• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز جمعہ میں سستی نہ کریں !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
1609799_699078253456778_1344461581_n.jpg



نماز جمعہ كے ليے پہلا اور دوسرا وقت كب شروع ہوتا ہے ؟

حديث ميں نماز جمعہ كے ليے جلدى آنے كى فضيلت بيان ہوئى ہے كہ:

" جو شخص پہلے وقت ميں آتا ہے اسے اونٹ كى قربانى كا اور جو دوسرے وقت ميں اسے گائے كى قربانى كا .... "
ميرى گزارش ہے كہ آپ بتائں كہ يہ پہلا وقت يا گھڑى كب شروع ہوتى ہے، اور كب ختم ہو كر دوسرا وقت شروع ہوتا ہے ؟


الحمد للہ :

" جو شخص پہلے وقت گيا گويا كہ اس نے اونٹ كى قربانى كى، اورجو دوسرے وقت گيا گويا كہ اس نے گائے، اور جو تيسرے وقت گيا گويا كہ اسنے مينڈھا، اور جو چوتھے وقت گيا گويا كہ اس نے مرغى، اور جو پانچويں وقت گيا گويا كہ اس نے انڈے كى قربانى كى، اور جب امام منبر پر چڑھ جائے تو فرشتے بھى حاضر ہو كر خطبہ سننا شروع كر ديتے ہيں "

يہ طلوع شمش سے شروع ہوتا ہے، امام شافعى، امام احمد وغيرہ كا مسلك يہى ہے.

زوال كے بعد ايك وقت اور گھڑى ہے جس ميں يہ سارے وقت ہيں، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور بعض شافعيہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے.

" يہ تو معلوم ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے ليے زوال سے متصل نكلا كرتے تھے، اور اسى طرح سب علاقوں اور ملكوں كے آئمہ كرام بھى اور يہ چھٹا وقت يا گھڑى گزرنے كے بعد ہوتا، تو يہ اس كى دليل ہے كہ جو شخص زوال كے بعد آئے اسے قربانى اور فضيلت سے كچھ حاصل نہيں ہوا؛ كيونكہ وہ تو صحيفہ بند ہونے كے بعد آيا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ وقت اور گھڑياں تو اس ليے بيان ہوئى ہيں كہ لوگوں كو جلدى آنے كے ليے تيار كيا جائے، اور پہلے آنے ميں سبقت لے جانے كى فضيلت حاصل ہو، اور پھر پہلى صف ملے، اور جمعہ كا انتظار اور نفل ونوافل اور ذكر واذكار ميں مشغول رہا جائے، اور زوال شمس كے بعد جانے سے يہ سب كچھ حاصل نہيں ہوتا، اور نہ ہى زوال كے بعد آنے كى كوئى فضيلت ہے؛ كيونكہ اس وقت تو اذان ہو گى اور اس سے تاخير كرنا حرام ہے" انتہى

" امام مالك رحمہ اللہ كا قول آثار و احاديث كے خلاف ہے؛ كيونكہ جمعہ كى ادائيگى زوال كے وقت مستحب ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ جلد ادا كيا كرتے تھے، اور جب امام نكلتا ہے تو صحيفے اور رجسٹر بند كر ديے جاتے ہيں، جو شخص اس كے بعد آئے اس كا جمعہ نہيں لكھا جاتا، تو اس كو كونسى فضيلت ملى ؟! انتہى

دوسرا قول صحيح ہے، يہ كہ يہ اوقات اور گھڑياں طلوع شمس سے شروع ہوتى ہيں، اور طلوع شمس سے ليكر جمعہ كى اذان تك يہ چھ اوقات تقسيم ہوتے ہيں، اور اس كا ہر جزء حديث ميں " ساعۃ" گھڑى مقصود ہو گا.

" جو شخص پہلى گھڑى ميں آيا گويا كہ اس نے اونٹ قربان كيا، اور جو دوسرى ميں آيا گويا كہ اس نے گائے قربان كى، اور جو تيسرى ميں آيا گويا اس نے مينڈھا قربان كيا، اور جو چوتھى ميں آيا گويا كہ اس نے مرغى قربان كى، اور جو پانچويں ميں آيا گويا كہ اس نے انڈا قربان كيا "

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے طلوع شمس سے ليكر امام كے آنے تك كو پانچ حصوں ميں تقسيم كيا، تو اسطرح ہر حصہ تقريبا اس وقت معروف ايك گھنٹہ كے برابر ہو گا، اور بعض اوقات اس سے زيادہ يا كم بھى، كيونكہ وقت ميں تغير ہوتا رہتا ہے، لہذا طلوع شمس سے ليكر امام كے آنے تك پانچ گھڑياں ہيں، اور ان كى ابتدا طلوع شمس اور ايك قول يہ بھى ہے كہ طلوع فجر سے ہوتى ہے، ليكن پہلا قول زيادہ راجح ہے؛ كيونكہ طلوع شمس سے قبل تو نماز فجر كا وقت ہے" انتہى

اس مسئلہ كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كى كتاب " زاد المعاد ( 1 / 399 - 407 ) ديكھيں.

الاسلام سوال وجواب
 
Top