• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازمیں قراء اتِ متواترہ کی تلاوت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نمازمیں قراء اتِ متواترہ کی تلاوت

قاری عبدالباسط منشاوی​
قرآن کریم کے متنوع لہجات وقراء ات چونکہ قرآن مجید ہی میں شامل ہیں، چنانچہ انہیں نماز وغیر نماز ہر دو میں بطور تلاوت پڑھنے میں بہرحال کوئی حرج نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح احادیث میں موجود ہے کہ صحابہ کرام نمازوں میں مختلف اندازوں سے قرآن کریم کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ رمضان المبارک کے قیام اللیل میں ایک رات ایک قراء ت کے ساتھ پڑھاتے اور دوسری رات دوسری قراء ت میں۔متعدد قراء توں کے ذیل میں داخل اسالیب ِبلاغت کے متنوع اندازوں سے کلام الٰہی میں جو معنویت پیداہوتی ہے، ہمارا مشاہدہ ہے کہ معانی قرآن کو سمجھنے والے لوگ اس سے انتہائی محظوظ ہوتے ہیں۔ مدیر ماہنامہ رُشد جناب ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی ﷾کا پچھلے ایک عشرہ سے کویت اور دبئی میں قیام اللیل کے ضمن میں یہی معمول ہے کہ وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے طریقہ کی اتباع میں ہزاروں اہل عرب کو ہر رات مختلف قراء ات میں نمازِ تراویح کی امامت فرماتے ہیں۔ مختلف لہجوں اور کلام کے متعدد اسالیب میں موجود معنویت کی حلاوت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ستائیسویں شب تک نمازیوں کا مختلف قراء ات سننے کا یہ شوق اس عروج پر پہنچ جاتا ہے کہ موصوف ہر سال رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو متنوع چھوٹی سورتوںمیں تمام قراء ات کی تلاوت ایک ہی رات میںتلاوت کرتے ہیں۔ ان کا یہی حسن ذوق او رمہارت ہے کہ ہر سال انہیں بین الاقوامی سطح پر تراویح کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگرچہ ہمیں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور علامہ ابن بازرحمہ اللہ کے اس فتویٰ سے مکمل اتفاق ہے کہ جن علاقوں میں لوگ ان قراء ات سے مانوس نہ ہوں، وہاں نماز و غیر نماز میں عوام الناس میں ان کی تلاوت کرنے سے سدًا للذّریعۃ بچنا چاہئے یا کم از کم عوام الناس کو ان قراء ات کا تعارف کروا کر تلاوت کی عادت ڈالنی چاہئے۔ (ادارہ)
قراء ات قرآنیہ کے بارے میں سب سے بنیادی چیزجس کا ثبوت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ کیایہ قراء ات ان شرائط پر پوری اترتی ہے جن سے قرآن کا ثبوت ہوتا ہے، جب یہ ثابت ہو جائے تو پھر یہ بحث اضافی ہے کہ ان کو نماز میں پڑھنا چاہئے یا نہیں۔
اس بارے میں امت کے جمیع طبقات میں اجماع رہا ہے اور آج بھی ہے کہ قراء ات متواترہ ان تمام شروط پر پوری اترتی ہیں جن سے قرآن کا ثبوت ہوتا ہے اور ان کاانکار قرآن کریم کا انکار ہے اور منکر قراء ات دائرہ اسلام سے خارج ہے لیکن باوجود اس کے بعض حضرات نماز میں قراء ات متواترہ کی تلاوت کے بارے میں واضح رائے کا اظہار نہیں کرتے۔ ہم ایسے حضرات کی تشفی کے لیے احادیث اور آئمہ کے فتاویٰ جات سے وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ صحابہ، تابعین اور آئمہ سلف بغیر کسی تفریق کے جمیع قراء ات متواترہ کو نماز میں تلاوت کرتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات نماز میں پڑھنے کا صحیح اَحادیث کی روشنی میں ٹھوس ثبوت
حدیث عمر وہشام رضی اللہ عنہما
عن عمر بن الخطاب یقول سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲ، فاستمعت لقرأتہ فاذا ہو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیہا رسول اﷲ فکدت أساورہ فی الصلوۃ فتصبرت حتی سلم،فلببتہ بردائہ فقلت من أقرأک ہذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ قال أقرأنیہا رسو ل اﷲ،فقلت کذبت فإن رسول اﷲ قد أقرأنیہا علی غیر ما قرأت،فانطلقت بہ إلی رسول اﷲ،فقلت إنی سمعت ہذا یقرأ بسورۃ الفرقان علیٰ حروف لم تقرئنیہا،فقال رسول اﷲ أرسلہ (اقرأ یا ہشام) فقرأ علیہ القراء ۃ التی سمعتہ یقرأ فقال رسول اﷲ کذلک انزلت، ثم قال (اقرأ یا عمر) فقرأت القراء ۃ التی اقرأنی، فقال رسول اﷲ کذلک انزلت، ان ہذا القرآن انزل علی سبعۃ احرف فاقرئوا ما تیسر منہ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کی حیات طیبہ میں، میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو (حالت نماز میں) سورۃ الفرقان پڑھتے ہوئے پایا۔ میں نے سنا کہ ہشام رضی اللہ عنہ ان حروف کثیرہ پر تلاوت کررہے تھے کہ وہ حروف ( یعنی قراء ات) مجھے رسول اللہﷺنے نہیں پڑھائے تھے۔ قریب تھا کہ میں ان پر نماز میں لپکتا۔ میں نے صبر کیا حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیردیا میں انہی کی چادر سے انہیں کھینچتے ہوئے پوچھنے لگا کہ یہ سورت جو میں نے تجھے ابھی پڑھتے ہوئے سنا ہے کس نے پڑھائی ہے؟وہ کہنے لگے کہ اللہ کے رسولﷺنے مجھے پڑھائی ہے۔میں نے کہا آپ غلط کہہ رہے ہیں، کیونکہ رسول اللہﷺنے مجھے اس طرح نہیں پڑھائی۔ پس میں انہیں کھینچتے ہوئے نبیﷺ کے پاس لے آیا، میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺمیں نے (ابھی ابھی) سنا ہے کہ ہشام رضی اللہ عنہ ان حروف پر تلاوت کررہے تھے جو آپﷺنے مجھے نہیں پڑھائے۔آپﷺنے فرمایا اے عمررضی اللہ عنہ! ہشام رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دو۔پھرآپﷺنے ہشام رضی اللہ عنہ کو پڑھنے کا حکم دیا۔ ہشام رضی اللہ عنہ نے اسی قراء ت کے مطابق پڑھاجیسے میں نے سنا تھا۔(ہشام رضی اللہ عنہ کی قراء ت سننے کے بعد) نبیﷺنے فرمایایہ اسی طرح نازل کی گئی ہے۔پھرآپﷺنے فرمایا اے عمررضی اللہ عنہ! تم پڑھو۔پس جس قراء ت پر آپﷺنے مجھے پڑھایا اسی کے مطابق میں نے پڑھ دیا۔آپﷺنے فرمایا کہ یہ اسی طرح نازل کی گئی ہے۔ بے شک یہ قرآن سات حروف (لغات یا وجوہ) پر نازل کیا گیا ہے پس جو تمہیں آسان لگے اسے پڑھ لو۔‘‘(صحیح البخاري، کتاب فضائل القرآن، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وضاحت
اس حدیث سے جہاں بیشتر مسائل اَخذ کیے جا سکتے ہیں ان میں سے ایک واضح اور نمایاں مسئلہ نماز میں(حروف کثیرہ پر) ہشام رضی اللہ عنہ کا قراء ت کرناہے۔ وہ حروف میں کس نوعیت کا اختلاف تھا اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ البتہ حروف کثیرہ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ حالت نما زمیں مختلف قراء ت کی تلاوت کررہے تھے، نہ کہ آیات کی تفسیر وتشریح یا احکام وغیرہ بیان کررہے تھے۔
جیسا کہ بعض کو غلطی بھی لگی ہے۔دوسرا عمررضی اللہ عنہ نے حدیث میں لفظ’’القراء ۃ‘‘ استعمال کیاہے، انہوں نے نبیﷺکے سامنے یہ اعتراض بالکل نہیں کیا کہ ہشام رضی اللہ عنہ فلاں فلاں آیت کا ترجمہ وتشریح اس طرح کر رہے تھے جس طرح نہ توآپ بیان کرتے ہیں نہ ہمیں آپ نے کبھی بتایا ہے۔بات بالکل واضح ہے کہ نمازمیں قرآن مجید کے متن کی تلاوت کی جاتی ہے نہ کہ تفسیر یا احکام ومسائل۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہشام رضی اللہ عنہ کی نماز کا حکم
(١)آپﷺ کا دونوں صحابیوں کی قراء ت سننے کے بعد یہ فرمانا کہ ہشام رضی اللہ عنہ! جوکچھ تم نے پڑھا ہے وہ وحی ہے اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے اور اے عمررضی اللہ عنہ! جوآپ نے تلاوت کر کے سنایا ہے وہ بھی اللہ ہی نے نازل کیا ہے۔چنانچہ ’’ھکذا أنزلت‘‘کے الفاظ نے یہ ثبوت دیا ہے کہ کلمات ِقرآنیہ میں اختلاف پایا جاتا ہے وہ بھی قرآن ہے، کیونکہ اسے بواسطہ جبریل علیہ السلام نبیﷺپر اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ لہٰذا اگر وحی ایک طرح کا تلفظ سکھائے تب بھی اور تلفظ میں سات طرح کے تغیرات عطا کرکے تب بھی اسے قرآن ہی کا مرتبہ حاصل ہو گا۔لہٰذا یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ جب ’’قراء ات کا قرآن ہونا اسی حدیث سے ثابت ہورہا ہے تو کون انہیں نماز میں پڑھنے سے منع کر سکتا ہے۔
(٢)چونکہ حضرت عمر وہشام رضی اللہ عنہما دونوں اپنے تلفظ میں پائے گئے فرق اور اختلاف کو نبیﷺ کی وضاحت کے بعد اچھی طرح سمجھ گئے کہ ہم دونوں قرآن کو درست پڑھنے والے ہیں تو اس کے بعد حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو ’’اپنی نماز درست ہونے کا فتویٰ‘‘ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی، نہ توحضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز کو لوٹانے کا فتویٰ مانگا اور نہ نبیﷺنے انہیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم جار ی کیا اور ہشام رضی اللہ عنہ جو عمررضی اللہ عنہ کے تلفظ کے خلاف سورۃ الفرقان کی قراء ت کررہے تھے وہ اپنی مرضی کے ساتھ نہیں بلکہ نبیﷺ کی دی ہوئی اِجازت اور پڑھائے ہوئے طریقہ پر تلاوت کر رہے تھے، کیونکہ دونوں صحابیوں نے دوران مخاصمہ یہ کہا تھا کہ ’’مجھے نبیﷺنے ایسے نہیں پڑھایا جس طرح تم پڑھ رہے ہو۔‘‘ اور ہشام رضی اللہ عنہ کے نماز لوٹانے کا مسئلہ تو تب سامنے آتا تھا کہ اگر وہ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز پڑھ رہے ہوتے یا پھر نبیﷺان کی قراء ت کو غلط قراردیتے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم دین میں ایسا کام کبھی بھی اختیار نہیں کر سکتے جو سنت مصطفیﷺکے خلاف ہو۔ اور آپﷺکی زندگی میں ایسی جسارت کیسے کر سکتے ہیں؟ العیاذ باللہ
لہٰذا اگر حروف کثیرہ(یعنی مختلف قراء ات یا لغات) پڑھنے سے اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نماز درست ہے تو یہ مسئلہ آج بھی اسی طرح قائم ودائم ہے۔آج بھی اگر کوئی قراء ات جاننے والا نماز میں پڑھے یا غیر نماز میں توان شاء اللہ اس کے یہ دونوں کام عنداللہ مقبول وماجور ہوں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث ابی بن کعب رضی اللہ عنہ
عن أبی بن کعب قال کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ ثم دخل اٰخر فقرأ قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہٖ فلما قضیا الصلوٰۃ دخلنا جمیعاعلی رسول اﷲ فقلت إن ہذا قرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ ودخل اٰخر فقرأ سوٰی قراء ۃ صاحبہٖ فأمرہما رسول اﷲ فقرأ فحسّن النبی شانہما فسقط فی نفسی من التکذیب ولا اذ کنت فی الجاہلیۃ فلما رأی رسول اﷲ ما قد غشینی ضرب فی صدری ففضت عرقا وکأنما أنظر إلی اﷲ عزوجل فرقا، فقال لی یا أبی أرسل إلیّ أن اقرأ القران علی حرف فرددت الیہ أن ہون علی أمّتی فرد إلی الثانیۃ اقرأہ علی حرفین فرددت إلیہ أن ہون علی أمتی فرد إلی الثالثۃ اقرأھ علی سبعۃ أحرف فلک بکل ردۃ رددتکہا مسألۃ تسألنیہا،فقلت اللہم اغفرہ لامتی اللہم اغفر لامتی واخرت الثالثۃ لیوم یرغب إلی الخلق کلہم حتی إبراہیم
’’سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز پڑھنے لگا، اس نے ایک ایسی قراء ت پڑھی جس کو میں نہیں جانتا تھا۔ پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کے خلاف پڑھا۔ جب ہم نے نماز مکمل کی تو ہم سب رسول اللہﷺکے پاس آئے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہﷺ! یہ شخص ایسی قراء ت پڑھتا ہے جس کو میں نہیں جانتااور دوسرے نے پہلے کے بھی خلاف قراء ت کی۔ نبیﷺنے ان دونوں کو ہی پڑھنے کا حکم فرمایا جب دونوں نے اسی طرح پڑھ دیا تو نبیﷺنے دونوں کی تحسین فرمائی۔ پس میرے دل میں تکذیب کا ایسا وسوسہ پیدا ہواکہ جو زمانہ جاہلیت میں بھی نہ تھا۔ نبیﷺنے جب میری یہ حالت محسوس کی تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا کہ میں پسینے سے شرابور ہوگیا۔یوں محسوس ہوا گویا کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپ نے فرمایا اے اُبی رضی اللہ عنہ بے شک (اللہ کی طرف سے) مجھے پیغام بھیجا گیا کہ آپ قرآن مجید کو ایک حرف پر پڑھیں۔میں نے عرض کیا کہ میری امت پر آسانی کی جائے۔ پھر دوسری دفعہ پیغام بھیجا گیا کہ آپ قرآن مجید کو دو حرفوں پرپڑھیں ۔ میں نے پھر عرض کیا کہ میری امت پر آسانی کی جائے تیسری بار یہ پیغام ملا آپ قرآن کو سات حرفوں پرپڑھیے۔اور اے نبیﷺ! آپ کے لیے ہر تکرار کے بدلے ایک عطا ہے۔میں نے کہا اے اللہ! میری امت کو معاف کر دے۔ اے اللہ میری امت کو معاف کردے اور تیسری دعا کو میں نے اس دن کے لیے رکھا ہے جب ساری مخلوق میری طرف مائل ہوگی حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب انزال القرآن علی سبعۃ أحرف)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وضاحت:
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو جن دو ساتھیوں کی قراء ت پر اعتراض تھا وہ انہوں نے ان دونوں سے حالت نماز میں سنی تھی۔ جب نبی ﷺ نے ان کی قراء ت سننے کے بعد ان کے صحیح پڑھنے کی تصدیق فرما دی کہ تم لوگوں نے نماز میں جو بھی پڑھا ہے وہ قرآن ہی ہے لہٰذا قراء ت درست ہونے کی وجہ سے ان کی نماز میں بھی درست تھی۔
اگر نماز میں مختلف قراء ات پڑھنا کوئی ایسا مسئلہ ہوتا جس میں کراہت کی کوئی شکل ہوتی یا شرعاً کوئی قباحت ہوتی یا کسی فتنے کا اندیشہ ہوتا تو آپﷺوضاحت فرما دیتے کہ آئندہ تم مختلف قراء ات پڑھو، لیکن نماز میں نہ پڑھو۔ نبیﷺنے انہیں خود ہی تو مختلف احرف سکھا ئے تھے لہٰذا آپﷺاللہ کی نازل کردہ وحی کے بارے میں کس طرح کہہ سکتے تھے کہ اسے نمازوں سے دور رکھو۔
سیدنا عمروبن ہشام رضی اللہ عنہ کی طرح یہ حضرات بھی نمازوں میں مختلف قراء ات قرآن سمجھ کر پڑھ رہے تھے۔ نبیﷺنے جب دونوں کی تحسین کی فرمائی تو ان میں جو وقتی غلط فہمی پیدا ہوئی تھی وہ بھی ختم ہوگئی ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنی نمازوں کے درست ہونے کا مسئلہ بھی خود ہی سمجھ لیا، بصورت دیگر یا تو وہ نماز کو لوٹانے یا نہ لوٹانے کے بارے میں نبیﷺسے فتویٰ پوچھ سکتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک مسئلہ اگر شریعت سے وضاحت کے ساتھ سمجھ آرہا ہو تو اس کے بعد دیگر اقوال وفتاویٰ کی ضرورت نہیں رہتی، اگر وسعت قلوب واذہا ن کے ساتھ ان حدیثوں پر غور کر لیا جائے تو بڑی آسانی سے ہدایت مل سکتی ہے مگر اس کے بعد چند آئمہ کے اقوال اس لیے پیش کیے جارہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ سلف وخلف میں موجود جلیل القدر علماء نے ان احادیث کو کس طرح سمجھا۔ آیا ان کے اقوال وفتاویٰ جات مذکورہ اَحادیث کے موافق ہیں یامخالف؟ مگر ان اقوال وفتاویٰ کو پیش کرنے سے پہلے قراء ات عشرہ کا تابع سبعہ احرف ہونا، منزل من اللہ ہونا اور شروع سے آج تک معمول بہا ہونے پر دلائل پیش کیے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مروجہ قراء ات عشرہ کے صحیح الاسناد اور منزل من اللہ ہونے پر بحث
اُمت کے پاس اس وقت صحیح سند سے ثابت ہونے والا ذخیرۂ قراء ات جو دس قراء (نافع مدنی، ابن کثیرمکی، ابوعمروبصری، ابن عامر شامی، عاصم کوفی، حمزہ کوفی، علی الکسائی کوفی، ابوجعفر مدنی، یعقوب حضرمی، خلف کوفی رحمہم اللہ)سے مروی ہے اسے قراء ات متواترہ کا نام دیا گیا ہے۔یہ وہ قر اء ت ہیں جو عرضۂ اخیرہ والی ہیں اس پر بھی الحمد للہ بے شمار دلائل موجود ہیں۔ یہ دس قراء ات ان تین شروط پر پورا اترتی ہیں جو قرا ء ات کے صحیح ہونے کے لیے مقرر کی گئی ہیں وہ ارکان یہ ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
صحیح قراء ات کی شروط
(١) وہ قراء ات جو صحیح سند سے ثابت ہو۔
(٢) عربیت کے موافق ہو۔
(٣) رسم عثمانی کے حقیقتاً یا احتمالاً موافق ہو۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان قراء ات کو امت نے کیا سمجھا اور آیا یہ سبعہ احرف میں شامل ہیں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات سبعہ وقر اء ات ثلاثہ منزل من اللہ سبعہ احرف سے ماخوذ ہیں
(١) علامہ مکی بن أبی طالب القیسی
إن ہذہ القراء ات کلہا التی یقرأ بہا الناس الیوم وصحت روایتہا عن الائمۃ إنما ہی جزء من الاحرف السبعۃ التی نزل بہا القرآن (الابانۃ للقیسی:ص۲)
’’یہ سب قراء تیں جنہیں آج لوگ پڑھ رہے ہیں اور آئمہ سے صحیح طور پر ان کی روایت آئی ہے یہ ان احرف سبعہ کا حصہ ہیں جن کے موافق قرآن نازل ہوا۔‘‘
 
Top