• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں خشوع اور عاجزی یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر4:
ملا الھداد جونپوری شرح ھدایہ ورق ۴۰۷(القلمی ) میں فرماتے ہیں کہ :
وَحُجَّتُہٗ حَدِیْثُ وَائِلٍ : صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ وَوَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی عَلٰی یَدِہِ الْیُسْرٰی عَلٰی صَدْرِہٖ واما حدیث علی رضی اﷲ عنہ اِنَّہٗ قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ فِیْ الصَّلاَۃِ وَضْعُ الْیُمْنٰی عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّۃِ فَضَعِیْفٌ متفق علی تضعیفہ کذا فی النووی قلت وَمِنَ الدَّلِیْلِ عَلی ضُعْفِہٖ اَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ فَسَّرَ قَوْلَہ تَعَالیٰ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ باَنَّہُ وَضْعُ الْیَمِیْن عَلَی الشِّمَالِ تَحْتَ الصَّدْرِ وَذَالِکَ اِنَّ تَحْتَ الصَّدْرِ عِرْقًا یُقَالُ لَہٗ النَّاحِرای وَضَعْ یَدَکَ
(ترجمہ) امام شافعی کی دلیل وائل ؓ کی حدیث ہے (جو حدیث نمبر ۲ میں گذری )اور علی ؓ سے جو روایت ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے ہیں وہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے نیز اس کے ضعیف ہونے کے لئے دوسری دلیل یہ ہے کہ علی ؓ نے آیت ’’والنحر‘‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ سینے پرہاتھ باندھنے چاہیئے اور الناحر سینے کی رگ کو کہا جاتا ہے اس لئے یہ تفسیر کی گئی ہے جو ا س روایت کو رد کرے اس پر وائل ؓ کی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے اور اس طرح کہنا
عَلَی النَّاحِرِ کَذَا فِیْ الْعوارفِ وَہٰکَذَا ذُکر فی المغنی أیضَا فَہٰذَا التَّفْسِرُ عَنْ عَلِیٍّ یَرُدُّ مَارُوِیَ عَنْہُ مِنْ حَدِیْثِ وَائِلٍ عَلی مَا رَوَیْنَا قَوْلَہُ لِاَنَّ الْوَضْعَ تَحْتَ السُّرَّۃِ اَقْرَبُ
کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا تعظیم والا فعل ہے یہ بات غلط ہے کیونکہ حدیث کے خلاف ہے ۔
اِلَی التَّعْظِیْمِ وَہُوَ الْمَقْصُوْدُ قُلْتُ وَہٰذَا التَّعْلِیْلُ بِمُقَابِلَۃِ حَدِیْثِ وَائِلٍ فَیُرَدُّ وَحَدِیْثُ عَلِیٍّ لاَ یُعَارِضُہ کَمَا ذکرنا ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ناظرین :
یہ حوالہ جات معتبر احناف علماء سے نقل کئے گئے ہیں خاص طور پر ابن امیر الحاج جو کہ اپنے استاد ابن ھمام کے ہاں نزدیکی حیثیت رکھتا ہے ۔ اور ان عبارتوں سے چند اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔
الف:
صحیح حدیث سے سینے پر ہاتھ باندھنا ثابت ہے ۔
ب :
اور یہ حدیث واجب العمل ہے ۔
ج :
امیر المؤمنین علی ؓ نے آیت ’’وانحر‘‘ کے معنی سینے پر ہاتھ باندھنا کئے ہیں ۔
د :
یعنی حدیث نمبر ۷ کی تصدیق اور تصحیح ہو گئی ۔
ھ :
اس آیت کی یہی تفسیر صحیح اور معتبر ہے کیونکہ انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس سے مسئلے کو ثابت کیا ہے ۔
و :
یعنی کہ قرآن کریم میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم ہے ۔
ز :
اور ناف سے نیچے ہاتھ باندھنا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے ۔
ح :
بلکہ جو روایت اس بارے میں ذکر کی جاتی ہے وہ صحیح نہیں ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کھلا چیلنج

ناظرین :
بلکہ ہم ساری دنیا کے احناف کو کھلا چیلنج دیتے ہیں کہ کسی بھی حدیث کی کتاب بشرطیکہ وہ باقاعدہ سند کے ساتھ فن حدیث کی کتاب ہو اس میں سے ایک روایت پیش کریں جس میں واضح طور پر یہ الفاظ ہو ں کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھے ہیں تواس کو ایک ھزار روپیہ نقد انعام دیا جائیگا ۔ مگر بحمد للہ اس طرح واضح الفاظ سے کوئی بھی حدیث کتب احادیث میں موجود نہیں ہے یہ نہیں دکھا سکیں گے ۔

؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
اور جو روایت ابن ابی شیبہ کو حوالے سے نقل کی گئی ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھے ہیں اس روایت کا وجود ہی نہیں ہے اور ہمارے پاس اللہ کے فضل سے مصنف ابن ابی شیبہ قلمی خواہ مطبوع دونوں نسخے موجود ہیں مگر دونوں میں یہ روایت نہیں ہے
احناف کے سردار علامہ انور شاہ کشمیری فیض الباری شرح صحیح بخاری ص۲۶۷ ج ۲ میں فرماتے ہیں کہ یہ بات واقعتاً درست ہے کیونکہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کے بہت سے نسخے دیکھے ہیں مگر یہ روایت کسی میں بھی نہیں ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دعوت:
ہم پھر سنجیدہ طبع اور بیدار مغز حنفی دوستوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آپ ٹھنڈے دل سے احادیث کی کتب کا مطالعہ کر کے غور کریں نبوی طریقہ کون سا ہے خود امام ابو حنیفہ ؒ نے یہی تلقین کی ہے کہ :
اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَہُوَ مَذْہَبِیْ ۔(الشامی ص۳۷۵، ج۱)
جب بھی کوئی صحیح حدیث ثابت ہو جائے تو میرا وہی مذہب ہے ۔
نیز فرماتے ہیں کہ :
اُتْرُکُوْا قَوْلِیْ بخَبَرِ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ۔ (خزانۃ الروایات ص۲۵ قلمی)
رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی وجہ سے میرے قول کو چھوڑ دو ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حنفی ساتھیو :
امام ھمام کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ ان کی صحیح اتباع یہی ہے کہ حدیث پر عمل کیا جائے اس لئے آ پ پر حق ہے کہ آپ اگر امام موصوف کی سچی تابعداری کے مدعی ہیں تو مندرجہ بالا احادیث جن کو محدثین خواہ فقہاء نے صحیح مانا ہے اور ان میں صاف الفاظ میں سینے پر ہاتھ باندھنا مذکور ہے انہیں دیکھیں پھر ان پر عمل کریں اس کے بعد خاص برگزیدہ بندوں سے ثبوت پیش کیا جاتا ہے جو عام لوگوں کے نزدیک مسلم ہیں ۔
مثلاً
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر1:
مرزا مظہر جان جاناں سلسلہ نقشبندیہ کے پیشوا مانے جاتے ہیں۔جو ۱۱۹۵ھ میں فوت ہوئے انکے بارے میں نواب صدیق حسن صاحب ابجد العلوم ص ۹۰۰ میں لکھتے ہیں کہ :
وَکَانَ یَرَی الاِشَارَۃَ بِالْمُسَبِّحَۃِ وَیَضَعُ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ تَحْتَ صَدْرِہ وَیُقَوِّیْ قِرَاء ۃَ الْفَاتِحَۃِ خَلْفَ الاِمَامِ عَامَ وَفَاتِہٖ ۔
نما ز میں بیٹھتے وقت انگلی اٹھا کر اشارہ کرتے تھے اور سینے سے نیچے یعنی اسکے قریب ہاتھ باندھتے تھے اور اپنی وفات والے سال فاتحہ خلف الامام پڑھنے کو قوی کہتے تھے ۔
اور اس طرح علامہ سید شریف عبدالحئی الحسینی حنفی نے نزھۃ الخواطر ص۵۲ج۶ میں بھی ذکر کیا ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر2:
علامہ شیخ ابو الحسن سندھی کبیر پر اس مسئلہ کی وجہ سے جو آزمائشی امتحان آیا اس عبرت ناک واقعہ کو علامہ محمد عابد سندھی نے اپنی کتاب تراجم الشیوخ میں نقل کیا ہے
شیخ موصوف حدیث پر عمل کرتے تھے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سیدھے ہوتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور نماز میں اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے تھے انکے دور میں شیخ ابو الطیب سندھی متعصب حنفی تھا جوشیخ ابو الحسن سے مناظرے کرتاتھا مگر دلائل دیکھ کر عاجز آجاتا تھا بالاٰخر اس نے مدینہ کے قاضی کے پاس شکایت کی اور شیخ ابو الحسن کو طلب کیا گیا جب آپ کے دلائل قاضی صاحب نے سنے تب اس کو معلوم ہوا کہ آپ تو تمام فنون میں امام ہیں اور پورے مدینے والے آپ کے شاگرد ہیں اس لیے قاضی صاحب کے پاس کوئی چارہ نہ رہا اس نے آپ سے دعا کی التجا کرتے ہوئے آپ کو رخصت کر دیا اس طرح ہر سال نئے نئے قاضی کے پاس شکایت آتی رہی او رشیخ صاحب کامیاب ہوتے رہے بالآخر ایک سال ایسا قاضی آیا جو حنفی مذہب میں سخت متعصب تھا ابو الطیب نے اس کو شکایت پیش کی جس پر قاضی صاحب نے شیخ صاحب کو طلب کر کے حکم دیا کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھو اور رفع یدین نہ کرو شیخ صاحب نے واضح طور پر یہ فرمایا کہ
’’لا افعل ذالک ‘‘ یعنی میں اس طرح نہیں کروں گا
اس بناء پر آپ کو جیل کی تاریک کوٹھری میں بند کرنے کا حکم دیا گیا جہاں پر آدمی اپنے اعضاء کو بھی نہ دیکھ سکے اور اسی کوٹھری میں پیشاب پخانہ کرتے رہے چھ دنوں تک وہاں رہے پھر مدینے کے لوگ آکر شیخ صاحب کو نصیحت کرنے لگے کہ قاضی صاحب کا حکم مانئے اورجیل سے رہائی حاصل کیجئے ۔شیخ صاحب نے فرمایا کہ :
لاَ اَفْعَلُ شَیْئًا لَمْ یَصِحَّ عِنْدِیْ وَلاَ اَتْرُکُ شَیْئًا صَحَّ عِنْدِیْ مِنْ فِعْلِہٖ ﷺ وَحَلَفَ عَلٰی ذَالِکَ ۔
میرے نزدیک جو عمل رسول اللہ ﷺ سے صحیح ثابت نہیں ہے وہ نہیں کروں گا اور جو ثابت ہے وہ نہیں چھوڑوں گا اس بارے میں انہوں نے قسم اٹھائی ۔
پھر لوگ قاضی کے پاس سفارش کے لئے گئے تب قاضی نے بھی قسم اٹھا کر کہا کہ اگر ان کو میں نے دوبارہ سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے دیکھا تو جیل بھیج دوں گا تو لوگوں نے شیخ صاحب کوعرض کی کہ مہربانی کر کے نماز پڑھتے وقت چادر لپیٹ کر نماز پڑھا کریں کہ قاضی آپ کو سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے نہ دیکھے پھر شیخ صاحب نے اس طرح کیا کچھ مدت گزرنے کے بعد نماز پڑھتے ہوئے شیخ صاحب کو کسی نے خبر دی کہ قاضی مر گیا تو شیخ صاحب نے نماز ہی کی حالت میں چادر اتار دی ۔
ناظرین :
یہی ہے ایمان کا تقاضا کہ ہر تکلیف برداشت کی جائے لیکن سنت پر قائم رہا جائے شیخ صاحب موصوف عالم ہیں صحاح ستہ اور مسند احمد وغیرہ پر آپ کے حاشیہ جات تحریر ہیں اور موصوف اہل حدیث اور احناف کے نزدیک مسلم بزرگ ہیں آپ کا یہ واقعہ سبق اور عبرت آموز ہے ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نمبر3:
جد امجد صاحب الخلافۃ کے سندھ میں اکثر لوگ معتقد ہیں اور آپکی اعلیٰ اہمیت اور مہارت دین سب کے نزدیک مسلم ہے آپ بھی اپنے ہاتھ نماز میں سینے پر باندھتے تھے جیسے ہمارے والد ماجد سید احسان اللہ راشدی مرحوم نے مسلک الانصاف ص ۲۸ پر ذکر کیا ہے بلکہ آپ کی عبارت اوپر گزری کہ سنت کا مسنون طریقہ سینے پر ہاتھ باندھنا ہے اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا ثابت نہیں اس مسئلہ کے بارے میں آپ کا ایک کتابچہ عربی زبان میں بنام درج الدرر فی وضع الایدی علی الصدر تصنیف کیا ہواہے جس سے چند اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں ۔
اِنَّ الصَّحِیْحَ الثَّابِتَ مِنْ سَاقِی الْکَوْثَرِ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلاَمُ اِلٰی دَوَامِ الدَّہْرِ فِیْ الصَّلوٰۃِ وَہُوَ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ وَاَمَّا وَضْعُہُمَا تَحْتَ السُّرَّۃ فَلَمْ یَرِدْ فِیْہِ حَدِیْثٌ مُسْنَدٌ مُعْتَبَرٌ فَضْلاً عَنْ صَحِیْحٍ ۔
1۔صحیح حدیث سے رسول اللہ ﷺ سے یہی ثابت ہے کہ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھے جائیں اور ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے بارے میں کوئی صحیح حدیث تو در کنار کسی معتبر سند سے بھی کوئی روایت وارد نہیں ۔
اِنَّ الاَصْلِ عِنْدَ الشَّافِعِی الْوَضْعُ عَلَی الصَّدْرِ ۔
فَالظَّاہِرُ مِنْہُ اِنَّہٗ رجَعَ بَعْدَ وُصُوْلِ الرِّوَایَۃِ ۔
2۔ امام شافعی کا اصل مذہب یہی ہے کہ سینے پر ہاتھ رکھے جائیں ۔
3۔امام احمد بن حنبل حدیث کے ملنے کے بعد سینے پر ہاتھ باندھنے کے قائل بنے۔
مَرْوِیَّۃٌ عَنْ مَالِکٍ کَمَا ذَکَرَہٗ الْعَیْنِیْ
4۔امام مالک سے بھی سینے پر ہاتھ باندھنا مروی ہے جیسے عینی حنفی نے ذکر کیا ہے ۔
 
Top