے کا فائدہ :
امام ہشام بن سلمی و مشقی اپنے خطبے میں فرماتے تھے؛''حق کہو جس دن حق کے ساتھ فیصلہ ہوگا ۔ حق تمہیں اہلِ حق کے مراتب پر فائز کردے گا۔'' (تذکرہ الحفاظ = ٢/ ٣٣٦)
قدری بادشاہوں کے دروازوں پر گھومنے والوں کو حدیث نہ پڑھائیں:
ابو سہر ؒ کہتے ہیں ایک دفعہ ابو الحق مزاری ؒ دمشق تشریف لائے تو طالبانِ حدیث کثیر تعداد میں ان سے درسِ حدیث لینے کے لئے جمع ہوگئے ۔
اس پر مجھ سے فرمایا ؛''باہر جاؤ اور لوگوں میں منادی کردو جو شخص قدریہ کا عقیدہ رکھتا ہے وہ ہماری مجلس میں نہ آئے۔۔۔۔اور جو شخص بادشاہوں کے دروازوں پر گھو متا ہے وہ بھی ہماری مجلس میں نہ آئے۔ چنانچہ میں باہر گیا اور لوگوں میں یہ منادی کردی۔'' ( تذکرہ الحفاظ = ١/ ٢١٧)
کلاس میں ہنسنے والے کو کلاس سے نکال دیا :
ابن الغرات ؒ کہتے ہیں ؛'' ایک دفعہ امام اکاف بن سلیمان قیسی رازیؒ ایک حدیث کا درس دے رہے اثنائے درس ایک نوجوان ہنس پڑا تو اس کو اپنے حلقہ سے نکال دیا ۔'' ( تذکرہ الحفاظ= ١/ ٢٧٢)
دنیا سے نفرت ہونی چاہئے:
حارث بن مسکین ؒ فرماتے ہیں ؛'' امام عبد الراحمٰن بن قاسم فقیہ دیارِ مصرکا زہد و تقویٰ حیرت انگیز تھا دنیا سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ میں نے اکثر ان کو یوں دعا کرتے ہوئے سنا ہے۔ ''الٰہی ! دنیا کو مجھ سے اور مجھے دنیا سے دور رکھو ۔'' (تذکرہ الحفاط = ١/ ٢٧٣)
رشوت کے ذریعے حق کو باطل مت بنائیں :
ایک دفعہ قاضی نے امام عفان بن صفّار بصری ؒ کو دس ہزار دینار کی رقم صرف اتنی بات پر پیش کی کہ آپ ایک آدمی کی تعدیل یا جرح مییں زبان نہ کھولیں ، خاموش رہیں مگر انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا اور فرمایا میں کسی حق کو باطل نہیں کرسکتا۔'' ( تذکرہ الحفاظ= ١/ ٢٩٠)
ہمیشہ حق بات کہیں خواہ حکومتی تعاون بھی بند ہوجائے:
مامون کے گورنر اسحاق ابراہیم نے امام عفان بن مسلم صفّار بصری ؒ کو خط لکھا، اس میں تھا کہ قرآن کو مخلوق تسلیم کرو ورنہ آپ کا وظیفہ ( پانچ سو درہم ماہانہ) بند کردیا جائے گا تو اس پر امام عفان نے فرمایا ؛''وفی السماء رزقکم وما تو عدون۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ٢٩٠)
کم ہنسنا چاہئیے:
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ '' پہلے ہم خوش طبعی اور ہنسی مذاق کرلیتے تھے مگر اب جب کہ ہم لوگوں کے پیشوا بن گئے ہیں تو ہمیں عموماً تبسم سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٥٨)
یونس بیان کرتے ہیں کہ ؛'' امام حسن بصری پر ہمیشہ حزن اور غمگینی چھائی رہتی تھی اب کی طبیعت ہنسی سے بالکل نا آشنا تھی ، فرماتے تھے کہ مومن کی ہنسی قلب کی غفلت کا نتجہ ہے زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہوجا تا ہے۔'' ( اعلام سیر النبلا =٧ / ١٠٠)
سر پر عمامہ باندھنا چاہئے:
اما م اوزاعی ؒ فرماتے ہیں ؛'' عمامے عربو ں کے تاج ہیں سر پر عمامہ باندھا کرو۔ تمہارے وقار میں اضافہ ہوگا ۔'' (تذکرہ الحفاظ = ١ / ١٥٧)
جو کسی عالم سے بغض رکھے اسے دعا دینی چاہئے:
امام مسعرؒ فرماتے تھے جو شخص مجھ سے بغض و عداوت رکھے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے محدث بنادے۔'' ( تذکرہ الحفاظ = ١/ ١٦٢)
وعدے کی پاسداری کا لحاظ رکھنا:
بعض علماء میں اس کی کمزوری پائی جاتی ہے یہ نصحت انتہا کی اہمیت کی حامل ہے اللہ تعالیٰ اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
غرور سے بچیں :
امام عیسیٰ بن یونس بسیعی کوفی ؒ فرماتے ہیں؛'' علم ِ نحو میں جتنا مجھے درک حاصل تھا میرے ہم عمروں میں سے کسی کو نہیں تھا یہ دیکھ کر میرے دل میں غرور پیدا ہونے لگا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ۔'' ( تذکرہ الحفاظ = ١/ ٢٢١)
علماء کی دعا:
امام حسن بصری ؒ یہ دعا کیا کرتے تھے ؛''الٰہی شرک ، غرور ، نفاق ، ریا ، فریب ، شہرت طلبی ، اور اپنے دین میں شک و شبہ سے ہمارے قلوب کو بچا، ای مقلب المقلوب ہمارے دلوں کو اپنے دین پر قائم اور استوار رکھ اور اسلام قیم کو ہمارا دین بنا ۔'' ( طبقات ابن سعد =ج=٣٧۔سےر العمام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
'' قیامت کے دن تین آدمیوں کو بڑی شدےد حسرت و ندامت ہوگی ۔۔۔۔ تیسرے وہ عالم ہیں جس نے اپنے علم سے نہ خود کوئی فائدہ اُٹھایا اور نہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا۔
مزید فرمایا ؛'' جب آنسو گر جاتا ہے تو دل کو سکون ہوجاتا ہے۔'' (صفوۃ الصفوۃ = ٢/ ١٣١ ۔ ١٣٥، سیر الصحابہ = ٧/ ١ / ٣٠١ ۔ ٣١٣)
سفیان ثوریؒ نےفرمایا ؛'' کہ جب آدمی کو دین کا فہم آجائے تو وہ عہد اور سرداری کی طلب نہیں کرے گا۔'' (صفوۃ الصفوۃ = ٢/ ١٣٥ ، سیر الصحابہ = ٧/ ١ / ٣٠٣)
عبد اللہ بن عباسؒ نے فرمایا ؛'' گمنامی کو پسند کرو اور شہرت سے دور، مگر یہ ظاہر نہ ہو کہ تم گمنامی کو پسند کرتے ہو اس لئے کہ اس سے بھی نفس میں بلندی اور غرور پیدا ہوگا ۔
فرمایا ؛'' وہ شخص عالم نہیں ہو سکتا ، جب تک اس کے دل میں خوفِ خدا اور دنیا سے بے رغبتی نہ ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ تواضع کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ دنیا کے مقابلے میں خود دور رہنا ، فرمایا کہ شریف وہ ہے جسے اطاعتِ الٰہی کی توفیق ہوئی اور رزیل وہ ہے جس نے بے مقصدزندگی گزاری ، ایک شخص نے حسنِ خلق کی تعریف پوچھی تو فرمایا کہ ترک الغضب غصہ نہ کرنا۔

کل ہم دوسر ی قسط پیش کریں گے ان شا ء اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اللہ تعالیٰ آپ کو یہ قیمتی نصائح شیئر کرنے پر جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین
 
Top