• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ صحابہ کرام کااجماع

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
نماز جنازہ میں چار سے زائد تکبیرات کابھی ثبوت ملتا ہے ، تین تکبیر سے لیکر نو تکبیرات کا ذکر ہے تاہم صحیحین میں پانچ تک کا ذکر ہے ۔
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں:
كان زيدٌ يُكبِّرُ على جنائزِنا أربعًا . وإنه كبَّر على جنازةٍ خمسًا . فسألتُه فقال : كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يُكبِّرُها .(صحيح مسلم:957)
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے جنازوں (کی نماز) میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا کہ " آپ تو ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ تکبیریں کیوں کہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔

یہ حدیث متعدد کتب احادیث میں مروی ہے مثلا ابوداؤد، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، بیہقی ، مسند طیالسی اور مسند احمد وغیرہ ۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے :

دل الإجماع على نسخ هذا الحديث لأن ابن عبد البر وغيره نقلوا الإجماع على أنه لا يكبر اليوم إلا أربعا ، وهذا دليل على أنهم أجمعوا بعد زيد بن أرقم ، والأصح أن الإجماع يصح من الخلاف (شرح مسلم(
ترجمہ:
اجما ع اس بات پہ دلالت کرتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ ابن عبدالبر وغیرہ نے اس بات پہ اجماع نقل کیا ہے کہ اس وقت صرف چار تکبیرات کہی جائے گی ، یہ اس بات پہ دلیل ہے کہ زید بن ارقم کے بعد اس پہ اجماع کرلیا گیا اور صحیح بات یہ ہے کہ اختلاف سے اجماع صحیح ہوتا ہے ۔
گویا امام نووی رحمہ اللہ کے نزدیک پانچ والی روایت منسوخ ہے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع ہے ۔ جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ چار تکبیرات ہی مشروع ہیں ، ان کی چار وجوہات ہیں ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ اکثر صحابہ سے مروی ہے ، ان کی تعداد پانچ تکبیرات بیان کرنے والے صحابہ سے زیادہ ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ صحیحین کی روایت ہے ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ چار تکبیرات پہ اجماع واقع ہوا ہے ۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کا آخری عمل یہی ہے جیساکہ امام حاکم نے مستدرک میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان لفظوں کے ساتھ روایت ذکر کیا ہے(
آخر ما كبر رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجنائز أربع ) کہ نبی ﷺ نے جنازہ پہ سب سے آخری مرتبہ چار تکبیرات کہیں۔ (نیل الاوطار ، باب عددتکبیر صلاۃ الجنائز)
صاحب عون المعبود کا رحجان چار تکبرات کی طرف لگتا ہے چنانچہ انہوں نے علی بن جعد کے حوالے سے صحابہ کے کچھ آثار پیش کئے جن سے چار تکبیرات پہ اجماع کا علم ہوتا ہے جیسے کہ بیہقی میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا صحابہ کبھی چار تو کبھی پانچ پر عمل کرتے تو ہم نے چار پہ جمع کردیا۔ بیہقی میں ابووائل رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ نبی ﷺ کے زمانہ میں چار، پانچ ، چھ اور سات تکبیرات کہا کرتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو جمع کرکے اس اختلاف کی خبر دی اور انہیں چار تکبیرات پہ جمع کردیا۔ابراہیم نخعی کے طریق سے یہ روایت بھی ہے کہ صحابہ کرام ابومسعود رضی اللہ عنہ کے گھر جمع ہوئے اور جنازہ کی چار تکبیرات پہ اجماع کرلیا۔ (عون المعبود ، باب التکبیر علی الجنازۃ)
امام ترمذی نجاشی والی روایت جس میں چار تکبیر کا ذکر ہے اسے بیان کرکے لکھتے ہیں کہ اسی حدیث پر نبی ﷺ کے اکثر اصحاب کا عمل ہے اور دیگر اہل علم کا بھی کہ جنازہ کی تکبیرات چار ہیں ۔ یہ قول سفیان ثوری، مالک بن انس، ابن المبارک ، شافعی ، احمد اور اسحاق وغیرھم کا ہے ۔ (سنن الترمذی، باب ماجاء فی التکبیر علی الجنازۃ)
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی میت فضل کے اعتبار سے بڑا ہو تو کیا ان کے جنازہ میں تکبیر ات زائد کہی جاسکتی ہیں ؟ تو شیخ نے جواب دیا کہ افضل یہی ہے کہ چار پہ اکتفا کرے جیساکہ اس وقت عمل کیا جاتا ہے اس لئے کہ یہ نبی ﷺ کا آخری عمل ہے ، نجاشی کی بڑی فضیلت ہے پھر بھی نبی ﷺ نے ان کی نماز جنازہ میں چار تکبیرات پہ ہی اکتفا کیا ۔ (
مجموع فتاوى و رسائل بن باز – تیرہویں جلد)
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نماز جنازہ میں چار تکبیرات نبی ﷺ کا آخری عمل ہے اور اس پہ صحابہ کرام کا اجماع ہے اس لئے جنازہ میں چار تکبیرات ہی کہی جائیں گی ۔

واللہ اعلم
مقبول احمدسلفی
 
Top