• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نظریہ النحو القرآنی … ایک تحقیقی جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٥) نحوی قاعدہ: جب فعل ماضی ہو اور قد سے پہلے نہ ہو توحال کا جملہ فعلیہ لانا جائزنہیں ہے ۔(الإنصاف مسئلہ نمبر۳۲)
صحیح قاعدہ: حال کا جملہ فعلیہ لانا جبکہ فعل ماضی ہو مطلق طور پر جائز ہے۔ قد سے پہلے ہونا اکثر ہے اور قد کے بعد ہونا قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’أوْ جَائُ وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُھْم ‘‘ (النساء :۹۰) اس کے علاوہ دیگر بہت سی آیات ہیں جو قراء ات متواترہ سے ثابت ہیں۔
(٢٦) نحوی قاعدہ: ثُمَّ کے ساتھ لامِ امر متحرک لایا جائے گا، ساکن لانا جائز نہیں ہے، ایسا کرنا قبیح ہے۔
صحیح قاعدہ: ثُمَّ کے ساتھ لامِ امرمتحرک یا ساکن دونوں طرح لایا جا سکتا ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ ‘‘ (الحج:۲۹) قراء ات سبعہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
(٢٧) کلمہ (لیکۃ) جو کہ غیر منصرف ہے، اسے منصرف کا اعراب دینا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کَذَّبَ أصْحٰبُ لْــــــــــیْکَۃِ الْمُرْسَلِیْنَ ‘‘ (الشعراء :۱۷۶)
امام ابن کثیر، نافع اور ابن عامررحمہم اللہ نے اس کلمہ کو منصرف پڑھا ہے، تین آئمہ کا متواتر قراء ۃ میں اسے اختیار کرنا اس کے جواز کی واضح دلیل ہے۔
(٢٨) نحوی قاعدہ: ’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَد، اﷲُ الصَّمَدُ‘‘ میں کلمہ (احد) کو تنوین دینا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: کلمہ احد کو تنوین دینا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:’’قُلْ ھُوَ اﷲُ أحَدٌ اﷲُ الصَّمَدُ ‘‘ میں احد کو تنوین کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ بہت سے قراء نے اس قراء ت کو اختیار کیا ہے۔ (تفسیر طبری :۳۰؍۱۹۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٩) نحوی قاعدہ: (نُنجِي) کلمہ کو ایک نون، جیم مشدد اور یاء مفتوحہ کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں۔
صحیح قاعدہ: کلمہ (نجی) کوایک نون، جیم مشدد اوریاء مفتوحہ کے ساتھ پڑھنا جائز ہے اس میں کوئی غلطی نہیں۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ حَتَّی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوْا أنَّھُمْ قَدْ کُذِّبُوْا جَائَ ھُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَائُ وَلَا یُرَدُّ بَأسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ ‘‘ (یوسف:۱۱۰) امام ابن عامر اور امام عاصم نے ابوبکر اور حفص رحمہم اللہ کی روایت کے مطابق اسی طرح پڑھا ہے۔( کتاب السبعۃ، ص۲۸۸)
(٣٠) نحوی قاعدہ: (مِائَۃ) کو واحد کی طرف مضاف کیا جائے گا۔ جمع کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں۔
صحیح قاعدہ: (مِائَۃ) کی اضافت مفرد کی طرف اکثر اور جمع کی طرف قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’وَلَبِثُوْا فِیْ کَھْفِھِمْ ثَلَاثَ مِائَۃٍ سِنِیْنَ‘‘ (الکہف:۲۵) مائۃ کی اضافت سنین کی طرف ہے (کتاب السبعۃ، ص۳۹۰)، امام کسائی اور حمزہ رحمہم اللہ نے اسے اختیار کیا ہے۔’’ ثَلَاثَ مِائَۃِ سِنِیْنَ ‘‘
(٣١) نجوی قاعدہ: (أَرْجِئْہُ) میں ہمزہ ساکن کے بعد ہاء کو کسرہ دینا جائز نہیں ہے۔ جہاں کہیں ایسا ہے وہ غلط اور مردود ہے۔
صحیح قاعدہ: (أرجئہ) کی ھاء کو کسرہ دینا مطلق طور پر جائز ہے، اس سے پہلے ہمزہ ساکن ہو یا متحرک ہو۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ قَالُوْا أرْجِہْ وَأخَاہُ وَأرْسِلْ فِی الْمَدَائِنِ حٰشِرِیْنَ ‘‘ (الأعراف: ۱۱۱) (أرجئہ) امام ابن عامررحمہ اللہ نے ہمزہ ساکن اور ہاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے جو کہ متواتر قراء ت ہے۔ (کتابُ السّبعۃ ص۲۸۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٢) نحوی قاعدہ: اسم ذات کی خبر اسم معنی لانا جائز نہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: اسم ذات کی خبر لانا مطلقاً جائز ہے۔ خبر کااسم ذات ہونا اکثر اور اسم معنی ہونا قلیل ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ نَحْنُ أعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُوْنَ بِہٖ إِذْ یَسْتَمِعُوْنَ إِلَیْکَ وَإِذْ ھُمْ نَجْویٰ ‘‘ (الاسراء:۴۷) اسم ذات (ہُمْ) کی خبر اسم معنی (نجویٰ) کے ساتھ آئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں مثلاً ’’ أوْ یُصْبِحَ مَاؤُھَا غَوْرًا ‘‘ (الکہف: ۴۱)
(٣٣) نحوی قاعدہ: وصل کی حالت میں دو ساکنوں کو جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ ’’فَمَا اسْطَاعُوْا‘‘ (الکہف: ۹۷) امام حمزہ رحمہ اللہ کی قراء ت میں طاء مشدد کے ساتھ پڑھا گیا ہے: ’’فَمَا اسْطَّاعُوْا‘‘
صحیح قاعدہ: آیت کریمہ ’’ فَمَا اسْطَاعُوْا‘‘ میں وصل کی حالت میں دو ساکن جمع کرنے جائز ہیں۔
قرآن مجید سے دلیل:’’فَمَا اسْطَاعُوْا‘‘ امام حمزہ رحمہ اللہ نے طاء مشدد کے ساتھ پڑھا ہے جو کہ متواتر قراء ت ہے۔
(٣٤) نحوی قاعدہ: الوعد کو (فَاعَلَ) کے وزن پر لانا جائز نہیں۔ الف کے بغیر (وَعَدَ) کہا جائے گا۔
صحیح قاعدہ: الوَعْد کو الف کے ساتھ (وَاعَدَ) اور الف کے بغیر (وَعَدَ) دونوں طرح لانا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل : ’’ وَاِذْ وَاعَدْنَا مُوْسیٰ ‘‘ (البقرۃ:۵۱) قراء سبعہ میں ابوعمرو رحمہ اللہ کے علاوہ باقی چھ قراء نے (وَاعَدَ) الف کے ساتھ پڑھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٥) نحوی قاعدہ: ’’ فَیَغْفِرُ لِمَن یَّشَائُ ‘‘ میں راء کا لام میں ادغام جائزنہیں ہے۔
صحیح قاعدہ: آیت کریمہ ’’ فَیَغْفِرُ لِمَن یَّشَآئُ ‘‘ وغیرہ کلمات میں راء کا لام میں ادغام جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ فَیَغْفِرُ لِمَن یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَائُ‘‘ (البقرۃ:۲۸۴) امام ابوعمرو رحمہ اللہ نے راء کے لام میں ادغام کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ متواتر قراء ت ہے۔(کتاب السبعۃ، ص۱۹۵)
(٣٦) نحوی قاعدہ: (من راق) میں ادغام کے ساتھ پڑھا جائے گا۔ نون کے اظہار کے ساتھ پڑھنا عیب ہے۔
صحیح قاعدہ: جس طرح ادغام جائز ہے اسی طرح نون میں اظہار بھی جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍ‘‘(القیامۃ:۲۷) امام عاصم نے نون کے اظہار (مع سکتہ) کے ساتھ پڑھا ہے جو کہ متواتر قراء ت ہے۔
(٣٧) نحوی قاعدہ: ارشاد باری تعالیٰ ’’لَقَدْ تَقَطَّعَ بَیْنَکُمْ‘‘ میں کلمہ (بَیْن) پر نصب پڑھنا جائز نہیں ہے۔ رفع پڑھا جائے گا۔
صحیح قاعدہ: کلمہ (بَیْن) میں رفع کی طرح نصب بھی جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’ لَقَدْ تَقَطَّعَ بَیْنَکُمْ‘‘ (الأنعام: ۹۴) قراء میں سے امام نافع، کسائی اور حفص عن عاصم رحمہم اللہ نے (بَیْنَ) نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣٨) نحوی قاعدہ:ارشاد باری تعالیٰ ’’ نَخْسِفْ بِھِم‘‘ میں فاء کا باء میں ادغام جائز نہیں ہے۔ اصل وَجہ اظہار ہے۔
صحیح قاعدہ: ’’ نَخْسِفْ بِھِمْ ‘‘ میں اظہار کی طرح ادغام بھی جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’إنْ نَشَأ نَخْسِفْ بِھِمُ الْأرْضَ‘‘ (السّبا:۹) امام کسائی رحمہ اللہ نے فاء میں باء کے ادغام کے ساتھ پڑھا ہے جو کہ متواتر قراء ت ہے۔ (کتاب السبعۃ ص۲۵۷، الإتحاف ص۳۵۷)
(٣٩) نحوی قاعدہ: (فِعْلَیٰ) کے وزن پر (ضِیزَیٰ) جیسی مثالوں میں ہمزہ لانا جائز نہیں ہے کیونکہ جب ہمزہ لایا جائے گا تو وہ صفت بن جائے گا اور فِعْلَیٰ صفت نہیں ہوتی۔
صحیح قاعدہ: فِعْلَیٰ کے وزن پر (ضِیزَیٰ) جیسی مثالوں میں ہمزہ لانا جائز ہے کیونکہ یہ سماع سے ثابت ہے۔
قرآن مجید سے دلیل:ارشاد باری تعالیٰ ’’ تِلْکَ إذًا قِسْمَۃٌ ضِیْزٰی ‘‘ (النجم:۲۲) امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے ہمزہ کے ساتھ (ضیزی) پڑھا ہے۔
(٤٠) نحوی قاعدہ: جب اسم ثلاثی، صحیح العین، مفتوح الفاء ہو تو (فَعل) کی جمع (أفعال) کے وزن پر لانا جائز نہیں۔
صحیح قاعدہ: جب ثلاثی اسم، صحیح العین، مفتوح الفاء ہو تو (فعل) کی جمع (أفعال) کے وزن پر لانا جائز ہے۔
قرآن مجید سے دلیل: ’’وَأوْلَاتُ الْأحْمَالِ أجَلُھُنَّ أنْ یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ‘‘ ( الطلاق:۴) یہاں پر (حَمل) کی جمع (أَحْمَال) آئی ہے جو متواتر قراء تہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عمومی جائزہ
سابقہ مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عام طور پر بصری، کوفیوں سے قراء ات کی مخالفت میں آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ قراء ات کو لحن، کمزور، خطا اور نامناسب القابات سے نوازنے میں وہ نسبتاً بے باک ہیں۔ اس کی ایک وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ سماع پر قیاس کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔جو اس بارے میں مزید تفصیلات چاہتا ہے وہ ’’اعتبار القیاس في المدرسۃ البصریۃ‘‘ (یہ مولف کاایک مضمون ہے جو مجلہ کلیۃ الآداب، جامعہ القاھرہ، جلد۲۴ جز ثانی دسمبر ۱۹۶۲ء میں شائع ہواہے) اور ’’الموازنۃ بین المناہج البصریۃ‘‘ (مؤلف کا ہی ایک دوسرا مضمون ہے جو سابق مصدر میں۱۹۶۲ء میں شائع ہوا)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کیا قراء ات متواترہ پر اعتراض اور طعن کے وقت خاموش رہنا چاہئے؟
بغیر کسی استثناء کے تمام قراء ات پراعتراضات کئے گئے۔ ان کی وجوہ میں سے کسی نہ کسی وجہ کوطعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح ایک بھی قراء ت ایسی نہیں بچی جسے یہ نحوی متواتر اور صحیح تسلیم کریں۔اس صورت حال میں اپنے دین اور کتاب کے بارے میں غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، قراء ات پر اس طعن کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا اورکتاب اللہ کا دفاع ہر پہلو سے ہم پر لازم ہوجاتاہے۔﷜﷜﷜﷜
شیخ عضیمہ رحمہ اللہ اس مسئلے کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عنوان قائم کرتے ہیں ’’القراء السبعۃ ونصیب کل منھم في تلحیین قراء تہ‘‘ (مقدمۃ دراسات لأسلوب القرآن الکریم ص۳۴، جزء اوّل)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’قراء سبعہ اور ان میں سے ہر ایک کی قراء ت میں غلطی کا حصہ‘‘
اس عنوان کے تحت انہوں نے ہر ایک قاری پرکئے گئے اعتراضات جمع کئے ہیں جن کاخلاصہ حسب ذیل ہے:
(١) امام ابن عامررحمہ اللہ(ت ۱۱۸ھ) کی قراء ت میں۱۸ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٢) امام حمزہ رحمہ اللہ (ت۱۵۰ھ) کی قراء ت میں ۱۵ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٣) امام نافع رحمہ اللہ (ت ۱۶۹ھ) کی قراء ت میں ۱۲ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٤) امام کسائی رحمہ اللہ (ت۱۸۰ھ) کی قراء ت میں ۱۱ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٥) امام ابن کثیررحمہ اللہ (ت ۱۲۰ھ) کی قراء ت میں ۹ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٦) امام ابی عمرو رحمہ اللہ(ت ۱۵۴ھ) کی قراء ت میں ۷ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
(٧) امام عاصم رحمہ اللہ(ت۱۲۷ھ) کی قراء ت میں ۷ غلطیاں بیان کی گئی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ صرف وہ اعتراضات ہیں جو قراء ات سبعہ پر وارد کئے گئے ، دیگر قراء ات پر کئے جانے والے اعتراضات ان کے علاوہ ہیں۔ اس ساری گفتگو کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایک بھی قراء ت ایسی نہیں جسے تقدس حاصل ہو، تمام لوگ اس کااحترام کریں اور وہ غلطی سے مبّرا ہو۔
ان کے ان اعتراضات کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیاجاسکتا اورنہ ہی ان کی جراء ت پر خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے۔خاص طور پر جب کے یہ تمام اعتراضات بے بنیاد اور بغیر کسی علمی سند کے ہیں۔ ہرشخص کو قرآن کریم پر اعتماد کرنا ہوگا اور اسے مصدر اوّل بنانا ہوگا۔ اس صورت میں قراء ات متواترہ ان اعتراضات سے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
ہم نے اس بحث کے ذریعے معروف نحو کی فطری طور پر حفاظت کی ہے ۔ باوجود اس بات کے کہ ہم نے اس کے بہت سے ابواب میں اصلاح کی کوشش کرتے ہوئے قواعد کو درست کیاہے۔ قواعد کی یہ درستگی محض اس بنیاد پر ہے کہ ہر اصول کی طرح نحو کی اصل بھی قرآن مجید ہے۔ لہٰذا اس کی متواتر قراء ات میں جو کچھ موجود ہے وہی نحو کی اساس ہے۔ اگر کہیں معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہ قراء ت کی نہیں نحاۃ کی غلطی ہے کہ انہوں نے یہ قاعدہ قرآن مجید کے موافق کیوں نہ بنایا یا علم ہو
نے کے بعد اس کی اصلاح کیوں نہ کردی۔اب بھی اگر کسی جگہ پر معروف نحوکا قاعدہ قرآنی آیت کے معارض معلوم ہو تو قرآن مجید کی محبت، عظمت، حفاظت، دینی حمیت اور نحو کی خدمت کاطریقہ یہ ہے کہ اس قاعدہ کو تبدیل کرکے قرآن مجیدکے موافق بنا دیا جائے۔ اس سے قرآن مجید کی عظمت بھی برقرار رہے گی اور نحوبھی صحیح اسلوب اختیار کرلے گی۔ جس سے اس کی فصاحت و بلاغت میں اضافہ ہوجائے گا اور یہ نحو کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔﷜﷜﷫﷫﷫﷫﷫﷫﷫

٭_____٭_____٭
 
Top