حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ایک اثر ملتا ہے قراءت کے بارے میں جس میں ہے کہ فاتحہ پڑھتے ہوئے امام سے سبقت لے جاؤ اس کا کیا جواب ہے؟
حدثنا محمود قال حدثنا البخاری قال حدثنیه محمد بن عبیداللہ قال حدثنا ابن ابی حازم عن العلاء عن ابیه عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ قال:إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرا بها واسبقه فانه اذا قال ولا الضالين قالت الملائكة آمين،من وافق ذلك قمن ان ىستجاب لهم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
باجماعت نماز میں امام کی "اقتداء "اور متابعت ضروری ہے کیونکہ لفظ امام کا معنی ہی یہی ہے (جو آگے ہو اور دیگر لوگ اس کے پیچھے ) یعنی اس کی اقتداء کی جائے
صحیحین میں حدیث شریف ہے کہ :
عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ ۔۔۔۔۔۔
«إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا اجمعون»
یعنی :ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : امام اس لیے مقرر کیا جاتاہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ ،اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
صحیح بخاری 688
اور سنن ابی داود میں حدیث وارد ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَة -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: "إِنَّما جُعِلَ الإِمَامُ ليُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كبَّرَ فَكبِّروا، وَلاَ تُكَبِّرُوا حَتَّى يُكبرِّ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكعُوا، وَلاَ تَرْكعُوا حَتَّى يَرْكَعَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبنَّا لَكَ الحَمْدُ، وَإذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَلاَ تَسْجُدُوا حَتَّى يَسْجُدَ، وَإذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وإِذَا صلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا أجْمَعِيْنَ".
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ 603
یعنی :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام اس لیے مقرر کیا گیاہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو ،اور جبتک وہ سجدہ میں نہ جائے تم بھی اس وقت سجدہ میں نہ جاؤ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور رکوع میں امام سے سبقت یعنی پہل کرنے سے اللہ تعالی بہت سخت ناراض ہوتا ہے ،پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ - أَوْ: لاَ يَخْشَى أَحَدُكُمْ - إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ، أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ، أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ ))
ترجمہ : محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں وہ شخص جو ( رکوع یا سجدہ میں ) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ پاک اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔
صحيح البخاري 691
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اور اس موضوع پر دیگر بے شمار احادیث سے امام سے سبقت اور پہل کی ممانعت واضح ہے ،
تاہم قراءت میں گنجائش ہے ،جزء القراءۃ خلف الامام میں امام بخاری ؒ صحیح اسناد سے بیان کرتے ہیں کہ :
حدثنا محمود قال: حدثنا البخاري قال: وحدثنيه محمد بن عبيد الله، قال: حدثنا ابن أبي حاتم، عن العلاء، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال: " إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرأ بها واسبقه، فإنه إذا قال {ولا الضالين} [الفاتحة: 7] قالت الملائكة: آمين، من وافق ذلك قمن أن يستجاب لهم "
سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب امام سورۂ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور امام سے پہلے ختم کرلو، پس بیشک وہ جب ’’ولا الضالين‘‘ کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوگئی تو وہ اس کے لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔انتہی
(جزء القرأۃ،حدیث:۲۸۳،۲۳۷۔مشہور تقلیدی ’’محقق‘‘محمد بن علی النیموی [المتوفیٰ: ۱۳۲۲ھ] نے اس اثر کے بارے میں لکھا’’واسنادہ حسن‘‘بحوالہ آثار السنن ج۱ ص۵۸۹ حدیث: ۳۵۸۔مکتبہ مدینہ دیوبند)
نیز دیکھئے نصرالباری ترجمہ و شرح جزء القراءۃ للبخاری (صفحہ259 )
https://archive.org/details/Nasr-ul-Baari-Fi-Tahqiq-Juz-Al-Qarata-Lil-Bukhari/page/n260
ـــــــــــــــــــــــــــ
پھر سب سے اہم اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ :
فقہ حنفی کے مطابق حنفی مقلدین نماز فجر کی سنتیں جماعت ہوتے ہوئے پڑھتے ہیں
اور واضح ہے کہ وہ اپنی سورۃ فاتحہ پڑھ رہے ہوتے ہیں ،جبکہ امام اپنی قراءت کر رہا ہوتا ہے،
ایسی صورت میں امام کے پیچھے پیچھے تو ہو ہی نہیں سکتا ،کیونکہ سنتیں پڑھنے والے نے جماعت کا ثواب بھی لوٹنا ہوتا ہے ۔ فتدبر