• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازمیں قراء اتِ متواترہ کی تلاوت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢)امام زرکشی رحمہ اللہ
’’فالقرآن یقرأ بالاحرف السبعۃ،وجمیع القراء ات المقطوع بصحتہا ومصدرہا ہو مجموع الاحرف السبعۃ‘‘ (البرہان: ۱؍۳۱۸)
’’پس قرآن کو آج بھی احرف سبعہ کے موافق پڑھا جاتا ہے ان تمام قطعی الصحۃ قراء ات (قراء ات عشرہ) کا مصدر وماخذ سبعہ احرف ہی کا مجموعہ ہے۔‘‘
امام زرکشی رحمہ اللہ کا دوسرا قول:
’’والمعروف أنہا ما وراء السبع،والصواب ما وراء العشر وہی ثلاثۃ آخر،یعقوب، خلف،أبوجعفر، یزید بن القعقاع،فالقول بان ہذہ الثلاثۃ غیر متواترۃ ضعیف جدا‘‘
’’معروف یہ ہے کہ قراء ات سبعہ کے علاوہ باقی سب شاذہ ہیں۔ حالانکہ یہ درست نہیں، جس نے کہا کہ یعقوب، خلف اور ابوجعفر مدنی کی قرا ء ات غیر متواتر ہیں اس کی بات نہایت کمزور ہے۔‘‘
امام زرکشی رحمہ اللہ کا تیسرا قول:
إن القراء ات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ وقد انعقد الاجماع علی صحۃ القراء ات القراء السبعۃ وأنہا سنۃ متبعۃ ولا مجال للاجتہاد فیہا وإنما کان کذلک لان القراء ۃ سنۃ مرویۃ عن النبی ولا تکون القراء ۃ بغیر ما روی عنہ (البرہان فی علوم القرآن للزرکشی:۱؍۳۲۱)
’’یقینا قراء ات توقیفی ہیں اختیاری نہیں یعنی قراء نے اپنی طرف سے گھڑی نہیں ہیں۔ قراء سبعہ کی قراء ات کی سحت پر نیز اس بات پر کہ قراء ات سنت متبوعہ ہیں جن میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ اجماع امت منعقد ہوچکا ہے۔ قراء ات سنت ہیں نبیﷺسے مروی ہیں اور غیر مقبول وجوہ کی تلاوت جائز نہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام زرکشی رحمہ اللہ کا چوتھا قول:
’’القراء ات التی قرأہا القراء السبعۃ فانہا کلہا صحت عن رسول اﷲ وہو الذی جمع علیہ عثمان المصحف‘‘ (البرہان:۱؍۲۲۷)
’’ یہ قراء ات جن کو قراء سبعہ نے روایت کیاہے یہ رسول اللہﷺسے صحیح طور پر ثابت ہیں اور انہی پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنا مصحف تحریر کروایا۔‘‘
علامہ تفتازانی رحمہ اللہ
’’إن القراء ات السبع المتواترۃ لا یحل الطعن فیہا بل ینبغی أن یضیّف بہا قول من یخالفہ ویجعل ذلک شاہدا علی وقوعہ (شرح الشاطبیہ علی القراء ات السبعۃ، ملاعلی قاری:ص۵۹)
’’قراء ات سبعہ متواترہ ہیں ان پر اعتراض کرنا جائز نہیں مناسب یہ ہے کہ ان کے ذریعہ مخالف کے قول کی تضعیف وتردید کی جائے اور قراء ات کو نحو کے قاعدہ شاذہ کے وقوع وجواز کا شاہد ومستدل قرار دیا جائے۔‘‘
امام ابن صلاح رحمہ اللہ
’’یشترط ان یکون المقرؤ قد تواتر نقلہ عن رسول اﷲ قرآنا، واستفاض نقلہ کذلک تلقتہ الامۃ بالقبول کہذہ القراء ات السبع لان المعتبر فی ذلک الیقین والقطع‘‘ (فتاوٰی ابن صلاح:۱؍۲۳۲)
’’جس قراء ات کی تلاوت کی جائے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کا قرآن ہونا نبیﷺسے متواتر طریقہ پر منقول ہو وہ قراء ات ہر زمانہ میں مشہور وشائع رہی ہو اور اس کو امت نے شرف قبولیت بخشا ہو۔ جیسے مروّجہ قراء اتِ سبعہ ہیں، کیونکہ قراء ات میں معتبر وہ شے ہوگی جو قطعیت اور یقین سے ثابت ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وضاحت:
امام ابن صلاح نے قراء سبعہ کی مرویات کو توذکر کیا ہے، لیکن قراء ثلاثہ کو نہیں اس سے کوئی یہ مطلب اخذ نہ کر لے کہ وہ ان تین قراء ات کو صحیح نہ سمجھتے تھے۔چونکہ قراء ات عشرہ ہم تک دوحصوں میں پہنچی ہیں اب بھی مدارس میں دو حصوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ایک حصہ مرویات قراء سبعہ اور دوسرا قراء ات ثلاثہ پر مشتمل ہے۔امام ابن صلاح نے صرف قراء ات سبعہ کا نام لیا گویا اشھر حصہ کو ذکر کر دیا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ
پوری ملت اِسلامیہ کا اس پر اجماع ہے کہ جو قراء ات ان آئمہ نے روایت کی ہیں یا انہیں کتابوں میں جمع کیا گیا ہے، تمام قابل اعتماد ہیں اور ان کے صحیح ہونے پر ہر زمانہ میں مسلسل اجماع چلتا آیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا جو ذمہ اٹھایا تھا وہ پورا ہوا تمام محققین فضلاء اور تمام آئمہ سلف مثلاًقاضی ابوبکر بن ابوالطیب رحمہ اللہ اور امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرہما اس بات کے حامل ہیں۔(الجامع لاحکام القرآن:۱؍۴۷)
امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ
امام رازای رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ تینوں ارکان کی جامع قراء ات (قراء ات عشرہ) منجملہ سبعہ احرف کے ہیں۔ (النشر فی القراء ات العشر:۱؍۴۴)
امام ابن عابدین شامی رحمہ اللہ
جو مصاحف عثمان رضی اللہ عنہ شہروں کی جانب روانہ کیے تھے ان قرآنوں پر آئمہ عشرہ، متفق الروایت ہیں، یہ حصہ مجموعی، تفصیلی اور افراد وجزئیات یعنی اتفاقی اور اختلافی ہر دو قسم کے الفاظ کے لحاظ سے متواتر ہے ۔ پس سبعہ سے اوپر عشرہ تک کی قراء ات شاذہ نہیں بلکہ شاذہ وہ ہے جو ماوراء العشر ہے یہی بات صحیح ہے۔(فتاویٰ شامی:۱؍۳۵۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ سبکی رحمہ اللہ
جمع الجوامع فی الاصول کی شرح’منع الموانع‘میں لکھتے ہیں:
’’والصحیح ان ما وراء العشرۃ فہو شاذ علی ان القول بان القراء ات الثلاث غیر متواترۃ فی غایۃ السقوط ولا یصح القول بہ عمن یعتبر قولہ فی الدین وہی قراء ۃ یعقوب،خلف وابی جعفر بن یزید القعقاع لا تخالف رسم المصاحف‘‘
’’صحیح بات یہ ہے کہ عشرہ کے علاوہ باقی قراء تیں شاذ ہیں اور یعقوب، خلف اور ابو جعفرمدنی رحمہم اللہ کی تین قراء توں غیر متواتر کہنا حد اعتبار سے انتہائی گرا ہوا قول ہے۔ جس شخص کی بات کا دین میں اعتبار کیا جاتا ہے وہ ہر گز ایسی بات نہیں کہہ سکتا اور یہ تینوں قراء تیں بھی مصحف عثمانی کی رسم کے موافق ہیں۔‘‘(النشر فی القراء ات العشر، للجزری: ۱؍۴۵)
علامہ قاضی عبدالوہاب ابونصررحمہ اللہ
الحمدﷲ! القراء ات السبع التی اقتصر علیہا الشاطبی والتی ہی قراء ۃ أبی جعفر وقراء ۃ یعقوب وقراء ۃ خلف متواترۃ معلومۃ فی الدین بالضرورۃ (النشر فی القراء ات العشر: ۱؍۴۶)
’’الحمدللہ وہ قراء ات سبعہ جن پر شاطبی نے انحصار کیا، نیز ابوجعفر، یعقوب اور خلف رحمہم اللہ کی قراء ت بھی متواتر وحروف دین کی ایک اٹل حقیقت ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ دانی رحمہ اللہ
امام ابوعمرو الدانی رحمہ اللہ نے جامع البیان میں لکھاہے :
’’وإن القراء السبعۃ ونظائرہم من الائمۃ متبعون فی جمیع قراء تہم الثابتۃ عنہم التی لا شذوذ فیہا‘‘(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۳۷)
’’بلا شبہ قراء سبعہ رحمہم اللہ اور ان کے ہم پلہ دوسرے آئمہ کی جملہ قراء ات وہ ثابت ہیں ان میں کسی قسم کا شذوذ نہیں ہے۔جو ان سے صحیح طور پر ثابت ہو اور ان میں شذوذ نہ ہو۔
امام بغوی رحمہ اللہ
فذکرت ہؤلاء (ابی جعفر ونافع وابن کثیر وابن عامر وابی عمرو ویعقوب وعاصم وحمزۃ والکسائی) للاتفاق علی جواز القراء ۃ بہا (مقدمہ تفسیربغوی:۱؍۳۸)
’’میں نے ان قراء سبعہ رحمہم اللہ اور ابو جعفر ویعقوب; کی قراء ا ت اس لیے بیان کی ہیں کہ ان کی تلاوت جائز ہونے پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام قرطبی رحمہ اللہ کا دوسرا قول
اہل حجاز، شام اور عراق کے آئمہ قراء ات میں سے ہر امام نے اپنی قراء ت کی نسبت کسی نہ کسی صحابی کی جانب کی ہے جس نے اس قراء ت کے موافق پورا قرآن بذات خود رسول اللہﷺسے پڑھا تھا، چنانچہ سند کے لحاظ سے قراء ۃ عاصم رحمہ اللہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک قراء ۃ ابن کثیر وابوعمرو; حضرت ابی رضی اللہ عنہ تک اور قراءۃ ابن عامررحمہ اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خطابی رحمہ اللہ قول
وأسانید ہذہ القراء ات المتصلۃ ورجالہا ثقات۔(تفسیر قرطبی:۱؍۴۳)
’’ان قراء ات کی اسانید متصلہ اور ان کے رجال ثقات ہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
یجمعون ذلک فی الکتب یقرء ونہ فی الصلوۃ وخارج الصلوۃ وذلک متفق علیہ بین العلماء ولم ینکر احد منہم
’’ان قراء ات کو علماء نے کتابوں میں جمع کیا ہے ۔ نماز میں اور اس کے علاوہ دونوں حالتوں میں اسے پڑھتے ہیں۔علماء کے مابین یہ امر متفق علیہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان قراء ات (قراء ات عشرہ) کا انکار نہیں کیا۔(فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ مقدمۃ التفسیر:۱۳؍۳۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ حسن ضیاء الدین رحمہ اللہ
احرف سبعہ منزل من اللہ ہیں۔ وہی قطعی الصحۃ قراء ات ہیں ان کے سوا قراء ات کا کوئی بھی مرجع وماخذ نہیں ہے جو شخص ان کے ما سوا کوقراء ات کا ماخذ ومصدر قرار دینے کی کوشش کرتا ہے وہ دلیل پیش کرے۔
مگر دلیل ہے کہاں؟
یقینا قراء سبعہ اور ثلاثہ کی قراء ات قطعی الصحۃ قراء تیں ہیں اور منجملہ احرف سبعہ کے ہیں:
یہ قراء ات نبیﷺ تک برابر متواتر ہیں نہ کہ وہ صر ف آئمہ قراء ات تک متواتر ہیں، قراء ات میں اجتہاد کا کوئی مجال نہیں بلکہ وہ توقیفی اور سماعی ہیں علماء سلف وخلف کا ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ قبول قراء ات کو قوت سند پر موقوف کرتے ہیں۔ نبیﷺسے احرف سبعہ سمیت قرآن مجید کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے، پھر صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین رحمہم اللہ کے جم غفیر نے اور اسی طرح ہمارے اس زمانہ تک ہر زمانہ کے بے شمار لوگ مسلسل اور برابر اسے حاصل کرتے چلے آرہے ہیں۔(الاحرف السبعۃ ومنزلۃ القراء ات :ص۳۵۸تا۳۶۶)
اسلام کے ان روشن ستاروں کی روشنی میں ہم نے یہ وضاحت کے ساتھ جان لیاہے کہ قراء ات عشرہ، سبعہ احرف کا حصہ ہیں ان کی اسناد متصل اور صحیح ہیں تمام سلسلہ ہائے اسناد، ثقہ راویوں پر مشتمل ہے ہم ان کو قرآن سمجھتے ہیں اور قرآن مجید کا کوئی حصہ ایسا نہیں کہ جس کا کوئی انکار کر سکے۔ بقول ابن مسعودرضی اللہ عنہ ایک حرف کا منکر گویا پورے قرآن کا انکار کرتا ہے۔
یہ وہ آئمہ دین ہیں جو دن بھر رات اسلام میں غوطہ زن رہے اور ساری عمر ایسے قیمتی مسائل نکال کر امت کی راہنمائی کے لیے پیش کرتے رہے۔ جو ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ
اگر قراء عشرہ کی مرویات دین نہ ہوتیں تو ہر زمانہ میں اس پر نکیر کرنے والا ایک نہ ایک گروہ ضرور موجود رہتا جبکہ اس بات کا کسی جگہ سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
یہ بات درست ہے کہ اجتہادی وفروعی مسائل میں لوگوں کو اختلاف ہوتا رہتا ہے۔ مگر قراء ات کے بارے میں کسی مسلک کا دوسرے سے کوئی اختلاف نہیں۔ جن آئمہ کے اقوال ابھی ہم نے ذکر کیے ہیں ان میں ہر مسلک کا عالم شامل ہے۔ لہٰذا پوری امت ایک غلط امر پر کیسے جمع ہوسکتی ہے۔ اس طرح کا خیال تو حدیث کے بھی خلاف ہے۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:
’’لا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق لا یضرّہم من خذلہم ولا من خالفہم حتی یاتی أمر اﷲ وہم علی ذلک‘‘ (صحیح البخاري:کتاب الاعتصام)
’’میری امت میں ایک گروہ یقینا حق بات پر غالب وقائم رہے گا جو شخص ان کی مخالفت کرے گا تو اس سے ان لوگوں (اہل حق) کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہاں تک کہ اسی حالت پر امر الٰہی ان کا پیغام اجل اور قرب قیامت کا زمانہ آ پہنچے گا۔‘‘
اسی طرح آپﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’إن اﷲ لا یجمع امتی علی ضلالۃ‘‘ (سنن ترمذی،کتاب الفتن،باب ما جاء فی لزوم جماعۃ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ میری پوری امت کو کبھی گمراہی پر متفق الرائے نہ فرمائے گا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لہٰذا اس آخری فرمان میں قرآن مجید اور اس کے متعلقہ علم قراء ات کا انکار سوائے فتنہ قرب قیامت وجہل وحمق کے اور کیا ہوسکتا ہے؟اب بحث یہ ہو رہی ہے کہ مختلف ممالک میں مختلف قراء ات میں نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ہم کیا گمان رکھیں کہ ان کی نماز صحیح یا باطل؟
دنیا کے کئی ممالک میں پڑھی جانے والی روایات کا ہمارے ہاں مقبول عام روایت (روایت حفص عن عاصم) کااختلاف ہے۔ اہل مصر کے ہاں مقبول عام روایت(روایت ورش عن نافع) ہے البتہ وہاں قراء ات عشرہ پڑھنے والوں کی تعداد دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس طرح تیونس میں روایت قالون عن نافع عام ہے۔ سوڈان، صومالیہ اور افریقی ممالک میں امام ابوعمرحفص الدوری البصری رحمہ اللہ کی روایت زیادہ پڑھی جاتی ہے۔اگر قراء ات عشرہ قرآن نہیں تو صاف مطلب ہے کہ صرف ہماری نمازیں درست ہیں اور باقی تمام دنیا کی باطل ہیں یعنی جو شخص ہماری روایت کے مطابق تلاوت کرے وہ درست اور جو مخالفت کرے وہ غلط۔اب ہم قراء ات کے مطابق نماز درست ہونے پر علماء کے فتاویٰ واقوال پیش کرتے ہیں ۔
 
Top