• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظریہ النحو القرآنی … ایک تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) نحوی قاعدہ: نثرکی صورت میں مرکب اضافی کے درمیان فاصلہ لانا جائز نہیں۔
صحیح قاعدہ: مرکب اضافی میں مفعول بہ کا فاصلہ لانا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ أوْلَادِھِمْ شُرَکَآؤُھُمْ‘‘ قراء میں سے امام ابن عامررحمہ اللہ نے ’’وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ … قَتْلُ أَوْلَادَھُمْ شُرَکَآئِھِمْ‘‘ پڑھا ہے۔ جوکہ متواتر قراء ت ہے۔قرآن مجید سے اس کی دوسری مثال: مُخْلِفَ وَعْدَہُ رُسُلِہٖ (ابراہیم:۴۷) جیساکہ بعض اسلاف نے پڑھا ہے اس میں مرکب اضافی میں اسم مفعول کا فاصلہ لایا گیا ہے۔
(٣) إنَّ کے محل پر خبر مکمل ہونے سے پہلے رفع کا عطف ڈالنا جائز نہیں ہے۔ خبر مکمل ہونے کے بعد اجماعی طور پر جائز ہے۔
صحیح قاعدہ: إن کے محل پر خبر مکمل ہونے کے بعد رفع کا عطف بالاجماع جائز اور خبر مکمل ہونے سے پہلے راجح قول کے مطابق جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’ إنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا وَالصّٰبِئُوْنَ وَالنَّصٰرَی مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ‘‘ قراء کا (الصّٰبِئُون) کے رفع پر اجماع ہے، حالانکہ یہ خبر مکمل ہونے سے پہلے آیا ہے۔اس قراء ت پر قراء کا اجماع اس قاعدے کی دلیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) نحوی قاعدہ: (سواء) نصب کے ساتھ کمزور لغت ہے، اصل لغت رفع ہے۔ (الکتاب لسیبویہ: ۱؍۲۳۳)
صحیح قاعدہ: کلمہ (سواء) میں رفع اور نصب دونوں لغات ہیں۔ نصب دینا درست ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’سَوَائً مَّحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ‘‘ (الجاثیۃ:۲۱) قراء سبعہ میں سے تین قراء نے اس طرح پڑھا ہے۔ (البحر المحیط: ۸؍۴۷، المہذَّب: ۲؍۳۵۳، ھدی البریۃ: ص۵۵) قرآن مجید سے اس کی دیگر مثالیں : ’’الَّذِی جَعَلْنٰہُ لِلنَّاسِ سَوَائً الْعَاکِفُ فِیہِ وَالْبَادِ ‘‘(الحج:۲۵) اور ’’سَوَائً مَحْیَاھُمْ وَمَمَاتُھُمْ‘‘ (الجاثیہ: ۲۱) دونوں مقامات پر کلمہ (سواء) منصوب پڑھا گیا ہے۔
(٥) نحوی قاعدہ: دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔اگر پہلا ساکن حرف مدہ یا لین ہو تو پھر جائز ہے۔ جیسے ’’اَلضَّآلِّیْنَ‘‘اگر پہلا صحیح ساکن حرف ہو تو پھر ممنوع ہے جیسے’’إذْ تّلَقَّوْنَہٗ‘‘ ( النور:۱۵) ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراء ت کے مطابق (ملخص من کتاب سیبویہ :۲؍۴۰۷)
صحیح قاعدہ: دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ پہلا حرف مدولین ہو یا ساکن صحیح ہو۔ مثلاً ’’إذ تلقونہ‘‘ ابن کثیر کی قراء ت میں یہ اور اس کی طرح دیگر مثالیں موجود ہیں۔ قراء ت متواترہ میں اکتیس مرتبہ اسی طرح آیا ہے۔ اسے قراء کی اصطلاح میں (تائے بزی) کہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٦) نحوی قاعدہ: اگر فاء کے بعد مضارع ہو اور وہ جواب نہ ہو تو اس میں صرف رفع پڑھیں گے۔ (الکتاب:۱؍۴۲۳) نصب ضعیف ہے، بلکہ لحن ہے۔(البحر المحیط:۱؍۳۶۵، الدر اللقیط :۱؍۳۶۵)
صحیح قاعدہ: جب فاء کے بعد مضارع واقع ہو اور وہ جواب نہ ہو تو اس میں دو وجہیں جائز ہیں۔رفع اکثر ہے اور نصب قلیل ہے۔ بغیر کسی لحن کے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’إِنَّمَآ أمْرُہٗ إِذَا اَرَادَ شَیْئًا أنْ یَقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ‘‘(یٰسٓ:۸۲) قراء میں سے ابن عامررحمہ اللہ اور کسائی رحمہ اللہ نے نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ متواتر قراء ۃ ہے۔
(٧) نحوی قاعدہ: دو کلموں میں اس وقت ادغامِ مثلین جائز نہیں جب مدغم سے پہلے صحیح ساکن ہو اور جو قراء ت ابو عمرورحمہ اللہ میں (شَھْر رَّمَضَان) آیا ہے وہ ضعیف ہے: [الاتحاف، ص۱۵۴] بلکہ ممنوع ہے۔ (البحر المحیط:۲؍۳۹، الاتحاف، ص۱۵۴، الدرّ اللقیط: ۲؍۳۹)
صحیح قاعدہ: دو کلموں میں ادغام مثلین جائز ہے جب پہلے حرف سے پہلے حرف معتل ہو (البحر المحیط:۲؍۳۹) یا ساکن صحیح ہو مثلاً (شھر رمضان) جیسا کہ ابو عمرو رحمہ اللہ کی قراء ت میں ہے اور وہ محکم متواتر قراء ت ہے۔ (المہذب،ص۸۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٨) نحوی قاعدہ: ایجاب کے بعد استثناء مفرغ لانا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: ایجاب کے بعد استثناء مفرغ لانا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: قرآن مجید میں اس طرح کی تقریباً اٹھارہ آیات ہیں (یہ ڈاکٹر عضیمہ کے بیان کے مطابق ہے۔ (المقدمۃ، ص۸) مثلاً ’’وَإنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ إِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ‘‘، ’’ لَتَأتُنَّنِیْ بِہٖ إلَّا أنْ یُحَاطَ بِکُمْ‘‘ ’’وَإنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً إلَّاعَلَی الَّذِیْ ھَدَی اﷲُ‘‘ (البقرۃ:۴۵)
’’ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ أیْنَمَا ثُقِفُوْا إلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اﷲِ‘‘ (آل عمران:۱۱۲)
’’وَمَنْ یُوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗ إِلَّامُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ‘‘ (الأنفال:۱۲)

ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام مثالوں میں ایجاب کے بعد استثناء مفرغ لایا گیا ہے۔ اتنی واضح آیات کے مقابلے میں ایک نحوی قاعدے کی حیثیت کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
(٩) نحوی قاعدہ: یائے متکلم کو فتحہ دینا واجب ہے۔ بمصرخی جیسی صورت میں کسرہ دینا درست نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: یائے متکلم کو فتحہ دینا اکثر ہے اور کسرہ دینا قلیل ہے۔مثلاً بمصرخي۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’مَا أنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَا أشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلِ‘‘ (سورہ ابراہیم:۲۲) امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت میں (مصرخی) یاء کے کسرہ کے ساتھ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠) نحوی قاعدہ: (معایش) میں ہمزہ پڑھناجائز نہیں ہے۔جہاں ایسے آیا ہے وہ خطاء ہے۔ (ملخص من المنصف علی التعریف: ۱؍۳۰۷، حاشیۃ استہاب علی تفسیر البیضاوی :۴؍۱۵۲)
صحیح قاعدہ: (معایش) میں ہمزہ پڑھنا غلطی نہیں بلکہ جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ‘‘(الاعراف:۱۰) قراء سبعہ میں سے نافع رحمہ اللہ خارجہ کی روایت میں اور ابن عامررحمہ اللہ کی ایک روایت کے مطابق (معائش) ہمزہ کے ساتھ ہے۔ ان کے علاوہ الاعرج، زید بن علی رحمہ اللہ اور الاعمش رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح پڑھا ہے۔ (القراء ات واللھجات، ص۱۷۹)
(١١) نحوی قاعدہ: دو ہمزہ اگر عین کلمہ میں ہوں تو انہیں تحقیق کے ساتھ پڑھنا جائزنہیں ہے۔ایسے پڑھنا لحن ہے جیسے (أئمۃ) (الخصائص:۳؍۱۴۳)
صحیح قاعدہ: د وہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھنا جائز ہے چاہے وہ دونوں عین کلمہ میں ہوں یا اس کے علاوہ ہوں۔
قرآن مجید میں دلیل: ’’فَقَاتِلُوْا أئِمَّۃَ الْکُفْرِ‘‘ أئمۃ میں تحقیق کے ساتھ، جیسا کہ بہت سی قراء ات میں آیا ہے۔ حفص عن عاصم، حمزہ، ابن عامر اور کسائی رحمہم اللہ نے اس طرح پڑھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٢) نحوی قاعدہ: (أئمۃ)میں دوسرے ہمزہ کو یاء سے بدلنا جائز نہیں ہے۔جو بدلے گا وہ تحریف کرنے والا ہے (مستفاد من کلام الزمخشری في الکشاف :۲؍۱۴۲)
صحیح قاعدہ: (أئمۃ) میں دوسرے ہمزہ کو یاء سے بدلنا جائز ہے۔ یہ علم الصرف میں قیاس کے مطابق ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’فَقَاتِلُوْا أیمۃ الْکُفْرِ‘‘ (التوبہ:۱۲) ہمزہ کے بعد دوسرے ہمزہ کو یاء سے بدل کر پڑھنا متواتر قراء ات سے ثابت ہے۔ قراء میں سے ابن کثیر، ابو عمرورحمہم اللہ اور ایک روایت کے مطابق نافع رحمہ اللہ نے اسی طرح پڑھا ہے۔
(١٣) نحوی قاعدہ: (نَبِي و بَرِیَّۃ) میں ہمزہ تحقیق کے ساتھ پڑھنا کمزور ہے۔(مستفاد من الکتاب ۲؍۱۶۳، ۲؍۱۷۰)
صحیح قاعدہ: (نَبِيّ و بَرِیَّۃ) میں ہمزہ تحقیق کے ساتھ پڑھنا صحیح لغت ہے اس میں کوئی کمزوری نہیں۔
قرآن مجید سے دلیل: امام نافع رحمہ اللہ نے دونوں جگہوں پر ہمزہ کی تحقیق کے ساتھ پڑھا ہے۔سورہ تحریم میں ’’یٰاَیُّھَا النَّبِیٓئُ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أحَلَّ اﷲُ لَکَ‘‘ اور سورہ البینہ میں: ’’ اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیٓــــــــــــۃِ ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٤) نحوی قاعدہ: مجزوم فعل سے متصل ہاء کو ساکن پڑھنا جائز نہیں ہے مثلاً (یُؤَدِّہٖ)، (نُوَلِّہٖ) اور (نُصْلِہٖ) ایسا پڑھنا غلط ہے یا قراء کا وہم ہے۔
صحیح قاعدہ: فعل مجزوم سے متصل ہاء کو ساکن پڑھنا جائز ہے جیساکہ اس میں اشمام، اشباع اور اختلاس جائز ہے۔ (کتاب السبعۃ: ص۲۰۷، المھذَّب: ص۱۲۷)
قرآن مجید سے دلیل: قراء میں سے ابوعمرو، عاصم اور امام حمزہ رحمہم اللہ نے اس طرح پڑھا ہے۔
(١٥) نحوی قاعدہ: اضافت کے ساتھ (کلّ) کا نکرہ کا مفعول بہ بن کر آنا ممنوع ہے۔
صحیح قاعدہ: اضافت کے ساتھ (کلّ) کا نکرہ کے لیے مفعول بہ بن کر آنا جائز ہے۔ شیخ عضیمہ نے ۳۶ مقامات بیان کئے ہیں جن میں اس طرح آیا ہے۔
قرآن مجید سے دلائل: ’’وَإنْ یَّرَوْا کُلَّ آیَۃٍ لَّا یُوْمِنُوْا بِھَا‘‘(الانعام:۲۵)، ’’وَسِعَ رَبِّیْ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا‘‘ (الأنعام:۸۰)
(١٦) نحوی قاعدہ: إذا شرطیہ کی جملہ فعلیہ کی طرف اِضافت لازم ہے جملہ اسمیہ کی طرف اضافت جائز نہیں۔
صحیح قاعدہ:إذاشرطیہ کی اِضافت جملہ فعلیہ کی طرف اکثر اور جملہ اسمیہ کی طرف قلیل ہے۔ اس کے بارے میں بیس سے زیادہ آیات موجود ہیں۔
(١٧) نحوی قاعدہ : جو کلمات شَنَئانُ کے وزن پر آئے ہیں، ان میں دوسرے حرف کو حرکت دینا واجب ہے۔
صحیح قاعدہ: شَنَئَانُ کے وزن پر آنے والے کلمات میں دوسرے حرف کو حرکت دینا جائز اور اکثر ہے جبکہ ساکن کرنا بھی جائز ہے اور یہ قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل :’’وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ‘‘ (المائدۃ:۵) شنآن میں نون ساکن کے ساتھ ابن عامررحمہ اللہ نے پڑھا ہے۔ (کتاب السبعۃ، ص۲۴۲) اور یہ متواتر قراء ت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٨) نحوی قاعدہ: (تَأْمُرُوٓنِّي) اور اس جیسی مثالوں میں نون کو مشدد پڑھنا واجب ہے۔ تخفیف کے ساتھ پڑھنا لحن ہے۔
صحیح قاعدہ: (تَأْمُرُوٓنِّي) اور اس جیسی مثالوں میں نون مشدد پڑھنا اکثر ہے اور مخفف پڑھنا جائز اور قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ قُلْ أفَغَیْرَ اﷲِ تَأمُرُوٓنِّیٓ أعْبُدُ أیُّھَا الْجٰھِلُوْنَ ‘‘ (الزمر:۶۳) امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامررحمہ اللہ نے اپنی ایک روایت میں نون تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ متواتر قراء ت ہے۔
(١٩) ’’ أنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِد الْحَرَامِ‘‘ میں ہمزہ کو کسرہ دینا ممنوع ہے۔
صحیح قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ’’ أن صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ‘‘ میں (أن) ہمزہ کو کسرہ دینا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: اس آیت کریمہ میں امام ابو عمرورحمہ اللہ اور ابن کثیررحمہ اللہنے (إن) ہمزہ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔
(٢٠) آیت کریمہ ’’فَبِھُدَاہُمُ اقْتَدِہْ قُلْ‘‘(الانعام:۹۰) میں وصل کی صورت میں ہاء کو باقی رکھنا جائزنہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ’’ فَبِھُدَاہُمُ اقْتَدِہْ قُلْ‘‘ میں وصل کی حالت میں ہاء کو باقی رکھنا جائز ہے۔ جیساکہ بہت سی متواتر قراء ات میں آیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢١) نحوی قاعدہ: اسم فاعل نکرہ، حال یا مستقبل کے معنی میں ہو تو بعد والے کو نصب دیتا ہے اور اگر ماضی کے معنی میں ہو تو پھر یہ عمل نہیں کرتا۔
صحیح قاعدہ: اسم فاعل نکرہ حال یامستقبل کے معنی میں ہو تو بعد والے اسم پرعمل کرتاہے اور اگر ماضی کے معنی میں ہو تو اس کا عمل کرنا قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’ وَکَلْبُھُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ ‘‘ (الکہف:۱۸) یہ متواتر قراء ۃ بالکل واضح ہے ۔ کسی قسم کی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
(٢٢) نحوی قاعدہ: (الْوَلَایَۃُ) میں واؤ کو فتح دینا واجب ہے۔ کسرہ دینا جائز نہیں بلکہ لحن ہے۔
صحیح قاعدہ: (الْوَلَایَۃُ) میں واؤ کا فتحہ اکثر ہے اور کسرہ جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ ھُنَالِکَ الْوَلَایَۃُ ﷲِ الْحَقُّ ‘‘ واؤ کے کسرہ کے ساتھ قراء ۃ متواترہ سے ثابت ہے۔ (النشر في القراء ات لابن الجزری : ۲؍۲۷۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٣) (ء أَنذَرْتَھُمْ) میں دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ : (ء أَنذَرْتَھُمْ) میں دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر دو ہمزوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ جیساکہ دونوں ہمزوں کو تحقیق کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’إنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَائٌ عَلَیْہِمْ ئَ أنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ ‘‘(البقرۃ:۶) قراء ۃ متواترہ میں دوسرے ہمزہ کو الف سے بدل کر پڑھنا ثابت ہے۔ (غیث النفع ص۲۶، البحر: ۱؍۴۷)
(٢٤) نحوی قاعدہ: دو ہمزوں کو اس طرح جمع کرنا کہ ان کے درمیان الف ہو، جائز نہیں ہے، (ضِیَآئ) یا اس جیسے کلمات میں اس طرح پڑھنا مردود ہے۔
صحیح قاعدہ: دو ہمزوں کو اس طرح جمع کرنا کہ ان کے درمیان الف ہو، جائز ہے، کیونکہ صحیح سماع سے یہ ثابت ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا ‘‘ (یونس:۵) امام ابن کثیررحمہ اللہ نے (ضِیَائً) کو دو ہمزوں کے ساتھ (ضِئَائً) پڑھا ہے۔ (کتاب السبعۃ ، ص۳۲۳) جو کہ متواتر قراء ت ہے۔
 
Top