• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نماز میں رفع الیدین کے بارے میں احناف کا موقف :

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
امام بخاری رحمہ اللہ جس نے صحیح بخاری کتاب میں تمام صحیح احادیث درج کیں، اورحدیث تو ہوتی بھی وحی ہے، لیکن انہوں نے صحیح بخاری کو قرآن کی مانند نہیں کہا۔

یہی معاملہ امام مسلم کا ہے، جو صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم میں تمام صحیح احادیث اکٹھی کیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے پاس مصحف ہوتے تھے انہوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔

لیکن یہ کام فقہ حنفی نے کر دیا۔۔۔

یہ قرآن کی گستاخی ہے، لیکن وہ حنفی کیا جو اپنی فقہ کا ناجائز دفاع نہ کرے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فقہ حنفی !

ابن نجیم حنفی لکھتے ہیں:

ولو نظر المصلی الی المصحف و قرأ منہ فسدت صلاتہ لا الی فرج امرأۃ بشہوۃ لأن الأول تعلیم و تعلم فیھا لا الثانی

(الاشباہ والنظائر ص ۴۱۸، طبع میر محمد کتب خانہ کراچی)

اور اگر نمازی مصحف (قرآن) کی طرف دیکھ لے اور اس میں سے کچھ پڑھ لے تو اس کی نماز فاسد ہو جائے گی، اور اگر عورت کی شرمگاہ کی طرف بنظر شہوت دیکھ لے تو اُس سے نماز فاسد نہ ہو گی اس لئے کہ اول تعلیم ہے اور اس میں تعلیم ہے نہ کہ ثانی (کہ وہ تعلیم سے خالی ہے)۔

غور فرمائیے کہ حنفیوں کے ہاں شرمگاہ کی کتنی اہمیت ہے کہ اسے دورانِ نماز بھی نمازی شہوت کے ساتھ دیکھتا رہے تو حنفی کی نماز کو کچھ نہیں ہو گا۔ البتہ اگر قرآن کریم کی آیت یا قرآن کا کوئی فقرہ پڑھ لیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیا ایمان بالقرآن کا یہی تقاضہ ہے؟

قرآن و حدیث :

صحیح بخاری میں ہے کہ:

کانت عائشہ رضی اللہ عنہا یومھا عبدھا ذکوان من المصحف (ص۹۶ ج۱)

عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان رحمہ اللہ قرآن سے دیکھ کر ان کی امامت کراتا تھا۔

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا نماز میں قراء ت مصحف (قرآن) سے دیکھ کر کرتی تھیں۔

(مصنف عبدالرزاق ص۴۲۰ ج۲۔ رقم الحدیث ۳۹۳۰)۔

امام ابی بکر بن ابی ملیکۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

ان عائشہ اعتقت غلاما لھا عن دبر فکان یؤمھا فی رمضان فی المصحف

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام تھا جسے بعد میں آپ رضی اللہ عنہا نے آزاد کر دیا تھا وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رمضان المبارک میں امامت کراتا تھا اور قرائت قرآن مصحف (قرآن) سے دیکھ کر کرتا تھا۔

(مصنف ابن ابی شیبہ:۳۳۸، ج۲ و فتح الباری ص۱۴۷ ج۲ و کتاب المصاحف لابن ابی داو'د و۱۹۲)

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس اثر کی سند صحیح ہے۔ (تغلیق التعلیق ص۲۹۱ج۲)۔

امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ قرآن میں دیکھ کر امامت کا کیا حکم ہے؟

قال ما زالوا یفعلون ذلک منذ کان الاسلام کان خیارنا یقرؤون فی المصاحف

ابتداء اسلام سے ہی علماء قرآن مجید کو دیکھ کر (امامت) کراتے رہے جو ہمارے بہتر تھے۔ (قیام اللیل ص۱۶۸ طبع مکتبہ اثریہ)۔

امام سعد، امام سعید بن مسیب، امام حسن بصری، امام محمد بن سیرین، امام یحییٰ بن سعید انصاری، امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تمام کے تمام اس کے جواز کے قائل ہیں۔ تفصیل کیلئے دیکھئے:

(قیام اللیل ص:۱۶۸ و مصنف ابن ابی شیبہ ص۳۳۸ ج۲ و مصنف عبدالرزاق ص۴۲۰، ج۲)

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
فقہ حنفی قرآن مجید کی توہین ! نعوذ باللہ

قرآن مجید کی توہین کے متعلق ایک عبارت گزر چکی ہے اب ایک دوسری عبارت ملاحظہ فرمائیں کہ حنفی قرآن مجید کا کس قدر ادب کرتے ہیں:

فتاوٰی قاضی خان میں لکھاہے:

والذی رعف فلا یرقادمہ فاراد ان یکتب بدمہ علی جبھتہ شیئا من القرآن قال ابوبکر الاسکاف یجوز قیل لو کتب بالبول قال لو کان فیہ شفاء لا باس

اگر کسی کی نکسیر بند نہ ہوتی ہو تو اس نے اپنی جبین پر (نکسیر کے) خون سے قرآن میں سے کچھ لکھنا چاہا تو ابوبکر اسکاف نے کہا ہے یہ جائز ہے۔ اگر وہ پیشاب سے لکھے تو اس نے کہا اس میں شفاء ہو تو کوئی حرج نہیں۔

(فتاوٰی قاضی خان علی حامش فتاوٰی عالمگیری ص۴۰۴ ج۳ کتاب الحظر والاباحۃ)

یہی فتویٰ فقہ حنفی کی معروف کتاب (فتاویٰ سراجیہ ص ۷۵ و البحر الرائق ص ۱۱۶ ج۱ و حمومی شرح الاشباد والنظائر ص۱۰۸ ج۱، باب القاعدہ الخامسۃ الضرر لا یذال، و فتاوٰی شامی ص۲۱۰ ج۱ باب التداوی بالمحرم) وغیرہ۔ کتب فقہ حنفی چوتھی صدی سے لے کر بارھویں صدی تک متداول رہا ہے بلکہ فتاوٰی عالمگیری میں لکھا ہے کہ:

فقد ثبت ذلک فی المشاھیر من غیر انکار
یعنی مشاہیر میں یہ فتویٰ بلا انکار ثابت ہے۔

(فتاوٰی عالمگیری ص۳۵۶ ج۵ کتاب الکراھیۃ باب التداوی والمعالجات)

عالمگیری کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ فقہاء احناف کا یہ مفتی بہ فتوی ہے۔ بریلوی مکتب فکر کے معروف مترجم مولوی غلام رسول سعیدی نے کھل کر فقہاء کے ان فتاوٰی کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

''میں کہتا ہوں کہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے والے کا ایمان خطرہ میں ہے۔ اگر کسی آدمی کو روز روشن سے زیادہ یقین ہو کہ اس عمل سے اس کو شفاء ہو جائے گی تب بھی اس کا مرجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب کے ساتھ سورۃ فاتحہ لکھنے کی جرأت کرے۔ اللہ تعالیٰ ان فقہاء کو معاف کرے جو بال کی کھال نکالنے اور جزئیات مستنبط کرنے کی عادت کی وجہ سے ان سے یہ قول شنیع سرزد ہو گیا ورنہ ان کے دلوں میں قرآن مجید کی عزت و حرمت بہت زیادہ تھی۔

(شرح صحیح مسلم ص۵۵۷ ج۶ طبع فرید بک سٹال لاہور۱۹۹۵ء)

سعیدی صاحب کی اس ہمت مردانہ اور جرأت رندانہ کی داد دیتے ہوئے عبدالحمید شرقپوری برسٹل برطانیہ فرماتے ہیں کہ:

''فقہ کی ایک کتاب (نہیں بھائی تقریباً نصف درجن ابو صہیب) میں لکھا ہے کہ علاج کی غرض سے خون یا پیشاب کے ساتھ فاتحہ کو لکھنا جائز ہے۔ راقم الحروف نے اکثر علماء سے اس کے متعلق پوچھا مگر چونکہ یہ بات بڑے بڑے فقہاء نے لکھی ہے اس لئے سب نے اس مسئلہ پر سکوت اختیار کیا ہے۔ علامہ سعیدی نے پہلی بار اس جمود کو توڑا''۔

(شرح صحیح مسلم بعنوان تاثرات صفحہ۶۶ جلد اول الطبع الخامس۱۹۹۵ء)

یہی ہم نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرائت کے سلسلہ میں عرض کرتے ہیں کہ بھائی شرمگاہ تو ایک انسانی عضو ہے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے لہٰذا اس باطل و مردود فتوی کی تردید کرتے ہوئے نماز کو فاسد کہنے سے توبہ کر لیجئے اور صحابہ کرام کو معیارِ حق تسلیم کرتے ہوئے نماز میں مصحف سے قرائت کے جواز کو تسلیم کر لیجئے اور فقہاء کو معصوم عن الخطاء جان کر منہ اٹھا کر ان کے پیچھے نہ لگ جائیے ان کی صحیح بات کو قبول کیجئے اور غلط بات کی تردید کر دیجئے۔

(تحفہ حنفیہ ص:۳۰۷،۳۰۸)۔

اس موضوع پر ہمارے محترم بھائی فضیلۃ الاخ ابوالاسجد محمد صدیق رضا صاحب کا بھی ایک مضمون شائع ہوا تھا جو ایک دیوبندی عالم ''مولانا محمد تقی عثمانی'' کے تعاقب میں تھا۔


 

کھری بات

مبتدی
شمولیت
دسمبر 17، 2015
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
21
آپ کی بات کی سمہج نہیں آرہی شاہد اس حدیث سے کچھ رہنمائی ہوجائئے
۔۔۔
قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ: أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: فَلِمَ؟ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلَا أَقْدَمِنَا لَهُ صُحْبَةً، قَالَ: بَلَى، قَالُوا: فَاعْرِضْ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (١)إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِي مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلًا،(٢) ثُمَّ يَقْرَأُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلَا يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلَا يُقْنِعُ، (٣)ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلًا، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَهْوِي إِلَى الْأَرْضِ فَيُجَافِي يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا، وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ، وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِي رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ، ثُمَّ يَصْنَعُ فِي الْأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ، (٤)ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي بَقِيَّةِ صَلَاتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِي فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ " ، قَالُوا: صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
[سنن أبي داود :1 /194 رقم 730 واسنادہ صحیح]

ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ واللہ تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(١) جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے (٢)پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔(٣) پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے(٤) پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔
 

کھری بات

مبتدی
شمولیت
دسمبر 17، 2015
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
21
محمد عامر یونس صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ
آپ کا طرزِ تبلیغ و دعوت مجھے بالکل نہیں بھایا، آپ کا رویّہ ہر ایک کو متنفر تو کر سکتا ہے یہ طرز اور لب و لہجہ کسی طرح بھی نبوی اُسوہ و طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔ما شاء اللہ آپ تو قرآن و حدیث سے واقف ہیں۰۰۰۰یہ طرز تخاطب جچتا نہیں۔ آپ کی فقہ میں ایسی بہت سی باتیں درج ہیں ، ان کے ذکر کرنے سے مجھے غرض نہیں، نہ ہی آپ کی طرح کی بے وقوفیاں کر کے اُمّت کو مزید دور کرنے کا سبب بننا چاہتا ہوں۔صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا’’آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا؟‘‘
آپ اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ دنیا میں صرف آپ لوگ ہی بچے ہیں جن کو صحیح دین اور صحیح احادیث کی فکر ہے، اور صرف آپ ہی ہیں جو صحیح احادیث پر عمل کرتے ہیں۔
 

کھری بات

مبتدی
شمولیت
دسمبر 17، 2015
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
21
  • رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفعِ یدین نہیں ہے:
  • ارشادِ ربانی ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمؤْمِنُونَ الَّذِیْن ہم فِیْ صَلاتِہم خَاشعُوْن(المؤمنون) ترجمہ بلا ریب وہ اہل ایمان کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔
  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے: قَالَ اَلَا اُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِلَّا فِی اَوَّلِ مَرَّۃ۔ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (نے اپنے تلامذہ کو نماز کی عملی تعلیم دیتے ہوئے ) فرمایا کہ کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں۔ پھر آپ نے نماز پڑھی صرف پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ) رفع یدین کی۔ (الترمذی، ج:۱، ص: ۵۳۔ ابو داؤد، ج: ۱ ، ص: ۱۱۶ ، باب من لم یذکر الرفع عندالرکوع ۔ النسائی ، ج: ۱، ص: ۱۶۱ ۔ المحلی ابن حزم الظاھری، ج: ۴ ، ص: ۸۸ ۔ دار قطنی ، بیہقی ، مسند احمد، طحاوی ، مصنف ابن ابی شیبہ، مؤطا امام محمد)


  • امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ھذا حدیث حسن ، (ترمذی، ج: ۱، ص: ۳۵)
  • علامہ ابن حزم ظاھری نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجر شافعی لکھتے ہیں:
  • ’’و ھذ الحدیث حسَّنہ الترمذی و صَحَّحَہٗ ابن حزم‘‘ ترجمہ: اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور علامہ ابن حزم نے صحیح کہا ہے۔ (التلخیص الحبیر علی شرح المھذب ، ج: ۳، ص: ۲۷۴)
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
  • رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفعِ یدین نہیں ہے:
  • ارشادِ ربانی ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمؤْمِنُونَ الَّذِیْن ہم فِیْ صَلاتِہم خَاشعُوْن(المؤمنون) ترجمہ بلا ریب وہ اہل ایمان کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔
  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے: قَالَ اَلَا اُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِلَّا فِی اَوَّلِ مَرَّۃ۔ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (نے اپنے تلامذہ کو نماز کی عملی تعلیم دیتے ہوئے ) فرمایا کہ کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں۔ پھر آپ نے نماز پڑھی صرف پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ) رفع یدین کی۔ (الترمذی، ج:۱، ص: ۵۳۔ ابو داؤد، ج: ۱ ، ص: ۱۱۶ ، باب من لم یذکر الرفع عندالرکوع ۔ النسائی ، ج: ۱، ص: ۱۶۱ ۔ المحلی ابن حزم الظاھری، ج: ۴ ، ص: ۸۸ ۔ دار قطنی ، بیہقی ، مسند احمد، طحاوی ، مصنف ابن ابی شیبہ، مؤطا امام محمد)

  • امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ھذا حدیث حسن ، (ترمذی، ج: ۱، ص: ۳۵)
  • علامہ ابن حزم ظاھری نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجر شافعی لکھتے ہیں:
  • ’’و ھذ الحدیث حسَّنہ الترمذی و صَحَّحَہٗ ابن حزم‘‘ ترجمہ: اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور علامہ ابن حزم نے صحیح کہا ہے۔ (التلخیص الحبیر علی شرح المھذب ، ج: ۳، ص: ۲۷۴)

ہم رفع اليدين کيوں کرتے ہيں؟



ویڈیو


لنک


اس ليۓکہ ہمارے پاس احاديث کے ٢١ کتابوں ميں ٢٤٣ صحيح احاديث موجود ہيں اور رسول اللہ ﷺ نےفرمايا کہ


( فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِيْ فَلَيْسَ مِنَّيْ )بخاري حديث نمبر٥٠٦٣ )

اگاه رہو جس نےميرے سنت سے انحراف کيا تو وه مجهـ سےنہيں يعني وه ميرا اُمتي نہيں :

اور اللہ نے فرمايا

{ قُلْ أَطِيْعُوا اللهَ وَ الرَّسُوْلَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ(٣٢) آلِ عمران }

اےمحمدﷺ)کہہ دے اللہ اور رسولﷺکےاطاعت کرو پهـراگرانہوں نے منہ پهـيراليا توبےشک اللہ کافروں سےمحبت نہيں رکهـتا)

احايث کےاتني بڑي تعداد سے جولوگ انکار کر کے رفع اليدين نہيں کرتے ہے تو يہي ہے اطاعت اللہ اور رسول سےمنہ پهـيرنا اور حديث ميں تم نےديکهـا کہ ميرے طريقے پر عمل نہ کرنے والا ميرا امتي نہيں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محمد عامر یونس صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ
آپ کا طرزِ تبلیغ و دعوت مجھے بالکل نہیں بھایا، آپ کا رویّہ ہر ایک کو متنفر تو کر سکتا ہے یہ طرز اور لب و لہجہ کسی طرح بھی نبوی اُسوہ و طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلمان کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔ما شاء اللہ آپ تو قرآن و حدیث سے واقف ہیں۰۰۰۰یہ طرز تخاطب جچتا نہیں۔ آپ کی فقہ میں ایسی بہت سی باتیں درج ہیں ، ان کے ذکر کرنے سے مجھے غرض نہیں، نہ ہی آپ کی طرح کی بے وقوفیاں کر کے اُمّت کو مزید دور کرنے کا سبب بننا چاہتا ہوں۔صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا’’آپ بہت شریف ہیں آپ نے کیا نہیں کیا؟‘‘
آپ اپنے دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ دنیا میں صرف آپ لوگ ہی بچے ہیں جن کو صحیح دین اور صحیح احادیث کی فکر ہے، اور صرف آپ ہی ہیں جو صحیح احادیث پر عمل کرتے ہیں۔

آئینہ سچ کا دکھایا تو برا مان گئے !
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
  • رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفعِ یدین نہیں ہے:
  • ارشادِ ربانی ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمؤْمِنُونَ الَّذِیْن ہم فِیْ صَلاتِہم خَاشعُوْن(المؤمنون) ترجمہ بلا ریب وہ اہل ایمان کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔
  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے: قَالَ اَلَا اُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِلَّا فِی اَوَّلِ مَرَّۃ۔ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (نے اپنے تلامذہ کو نماز کی عملی تعلیم دیتے ہوئے ) فرمایا کہ کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں۔ پھر آپ نے نماز پڑھی صرف پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ) رفع یدین کی۔ (الترمذی، ج:۱، ص: ۵۳۔ ابو داؤد، ج: ۱ ، ص: ۱۱۶ ، باب من لم یذکر الرفع عندالرکوع ۔ النسائی ، ج: ۱، ص: ۱۶۱ ۔ المحلی ابن حزم الظاھری، ج: ۴ ، ص: ۸۸ ۔ دار قطنی ، بیہقی ، مسند احمد، طحاوی ، مصنف ابن ابی شیبہ، مؤطا امام محمد)

  • امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ھذا حدیث حسن ، (ترمذی، ج: ۱، ص: ۳۵)
  • علامہ ابن حزم ظاھری نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجر شافعی لکھتے ہیں:
  • ’’و ھذ الحدیث حسَّنہ الترمذی و صَحَّحَہٗ ابن حزم‘‘ ترجمہ: اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور علامہ ابن حزم نے صحیح کہا ہے۔ (التلخیص الحبیر علی شرح المھذب ، ج: ۳، ص: ۲۷۴)

کیا رفع الیدین منسوخ ہیں ؟؟؟


سابق دیوبندی عالم سیف اللہ خالد حفظہ اللہ





 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
  • رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفعِ یدین نہیں ہے:
  • ارشادِ ربانی ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمؤْمِنُونَ الَّذِیْن ہم فِیْ صَلاتِہم خَاشعُوْن(المؤمنون) ترجمہ بلا ریب وہ اہل ایمان کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرنے والے ہیں۔
  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث ہے: قَالَ اَلَا اُصَلِّی بِکُمْ صَلَاۃَ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلَّی فَلَمْ یَرْفَعْ یَدَیْہِ اِلَّا فِی اَوَّلِ مَرَّۃ۔ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (نے اپنے تلامذہ کو نماز کی عملی تعلیم دیتے ہوئے ) فرمایا کہ کیا میں تمھیں رسول اللہ ﷺ کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں۔ پھر آپ نے نماز پڑھی صرف پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ) رفع یدین کی۔ (الترمذی، ج:۱، ص: ۵۳۔ ابو داؤد، ج: ۱ ، ص: ۱۱۶ ، باب من لم یذکر الرفع عندالرکوع ۔ النسائی ، ج: ۱، ص: ۱۶۱ ۔ المحلی ابن حزم الظاھری، ج: ۴ ، ص: ۸۸ ۔ دار قطنی ، بیہقی ، مسند احمد، طحاوی ، مصنف ابن ابی شیبہ، مؤطا امام محمد)

  • امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ھذا حدیث حسن ، (ترمذی، ج: ۱، ص: ۳۵)
  • علامہ ابن حزم ظاھری نے اس کو صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجر شافعی لکھتے ہیں:
  • ’’و ھذ الحدیث حسَّنہ الترمذی و صَحَّحَہٗ ابن حزم‘‘ ترجمہ: اس حدیث مبارکہ کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے اور علامہ ابن حزم نے صحیح کہا ہے۔ (التلخیص الحبیر علی شرح المھذب ، ج: ۳، ص: ۲۷۴)

کیا رفع الیدین منسوخ ہیں ؟؟؟



سابق دیوبندی عالم شیخ ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ


لنک



 
Top