• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پانچواں باب
بخل

ولایحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہٖ ھوخیراً الھم بل ھوشرلھم سیطوفون مابخلوبہ یوم القیمۃ وللہ میراث السمٰوت والارض واللہ بماتعملون خبیر(ال عمران۳:۱۸۰سے ۱۸۲)
ترجمہ :جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لئے بہترخیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لئے نہایت بدترہے ، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے ، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اور جو کچھ تم کر رہے ہو، اس سے اللہ تعالیٰ آگاہ ہے یقیناً اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا قول بھی سناجنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تونگر ہیں ان کے اس قول کو ہم لکھ لیں گے اور ان کا انبیا کو بے درجہ قتل کرنابھی، اور ہم ان سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھو!

توضیح :اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بخیل کا بیان کیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتاحتیٰ کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں نکالتا حدیث میں ہے کہ قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کرطوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرامال ہوں ، میں تیراخزانہ ہوں (صحیح بخاری)

جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا: من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا(البقرۃ:۲۴۵)’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے ‘‘ تو یہود نے کہا اے محمد(ﷺ)!تیرارب فقیر ہو گیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے ؟ جس پراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی(ابن کثیر)

واعبدواللہ ولاتشرکوابہ شیاوبالوالدین احسانا الذین یبخلون ویامرون الناس بالبخل ویکتمون ما اتھم للہ من فضلہٖ واعتدنا للکفرین عذابامھینا (النسآء۴:۳۶۳۷)
ترجمہ :اور اللہ کی عبادت کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو ے کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام کنیز) یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسندنہیں فرماتاجو لوگ خودبخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیارکر رکھی ہے

توضیح :اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں حقوق العباد کو بیان فرمایا ہے اس کے بعد بخل کرنے والوں اور بخل پر ابھارنے والوں کی مذمت اور پھر فرمایا کہ ہمارے دیئے ہوئے کو چھپاتے ہیں یعنی کتھڑی اوڑھ کرگھی کھانے والے بخیلوں وکنجوسوں کو کافر ین کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے فرمایا ہم نے کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے العیاذباللہ

ومنھم من عھداللہ لئن اتانا من فضلہٖ لنصدقن ولنکونن من الصلحین فلما اتھم من بخلوابہ وتولواوھم معرضون(التوبہ۹:۷۵۷۶۷۷)
ترجمہ :ان میں وہ بھی ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگروہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گاتوہم ضرور صدقہ وخیرات کریں گے اور پکی طرح نیکوکاروں میں ہو جائیں گے لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیاتو ہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑلیا پس اس کی سزامیں اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق ڈال دیا اللہ سے ملنے کے دنوں تک کیونکہ انھوں نے اللہ سے کیے ہوئے وعدے کا خلاف کیا اور کیوں کہ جھوٹ بولتے رہے

توضیح : مدینہ کے کچھ منافقین کچھ ایسی ہی تمنالئے ہوئے تھے جب ان کی یہ تمنا پوری ہو گئی تو پھر اس سے مکر گئے اور بخل کا رویہ اختیارکرلئے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ روش ناگوار گزری ان کی یہ حرکت کے مذمت میں یہ آیات نازل ہوئیں معلوم ہواکہ بخل کنجوسی کتھڑی اوڑھ کر گھی کھانے والے منافق ہیں یہ امیرلوگ حاجی، نمازی، صوفی تو نظر آئیں گے مگرجب کس ضرورت مندوں کو ان کے پاس بھیجیں تو پھر دیکھوکیسے یہ اپنا بخیلی کا پینترا بدلتے ہیں ایسے لوگوں کو آیات مذکورہ سے نصیحت پکڑناچاہئے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بخل قارون

ان قارون کان من قوم موسیٰ فبغیٰ علیھم واتینٰہ وابتغ فیما اتک اللہ الدار الاخرۃ ولاتنس نصیبک من الدنیاواحسن کما احسن اللہ الئک ولاتبغ الفساد فی الارض ان اللہ لایحب المفسدین(القصص۲۸:۷۶۸۴)
ترجمہ :اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے کہ اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے توبھی اچھاسلوک کراور ملک میں فساد کا خواہاں نہ ہو، یقین مان کہ اللہ مفسدوں کو ناپسند رکھتا ہے

قارون نے کہایہ سب کچھ مجھے میری اپنی سمجھ کی بنا پرہی دیا گیا ہے ، کیا اسے اب تک یہ نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے بہت سے بستی والوں کو غارت کر دیاجواس سے بہت زیادہ قوت والے اور بہت بڑی جمع پونجی والے تھے اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کی بازپرس ایسے وقت نہیں کی جاتیپس قارون پوری آرائش کے ساتھ اپنی قوم کے مجمع میں نکلا، تودنیاوی زندگی کے متوالے کہنے لگے کاش کہ ہمیں بھی کسی طرح وہ مل جاتاجوقارون کو دیا گیا ہے ، یہ توبڑاہی قسمت کا دھنی ہے


ذی علم لوگ انھیں سمجھانے لگے کہ افسوس !بہتر چیزتووہ ہے جوبطور ثواب نہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں یہ بات انہی کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبرو سہار والے ہوں


(آخرکار) ہم نے اسے اس کے محل سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اللہ کے سواکوئی جماعت اس کی مددکے لیے تیارنہ ہوئی نہ وہ خوداپنے بچانے والوں میں سے ہو سکا اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پرپہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟اگراللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتاتوہمیں بھی دھنسا دیتا، کیا دیکھتے نہیں ہوکہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی؟


آخرت کا یہ بھلاگھرہم ان ہی کے لیے مقرر کر دیتے ہیں جوزمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے جو شخص نیکی لائے گا اسے اس سے بہترملے گا، اور جوبرائی لے کر آئے گا تو ایسے بداعمالی کرنے والوں کو ان کے انھی اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جووہ کرتے تھے


توضیح : قارون کے بخل کے تعلق سے مذکورہ آیات میں بالتفصیل بات سمجھ آجاتی ہے اتنے خزانوں کا مالک ہونے کے باوجود وہ بے انتہا بخیل تھا آخرکار اس کا برا انجام ہوا وہ اور اس کا خزانہ زمین میں دھنسا دیا گیا یہ ایک عبرت ہے عقلمندوں کے لئے آج کے دولت مندامیر بخل وکنجوسی سے بچیں ورنہ قارون کے ساتھ ان کا انجام ہو گا

ھانتم ھولائِ تدعون لتنفقوافی سبیل اللہ فمنکم من یبخل ومن یبخل فانمایبخل عن نفسہٖ واللہ الغنی وانتم الفقراء وان تتولوایستبدل قوما غیرکم ثم لایکونوا امثالکم(سورۂ محمدﷺ۴۷:۳۸)
ترجمہ :خبردار!تم وہ لوگ ہوکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بلائے جاتے ہو، توتم میں سے بعض بخیلی کرنے لگتے ہیں اور جوبخل کرتا ہے وہ تو دراصل اپنی جان سے بخیلی کرتا ہے اللہ تعالیٰ غنی ہے اور تم فقیر(اور محتاج) ہواور اگر تم روگردان ہو جاؤ تو وہ تمہارے بدلے تمہارے سوا اور لوگوں کو لائے گاجوپھر تم جیسے نہ ہوں گے

توضیح : اس سورت میں منافقین کا ذکر ہے جنھوں نے کفراور اتداد کو ظاہر کیا اور پھر اس آخری آیت میں ان کی بخیلی کا خصوصی ذکر موجودہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخل منافقین کی ایک بڑی خصلت تھی اس بری خصلت کو اللہ تعالیٰ مومنین کے لئے نصیحت کے طور سے واضح کیاتاکہ مومنین اس سے بچ جائیں اور اپنی عاقبت سنوار لیں ورنہ اللہ تعالیٰ ایسابے نیاز ہے کہ تم دویانہ دواس کی کبریائی میں ذرہ برابر فرق پڑنے والا نہیں ہے ہرنفس اپنے ہی لئے کرے گا

لکیلاتاسوعلیٰ مافاتکم ولاتفرحوابما اتکم واللہ لایحب کل مختال فخور الذین یبخلون ویامرون با البخل ومن یتول فان اللہ ھو الغنی الحمید(الحدید۵۷:۲۳۲۴)
ترجمہ :تاکہ تم اپنے سے فوت شدہ کسی چیزپر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور عطا کردہ چیز پر اتراجاؤ اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا


جو(خودبھی) بخل کریں اور دوسروں کو (بھی) بخل کی تعلیم دیں سنو!جوبھی منہ پھیرے اللہ بے نیاز اور بڑی تعریف والا ہے


توضیح : مال اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک امانت ہے بسا اوقات اگروہ ضائع ہو جائے توواویلا نہ کروبلکہ صبر کرواور اللہ کے جانب رجوع ہو جاؤ توبہ کروکیوں کہ اس سے پہلے اللہ نے تم کو بے حساب دیا تھامگر تم نے غرور وتکبر کیا اور اس کی سرزمین میں اترانے لگے اور بخیلی و کنجوسی کا جامہ پہن لیا خود تو بخیل تھے مگردوسروں کو بھی بخل پر اکساتے تھے آج تم نے اس کا انجام دیکھ لیا اللہ کی ذات بے نیازہے وہ لائق حمد و ثنا ہے لہٰذا اسی سے لولگاؤ فیاضی اختیارکرو بخل سے بچ جاؤ

والذین تبووالداروالایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ولایجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتواویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہٖ فاولئک ھم المفلحون(الحشر۵۹:۸۹)
ترجمہ :اور (ان کے لیے )جنھوں نے اس گھرمیں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کر کے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپرانہیں ترجیح دیتے ہیں گرچہ خودکو کتنی ہی سخت حاجت ہو اور جوبھی اپنے نفس کو بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب ہے

توضیح : دوران جہاد جوبھی مال حاصل ہواس میں بھی مہاجروں ومسکینوں ، خانہ بدوشوں کو دینا ہے ، ہرمیدان میں خرچ کا حکم دیا گیا ہے ایک مثال ایثار عظیم کی جو اس آیت کا شان نزول بھی ہے ملاحظہ ہو

رحمۃ اللعلمین ﷺ کے گھرایک مہمان واردہوئے لیکن آپؐ کے گھرکچھ بھی نہ تھا اس مہمان رسولؐ کو حضرت ابوطلحہ انصاریؓ نے اپنے گھرلے کر گئے مگران کے گھر میں بھی سوائے بچوں کے حصہ کے اور کچھ نہ تھا آپؓ نے بیوی کو حکم دیا اج بچوں کو پھسلا کر بہلا کر سلادو اور مہمان رسولؐکوکھاناکھلاؤ توایساہی کیا گیا بچے اور خودمیاں ؓ، بیویؓ بھی بھوکے رہے مگر مہمان کو کھانا کھلایا گیا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند آیا اور آیت مذکورہ ’’ویوثرون علیٰ انفسھم‘‘ حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کے عظیم ایثار پر خوش ہوکر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی رحمۃ اللعلمین ﷺ نے حضرت ابوطلحہ انصاریؓ کو پڑھ کر سنائی اور فرمایا کہ یہ آیت دونوں میاں بیوی کے حق میں نازل فرمائی سبحان اللہ یہ ہے فیاضی کا ثمرہ پھر آخر میں بخل سے روکا گیا ہے

انما اموالکم واولادکم فتنۃ واللہ عندہ اجرعظیم فاتقوا اللہ ما استطعتم واسمعواواطیعواوانفقوا خیرالانفسکم ومن یوق شح نفسہٖ فاولئک ھم المفلحون(التغابن۶۴:۱۵۱۶۱۷)
ترجمہ :تمہارے مال اور اولادتو سراسرتمہاری آزمائش ہیں اور بہت بڑا اجر اللہ کے پاس ہے پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہواور سنتے اور مانتے چلے جاؤ اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جوتمہارے لیے بہترہے اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے


اگر تم اللہ کو اچھاقرض دو گے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرو گے ) تووہ اسے تمہارے لیے بڑھاتا جائے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف فرمادے گا اللہ بڑاقدردان بڑا بردبار ہے


توضیح : بخل کی مذمت میں کتنی زبردست آیات ہیں بے شک مال ودولت اللہ کا فضل وانعام ہیں جوبطور آزمائش اللہ ہمیں عطافرماتا ہے ، بہت سے لوگ اس فضل و انعام کو بے دریغ معصیت ونافرمانی وگناہوں کے کام میں خرچ کرتے ہیں چونکہ شیطان ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یہ لوگ شیطان کی بات پرعمل کرتے ہیں انہیں کا انجام دنیاوآخرت میں بہت برا ہونے والا ہے اس کے برعکس اللہ کے وہ سعادت مند بندے جو اس کے فضل وانعام کو اللہ کی دی ہوئی امانت سمجھتے ہیں اور بخیلی نہیں کرتے ایسے لوگوں کے لیے اللہ نے بشارت عظمیٰ کی خبردی ہے جودونوں جہاں سعادت مندی ہے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باغ والوں کے بخل کا انجام

اللہ رب العلمین کسی پرظلم نہیں کرتابلکہ انسان خوداپنے نفس پرظلم کرتا ہے سرکشی و طغیانی اور فساد فی الارض اس کا وطیرہ بن چکا ہوتا ہے اس وقت اپنے آپ کو اور اپنی اصلیت کو وہ بھول چکا ہوتا ہے اور تکبر کا راستہ اختیارکر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے طویل مہلت بھی دیتا ہے کہ میرابندہ شاید توبہ کر لے مگر ؟رحمتہ اللعلمین رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’ہرقوم کے لئے ایک آزمائش ہے اور میری امت کے لئے آزمائش (فتنہ) مال ہے ‘‘(ترمذی) مگراکثریت اس آزمائش میں مبتلا ہو جاتی ہے ایسا ہی ایک باغ والوں کا قصہ قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ان بلونھم کمابلونا اصحب الجنۃ اذاقسمو الیصر منھا مصبحین ولا یستثنون فطاف علیھا طآئف من ربک وھم نآئمون(الآیات)
’’بے شک ہم نے انھیں اسی طرح آزما لیاجس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انھوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتارلیں گے اور ان شاء اللہ نہیں کہا، پس اس پرتیرے رب کی جانب سے ایک بلا(باغ کے ) چاروں طرف سے (عذاب الٰہی) گھوم گئی اور یہ سوہی رہے تھے پس وہ باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی‘‘(سورۃ القلم۶۸:۱۷سے ۱۳۳!آیات تک پوراقصہ ہے )

توضیح : ’’بے شک ہم نے انھیں اسی طرح آزما لیا‘‘ سے مراد مکہ کے کفار ہیں جو کفر اور تکبر کرتے تھے اللہ نے انھیں مال و دولت سے نوازا تھا کہ وہ شکر کریں اور کفر و استکبار سے بچتے رہیں مگر کفار مکہ اپنے اس رویے سے باز نہیں آئے تو اللہ نے انہیں بھوک فقر و فاقہ اور قحط سالی میں مبتلا کر دیا تھا اسی مثال کو اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا، باغ والوں کا قصہ عربوں میں بہت مشہور تھا(جس طرح اصحاب الفیل ہاتھی والوں کا قصہ مشہور تھا) یہ باغ صنعاء یمن سے دوفرسخ کے فاصلے پرتھا اس ملک میں ایک بڑا امیر شخص تھاجس کا ایک عظیم باغ اپنی الگ پہچان رکھتا تھا اس کا مالک دیانت دار صالح نیک بخت و فیاض سخی جو غرباء ومساکین پر خلوص نیت سے خرچ کیا کرتا تھا اس کی سخاوت بڑی مشہور تھی غربا و نادار لوگ دعائیں کرتے رہتے تھے اور انتظار کرتے کہ فصل تیا رہو اور ہمیں اپنا حق ملے ، اللہ نے اس کی خلوص نیت وسخاوت کی وجہ سے اس کے باغ میں بے انتہا برکت دے رکھی تھی، ان کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے وارث ہوئے تو انھوں نے کہا کہ ہمارا باپ توبڑاناسمجھ تھا جو خواہ مخواہ اپنی دولت کا بڑا حصہ یتیم ومساکین پر لٹاتا رہتا تھا ابھی تو ہمارے ہی اخراجات بمشکل پورے ہو رہے ہیں ہم اس آمدنی میں سے کس طرح یتیم ومساکین وسائلین کو دیں ؟ آگے اٹھارویں آیات سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کرتوت کو تذکرہ اس طرح فرمایا:

’’اب صبح ہوتے ہی انھوں نے ایک دوسرے کو آواز دیں (یعنی جب باغ کی فصل تیار ہو گئی)کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پرسویرے ہی سویرے چل پڑو وہ پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس ہرگز نہ آئے اور لپکے ہوئے صبح صبح ہی(باغ میں ) پہنچ گئے سمجھ رہے تھے کہ ہم قابو پا گئے جب انھوں نے باغ کو دیکھا(جو عذاب الٰہی میں برباد ہو چکا تھا) تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے (تباہ شدہ باغ کو پہچان ہی نہ سکے ) نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی‘‘(القلم:۲۷الخ)

اپنی اس تدبیر پرانبھیں غرور تھا اور اس خوشی میں پھولے ہوئے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کو بھول ان شاء اللہ تک کسی کی زبان سے نہ نکلا اس لئے ان کی یہ قسم پوری نہ ہوئی رات ہی رات میں ان کے باغ میں کھیتی میں پہنچنے سے پہلے ہی آسمانی آفت نے سارے باغ کو جلا کر خاکسترکر دیا ایسا ہو گیا جیسے سیاہ رات اور کٹی ہوئی کھیتی اسی لئے رحمۃ اللعلمین نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ لوگو! گناہوں سے بچو، گناہوں کی شامت کی وجہ سے انسان اس روزی سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جواس کے لئے تیار کر دی گئی ہے پھر ان آیتوں کی تلاوت فرمائی کہ یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے اپنے باغ کے پھل اور اس کی پیداوار سے بے نصیب کر دئیے گئے (تفسیر ابن کثیر فتح القدیر احسن البیان وغیرہم سورۃ القلم آیات مذکورہ)

یہ تھا بخل وکنجوسی کا انجام اگر اولاد باپ کی طرح فیاض وسخی ہوتے تو یقیناً انجام بہتر ہوتا (ماخوذ میری پہلی تصنیف ’’ان شاء اللہ اور مشیت الٰہی‘‘،ص:۸۰سے ۸۲تک)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
والیل اذایغثی والنھاراذاتجلی وصدق بالحسنی فسنیسرہ للیسریٰ وامامن بخل واستغنی

(الیل۹۲:۱سے آخر تک)
ترجمہ :شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جوبڑ امہربان نہایت رحم والا ہے

قسم ہے رات کی جب چھا جائے اور قسم ہے دن کی جب روشن ہو اور قسم ہے اس ذات کی جس نے نر و مادہ کو پیدا کیا یقیناً تمہاری کو شش مختلف قسم کی ہے جس نے دیا (اللہ کی راہ میں ) اور ڈرا(اپنے رب سے ) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی توہم بھی اس کی تنگی و مشکل کے سامان میسر کر دیں گے اس کا مال اسے (اوندھا)گرنے کے وقت کچھ کام نہ آئے گا بیشک راہ دکھا دینا ہمارے ذمہ ہے اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے میں نے تو تمہیں شعلے مارتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا ہے جس میں صرف وہی بدبخت داخل ہو گا جس نے جھٹلایا اور (اس کی پیروی سے )منہ پھیر لیا اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیز گار ہو گا جو پاکی حاصل کرنے کے لیے اپنا مال دیتا ہے کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے


توضیح : اللہ تعالیٰ نے اس پوری سورہ میں اللہ کے راستہ میں خرچ اور بخل سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا کہ جو شخص فیاض وسخی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مشکلیں آسان فرما دیتا ہے اور بخیل آدمی کو اللہ کے یہاں اس کا مال کام نہ دے گا بلکہ اس نے دنیا میں جو کچھ خرچ کیا ہو گا وہ اس کے کام آئے گا

واما اذاما ابتلہ فقدرعلیہ رزقہ فیقول ربی اھانن کلابل لاتکرمون الیتیم ولاتحضون علی طعام المسکین (الفجر۸۹:۱۶۱۷۱۸)
ترجمہ :اور جب وہ اس کو آزماتا ہے تواس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی(ذلیل کیا) ایساہرگزنہیں بلکہ تم ہی یتیموں کی عزت نہیں کرتے اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے

توضیح : اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ برتاؤ کے تعلق سے بیان فرمایا کہ اگر تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرو گے تو تمہیں رزق میں کشادگی دی جائے گی اور اگر تم ان کے ساتھ بے رخی برتو گے اور بخیلی کرو گے تو تمہیں تنگی رزق میں مبتلا کر دیا جائے گا لہٰذا انجام بدسے پہلے پہلے اپنی اصلاح کر لوورنہ آخرت میں سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ ہو گا

فلا اقتحم العقبۃ وما ادرک ما العقبۃ فک رقبۃ اواطعام فی یوم ذی مسغبۃ یتیماذامقربۃ اومسکینا ذامتربۃ(البلد۹۰:۱۱سے ۱۶)
ترجمہ :تواس سے یہ نہ ہو گا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا اور کیاسمجھا کہ گھاٹی کیا ہے کسی گردن کو آزاد کرنا یا بھوک والے دن کھانا کھلا دینا کسی رشتہ دار یتیم کو یا خاکسار مسکین کو

توضیح :جس طرح کسی بڑی دشوار گھاٹی میں چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح یتیموں مسکینوں کی کفالت محتاجوں کی مدد یہ بھی بڑا مشکل کام ہے ، مگر اس کو انجام دینا جہنم کی گھاٹی سے اپنے آپ کو بچا کر جنت الفردوس میں داخل ہونا ہے سبحان اللہ

اللھم التکاثرحتی زرتم المقابر (التکاتر۱۰۲:۱سے آخر تک)
ترجمہ :زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا یہاں تک کہ تم قبرستان جاپہنچے ہرگزنہیں تم عنقریب معلوم کر لو گے ہرگزنہیں پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا ہر گزنہیں اگر تم یقینی طورپرجان لو تو بے شک تم جہنم دیکھ لو گے اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہو گا

توضیح :انسان صرف دنیا سنوارنے میں لگا ہوا ہے اس کی خواہش تکمیل تک نہیں پہنچ رہی ہیں بس ہائے ہائے یہ بنا لوں وہ بنا لوں اتنا جمع کر لوں اس سے سبقت کر لوں اسی اس میں وہ اللہ کے ذکر نماز سے غافل رہتا ہے بالآخر موت اس کو دبوچ لیتی ہے سب کچھ چھوڑ کر دو گز زمین کے ٹکڑے میں سماجاتا ہے اگراس نے حاجت مندوں ، محتاجوں ، سائلوں ، غربا و مسکینوں و یتیموں کا خیال کیا تو ٹھیک ہے ورنہ یہ بخل اسے جہنم کا ایندھن بنائے گا

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ویل لکل ھمزۃ لمزۃ الذی جمع مالاوعددہ یحسب ان مالہ اخلدہ

(الھمزہ۱۰۴:۱سے آخرتک)
ترجمہ :شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

بڑی خرابی ہے ہرایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو جو مال کو جمع کرتا جائے اور گنتا جائے وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اس کے پاس سدا رہے گا ہر گز نہیں یہ تو ضرور توڑ پھوڑ دینے والی آگ میں پھینک دیا جائے گا اور تجھے کیا معلوم کہ ایسی آگ کیا ہو گی؟ وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہو گی جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی اور ان پر بڑے بڑے ستونوں میں ہر طرف سے بند کی ہوئی ہو گی


توضیح : اللہ تعالیٰ نے انسان کو کتنا آگاہ فرمایا ہے کہ اس کے انجام بدسے خبردار کیا مگر ہائے رے انسان تو اپنی دولت میں کتنا مگن ہے اس کے غرور کے نشہ میں مست ہے تجھے معلوم نہیں کہ قارون جیسے کئی لوگ اب تک اس دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہیں آج لوگوں کے پاس لاکھوں کروڑوں روپیہ بینکوں کی زینت ہیں محل و مکانات میں جن و شیطان کا بسیرا ہے جو خالی پڑے ہوئے ہیں مگر کتنے محتاج آج بھی کھلے آسمان میں ننگے بدن اور کتنے ائمہ مساجد کے رہائشی انتظام نہ ہونے کے سبب برسوں اپنے گھروں سے دور ہیں

*****​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چھٹا باب
آئینۂ نماز و زکوٰۃ

آئینۂ نماز۔۱

جمعہ کی نمازیں

جمعہ کی دو رکعت فرض ہیں خطبۂ جمعہ سے پہلے جتنا ہو سکے سنتیں پڑھیں اگر خطبہ شروع ہو چکا ہو تو صرف دو رکعت سنت پڑھیں جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعت سنتیں دو دو کر کے پڑھیں

عیدین کی نمازیں

صرف دو رکعت مؤکدہ ہیں

نفل نمازیں

نماز تہجد یا نماز تراویح: گیارہ رکعت /آٹھ نفل تین وتر
چاشت کی نماز : کم از کم چار رکعت دو دو کر کے ، زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت
تحیۃ المسجد : دو رکعت(سفروحضردونوں میں )
نقشہ ہٰذا کتب احادیث صحاح ستہ سے ترتیب دیا گیا ہے
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آئینۂ زکوٰۃ

زکوٰۃ کا اجتماعی نظام ہونا چاہئے جس طرح نماز میں اجتماعیت ہے اگر یہ نظام قائم ہو جائے تو مسلمان کبھی بھی کسی کا محتاج نہیں رہے گا اس کے لئے بیت المال کا قیام ہو جس میں صدقات و زکوٰۃ جمع ہوں پھر اس سے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری ہوں اللہ تعالیٰ نے اہل مصارف کا اس طرح تعین فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’بے شک صدقات(زکوٰۃ) صرف فقیروں کے لئے ہیں اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور دلوں کی تالیف کے لئے (غیرمسلموں کے لئے جن کے دل اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں یاوہ غریب نئے مسلم جو ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہوں ) اور گردن کے آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے اور یہ اہم فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے ‘‘(التوبہ۹:۶۰)

اسلام میں بیت المال کا با ضابطہ نظام موجود ہے لہٰذا مذکورہ تعین کے تحت اس پر عمل ہونا چاہئے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اونٹوں کا نصاب

اگرکسی کے پاس ۵ سے لے کر ۹ تک اونٹ ہو تو ایک بکری زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۱۰سے لے کر ۱۴ تک اونٹ ہو تو دو بکری زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۱۵سے لے کر ۱۹ تک اونٹ ہو تو تین بکری زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۲۰سے لے کر ۲۴ تک اونٹ ہو تو چار بکری زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۲۵سے لے کر۳۵ تک اونٹ ہو تو ایک سال کی اونٹی جس کا دوسرا شروع ہو

اگرکسی کے پاس ۳۶سے لے کر ۴۵ تک اونٹ ہو تو دوسال کی اونٹنی

اگرکسی کے پاس ۴۶سے لے کر ۶۰ تک اونٹ ہو تو ایک اونٹنی جس کا چوتھا سال شروع ہو

اگرکسی کے پاس ۶۱سے لے کر ۷۵ تک اونٹ ہو تو ایک اونٹنی جس کا پانچواں سال شروع ہو

اگرکسی کے پاس ۷۶سے لے کر ۹۰ تک اونٹ ہو تو دو اونٹنیاں تیسرے سال والی زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس۹۱سے لے کر۱۲۰ تک اونٹ ہو تو دو اونٹنیاں چوتھے سال والی زکوٰۃ ہے

(صحیح بخاری، کتاب الزکوٰۃ، حدیث نمبر۱۴۵۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گایوں کا نصاب

اگرکسی کے پاس ۳۰سے لے کر ۳۹ گائے ہو تو ایک گائے کا بچہ جو دوسرے سال میں داخل ہو چکا ہو زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۴۰ سے لے کر ۵۹ گائے ہو تو تیسرے سال والی ایک گائے زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۶۰ سے لے کر ۷۰ گائے ہو تو دوسراسال شروع کر چکے دو بچھڑے زکوٰۃ ہے

(سنن بیقہی۴!۸۹ابوداؤد حاکم۱!۳۹۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بکریوں کا نصاب

اگرکسی کے پاس ۴۰سے لے کر ۱۲۰ بکریاں ہو تو ایک بکری زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۱۲۱ سے لے کر ۲۰۰ بکریاں ہو تو دو بکریاں زکوٰۃ ہے

اگرکسی کے پاس ۲۰۱ سے لے کر ۳۰۰ بکریاں ہو تو تین بکریاں زکوٰۃ ہے

اس کے بعد ہر سوپرایک بکری بڑھتی جائے گی

(صحیح بخاری کتاب الزکوٰۃ مع فتح الباری)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سونے کا نصاب

اگرکسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا ہو اور پورا ایک سال گزر چکا ہو تواس پر چالیسواں حصہ سوادوماشہ سونا(یا پھر اس کی قیمت) زکوٰۃ ہے اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے ہاں کوئی خوشی سے کچھ خیرات کر دے
چاندی کا نصاب

اگرکسی کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ہو اور ایک سال گزر چکا ہو تو اس پر چالیسواں حصہ ایک تولہ چار ماشہ چاندی (یا پھر اس کی قیمت) زکوٰۃ ہے اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے ہاں کوئی خوشی سے کچھ خیرات کر دے
نقدی کرنسی روپئے کا نصاب

اگرکسی کے پاس چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر روپیہ ہو اور اس پر پورا ایک سال گزر چکا ہو تو ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جائے گی اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں ہے ہاں کوئی خوشی سے خیرات کر دے اس سے زیادہ جتنا بڑھتا جائے
اناج غلے کا نصاب

اگرکسی کے یہاں بیس من غلہ اناج آسمانی بارش سے تیار ہوا تو دسواں حصہ(عشر) زکوٰۃ ہے (یعنی بیس من میں دو من غلہ زکوٰۃ ہے )اور اگر غلہ اناج کنویں کے پاس سے یا پھر نہر یا تالاب کے پانی سے تیار ہوا ہو تو نصف عشر بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے (یعنی بیس من میں صرف ایک من غلہ زکوٰۃ ہے )

(کتب احادیث، کتاب الزکوٰۃ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آئینۂ نماز۔۲

وضو​
نماز کے لئے وضو ضروری ہے وضو بسم اللہ سے شروع کریں پھر اپنے دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین بار دھوئیں پھر تین بار کلی کریں اور تین بار ناک میں پانی ڈالیں بائیں ہاتھ سے ناک صاف کریں پھر تین بار منہ دھوئیں اور داڑھی کا خلال کریں پھر اپنا داہنا ہاتھ کہنی تک تین بار دھوئیں ، اسی طرح بایاں ہاتھ بھی کہنی تک تین بار دھوئیں اور ہاتھوں کی انگلیوں کا خلال کریں اگر انگوٹھی ہو تواس کو ہلا لیں سر کا مسح کریں دونوں ہاتھ کو سرکے اگلے حصے سے شروع کر کے گدی تک لے جائیں ، پھر وہاں سے اسی جگہ واپس لے جائیں جہاں سے شروع کئے تھے اور کانوں کا مسح کریں ، شہادت کی دونوں انگلیاں دونوں کانوں کے سوراخوں میں ڈال کر کانوں کی پیٹھ پر انگوٹھوں کے ساتھ مسح کریں پھر اپنا داہنا پیر پھر بایاں پیر ٹخنوں تک تین بار دھوئیں اور پیروں کی انگلیوں کے درمیان خلال کریں وضو پورا ہوا

تیمم​
اگرکسی وجہ سے نماز کے وقت پانی نہ مل سکے یا بیماری میں پانی استعمال کرنے سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو بسم اللہ کہہ کر دونوں ہاتھ پاک مٹی پر مارے ، پھر پھونک کر منھ اور دونوں ہاتھ پر ملے اس کے بعد یہ دعا پڑھیں :
اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہٗ لاشریک لہ واشھدان محمداً عبدہٗ ورسولہ اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین
 
Top