• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازمیں قراء اتِ متواترہ کی تلاوت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مزیدتفصیل کے لیے ان کتب کامطالعہ کریں۔
(١) النشر فی القراء ات العشر۔ امام جزری رحمہ اللہ
(٢) معرفۃ القراء الکبار امام ذہبی رحمہ اللہ
(٣) سیراعلام النبلاء امام ذہبی رحمہ اللہ
(٤) غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء امام جزری رحمہ اللہ
کتب رجال میں یہ بات صراحت سے موجود ہے کہ امام ہشام رحمہ اللہ کے استاد بھی جامع مسجد کے مشہور خطیب تھے اسی طرح ابن کثیر مکی رحمہ اللہ بھی اپنے زمانے میں مشہور خطیب تھے۔امام خلف، خلاد، دوری، بصری، امام شعبہ بن عیاش، امام ہشام رحمہم اللہ وغیرہ کثرت سے احادیث بھی روایت کرتے تھے۔
اس زمانے میں جلیل القدر محدثین بھی موجود تھے۔فقہاء کرام اورعلمائے نحوبھی تھے، کسی جگہ سے ایسی کوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دیتی جو ان کی نمازوں کو غلط کہے اور نہ ہی ان کے نمازیں باطل ہونے کے متعلق کسی نے فتویٰ دیا۔ جس طرح قرائے اُمت مختلف قراء ات روایت کرتے تھے اور انہی قراء ات کے مطابق نمازیں پڑھتے تھے، ان کے پیچھے کبار علما بھی موجود ہوتے تو ان محدثین فقہاء اور جلیل القدر علماءرحمہم اللہ پربھی الزام آئے گا کہ انہوں نے اُمت کو اس فتنے سے بچانے کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہ کیا۔آخر ان ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کی نمازوں کاکیابنے گا؟ جو انہوں نے اپنے قراء اساتذہ سے تلقی کے ساتھ سیکھی ہوئی قراء ات کے مطابق پڑھیں۔ قرون ِ اولیٰ میں لوگ جامع العلوم ہوتے تھے۔ قراء محدثین کے بعد محدثین قراء کے شاگرد ہوتے تھے۔لیکن انہوں نے قراء ات نماز سے پڑھنے پر روکاکیوں نہیں۔
ساری بحث سے نتیجہ یہ اخذ ہوتاہے کہ قراء ات کے مطابق نماز پڑھنادرست ہے۔ جو اس کے خلاف فتویٰ جاری کرے گا گویا کہ اس نے امت کے اجماعی موقف اور متفق علیہ مسئلہ کو جان بوجھ کر مختلف فیہ بنایا ہے۔عامۃ الناس کو گمراہ کیا ہے۔العیاذ باﷲ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام شافعی رحمہ اللہ کا نماز میں تکبیرات بزی سماعت فرمانا
امام شافعی رحمہ اللہ نے ایک شخص کو حالت نماز میں تکبیرات بزی (جو آخری قرآن میں سورتوں کے اواخر پر پڑھی جاتی ہیں) پڑھتے ہوئے سنا۔ (فقال لہ أحسنت، أصبت السنۃ) آپ رحمہ اللہ نے اسے کہا کہ (اے بھائی)تو نے بہت اچھا کیا۔ تو نے سنت کو پالیا یعنی سنت کے مطابق عمل کیا ہے۔(تفسیر ابن کثیر، تفسیر سورۃ الضحٰی+ جامع البیان از دانی، ص۵۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وضاحت
بلاشبہ تکبیرات قرآن نہیں بلکہ یہ سنت ہیں اور قرآنوں میں ان کالکھنا جائز نہیں۔ان تکبیرات کی مکمل تفصیل کتب قراء ات میں دیکھی جاسکتی ہے۔
تکبیرات جو کہ قرآن کا حصہ نہیں، امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک تکبیرات پڑھنے والے کی نماز درست ہے اگردرست نہ ہوتی تو امام اسے ٹوک دیتے یابعد میں مسئلہ سمجھا دیتے۔ لیکن انہوں نے تحسین فرمائی۔اگر تکبیرات نماز میں جائز ہیں تو مختلف قراء ات جو کہ قرآن ہی ہیں ان کا پڑھنا بالاولیٰ جائز و صحیح اور ثابت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نماز میں شاذ قراء توں کی تلاوت کا حکم
نماز اور غیر نماز میں قراء ات شاذہ کاحکم یکساں ہے کہ قرآنیت کااعتقاد کرکے ان کی تلاوت جائز نہیں، علماء نے صرف بطور علم ان کو پڑھنا پڑھانا جائز رکھا ہے تا کہ تفسیری اشکالات کوحل کیا جا سکے لہٰذا جو شخص متواتر قراء ات کو چھوڑ کر شاذ قراء تیں پڑھے بلاشبہ وہ فتنہ میں مبتلاہے، اس کی نماز ہرگز صحیح نہیں اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے کی نماز بھی صحیح نہیں، ہر وہ قراء ت جس کی سند صحیح نہ ہو اور وہ مصاحف عثمانیہ کے رسم کے بھی خلاف ہو، وہ قراء ت قراء ۃ شاذہ کے حکم میں ہوگی، جیسے حضرت ابی رضی اللہ عنہ اور ابن مسعودرضی اللہ عنہ وغیرہ کی بعض قراء تیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَقوال العلماء

امام مالک رحمہ اللہ
امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ شاذ قراء ات کے بارے میں اس طرح ہے۔
’’من قرا فی صلاتہٖ بقراء ۃ ابن مسعود وغیرہ من الصحابۃ مما یخالف المصحف لم یصل وراء ہ‘‘ (التمہیدلابن عبدالبر:۸؍۲۹۳)
’’جو شخص ابن مسعودرضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی کی قراء ت نمازمیں تلاوت کرتاہے جو مصاحف عثمانیہ کے خلاف ہو، تو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘
حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ
آپ نے قراء ات شاذہ کی تلاوت اور نماز میں شاذ قراء ات پڑھنے والے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت پرامت مسلمہ کے تمام علماء کااجماع نقل کیا ہے اور کچھ افراد نے اس بات سے اختلاف کیاہے تو آپ نے انہیں امت کے اس اجماعی مسئلہ سے منحرف قرار دیا ہے۔ (حوالہ سابقہ)
علامہ سرخسی رحمہ اللہ
ولھذا قالت الامۃ لوصلی بکلمات تفرد بھا ابن مسعود لم تجز صلاتہ لانہ لم یوجد فیہ النقل المتواتر و باب القرآن باب یقین و امالحۃ فلا تثبت بدون النقل المتواتر کونہٖ قرآنا(أصول سرخسی، فصل فی بیان الکتاب وکونہ حجۃ:۱؍۲۸۰)
’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے تفردات یعنی شاذ قراء ات نماز میں پڑھے گا اس کی نماز نہ ہوگی، کیونکہ اس میں نقل متواتر موجود نہیں اور جومتواتر نہیں اسے قرآن نہیں کہا جاسکتا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ سرخسی رحمہ اللہ کا دوسرا قول
’’ما لم یثبت انہ قرآن فتلاوتہ فی الصلوٰۃ کتلاوۃ غیر فیکون مفسدا للصلوٰۃ‘‘
’’جس کا قرآن ہوناثابت نہ ہو، نماز میں اس کی تلاوت غیر کی تلاوت کی مانند ہے اس کی نماز باطل ہے۔‘‘ (حوالہ سابقہ)
قاضی ابویوسف رحمہ اللہ
’’ولو قرأ بقراء ۃ لیست فی مصحف العامۃ کقراء ہ ابن مسعود وأبی تفسد صلاتہ‘‘
’’ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور اُبی رضی اللہ عنہ کی وہ قراء ات جو مصحف عامہ کے خلاف ہوں اگر کسی نے ان کو نماز میں پڑھ لیا تو اس کی نماز فاسد ہوگی۔‘‘ (التقریر والتحبیر علی التحریر، لابن ھمام:۲؍۲۱۵)
علامہ ابن ھمام رحمہ اللہ
ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے پہلے مصحف کو نماز میں تلاوت کرنے سے نماز درست نہ ہوگی، کیونکہ وہ مصحف عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ ہوگیاتھا۔ (حوالہ سابقہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن نجار فتوحی رحمہ اللہ
وھذا غیر متواتر، فلا یکون قرأنا، فلاتصح الصلوٰۃ بہ علی الاصح
’’قراء ات شاذہ غیر متواتر ہونے کی بنا پر قرآن نہیں ہیں لہٰذا صحیح تر بات یہی ہے کہ ان شاذ قراء ات سے نماز جائز نہیں۔‘‘ (شرح الکوکب المنیر:۲؍۱۳۶)
علامہ ابن القاسم مالکی رحمہ اللہ
سوال:آپ سے پوچھا گیا، اگر کوئی شخص نماز میں ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی قراء ات پڑھنے والے کی اقتدا میں نماز پڑھ لے تو اس کے بارے میں کیاحکم ہے؟
جواب: وہ شخص جس نے شاذ قراء ات پڑھنے والے کی اقتداء کی اسے چاہئے کہ نماز کے وقت میں ہی یا نماز کے وقت کے بعد اسے لوٹائے۔(المدونۃ الکبریٰ،کتاب الصلوٰۃ الاوّل: ۱؍۸۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ ابوالبرکات الدردیررحمہ اللہ
دس کے علاوہ دیگر سب قراء ات شاذ ہیں، اگر کوئی شاذ قراء ات جو رسم عثمانی کے مخالف ہوتی ہیں ان کی نماز میں تلاوت کرے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔(بلغۃ السالک علی اقرب المسالک فی مذھب الإمام مالک:۱؍۴۳۷)
علامہ زرکشی رحمہ اللہ(تلمیذ امام سخاوی رحمہ اللہ)
لا یجوز ان یقرأ بالقراء ۃ الشاذۃ فی صلاۃ ولا غیرھا عالما بالعربیۃ کان أو جاھلا وإذا قرأھا قارئ، فان کان جاھلاً بالتحریم عرف بہ وأمر بترکھا،واذا عان عالما أدب فان اصرحبس حتی یرتدع (البرھان فی علوم القرآن، للزرکشی:۱؍۴۸۲)
’’جو شخص عربی دان ہو یاعربی سے بالکل ناواقف ، دونوں میں سے کسی کے لیے بھی قراء ات شاذہ کی تلاوت نماز میں یا علاوہ نماز کے جائز نہیں، اگر اسے شاذ قراء ات کی حرمت کاعلم نہیں تو اسے بتایا جائے کہ آئندہ ایسا کرنے سے باز آجائے، اگر وہ شخص جوعلم رکھتا ہے وہ جاننے کے باوجود ان شاذ قراء ات کی تلاوت کرتاہے، اُسے سزا دی جائے اگر وہ اصرار کرنے لگے تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے اس نظریے سے توبہ کرلے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ شہاب الدین الرملی رحمہ اللہ
من قرأ بالشاذ،ان کان جاھلاً بتحریمہ عرف ذلک، فان عاد الیہ بعد ذلک اوکان عالمابہٖ عزر تعزیرا بلیغا إلی أن ینتھی عن ذلک ویجب علی کل مکلف قادر علی الانکار أن ینکر علیہ(فتاویٰ الرملی،باب فی مسائل شئ:۴؍۳۲۰)
’’ جس نے شاذ قراء ات تلاوت کی اگر وہ ان کی حرمت سے ناواقف ہے تو اس کو بتایا جائے اور وہ دوبارہ ایسا کرے یاکوئی عالم اس کو پڑھے تو ان سب کو سخت سزا دی جائے،یہاں تک کہ وہ اس سے باز آجائیں۔ہر وہ شخص جو مکلف ہے اور قدرت رکھنے والا ہے اس پر واجب ہے کہ ان شاذہ قراء ات پڑھنے والے کا انکار کرے۔‘‘
امام ابن حزم رحمہ اللہ
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے قراء ات شاذہ کی تلاوت ناجائز ہونے پر امت کا اجماع ذکر کیا ہے۔(المحلیٰ لابن حزم:۴؍۲۵۵)
امام نووی رحمہ اللہ
ولاتجوز القراء ۃ فی الصلاہ ولا لغیرھا بالقراء ات الشاذہ لانھا لیست قرانا، فان القران لایثبت الا بالتواتر، ومن قال غیرہٖ فھو غالط او جاھل،فلو خالف وقرأ بالشاذ أنکر علیہ قراء تھا ما فی الصلوٰۃ وغیرھا، وقد اتفق فقھاء بغداد علی استتابۃ من قرأ بالشواذ ونقل ابن عبد البر اجماع المسلمین علی أنّہ لا تجوز القراء ۃ بالشواذ ولا یصلی خلف من یقرأ بھا۔
’’نماز میں اور غیر نماز میں قراء ات شاذہ کی تلاوت اس لیے ممنوع ہے کہ یہ قرآن نہیں، اور قرآن کا ثبوت صرف تواتر سے ہوتا ہے اگر کسی کا موقف اس کے علاوہ کچھ اور ہے تو وہ خود غلط اور جاہل ہے اگر وہ اس بات کی مخالفت کرے اورشاذ قراء ات کی تلاوت کرے ، تو اس کی قراء ت کا انکار کیا جائے گا خواہ وہ حالت نماز میں ہو یا غیر نماز میں۔ فقہاء بغداد ایسے شخص کو توبہ کروانے پر متفق ہیں جو نماز میں شواذ کی تلاوت کرتا ہے۔حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے ملت اسلامیہ کا اس پر اجماع نقل کیاہے کہ قراء ات شاذہ کی تلاوت جائزنہیں، اور جو پڑھے گا اس کے پیچھے نماز بھی درست نہ ہوگی۔‘‘ (کتاب المجموع:۳؍۳۲۹، البرھان للزرکشی:۱؍۳۳۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابوالعباس مہدوی رحمہ اللہ
فھذا الضرب،أی المخالف لخط المصحف،وبما أشبھہ،متروک لاتجوز القراء ۃ بہٖ ومن قرأ بشیئٍ منہ غیر معاند ولا مجادل علیہ وجب علی الامام أن یواخذہ بالادب وبالضرب والسجن علی ما یظھر لہ من الاجتہاد ومن قرأ وجادل علیہ ودعا الناس إلیہ وجب علیہ القتل لقول النبی المراء فی القرآن کفر والاجماع الامۃ علی إتباع المصحف المرسوم۔
’’قراء ت کی ہر قسم جو مصحف عثمانی رسم کے خلاف ہویا اس کے مشابہ کوئی اور تبدیلی کی جائے قطعی متروک ہے اس کی تلاوت ناجائز ہے، جو شخص کسی عناد و جدال کے بغیر ایسی قراء ات پڑھے، امام پر واجب ہے کہ اپنی صوابدید کے مطابق تادیبی کارروائی قید یا جسمانی سزا کی صورت میں عمل میں لائے۔ اگر کوئی جدال کرے اور لوگوں کو ایسی قراء ت کی دعوت بھی دے، اس کا قتل ضروری ہے کیونکہ نبیﷺ کا فرمان ہے: ’’قرآن میں جھگڑنا کفر ہے۔‘‘ اور دوسرا یہ کہ مرسوم مصاحف کی پیروی پر امت کااجماع ہوچکاہے۔‘‘(منجد المقرئین، للجزری،ص۲۲۱)
 
Top