• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::::::: نفسیاتی دباؤ Anxiety سے نجات کا طریقہ :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::::::: نفسیاتی دباؤ Anxiety سے نجات کا طریقہ :::::::
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم والصلاۃ و السلام علی رسولہِ الکریم محمد، و علی آلہ واصحابہ و ازواجہ اجمعین
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہ،
یہ بات تقریباہم سب ہی محسوس کرتے ہیں کہ، ہمارے موجودہ دور کےتیز رفتار انداز زندگی نے ، اور معاشرتی ، معاشی اور اخلاقی اقدار میں قعطاً نا مُناسب تبدیلیوں نے ، اور سوچ و فِکر کے منفی انداز نے ہمیں مستقل نفسیاتی دباؤ کے پہیے کے نیچے دبا رکھا ہے ،
ہم اِس نفساتی دباؤ کوعام طور پر طبی اصطلاحات میں Anxiety کے نام سے جانتے ہیں ،اور اس کے مختلف ایسے نتائج کو جانتے ہیں جو مادی طور پر ہمارے جسم میں ظاہر ہوتے ہیں بنی نوع انسان کی بہت سی بیماریوں کا سبب اُن کے اجسام میں کوئی مادی تبدیلی ہوتی ہے اور آج کے دور میں اس سبب کا سب سے بڑا سبب کوئی خارجی مادہ(External Material)یا حیوان یا جراثیم ،
(Germ or Bacteria)نہیں ہوتا جو جسم میں داخل ہو کر اُس کی تخریب کا سبب بنتا ہو ، بلکہ یہ نفسیاتی دباؤ انسانوں کے جسموں میں اس قدر تبدیلیوں کا سبب ہو جاتا ہے کہ ان کے خواص بدل جاتے ہیں اور وہ مختلف بیماریوں اور اوھام کا شکار ہو جاتے ہیں ، مثلاً ذیا بیطس (Sugar)،

خون کا دباؤ (Blood Pressure) ،
جزوی طور پر جسمانی جھٹکے (Partial Seizers)،
پٹھوں کا خودکار طور پر پھڑکنا (Involuntary movements)،
پٹھوں کا اکڑنا (Muscle Spasm)،
خود اعتمادی (Self Confidence) کا فقدان ، وغیرہ وغیرہ ،
میں جب اپنے روزمرہ کا معمول پر نظر کرتا ہوں تو سوائے نفسیاتی دباؤ کے اور کچھ حاصل نہیں کرتا ، سارا ہی دن مختلف قِسم کے دباؤ مجھے پیستے رہتے ہیں ،
صبح آنکھ کھلتے ہی زندگی کی دوڑ میں شامل ہوجاتا ہوں ، شدید پھنسی ہوئی ٹریفک میں گاڑی چلاتے ہوئے کام تک پہنچنا ، پھر ، میٹنگز ، یہاں وہاں کاغذات ہی کاغذات ، یہ کمپیوٹر، وہ لیپ ٹاپ ، یہ ٹیلی فون وہ موبائل ، اُس کی شکایت ، اِس کی شکایت ،
یہ تیز رفتار اندازء زندگی میرے اعصاب کو کچلے دیتی ہے ، چڑچڑا پن ، غصہ ، پریشانی بار بار مجھے آن دبوچتے ہیں ، جن پر قابو پاتے پاتے میں بے حال ہو جاتا ہوں ، مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں پریشانیوں اور فِکروں کے ایسے سمندر میں غرق ہو رہا ہوں جس کی موجوں میں ہر لمحہ اضافہ ہوتا ہے اور ہر موج پہلے والی سے زیادہ وزن اور دباؤ والی ہوتی ہے ،
اِس سے پہلے کہ میں اُن میں سے کسی ایک لہر سے ہی بچ سکوں کوئی اور لہر مجھے آن دبوچتی ہے ، اور پھر ، اِس سے پہلے کہ میں اپنی سماعت اور بصارت سے ہی منقطع ہو جاؤں مجھے چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں سے پیغام رسانوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان سنائی دیتا ہے
﴿يا بِلالُ أَقِمِ الصَّلاةَ أَرِحْنَا بِھَا:::اے بلال نماز کھڑی کرو اور ہمیں اس کے ذریعے راحت دوسنن ابو داؤد /حدیث 4985 /کتاب الادب/باب86، المعجم الکبیر/حدیث 6214 ، صحیح الجامع الصغیر /حدیث 7893 ،
اور میرے دِل و دِماغ میں یہ سوال گونجنے لگتے ہیں کہ نماز میں اب یہ خوبی کیوں نہیں رہی کہ وہ ہماری اس پریشان حال تیز رفتار زندگی میں ہمارے لیے راحت و سکون کا سبب بن سکے ؟؟؟
کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی عبادات میں پھر سے یہ خصوصیت حاصل کر سکیں کہ وہ ہماری زندگیوں میں ، ہمارے نفوس میں راحت ، سکون اور باطنی طاقت کے حصول کا سبب بن جائیں ؟ ایسی باطنی طاقت جو زندگی کی پریشانیوں کی مشقت پر حاوی رہنے کا سبب ہوتی ہے ،
ہو سکتا ہے کچھ لوگ میری اس بات پر غصے میں آ جائیں کہ ایک طبی اور جدید دور کی جدید مصیبت کی معلومات پر مبنی اس بات میں اللہ کی عبادت کا ذکر کہاں سے آ گیا ، اور یہ کہ اللہ کی عبادات تو صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جاتی ہیں نہ کہ دوسرے فوائد کے لیے ،
تو اُن سے گذارش کروں گا کہ"""جی ہاں ، اللہ کی عِبادات صِرف اور صِرف اللہ کی رضا کے حصول کی نیّت سے ہی کی جانی چاہیں، یہی مطلوب ہے ، لیکن یہ بھی حق ہے کہ اللہ جِسے چاہے اِن عِبادات کے ذریعے دُنیاوی زندگی کے بھی کئی مادی اور روحانی فوائد میسر فرما دیتا ہے"""،
قارئین کرام ، اگر تحمل سے اس موضوع پر، میری ساری گذارشات مکمل طور پر پڑھ لیں تو اِن شاء اللہ میرے ہم خیال ہو جائیں گے کہ:::

"""""ہماری شریعت میں جتنی بھی عبادات دی گئی ہیں وہ اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں کو ایک بہت اچھے انداز منظم کرنے کا بھی ایک بہت مضبوط ذریعہ ہیں ، اور ہمارے نفوس کے اضطراب اور سکون ، خوف اور امن ، بے آرامی اور راحت کے درمیان بہترین توازن بھی پیدا کرتی ہیں """""
اور وہ یوں کہ اُن عبادات کے ذریعے ہم اپنے رب اللہ عزّ وجلّ سے براہ راست تعلق میں ہوتے ہیں ، اور ہمیں اُس کی عظمت اور قوت کا احساس سکون ، راحت اور امن کا پھر پور احساس دلاتا ہے ﴿ ألا بِذِكرِ اللهِ تَطمَئِنُ القُلُوب:::کیا اللہ کے ذِکر سے دِل اطمینان نہیں پاتے بے شک ایسا ہونا حق ہے ، اسی لیے میں یہ خیال کرتا ہوں جس کا ابھی ذِکر کیا ہے ،
پس ہمیں پابند کیا گیا ہے کہ ہم تمام عبادات بہترین اور مکمل طور پر ادا کریں یعنی اپنے دِل و دِماغ کی حاضری اور یقینء کامل کے ساتھ ادا کریں ، اسطرح ہمیں اُن عِبادات کی وہ خصوصیت بھی پھر سے مل جائے گی جو ہمارے لیے ایک گمشدہ افسانہ ہو چکی ہے

:::أعصابی دباؤ ،،، تعریف ،،، اقسام اور اثرات:::
اس سے پہلےکہ ہم مختلف عبادات کے سمندر میں غوطہ زن ہوں اور ان میں پائے جانے والے اطمینان اور سُکون کے موتی اور جواہرات کی پہچان کریں ، اور ان کے حیرت انگیز اثرات کی خبر حاصل کریں ، ہمیں چاہیے کہ ہم أعصابی دباؤ ، اس کی تعریف اور اقسام اور اس کے اثرات کو جانیں ،
یہ دباؤ تقریباً انسان کے ہر ایک حصے پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس کی مستقل موجودگی اس کے اثرات کو مزید خوفناک بنا دیتی ہے جب آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طور پر اِس کے اثرات اِنسان کے لا شعور اور اِنسان کے باطن کی گہرائیوں تک کو ایسے نقصانات پہنچاتا ہے جس کا اندازہ اِنسان کو عموماً اُس وقت ہوتا ہے جب معاملہ تقریباً سُدھار کے قابل نہیں رہتا ،
اِنسان خُود کو پیش آنے والے مختلف أعصابی دباؤ کا جس طرح جواب دیتا ہے وہ دباؤ اسی طرح اِنسان کے جسم پر اثرات مرتب کرتے ہیں ، مثلاً کسی دباؤ کی صورت میں اِنسان اگر فرار ہونے کا سوچتا ہے تو اِنسان کا جِسم کسی خطرے کا سامنا کرنے یا اس سے بچ کر نکلنے کے لیے ایڈرینل گلینڈ(Adrenal Gland)میں بننے والے ایڈرینالین ہارمون(AdrenalineHormone) اور کورٹیزول ہارمون(Hormone Cortisol)کو کثرت سے خارج کرتا ہے جو کہ جسم کو ایسے کسی دباؤ کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے وقتی طور پر فوری قوت مہیا کرتے ہیں ، اور جسم کو کسی متوقع خطرے سے بچنے کی ہمت دیتے ہیں ،
اِس مندرجہ بالا مثال میں بظاہرخطرے والی تو کوئی بات نظر نہیں آتی لیکن، اگر وہ دباؤ جس کے نتیجے میں اِنسان کے جسم میں یہ کام ہوتا ہے مستقل برقرار رہے یاآتا جاتا رہے تو اِنسان کے جسم میں طاقت مہیا کرنے والے یہ ہارموننز ضرورت سے زیادہ جمع ہوتے جاتے ہیں جو اِنسان کے جسم اور دماغ کے باہمی ربط میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ،
اور اگر ایسی حالت میں انسان یہ محسوس کرے کہ وہ مجبور ہے کہ یا تو اس دباؤ کا سامنا کرے یا اس سے فرار اختیار کرے، خود کوئی اور فیصلہ کرنے کا اختیار اس کے پاس نہیں ، تو ایسی صورت میں خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے کیونکہ جسم اور دماغ کی قوتیں بڑھی ہوئی ہوتی ہیں اور جب انہیں کہیں نکلنے ، کہیں استعمال ہونے کا موقع مہیا نہیں ہوتا تو وہ اپنے ہی نقصان کا سبب بن جاتی ہیں،
أعصابی دباؤ کی صورت میں اِنسانی جِسم کے ردَّ عمل اور جوابات کو تین مختلف مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے ان شاء اللہ زیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ،
(1) ::: تنبیہ (وارننگ )کیے جانا Warnings::: اِس مرحلے کا اور اس میں خارج ہونے والے ہارمونز Hormones کا ذکر ابھی ابھی کیا جا چکا ہے ،

(2) :::: مدافعت کرنے کا مرحلہ Resistance::: اِس مرحلے میں ، پہلے مرحلے میں پیدا اور خارج ہونے والی طاقت کو استعمال کیا جانا ہوتا ہے ،
(3):::جسم کے اندرونی أعضاء پر شدید مشقت وارد ہونےاور اُنکے خراب ہونے کا مرحلہ Stress and Destruction::: اگر دوسرا مرحلہ پورا نہ ہو سکے تویہ تیسرا مرحلہ ایسے مستقل أعصابی دباؤ بننے کا ہوتا ہے جو ہائی بلڈ پریشر ، دل کے امراض ، شوگر ، اور دیگر کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں جن کا ذکر آغاز میں کیا گیا ، اور اگر معاملات اس طرح چلتے اور بڑھتے رہیں تو وقت گذرنے پر اندرونی اور بسا اوقات بیرونی جسمانی أعضاء کی تخریب اور بالآخر ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں ،

ان تینوں کیفیات کو ایک ہی جگہ ذکر کرنا ہو تو تین مخلتف جملوں میں یوں لکھا ، کہا جاتا ہے ،
Fight or Flight Response,
Fright, Fight or Flight Response, and Fright, Flight or Freeze Response
جس طرح ہم نے اِس موضوع کو سمجھنے کے لیے انسانی جسم کے ردّءِعمل کو مختلف مراحل میں تقسیم کیا ہے اسی طرح دباؤ کو بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ،
::: دباؤ بننے کے اعتبار سے :::
(1) ::: اندرونی دباؤ Internal Stress or Psychical Stress::: جو انسان کی اپنی سوچوں کا نتیجہ ہوتا ہے،
(2) بیرونی دباؤ External Stress ::: جو بیرونی عوامل کا نتیجہ ہوتا ہے ،
::: اِنسان کی طرف سے دباؤ پر ردّءِ عمل اور جواب کے اعتبار سے :::
(1) ::: تعمیری دباؤ Constructive Stress::: جس کے نتیجے میں کوئی تعمیری کام واقع ہو جاتا ہے ،
(2) ::: تخریبی دباؤ Destructive Stress ::: جس کے نتیجے میں کوئی نقصان واقع ہوتا ہے ،

::: وقت کے اعتبار سے :::
(1) ::: عارضی دباؤ Temporary Stress::: جو کسی معاملے یا کچھ معاملات میں ایک دفعہ بھی ہوتا ہے اور کبھی وقتا ً فوقتا ً ہوتا رہتا ہے ، لیکن مستقل نہیں ہوتا ،
(2) ::: مستقل دباؤ Permanent Stress::: جو کسی معاملے یا کچھ معاملات میں ہمیشہ ہی رہتا ہو، کہ جب کسی کو اُن معاملات میں سے کوئی معاملہ پیش آئے تو وہ فورا أٔعصابی دباؤ کا شکار ہو جائے ،
::::: نتائج اور اثرات ::::: أعصابی دباؤ کسی بھی قِسم کا ہو اُس کا کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہوتا ہے ، کبھی جسم پر کبھی عقل پر اور کبھی انسان کے نفس پر ، اِن اثرات کی فہرست کافی طویل ہے بلکہ یہ کہنا بہت مناسب ہے کہ اِن اثرات کو گننا ایک طویل مشقت طلب کام ہے جو کہ بذات خود ایک اور أعصابی دباؤ کا سبب بن سکتا ہے ،
مختصراً یہ کہنا اِن شاء اللہ کافی ہو گا کہ جسمانی آثار جِسم کے سارے ہی أٔعضاء اور حصوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ، اور اس اثر پذیری کے نتیجے میں دل کے أمراض ، معدہ کے أمراض حتیٰ کہ معدے کا السر Ulcerوغیرہ بھی ، اور قولونColon کے أمراض جن میں سے ایک عام اور بہت زیادہ پائے جانے والا مرض """أعصابی قولون:::Neural Colon"""ہے ، اور """ذیا بیطس یعنی Sugar"""اور اس سے متعلقہ أمراض ، جنسی کمزوری Sexual Dysfunction اور دیگر کئی امراض،
اور """ نظام ءِمدافعت ::: Immune System """ کا عمومی طور پر کمزور ہو جانا ، جس کی وجہ سے کئی ایسے امراض پیدا ہو جاتے ہیں جنہیں """ مدافعتی نظام کے ذاتی امراض Self Immune Diseases """ کہا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ مدافعتی نظام خاص طور پر مختلف قِسم کے """سرطان ::: Cancer """ کے سامنے کمزور ہو جاتا ہے ، وغیرہ ، وغیرہ ،
::: دِماغی اثرات Mental Disorders ::: یاد داشت پر ٹھیک سے قابو نہ ہونا ، فوری فیصلے کی قوت نہ رہنا ، حواس کے احساس کا تبدیل ہو جانا ، اور ایک جیسا نہ رہنا ، وغیرہ ،
::: نفسیاتی اثرات Psychical Disorders::: مختلف قِسم کے وسوسے ، خوف ، لوگوں کا سامنا کرنے سے گریز کرنا ، تنہائی پسند کرنا ، ٹھیک سے گہری اور پر سکون نیند نہ آنا ، و غیرہ ،

::::::: ہم مختلف دباؤوں کے ساتھ کیا سلوک کریں ؟ :::::::
انسان کی زندگی میں مختلف أعصابی دباؤ کے موضوع کو مکمل طور پر بیان کرنے کے لیے کافی طویل وقت ، اور کئی محفلیں درکار ہیں ، لیکن ہم یہاں کم سے کم اس خوفناک معاملے کے کچھ اہم بنیادی خطرناک نتائج بیان کر کے انہیں پہچاننے کی کوشش کر سکتے ہیں ، تا کہ اِن شاء اللہ ہم اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی اُن سے بچانے کی کوشش کر سکیں ،
اس کوشش کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم روازنہ ، ہمارے اوپر حملہ آور ہونے والے اُن مختلف دباؤوں کو جانتے پہچانتے ہوں بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اِن مختلف دباؤوں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہیے کہ یہ ہمارے جسم و جان پر کم سے کم منفی اثرات مرتب کریں ، ان شاء اللہ ،
جیسا کہ ہم سب ہی یہ سمجھتے ہیں اور تقریباً ہے بھی درست کہ ہمارے اس خود کار ،تیز رفتار اور مصروف ترین اندازء زندگی میں تبدیلی تقریباً نا ممکن کام ہے ،خیال رہے کہ میں زندگی کے معمولات کے انداز کی بات کر رہا ہوں نہ کہ نظام کی ،
جی ،شخصی طور پر ایک فرد واحد تو کیا لوگوں کی بہت بڑی تعداد مل کر بھی اس میں تبدیلی نہیں کر سکتی ، طب اور دیگر سائنسی علوم تو بھی تک ایسا کوئی حل یا حلول حاصل نہیں کر سکیں جن کی بنا پر انسان اُن بیماریوں اور تکلیفوں سے بچ سکے جو اُس پر واقع ہونے والے نفسیاتی دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں ،
طرح طرح کی دباؤ کی مخالف Anti Depressants ، سہولت دینے والی Relaxants،اور مخلتف ہارمونز کی تولید کو کم کرنے یا روکنے والی Beta Blockers، ادویات انسان کو کچھ وقتی سہولت تو مہیا کر سکتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے ملحق اثرات Side Effects ان کو استعمال کرنے والوں کےاندرونی أعضاء خراب کر دیتی ہیں ، پس حقیقتا یہ ادویات کوئی حل نہیں ہیں ،
لہذا چاہیے یہ کہ اس حل کی تلاش میں انسان فکر و سوچ کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوا جو ایسے حلول تک لے جائے جن کے ذریعے انسان اپنے معمولات میں پائے جانے والے مختلف دباؤوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے یا کم سے کم متاثر ہو ، اور وہ فِکر و سوچ یہ ہے کہ ایسے کام تلاش کیے جائیں یا بنائے جائیں جو جسمانی اور نفسیاتی طور پر انسان کو پر سکون کر سکیں تا کہ مخلتف نفسیاتی دباؤ کے منفی نقصانات سے بچا جا سکے ، لہذا مختلف اوقات میں مختلف قِسم کی باتیں ، مختلف قِسم کے فلسفے ، اور مختلف قِسم کی منطقیں ظاہر ہوتی ہیں مثلا ً :::
کہا گیا کہ نفسیاتی دباؤ کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنانے چاہیں ،
(1) کچھ ہلکی پھلکی جمسانی ورزشیں ، (2) کچھ اورایسی حرکات و سکنات جو جسمانی اور ذہنی ورزش کا آمیزہ ہوں ،
(3) کچھ دماغی ورزشیں ، (4) اور اِنسان کی رغبت کے مطابق کچھ ایسے کام جو انسان کو پریشان کرنے والے اور دباؤ کا باعث بننے والے کام سے کچھ دیر کے لیے فارغ کر سکیں ،
یقیناً آپ سب میرے ساتھ اس بات پر اتفاق کریں گے کہ ان سب طریقوں اور ان جیسے دیگر طریقوں کا مشترکہ ہدف دِل و دِماغ کا سکون ہے ،
اب میں اپنی اُس بات کی طرف آتا ہوں جسکی تشریح کے طور پر میں نے یہ سب کچھ لکھا ہے ، اور وہ بات تھی کہ::: """""ہماری شریعت میں جتنی بھی عبادات دی گئی ہیں وہ اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگیوں کو ایک بہت اچھے انداز منظم کرنے کا بھی ایک بہت مضبوط ذریعہ ہیں ، اور ہمارے نفوس کے اضطراب اور سکون ، خوف اور امن ، بے آرامی اور راحت کے درمیان بہترین توازن بھی پیدا کرتی ہیں """""
ابھی تک بیان کی گئی معلومات کی روشنی میں اب میری اس مذکورہ بالا بات پر غور کیجیے تو ان شاء اللہ بہت واضح طور پر یہ سمجھ آجائے گا کہ ہمیں جسمانی ، ذہنی ،نفسیاتی ، اور روحانی سکون کی تلاش میں یہ طرح طرح کے طریقے ڈھونڈھنے اور پھر انہیں آزمانے کی مزید بے سکونی مول لینے کی کوئی حاجت نہیں کیونکہ ہمیں ہر قِسم کے سکون اور راحت کے حصول کا مستقل طریقہ بتا دیا گیا ہے اور وہ ہے اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی عِبادت،
جی ہاں اگر ہم اللہ کی ذات اور صفات کی صحیح معرفت کے ساتھ ، ایمان کی شرائط پوری کرتے ہوئے ان پر ایمان رکھتے ہوئے ، عِبادات کے مقبول طریقے جانتے ہوئے ، عِبادات کا حق ادا کرتے ہوئے ، عِبادات کریں تو یہ عِبادات ہماری تیز رفتار ، خشک ، نفسیاتی دباؤوں کی تپش اور بے سکون زندگی میں ہر قِسم کے سکون و راحت کے پر بہار باغیچے بن سکتی ہیں ، اور ہم میں سے ہر ایک اپنے لیے اپنے اِرد گِرد ایسے کئی باغیچے تیار رکھ سکتا ہے کہ جب دل و جاں کے لیے ، روح و جسد کے لیے ٹھنڈے ٹھنڈے سکون کی تلاش ہو تو ہم کسی بھی باغیچے میں داخل ہو جائیں ، اور اللہ تبارک و تعالیٰ ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ سکون و راحت نازل فرما دے ،
مغربی، مادی اور کفری سوچ و فِکر کے نتیجے میں نفسیاتی دباؤوں سے بچنے کے جو طریقے سکھائے جاتے ہیں ان کی بجائے ہم مسلمانوں کے لیےیہ باغیچے میسر ہیں جن کا خود کار نظام اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے اور سکون و راحت پہنچانے والے کسی بھی اور نظام سے کہیں زیادہ اور مکمل ہے ،
ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال آئے کہ وہ باغیچے کون کون سے ہو سکتے ہیں ؟؟؟ آیے مختصراً اُن باغیچوں کا تعارف حاصل کرتے ہیں ،

::: ایمان کا باغیچہ :::
یہ بات بھی سب ہی کےلیے جانی پہچانی ہے کہ ،مختلف نفسیاتی دباؤ مختلف انسانوں پر مختلف تاثیر رکھتے ہیں ،کیونکہ ہر انسان کے جسم اور دماغ کا ردّءِعمل مختلف ہوتا ہے لہذاہر ایک دباؤکی تاثیر ہر ایک کے لیے ایک ہی جیسی نہیں ہوتی ، پس ماہرین نفسیات کی بتائی ہوئی تراکیب ہر کسی کے لیے کام نہیں دے سکتیں ،
یوگا کے ماہرین ، یوگا کی ورزشوں کو کچھ روحانیت کے ساتھ جوڑتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اِن حرکات میں اصل تاثیر اُن عقائد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو اُن حرکات کے ساتھ منسوب کیے جاتے ہیں ،اگر یہ معاملہ انسانوں کے بنائے ہوئے تخیلاتی عقائد کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے اپنانے والوں کے لیے ان کی مطلوبہ تاثیر مہیا کر دیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ، اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دیے گئے طریقے کیونکر انسانوں کو راحت اور سکون نہیں پہنچا سکتے !!!
اگر یوگا کی حرکات کے ساتھ مختلف چیزوں کی قوت کے حصول کی سوچ انسانوں کو کسی قِسم کی قوت دے سکتی ہے تو اللہ القوی المتین کی قدرت اور قوت پر اِیمان اللہ کی طرف سے سچی اور حقیقی روحانی اور جسمانی قوت کا یقینی سبب ہے ،
مجھے اِس میں کوئی شک نہیں ، اور اِن شاء اللہ کِسی بھی اِیمان والے کو اِس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا ،

لہذا یہ بات مشاہدے اور تجربے سے ثابت ہے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے طریقے ہر ایک کے لیے ایک ہی جیسی تاثیر نہیں رکھتے لیکن اللہ سبُحانہُ وتعالیٰ کی عِبادت کا حق ادا کرتے ہوئے کی گئی عِبادت ہر ایک کے لیے ایک ہی جیسی تاثیر رکھتی ہے کیونکہ وہ ہر ایک کے اکیلے لا شریک سچے خالق اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کی طرف سے مقرر فرما دی گئی ہے ، اور وہ خالق اپنی مخلوق کو اُس مخلوق سے بھی زیادہ بہتر جانتا ہے ،
لیکن عِبادات کی یہ تاثیر صِرف اِسی صورت میں میسر ہوتی ہے جب یہ عِبادات اُس اِیمان کے ساتھ ہوں جو اِیمان صِرف اور صِرف اللہ تعالیٰ کے احکام اور اقوال اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ تعلیمات کی حدود میں رہتے ہوئے ، کسی منطق ، کسی فلسفے کی کسی موشگافی کے بغیر اپنایا گیا ہو، اِیمان کا یہ باغیچہ اسی وقت سکون اور راحت کا گہوارہ بن سکتا ہے جب اُس میں یہ صفت ہو۔

::::::: غور و تدبر کرنے کا باغیچہ :::::::
جب کوئی انسان کسی معاملے میں اپنی عقل کی جِلا اور قوت کے اضافے کے لیے اپنی سوچ کو مرکوز کرتا ہے تو ایسا کرنا اُس انسان ایک اضافی فائدے کے طور پر اُس کی جسمانی قوت میں بھی اضافے کا سبب ہوتا ہے ،
ڈاکٹر ہربرٹ بنسون Dr.Herbert Benson جو بنیادی طور پر دِل کے امراض کے ایک ماہر تھے لیکن نفسیاتی دباؤ کے بارے میں کافی تحقیقات کیں اور بہت سی کتابیں لکھیں اور ایک درسگاہ
Mind/Body Medical Institute بھی بنایا ، نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ """کسی معاملے کے بارے میں اس طرح اپنی سوچ کو مرکوز کرنا مشکلوں اور پریشانیوں کے سامنے بے بسی محسوس کرنے اور اُن سے فرار اختیار کرنے کے بالعکس نتیجہ دیتا ہے """،
اس بات کو اگر ہم طبی طور پر سمجھنے کی کوشش کریں تو پتہ چلتا ہے کہ غور و فِکر کو کسی ایک موضوع پر مرکوز کریں تو ہمارے دِل کی حرکت ، سانس کی رفتار ، جسم میں آکسجین کا استعمال اور پٹھوں کا تناؤ بہت کم ہو جاتا ہے ، اور عام معمول کی نیند سے بھی زیادہ ہمارے دِل و دماغ اور سارے ہی جسم کو قوت اور سکون و راحت پہنچانے کا سبب ہوتا ہے ، کیونکہ عام نیند کی حالت میں ہمارے جسم میں آکسجین کے جلنے میں 8 % آٹھ فیصد کمی ہوتی ہے اور وہ بھی چار ، پانچ گھنٹے میں ، جبکہ اس طرح سوچ کو مرکوز کرنے سےصِرف چند منٹ میں ہی آکسیجن کے جلنے کا عمل 10 تا 17 % فیصد کم ہو جاتا ہے،
ڈاکٹر ڈین اورنش نے بھی تقریباً بیس سال پہلے اپنی تحقیقات میں سوچ کو مرکوز کرنے کے عمل کو دِل کے مریضوں کے لیے بہت مفید قرار دیا اور اس کا طبی سبب یہ بتایا کہ اس عمل سے خون میں موجود اضافی نقصان دہ چربیوں اور کولسٹرول وغیرہ میں کمی واقع ہوتی ہے ، اور بلڈ پریشر میں معتدل کمی واقع ہوتی ہے اور اُس کی قوت مدافعت میں معتدل اضافہ واقع ہوتا ہے ،
کچھ مزید تحقیقات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ عمل جسم میں موجود آکسیڈنٹس Oxidants کو بھی کم کرتا ہے ،
اسی ڈاکٹر بنسون نے کہا تھا کہ """سوچ کو مرکوز کرنے کا زیادہ فائدہ اُن لوگوں کو ہوتا ہے جو اپنی سوچ کو اپنے دین کے معاملات میں مرکوز کرتے ہیں """

مجھے اندازہ ہے کہ کئی قارئین اِن باتوں کو اور اِن معلومات کو بہت دلچسپی سے پڑہیں گے اور اِن کو فوراً درست مانیں گے کہ یہ باتیں کچھ ایسے لوگوں کی طرف سے ظاہر ہوئی ہیں جن کی ہر بات کو درست یا زیادہ بہتر ماننا اب اکثر لوگوں کی عادت ہو چکا ،
لیکن اگر کچھ ایسی ہی بات سیدے سیدھے طریقے سے میرے جیسا کوئی طالب عِلم کسی اور طرح سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ دیں گے اور اس بات کو مبالغہ آرائی یا دقیانوسیت وغیرہ سمجھیں گے ،
ایسے لوگوں کو اُن کے رب اللہ عزّ و جلّ،اور اُن کے رب کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کی حقانیت پر یقین کی طرف مائل کرنے کے لیے میں نے یہ معلومات مہیا کی ہیں ،

اب آیے دیکھتے ہیں کہ سوچ کو مرکوز کرنے کے عمل کو اپنی زندگیوں کا معمول بنانےکی ترغیب ہمیں ہمارے سچے حقیقی اور اکیلے لا شریک رب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دی ہے ، اور بار بار دی ہے ، اور مختلف اسلوب میں دی ہے ، اس کی صفات کے بارے میں غور و فکر کرنے ، اُس کی کتاب قران الکریم میں غور و فِکر کرنے ، اس کی تخلیق اورمخلوق کے بارے میں غور فِکر کرنے ، اس کی نشانیوں میں غور و فِکر کرنے ، زمین و آسمان میں غور و فِکر کرنے، ہماری اپنی جانوں میں غور و فِکر کرنےکی ترغیب ، بلکہ کئی جگہ تو اس کا حکم بھی دیا ہے ، کہیں ہم مسلمانوں سے خطاب ہے اور کہیں سب ہی انسانوں سے ، اور کہیں صِرف کافروں سے ، یعنی سب کو ہی گہرے اور مرکوز غور و فکرکی ترغیب اور احکام دیے گئے ہیں ، جو اللہ کی اپنی مخلوق پر رحمت کے دلائل میں سے ایک ہے ( اللہ کی رحمت کی و سعت کے بارے میں ایک مضمون پہلے نشر کیا جا چکا ہے )،
اگر ہم اللہ کی عطاء کردہ تعلیم کے مطابق غور و فکر کریں اور اللہ کے رضا کے حصول کی نیت سے کریں تو یہ بھی عِبادات میں شامل ہو گا (عبادت کی تعریف کے بارے میں بھی عقیدے سے متلعقہ سوالات و جوابات کے سلسلے میں نشر کیا جاچکا ہے)، پس اگر ہم غور و فکر کو مرکوز کرنے کے باغیچے کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدُود میں رہتے ہوئے آباد کریں ، اللہ کی رضا کے لیے سجائیں ، اور اس میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق وقت گذاریں مثلاً اللہ کا ذکر کرنے لیے اس باغیچے میں آئیں تو یوں کہ جب ہم
﴿لا اِلہَ اِلّا اللَّہ کا ذکر کریں تو اس کی گنتی پوری کرنے کی فِکر نہ ہو ، بلکہ ہر ایک لفظ پر ہمارے دِل و دِماغ کی مکمل توجہ مرکوز ہو، اور اس کی سچائی اور حقانیت پرہمارے دل، دماغ اور روح کی گہرائیوں تک سے گواہی مل رہی ہو ،
اس باغیچے میں ہم اپنی نفلی نمازیں ادا کریں کہ ہر ایک لفظ کے معنی اور مفاہیم ہمارے دِل و دِماغ میں گونج رہے ہوں اور اور ہر ایک حرکت کے بارے میں ہم یہ سوچ مرکوز رکھیں کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ،
اگر اسی طرح ہم غور و فکر کرنے کے اس باغیچے میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے احکامات کی حدود میں رہتے ہوئے اللہ تبارک و تعالٰی کی عِبادات ادا کریں اور اپنی توجہ اس پر مرکوز رکھیں تو ان شاء اللہ ہمارے اِیمان کی پختگی اور آخرت کے فائدے کے ساتھ ساتھ ہمارے نفسیاتی دباؤوں سے چھٹکارے ، ہماری جسمانی صحت اور ہمارے روحانی قوت کے لیے یقیناً بہت فائدہ مند ہو گا۔
اس غور و تدبر کے باغ کا سب سے أہم اور سب سے بہترین اور سب سے زیادہ پاکیزہ اور خوشبودار پھول اللہ کی کتاب ہے ، آیے اس پھول کے ان گنت فوائد میں سے ان فوائد کی بات کرتے ہیں جو ہمارے اس موضوع سے براہ راست متعلق ہے۔

::::::: اللہ کی کتاب کو صحیح تدبر و فہم کے ساتھ اپنے دل و روح میں بسانا :::::::
اللہ پاک نے ایمان والوں کے لیے رحمتوں کے ان گنت اسباب مہیا فرمائے ہیں ، اور ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی کتاب کریم کے مختلف اثرات اور نتائج بتائے ہیں ان میں سے ایک ﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا :::اور ہم قران (کے ذریعے)سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو اِیمان والوں کے لیے شِفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کو تو یہ(اُن کے لیے) نُقصان میں ہی بڑھاوا دیتا ہےسورت الاِسراء (بنی اِسرائیل)/آیت 82،
اور اِرشاد فرمایا
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ :::اے لوگوں تم لوگوں کے پاس تُمہارے رب کے پاس سے نصیحت آئی ہے اور ایِمان والوں کے لیے ، جو کچھ سینوں میں ہے اس کی شِفاء اور ہدایت اور رحمت ہے سورت یونس(10)/آیت 57 ،
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قران پاک کی اس صفت کی تفسیر اور شرح بھی بتائی اور اللہ سے اُس کے حصول کی دُعا کر نا بھی سکھایا ، اور سمجھایا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اُس کی کتاب کے ذریعے کیا کیا دے سکتا ہے ،
﴿ما أَصَابَ أَحَداً قَطُّ هَمٌّ وَلاَ حَزَنٌ فقال ::: جب بھی کسی کو اگر کوئی پریشانی یا دُکھ پکڑ لے اور وہ یہ کہے اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ابْنُ عَبْدِكَ ابْنُ أَمَتِكَ ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ ،عَدْلٌ في قَضَاؤُكَ ،أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هو لك َ ،سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أو عَلَّمْتَهُ أَحَداً مِن خَلْقِكَ، أو أَنْزَلْتَهُ في كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ في عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قلبي ،وَنُورَ صدري، وَجَلاَءَ حزني ، وَذَهَابَ همي :::اے اللہ میں تُمہارا بندہ ہوں ، تُمہارے بندے کا بیٹا ہوں تُمہاری بندی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ،تیرے حکم میں ہی اثبات ہے ،تیرے فیصلوں میں انصاف ہے ، میں تجھ سے ہر اُس نام کے ذریعے سوال کرتا ہوں جو تیرے لیے ہے،جس کے ذریعے تو نے خود کو نام دِیا ہے ،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سِکھایا ہے، یا تُو نے اُس نام کو اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے ،یا جِس نام کو تُو نے اپنے پاس عِلمءغیب میں چُھپا رکھاہے ، کہ تُو قُرآن کو میرے دِل کی بہار بنا دے ، اور میرے سینے کی روشنی بنا دے ، اور میرے غم کو مٹانے والا بنا دے ، اور میری پریشانی کو بھگانے والا بنا دے ،
إِلاَّ أَذْهَبَ الله هَمَّهُ وَحُزْنَهُ وَأَبْدَلَهُ مَكَانَهُ فَرَجاً:::تویقنیاً اللہ اُس کی پریشانی اور دُکھ کو دُور کر دے گا اور اس کی جگہ خوشی دے دے گا،تو رسول اللہ صلی علیہ وعلی آلہ وسلم سے عرض کِیا گیا ،
يا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ نَتَعَلَّمُهَا::: اے اللہ کے رسول کیا ہم یہ (دوسروں کو )سِکھائیں ؟
تو اِرشاد فرمایا
﴿بَلَى ينبغي لِمَنْ سَمِعَهَا أَنْ يَتَعَلَّمَهَا::: کیوں نہیں بلکہ جس نے اِسے سُنا اُسے چاہیے کہ وہ (دوسروں کو بھی)سِکھائےصحیح ابن حبان ، مُسند احمد /حدیث 3712، صحیح الترغیب و الترھیب /حدیث 1822،
اس حدیث مبارک میں میری ان باتوں کی بھی دلیل ہے جو میں نے ابھی کہی تھیں کہ """ جی ہاں اگر ہم اللہ کی ذات اور صفات کی صحیح معرفت کے ساتھ ، ایمان کی شرائط پوری کرتے ہوئے ان پر ایمان رکھتے ہوئے ، عِبادات کے مقبول طریقے جانتے ہوئے ، عِبادات کا حق ادا کرتے ہوئے ، عِبادات کریں تو یہ عِبادات ہماری تیز رفتار ، خشک ، نفسیاتی دباؤوں کی تپش اور بے سکون زندگی میں ہر قِسم کے سکون و راحت کے پر بہار باغیچے بن سکتی ہیں """،
اور اس کے علاوہ بھی کہیں دروس ہیں ،

پس اگراللہ سُبحانہ و تعالیٰ کی عِبادات ، اُن عبادات کا حق ادا کرتے ہوئے کی جائیں تو اِن شاء اللہ ہمارے سارے نفسیاتی دباوؤں سے نجات کا یقینی سبب ہیں اور کسی ملحق منفی نتیجے کے بغیر ہیں،
جو کچھ کہا گیا اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سمجھنے کی توفیق عطا فرما دے اور ہمیں اُس کی عِبادات اُس طرح کرنے کی توفیق عطاء فرما دے جس طرح وہ راضی ہو اور ہمارے دِین دُنیا اور آخرت کی بھلائی کا سبب ہو۔
و السلام علیکم، طلبگارء دُعا ، آپ کا بھائی ، عادِل سُہیل ظفر ۔

تاریخ کتابت :30/09/1431ہجری، بمُطابق،09/09/2010عیسوئی،
تاریخ تجدیدوتحدیث:23/10/1436ہجری، بمُطابق،08/08/2015عیسوئی۔
مضمون کا برقی نسخہ درج ذیل ربط پر میسر ہے :
http://bit.ly/1Tf7qrP

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ ساتھ درج ذیل مضمون کا مطالعہ بھی ضرور کیجیے :
::::::: نفسیاتی امراض کے بنیادی اسباب میں سے أٔہم ترین سبب :::::::

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Last edited:
Top