• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نمازِ وتر ۔۔اور ۔۔ دعاءِ قنوت کا مسنون طریقہ

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
الحمد للہ :

نماز وتر اللہ تعالى كے قرب كے ليے سب سے افضل اور عظيم عبادات ميں شامل ہوتى ہے، حتى كہ بعض علماء كرام ـ يعنى احناف ـ تو اسے واجبات ميں شمار كرتے ہيں، ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ سنت مؤكدہ ميں شامل ہوتى ہے جس كى مسلمان شخص كو ضرور محافظت كرنى چاہيے، اور اسے ترك نہيں كرنا چاہيے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نماز وتر چھوڑنے والا شخص برا آدمى ہے، اس كى گواہى قبول نہيں كرنى چاہيے"

جو كہ نماز وتر كى ادائيگى كى تاكيد پر دلالت كرتى ہے.

نماز وتر كى ادائيگى كى كيفيات كا خلاصہ ہم مندرجہ ذيل نقاط ميں بيان كر سكتے ہيں:

نماز وتر كى ادائيگى كا وقت:

اس كا وقت نماز عشاء كى ادائيگى سے شروع ہوتا، يعنى جب انسان نماز عشاء ادا كر لے چاہے وہ مغرب اور عشاء كو جمع تقديم كى شكل ميں ادا كرے تو عشاء كى نماز ادا كرنے سے ليكر طلوع فجر تك نماز وتر كا وقت رہے گا.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نے تمہيں ايك نماز زيادہ دى ہے اور وہ نماز وتر ہے جو اللہ تعالى نے تمہارے ليے عشاء اور طلوع فجر كے درميان بنائى ہے"

سنن ترمذى حديث نمبر ( 425 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ترمذى ميں صحيح كہا ہے.

اور كيا نماز وتر كو اول وقت ميں ادا كرنا افضل ہے يا كہ تاخير كے ساتھ ادا كرنا افضل ہے ؟

سنت نبويہ اس پر دلالت كرتى ہے كہ جو شخص رات كے آخر ميں بيدار ہونے كا طمع ركھتا ہو اس كے ليے نماز وتر ميں تاخير كرنا افضل ہے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں نماز پڑھنى افضل ہے، اور اس ميں فرشتے حاضر ہو تے ہيں، اور جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكتا تو اس كے ليے سونے سے قبل نماز وتر ادا كرنا افضل ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے.

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جسے خدشہ ہو كہ وہ رات كے آخر ميں بيدار نہيں ہو سكے گا تو وہ رات كے اول حصہ ميں وتر ادا كر لے، اور جسے يہ طمع ہو كہ وہ رات كے آخرى حصہ ميں بيدار ہو گا تو وہ وتر رات كےآخرى حصہ ميں ادا كرے، كيونكہ رات كے آخرى حصہ ميں ادا كردہ نماز مشھودۃ اور يہ افضل ہے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 755 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اور يہى صحيح ہے، اور باقى مطلق احاديث كو اس صحيح اورصريح افضليت پر محمول كيا جائے گا، ان ميں يہ حديث بھى ہے:

" ميرى دلى دوست نے مجھے وصيت كى كہ ميں وتر ادا كر سويا كروں"

يہ اس شخص پر محمول ہو گى جو بيدار نہيں ہو سكتا. اھـ

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 277 ).

وتر ميں ركعات كى تعداد:

كم از كم وتر ايك ركعت ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رات كے آخر ميں ايك ركعت وتر ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 752 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رات كى نماز دو دو ہے، لہذا جب تم ميں سے كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت ادا كر لے جو اس كى پہلى ادا كردہ نماز كو وتر كر دے گى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 911 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 749 )

لہذا جب انسان ايك ركعت ادا كرنے پر ہى اكتفا كرے تو اس نے سنت پر عمل كر ليا...

اور اس كے ليے تين اور پانچ اور سات اور نو ركعت وتر بھى ادا كرنے جائز ہيں.

اگر وہ تين وتر ادا كرے تو اس كے ليے دو طريقوں سے تين وتر ادا كرنے مشروع ہيں:

پہلا طريقہ:

وہ تين ركعت ايك ہى تشھد كے ساتھ ادا كرے. اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ميں پائى جاتى ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر كى دو ركعتوں ميں سلام نہيں پھيرتے تھے"

اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تين وتر ادا كرتے تو اس كى آخر كے علاوہ نہيں بيٹھتے تھے"

سنن نسائى ( 3 / 234 ) سنن بيھقى ( 3 / 31 ) امام نووى رحمہ اللہ تعالى المجموع ميں لكھتےہيں: امام نسائى نے حسن سند كے ساتھ اور بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے. اھـ

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 7 ).

دوسرا طريقہ:

وہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھير دے اور پھر ايك ركعت واتر ادا كرے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما دو ركعت اور اپنے وتر كے درميان سلام پھيرتے تھے، اور انہوں نے بتايا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ہى كيا كرتے تھے"

رواہ ابن حبان حديث نمبر ( 2435 ) ابن حجر رحمہ اللہ تعالى فتح البارى ( 2 / 482 ) ميں كہتے ہيں اس كى سند قوى ہے. اھـ

ليكن اگر وہ پانچ يا سات وتر اكٹھے ادا كرے تو صرف اس كے آخر ميں ايك ہى تشھد بيٹھے اور سلام پھير دے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كو گيارہ ركعت نماز ادا كرتے اس ميں پانچ ركعت وتر ادا كرتے اور ان ميں آخرى ركعت كے علاوہ كہيں نہ بيٹھتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 737 ).

اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پانچ اور سات وتر ادا كرتے اور ان كے درميان سلام اور كلام كے ساتھ عليدگى نہيں كرتے تھے"

مسند احمد ( 6 / 290 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1714 ) نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں اس كى سند جيد ہے.

ديكھيں: الفتح الربانى ( 2 / 297 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور جب اكٹھى نو ركعت وتر ادا كرنى ہوں تو تو آٹھويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر پھر نويں ركعت كے ليے كھڑا ہو اور سلام نہ پھيرے اور نويں ركعت ميں تشھد بيٹھ كر سلام پھيرے گا، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعات ادا كرتے اور ان ميں آٹھويں ركعت ميں بيٹھ كر اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور دعاء كرتے اور سلام پھيرے بغير اٹھ جاتے پھر اٹھ كر نويں ركعت ادا كر كے بيٹھتے اور اللہ تعالى كا ذكر اور اس كى حمد بيان كر كے دعاء كرتے اور پھر ہميں سنا كر سلام پھيرتے"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 746 ).

اور اگر وہ گيارہ ركعت ادا كرے تو پھر ہر دو ركعت ميں سلام پھيرے اور آخر ميں ايك وتر ادا كرے.

وتر ميں كم از كم اور اس ميں قرآت كيا ہو گى:

وتر ميں كم از كم كمال يہ ہے كہ دو ركعت ادا كر كے سلام پھيرى جائے اور پھر ايك ركعت ادا كر كے سلام پھيرے، اور تينوں كوايك سلام اور ايك تشھد كے ساتھ ادا كرنا بھى جائز ہے، اس ميں دو تشھد نہ كرے جيسا كہ بيان ہو چكا ہے.

اور پہلى ركعت ميں سبح اسم ربك الاعلى پورى سورۃ پڑھے، اور دوسرى ركعت ميں سورۃ الكافرون اور تيسرى ركعت ميں سورۃ الاخلاص پڑھے.

ابى بن كعب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وتر ميں سبح اسم ربك الاعلى اور قل يا ايھالكافرون اور قل ہو اللہ احد پڑھا كرتے تھے"

سنن نسائى حديث نمبر ( 1729 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

نماز وتر كى مندرجہ بالا سب صورتيں اور كيفيات سنت ميں وارد ہيں اور اكمل يہ ہے كہ مسلمان شخص ايك ہى كيفيت ميں نماز وتر ادا نہ كرتا رہے بلكہ اسے كبھى ايك اور كبھى دوسرى كيفيت ميں نماز وتر ادا كرنى چاہيے تا كہ وہ سنت كے سب طريقوں پر عمل كر سكے.

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/46544
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

جو لوگ تین رکعت پڑھتے ہوئے دو رکعت پہ تشہد کے لئے بیٹھتے ہیں وہ سنت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ تین رکعت وتر پڑھتے ہوئے مغرب کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تین رکعت وتر نہ پڑھو اور مغرب کی مشابہت نہ کرو (مستدرک حاکم ١١٣٨ ، ابن حبان ٢٤٢٩ )

اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

مغرب کی مشابہت سے دو طریقوں سے بچا جا سکتا ہے ، ایک یہ کہ تین رکعت اکٹھی پڑھی جائیں،بیچ میں تشہد نہ کیا جائے دوسرا طریقه یہ ہے کہ دو رکعت الگ پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے ، پھر ایک رکعت الگ پڑھی جائے جیساکہ اوپر واضح کیا گیا ہے-
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! یہ تھریڈ چونکہ ’صلاۃ الوتر‘ کا ہے اس میں اسی سے متعلق بات کروں گا۔ درج ذیل حدیث میں یہ بات بالکل وضاحت سے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرما دی کہ آقا علیہ السلام کی سنت ’وتر‘ پڑھنی کی یہی تین رکعات تھی۔ اس سے پہلے اگر کچھ ثابت ہے تو اس کو آقا علیہ السلام نے ترک کردیا۔ جسے آقا علیہ السلام ترک کردیں وہ حدیث تو ہے مگر سنت نہیں۔ سنت یہی ہے کہ تین رکعات وتر پڑھے جائیں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں؛
وعلیکم السلام
پہلی بات
محترم اسی حدیث میں یہ بات بھی ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اسے اگر آپ رسولﷺ کا آخری عمل سمجھتے ہیں تو بیس رکعات آپ کس حساب سے پڑھتے ہیں؟
دوسری بات
اگرچہ رسول اللہﷺ نے گیارہ رکعتیں مع وتر یا اس سے کم یا زیادہ پڑھی لیکن ہمارے لیے انہوں نے یہ فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں،یعنی انہوں اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی،یہ نفلی عبادت ہے آدمی اپنی استطاعت کے مطابق جتنی رکعتیں چاہے پڑ لے اور آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لے(اصل میں وتر کا مطلب طاق ہے اور یہ ایک رکعت ہے)
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
پہلی بات
محترم اسی حدیث میں یہ بات بھی ہے کہ رسول اللہﷺ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اسے اگر آپ رسولﷺ کا آخری عمل سمجھتے ہیں تو بیس رکعات آپ کس حساب سے پڑھتے ہیں؟
دوسری بات
اگرچہ رسول اللہﷺ نے گیارہ رکعتیں مع وتر یا اس سے کم یا زیادہ پڑھی لیکن ہمارے لیے انہوں نے یہ فرمایا کہ رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں،یعنی انہوں اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی،یہ نفلی عبادت ہے آدمی اپنی استطاعت کے مطابق جتنی رکعتیں چاہے پڑ لے اور آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لے(اصل میں وتر کا مطلب طاق ہے اور یہ ایک رکعت ہے)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم! جب تک آپ لوگ اندھی تقلید کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں نہیں لاؤ گے تو پھر یہی ہونا ہے۔
محترم! ہم تراویح پڑھتے ہیں جو کہ صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے اور وہ بیس ہی ہے۔ اس روایت میں تراویح مراد نہیں کیونکہ وہ سارا سال نہیں ہوتی!!!!!!!!
محترم! رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں اور ہر دو رکعات پر بیٹھ کر تشہد پڑھنا ہے۔ حدیث میں ہے؛
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْمُطَّلِبِ
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَأَنْ تَبَاءَسَ وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ وَتَقُولَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ
سُئِلَ أَبُو دَاوُد عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى قَالَ إِنْ شِئْتَ مَثْنَى وَإِنْ شِئْتَ أَرْبَعًا (ابوداؤد)

لہٰذا وتر کی تین رکعات ایسے پڑھیں گے کہ دو رکعت پر بیٹھ لر تشہد پڑھیں گے پھر ایک رکعت اور پڑھیں گے۔ یہ تین رکعات ہوئیں۔ اگر دو رکعات پر سلام پھیر دیں گے تو یہ تین نہیں ایک ہوگی۔ کما لا یخفیٰ
باقی رہی یہ بات کہ مغرب کی نماز سے مماثلت نہ ہو تو اس تیری رکعت میں رفع الیدین کر کے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے جس سے مغرب کی نماز سے مماثلت نہیں رہتی۔
والسلام
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
محترم! جب تک آپ لوگ اندھی تقلید کرتے رہو گے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال میں نہیں لاؤ گے تو پھر یہی ہونا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم یہ بات تو مجھے کہنی چاہئےتھی!

کیا آپ نے ان احادیث میں غور نہیں کی؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
۱: اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے’’[بخاری: ۶۴۱۰، مسلم:۲۶۷۷]

۲: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصہ میں سے ’’ [مسلم:۷۵۶]

۳: نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو، دو رکعتیں ہیں۔ جب صبح (صادق) ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو۔ یہ ایک (رکعت پہلی ساری) نماز کو طاق بنا دیگی’’[بخاری:۹۹۳،۹۹۰مسلم:۷۴۹]

۴: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری ) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر ) بات چیت بھی کرتے’’ [ابن ماجہ:۷۷، مصنف ابن ابی شیبہ: ۲؍۲۹۱]

۵: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے فجر تک گیارہ رکعتیں پڑھتے ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر پڑھتے’’ [مسلم:۷۳۶]

۶: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وتر ہر مسلمان پر حق ہے پس جسکی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے’’[ابوداؤد:۱۴۲۲،نسائی:۱۷۱۰، ابن ماجہ:۱۱۹۰، صحیح ابن حبان: ۲۷۰، مستدرک۱؍۳۰۲وغیرہ]
 
شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ الْمُطَّلِبِ
عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ وَأَنْ تَبَاءَسَ وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ وَتَقُولَ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ
سُئِلَ أَبُو دَاوُد عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى قَالَ إِنْ شِئْتَ مَثْنَى وَإِنْ شِئْتَ أَرْبَعًا (ابوداؤد)
صحیح احادیث کو چھوڑ کر ضعیف کی طرف کیوں بھاگتے ہو؟
حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ،‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسِ بْنِ أَبِي أَنَسٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ،‏‏‏‏ عَنِ الْمُطَّلِبِ،‏‏‏‏ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ "الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى أَنْ تَشَهَّدَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ،‏‏‏‏ وَأَنْ تَبَاءَسَ وَتَمَسْكَنَ وَتُقْنِعَ بِيَدَيْكَ،‏‏‏‏ وَتَقُولَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اللَّهُمَّ،‏‏‏‏ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ". سُئِلَ أَبُو دَاوُدَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ مَثْنَى،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ مَثْنَى وَإِنْ شِئْتَ أَرْبَعًا.
مطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز دو دو رکعت ہے، اس طرح کہ تم ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھو اور پھر اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ ظاہر کرو اور دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگو اور کہو: اے اللہ! اے اللہ!، جس نے ایسا نہیں کیا یعنی دل نہ لگایا، اور اپنی محتاجی اور فقر و فاقہ کا اظہار نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے“۔ ابوداؤد سے رات کی نماز دو دو رکعت ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: چاہو تو دو دو پڑھو اور چاہو تو چار چار۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۷۲ (۱۳۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۸۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۶۷) (ضعیف) (اس کے راوی عبد اللہ بن نافع مجہول ہیں)
سنن أبي داود،حدیث نمبر: 1296
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم یہ بات تو مجھے کہنی چاہئےتھی!
محترم اب کیا ہو سکتا ہے؟؟؟؟؟
کیا آپ نے ان احادیث میں غور نہیں کی؟
محترم! مجھے نہیں معلوم کہ اماں عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ نے ان احادیث پر غور کیا تھا کہ نہیں وہ فرماتی ہیں کہ آقا علیہ السلام کا وتر کی ادائیگی کاآخری طریقہ یہ تھا؛

صحيح البخاری کتاب الجمعہ بَاب قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ
ابوسلمۃ بن عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ پڑھتے تھے- چار رکعت اس طرح پڑھتے کہ اس کی ادائیگی کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے بس کچھ نہ پوچھو (یعنی بہت ہی خشوع وخضوع والی ہوتیں) پھر چار رکعت پڑھتے کہ اس کی ادائیگی کی خوبصورتی اور طوالت کے بارے بس کچھ نہ پوچھو (یعنی بہت ہی خشوع و خضوع والی ہوتیں) پھر تین رکعت ( وتر ) پڑھتے- عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے پوچھا کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سوتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں مگر میرا دل نہیں سوتا۔
والسلام
 

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
نماز وتر کا مسنون طریقہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز وتر کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ ایک وتر اور تین وتر دونوں میں کونسی سورت پڑھنی چاہیے ۔ ؟ عشاء کی نماز میں ایک وتر پڑھنا چاہیے یا تین؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وتر کے معنی طاق (Odd Number) کے ہیں۔ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمیں نمازِ وتر کی خاص پابندی کرنی چاہیے؛ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفروحضر ہمیشہ نمازِ وتر کا اہتمام فرما یا کرتے تھے۔

آپ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔

ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

«الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدۃ فلیفعل »صحیح ابوداود:۱۲۶۰
’’وتر ہر مسلمان پر حق ہے جو پانچ وتر ادا کرنا پسند کرے وہ پانچ پڑھ لے اور جو تین وتر پڑھنا پسند کرے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک رکعت وتر پڑھنا پسند کرے وہ ایک پڑھ لے۔‘‘

سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

«کان رسول اﷲ یوتر بسبع أو بخمس… الخ»صحیح ابن ماجہ:۹۸۰
1-تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : کان یوتر برکعۃ وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعۃ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت کے ساتھ وتر بناتے جبکہ دو رکعت اور ایک کے درمیان کلام کرتے۔ مزید ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے کہ:«صلی رکعتین ثم سلم ثم قال أدخلو إلیّ ناقتي فلانة ثم قام فأوتر برکعة»(مصنف ابن ابی شیبہ)

’’انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر سلام پھیر دیاپھر کہا کہ فلاں کی اونٹنی کو میرے پاس لے آؤ پھر کھڑے ہوئے اور ایک رکعت کے ساتھ وتر بنایا۔‘‘

2- پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرۃ رکعة یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرها»(صحیح مسلم:۷۳۷)


3- سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:« کان رسول اﷲ! یوتر بسبع أو بخمس لا یفصل بینهن بتسلیم ولا کلام» (صحیح ابن ماجہ :۹۸۰)
’’نبی سات یا پانچ وتر پڑھتے ان میں سلام اور کلام کے ساتھ فاصلہ نہ کرتے۔‘‘

4- نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
«ویصلي تسع رکعات لایجلس فیھا الا في الثامنة … ثم یقوم فیصلي التاسعة»


’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت پڑھتے اور آٹھویں رکعت پر تشہد بیٹھتے …پھر کھڑے ہوکر نویں رکعت پڑھتے اور سلام پھیرتے۔‘‘ (صحیح مسلم:۷۴۶)

(آخری رکعت میں) رکوع سے پہلے دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے۔

دلیل:ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
«أن رسول اﷲ کان یوتر فیقنت قبل الرکوع»(صحیح ابن ماجہ:۹۷۰)
’’بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھتے تو رکوع سے پہلے قنوت کرتے تھے۔‘‘

«اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا اَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَاقَضَیْتَ فَإنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ إنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ»(صحیح ترمذی:۳۸۳،بیہقی :)
’’اے اللہ! مجھے ہدایت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے ہدایت دی، مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی، مجھ کو دوست بنا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے دوست بنایا۔ جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور مجھے اس چیز کے شر سے بچا جو تو نے مقدر کردی ہے، اس لئے کہ تو حکم کرتا ہے، تجھ پر کوئی حکم نہیں چلا سکتا ۔جس کو تو دوست رکھے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا اور جس سے تو دشمنی رکھے وہ عزت نہیں پاسکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا ہے، بلند و بالا ہے۔‘‘

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتوی کمیٹی
محدث فتوی

اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.

اگر کسی کی رات کی وتر کی نماز رہ جائے تو وہ وتر کی قضا کس طرح کرے گا...????
 
Top