• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظام جمہوریت کفر پر مبنی نظام ہے-

shahzad

رکن
شمولیت
مارچ 17، 2011
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
144
پوائنٹ
42
اسلام و علیکم! کیا آپ بتا سکتے ھین کہ اسلام میں بادشاہ کو چننے کا صحیح تریقہ کیا ھے۔قرآن و سنت کی روشنی میں کو ئی ایسی دلیل دیں جس سے پتا چل جائے ک جمہوری نظام یا سعودی سسٹم کیا دونوں غلط ھیں یا ان میں سے کونسا صحیح ھے۔اور اگر دونوں غلط ھیں تو اسلام میں کیا طریقہ کار ھے اس کے لیے؟
جزاک ا للہ خیراہ
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
فتاوی ثنائیہ میں حافظ ثنااللہ مدنی صاحب اور حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب حفظہما اللہ کی مشترکہ کاوش سے تیار شدہ ایک فتوی جمہوریت اور انتخابی سیاست میں شرکت کے شرعی حکم کے حوالہ سے موجود ہے۔ اگر کوئی صاحب وہاں سے اپ لوڈ کردیں تو مناسب ہو گا۔ فتاوی ثنائیہ ، حافظ ثنا اللہ مدنی صاحب کا فتاوی ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ایک اور بات یاد آئی ہے کہ مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جمہوریت کے بارے ایک اچھی کتاب موجود ہے۔ اگر کوئی صاحب اسے بھی اپ لوڈ کر دیں تو کافی لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891
ایک اور بات یاد آئی ہے کہ مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جمہوریت کے بارے ایک اچھی کتاب موجود ہے۔ اگر کوئی صاحب اسے بھی اپ لوڈ کر دیں تو کافی لوگوں کا بھلا ہو جائے گا۔
یہ کتاب الحمدللہ کتاب و سنت ڈاٹ کام پر موجود ہے۔ ڈاؤن لوڈ لنک
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
سلام!
کلیم اللہ بھائی سے درخواست ہے کہ فتاویٰ ثنائیہ کے درج بالا فتویٰ کو یہاں ا‎پ لوڈ کردیں، جزاہ اللہ خیرا
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سلام!
کلیم اللہ بھائی سے درخواست ہے کہ فتاویٰ ثنائیہ کے درج بالا فتویٰ کو یہاں ا‎پ لوڈ کردیں، جزاہ اللہ خیرا
جزاک اللہ! لیکن اگر آپ میرے سوال کا کوئی مختصر سا یہاں جواب دے دیں تو بہت اچھا ہو گا۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
فتوی کا جواب
سوال:
1) پارلیمنٹ کی رکنیت اور موجودہ جمہوری نظام کے ماتحت کوئی سرکاری عہدہ قبول کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
2) رکنیت پارلیمنٹ اور عام سرکاری عہدے جب دونوں ایک ہی نظام کے ماتحت ہوں تو ان میں فرق کرنا اور پہلے کو کفر اور دوسرے کو جائز تصور کرنا کیسا ہے؟
3) مروجہ سیاسی نظام کے تحت اگر انتخابات کرائے جائیں تو کیا ووٹ ڈالا جا سکتا ہے؟
4) جو حضرات انتخابات میں حصہ لینے اور ووٹ ڈالنے کو کفر گردانتے ہیں، ان کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
5) موجودہ صورتِ حال میں بعض احباب ’’أَخَفُّ الضَّرَرَیْنِ‘‘ یا ’’أَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْنِ‘‘ کو قبول کرنے کا کوئی تصور شرعاً موجود ہے؟ خاص طور پر ایسے حالات میں جب اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو اور اسے وقتی طور چند شرعی مصالح کا لحاظ کرتے ہوئے قبول کر لیا جائے؟
6) یہ بھی بتائیے کہ اگر الشیخ عبد الرحمٰن عبد الخالق کی اسی موضوع پر کتاب کا اردو ترجمہ (جو تیار کر لیا گیا ہے) چھپوا دیا جائے تو کیا مفید ہو گا؟
جواب:
1) جن ممالک کے دساتیر میں شریعت کی بالا دستی کا دعویٰ موجود ہو وہاں پارلیمنٹ کی رکنیت اور مروجہ نظام کے ما تحت سرکاری عہدہ اس غرض سے قبول کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ خیر کی طرف کوئی قدم بڑھایا جا سکے تاہم یہ واضح رہے کہ اس صورت میں اول اپنی شخصیت کا ناقدانہ جائزہ اور محاسبہ پیش نظر رہے کیونکہ مصلحت کا تقاضا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بعض لوگ اثر انداز ہونے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں جبکہ بعض دوسرے اثر پذیر ہونے کی۔ بہرصورت مقصد امر بالمعروف ونھی عن المنکر رہے تو ٹھیک ورنہ اقتدار کا مطالبہ (فرمان رسول ﷺ کے مطابق ۔صحیح البخاری، کتاب الأحکام، باب من سأل الإمارۃ وکل إلیہ (۷۱۴۷) و (۷۱۴۶)اللہ تعالیٰ کی مدد سے محرومی کا باعث ہونے کی وجہ سے بے برکتی پر منتج ہوتا ہے دوسری بات مروجہ نظاموں کے اعتبار سے یہ ہے کہ ان تمام وضعی نظاموں کی اساس حصول اقتدار ہے اور ان نظاموں کے تانے بانے اسی جال کے لئے بنے گئے ہیں۔ اس لئے جب تک خیر کے رستے کھلے پائے، کار اصلاح میں شریک رہے۔ ورنہ خود کو فتنہ سے بچانے کی راہ اختیار کرے۔
2) پارلیمنٹ کی رکنیت اور دیگر سرکاری عہدوں میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ پارلیمنٹ کا زیادہ تر تعلق تشکیل حکومت سے ہوتا ہے تو سرکاری عہدوں کا حکومت کے ساتھ تعاون سے بعض اعتبار سے پارلیمنٹ کی رکنیت زیادہ اہمیت رکھتی ہے تو دوسرے اعتبارات سے کوئی سرکاری عہدہ بہر صورت اس کا تعلق اشخاص کی صلاحیت اور مواقع کی مناسبت سے ہے اور اس کا فیصلہ اسی چیز کے مد نظر ہونا چاہئے۔ کافرانہ یا ظالمانہ نظام میں شرکت یا تعاون دونوں میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ اصل مقصد خیر اور اس کے حصول کے مواقع کی اہمیت ہے۔ اسلام میں وسائل مقاصد کے تابع ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی مقصد کے لئے حیلے کا جواز اور غیر شرعی مقصد کے لئے حیلوں کی مذمت میں ’’اعلام الموقعین‘‘ کا مطالعہ مفید ہو گا۔
3) مصالح دینیہ کی بناء پر اسلام اور مسلمانوں کی ہمدردی میں قریب ترین پارٹی یا اشخاص کو ووٹ ڈالنا مناسب سمجھتے ہیں لیکن اس شعور کے ساتھ کہ ووٹ اور بیعت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ ہم تمہیدی نکات میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ لا دینی نظاموں کی بعض جزئیات کو اسلامی شعارات کے مماثل قرار دینا کج فہمی ہے جو لوگ ووٹ کو بیعت پر قیاس کرنے کی جرأت کرتے ہیں یا جمہوریت کو اسلامی شوریٰ پر۔ وہ اسلامی سیاست سے نابلد ہیں۔ تاہم ہماری گزارشات کے مطابق ووٹ ڈالنا ہو یا امیدواری کا مسئلہ، اس کا اصل تعلق اسلام کے لئے جدوجہد کرنے سے ہے لیکن یہ بھی واضح رہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ لا دینی نظاموں کے ذریعے نفاذِ شریعت کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے بلکہ ایسے اداروں میں شامل ہو کر زیادہ سے زیادہ برائی کے خلاف دفاع کیا جا سکتا ہے یا خیر کے کچھ رستے تلاش کئے یا کھولے جا سکتے ہیں۔
البتہ انتخاب کے سلسلے میں ایک بات کا تعلق زیادہ تر تجربہ سے ہے جو زشتہ تقریباً پچاس سال سے ہم پاکستان میں دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ جمہوری انتخاب میں ووٹ سے آگے بڑھ کر امیدواری اور کامیابی کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں سے مقابلہ اور گٹھ جوڑ کے لئے مروجہ سیاسی ہتھکنڈوں کے حوالے سے جو شخص سیاسی فریب اور جھوٹ کو اختیار نہ کرے۔ اس کا اقتدار میں آنا مشکل ہوتا ہے۔ اتفاقات کی بات چھوڑئیے، عام حالات میں اگر وہ مکار، منافقانہ ہتھکنڈے اس یکسا ولی سیاست میں استعمال نہ ہوں تو یا ناکامی مقدر بنتی ہے یا پھر کامیاب ہونے والا ’’شوپیس‘‘ بن کر رہ جاتا ہے ایسے حالات میں مقصد خیر کے لئے ناجائز ذرائع استعمال کرنے کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ اگر اس کا دروازہ چوپٹ کھول دیا جائے تو پھر تقویٰ و دین کا اللہ ہی حافظ ہے! لہٰذا ہمارے نزدیک اس میدان میں اترنے کی مشروط اجازت دفاع دین کے لئے اسی قدر ہے جتنی جہاد و قتال میں دشمن کے خلاف مکر و فریب کی ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم انتخابات میں شرکت کی گنجائش، نفاذ شریعت کا مؤثر ذریعہ ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ شر میں کمی کی غرض سے دینی دفاع کے ایک حربہ کے طور پر ہی پاتے ہیں۔ کیونکہ جمہوری انخابات میں بالفرض کامیاب ہو کر زیادہ سے زیادہ چہرے بدلے جا سکتے ہیں۔ نظام میں تبدیلی مشکل ہوتی ہے۔ پھر یکسا ولی سیاست تو ایک کاروبار ہے۔ اس میں جو لوگ آتے ہیں وہ زیادہ تر نو دولتئے، جاگیردار اور ایسے صنعت کار ہوتے ہیں جن کے پاس سیاست بازی کے لئے اوقات فارغ ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار کے لئے غلط طریقوں سے حاصل کردہ دولت کا بے دریغ استعمال کر کے کرسئی اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ پھر اقتدار کا حصہ بنتے ہیں وہ جوع الکلب (کتے سے منسوب حرص کی بیماری) کی صورت میں لوٹ مار میں مبتلا ہو جاتے ہیں بلکہ یہ سیاست تو ایک کاروبار ہے۔ دوسرے پیشوں کی طرح اس کے لئے خاندان مخصوص ہوتے ہیں۔ ایک ہی خاندان کے افراد مختلف جماعتوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں کہ اگر مخصوص جماعت اقتدار میں آئی تو فلاں فرد کے ذریعہ سیاسی فائدہ اُٹھائیں گے اور اگر دوسری جماعت کامیاب ہو گئی تو دوسرا فردِ خاندانی مفادات کے لئے کام آئے گا۔ یہ کھیل اتنا گھناؤنا ہے کہ اس کی کوئی سنجیدہ قوم متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہاں اس کی طرف اشارہ ہی کافی ہے۔ ایسے حالات میں بہت کم اللہ کے بندے نیک نیت رہ کر اپنی سیرت و کردار کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسے معاشرے اور نظام کے زیر نگیں رہ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا بھی کوئی نجات کی راہ نہیں ہے کیونکہ اس طرح اقتدار کے سرچشموں پر صرف گندے لوگ ہی قابض ہو کر نیکی کی راہیں زیادہ سے زیادہ مسدود کرتے چلے جائیں گے اور سارا معاشرہ انہی کے رحم و کرم پر رہ جائے گا۔
ہمارے نزدیک اگر کوئی شخص ہجرت کے مواقع نہ پائے اور دعوتِ دین یا دفاع دین کی مساعی میں شریک و معاون بھی نہ ہو تو یہ بھی بے کاری کی ایک شکل ہے بہر صورت مسلمان کو تادمِ حیات معاشرے کا عضو معطل بن کر رہنے کے بجائے کسی نہ کسی حد تک اصلاح میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہئے خواہ جتنا حضرت ابراہیم کی چتا پر پرندوں نے چونچوں سے پانی کے قطرے گرا کر لیا تھا۔ (اسی چتا پر گرگٹ یا چھپکلی کے پھونک مارنے کی سرشت ہی کی بنائ پر اس کا قتل باعث اجر و ثواب ٹھہرا۔(۴۳۸) (من قتل وزغاً فی اول ضربۃ کتبت لہ مائٰۃ حسنۃ، وفی الثانیۃ دون ذلک وفی الثالثۃ ون ذلک)) صحیح مسلم، کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ (۵۸۴۷)، ابو داؤد، کتاب الأدب، باب فی قتل الأوزاغ (۵۲۶۳)۔
4) جمہوری انتخابات میں حصہ لینے کی بناء پر کفر کا فتویٰ لگانا مناسب نہیں کیوں کہ کسی نظام کے کلی یا جزوی طور پر کافرانہ یا لا دین ہونے کی بناء پر ہمارا طرزِ عمل صرف ہجرت کا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اصل کام جدوجہد ہے۔ جس طرح رسول کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال جدوجہد کی ہے۔ ہجرت کی اجازت تو آپ ﷺ کو انتہائی مجبوری کی حالت میں ملی۔ پھر ہجرت کوئی فرار نہیں بلکہ اصلاح کا ایک متبادل طریقہ کار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے بعد دوبارہ مکہ مکرمہ فتح کیا ہے۔
5) أخف الضررین (أھون البلیتین) کے فقہی قواعد کا استعمال عموماً ان کی حیثیت جانے بغیر عام لوگ کرتے ہیں حالانکہ اصول فقہ اور فقہی قواعد کی اصطلاح میں بڑا فرق ہے۔ اصول فقہ کتاب و سنت سے مسائل کے استنباط کے لئے اجتہادی اصول ہیں تو قواعد فقیہہ استنباط مسائل کے وقت اجتہادی رویوں کو متوازن رکھنے کے کام آتے ہیں۔
’’اھون البلیتین‘‘ کوئی اصول فقہ (اجتہاد) میں سے نہیں بلکہ ایک فقہی قاعدہ ہے۔ بہرصورت اس قاعدہ کی رو سے مصالح اور مفاسد کا باہمی تقابل کر کے مصلحت کو تری دینا اور مفسدہ سے بچنا درست ہے۔ جب دین دار یا اسلام پسندوں کا مقابلہ دین بیزار یا سیکولر لوگوں سے ہو تو اس وقت ووٹ نہ دینا صرف ووٹ کا ضیاع نہیں ہوتا بلکہ بالواسطی بے دین لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ کیوں کہ مروجہ جمہوری انتخابات میں اصل معیار ووٹوں کی حقیقی کثرت نہیں بلکہ مقابلہ میں ووٹوں کی اکثریت ہے۔ لہٰذا نسبتاً بھلے آدمیوں کو ووٹ نہ دینا اسے مقابلہ میں کم تر بنانے کا باعث ہوتا ہے۔ نتیجتاً برے لوگ اقتدار کے سرچشموں پر فائز ہو کر خیر کے راستے بالکل بند کر دیتے ہیں۔ یہ پہلو اگر نظر میں رہے تو مسئلہ واضح ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید کی ’’سورۂ روم‘‘ کی ابتداء میں روم (اہل کتاب عیسائی) اور فارس (مشرک) کی جنگ میں مسلمانوں کو پہلے روم (عیسائیوں) کی شکست پر رنجیدہ ہونے کی بناء پر اس طرح تسلی دی گئی ہے کہ چند ہی سالوں میں رومی (عیسائی) فارس (مجوسیوں) پر غالب آئیں گے:
وَیَوْمَئِذٍ یَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ (الروم:۴) ’’اس دن مومن خوش ہوں گے۔‘‘
حالانکہ عیسائی اور مجوسی دونوں کافر ہیں لیکن مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب اسلام کے زیادہ قریب ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو نہ صرف اہل کتاب کی فتح کی بشارت دی گئی بلکہ ان کا خوش ہونا بھی پسندیدہ قرار پایا۔
نوٹ:
زیر نظر سوال و جواب کے بارے میں یہ گزارش مناسب ہے کہ ایسے معاملات کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کے مصالح اور فاسد سے ہے اور ایسے معاملات میں جو رویے اختیار کئے جاتے ہیں وہ بھی تدبیر کی قسم سے ہیں۔ ان کے بارے میں کفر و شرک کا فتویٰ تشدد اور انتہا پسندی ہے۔ البتہ مکرر یہ بات واضح رہے کہ وضعی نظام ہائے سیاست کا اسلام سے پیوند لگانا قطعاً درست رویہ نہیں۔ مسلمانوں کے اندر غز و فکری کے طور پر ان نظاموں کی خرابیوں کو واضح کرنا اور اسلامی نظام کی خوبیاں اجاگر کرنا بڑا ضروری ہے۔ بالخصوص تقابلی مطالعہ کے وقت وہ فرق ضرور ملحوظ رکھنے چاہیئں جن کی بناء پر لا دین نظاموں کی بعض جزئیات کے لئے اسلامی نظام کی بعض جزئیات سے تشابہ کا مغالطہ دینے کی کوشش کی جاتی ہیں۔
6) آج ہمیں یہ چیلنج در پیش ہے کہ اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق دورِ حاضر کے لئے اسلام کا قابل عمل سیاسی نظام دنیا کے سامنے پیش کریں اور جب تک کوئی ایسی صورت حال نہیں ہوتی ایسی بحثوں کی اشاعت مفید ہے جو کتاب و سنت کی روشنی میں ہمارے تدبیری معاملات میں راہنمائی کر سکیں۔ شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کی محولہ بالا کتاب جو اگرچہ زیر بحث موضوع پر جامع تبصرہ کی حامل نہیں بلکہ مروجہ لا دینی نظاموں میں اشتراک کی پر زور حمایت کا ایک رخ ہی ہے تاہم ایسی مباحث کا بہ دلائل مطالعہ غور و فکر کی راہیں ضرور کھولتا ہے ہے۔ اس طرح معاشرہ میں باشعور طرز عمل اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ہماری رائے میں یہ کتاب جس طرح عربی میں شائع ہوئی ہے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہونا چاہئے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ کویت کا جمہوری دور ابھی جمہوریت کے تجربہ سے اتنا آشنا نہیں جتنا پاکستان یا وہ ملک اس تجربہ کی خوبیوں اور خرابیوں سے متعارف ہو چکے ہیں جو ایک عرصہ سامراج کے زیر نگیں رہے اور اب بھی انہیں سامراجی نظاموں کی دلدل سے نکل کر اسلام کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ إنْ تَنْصُرُو اللہَ یَنْصُرْکُمْ (محمد:۷)
(حوالہ:فتاوی ثنائیہ،جلداول،صفحہ نمبر633 سے 637)
 
Top