• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظریہ النحو القرآنی … ایک تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فکل ما ورد أنہ قرئ بہ جاز الاحتجاج بہ في العربیہ، سواء أکان متواترا، أم آحادا، أم شاذا‘‘ (الاقتراح، ص۴۸)
’’قراء ت میں جو کچھ بھی بیان کیاگیا، عربی زبان میں اس سے دلیل پکڑنا جائز ہے، چاہے وہ متواتر ہو، احاد ہو یا شاذ ہو۔‘‘
عصر حاضرمیں بھی اس نظریہ کے حامی بہت سے علماء کرام ہیں۔ ہم اختصار کے لیے صرف ایک کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ شیخ رشید رضا بعض آیات کے اعراب میں تفصیل بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
’’والقرآن فوق النحو والفقہ والمذاھب کلِّھا فھو أصل الأصول، ما وافقہ فھو مقبول وما خالفہ فھو مردود مرذول وإنما یھمنا ما یقولہ علماء الصحابۃ والتابعین فیہ فھو العون الأکبر لنا علی فھمہ‘‘ (تفسیر المنار عند قولہ تعالیٰ: ’’یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ‘‘(المائدۃ:۱۰۶)
’’قرآن مجید، نحو، فقہ اور مذاہب تمام سے برتر ہے۔ یہ اصل الاصول ہے۔ جو اس کے موافق ہے وہ مقبول اور جو اس کے مخالف ہے وہ مردود اور ضائع ہے۔ ہمارے لیے علماء، صحابہ اورتابعین کے اقوال اہم ہیں اور قرآن مجید کے سمجھنے میں سب سے بڑے مددگار ہیں۔‘‘
صدیوں پرمحیط تاریخ کے اوراق میں سے یہ چند ایک نصوص ہیں جو آپ کے سامنے پیش کی ہیں وگرنہ اس بارے میں علماء کے بہت زیادہ اَقوال موجود ہیں۔ میں نے تو مطبوع کتابوں کا بھی احاطہ نہیں کیا جب کہ ہزاروں مخطوطوں میں بہت سا علم موجود ہے۔بہرحال علماء کے ان اَقوال سے ان کا موقف، احساس اور تصور واضح ہوتا ہے۔ لیکن اس نظریہ کی حقیقت، استنباط کے عناصر اور خصائص کی تفصیل نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان باتوں کو کھول کر بیان کیا جائے گا لیکن وہاں علماء کی باتوں میں ایک حرف کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نظریہ نحو قرآنی کی اساس اورا س کے بنیادی اَرکان
اس بحث کی تفصیل میں جانے سے پہلے ہم ایک سوال پیدا کرتے ہیں۔
کیا نحو قرآنی کا تصور ہے؟
اگر اس کا جواب ہاں ہے تو وہ کس حد تک قرآنی نحو سے متفق اور کس حد تک رائج نحو کے خلاف ہے؟
اب ہم اس سوال کامکمل اطمینان کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ ہاں نحو قرآنی ہر اعتبار سے مکمل اور کامل ہے۔ نحو قرآنی اوررائج نحو میں اتفاق اور اختلاف کو درج ذیل تقسیم کے ذریعے واضح کرتے ہیں:
(١) وہ قسم جسے نحوی تسلیم کرتے ہیں، کلام عرب کی نظائر کی طرح ہے۔ وہ اس کی موافقت کرتے ہیں۔
(٢) وہ قسم جسے نحوی تسلیم نہیںکرتے۔ وہ اس کی تاویل کرتے ہیں یاپھر صریح یا مخفی طور پر اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
ہم ان دونوں قسموں پر بات کریں گے۔اونیٰ سے شک کے بغیر یہ دونوں نحو قرآنی کا حصہ ہیں۔البتہ دوسری قسم ہماری بحث کا اصل محور ہے۔ اس پر تفصیل سے بات ہوگی۔ اسی میں نحوی اختلاف کرتے ہیں۔ پہلی قسم پر تو الحمدﷲ تمام ہی اتفاق کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری قسم جس کے بارے میں بعض نحوی اعتراض کرتے یا ان کی تاویل کرتے ہیں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ان پر لازم ہے کہ وہ اسے قبول کریں اور اس پر اعتماد کریں۔ کیونکہ قرآن کریم پر مطلق ایمان اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ اس کے تمام اسالیب اور استعمالات کو قبول کریں۔ تمام قواعد اور قوانین کو اس کے تابع بنائیں۔نحوکی قرآن کی بنیاد پر تصحیح کریں ، ناکہ نحو کی بنیاد پر قرآن کی تصحیح کی جائے، کیونکہ قرآن کریم مطلق طور پر صحیح ترین ماخذ ہے۔ قواعد نحویہ کو مستنبط کرنے میں دیگر ماخذ کی نسبت قرآن کریم اولیٰ ہے۔ قواعد نحویہ اور آیاتِ قرآنیہ میں اختلاف کی صورت میں نحو قرآنی کی معرفت کے لیے بڑا دقیق پیمانہ ہے۔جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
اس نظریہ کے مشتملات:یہ نظریہ چار عناصر سے تشکیل پاتا ہے۔
(١) بحث کا میدان (٢) محور
(٣)اختلافی مقامات (٤) ربط پیدا کرنے والی بنیادیں
اس نظریہ میں بحث کا میدان قرآن کریم ہے جو مضبوط ترین مصدر ہے اور اسے قانون سازی میں پہلے نمبرپر ہونا چاہئے۔ اس بحث کا مرکز و محور قواعد نحویہ کا قرآنی آیات سے اختلاف ہے۔ اختلافی مقامات وہ ہیں جہاں پرنحوی قاعدہ قرآنی آیت سے متصادم ہے۔ یہ اختلاف اس نظریہ کی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نحویوں کے غوروفکر کے مسالک
میں سمجھتاہوں۔ قراء ات متواترہ پر اعتراض کرنے والے نحویوں نے درج ذیل طریقہ اور اسلوب اختیار کیا ہے۔
جب انہوں نے نحو کی طرف توجہ دی توقواعدنحویہ کو ایک طرف رکھا اور قراء اتِ قرآنیہ کو دوسری طرف،پھر انہوں نے قراء ات کا جائزہ لیا ان میں سے جو قواعد نحویہ کے موافق تھیں انہیں قبول کیا اور ان پر اعتماد کیا اورجو قواعد کے مخالف تھیں ان پر اعتراض کیا یا اگر وہ تاویل کو قبول کرتی تھیں تو ان کی تاویل کی۔ جو قراء ات تاویل قبول نہ کرتی ان میں واضح یا مخفی طور پر اعتراض کیا۔ تفصیل حسب ذیل ہے:
صریح مخالفت کی مثال کلمہ (آئمۃ) میں دونوں ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھنا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِرشاد باری تعالیٰ ہے:
’’ فَقَاتِلُوْا أئِمَّۃَ الْکُفْرِ إنَّھُمْ لَا أیْمٰنَ لَھُمْ‘‘ (سورۃ التوبہ:۱۲) قراء ات سبعہ میں دونوں ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھا گیا ہے بلکہ متعدد متواتر قراء ات میں اسی طرح ہے۔ اس کے باوجود نحویوں نے اسے لحن قرار دیا۔ (الخصائص لابن جنی:۳؍۱۴۳) انہوں نے دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ قیاس کے مطابق نہیں ہے، حالانکہ وہ یہ بات بھول گئے کہ متواتر صحیح سماع ہرقسم کے قیاس سے بالاتر ہے، کیونکہ لغت قیاس سے پہلے صحیح سماع سے ہی ثابت ہوتی تھی۔ کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے: مقیاس الترجیح ھوالسّماع الصحیح۔ ترجیح کا معیار صحیح سماع ہی ہے۔
نحویوں نے لغت کے اس اصول میں شک کیا، انہوں نے ہمزتین کو تحقیق کے ساتھ پڑھنے کی قراء ت کو خطاقرار دیا اورکہا، قیاس کا تقاضا ہے کہ دوسرے ہمزہ کو یاء سے بدلا جائے اور جب اسی طرح قیاس کے موافق ابدال والی قراء ت آتی ہے تووہ اسے بھی وہ لحن قرار دیتے ہیں۔(تفسیر الکشّاف للزّمخشری:۲؍۱۴۲) حالانکہ یہ قیاس کے موافق ہے، صحیح سماع سے ثابت ہے، متعدد متواتر قراء ات سے روایت کیا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ اسے لحن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
انہوں نے کہا: اگر دونوں ہمزہ عین کلمہ میں نہ ہوں تو انہیں تحقیق سے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ابن جنی رحمہ اللہ نے کہا:
’’فالھمزتان لا تلتقیان في کلمۃ واحدۃ إن لم تکونا عینین نحو سأل وسأر… لکن التقاؤھا فی کلمۃ واحدۃ غیر عینین لحن‘‘ (الخصائص لابن جنی:۳؍۱۴۳)
’’دو ہمزہ ایک کلمہ میں جمع نہیں ہوتے اگر وہ سأل اور سأر کی طرح عین کلمہ میں نہ ہوں۔ لیکن عین کلمہ کے علاوہ ایک کلمہ میں دو ہمزوں کا جمع ہونا لحن ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں جو (أئمۃ) اور اس جیسی مثالوں میں ہمزہ کو تحقیق کے ساتھ پڑھنے کو لحن کہتے ہیں، کیونکہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ قراء ات سبعہ میں اسی طرح پڑھاگیا ہے۔ حفص نے عاصم سے، حمزہ، ابن عامر اور کسائی رحمہم اللہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھئے: السبعۃ لابن مجاہد، ص۳۱۲) دو ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھنے کی حسب ذیل مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں۔ ’’وَجَعَلْنَامِنْھُمْ أئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِأمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا‘‘ (السجدۃ :۲۴) ،’’وَنَجْعَلَھُمْ أئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ‘‘(القصص:۵)، ’’وَجَعَلْنٰھُمْ أئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ إِلَی النَّارِ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَا یُنْصَرُوْنَ‘‘ (القصص:۴۱)، ’’وَجَعَلْنٰھُمْ أئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِأمْرِنَا وَأوْحَیْنَا إِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ‘‘ (الأنبیاء:۷۳)
قرآن مجید کی یہ واضح آیات ہم نے دیکھ لیں۔یہ بات نامعقول ہے کہ ہم نصوص قرآنیہ کو نظرانداز کرتے ہوئے نحو کے قیاس کو تسلیم کرلیں بلکہ معقول اور مقبول بات یہ ہے کہ ہم قواعد وضع کرتے وقت مکمل طور پر نص قرآنی پر اعتماد کریں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دو ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھنے کے بارے میں ہم نے نحاۃ کا مؤقف دیکھ لیا۔ اب ابدال کے بارے میں ان کا مؤقف دیکھیں۔تحقیق الھمزتین کا مطلب ہے، دونوں ہمزوں کو سختی کے ساتھ الگ الگ ہمزہ کی آواز کے ساتھ پڑھنا اور ’آئمہ‘ کے کلمہ میں ابدال کے ساتھ پڑھا گیا تو انہوں نے اسے بھی لحن قرار دیا۔ زمخشری رحمہ اللہ کہتا ہے:
’’فأما التصریح بالیاء فلیس بقراء ۃ ولا یجوز أن تکون قراء ۃ ومن صرح بھا فھو لاحن محرف‘‘ (تفسیر الکشاف للزمخشری:۲؍۱۴۲)
’’یاء کو صراحت کے ساتھ پڑھنا قراء ۃ نہیں ہے اور نہ ہی اس کا قراء ۃ ہونا جائز ہے۔جس نے ایسا کیا وہ غلطی کرنے والا اور تحریف کرنے والا ہے۔‘‘
دیکھئے کس طرح یہ لوگ متواتر قراء ات سبعہ میں سے قراء ۃ کاانکار کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تین معروف قراء کی قراء ت ہے۔ نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ انکار میں سختی کا انداز اختیارکرتے ہیں ’’ولایجوز أن تکون قراء ۃ‘‘ اس موقع پر ابوحیان رحمہ اللہ کی یہ بات یاد آتی ہے:
’’وکیف یکون ذلک لحنا و قد قرأ بہ راس البصریین النحاۃ أبو عمرو، وقاری مکۃ ابن کثیر، وقاری مدینۃ الرسول نافع‘‘ (البحر المحیط:۵؍۱۵)
’’یہ لحن کیسے ہوسکتا ہے؟ جبکہ بصرہ کے نحویوں کے سردار ابوعمرورحمہ اللہ، مکہ کے قاری ابن کثیررحمہ اللہ اور مدینۃ الرسول کے قاری نافع رحمہ اللہ نے اس طرح پڑھا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سابقہ گفتگو سے یہ بات واضح ہوئی کہ اس کلمہ میں دو لغات ہیں، دونوں ہمزہ تحقیق کے ساتھ اور دوسرا ہمزہ یاء سے بدل کر اور دونوں قراء ات متواترہ میں وارد ہوئی ہیں۔ اس صورت میں ان میں سے کسی کا انکار کرنا یا اسے لحن سے تعبیر کرنا کسی طور پر درست نہیں ہے۔
ہرشخص یہ بات جانتاہے کہ ابن مجاہد نے ان دونوں قراء ات کی توثیق کی ہے، فرمایا:
’’اختلفوا فی الھمزتین وإسقاط إحداھما من قولہ (أئمۃ) فقرا ابن کثیر وأبو عمرو ونافع، (أیمہ) بھمز الألف وبعدھا یاء ساکنہ، غیر أن نافعا یختلف عنہ فی ذلک … وقال القاضی إسماعیل عن قالون ھمزۃ واحدۃ وقرأ عاصم وابن عامر وحمزہ والکسائی (أئمۃ) ھمزتین‘‘ (کتاب السبعۃ، ص۳۱۲)
’’قراء نے (أئمۃ)کے دو ہمزہ پڑھنے اور ایک کو ساقط کرنے کے بارے میں مختلف مؤقف اختیار کئے ہیں۔ ابن کثیررحمہ اللہ، ابوعمرورحمہ اللہ اور نافع رحمہ اللہ نے (أیمہ) ہمزہ کے بعد یائے ساکنہ کے ساتھ پڑھاہے۔ نافع رحمہ اللہ سے دوسری قراء ت بھی مروی ہے۔ قاضی اسماعیل رحمہ اللہ نے قالون رحمہ اللہ سے ایک ہمزہ بیان کیاہے۔ عاصم، ابن عامر، حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ نے (أئمہ) دو ہمزوں کے ساتھ پڑھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ قرآن مجید مضبوط ترین مصدر ہے۔ جب ہم اس حقیقت کو جانتے ہیں تو قراء ۃ متواترہ پر اعتراض اور اسے لحن قرار دینا کس طرح قبول کرسکتے ہیں۔ محض اس بنیاد پر کہ اس قراء ۃ نے قواعد نحویہ کی ایک بات کی مخالفت کی ہے کیا یہ بات درست نہیں ہے کہ ہم قراء ۃ پراعتراض کو تسلیم کرنے کی بجائے کہیں، قاعدہ نحویہ کی اصلاح کی جائے اور اسے قرآن کے مطابق بنایاجائے۔
اسی طرح دوسری مثال اس آیت کریمہ کی ہے: ’’إنَّ ھٰذانِ لَسٰحِرٰنِ‘‘ (سورہ طہٰ :۶۳) قراء ات متواترہ میں یہ آیت کریمہ نون کے تشدید کے ساتھ (إن) اور الف کے ساتھ (ھذان) پڑھا گیاہے۔ بعض نحویوں نے اس قراء ۃ پر اعتراض کیابلکہ واضح طور پر اس کاانکار کرتے ہوئے اسے کاتب کی غلطی قرار دیاہے اور کہا یہ قرآن میں سے نہیں ہے۔ (البحر المحیط :۶؍۲۵۵، الشذوذ ، ص۴۲)
جب ان کے پاس دوسری قراء ۃ یاء کے ساتھ (ھذین) آئی تو انہوں نے اس پر اعتراض کیا اور اسے بھی کاتب کی غلطی قرار دیا ’’غلط من الکاتب‘‘ (تأویل مشکل القرآن لابن قتیبہ، ص ۳۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء میں سے نافع، ابن عامر، حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ نے نون کے تشدید کے ساتھ (إنّ) اور الف کے ساتھ (ھذان) پڑھاہے۔ (البحرالمحیط:۶؍۲۵۵، المھذب، ص۱۴۳، الحجۃ لابن خالویہ، ص۲۱۷،کتاب السبعۃ لابن مجاھد)
ابوعمرو بن العلاءرحمہ اللہ نے نون تشدید کے ساتھ (إنّ) اور یاء کے ساتھ (ھذین)، (إن ھذین لسٰحرٰن) پڑھا ہے۔ (المھذب، ص۱۴۳، البحر:۶؍۲۵۵) یہ بھی محکم قراء ت ہے۔ اسلاف میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حسن بصری، ابن جبیر، الاعمش، النخعی، الجحدری اور ابن عبیدرضی اللہ عنہم نے اسی طرح پڑھا ہے۔ (البحر المحیط:۶؍۲۵۵)
امام حفص رحمہ اللہ نے نون کے سکون کے ساتھ (إنّ) اور الف کے ساتھ (ھذان) پڑھا ہے۔ امام حفص رحمہ اللہ کی اس قراء ۃ میں نحویوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ابوعمرورحمہ اللہ کی قراء ت (إن ھذین لسٰحرٰن) متواتر قراء ت ہے۔ ہمیں اس سبعہ قراء ت کی ایک قراء ت کو قبول کرناہے جب کہ نحوی اس کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔ فراء نے یاء والی قراء ت کاتعاقب کرتے ہوئے کہا: ’’ولست أجتری علی ذلک‘‘ (معانی القرآن للفراء:۲؍۲۹۳) ’’میں اس (قراء ۃ) کی جرأت نہیں کرسکتا۔‘‘
 
Top